Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > برگ نعت > برگِ سبز است تحفہ درویش

برگ نعت |
حسنِ ادب
برگ نعت

برگِ سبز است تحفہ درویش
Authors

ARI Id

1689950402311_56116771

Access

Open/Free Access

برگِ سبز است تحفہء درویش!
عموماًکسی کی جناب میں کوئی نذرانہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں’’یہ فقیر کا ناچیز تحفہ ہے قبول فرمائیے‘‘۔کسی شاعر نے اس بات کو یوں کہا تھا……
ع برگِ سبز است تحفہء درویش
منیر شکوہ آبادی نے فارسی کے اس مصرعے پر گرہ بھی لگادی :
نذر جو میں نے کی ہے یہ درپیش
برگِ سبز است تحفہء درویش
نذر عابد صاحب اردو کے استاد ہیں، انھوں نے اپنے نعتیہ نذرانے کو ’’برگِ نعت‘‘ اسی استعاراتی پس منظر میں کہا ہے۔ کتاب کے نام ہی سے ظاہر ہے کہ شاعر ،نبیء کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں عاجزانہ ، انکسارانہ اور فدویانہ انداز میں تحفہ پیش کرنے کا متمنی ہے ،تاہم وہ اپنے تحفے کو آپﷺ کی شان کے شایاں ہرگز نہیں سمجھتا۔
نذر عابد کائنات کو اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کا ایسا نگارخانہ تصور کرتے ہیں جس میں لحظہ بہ لحظہ رسولِ گرامی علیہ ا لصلوٰۃو السّلام کی تعریف و توصیف کا عمل جاری ہے۔ اللہ ربّ العزت کی طرف سے، حضور ﷺ کی جناب میں درود و سلام پیش کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے اور آپﷺ کے ذکر کو آپﷺ کے لیے بلند فرمانے کا بھی التزام کیا گیاہے۔ ایسی صورت میں اگر کائنات کو استعاراتی زبان میں ’’جہانِ نعت‘‘ کہا جائے تو یہ تکوینِ کائنات کی بہترین تعبیر ہوگی۔درج ذیل شعر میں سارے جہان کو نعت کا نام دینے سے شاعر کی یہی مراد ہے:
یہ زمیں نعت ہے، آسماں نعت ہے
سوچیے تو یہ سارا جہاں نعت ہے
سارے جہاں کی وسعتوں اور سرکارِ دوعالمﷺ کی عظمتوں و رفعتوں کے پیشِ نظر، شاعر کو نعت گوئی، انتہائی گرانقدر ، انتہائی مشکل اورحد درجہ نازک ،مقدس اور venerable معلوم ہوتی ہے۔اسی لیے نعت کہنے کے ہنگام، اپنی کم مائیگی کے ساتھ ساتھ اپنی خطاکاری کے استحضار سے اس پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے اور وہ کہہ اٹھتا ہے:
خطائیں اپنی جو سوچوں تو کانپ اٹھتا ہوں
زمیں کے بیچ گڑا ہوں میں نعت کہتے ہوئے
نذر عابد کو فکرِ انسانی کی کجی اور افکار کی بے سمتی کا بڑی شدت سے احساس ہے۔ وہ وحیء ربانی کی روشنی سے گریزاں فکر کو بجا طور پر گمراہی تصور کرتے ہیں۔ ان کے لیے حضورِ اکرم ﷺ کا ارشاد ہی کافی ہے، کیوں کہ ’’گفتۂ اُو(ﷺ)،گفتۂ اللہ بود‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خم ٹھوک کر کہتے ہیں:
بے کارہے افکار کی دنیا میں بھٹکنا
مجھ کو تو حضورؐ آپ کا ارشاد بہت ہے
پھر اس خیال کو ایک اور شعر کی وضاحتی روشنی سے مستنیر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اندھیروں میں بھٹکتی گمرہی کے راستوں میں
ہمیشہ جگمگا ئے ہیں ترے محراب و منبر
اس پوری نعت کی ردیف ’’محراب و منبر‘‘ ہے ،اس طرح شاعر نے ’’محراب و منبر‘‘ کو ہدایت کے سرچشمے کی علامت بناکر پیش کیا ہے۔ ایک اور شعر میں کہا ہے:
ترے در سے صداقت کی شعائیں پھوٹتی ہیں
وحی کا نورلائے ہیں ترے محراب و منبر
اس شعر میں نذر عابد نے ’’وحْی‘‘ کا لفظ، عربی کے بجائے اردو میں رائج اور مستعمل تلفظ استعمال کیا ہے۔ بہر حال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شاعر نے بڑے سلیقے سے ’’محراب و منبر‘‘ کی ردیف کو علامتی رنگ دے کر تلمیحاتی اشارے بھی کردیے ہیں ۔
تعلیماتِ رسول ﷺ کی اشاعت کا سب سے قبل اور سب سے اہم انتظام اصحابِ رسول علیٰ صاحبہا الصلوٰ ۃ والسلام و رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کے توسط سے ہوا تھا اس لیے شاعر نے بجا طور پر اس حقیقت کو شعری قالب دے دیا ہے:
صحابہؓ نے تری تعلیم اور حسنِ عمل سے
بہ ہر صورت سجائے ہیں ترے محراب و منبر
نذر عابد صاحب نے ایک نعت میں ’’غارِ حرا‘‘ کو بھی بہت خوبصورتی سے ہر خیر کا منبع اور حق و صداقت کی علامت بنا کر پیش کیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
نور افشاں نور زا غارِ حرا

روشنی کا سلسلہ غارِ حرا
جادۂ حق و ہدایت اِس طرف

خیر کا ہر راستہ غارِ حرا
جملہ امراضِ جہاں کے واسطے

کامل و اکمل شِفا غارِ حرا
نعت گو شعرا کا عصری شعور انھیں اس بات پر بھی ابھارتا ہے کہ وہ حضورِ اکرم ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں عمل آمادہ ترغیبی متن کو شعری آئینہ بنا کر پیش کریں۔ فی زمانہ امتِ مسلمہ کی سب سے بڑی بھول نبی کریمؐ کی غیر مشروط شفاعت کا تصور ہے۔ شفاعتِ رسول ﷺ کی امید پر معاشرے میںہر طرح کی بے راہ روی عام ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شعرا نعت کے پردے میں تعلیماتِ رسول ﷺ کی اصل روح کی طرف اپنے قارئین کو متوجہ کرتے ہیں۔ ’’برگِ نعت‘‘ کے شاعر نے بھی شفاعت کا اصل تصور شعری قالب میں ڈھالتے ہوئے، اتباعِ سنت کی شرط لگائی ہے:
آپؐ کے رستے پہ چلنا شرط ہے
مستند ہے گو شفاعت آپؐ کی
ساتھ ہی اس حقیقت کا بھی بر ملا اظہار کردیا ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ کی باتیں یعنی سنتِ رسولﷺکو نظر انداز کردینے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے:
زمانہ اُس کو خس و خاک میں بدلتا ہے
ہوا میں جو بھی اُڑائے رسولؐ کی باتیں
کتاب میں ایک مثنوی بھی شامل ہے جس میں تاریخی واقعات اور سیرتِ سرورِ کائنات ﷺ کے نقوش ،آئینۂ شعر میں جگمگا رہے ہیں۔ مثنوی کے آخری اشعار میں ’’استغاثہ‘‘ پیش کیا گیا ہے۔کہتے ہیں:
ہم کہ پاتال میں گرتے ہی چلے جاتے ہیں
ظلمتِ دہر میں گھِرتے ہی چلے جاتے ہیں
روشنی ہم کو ہدایت کی عطا کردیجے
دامنِ یاس کو امید سے پھر بھر دیجے
نامور پھر سے ہوں کچھ اہلِ دول کی صف میں
سُرخرو ہم بھی ہوں اقوام و ملل کی صف میں
اور پھر سلام پیش کرتے ہوئے مثنوی کو اختتام سے ہم کنار کیا ہے:
آپؐ کے ذکر کی رفعت پہ سلام و رحمت
آپؐ کی فکر و ہدایت پہ سلام و رحمت
آپؐ کی رحمت و رافت پہ سلام و رحمت
آپؐ کی وسعتِ رحمت پہ سلام و رحمت
مجھے ’’برگِ نعت‘‘ کے شعری نگارخانے کے فکری کینوس(canvas) پر شاعر کی تخلیقی دانش میں تاریخی شعور، اپنی کم مائیگی کا احساس اور عہد کی تیرہ فضا کو تعلیماتِ رسول ﷺ سے جگمگانے کی شدیدآرزو نظر آتی ہے۔
شاعر نے ذاتی احساس کوامتِ مسلمہ کے اجتماعی شعور کاحصہ بناکر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ اس مجموعۂ نعت کو قبولیت کی پاکیزہ فضا ؤں سے نوازے، نذر عابد صاحب کو اس کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتاہوں۔
ڈاکٹر عزیزؔ احسن
ڈائریکٹر نعت ریسرچ سنٹر کراچی
بدھ:۲۹؍جمادی الثانی ۱۴۴۳ھ؁
مطابق: دوم فروری۲۰۲۲ئ؁

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...