Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > پرکھ > ’’اعتبار‘‘ میں عصری شعور اور اٹل سچائیاں

پرکھ |
حسنِ ادب
پرکھ

’’اعتبار‘‘ میں عصری شعور اور اٹل سچائیاں
ARI Id

1688708668008_56116710

Access

Open/Free Access

Pages

۶۳

اعتبار‘‘ میں عصری شعور اور اٹل سچائیاں

اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ اشرف المخلوقات حضرت انسان روز ازل ہی سے کچھ ایسا کرنے کی دْھن میں مصروف عمل ہے کہ وہ لازوال اور غیر فانی بن جائے کہیں یہ خیرو شر کی قوتوں سے نبرد آزما ہے تو کہیں حق کی فتح و نصرت کیلئے کوشاں ہیں۔کہیں یہ ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے تو کہیں نئے نئے سیاروں کی دریافت میں مگن ہے۔کہیں یہ اپنی نت نئی تخلیقی صلاحیتوں کے بل بوتے پر حیران کن جہتوں کو متعارف کروا کر اپنا لوہا منوا رہا ہے۔انہیں جہتوں میں جذبات و احساسات کے اظہار کو خوبصورت ذریعہ الفاظ میں کرنے کو شاعری کہا جاتا ہے۔شاعر اپنے روز مرہ کے مشاہدات کو اشعار کا جامہ پہنچاتا ہے وہ اپنے خیالات کی پختگی اور جذبوں کی روانی کو صفہا قرطاس پر بکھیرنے کی کوشش کرتا ہے۔جیسے ناہید فراموش صاحبہ اپنے مجموعہ کلام ’’اعتبار‘‘ میں کیا ہے۔

’’اعتبار‘‘ ناہید فراموش صاحبہ غزلیات اور نظموں کا پہلا مجموعہ کلام ہے۔اس مضمون میں شاعرہ کی غزلیات میں عصری شعور اور اٹل سچائیوں پر بحث کی جائیگی۔شاعر سماج کا سب سے حساس ترین فرد ہوتا ہے۔معاشرے میں ہونے والے واقعات کا براہ راست سب سے زیادہ اثر اس کی سوچ پر پڑتا ہے۔یہ اثرات اچھے ہیں یا برے ان الفاظ کی مالا میں پرو کر دوسرے افراد کو بتانے کی کوشش کرتا ہے۔دراصل شاعر اپنے اشعار کے ذریعے معاشرے میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔لوگوں کی سوچ تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ناہید صاحبہ نے بھی موجودہ دور کی سماجی، مذہبی،معاشی اور سیاسی صورت حال پر بہت بے باک طریقے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔

موجودہ دور کو نفسا نفسی کا دور کہا جاتا ہے۔ہر طرف خلوص میں کمی،رشتوں میں دوری،عدم اعتمادی،لوگوں کی سوچ میں تبدیلی اور ضمیر فروشی کی باتیں کی جاتی ہیں۔ناہید صاحبہ کہتی ہے کہ آج رشتوں میں پہلے جیسی اپنائیت اور محبت دکھائی نہیں دیتی۔اب لوگوں کے درمیان تعلق رسمی سا رہ گیا ہے۔زیادہ تر تعلق ذاتی مفاد پر بنتے ہیں۔

کہاں ہے رشتوں میں اخلاص کی بات آج کل

اکثر تعلق تو محض نبھانے کے لئے ہیں(ص68)

کیونکہ اپنوں میں بھی غیروں والی روش نظر آتی ہے۔خلوص کی کمی کے باعث ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی غیر بہت مدت کے بعد ملا ہے۔

اپنوں میں بھی غیروں کی سی روش ہے

شاید کوئی دوست ملا ہے بڑے دنوں کے بعد(ص30)

ہوا کے تیز جھونکے کی مانند ملنے والوں کے خلوص پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

جو بھی ملا ایسے ملا کیسے ہوا کا تیز جھونکا

اب کسی کے خلوص کا ہم اعتبار نہیں کرتے(ص619)

لوگ ذاتی مفاد کی خاطر پل بھر میں بدل جاتے ہیں۔

ہے اور ہی میرے جہاں کا انداز

یہاں پل میں لوگ بکتے ہیں(ص172)

اسی وجہ سے معاشرے میں سچائی کی بجائے جھوٹ کا سکہ چلتا ہے۔

سچ کی قیمت معلوم نہیں ہر کسی کو

یہاں اکثر جھوٹ کے سکے چلتیہیں(ص172)

ایسی صورت حال میں انصاف کی صورت حال کچھ ایسی ہی ہوگی۔

جو جانتے نہیں رموز و اوقاف کچھ عدل کے

وہ بھی آج کل زمانے کے قاضی ہونے لگے(ص105)

تمام برائیوں کے بیان کے بعد شاعرہ نے زندگی کی اٹل سچائیوں کو بیان کیا ہے۔زمانہ چاہے جتنا بھی بدل جائے،ہر دور میں اور ہر معاشرے میں ان سچائیوں سے منہ نہیں موڑا جا سکتا۔یہ ایسی باتیں جن سے ہر انسان کو قدم قدم پر سامنا کرنا پڑتا ہے اور کسی صورت بھی وہ ان کو جھٹلا نہیں سکتا۔جیسے اس سچائی سے کوئی باشعور انسان کیونکر انکا ر کرے گا کہ دنیا فانی ہے اور کائنات میں اللہ تعالیٰ کی ذات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔

یہ ڈھلتی عمر کے سایے کہہ رہے ہیں شاید

اب زندگی کی شام ہونے کو ہے

واحد اک ہستی ہے جس کو فنا نہیں ورنہ

باقی تو ہر شے آخر تمام ہونے کو ہے(ص56)

اسی بات کا دوسرا انداز کچھ ایسے ہے:

وہی ایک ہستی ہے جس کا وجود ہے دائمی ورنہ

ہم سب تو آخر ہو جانے کے لیے ہیں(ص68)

ابدیت اسی ذات کو حامل ہے۔دنیا کی ہر شے فانی ہے۔

ابدی تو صرف اس واحد کی ذات ہے فراموش

باقی اس جہاں کا ہر سورج ہی ڈھلتا ہے(ص85)

وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ہر دن کا اختتام رات پر ہوتا ہے۔

ہر دن کو امر ہے رات کا آنا

زمانے کے سورج وقت سے ڈھلنے لگے(ص48)

ہر گزرتے لمحے سے انسان اپنی موت کے قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔

ہم جتنے بھی گم ہوں دنیا کی رنگینیوں میں

ہر گزرتا لمحہ موت کا نظارہ بجائے جا رہا ہے(ص101)

موت اٹل ہے لہٰذا زندگی میں رنجشیں بڑھانے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔

کیوں بڑھائیں رنجشیں کچھ حاصل نہیں

موت ہے اٹل بس کچھ اپنا نام بنا گئے(ص66)

انسان کی بخشش اللہ تعالیٰ کی محبت میں چھپی ہوئی ہے۔

مجھ میں تو کوئی ایسی بات نہیں جو وسیلہ نجات بنے

مگر میرے خدا تیری محبت بہت بڑی ہے(ص127)

دنیا کی یہ بہت بڑی حقیقت ہے کہ انسانیت سے محروم فرد انسان ہو ہی نہیں سکتا۔

شعور سے بالا ہر مرض کی دوا ہیمومن

جو محروم انسانیت ہو وہ انسان ہی کیا ہے؟(ص150)

تنہائی موجودہ دور کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔اکثر تنہا رہ جانے والا شخص پرانی باتوں کو یاد کرتے ہوئے پاگل پن کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔

کیا عجب چیز ہے یہ تنہائی بھی

یادوں کا شور کہیں پاگل نہ کر دے(ص167)

یہ بھی بہت بڑی سچائی ہے کہ انسان فاصلوں کی پیمائش تو کر سکتا ہے۔مگر جب دلوں میں فاصلے بڑھتے ہیں تو انکی پیمائش ناممکن ہو جاتی ہے۔

فاصلے پیمائش کے تو مٹ سکتے ہیں مگر

دلوں کے فاصلوں کو کس نے دیکھا ہے(ص169)

اس مجموعہ کلام میں کئی مقامات پر شاعرہ اپنے موضوع کو خوبصورتی کے ساتھ بیان کرنے سے قاصر نظر آتی ہیں۔شاعری پر انکی گرفت ڈھیلی دکھائی دیتی ہے۔بہت سے اشعار کو بیان کرتے وقت انکا ذخیرہ الفاظ ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔اس وجہ سے کئی غزلیات کی ادبی خوبصورتی متاثر ہوئی ہے اور اس وجہ سے شاعرہ کی کئی غزلیات قاری کے ذہن پر کوئی اچھا تاثر قائم نہ کر سکیں۔اس کے باوجود میں محترم ناہید فراموش کو اس مجموعہ کلام کی اشاعت پر مبارکباد  پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ انکے قلم میں مزید روانی عطا فرمائے۔اْمید ہے آنے والے وقت میں شاعرہ کی طرف سے اچھی شاعری پڑھنے کو ملے گی۔

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...