Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > پرکھ > راکی ولسن کا’’مینار محبت‘‘

پرکھ |
حسنِ ادب
پرکھ

راکی ولسن کا’’مینار محبت‘‘
ARI Id

1688708668008_56116714

Access

Open/Free Access

Pages

۸۳

راکی ولسن کا’’مینار محبت‘‘

کائنات میں اشرف المخلوقات ہونے کا شرف صرف انسان کو حاصل ہے تمام مخلوقات میں انسان سب سے زیادہ با اختیار بھی ہے۔احساسات و جذبات بھی سب سے زیادہ انسان ہی رکھتا ہے۔اسی لیے وہ ازل سے اپنے خیالات کا اظہار کرتا آیا ہے۔کبھی آرٹ ،تصاویر،لوک داستانیں اور کبھی شعر وادب کی صورت زبان کا اظہار بہترین ذریعہ ہے۔لفظوں کو ایک خاص انداز میں اپنے خیالات کے اظہار لے لیے استعمال کرنا شاعری ہے۔راکی ولسن نے بھی اپنے خیالات کے اظہار کے لیے خوبصورت الفاظ کا استعمال کیا ہے۔اس لیے اسکی شاعری و خود جذبات کے تحت وجود میں آتی ہے۔

راکی نے رشتو ں ناتوں میں بٹے ہوئے انسان کو اس کی خوشیوں،غموں،امنگوں، آرزوؤں،اْمیدوں،نا امیدوں،رویوں اور ولولوں کو اپنا موضوع بنایا ہے۔اسکی بے ساختہ شاعری فطرت انسانی کی عکاس ہے،وہ موضوعاتی شاعری پر بھی طبع آزمائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔انکی شاعری میں متاثر کرنے کی زبردست صلاحیت موجود ہے۔یہ صلاحیت صدق دل اور خلوص نیت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔یہ خلوص نیت ان کے مجموعہ کلام ’’مینار محبت‘‘ میں محبت بانٹتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔آپ کے اس مجموعہ کلام اجمالی جائزہ کچھ اس طرح سے ہے۔

اگرچہ شاعر نے شاعری کی روایت سے ہٹ کر اس کتا کو شروع کیا ہے۔مگر اس کے باوجود وہ اپنے پروردگار کو بھولے نہیں۔کہتے ہیں کہ ہر شے میں اس ذات باری تعالیٰ کا جلوہ موجود ہے اسی لیے تو کائنات کی ہر شے اس کی خوبصورتی کو دیکھنا چاہتی ہے،آج راکی صاحب جو کچھ بھی ہیں وہ سب اس ذات کی کرم نوازی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے:

حسن فطرت کے مظہر ہے تیری شان وجیہہ

تیری دید کی طالب ہر آنکھ شیدائی ہے

ان عنایت کے کہاں تھے قابل ولسن

کرم تو نے کیا تیری ذرہ نوائی ہے(ص103)

’’ماں‘‘ ادب میں ایک ایسا موضوع ہے جس پر دنیا بھر کی زبانوں کے تخلیق کردہ ادب میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔اولاد کیلئے ماں کی دعا کو ایسے بیان کرتے ہیں:

ہر گام پہ ہو کامرانی

تجھ کو ملے بس شادمانی

میری دعا ہے لعل میرے

لہجے میں تیرے ہو روانی

تجھ کو بلا سے دور رکھے

چھو نہ سکے تجھ کو ناگہانی(ص29)

دنیا کے ہر معاشرے میں کچھ اٹل سچائیاں ایسی ہیں جن کو کوئی بھی معاشرے میں کبھی بھی جھٹلا سکتا ہے۔ان سچائیوں کو ہر معاشرے نے نا صرف اپنایا ہے بلکہ ان کو اگلی نسل تک منتقل کرنے کا بندوبست بھی کیا ہے۔جیسے انسان تو خاک کا پتلا اور کائنات میں اس عظیم رب کی سب سے اعلیٰ اور انمول نشانی ہے۔

ہے ولسن خاک کا پتلا

خداوند کی نشانی ہے(ص35)

ایسے ہی جو شخص ایماندار ہوگا وہ کسی بھی قسم کی لالچ میں آکر ضمیر فروشی نہیں کرے گا۔

چند سکوں کی خاطر بکتا

ولسن بے ایمان نہ تھا(ص46)

کہا جاتا ہے کہ انسان کو منہ سے الفاظ بہت سوچ سمجھ کر نکالنا چاہیئے کیونکہ کمان سے نکلا ہوا تیر اور منہ سے نکلے ہوئے لفظ کبھی واپس نہیں آتے۔یہ الفاظ ہی ہیں جو آپکی سوچ اور کردار کا تعین کرتے ہیں۔

لفظ آتے نہیں کبھی واپس

جو بھی جس کی زبان سے نکلے(ص50)

اپنے پڑھنے والوں کو ولسن بہت خوبصورت انداز میں رزق حلال کمانے کی ترغیب دیتے ہیں۔کہ اس کی بدولت انسان دربدر کی ٹھکروں سے بچ جاتا ہے۔

دربدر ٹھوکروں سے بہتر ہے

رزق اپنا حلال رکھنا تم(ص47)

شاعر معاشرے کا حساس فرد ہوتا ہے۔معاشرے میں رونما ہونے والے واقعات کو الفاظ میں بیان کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔راکی ولسن کی یہ خوبی ہے کہ وہ بے باک لہجے میں موجودہ دور کی سماجی،معاشی،سیاسی اور مذہبی برائیوں کو بے نقاب کرتا ہے۔جیسے وہ کہتے ہیں کہ آج اخلاقی گراوٹ کا کہ حال ہے کہ صدیوں سے قائم بھرم ٹوٹ چکے ہیں۔

جو صدیوں سے ہی قائم تھے

وہی ٹوٹے ہم نے بھرم دیکھے(ص34)

اپنے خدا سے دور ہو کر لوگ تباہ و برباد ہو تے جا رہے ہیں۔

لوگ رب کو بھول کر اپنے جہاں میں

نیست و نابود ہوتے جا رہے ہیں(ص107)

معاشی مسئلہ اس قدر الجھ گیا ہے کہ انسان کو روزی روٹی کے علاوہ کسی چیز کی فکر نہیں۔

کچھ اس طرح سے الجھا ہے کاروان زندگی

وقت ہی نہیں ملتا ہمیں سنورنے کا(ص76)

ملک میں امن وامان کی صورت حال اس قدر خراب ہے کہ اب تو اپنے ہی گھر سے ڈر لگتا ہے۔

آسیب ہے یا کوئی ہے بھیانک سایہ

ڈرانے لگا ہے اپنا ہی گھر مجھے(ص67)

ولسن کے خیال میں یہ صورت حال اس لیے پیدا ہوئی کہ گلستان کا باغبان یعنی ہمارے راہنما سیدھے راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں۔

بھٹکا ہوا ہے باغبان

ویران تبھی ہے گلستان(ص105)

ان رہنماؤں کے طور طریقے تبدیل ہونے سے تمام لوگوں کے چہرے مرجھا گئے۔

رخ جو بدلا ہوا نے

پرندے چہچہانا بھول گئے(ص71)

آپکی شاعری میں رومانوی پہلو بھی نمایاں نظر آتا ہے۔اسکا آغاز وہ اپنے محبوب کی سراپا نگاری بیان کر کے کرتے ہیں۔ان کی سراپا نگاری کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ اس میں مبالغہ آرائی کم پائی جاتی ہے۔دوسرا شعراء کرام کے ایسے اشعار پڑھ کر خیالی محبوب کا تصور ذہن میں آتا ہے۔جبکہ ولسن کے ہاں محبوب گوشت پوست کا چلتا پھرتا انسان دکھائی دیتا ہے۔انکا محبوب اس قدر خوبصورت ہے کہ جو ایک بار اسے دیکھ لیتا ہے۔اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسکے بدن سے جان نکل رہی ہے۔

چاندنی سا تیرا سراپا ہے

جو بھی دیکھے جان سے نکلے

ایسے محبوب کی زلفیں اس قدر خوبصورت ہے کہ اس سے ستارے روشنی حاصل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

زلف چہرے پہ جیسے گھٹا چھائی ہے

ستاروں نے تیرے حسن سے ضیا پائی ہے(ص103)

اس سے دیکھنے سے ولسن صاحب کو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ وقت رک گیا ہے۔

جب سے اس شوخ نظر نے دیکھا ہے مجھے

وقت جیسے تھم سا گیا ہے(ص59)

اور جب اس سے چھوا تو ہوش جاتے رہے۔

تیرے ہونٹوں کے لمس میں کیا جادو تھا ولسن

ہوش تک نہ رہا ہمیں سنبھلنے کا(ص62)

تعریف سننا ہر ایک کو اچھا لگتا ہے اس لیے ولسن کی تعریف سن کر وہ اپنے محبوب کے پیار میں گرفتار ہوئے مگر پیار ہوا اور ہجر کی کیفیت نہ ہو ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ہجر کا رنگ بھی آپکی شاعری کا ایک اہم پہلوہے کہتے ہیں کہ محبوب کے جانے کے بعد بھی ان کے خیالوں میں محبوب کی یادوں کا میلہ لگا رہتا ہے۔

اس سے کہنا دل کے مندر میں ہم نے

اس کی یادوں کا میلہ لگا رکھا ہے(ص37)

اسکے جدا ہونے کے بعد شاعر کو اپنا چمن اجڑتا اور ہر سپنا بکھرتا نظر آتا ہے۔

میرا یار مجھ سے بچھڑ گیا

میرے من کا چمن ہی اجڑ گیا

اس کے انتظار میں ولسن

میرا ہر ایک سپنا بکھر گیا(ص49)

راہِ محبت میں ایسی صورت حال پیدا ہونے کے بعد جینا مشکل ہوجاتا ہے۔

راہ محبت میں چھوڑ گئے ہو تنہا

اب جیئیں بھی تو کس کے لئے(ص41)

مضمون کا اختتام ولسن صاحب کی طرف قائداعظم اور علامہ اقبال کو پیش کردہ خراج عقیدت پر کرتا ہوں کہتے ہیں ان رہنماؤں نے جو کہا اسے سچ کر دکھایا۔

دونوں نے یہ ملک بنایا

جو بولا سچ کر دکھایا

کیا انہوں نے خوب کمال

قائداعظم اور اقبال

ایسے سچے ،باہمت اور نڈر راہنماؤں کی مثال ملنا مشکل ہے۔

پاک وطن کے دونوں راہبر

سچے باہمت اور نڈر

نہیں دونوں کی کوئی مثال

قائداعظم اور اقبال(ص80)

شاعری کے علاوہ اس مجموعہ کلام میں ایک طویل سلسلہ ان تحریروں کا ہے جو راکی ولسن نے اس کتاب کے بارے میں مختلف لوگوں کی تحریر کروائیں ہیں۔شاعری ص نمبر (29) سے شروع ہو کر ص نمبر 108 تک جاتی ہے۔جبکہ کتاب کے بارے میں تحریر ص نمبر 7سے 28 تک اور ص نمبر 108 سے 126 تک پڑھنے کو ملتی ہیں،یوں کہا جا سکتا ہیکہ آدھی کتاب مختلف لوگوں کے مضامین سے بھری پڑی ہے جو کسی طور بھی مناسب نہیں۔اگر ولسن صاحب کو اپنی شاعری کے بارے میں مختلف لوگوں کی رائے جاننے کا اتنا ہی شوق ہے تو وہ الگ سے ایک کتاب چھاپ لیتے تاکہ پڑھنے والوں کو انکی زندگی اور فن کے ہر پہلو کے بارے میں زیادہ معلومات ہو جاتیں۔مجموعی طور پر اس مجموعہ کلام میں غزلیات کی نسبت نظمیں ہر لحاظ سے زیادہ خوبصورت دکھائی دیتی ہیں۔سادہ الفاظ میں شاعر نے خوبصورت انداز میں موضوعات کو بیان کیا ہے۔میں  اسکی اشاعت پر راکی ولسن کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔امید ہے آنے والے وقت میں اور زیادہ اچھی شاعری پڑھنے کو ملے گی۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...