Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > پرکھ > امین بابر کی ماہیا نگاری

پرکھ |
حسنِ ادب
پرکھ

امین بابر کی ماہیا نگاری
ARI Id

1688708668008_56116718

Access

Open/Free Access

Pages

۹۹

امین بابر کی ماہیا نگاری

ماہیا سر زمین پنجاب کا عوامی گیت ہے۔ ماہیا کا لفظ ماہی سے نکلا ہے۔لیکن یہ اردو والاماہی نہیں ہے۔ویسے ماہیا میں محب اپنے محبوب کی جدائی میں ماہی بے آب کی طرح بھی تڑپتا دکھائی دیتا ہے۔ماہیے میں پنجاب کے عوام کے جذبات ،احساسات اور خواہشات کا خوبصورت اور براہ راست اظہار ملتا ہے۔عوام نے اپنی امنگوں اور دعاؤں کو اس شاعری کے ذریعے سینہ بہ سینہ آگے بڑھایا اور زندہ رکھا۔اسی لیے یہ عوامی گیت اپنی ظاہری صورت میں انفرادی ہونے کے باوجود اپنی سوسائیٹی کی ترجمانی کرتا ہے۔ماہیا فکر و خیال سے تہی نہیں ہوتا لیکن گہرے فلسفیانہ انداز ہی اس کے مزاج کا اہم حصہ ہے۔عوام کے دل میں سما جانے والے مزاج کے باعث ماہیا فکر سے زیادہ جذبے کو اہمیت دیتا ہے۔تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اس میں رمز وکنایہ سے کام نہیں لیا جاتا۔ماہیے میں جذبوں کا رس رمز و کنایہ کی مٹھاس سے مل کر انوکھی لذت پیدا کر دیتا  ہے۔

محبوب کے ساتھ محبت کا اظہار والہانہ پن،معاملہ بندی،چھیڑ چھاڑ،ہجر وصال،شکوے شکایتیں ماہیے کے ابتدائی موضوعات تھے۔ماہیے کے موضوعات میں وسعت پیدا ہوئی تو رشتہ داریاں ،میلے ٹھیلے،شادی بیاہ اور دوسرے روز مرہ زندگی کے معاملات اور تقریبات بھی ماہیے میں اپنا رنگ جمانے لگیں۔حمد و نعت اور دعا کے دینی موضوعات ماہیے کا موضوع بننے لگے زندگی کے مسائل بھی ماہیے میں بیان ہونے لگے۔یوں ماہیا پنجابی معاشرے کے جذبات کا ترجمان بنتا گیا۔اگرچہ زندگی کے مسائل اور ان سے جڑے ہوئے مختلف انسانی جذبات کا اظہار ماہیا میں وسعت اور تنوع پیدا کرتا ہے تاہم پنجابی ماہیے کا سی غالب موضوع اپنے ماہی سے باتیں کرنا اور اپنے ماہی کی باتیں کرنا ہے ماہیے کے اسی غالب موضوع سے ماہیے کا مزاج مرتب ہوتا ہے۔اور اس حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ ماہیا غزل کی ابتدائی اور بنیادی تعریف سے قریب ہے۔جس کے مطابق غزل کا مطلب  محبوب عورتوں کی باتیں کرنا تھا۔

چراغ حسن حسرت کلکتہ کے اخبار ’’نئی دنیا‘‘ میں کولمبس کے نام سے فکاہی کالم لکھا کرتے تھے۔1930 کے بعد وہ کلکتہ سے لاہور آ گئے یہاں وہ مختلف اخبارات سے منسلک رہے ہیں انہوں نے 1937 میں پنجابی ماہیے کے حسن سے متاثرہو کر اردو میں چند ماہیے کہے انکے ایسے دو ماہیے دیکھیں۔

باغوں میں پڑے جھولے۔۔۔راوی کا کنارہ ہو

تم بھول گئے ہم کو۔۔۔ہر موج کے ہونٹوں پر

ہم تم کو نہیں بھولے۔۔۔افسانہ ہمارا ہو

پنجابی ماہیے کی جادو گری اور چراغ حسن حسرت کی ماہیے سے محبت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن حسرت پنجابی ماہیے کے وزن کی نزاکت کا خیال نہیں رکھ سکے۔نتیجہ ہوا یہ کہ انہوں نے تین یکساں مصرعوں کے ’’ماہیے‘‘ لکھ دیئے۔ان ماہیوں کے لگ بھگ 20 سال بعد فلم بھاگن آئی تو اس کے لیے ایک گیت میں پہلی بار پنجابی ماہیے کے درست وزن کے مطابق اردو ماہیے پیش کیے گئیاس فلم کے پروڈیوسر اردو کے مشہور ادیب راجندر سنگھ بیدی تھے اور مذکورہ ماہیے قمر جلال آبادی نے لکھے تھے۔ان ماہیوں کو محمد رفیع اور آشا بھوسلے نے گایا تھا۔

(1)تم روٹھ کے مت جانا

مجھ سے کیا شکوہ

دیوانہ ہے دیوانہ

(2)میں لاکھ ہوں بے گانہ

پھر یہ تڑپ کیسی

اتنا تو بتا جانا

(3)کیوں ہو گیا ہے بے گانہ

ترا مرا کیا رشتہ

یہ تو نہیں جانا

(4)فرصت ہو تو آ جانا

اپنے ہی ہاتھوں سے

مری دنیا مٹا جانا

اب تک کی معلومات کے مطابق یہ ماہیے اردو کے سب سے پہلے ماہیے ہیں جو پنجابی ماہیے کے وزن پر پورا اترتے ہیں اس لحاظ سے قمر جلال آبادی اردو کے سب سے پہلے ماہیا نگار قرار پاتے ہیں۔

اس کے بعد معروف شاعر ساحر لدھیانوی نے اردو میں ماہیا لکھنے شروع کیے پھر بہت سے شعرا ء کرام اس میدان میں اترے جن میں چند نمایاں نام اس طرح ہے،بشیر منذر ،عبدالحمید بھٹی،منیر عشرت،علی محمد فرشی،نصیر احمدناصر،سیّدہ حناء اور امین بابر ہیں۔دور جدید امین بابر ایسا شاعر ہے جس کو اردو اور پنجابی ماہیا نگاری میں نمایاں مقام حاصل ہے اعلیٰ تخیل سے بھرپور اور آسان الفاظ آپ کے ماہیے پرھنے والوں کی توجہ اپنی طرف کھینچتے ہیں۔اس کا ثبوت آپکی ماہیوں پر مشتمل نئی کتاب ’’اک دھوم مچابنسی‘‘ ہے۔اس مجموعہ میں جو کچھ آپ نے لکھا اس کا موضوعاتی جائزہ کچھ اس طرح ہے:

پرانے زمانے سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ شاعر اپنے کلام کا آغاز حمد باری تعالیٰ سے کرتا ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کرنے سے ان کے کام میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔کہتے ہیں کہ اے میرے اللہ ہر شے میں تیری قدرت کارفرما ہے۔

ہر شے میں ظہور تیرا

ہم پہ احساں ہے

اے رب غفور تیرا

اگر اسکی ذات پر غور کریں تو ہمیں ہر شے اسکی قدرت کا نمونہ دکھائی دے گی۔

وہ ذات ربانی ہے

غور کریں ہم تو

ہر شے میں نشانی ہے

اور وہ عرش کا مالک اس کرہ ارضی پر ہمہ وقت اپنی نظر ڈالتا رہتا ہے۔

رم جھم برساتیں ہیں

عرش سے مولا! تیری

ہاں فرش پہ جھاتیں ہیں

اے رحیم و رحمان مولا! تو اس دنیا میں میرا بھرم رکھ لے اور مجھ پر اپنی نظر کرم کر دے۔

رکھ میرا بھرم مولا!

تیرا بندہ ہوں

کہ نظر کرم مولا!

نبی پاکﷺسے آپ کا عشق ٹھاٹھیں مارتا دکھائی دیتا ہے آپ کو مدینے سے دوری کا احساس ہے اور اس شہر کے ہجر میں آنسو نکلتے ہیں۔

پھر خوب رلاتی ہے

یاد مدینے کی

جس وقت بھی آتی ہے

اور جب اس ذات اقدس کو پکارا جاتا ہے تو وہ مائل بہ عطا نظر آتی ہے۔

ہاں گنج سخا ہیں وہ

جب بھی پکاریں ہم

مائل بہ عطا ہیں وہ

اس لیی لوگوں کو غورو فکر کی دعوت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے لوگو! اس بات پر غور و فکر کرو کہ آپﷺکا ذکر اللہ کو بھی بہت پسند ہے۔

کہ غورو فکر کیاں

رب کو بھی پیارا ہے

سرکار کا ذکر میاں

میں بھی اپنے فن میں نکھار کے لیے اسی ذات اقدس کو پکارا کروں گا مجھے یقین ہے کہ ایسا کرنے سے میرے فن میں پختگی آئے گی۔

بس انکو پکاروں گا

نعتیں لکھ لکھ کر

اسلوب نکھاروں گا

ماہیا رومان پرور گیت ہے۔اگرچہ ہجر ووصال کی کیفیت اس میں زیادہ تر بیان کی گئی ہے مگر عشق کا بیان میں ہمیں اس کتاب میں جگہ جگہ ہوا دکھائی دیتا ہے جس دل میں عشق سما جاتا ہے وہاں عاشق کی اپنی ہستی ختم ہو جاتی ہے۔

ہستی کو مٹاتا ہے

دل کے حجرے میں

جب عشق سماتا ہے

جب یہ روگ لگ جاتا ہے تو انسان کا سکھ چین ختم ہو جاتا ہے۔

سکھ چین گنوا بیٹھے

روگ محبت کا

اس دل کو لگا بیٹھے

جب سکھ چین ختم ہو گا تو دیوانگی جنم لے گی اس حالت مین سماج کے طعنوں کے نشتر آپ کا دل چھلنی کر دیں گے۔

طعنوں کے نشتر ہیں

عشق کی نگری میں

کانٹوں کے بستر ہیں

عشق ہو اور جدائی نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے سماجی رکاوٹوں اور مجبوریوں کے باعث دو پیار کرنے والے ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیںاور پھر عاشق رات دن ہجر کی سولی پر لٹکا رہتا ہے۔

دن رات جگایا ہے

ہجر نے ایسے بھی

سولی پہ چڑھایا ہے

محبت میں ساجن سے دوری موت سے کم نہیں ہوتی۔

اس میں سچائی ہے

موت سے بھی بڑھ کر

ساجن کی جدائی ہے

پھر وصل زدہ دل میں طوفان برپا ہو جاتا ہے۔جب جدائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

طوفان تو آتا ہے

وصل زدہ دل میں

جب ہجر سماتا ہے

دل میں ہجر سمانے کے بعد ایک ہی خواہش ہے کہ محبوب کا دیدار ہو جائے۔

ہم دید کو ترسے ہیں

یاد کے بادل جب

اس دل پہ برسے ہیں

کیونکہ محبوب کے سانولے رنگ کے باوجود دل اس کا قرب چاہتا ہے۔

ہے سانولا رنگ تیرا

پھر بھی دل چاہے

ہر وقت ہی سنگ تیرا

نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ ہر وقت ہونٹوں پر اس کانام ہے۔

اک جام ہے ہونٹوں پہ

نشہ ہے جس میں

وہ نام ہے ہونٹوں پہ

مگر ایسے خوبصورت محبوب دھوکہ دیتے ہیں۔

کھلتے سے شبالوں نے

ہم کو دیا دھوکہ

ان سرخ گلابوں نے

محبت میں دھوکے کے باوجود امین بابر پڑھنے والے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ نفرت چھوڑو اور سب سے پیار کرو۔

اونچی دستار کرو

نفرت چھوڑواور

سب سے ہی پیار کرو

اور آپ اگر سکون سے زندگی بسر کرنا چاہتے ہو تو برے دوستوں سے کنارہ کشی کر لو۔

جینے کا چارا کر

دوست برے ہیں گر

تو ان سے کنارا کر

کیونکہ یہ انسانی نفسیات اور سچائی ہے کہ جن دلوں میں نفرت سمائی ہو ان کو زندگی بھر سکون نہیں ملتا۔

جلتے ہوئے آرہے ہیں

سینے میں جن کے

نفرت کے انگارے ہیں

ایسی حالت میں انسان آخرت کیلئے کچھ جمع نہیں کر پاتا حالانکہ اسکی منزل بہت دور ہوتی ہے۔

کیا خوب فسانہ ہے

کم ہے زاد راہ

اور دور بھی جانا ہے

سب کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہ دنیا ایک سرائے ہیں اور ہم اس سرائے میں مسافر کی مانند ہیں۔

سب کی یہ رائے ہے

ہم ہیں پردیسی

یہ دنیا سرائے ہے

اور یہ بات اس شخص کی سمجھ میں نہیں آتی جو دنیا دار ہو۔

مرنے سے ڈرتا ہے

پیار محبت جو

دنیا سے کرتا ہے

باپ دنیا کی وہ ہستی ہے جو اولاد کے سکھ کی خاطر اپنی جوانی خواہشات قربان کرنے کے ساتھ ساتھ خون کا آخری قطرہ تک بہا دیتا ہے۔

خون تک بھی بہانا ہے

بچوں کی خاطر

باپوں کو کمانا ہے

ماں کو رب کا دوسرا روپ کہا جاتا ہے اس کی میٹھی آواز میں گائے جانے والی لوری سن کر بچہ سو جاتا ہے مگر لوری کے الفاظ میں ماں کی ممتا بولتی دکھائی دیتی ہے۔

ہر من کو بھاتی ہے

بچہ سلانے کو

ماں لوری گاتی ہے

اسکی محبت ساری دنیا سے الگ خدا جیسی ہے

سب جگ سے جدا سی ہے

پیار محبت میں

یہ ماں تو خدا سی ہے

اگرچہ ماہیا اب اردو زبان وادب کی صنف بن چکا ہے مگر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اردو ماہیا اپنے آپ کو پنجابی ماہیا کی گرفت سے پوری طرح آزاد نہیں کروا سکا۔اسکی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ امین بابر نے اردو ماہیا لکھتے وقت پنجاب کی مشہور رومانوی داستانوں کو اپنے ماہیئے میں بیان کیا ہے چند نمونے اس طرح ہے:

ہیر رانجھا اور لیلیٰ مجنوں کی رومانوی داستان کا ذکر اس طرح کرتے ہیں:

مجنوں ہے یا رانجھا ہے

عشق کا چسکہ تو

سب کا ہی سانجھا ہے

ایسے ہی ہیررانجھاداستان کے ایک کردار کیدو کا ذکر یوں کیا ہے:

دل کیسے نہ گھائل ہو

ہیر کے رستے میں

جب کیدو حائل ہو

اپنی تحریر کو اس ماہیا پر ختم کرتا ہوں جس میں بہت گہری بات کی ہے اب پڑھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ مجازی معنوں میں لیتا ہے یا حقیقی۔

دنیا کو چھوڑ دیا

اپنا ہر رشتہ

تجھ سے ہی جوڑ لیا

لوک موسیقی اور لوک ساز

تہذیبی عناصر میں فنون لطیفہ نے ہمیشہ سے اہم کردار ادا کیا ہے۔فنون لطیفہ جس کا تعلق انسانی نفسیات سے گہرا رہا ہے اور جملہ فنون میں سے موسیقی نے سب سے زیادہ براہ راست انسانی نفسیات کو متاثر کیا ہے۔فن موسیقی ایک ایسا فن ہیجس میں بلا کی ہمہ گیریت ہے،جس میں گہرائی اور گیرائی کے دونوں پہلو کارفرما ہیں۔ارتقائی لحاظ سے اس فن کا سلسلہ لا متناہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس فن کی مختلف شکلوں میں نمو ہوتی رہی ہے۔کبھی کلاسیکل شکل میں کبھی نیم کلاسیکی میں اور کبھی لوک موسیقی کی شکل میں اس فن نے تہذیب کی آبیاری کی ہے۔اس مضمون میں موسیقی کی تمام اقسام کی بجائے لوک موسیقی ہی دائرہ موضوع رہے گی۔

لوک موسیقی کیا ہے؟ اور کسی خطے کی مقامی تہذیب میں اس کا کیا کردار ہے۔

لوک موسیقی کا کسی بھی خطے کی تہذیب کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔لوک موسیقی ایسے گانوں،ٹپوں،ماہیئے اور دوہڑوں کا مجوعہ ہوتی ہے۔جس میں گانے والا اونچے سروں کو الاپتے ہوئے مقامی انداز میں لوگوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتا ہے۔لوک موسیقی جس کا براہ راست تعلق مقامی تہذیب کے ساتھ ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں عوام کے ملے جلے جذبات کی چاشنی کار فرما ہوتی ہے اور اس میں مقامی سوز و گداز رچا بسا ہوا ہوتا ہے۔

لوک موسیقی جس کا تعلق براہ راست عوام سے ہوتا ہے اور یہ الہڑ چرواہوں ،نو جوان گڈریوں ،ستم زدہ کسانوں اور سار بانوں کی تخلیق ہوتی ہے۔اور یہ مقامی سطح پر پورے سماج کی آئینہ دار ہوتی ہے۔اس لیے صدیاں گزرجانے کے بعد بھی اسکی کشش میں کبھی کمی نہیں آتی۔لوک موسیقی کی شاعری میں عجز و انکساری،محبت واخلاص اور رومانیت کا بھرپور اظہار ہوتا ہے۔جس میں سادہ لوح مقامی لوگوں کے خوشی اور غمی کے معصوم جذبات شامل ہوتے ہیں۔

لوک موسیقی جسے عوامی موسیقی بھی کہتے ہیں۔کلاسیکی اور نیم کلاسیکی موسیقی سے زیادہ عام فہم اور عوام میں زیاہ مقبول ہے۔اس موسیقی میں ہلکے پھلکے گیت،لوک دھنیں،علاقائی دھنیں،شادی بیاہ کے گیت اور منظوم لوک داستانیں شامل ہیں۔(1)

دنیا بھر میں ہر سال 21 جون کو موسیقی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔جس کا مقصد موسیقی کے ذریعے امن و محبت کے پیغام کو فروغ دینا اور اس فن سے وابستہ افراد اور ان کے فن کو اجاگر کرنا ہے۔(2)

ڈھولک،ڈھولکی،ڈھول،گھڑا،پرات

ڈھولک بنیادی طور پر ایک لوک ساز ہے۔اکثر اس ساز کا استعمال گھروں میں خوشی خاص بیاہ شادی کے موقع پر کیا جاتا ہے۔البتہ میلوں پر ڈھول بجایا جاتا ہے۔لوگ خوشی سے اس کے ارد گرد ناچتے ہیں۔پنجابی میں اس ناچ کو بھنگڑ،جھویریاں،لڈی کہا جاتا ہے،جہاں پر شادی کے موقع پر ڈھولک دستیاب نہ ہو وہاں پر پرات کی بجائے گھڑے پر رومانوی گیت گائے جاتے ہیں۔اس کی ایک جدید شکل طبلہ کی صورت میں موجود ہے۔

چمٹا

ایسا لوک ساز ہے جس میں ساز کے ساتھ ساتھ گیت بھی گائے جاتے ہیں۔پنجاب میں چمٹا بجانے کے فن کو عالم لوہار نے عروج پر پہنچایا۔اپنی خوبصورت آواز میں چمٹے کے ساتھ گیت بھی گائے خاص ان کی گائی ہوئی ’’جگنی‘‘ آج تک لوگوں کو یاد ہے۔عارف لوہار جو عالم لوہار کے بیٹے ہیں۔اس فن کو زندہ رکھنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ بہت سے لوک فنکار مقامی تھیٹروں میں اس ساز کے ذریعے اپنی ذہانیت اور مہارت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

بانسری،ونجھلی

کہا جاتا ہے کہ کسی سْکے درخت کے تنے میں سوراخ تھا اس میں ہوا کا گزر ہوا تو ایک خوبصورت سْر نے جنم لیا۔جس نے اس سْر کو سنا اس پر مستی کی کیفیت طاری ہو گئی۔پھر اس نے لکڑی لے کر اس میں سوراخ کیے اور اس میں پھونک ماری۔جب پھونک مختلف انداز سے ماری گئی تو مختلف سْر وجود میں آئیاور یوں اس لوک ساز کا وجود عمل میں آیا۔آج اس ساز کو اکیلے بھی اور دوسرے سازوں کے ساتھ ملا کر گایا جاتا ہے۔پنجاب کی تمام لوک داستانوں خاص کر ہیر رانجھا کی لوک داستان میں اس ساز کا استعمال بہت زیادہ ہے۔

سارنگی

پنجاب کا لوک ساز جو اپنی مدھر سروں کی وجہ سے بڑا مشہور ہے۔عام طور پر صوفیانہ کلام گاتے وقت اس کو گایا جاتا ہے۔اس کو بجانے کیلئے بہت زیادہ مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔سارنگی کی بناوٹ کے لحاظ سے ایک قسم پیالہ سارنگی بھی ہے۔

حوالہ جات

1۔            نورنگ موسیقی ،اختر علی خان،ذاکر علی خان،لاہور،اردو سائنس بورڈ، 1999 باب دوم،ص:6

2۔            https//www.urduvoa.com

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...