Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > پرکھ > ماہیا

پرکھ |
حسنِ ادب
پرکھ

ماہیا
ARI Id

1688708668008_56116717

Access

Open/Free Access

Pages

۹۵

ماہیا

ماہیا سر زمین پنجاب کا عوامی گیت ہے۔ماہیا کا لفظ ماہی سے نکلا ہے لیکن یہ اردو والا ماہی نہیں ہے(1) ویسے ماہیا میں محب اپنے محبوب کی جدائی میں ماہی بے آب کی طرح بھی ترپتا دکھائی دیتا ہے۔پنجابی میں بھینس یا مہیس کو کہتے ہیں۔بھینس چرانے والوں کو اسی نسبت سے ماہی کہا جا تا ہے۔ان چرواہوں کو بھینسوں پر نظر رکھنے کے سوا کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔اس لئے دیہاتی ماحول کے مطابق انہوں نے کسی مشغلے کے ذریعے وقت گزاری کا وقت نکلا۔بانسری بجانے اور گیت گانے کا مشغلہ ایسا تھا کہ بیک وقت چرواہے کا فرض بھی ادا کیا جا سکتا تھا اور اپنے دل کو بھی بہلایا جا سکتا تھا۔بانسری اور اچھی آواز کے جادو نے بھی بعض چرواہوں کو اپنے اپنے دیہاتوں میں مقبولیت عطا کی ہوگی لیکن جب محبت کے قصوں میں رانجھے اور مہینوال کو اپنے اپنے محبوب تک رسائی حاصل کر نے کے لیے چرواہ بننا پڑا تو پھر ان کرداروں کی رومانوی کشش نے لفظ ماہی کو چرواہے کی سطح سے اٹھا کر نہ صرف ہیر اور سوہنی کا محبوب بنا دیا بلکہ ہر محبت کرنے والی مٹیار کا محبوب ماہی قرار پایا۔اسی ماہی کے ساتھ اپنے پیار کے اظہار کے لئے ماہیا عوامی گیت بن کے سامنے آیا۔

ماہیے میں پنجاب کے عوام کے جذبات ،احساسات اور خواہشات کا خوبصورت اور براہِ راست اظہار ملتا ہے۔عوام نے اپنی امنگوں ،آرزوں اور دعاوں کو شاعری کے ذریعے سینہ بہ سینہ آگے بڑھایا اور زندہ رکھا۔اسی لیے یہ عوامی گیت اپنی ظاہری صورت میں انفرادی ہونے کے باوجود اپنی سوسائٹی کی ترجمانی کرتا ہے۔ماہیا فکرو خیال سے ہی نہیں ہوتا لیکن گہرے فلسفیانہ خیالات کے برعکس سیدھے عوام کے دل میں اتر جانے والا انداز ہی اس کے مزاج کا اہم حصہ ہے عوام کے دل میں سما جانے والے مزاج کے باعث ماہیا فکر سے زیادہ جذبے کو اہمیت دیتا ہے تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اس میں رمز و کنایہ سے کام نہیں لیا جاتا۔ماہیے میں جذبوں کا رس رمز و کنایہ کی مٹھاس سے مل کر انوکھی لذت پیدا کر دیتا ہے۔

اکھ رو رو سک گئی اے

لوکاں دی مویاں مکدی

ساڈی جیوندیاں مک گئی اے(3)

ماہیے کے موضوعات میں وسعت پیدا ہوئی تو رشتہ داریاں ،میلے ٹھیلے،شادی بیاہ اور روز مرہ زندگی کے معاملات اور تقریبات بھی ماہیے میں اپنا رنگ جمانے لگیں۔

کوٹھے اتوں اڈکانواں

سد پٹواری نوں

جند ماہیے دے ناں لانواں(4)

حمد و نعت اور دعا کے دینی جذبات ماہیے کا موضوع بننے لگے۔

بازار وچ چینی اے

ایہو جگ فانی اے

تے موت یقینی اے(5)

زندگی کے مسائل بھی ماہیے میں بیان ہونے لگے۔یوں ماہیا پنجابی معاشرے کے جذبات کا ترجمان بنتا گیا۔اگرچہ زندگی کے مسائل اور ان سے جڑے ہوئے مختلف انسانی جذبات کا اظہار ماہیے کے موضوعات میں ذرا وسعت اور تنوع پیدا کرتا ہے۔تاہم پنجابی ماہیے کا غالب موضوع اپنے ماہیے سے باتیں کرنا اور اپنے ماہی کی باتیں کرنا ہے ماہیے کے اس غالب موضوع سے ماہیے کا مزاج مرتب ہوتا ہے اور اس حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ ماہیا غزل کی اسی ابتدائی اور بنیادی تعریف سے قریب ہے جس کے مطابق غزل کا مطلب محبوب کا عورتوںسے باتیں کرنا ہے۔(6)

ماہیے میں عورتوں کے دکھوں کا اظہار خاص طور پر کیا گیا ہے۔

(1)سونے دا کل ماہیا

لوکاں دیاں رون اکھیاں

ساڈا روندا اے دل ماہیا

 

(2)دو پتر اناراں دے

ساڈا دکھ سن کے چناں

روندے پتھر پہاڑاں دے (7)

ماہیا میں نبی پاک کے واقعہ معراج کا ذکر اس طرح آیا ہے:

کوئی بیلاں انگور دیاں

چمیاں عرشاں نیں

یارو جتیاں حضور دیاں(8)

اگرچہ ماہیے میں عام طور پر عورت ہی بولتی سنائی دیتی ہے لیکن مردانہ زبان کے ماہیے بھی شروع سے چلے آ رہے ہیں۔مکالماتی صورت کے ماہیوں میں عموما مرد اور عورت شوخی اور شرارت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔مثال کے طور پر یہ مکالماتی ماہیے دیکھیں۔جو چھیڑ چھاڑ کی حد سے آگے جا رہے ہیں۔

مردعورت

سڑک تے روڑی اے

نالے میرا چھلا لا لیا

نالے انگل مڑوڑی اے

(2) سڑکے تے روڑی اے

سجا میرا چھلا لا لیا

کھبی انگل مڑوڑی اے

سڑک تے روڑی اے

 

کہیڑی انگل مروڑی اے

باغے وچ آنواں گا

نالے تیرا چھلا دیاں گا

نالے انگل چڑھاواں گا(9)

 

ماہیے وچ طنز و مزاح بھی ملتا ہے۔

کوئی سائیکل چلائی جاندا

فٹے منہ شوقینی دا

لتاں بھوئیں نال لائی جاندا

(2) کوئی بوٹا کاہیاں دا

گاں دھرکھاناں دی

وچھا لے گئی نائیاں دا(10)

 

لوگوں کے رویئے کے بارے میں یہ ماہیا پڑھیئے:

ڈبیاں گائیں ماہیا

یار زمانے دے

سب غرضاں تائیں ماہیا(11)

 

اس ماہیے میں تصوف کو بیان کیا گیا ہے:

کوٹھے اتے کانا اے

ملنا تے رب نوں اے

تیرا پریم بہانا اے(12)

حوالہ جات

1۔            حیدر قریشی، اردو ماہیا،تحقیق وتنقید،الوقار پبلی کیشنز،335 واپڈا ٹاؤن ،لاہور،2010ص28

2۔            مزمل احمد ،نیلی دے لوک گیت،کلاسیک،دی مال لاہور،2005ص312

3۔            اوہوص309                                            4۔اوہوص310

5۔            اوہوص310

6۔            حیدر قریشی،اردو ماہیا،تحقیق و تنقیدص31

7۔            مزمل احمد،نیلی دے لوک گیت ص303 8۔اوہوص303

9۔            حیدر قریشی،اردو ماہیا ،تحقیق و تنقید ص 30       10۔مزمل احمد ،نیلی دے گیتص303

11۔          سیف الرحمٰن ڈار ڈاکٹر ،رکھ تاں ہرے بھرے،پاکستان پنجابی ادبی بورڈ لاہور1985،ص66

12۔          اوہوص70

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...