Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > پرکھ > عامر خان وسیر کی فردیات

پرکھ |
حسنِ ادب
پرکھ

عامر خان وسیر کی فردیات
ARI Id

1688708668008_56116715

Access

Open/Free Access

Pages

۸۹

عامر خان وسیر کی فردیات

کائنات کے اندر اللہ تعالیٰ نے مختلف صلاحیتوں کے حامل افراد کو پیدا فرمایا ہے۔انہی صلاحیتوں کی بنا پر معاشرے میں ہر شخص کی پہچان اور مقام و مرتبہ ہے۔ہر انسان کے بات سنانے یا بات کرنے کا اپنا اپنا انداز ہوتا ہے۔کوئی دھیمے لہجے میں بات کرتا ہے۔تو کوئی انتہائی جارہانہ لہجے میں دو ٹوک الفاظ میں بات کرنے کا عادی ہوتا ہے۔کوئی شخص اپنی بات کی مثالیں دے کر گھما پھرا کر بات کرتا ہے۔انداز کوئی بھی اپنایا جائے مقصد اپنی بات کو دوسرے فرد تک پہنچانا ہوتا ہے۔ہزاروں لوگوں میں کوئی شخص ایسا بھی ہوتا ہے جس کا بات کرنے کا الگ ہی انداز ہوتا ہے۔جب وہ گفتگو کرتا ہیتودھنک کے رنگ بکھیر دیتا ہے۔باتوں سے خوشبو آتی ہے ایسا ہی ایک شخص "عامر خان وسیر" بھی ہے جو اپنے خوبصورت انداز بیان سے نہ صرف لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لیتا ہے بلکہ مسحور کن باتوں سے کسی کو بور بھی نہیں ہونے دیتا۔

عامر خان وسیر کو اللہ تعالیٰ نے جہاں بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے وہاں ایک صلاحیت شاعری کی بھی بخشی ہے۔جہاں تک میں نے انکی شاعری پڑھی ہے۔انکی شاعری میں ہر رنگ نظر آتا ہے۔انکی غزلیات،نظموں ،قطعات اور فردیات پر مشتمل شاعری ’’مجھے مان تجھ سے وفا کا تھا‘‘ کے روپ میں چھپ کر سامنے آئی ہے۔ان کی شاعری کا یہ پہلا مجموعہ ہے۔اس مضمون فردیات کے موضوعات اور سراپا نگاری پر بحث ہوگی۔

سراپا نگاری شاعری کا ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہر شاعر طبع آزمائی کرتا نظر آتا ہے۔اپنے محبوب کی تعریف کرنا ہر شخص کو اچھا لگتا ہے۔اچھا کیوں نہ لگے کیوں کہ وہ اپنے محبوب کے پیار میں اس قدر ڈوب جاتا ہے کہ اسے اپنے محبوب سے بڑھ کر کوئی اور دکھائی ہی نہیں دیتا۔اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ شاعر محبوب کی سراپا نگاری میں مبالغہ آرائی کچھ زیادہ ہی کر جاتے ہیں۔وسیر صاحب لکھتے ہیں کہ میرے محبوب کے حسن کی بات مت کرو کیونکہ اسے دیکھنے والے ہوش گنوا بیٹھتے ہیں۔

اور اس کے حسن کی بات ہی مت کرنا عامر

دیکھنے والوں کو ہوش کہاں آتی ہے(ص29)

میرا محبوب بہت سندر ہے چنچل ہے۔

کتنا سندر ہے کتنا دلکش ہے

میرا محبوب کتنا چنچل ہے(ص83)

اس کے ہونٹ کھولنے پر پھول بھی شرما جاتے ہیں۔

وہ میرے سامنے جب بے حجاب آتی ہے

ہونٹ کھولے تو پھولوں کو حیا آتی ہے(ص29)

اسکی زلفوں میں کھونا ایسے ہی ہے جیسے کوئی انسان گہری دلدل میں گر جائے۔

اسکی زلفوں میں کھو سا جاتا ہوں

جیسے گہری سی کوئی دلدل ہے(ص83)

ایک بار محبوب نے وسیر صاحب کو غلطی سے چھو لیا تو آپکے دل میں ہلچل پیدا ہوگئی۔

اس نے غلطی سے چھو لیا مجھ کو

دل میں کیسی مچی یہ ہلچل ہے(ص83)

پھر کیوں نہ کائنات کی ہر چیز میں اس کا جلوہ دکھائی دے۔

کیا بتاؤں عشق میں کیا کیا دکھائی دیتا ہے

میں جدھر دیکھوں تیرا چہرہ دیکھائی دیتا ہے(ص93)

آپ نے فردیات میں بہت سارے موضوعات کو بیان کیا ہے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپکی قوت مشاہدہ بہت زبردست ہے اور پھر آپ ہر قسم کے خیالات کو اشعار میں بیان کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔اپنے لئے خداسے کچھ نہ مانگا،جب بھی مانگا تو محبوب کی تصویر کو سامنے رکھ کر۔

میں نے جب بھی خدا سے کچھ مانگا

تیری تصویر روبرو رکھی(ص104)

محبوب نے آپکو زمانے بھر میں رسوا کیا مگر آپ نے۔

میرے قصے سر بازار اچھالے اس نے

جس کا ہر عیب زمانے سے چھپایا میں نے(ص102)

صرف یہی نہیں بلکہ اس کا ہر گناہ اپنے سر لیا۔

ہر گناہ اپنے سر لیا عامر

اسکی عزت و آبرو رکھی(ص105)

آپ نے جس کی خاطر دنیا چھوڑی مگر وہ دنیا کی رونقوں میں اس قدر کھو گیا۔کہ اسے وسیر کو دیکھنے کی فرصت بھی نہ ملی۔

جس کی خاطر تو دنیا چھوڑ آیا عامر

تجھے دیکھنے وہ اپنے گھر سے نہ نکلا(ص109)

حالانکہ دعویٰ یہ تھا۔

جو کہتی تھی دنیا چھوڑ دوں گی عامر

میری خاطر تو وہ چائے بھی نہ چھوڑ سکی(ص108)

اور عامر صاحب اسکی خوشی کے لیے مسکراتے رہے۔

میں اپنے آنسووں کو پلکوں میں چھپا لیتا ہوں

وہ میرے سامنے جب مسکرا کے آتی ہے(ص106)

سب کچھ کرنے کے باوجود محبوب خفا ہے۔

میں اپنے جسم کو روح سے جدا دیکھ رہا ہوں

اس بے وفا کو پھر بھی خفا دیکھ رہا ہوں(ص103)

عامر کا محبوب اپنی ضد کا پکا ہے۔جدائی نے برا حال کر دیا مگر پلٹنے کیلئے تیار نہیں۔

جانتا ہوں مجھے چھوڑ کے ادھورا ہے

مگر وہ اپنی بات کا پورا ہے(ص102)

موجودہ دور میں سماجی برائیوں نے معاشرے میں اس قدر اندھیرا پھیلا رکھا ہے کہ عامر صاحب کو اپنے گھر کا راستہ ہی بھول گیا ہے۔

اندھیرا ہی اندھیرا ہر طرف ہے

میرا گھر نہ جانے کس طرف ہے(ص107)

اس مجموعہ کلام میں میرے لئے ایک بات بڑی حیرت کا باعث بنی۔جب میں نے ص نمبر 29 پر درج غزل کا مقطع غزل کے آخر کی بجائے غزل کے درمیان میں دیکھا۔ص نمبر 37 پر لکھی غزل میں مقطع دوبارہ آیا ہے۔ایک بار غزل کے درمیان اور دوسری بار آخر میں اسی طرح ص نمبر 42 اور 88 پر درج ان اشعار کا باقی غزل کیساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں بنتا۔معلوم ہوتا ہے کہ عامر صاحب کے پاس کہنے کیلئے کچھ نہ تھا۔

(1)میری بات کا تو جواب دے

ہر ظلم کا تو حساب دے(ص42)

 

(2)تو جو مہندی رچائے پھرتی ہے

ہاتھ تیرے ہیں کاٹنے والے(ص88)

اس کے علاوہ بھی کئی مقامات سے عامر صاحب کی شاعری پر گرفت ڈھیلی پڑتی نظر آتی ہے۔بہت سے اشعار میں وہ موضوع کا اچھی طرح بیان نہ کر سکے اور کئی اشعار کو بیان کرتے وقت ان کا ذخیرہ الفاظ ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔اس کے باوجود میں عامر خان وسیر کو اس مجوتعہ کلام کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوںکہ اللہ انکے قلم میں اورروانی عطا فرمائے۔امید ہے آنے والے وقت میں اچھی شاعری پڑھنے کو ملے گی۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...