Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > برگ نعت > مثنوی سیرتِ رسولِ مقبولﷺ

برگ نعت |
حسنِ ادب
برگ نعت

مثنوی سیرتِ رسولِ مقبولﷺ
ARI Id

1689950402311_56116808

Access

Open/Free Access

Pages

۸۳

مثنوی سیرت ِ رسول ِ مقبول ﷺ

وَمَا أَرْسَلْنَاکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِینَ
اور ہم نے تمھیں نہیں بھیجا مگر رحمت سارے جہانوں کے لیے
الانبیآئ:آیت۱۰۷

اک جہالت کی گھٹا چھائی تھی دُنیا بھر میں
ظلم ہی ظلم بپا رہتا تھا بحر وبر میں

خیر اور شر میں کوئی فرق نہ کر سکتا تھا
ظلم کا سیل کسی وقت بپھر سکتا تھا

رحمتِ باری جو پھر جوش میں آئی یکبار
اور نمایاں ہوئے ہر سمت بدلتے آثار

وادیٔ بطحا میں اک نور برسنے کو تھا
ابرِ رحمت کوئی بھر پور برسنے کو تھا

تیرہ و تار فضاؤں کا مقدر چمکا
فرقِ افلاک پہ اک ماہِ منور چمکا

جبر کی رات چھٹی ، مہرِ نبوت اُبھرا
ظلم کی رات کٹی ، مہرِ نبوت اُبھرا

دشتِ گُم راہی کی راہوں میں ہدایت پھیلی
ہر طرف روشنیٔ رحمت و رافت پھیلی

خلوتِ خاص میں جبریلِ امیں ؑ آئے تھے
اور پیغام ِ خدا اُن کے لیے لائے تھے

زملونی کی صدا گوشِ خدیجہؓ نے سُنی
راہِ اسلام اُسی لمحے میں فی الفور چُنی

ٹھیک آغازِ رسالت میں علیؓ ساتھ رہا
زیدؓ و بوبکرؓ نے بھی آپؐ کو لبیک کہا

اقربا کو جو بلایا کہ مرا ساتھ تو دو
میرے ہاتھوں میں محبت کا ذرا ہاتھ تو دو

سُورما جتنے بھی بیٹھے تھے وہ خاموش رہے
سر بہ زانو تو کئی چہرہ بہ آغوش رہے

ایک کم سن جو علیؓ ابنِ ابی طالبؑ تھے
اُٹھ کے گویا ہوئے یوں سب پہ وُہی غالب تھے

گرچہ کمزور ہوں پر آپؐ کا ساتھی ہوں میں
دُنیا و عقبیٰ میں بس آپؐ کا بھائی ہوں میں

کوہِ فاران کی چوٹی سے بلایا سب کو
حق کا پیغام محبت سے سنایا سب کو

اہلِ شرک اپنی عداوت کی حدوں سے گزر ے
اور شقی اپنی شقاوت کی حدوں سے گزرے

دین کے واسطے اک کعبۂ امکاں ٹھہرا
ابنِ ارقمؓ کا مکاں مرکزِ ایماں ٹھہرا

شہر والوں کے مظالم کی کہانی کہتی
خوف کی ایک فضا سر پہ مسلّط رہتی

سب قبیلوں نے کیا عزم نرالا آخر
آلِ ہاشم کو دیا دیس نکالا آخر

میزباں اُن کی بنی شعبِ ابی طالبؑ تھی
کیسی قسمت کی دھنی شعبِ ابی طالبؑ تھی

بیعتِ عقبہ ہوئی ، اہلِ مدینہ آئے
وُہ بھی یہ چاہتے تھے اُن کو بھی جینا آئے

رات ہجرت کی پھر آئی کہ مدینے جائیں
اور مدینے کی طرف خاص خزینے جائیں

گھر سے نکلے تو کئی ہاتھ تھے تیغیں تانے
دستِ قدرت نے بکھیرے سبھی تانے بانے

دوست اک ساتھ رہا سارے سفر میں حاضر
دُوسرا ڈٹ کے رہا کارِ نبیؐ کی خاطر

روز کہتے ہوئے جاتے تھے ، حضورؐ آتے ہیں
لوگ دوڑ ے ہوئے آتے تھے ، حضورؐ آتے ہیں

بچیاں جھوم کے گاتی تھیں طرب کے نغمے
خاص لہجے میں ، عجب لے میں ، عرب کے نغمے

آرزو تھی یہ ہر اک دل میں کہ امکان بنیں
سرورِؐ ہر دو جہاں اُس کے ہی مہمان بنیں

سب کا دل رکھنے کو پھر شاہؐ نے فرمایا تھا
اور اِس قول پہ ہر اک کو یقیں آیا تھا

اُونٹنی بیٹھ گئی جس کے بھی گھر کے آگے
بس سمجھ لو کہ مقدر ہیں اُسی کے جاگے

قرعۂ فال پڑا پھر ابو ایوبؓ کے نام
اُن ہی کے گھر میں ہوا رحمت ِ عالم ؐ کا قیام

جاں نثاری میں تھے انصارِ مدینہ کامل
بُردباری میں تھے انصارِ مدینہ کامل

جاں سُپاری میں تھے انصارِ مدینہ کامل
رسمِ یاری میں تھے انصارِ مدینہ کامل

دو گروہوں میں مواخات کی رکھی بنیاد
یوں معیشت میں مساوات کی رکھی بنیاد

ماننے والوں کو سکھلائے تمدن کے اصول
اور نمونہ تھے سبھی کے لیے افعالِ رسولؐ

اہلِ صفّہ بھی تھے اخلاص کے پیکر سارے
سیکھتے اور سکھاتے تھے وُہ مل کر سارے

مسئلہ ایک مگر تھا یہ مسلمانوں کو
ایک خطرہ تھا مسلسل ہی یہ ایمانوں کو

تھے مخالف پہ بہ ظاہر وہ موافق ہوتے
اہلِ ایماں کے مقابل میں منافق ہوتے

نت نئی سازشیں ہر روز وُہ کرتے رہتے
جھوٹ میں طاق تھے ، الزام بھی دھرتے رہتے

اہلِ مکہ بھی عداوت میں بڑھے جاتے تھے
کوئی دن تھا کہ لڑائی کے لیے آتے تھے

ایک دن بدر کے میدان میں فوجیں آئیں
اور طغیانی میں پھر جنگ کی موجیں آئیں

کفرو ایمان کچھ اِس طرح مقابل آئے
جیسے مقتول خوشی میں پسِ قاتل آئے

پُوری دُنیا میں یہی راہِ ہدایت پر تھے
تین سو تیرہ نفس حق کی حفاظت پر تھے

ایک گھمسان کا رن ایسا پڑا تھا اُس دن
جب کہ ابلیس بھی مایوس کھڑا تھا اُس دن

ربِّ کعبہ نے فرشتوں کی مدد بھیجی تھی
فتح مل جانے کی گویا کہ سند بھیجی تھی

عتبہ و شیبہ کا اُس روزنصیبا پُھوٹا
بُو جہل قتل ہوا، کفر کا غلبہ ٹوٹا

بعد اُس کے بھی فلک نے کئی منظر دیکھے
معرکہ ہائے اُحد خندق و خیبر دیکھے

کتنے غزوات میں اللہ نے نصرت کی تھی
قوتِ کفر اِسی طرز میں غارت کی تھی

ایک وقت آیا کہ عمرے کی سعادت کے لیے
یادِ کعبہ میں نکل آئے زیارت کے لیے

کچھ صحابہؓ بھی تھے ہمراہِ رسولِ اکرمؐ
راہِ تشویق میں ہر آنکھ تھی گویا پُرنم

کعبے جانا یوں سرِ عام گوارا کب تھا
اہلِ مکہ کو یہ اقدام گوارا کب تھا

دشمنی چونکہ ازل ہی سے تھی دل میں پالی
مکہ جانے میں بہر طور رکاوٹ ڈالی

طے یہ پایا کہ مسلمان پلٹ جائیں گے
سال بھر بعد پھر عمرے کے لیے آئیں گے

مصلحت پیش رہی ، صُلح کی تحریر لکھی
جوش سے بچتے ہوئے ہوش کی تدبیر لکھی

یوں بظاہر ہوئی پسپائی پہ حیرانی سی
اہلِ ایماں کو ہوئی تھوڑی پریشانی سی

اُن کے مایوس دلوں پر یوں سکینت اُتری
سورہ فتح کی صورت میں بشارت اُتری

پھر مسلمان پلٹ آئے مدینے کی طرف
ایک پُر امن سمندر کے سفینے کی طرف

پُرسکوں دور ملا امن کے پیغمبرؐ کو
تاکہ پیغامِ خدا جا سکے دُنیا بھر کو

بادشاہوں کو مکاتیب لکھے دعوت کے
ایلچی پھیل گئے چاروں طرف حضرتؐ کے

کچھ نے لبیک کہا اور وُہ مامون رہے
کچھ نے انکار کیا اور وُہ ملعون رہے

کچھ بھی انجام ہوا، کارِ نبوت تو ہوا
پُوری دُنیا کے لیے درسِ ہدایت تو ہوا

امن قائم تھا مدینہ و مضافات کے بیچ
وسوسے کوئی نہ آتے تھے خیالات کے بیچ

دفعتاََ خبریں مدینے میںیہ آئیں غم ناک
عہد شکنی میں ہوئے چند قبائل بے باک

حکم صادر ہوا دشمن کی ذرا کھوج رہے
گھوڑے تیار رہیں اور بہم فوج رہے

حکمت و آگہی اور طالعِ بیدار بہم
کچھ ہی عرصے میں ہوا لشکرِ جرّار بہم

عزم و ہمت میں جو ایمان کا ادغام ہوا
جانبِ مکہ رواں لشکرِ اسلام ہوا

سرفروشی کے تھے جذبات فراواں دل میں
بڑھتے جاتے تھے لیے شمعِ فروزاں دل میں

جیسے ہی سنتے تھے فرمانِ رسولؐ برحق
بس ہوئے جاتے تھے قربانِ رسولؐ برحق

آخرش وادی بطحا میں یہ لشکر اُترا
صورتِ قہرو غضب کفر کے سر پر اُترا

چشمِ دشمن میں ہوا فوجی بہاؤ روشن
ہر سپاہی نے کیا اپنا الاؤ روشن

حق کی بیعت کے لیے لوگ چلے آتے تھے
اور ایمان کی دولت بہ رضا پاتے تھے

حق بجانب تھا بظاہر وُہ یہ کلمہ کہہ کر
بول اُٹھا کوئی جذبات کی رو میں بہہ کر

آج بدلے کا ہے دن ہو گا برابر بدلہ
کچھ بھی ہو، لیں گے مظالم کا سراسر بدلہ

جب سُنا رحمتِ عالم ؐ نے تو فوراََ جھڑکا
آج بدلے کا نہیں دن ہے یہ رحمت والا

امن کا ، چین کا گہوارہ فلک نے دیکھا
فتحِ مکہ کا یہ نظارہ فلک نے دیکھا

کیسے فاتح تھے ، کجاوے پہ جُھکے آتے تھے
عاجزی چہرۂ انور پہ لیے آتے تھے

ایک چھتنار پرِ کاہ ہوا تھا اُس دن
گھر عدو کا بھی پنہ گاہ ہوا تھا اُس دن

کیسی طغیانی تھی اُس بحرِ کرم میں اُس روز
ایک اعلان ہوا صحنِ حرم میں اُس روز

رحمتِ عام ہے سب کے لیے کافی لوگو!
عامتہ النّاس کو ہے عام معافی لوگو!

پھر بنے شیرِ خدا شانۂ اقدس کے سوار
جتنے بُت صحن ِ حرم میں تھے کیے سب مسمار

شرک رُخصت ہوا کعبے کی فضا سے آخر
کفر معدوم ہوا شہرِ خدا سے آخر

کان سُنتے تھے تو کانوں کو یہ بھاتی تھی صدا
ہرطرف نغمۂ توحید کی آتی تھی صدا

کیسی حکمت سے ، تدبر سے سمیٹا ہر کام
پیش آنے ہی نہ پایا کوئی خونیں اقدام

شہر سے دُور کہیں لوگ مگر آئے تھے
کچھ قبیلے تو بغاوت پہ اُتر آئے تھے

اپنا سب مال و منال ، اسپ و شترلائے تھے
اِن کی سرکوبی کو پھر شاہؐ نکل آئے تھے

نصرتِ حق کی ، خُداوندی مدد کی یادیں
پھر ہوئیں تازہ وُہی بدرو اُحد کی یادیں

فضلِ ربّانی ہوا، جنگ کا ثمرہ پایا
معرکہ ختم ہوا، مالِ غنیمت آیا

بسکہ منظور تھی تالیفِ قلوبِ لشکر
اہلِ مکہ کو ملا مالِ غنیمت بڑھ کر

نوجوانانِ مدینہ کی کسی مجلس میں
بحث تھی کون سی ہو سکتی ہے حکمت اِس میں

سر کٹا نے میں دریغ ہم بھی نہیں کرتے ہیں
بات کرتے ہیں ، بزرگوں سے مگر ڈرتے ہیں

دل میں ارمان تو آنکھوں میں نمی پاتے ہیں
اپنے حصے میں کہیں ہم تو کمی پاتے ہیں

تھی خبر ایسی کہ لشکر میں بھی پھیلی آخر
بات دربارِ رسالتؐ میں یہ پہنچی آخر

ایک تشویش سی لہرائی رُخِ انور پر
ناگواری سی تھی اک چہرۂ پیغمبرؐ پر

دھیان کرتے ہوئے بیکار کی سوچوں کی طرف
خود حضورؐ آگئے انصار کے خیموں کی طرف

اور فرمایا ملے دولتِ دُنیا سب کو
اور تم لے کے چلو ساتھ رسولِؐ ربّ کو

اب کہو کیسی تجارت ہے یہ برکت والی
ترکِ دُنیا کے عوض دولتِ عقبیٰ پالی

سُن کے کہرام مچا اہلِ صفا کی صف میں
ایک طوفان اُٹھا اہلِ وفا کی صف میں

داغ یوں اپنی ندامت کے سبھی دھوتے تھے
گریہ کرتے تھے کہ انصار لہو روتے تھے

فتحِ مکہ ہو کہ ہوں بدرو حُنین و خیبر
اہلِ کیں کھیت رہے پیشِ رسولِؐ اطہر

اہلِ ایمان کے کردار نکھرتے ہر بار
حق کے معیار پہ وہ پورا اُترتے ہر بار

اب کے در پیش مگر ایک محاذ ایسا تھا
جس سے معلوم یہ ہو کون ، کہاں ، کیسا تھا

شاہِ غسّان نے اسلام کو للکارا تھا
قابلِ دید وہ ایمان کا نظارہ تھا

اپنی مسجد میں صحابہؓ کو بلایا شہہؐ نے
حق کے رستے میں نکلنے کا بتایا شہہؐ نے

خود کو آزاد کریں انجمن و محفل سے
دام و درہم بھی کریں جمع خلوصِ دل سے

حسب ِ توفیق نہیں ، اِس سے بھی آگے بڑھ کر
سب چلے آتے تھے ہاتھوں میں لیے مال و زر

سرفروشانِ وفا دشتِ بلا میں نکلے
جاں نثارانِ نبیؐ راہِ خدا میں نکلے

سخت مشکل میں گھرے اہلِ نفاق آتے تھے
کینہ و بغض کی آتش میں جلے جاتے تھے

راہ سنسان ، کٹھن اور تھیں جانیں رنجور
کالے کوسوں پہ پڑی منزلِ مقصود تھی دُور

گرمیٔ راہِ تبوک ایسی تھی ، جلتے تھے بدن
بھوک اور پیاس کی آتش میں پگھلتے تھے بدن

صبر کا جب کہیں پیمانہ چھلک اُٹھتا تھا
اہلِ ایماں کا وہیں شوق بھڑک اُٹھتا تھا

جنگِ خوں ریز کے آثار لیے اُترا تھا
دشمن اک لشکرِ جرّار لیے اُترا تھا

گرچہ تعداد میں برتر تھا مقابل لشکر
لیکن اللہ کی رحمت تھی مُسلمانوں پر

اک فضا خوف کی چھائی تھی عدو کی صف پر
ربّ نے اک دھاک بٹھائی تھی عدو کی صف پر

ہو گئے وعدہ و پیمان بِنا جنگ کیے
سُرخرو ٹھہرے مسلمان بِنا جنگ کیے

زندگی امن کی اور چین کی جینے کی طرف
قافلہ شوق کا لوٹ آیا مدینے کی طرف

جس کے بیٹوں نے کبھی ظلم و ستم ڈھایا تھا
اب وُہی سارا عرب زیرِنگیں آیا تھا

جن قبائل میں تھی صدیوں سے عداوت جاری
اب ہوئے جاتے تھے اک دُوجے پہ صدقے واری

ربّ کی رحمت سے ملا اُن کو نبی ؐ کا سایا
کچھ کو دُنیا بھی ملی ، دین تو سب نے پایا

اپنے دامن میںخداوند کی رحمت لے کر
ایک دن آیا عجب ایک بشارت لے کر

قصدِ ذی شان کیا حج کا رسولِؐ حق نے
عام اعلان کیا حج کا رسولِؐ حق نے

ایک سرشاری کا عالم تھا مدینے بھر میں
ہر کوئی جانے کو تیار تھا ربّ کے گھر میں

زیرِ نگرانیِ پیغمبرِؐ طیّب ، طاہر
قافلہ حج کا چلا جانبِ مکّہ آخر

راستے بھر میں جو آتے تھے قبائل اکثر
کچھ نکل پڑتے تھے ہمراہِ رسولِؐ اطہر

جن کو تھوڑے سے میسّر جو وسائل ہوتے
وُہ بھی اِس قافلۂ خیر میں شامل ہوتے

خیر سے ختم کیا جب یہ سفر لوگوں نے
کلمئہ شکر پڑھا کھول کمر لوگوں نے

ہادیٔ حق کے تتبع میں جو باندھے احرام
سب کی کوشش تھی کہ سمجھیں سبھی حج کے احکام

حکمِ پیغمبرِؐ دیں تھا کہ مناسک سیکھو
حج کا ہر رُکن مرے طرزِ عمل سے جانچو

جب حضورؐ اُترے حرم میں تو حرم شاداں تھا
اپنی قسمت پہ تو خود صحنِ حرم نازاں تھا

اوج پر اُمّتِ احمدؐ کا ستارہ دیکھا
یومِ عرفہ کو فلک نے وُہ نظارہ دیکھا

سرزمینِ تہی دستور کو رونق بخشی
آپؐ نے جب جبلِ نُور کو رونق بخشی

ایک دریائے فصاحت تھا کہ بہہ نکلا تھا
لفظ ہوتے ہی ادا دل میں اُتر جاتا تھا

خطبہ ارشاد کیا ایسا رسولِؐ حق نے
ایک دستور دیا ایسا رسولِؐ حق نے

دلنشیں ایسا وُہ خطبہ تھا شہہِ عالمؐ کا
تاقیامت ہے جو منشور بنی آدمؑ کا

نسل کے جتنے تفاخر تھے مٹایا سب کو
اور مساوات کا اک درس سکھایا سب کو

جان اور مال کو تقدیس عنایت کردی
آبرو فرد کی نسلوں کی امانت کردی

پوری اُمّت کو عمل کا یہ نمونہ بخشا
اپنے قانون کو خود ذات پہ لاگو رکھا

احسن انداز میں پہنچا دیا پیغامِ خدا
دیں کی تکمیل کی صورت ملا انعامِ خدا

بابِ روشن ہے یہ سیرت کا ، یہ درسی حج ہے
وقت کے سینے میں محفوظ وداعی حج ہے

سورۂ نصر تھی تکمیلِ نبوّت کی نقیب
وقتِ رُخصت کہیں پیغمبرِؐ حق کا تھا قریب

حج سے آ کر ابھی گزرا ہی تھا کچھ وقتِ قلیل
طبعِ پیغمبرِؐ دیں رہنے لگی قدرے علیل

چلنا پھرنا ہوا موقوف کہ جانا ٹھہرا
حجرۂ عائشہؓ اب اُن کا ٹھکانا ٹھہرا

جسمِ اطہر پہ حرارت کی جو شدّت ہوتی
دیکھتے سب رُخِ انور پہ دمکتے موتی

گیلے ہاتھوں کو جبیں پر بھی وُہ گاہے رکھتے
اپنے پیاروں کے دلوں پروُ ہ یوں پھاہے رکھتے

پیاری بیٹی کے لیے غم کے تھے عنوان بہت
اہلِ بیتؓ اور صحابہؓ تھے پریشان بہت

آخرِ کار جو ہونی تھی وُہ ہو کر ہی رہی
پردہ فرمایا نبیؐ نے ، کڑی اُفتاد پڑی

موسمِ گریہ اُتر آیا تھا ہر اک گھر میں
صف تھی ماتم کی بچھی آج مدینے بھر میں

ایک نورانی جلوس آیا فرشتوں والا
رُوحِ قدسی جو چلی سوئے رفیقِ اعلیٰ

غم کا اظہار کیا خون کے آنسو رو کر
اہلِ ایمان پریشاں تھے سہارا کھو کر

لیکن اللہ پہ تھا سب کو یقینِ کامل
دولتِ صبر ہوئی خیر سے سب کو حاصل

رحمت و رافت و عظمت کا یہ محور ٹھہرا
منبعِ جود و سخا روضۂ اطہر ٹھہرا

استغاثہ ہے حضورؐ آپؐ کے در کے آگے
سر جھکائے ہیں کھڑے آپؐ کے گھر کے آگے

کپکپی خوف کی جسموں پہ ابھی طاری ہے
آنکھ سے اشکِ ندامت کی جھڑی جاری ہے

راہ گُم کردہ ہوئی آپؐ کی اُمّت ساری
ہم نے چہروں پہ ملی دہر کی ذلّت ساری

ہم نے مانا ترے آئین کو ہم نے چھوڑا
سورۂ عصر کو ، والتّین کو ہم نے چھوڑا

تیری تعلیم کے انوار سے ہم دُور ہوئے
تیری کشتی ، ترے پتوار سے ہم دُور ہوئے

اور طوفانِ حوادث نے ہمیں گھیرا ہے
اپنے گھر روز بلاؤں کا کوئی پھیرا ہے

ہم کہ پاتال میں گرتے ہی چلے جاتے ہیں
ظلمتِ دہر میں گھرتے ہی چلے جاتے ہیں

روشنی ہم کو ہدایت کی عطا کر دیجے
دامنِ یاس کو اُمید سے پھر بھر دیجے

ہو نگاہِ کرمِ خاص ہمارے حق میں
تاکہ حالات ہوں کچھ راس ہمارے حق میں

علم و تحقیق کی دولت ہمیں ارزانی ہو
دین و دُنیا کی کمائی کی فراوانی ہو

نامور پھر سے ہوں کچھ اہلِ دول کی صف میں
سُرخرو ہم بھی ہوں اقوام و ملل کی صف میں

آپؐ کے نام کی عظمت پہ خدا کی رحمت
آپؐ کے کام کی عظمت پہ خدا کی رحمت

آپؐ کے ذکر کی رفعت پہ سلام و رحمت
آپؐ کی فکر و ہدایت پہ سلام و رحمت

آپؐ کی رحمت و رافت پہ سلام و رحمت
آپؐ کی وسعتِ رحمت پہ سلام و رحمت

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...