Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > پرکھ > ادیب انگلش ٹیچر ز کی غزلیات

پرکھ |
حسنِ ادب
پرکھ

ادیب انگلش ٹیچر ز کی غزلیات
ARI Id

1688708668008_56116711

Access

Open/Free Access

Pages

۶۷

ادیب انگلش ٹیچرز کی غزلیات

کتب کو مرتب کرنے کا سلسلہ قدیم زمانے سے چلا آ رہا ہے ایسی کتب کے بے شمار پہلو اور فوائد ہیں۔پہلی بات کہ کسی خاص موضوع پر بہترین تخلیقات پڑھنے کو ملتی ہیں۔دوسری بات بہت سارے تخلیق کاروں کے بارے میں معلومات ایک ہی کتاب میں سے مل جاتی ہیں ،تیسری بات مرتب کنندہ کے مزاج کے بارے میں پتہ چلا جاتا ہے۔چوتھی بات وہ تخیق  کار جن کی تخلیق کا دائرہ زیادہ وسیع نہیں ہوتا۔جس کے باعث وہ اپنے کاتم کو شائع کروانے سے قاصر ہوتے ہیں۔ان کی کاوشوں کو محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ایسی ہی ایک کوشش چوہدری نذیر احمد ارمان نے بھی کی ہے۔آپ نے پنجاب بھر کے انگریزی پڑھانے والے اساتذہ کرام کی تخلیق کردہ غزلیات میں سے انتخاب کرکے ایک کتاب ادیب انگلش ٹیچرز غزلیات مرتب کی ہے۔اس کتاب میں سولہ اساتذہ کرام کی غزلیات کو شامل کیا ہے۔اس کتاب کے شعری محاسن کچھ اس طرح سے ہیں:

ارمان صاحب نے کتاب کا نام جو تجویز کیا ہے۔وہ کسی بھی لحاظ سے ادب کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔پہلی نظر میں کتاب پڑھنے والا کتاب کے نام اور سر ورق کی تصویر دیکھ کر چونک جاتا ہے۔بادی النظر میں تصویر سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کتاب میں پڑھانے کے طریقہ کار کے بارے میں بتایا گیا ہوگا۔

کتاب کا آغاز حسب روایت حمد باری تعالیٰ سے کیا گیا ہے۔اگر دنیا کے تمام درخت قلم اور سمندروں کاپانی سیاہی بن جائے تو اس خدا کی تعریف ختم نہیں ہوگی۔

بن جائیں گر قلم دنیا کے ہر شجر سے

سیاہی بنے سمندر پھر سات اور بحر سے

لکھنے لگیں وہ ہر دم تعریف اس خدا کی

ہو جائے سب ختم تعریف پھر بھی باقی

میرا خدا وہی ہے

میرا خدا وہی ہے(ص16)

نعت نبی پاکﷺ میں اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپﷺ نے گرتے ہوئے لوگوں کو سہارا دیا اور تڑپتی انسانیت کو امن و وفا کا پیغام دیا۔

گرتے ہووؤں کو دیا سہارا

پسے ہووؤں کو گلے لگایا

درود ان پر سلام ان پر

تڑپتی ہوئی انسانیت  کو

پیغام امن و وفا سنایا

درود ان پر سلام ان پر

شاعر معاشرے کا حساس ترین فرد ہوتا ہے۔وہ معاشرے میں رونما ہونے والے واقعات سے کسی طور بھی لا تعلق نہیں رہ سکتا۔معاشرتی برائیوں کو دیکھتا ہے اور ان کے سماج پر پڑنے والے اثرات کو اشعار میں بیان کر دیتا ہے۔اس طرح سے ہمیں شاعر کی سوچ کا علم بھی ہوتا ہے اور افراد کی سوچ کو نکھارنے کا موقع بھی ملتا ہے۔آج کے شعراء کرام نے بہت سی سماجی برائیوں کو اپنے اشعار میں اس انداز سے بیان کیا ہے کہ افراد کو ان میں برائیوں کے خلاف نفرت پیدا ہو اور وہ ان کے خاتمے کے لیے جدوجہد بھی کریں۔آج ہمیں معاشرے میں ہر طرف برائیوں کے باعث اندھیرا چھایا دکھائی دیتا ہے۔کہیں بھی روشنی کی کرن دکھائی نہیں دیتی۔

بہت تیرگی چار سو ہے مگر

نہیں ہے کوئی بھی دیا شہر میں(ص27)

یہ اندھیرا انسانی سوچوں پر اس قدر غالب آ چکا ہے کہ کسی پل سکون نہیں ملتا:

ایسا ڈر لگا ہے اب مجھے اس زندگی کا

دن کانپنے میں اور رات گزرے ہے کپکپی میں(ص71)

اسی ڈر کی وجہ سے انسان جنگل میں آ گیا ہے۔

اسی واسطے آ گیا دشت میں

کہ ساحل کا جی نہ لگا شہر میں(ص27)

اسکی ایک وجہ شہر میں وفا کی قلت بھی ہے۔

چلی ہے اب ایسی ہوا شہر میں

کہ بے گھر ہوئی ہے وفا شہر میں(ص26)

وفا کیا ختم ہوئی انسان نے چند ٹکوں کے عوض ضمیر کا سودا کر لیا۔

اک لقمے پہ ضمیر کا سودا

کس سوچ میں آج کا بشر ہے(ص70)

اور جب ایسی صورت حال ہوگی تو ا?شنائی اک پل میں ختم ہو جائے گی۔

ایک مدت سے آشنا تھے جو

ایک پل میں ہوئے ہیں بیگانے(ص74)

آشنائی کیا ختم ہوئی رشتوں کا تقدس ہی جاتا رہا۔

رشتوں میں الجھا ہوا یہ بازباں انسان

اپنے ہی رشتوں سے بے زباں کیا جا رہا ہے(ص67)

جب رشتوں میں اعتماد کی کمی ہوئی تو آندھی کے ایک جھونکے نے ہی انسان کو گرا دیا۔

پیار کی دیواروں میں شائستہ اعتماد کی کوئی اینٹ نہ تھی

آندھی کے اک جھونکے سے سارا مکاں لا مکاں ہوا(ص30)

رشتوں کے خاتمے میں انسانی خواہشات کا بڑا ہاتھ ہے انسان اپنی سوچ سے رشتوں کو ختم کر رہا ہے مگر نام موت کا بدنام کر رہا ہے۔

خواہشوں کے سمندر میں ڈوب گیا ہے انساں

موت کو تو ایسے ہی بدنام کیا جا رہا ہے(ص67)

ایسے میں انسانی عزم بھی ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

وہ جو چٹانوں کا سا عزم رکھتے تھے

تقدیر کی چٹان سے الجھے تو الجھا نہ گیا(ص29)

اور پھر انسان گروہوں میں اس قدر تقسیم ہوا کہ منزل ایک ہونے کے باوجود راستہ اپنا اپنا اپنائے ہوئے ہے۔

سب کی منزل ایک ہے لیکن

اپنا اپنا رستہ ہے(ص40)

ایسے میں انسان اگر اپنی ذات تک محدود ہو جائے تو حیرانی والی بات نہیں۔

ہر کوئی سہم کے بیٹھا اپنے بند کمرے میں

جب کہ ظلم کو ظلم سے ہی سیا جا رہا ہے

بعض اشعار میں عالم گیر سچائیوں کو بیان کیا گیا ہے۔ایسے اٹل حقائق جن کی اہمیت ہر زمانے میں مسلم ہوتی ہیاور کوئی بھی ذی شعور شخص ان سے چشم پوشی نہیں کر سکتا۔جیسے یہ دنیا ایک راہ گزر ہے اور انسان یہاں پر مسافر ہیاور اس کا جیون صرف دو پل کا ہے۔

یہ دنیا اک راہ گزر ہے

ہر کوئی یہاں مسافرہے

پل دو پل کا بس جینا ہے

پل دو پل کی نہ خبر ہے(ص69)

وہی شاخ جھکتی ہے جس کو پھل لگا ہو۔

جھکی رہتی ہے وہ شاخ

جو گود میں رکھتی ہے ثمر ہے(ص69)

یہاں کی خوشیاں اور غم انسان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔

یہاں کا رونا اور ہنسنا بھی

یہ اپنے اپنے عمل کا اثر ہے(ص69)

جب کوئی کسی مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو اپنے بھی اسی وقت ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔

افتاد پڑی پہ ساتھ نہ دیں

ایسے لاکھ سہارے دیکھے(ص41)

اس کتاب میں کئی جگہ ایسے اشعار پڑھنے کو ملتے ہیں۔جن میں نصیحت کا رنگ نمایاں ہے۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شعرا ء کرام درد دل رکھنے والے اور لوگوں کو زندگی میں اچھی باتیں بتانے والے ہیں تاکہ ان کی زندگی میں سکون رہے کہا جاتا ہے کہ انسان اس دنیا کی رنگنیواں میں کھو کر دنیا میں آنے کا اپنا مقصد بھول جاتا ہے۔ایسے انسان کو یوں کہا گیا ہے۔

سنبھل سنبھل کے چل ساحل

دنیا دلدل دنیا ہی بھنور ہے(ص70)

انسان کوئی نیک کام نہ بھی کرے اگر اللہ کے نام کی تسبیح کرتا ہے تو غالب امکان ہے کہ اللہ اس انسان کی بخشش کر دے گا۔

پڑھتا ہوں جو تسبیح تیرے نام کی ہر روز

بخشش کیلئے میری یہی کام بہت ہے(ص62)

انسان کو ہر حال میں سچ بولنے کی تلقین اس انداز میں کی گئی ہے:

تخت ہو یا سولی ہو

سچائی بیان میں رکھنا(ص37)

کتاب میں جا بجا رومانوی انداز پڑھنے کو ملتا ہے اس انداز کا نمایاں پہلو محبوب کی سراپانگاری ہے۔محبوب کے رخ کی تعریف اس زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے۔

رخ سے آج ہٹا کر آنچل

پاگل کو تو پاگل کر دے(ص33)

محبوب کے وصل کے بغیر عاشق اپنے آپ کو نا مکمل خیال کرتا ہے۔اگر یہ بات نہ ہوتی تو محبوب سے کبھی یہ نہ کہا جاتا۔

لے کر باہوں میں تو مجھ کو

میری جان! مکمل کر دے(ص33)

محبوب کی آنکھوں کی تعریف کا یہ انداز پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے:

اک میں ہی نہیں مرتا تیری آنکھوں پہ مری جاں

چرچا تیری آنکھوں کا سر عام بہت ہے(ص63)

اگرچہ ایسے محبوب کو پانا خوش قسمت لوگوں کا مقدر ہوتا ہے مگر زیادہ ریاضت سے بھی اس کا حصول ممکن ہے۔

پا لیتا ارمان تو اس کو

گر پانے کی ریاضت کرتا(ص34)

ایسے محبوب کو پانے کے لیے کئی بار مجنوں بن کر صحرا صحرا گھومنا پڑتا ہے۔اس لیے کہ دل کا سکون محبوب کی خوبصورت آنکھیں لوٹ کے لے گئی ہیں۔

بن کے مجنوں یوں صحرا صحرا گھوما ہوں

شاید کہ مل جائیں کہیں وہ جناب سی آنکھیں

لوٹ لے گئی ہیں وہ سکون دل یارو!

بے چین سی کر گئی ہیں وہ بے تا ب سی آنکھیں(ص54)

اسکی تلاش اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر جینا دشوار ہے کیونکہ اسے ہر دعا میں اللہ سے مانگا گیا ہے۔

کیسے میں اس کے بنا جینے کا تصور کر لوں

میری ہر آہ کا ثمر ہے وہ وہی میری بینائی (ص57)

عاشق تواس کے لئے دربدر بھٹک رہا ہے مگر محبوب کو اس کی خبر نہیں ہے۔

بھٹک رہا ہوں دربدر

مگر تمھیں خبر نہیں(ص78)

بے شمار خوبیوں کے حامل کلام میں بات کرتے ہیں مقامی رومانوی داستانوں کے بیان کی۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے شعراء کرام کو اپنی دھرتی سے کس قدر پیار ہے۔

ہیر کی بستی سے رانجھے کو ڈھونڈیں گے

یہ کیا سوچ کے یارو آئے پاگل سارے(ص35)

شعراء کرام کے ہاں الفاظ کا وسیع ذخیرہ دیکھائی دیتا ہے اور ان کے مناسب جگہوں پر استعمال کا فن بھی خوب آتا ہے۔خاص کر ایک لفظ کو ایک شعر میں کئی بار استعمال کرکے شاعری پر اپنی فنی پختگی کا ثبوت دیا ہے کچھ مثالیں اس طرح ہیں:

مان کسی پر مان نہ کر

چارہ گر بے چارے دیکھے(ص41)

 

منسوب مجھے کرتے ہیں یہ لوگ بھی تجھ سے

ہے نام میرا تیرے نام سے یہ نام بہت ہے(ص62)

 

جو شام سنائی تیرے نام کی میں نے

شمشاد تیرے نام کی وہ اک شام بہت ہے(ص63)

اس کتاب میں کئی غزلیات ایسی ہیں جن کو پڑھتے ہوئے ذہن میں خود بخود سنگیت کی مدھر تان بجنا شروع ہو جاتی ہے اور پھر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے موسیقی کو سامنے رکھ کرغزل کہی گئی ہو۔مثال کے طور پر:

اک میں ہی نہیں مرتا تیری آنکھوں پہ میری جاں

چرچا تیری آنکھوں کا سرعام بہت ہے(ص63)

ان غزلوں میں خوبصورت الفاظ اور تراکیب پڑھنے والے کی توجہ اپنی طرف کھینچتی ہے،مثال خدمت میں حاضر ہے:

بیٹھے ہیں اس آس پہ یادوں کا کٹورا لے کر

تیری خوشبو محسوس کرنے کو جی چاہتا ہے(ص59)

آخر میں یہ بات کہنے میں حق بجانب ہوں کہ تمام غزلوں کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کے کیا گیا ہے جس کی وجہ سے قاری کی دلچسپی پہلی غزل سے آخری غزل تک برقرار رہتی ہے۔میں اس کی اشاعت پر تمام شعراء کرام کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...