Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > پرکھ > ’’نہیں کوئی مثال اس کی‘‘ پر ایک طائرانہ نظر

پرکھ |
حسنِ ادب
پرکھ

’’نہیں کوئی مثال اس کی‘‘ پر ایک طائرانہ نظر
ARI Id

1688708668008_56116712

Access

Open/Free Access

Pages

۷۳

نہیں کوئی مثال اس کی‘‘ پر ایک طائرانہ نظر

جب فیصل آباد میں شعر و سخن کا تذکرہ کیا جائے گا۔تو اس میں ایک نیا نام اے۔آر نازش کا ذکر بھی آئے گا۔کیونکہ اس ابھرتے ہوئے شاعر نے اپنی شعری تخلیقات سے اہل علم ودانش میں خود کو بڑی جلدی متعارف کروایا اور اپنی الگ پہچان بنائی ہے۔جہاں تک انکی شاعری کے مو ضوعات کا تعلق ہے تو انہوں نے انسانی جذبات و احساسات کا اظہار منظوم پرانے انداز میں کیا ہے۔معاشرتی برائیوں کا بیان عشق و جدائی کی بات سراپا نگاری،آج کے معاشرے کے مسائل کا بیان اورازلی و ابدی سچائیوں کا ذکر ان کے ہاں عام ملتا ہے۔اس کام کیلئے انہوں نے کوخوبصورت اور سادہ الفاظ کا چناؤ کیا اور ان کو اشعار کے قالب میں اس طرح ڈھال لیا ہے کہ اشعار کے مفہوم میں گہرائی پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ دلکشی پیدا ہوئی ہے جس کی وجہ سے قاری توجہ سے آپ کے اشعار پڑھنے پر مجبور ہے۔آپ نے اپنے خیالات کو اپنے مجموعہ کلام ’’نہیں کوئی مثال اس کی‘‘ میں بیان کیا ہے۔اس مجموعہ کلام کا مختصر جائزہ کچھ اس طرح ہے۔

ادب کی تاریخ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہر شاعر نے اپنی شاعری کا آغاز حمد باری تعالیٰ سے کیا ہے۔مسلمان ہونے کے ناطے اس سے اسکا کرم طلب کرنا ہمارے لیے ضروری ہے۔تاکہ کام با آسانی پایہ تکمیل تک پہنچ سکے۔کہتے ہیں اے میرے خالق ارض و سماء جن و بشر،ندیاں و ساگر،جنگل و صحرا کا تو مالک ہے۔

اے خالق ارض و سماء سب کچھ تیرا

جن و بشر آب و ہوا سب کچھ تیرا

ندیاں و ساگر تیرا دریا تیرے

جنگل تیرے صحرا تیرا سب کچھ تیرا(ص16)

نبی کریمﷺ سے آپ والہانہ محبت کرتے ہیں ،کہتے ہیں کہ میرے ہونٹوں پر آپﷺکی تعریف جاری رہے گی اور جس شخص کو آپ کے در کی غلامی مل جائے اس شخص پر اللہ کی رحمت بھی جاری و ساری رہے گی۔

ہونٹوں پہ مرے آپؐ کی مدحت ہی رہے گی

سرکارؐ دو عالم سے محبت ہے رہے گی

جس کو بھی میسر ہے پیغمبرؐ کی غلامی

اس شخص پہ اللہ کی رحمت ہی رہے گی(ص18)

کہا جاتا ہے کہ باپ کی ناراضگی اللہ کی ناراضگی ہے۔اللہ اس وقت راضی ہوتا ہے۔جب کسی شخص سے اسکا باپ راضی ہوتا ہے۔جب تک سر پر باپ کا سایہ ہو کڑی دھوپ بھی آپکا کچھ نہیں کر سکتی۔

ہو گیا رحمان راضی اس گھڑی میں دفعتاً

جب مسرت سے ہے چہرہ کھلکھلایا باپ کا

دھوپ تھی نازش کڑی لیکن نہ چھبتی تھی مجھے

میرے سر پر جب تلک قائم تھا سایہ باپ کا(ص21)

باپ کی ڈانٹ میں بچے کی اصلاح کا عمل پوشیدہ ہوتا ہے۔دنیا میں باپ سے بڑھ کر کوئی ہمدرد اور رہبر نہیں ہے۔

سچ جانیے تو ڈانٹ میں حکمت ہے یقیناً

دنیا میں کوئی باپ سا رہبر نہ ملے گا(ص30)

نازش کے ہاں جا بجا ازلی و اابدی سچائیوں کا اظہار ملتا ہے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ انسانی اصلاح چاہتے ہیں کیونکہ ان باتوں کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ انسان اپنی اصلاح کریتاکہ معاشرے میں ترقی کرے،کہتے ہیں کہ زندگی میں بہتری لانے کیلئے ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر کوئی شخص ہمت نہیں کرے گا تو اسے اسکے خوابوں کی تعبیر بھی نہ ملے گی۔

کیسے پائے گا خواب کی تعبیر

جس کی ہمت جواں نہیں ہوگی(ص36)

اگر امانت میں خیانت کی جائے تو اعتبار ختم ہو جاتا ہے اور اگر معاشرے سے حیاء ختم ہو جائے تو لوگوں کا ایمان جاتا رہتا ہے۔

رہی اگر خیانت، امانت میں جاری

نظر میں کوئی بھی امیں نہ رہے گا

حیاء اٹھی گئی جس پہ خائف ہے نازش

کہ عالم میں ایمان و دیں نہ رہے گا(ص90)

انسان کو ہوس کا دامن چھوڑنا ہوگا۔کیونکہ اگر نہیں چھوڑے گاتو اسے کبھی بھی دل کا قرار حاصل نہ ہوگا۔

دامن چھوڑ ہوس کا ورنہ

دل کا دامن میلا ہوگا(ص100)

وقت بے لگام گھوڑا ہے۔کبھی رکتا نہیں۔یہ بات مرشد نے بتائی اور نازش نے اس کو مان لیا۔

وقت اک بے لگام گھوڑا ہے

بات مرشد نے یہ بتائی ہے(ص115)

نازش کا عصری شعور بہت گہرا ہے موجودہ حالات میں جن مسائل کا سامنا انسانوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔ان کا گہرا علم رکھتے ہیں اور ان مسائل کو اشعار کی صورت میں بیان کرنے کی طاقت رکھتے ہیں،کہتے ہیں کہ آج کے دور میں میرے دیس میں نفرتیں عروج پر ہیں،الفت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔اس وجہ سے سارے لوگ بے سکونی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

بس گئیں نفرتیں پیار کے دیس میں

الفتوں کے کہیں سلسلے نہ رہے

چھن گیا کیوں سکوں اب ہر اک شخص کا

اب کسی ہونٹ پر قہقہے نہ رہے(ص76)

ایسی حالت میں کسی پر بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہر کوئی لٹیرے کا روپ دھارے ہوئے ہے۔

کس پہ نازش ہم اعتماد کریں

شہر میں ہر کوئی لٹیرا ہے(ص82)

نازش کی شاعری میں رومانوی عنصر بھی نمایا دکھائی دیتا ہے۔اسکا ثبوت انکا محبوب کی تعریف میں رطب اللسان ہونا ہے،کہتے ہیں کہ میرے محبوب کی خوبصورتی سے جہاں روشن ہوتا ہے۔لہٰذا اس پیکر حسن کی بات کرنی چاہیے۔

جن کے دم سے جہاں ہوا روشن

ان کے حسن نظر کی بات کرو(ص57)

اس پری چہرے کے حسن کا کیا کہنا اسے جو بھی دیکھے وہ اسکا شیدائی ہو جاتا ہے۔

کیا ہی پر کیف ترا جلوہ زیبائی ہے

جس کو دیکھا وہ ترے حسن کا شیدائی ہے(ص61)

میں بھی اس پر اسی لیے مرتا ہوں۔

یونہی مرتا نہیں ہوں میں اس پر

وہ حسیں بے حساب ہے مرشد(ص118)

اس کے مسکرانے سے میری زندگی میں بہار آ جاتی ہے۔اس کی مسکراہٹ کی دنیا میں کوئی مثال نہیں۔

میری ہستی نکھر آئی اسی رعنا کے رنگوں سے

تبسم جس کی عادت ہے نہیں کوئی مثال اسکی(ص87)

جب اس قدر تعریف ہوگی تو عشق کا اظہار بھی ہوگا،کہتے ہیں کہ ان کو جس سے محبت ہے اسکی خوبصورتی کی کوئی مثال نہیں اور میرے سینے میں دھڑکنے والا دل اسکی امانت ہے۔

مجھے جس سے محبت ہے نہیں کوئی مثال اسکی

بہت ہی خوبصورت ہے نہیں ہے کوئی مثال اسکی

دھڑکتا ہے جو سینے میں کسی کو دوں نہیں ممکن

یہ دل اسکی امانت ہے نہیں کوئی مثال اسکی(ص87)

عقل اور عشق میں جنگ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی عقل کی رسائی اس جگہ بالکل نہیں ہو سکتی۔جہاں عشق پہنچ گیا ہو۔

عقل پہنچی نہیں نہ پہنچے گی

عشق کی جس جگہ رسائی ہے(ص116)

عشق نے تو نازش کو پوری طرح سے قابو کر لیا اور پھر جیسے ہی محبوب نے چھوڑا۔ان کو ایسے محسوس ہوا جیسے جسم سے روح پرواز کر رہی ہو۔

پھر یوں ہوا کہ میں سانسوں سے ہاتھ دھو بیٹھا

کسی کے چھوڑ کے جانے کی دیر تھی لوگو(ص32)

پھر عام لوگوں کو سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں۔

ہجر بخیئے ادھیڑ دیتا ہے

پیار نہ کیجئے دہائی ہے(ص116)

اے۔آر نازش کی موجودہ شاعری کو سامنے رکھتے ہوئے میں یہ بات آسانی سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ اس سے کہیں بہتر شاعر ہیں جو ہمیں اس کتاب میں نظر آتے ہیں۔یہ مرحلہ سر ہونے کے بعد مجھے یقین ہے کہ ان کو اپنی کمی کوتاہیوں کا بھرپور علم ہو گیا ہوگا اور میں توقع رکھتا ہوں کہ آئندہ شاعری کے سفر میں ان کا رویہ بہت محتاط اور اظہار خیال بہتر ہوگا۔کیونکہ مجھے ان کی صلاحیتوں پر مان ہیاور میں جانتا ہوں کہ وہ اظہار کے اس سے اچھے کئی طریقوں سے واقف ہیں جسے وہ اپنے آئندہ شعری سفر میں اپنے لیے کار آمد بنائیں گے۔اے۔آر نازش کیلئے بہت ساری نیک خواہشات اور دعائیں۔

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...