Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > پرکھ > باتیں ’’خواب، خوشبو،آئینے‘‘ کی

پرکھ |
حسنِ ادب
پرکھ

باتیں ’’خواب، خوشبو،آئینے‘‘ کی
ARI Id

1688708668008_56116713

Access

Open/Free Access

Pages

۷۷

باتیں ’’خواب، خوشبو،آئینے‘‘ کی

سماج میں خیالات و جذبات کے اظہار کیلئے بہت سے ذرائع موجود ہیں مگر کئی ذرائع ایسے ہیں جن میں ابلاغ زیادہ موثر نہیں ہے۔جیسا کہ سنگ تراشی اور تصویر کشی ہیں۔کیونکہ ان دونوں ذرائع میں فنکار اور دیکھنے والے کے نقطہ نظر میں بہت زیادہ اختلاف رائے کی گنجائش ہوتی ہے۔ہر کوئی فنکار کی سوچ تک رسائی نہیں رکھتااس لیے سماج میں ان ذرائع کو کم ہی استعمال میں لایا جاتا ہے۔البتہ شاعری ایسا موثر ذریعہ ہے جس میں شاعر اپنا نقطہ نظر بہت کم الفاظ اور وقت میں دوسروں تک پہنچا سکتا ہے اس لیے ہمیں سماج میں چہار سو شاعری کا راج نظر آتا ہے۔اسی ذریعہ سے محترمہ عظمت فردوس اسوہ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور اپنے خیالات کو ’’خواب خوشبو آئینے‘‘ کا نام دے کر ادب کو امیر بنانے کی کوشش کی ہے۔

اس مجموعہ کلام میں ایک نعت ،مدح مرشد،مدح غالب و جالب،ایک نظم ’’ماں‘‘ قطعات،فردیات اور غزلیات پڑھنے والے کی دلچسپی کا باعث ہیں۔محترمہ اسوہ نے اپنے کلام میں جن موضوعات پر قلم چلائی ہے۔اسکا مختصر جائزہ کچھ اس طرح سے ہے۔

شاعرہ نے شاعری کی روایت سے انحراف کرتے ہوئے اس مجموعہ کلام کو اپنے مرشد کی مدح بیان کرکے شروع کیا ہے۔مگر انہوں نیمدحیہ اشعار پر کوئی موضوع نہیں لکھا۔لکھتی ہیں کہ میرے مرشد نے مجھے سیدھے رستے سے روشناس کیا اور آج میں جو کچھ بھی ہوں اپنے مرشد کی نظر کرم کی بدولت ہوں۔

مجھ کو مرشد نے حق شناس کیا

سیدھے رستے سے روشناس کیا

ان کی نظر کرم ہے بس اسوہؔ

مجھ سی بندی کو اتنا خاص کیا(ص11)

حضور پاکﷺکی ذات اقدس سے آپ کو والہانہ محبت ہے ،کہتی ہیں کہ آپﷺکے در سے کبھی کوئی خالی ہاتھ نہیں لوٹا اور میری معاشرے میں عزت کا کارن بھی آپﷺکی ذات سے محبت ہے۔

جو سرورؐ کے در کی سوالی ہوئی

وہ جھولی نہ رحمت سے خالی ہوئی

انہیؐ کی محبت کا فیضان ہے

مری ذات کمتر بھی عالی ہوئی(ص12)

جب میں نے اس در پر کوئی التجا کی تو میرے غم خوار مجھ سے دور ہو گئے۔

ترے در پہ کی التجا جس گھڑی

ہر ایک غم سے میری بحالی ہوئی(ص12)

آپ کی شاعری میں سماجی اصلاح کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ایسے معلوم ہوتا ہے کہ حساس طبیعت کی مالک شاعرہ کا اصل مقصد شاعری برائے شاعری نہیں بلکہ اصلاح معاشرہ بذریعہ شاعری ہے۔لکھتی ہیں کہ اسی شخص کو منزل ملتی ہے جو سیدھی رہ پر چلتا ہے۔

اسی کو منزل ملتی ہے

سیدھی رہ جو چلتا ہے(ص34)

ہمیشہ محبت سے بات کرنا چاہیئے نفرت میں کچھ نہیں رکھا۔

بات محبت کی کرنا

نفرت میں کیا رکھا ہے(ص34)

اسی لیے شاعرہ خود محبت کی بات کرتی ہیں ،نفرت ان کو کسی سے نہیں۔

فقط میرا مسلک محبت رہا

کسی سے بھلا کیسے نفرت کروں(ص19)

لہٰذا ایسے کام کر جاؤ کہ مرنے کے بعد بھی لوگ اچھے الفاظ میں یاد کریں۔

یہ دنیا تم کو یاد کرے

یوں بیج وفا کے بو جاؤ(ص79)

ایک اور جگہ بڑے گْر کی بات بتائی کہ اگر انسان کی نیت میں کھوٹ نہ ہو تو اسکی تقدیر جلد بدل جاتی ہے۔

نیت میں جو اسوہؔ نہ اگر کھوٹ کبھی ہو

انسان کی تقدیر بدل جاتی ہے پل میں(ص111)

شاعرہ نے اپنے کلام میں بہت ساری سچائیوں کو بے نقاب کیا ہے۔جیسے کہا کہ یہ دنیا فانی ہے۔

جب دنیا کو دیکھا اسوہؔ

ساری دنیا فانی لکھ دی(ص78)

ماں کا نافرمان کبھی کامیاب نہیں ہوا۔

کب ہوا کامران

جس نے ماں کی نہ مانی(ص92)

احساس موت سے عاری انسان اکیلا رہ جاتا ہے۔

احساس مروت سے ہو جائے جو عاری پھر

اس شخص کو دنیا میں کوئی اپنا نہیں ملتا(ص15)

مفلس پر کبھی جوانی نہیں آتی۔کیونکہ اسکی پوری زندگی پیٹ بھرنے کیلئے کمانے میں گزر جاتی ہے۔

کس نے دیکھی یہاں

مفلسوں کی جوانی(ص92)

جس پر اللہ تعالیٰ نظر کرم کر دیں وہ خوش قسمت ترین انسان ہے۔

ہوئی جس پہ تیرے کرم کی نظروہ

نظر میں میری وہ سکندر ہے خالق(ص102)

ماں کے انمول پیار کے بارے میں ہر ادب اور ہر دور میں کچھ نہ کچھ ضرور لکھا گیا ہے۔شاعرہ کہتی ہیں کہ ماں بہشت کی مانند ہے اس کو دیکھنا حج ہے اور جس نے اسکی عزت کی اس نے دنیا میں اونچا مقام حاصل کیا۔

تیری تخلیق ، کائنات کا محور

بہشت سے بڑھ کے ہے تیرا پیکر

ہو زیارت تیری تو حج ہو جائے

تو ہے کعبہ مثال سا پیکر

تیری تعظیم جس نے بھی کر لی

ہو گیا وہ اس جہاں کا رہبر(ص96)

شاعرہ کی تخلیق کردہ غزلوں پر غور کیا جائے تو اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کہ آپ حالات حاضرہ سے باخبر ہیں۔ملک میں سیاسی افراتفری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی امن وامان کی صورت حال ہو یا انصاف کی۔آپ نے بے باک لہجے میں ان واقعات کو اشعار کا جامہ پہنایا ہے۔اس کے علاوہ موجودہ دور میں انسانی اخلاقیات کی تباہی کی طرف بھی اشارہ کئے ہیں۔اس سے آپ کے عصری اور سماجی شعور کا پتہ چلتا ہے۔لکھتی ہیں کہ زندگی کا سفر طے کرتے ہوئے بہت سے مناظر آنکھوں کے سامنے سے گزرے۔اگر موجودہ دور کی بات کی جائے تو حالات کے ہاتھوں ہر شخص کو میں نے پریشان دیکھا۔

عجب زندگی کا سفر دیکھتے ہیں

پریشاں پریشاں بشر دیکھتے ہیں(ص24)

پریشان کیوں نہ ہو جب زمانے سے اخلاص ختم ہو جائے اور اس کی جگہ ہر طرف نفرتوں کا راج ہو۔

جنس اخلاص ہو گی ناپید

ہر طرف نفرتوں کا شر دیکھا(ص43)

ایسی صورت حال میں لوگ سچ کیوں کر بولیں۔

لوگ پھر کیسے سچی بات کریں

سچ کو جب سب نے دار پہ دیکھا(ص43)

انسان مارے خوف کے اپنی ذات تک محدود ہو کے رہ گیا ہے۔

عجب زمانے نے رنگ بدلا ہے

کہ سب مقید ہوئے گھروں میں(ص39)

جب خوف چہروں پر طاری ہوگا تو لالی کہاں سے آئے گی

جدت کا یہ درد نرالا ہے اسوہؔ

چہروں کے رنگ پیلے ہیں شاداب نہیں(ص75)

اور ایسی صورت حال میں کوئی کسی پر بھروسہ نہیں کرے گا۔

آج کیوں اسوہؔ یہاں

معتبر آدمی نہیں(ص95)

اس وجہ سے آج کے انسان نے دولت کی خاطر خدا تک کو بھلا دیا۔

بک جاتے ہیں لوگ ہوس کی منڈی میں

زر کی خاطر لوگ خدا کو بھول گئے(ص31)

عشق غزل میں بیان ہونے والا سب سے بڑا موضوع ہے۔کہا جاتا ہے کہ صنف غزل مخصوص ہی محبت کے جذبات بیان کرنے کیلئے وجود میں آئی ہے۔اسوہؔصاحبہ نے بڑٰی مہارت سے اس موضوع کو اپنی غزلوں میں بیان کیا ہے۔لکھتی ہیں کہ جب کوئی عشق میں گرفتار ہوتا ہے تو اسے اپنی تباہی کا احساس تک نہیں ہوتا۔

اے عشق تیری ذات سے وابستہ جب ہوئے

کس کو پتہ کہ کیسے جلے ہیں کہاں جلے(ص73)

عاشق کی جان محبوب کے وصل میں ہوتی ہے ادھر محبوب نے نگاہیں بدلیں ادھر عاشق کے دل کا موسم بدل گیا۔

بدل جاتا ہے ہر موسم

وہ جب نظریں بدلتا ہے(ص106)

اسی لیے مشورہ دیتی ہیں۔

کسی سے اسوہؔ نہ عشق کرنا

نہ دل کو وقف ملال کرنا(ص99)

حالانکہ محبوب روح کی تسکین کا باعث ہوتا ہے۔

روح کی تسکین کا

ہے سب دیدار کا(ص95)

کیوں نہ ہو جب پھول چہرہ محبوب کی خوبصورتی کے سامنے پھولوں کی رنگت پھیکی پڑ جائے۔

پھول پھیکے پڑگئے

دیکھ کر رخسار کیا(ص95)

مگر اس قدر چاہت کے باوجود زندگی میں غم ہی غم ہیں۔

یار کے فراق میں

زیست وقف غم ہوئی(ص21)

جب ا س کی یاد آتی ہے دل خون کے آنسو روتا ہے۔

تمھاری یاد کے لمحے بے حد رلاتے ہیں

مجھے تم دے گئے آنسو عجب تھے حوصلے تیرے(ص77)

اختتام مضمون آپ کی اس دعا پر:اے میرے مولا غم و الم کو ختم کرکے دل کے سارے غم بھر دے۔

مری دعا ہے کہ اب تو ٹوٹے

غم والم کی صلیب مولا

تو دل کے سارے ہی زخم بھر دے

کمال کا ہے طبیب مولا(ص91)

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...