Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

دو افسانہ نگار: غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان |
حسنِ ادب
دو افسانہ نگار: غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان

اردو افسانہ ۔۔۔موضوعات و ارتقا
ARI Id

1689952519654_56116824

Access

Open/Free Access

Pages

۷

اردو افسانہ۔۔۔ موضوعات و ارتقا
ادب کا انسانی زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ادب صرف معاشرتی زندگی کا عکاس ہی نہیں بلکہ اس میں زندگی کی نا ہمواریوں کا دکھ اور شخصی اور اجتماعی زندگی کا عکس بھی ملتا ہے۔’’ادب‘‘زندگی سے جنم لیتا ہے۔ ایک کے بغیر دوسرے کا تصور نا ممکن ہے۔ معاشرے میں رو نما ہونے والے سارے عناصر ادب پر اثرانداز ہوتے ہیں۔افسانے میں ایک طرف تخلیق کار کی ذات کا پتہ چلتا ہے تو دوسری طرف اس سے انسانیت کی اعلیٰ اقدار بھی جھلکتی ہیں۔ادب معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور سماجی، تہذیبی اور فکری رجحانات و میلانات پر اثر انداز بھی ہوتا ہے۔ ادب معاشرے کا آئینہ اور ترجمان ہے جوتمام حقیقتوں کو من وعن پیش کرتا ہے۔ یعنی ادب ہی کے ذریعہ سے کسی بھی بستی، علاقے،خطے،یا ملک و قوم کے باشندوں کی ثقافت،رہن سہن، اطواراور ان کی بودوباش کا علم ہوتا ہے۔ یہ ادب ہی ہے کہ جس کی بدولت کسی بھی قوم کے رہنے والوں کے مجموعی انداز فکر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ادب اور زندگی ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ابولخیر کشفی ادب کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ادب کے وسیلے سے مختلف سماجوں اور معاشروں نے اپنے مجموعی اندازِ فکر،مختلف رویوں اپنی ثقافت اور اپنے شعور کا اظہار کیا ہے۔ادب کو ہر مہذب معاشرے نے نہ صرف گہری توجہ کا مستحق ہی نہیں سمجھا بلکہ ادب کے آئینے میں اپنے بطون کو پیش کیا ہے۔‘‘(1)
افسانہ جدید ادب کی ایک صنف ہے۔جس میں افسانوی انداز میں حقیقی واقعات کو بیان کیا جاتا ہے۔یہ ناول کے مقابلے میںخاصا مختصر ہوتا ہے۔افسانے میں ناول کی طرح کہانی کو پھیلایا نہیں جاتا بلکہ مختصر طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ افسانے سے متعلق کہا جاتا ہے کہ اصل افسانہ وہ ہے جو ایک ہی نشست میں پڑھا جا سکے انگریزی ادب میں افسانے کے لیے’’Short Story‘‘کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔اردو میں افسانے کی اصطلاح انگریزی سے آئی۔بیسویں صدی میں اردو افسانے کا آغاز ہوا۔ افسانے سے قبل ناولوں اور لمبی لمبی داستانوں کا دور تھا۔ لوگوں کے پاس جنوں پریوں اور جھوٹی من گھڑت کہانیوں کو سننے کے لیے وافر وقت موجود تھا۔ترقی کے دور کے ساتھ ہی لوگوں کی مصروفیات بڑھتی گئیں۔اور لمبی داستانیں پڑھنے اور سننے کے لیے وقت کی قلت ہونے لگی۔ افسانے کو وجود میں لانے کا مقصد ہی انسان کی بڑھتی ہوئی مصروفیت ہے۔ ایک مصروف انسان کم ترین وقت میں افسانے سے اپنے ذوق کی تسکین کر سکتا ہے۔ افسانہ سماجی مسائل سے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
افسانہ ایک ایسی صنف ہے جس نے بہت کم عرصے میں اپنی الگ اور نمایاں شناخت قائم کی ہے۔افسانہ اپنے عصری حالات کو بیان کرتا ہے۔ افسانہ نہ صرف معاشرے کے مجموعی رویوں کو پیش کرتا ہے بلکہ زندگی کے تمام پہلوؤں کا بھی احاطہ کرتا ہے۔افسانہ کسی بھی معاشرے کی تاریخ کو اپنے اندر سمونے کا ہنررکھتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے دلخراش واقعات اور شہادت و ہجرت کے مناظر ہوں یا غربت کی چکّی میں پستے ہوئے غریب مزدور ہوں،قدرتی آفات ،سیلاب و زلزلے ہوں یا ڈکٹیٹر شپ ، مارشل لائ،کرپشن کرتے ہوئے سیاسی مگر مچھ ہوںیا مردوں کے معاشرے میں ہوس کا نشانہ بنتی ہوئی خواتین ، افسانے کی خاصیت یہ ہے کہ وہ سماج کے بے رحم رویوں کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ یوں وہ تاریخ میں جیتی جاگتی کہانیوں کی صورت سدا زندہ رہتا ہے۔
پاکستان کی سماجی زندگی کے مطالعہ کے لیے اردو افسانہ نے جس نوع کا مواد ہمارے سامنے رکھاوہ ہماری سماجی تاریخ کا اہم ترین باب ہے۔ہم اردو افسانے کے آئینے میں پاکستان کی بدلتی ہوئی صورتحال کا جس طرح ادراک کر پا تے ہیں۔۔۔۔وہ تحقیقی کتب کے ذریعے تو ممکن ہے لیکن اس نوع کے مطالعہ میں جس چیز کی کمی رہ جائے گی، وہ خودپاکستانی سماج کی جیتی جاگتی تصویر ہوگی۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ:
’’ناول وہ لوگ پڑھتے ہیں جن کے پاس روپیہ پیسہ ہے اور فرصت و فراغت بھی انہی کے پاس ہوتی ہے۔ افسانہ عام انسانوں کے لیے لکھا جاتا ہے جن کے پاس نہ دولت ہے اور نہ وقت اور نہ فرصت یہاں تو اختصار ہی انتہائے کمال ہے۔‘‘(2)
جس طرح ایک باغ میں رنگ برنگے پھول ملتے ہیں،اسی طرح ہمارے اردو ادب کے گلشن میں بھی افسانے کی بے شمار تعریفیں ملتی ہیں،جن میں زمانے کے ساتھ ساتھ وسعت پیدا ہوتی رہتی ہے۔ نئے مشاہدوں،تجربوں اور جدید حالات کے زیر اثر مفاہیم کے نئے باب کھلتے رہتے ہیں۔ لہٰذا افسانے کے متعلق کسی بھی حتمی تعریف یا حرف آخر پر پہنچناآسان نہیں۔ تاہم افسانہ ’’فارسی‘‘زبان کا لفظ ہے۔ افسانے کے لغوی معنی سرگزشت، جھوٹی کہانی، قصہ،روداد یا کہانی حال وغیرہ کے ہیں۔ کہانی، داستان،قصہ،افسانہ بلحاظ معنی تو ایک جیسے ہی معلوم ہوتے ہیں ،تاہم ان کے مفاہیم میں خاصا فرق ہے جو انہیں ایک دوسرے سے الگ بناتے ہیں۔
مختلف لغات میں اس کے درج ذیل معنی بیان کیے گئے ہیں۔فرہنگ آصفیہ میں افسانے کے یہ معنی درج کیے گئے ہیں:حکایت بے اصل ، قصہ ، کہانی، من گھڑت کہانی، گھڑا ہوا قصہ، جھوٹی بات، سرگزشت حال ، ماجرہ ، ذکر۔۔۔’’علمی لغت ‘‘کے میں افسانے کے یہ معنی بیان ہوئے ہیں: داستان ، قصہ ، کہانی ، سرگزشت ، حال ، روداد ، مشہور ، اصل بات ، طویل بات چرچا ،ذکر۔۔۔۔۔ جبکہ ’’نسیم الغات ‘‘ کے مطابق:’’افسانہ ،مذکر ، قصہ ، کہانی ، مشہور ، جھوٹی بات اور شارٹ سٹوری کہلاتا ہے۔مولوی نورالحسن کی نور الغات کے مطابق افسانے کے درج ذیل معنی ہیں:
’’افسانہ (ف بالفتح ) ذکر ، داستان ، قصہ ، کہانی سرگزشت۔‘‘(3)
مختصر افسانہ ایسا نثری بیانیہ ہے جسے آدھ گھنٹے سے ایک یا دو گھنٹوں کے وقت میں پڑھا جا سکے۔اردو افسانے کی صنف مغربی ادب سے آئی اور اس نے رفتہ رفتہ ہمارے ہاں ارتقائی مدارج طے کیے۔افسانہ سب سے پہلے ترجمہ کی شکل میں جبکہ بعد ازاں تخلیقا ت کی صورت پروان چڑھا۔ مغرب سے آنے والی اس صنف کے پنپنے اور بارآور ہونے کے لیے یہاں زمین پہلے ہی سے ہموار تھی۔
یوں تو مختلف ادوار میں مشرقی اور مغربی ناقدین افسانے کی بے شمار تعریفیںکرچکے ہیں۔لیکن ان میں سے کوئی بھی تعریف حتمی اور کلی نہیں قرار دی جا سکتی۔ تاہم انگریزی ویبسٹرڈکشنری میں افسانہ کی یہ تعریف بیان کی گئی ہے:
’’A Story in Prose varying videly in length, but Shortly than either a novel or a novelett aund conectrating on a single effect which the writer wants to achive’’ (4)
افسانہ ایک ایسی صنف سخن ہے جس میں مصنف کسی کردار،ماحول،واقعے اور جذبے کی کہانی کو فنی تقاضوں کے تحت بیان کرتا ہے،فن افسانہ نگاری وحدت تاثر ،اشاریت، اختصار،ایمائیت اور مواد کی فنکارانہ ترتیب کا تقاضا کرتا ہے۔مختلف ادوار میں افسانہ مختلف ادبی اصناف سے متاثر ہوا ، ناول سے اس نے فن لیا اور ضرورت کے مطابق اس میں تبدیلیاں کیں ، ڈرامے سے اس نے سادگی، اثر اوراختصار لیااور داستان سے منظر کشی لیکن ان تمام خصوصیات کو اس نے اس طرح اپنایا کہ قاری کو پڑھتے ہوئے ناول داستان یا ڈرامے کا گمان بھی نہ گزرے۔انسائیکلوپیڈیا آف لٹریچر نے افسانے کی تعریف یوں کی ہے:
’’مختصر افسانہ سب سے زیادہ قدرتی صنف ہے اس کی پہچان خواہ کسی بھی انداز سے کرائی جائے یہ مختصر طورپر اظہار کا ذریعہ ہی رہتا ہے ، یہ سب سے آزاد طرزِ تحریر ہے کسی بھی قسم کی شاعری سے زیادہ آزاد اور شاید ناول سے بھی زیادہ آزاد طرزِ تحریر ہے۔ ایک افسانے میں وہ سب کچھ ہو سکتا ہے جو ایک نظم یا ناول میں نہ ہو۔ ایک افسانہ ایک نظم ہو سکتا ہے اوربنیادی طورپر ایک ناول،یابیک وقت دونوں ہی ہوسکتا ہے۔ لیکن کوئی بھی نظم مختصر افسانہ نہیں ہو سکتی اور نہ ہی کوئی ناول مختصر افسانہ ہو سکتا ہے۔‘‘(5)
انسانی حیات مسلسل ارتقا پذیر ہے،اسی لیے حرکت و عمل بھی جاری ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگی کے لیے افسانے میںفکری و فنی تبدیلیاںلازمی کرنا پڑیں۔ ایک بہترین افسانے میں درج ذیل خوبیوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔
1۔ افسانے کی بنیادی خوبی اس کا اختصار ہے۔یہ اختصارہی ہے کہ جس کی وجہ سے افسانہ دیگر
اصناف سے ممتاز ہے۔
2َ۔ افسانے میں وحدت کا پایا جانا بھی بہت ضروری ہے۔
3۔ افسانے کو ایسا ہونا چاہئے کہ اسے پڑھنے سے قاری کے جذبات ابھریںاور اسے حقیقت
کا گمان ہو۔
4۔ افسانے میں کرداروں کی تعداد بھیکم ہونی چاہیے۔
سید وقار عظیم افسانے کی تعریف یوں کرتے ہیں:
’’مختصر افسانہ ایک ایسی نثری داستان ہے جسے ہم آسانی سے آدھ گھنٹے سے لے کر دو گھنٹے تک پڑھ سکتے ہیں اور جس میں اختصار اور سادگی کے علاوہ اتحادِ اثر ،اتحادِ زمان و مکان اور اتحادِ کردار بدرجہ اُتم موجود ہو۔‘‘(6)
افسانہ ایک مختصر قصہ ہوتا ہے۔جس میں حقیقی ماحول اور کردار مکمل طور پر پلاٹ سے مطابقت رکھتے ہیں۔ افسانے کی زبان عام فہم ہوتی ہے۔ اس میں معنی خیز الفاظ کا استعمال زیادہ سے زیادہ ہوتا ہے۔افسانے میں طوالت پر قابو رکھا جاتا ہے ، افسانے میں کرداروں کے نفسیاتی تجربات کے ساتھ ساتھ زندگی کے مختلف پہلوؤںکا بھی گہرائی سے مطالعہ کیا جاتا ہے۔
مختصر افسانہ عام طور پر اس کہانی یا قصہ کو کہا جاتا ہے جس میں زندگی کے کسی ایک پہلو کو بیان کیا جائے۔ مختلف ناقدین نے افسانے کی مختلف تعریفیں بیان کی ہیں لیکن ان میں سے کسی تعریف کو بھی حتمی نہیں کہا جا سکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ناقد یا فنکار نے افسانے کے کسی نہ کسی پہلو کو بیان کیا ہے اس کی جامع تعریف نہیں کی۔
مختصر افسانہ ایک ایسی مختصر فکری داستا ن ہے جس میں کسی خاص واقعہ یا کسی ایک خاص کردار پر روشنی ڈالی گئی ہو۔اردو ادب کی دوسری اصناف کی طرح افسانے کے بھی کچھ اجزائے ترکیبی یا کچھ ایسے عناصر ہیں جن کی بدولت اس کا وجود عمل میں آتا ہے۔اجزائے افسانہ میں بعض عناصر بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ان میں پلاٹ ،کردار،ماحول اور فضا خاص طور پر اہم ہیں۔ان سب کو مختصر افسانے کی بنیادی خصوصیات کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔کسی بھی افسانے کے سب اجزاء یعنی عنوان، پلاٹ، کردار، مکالمے،تاثرات کی وحدت اور مجموعی ماحول مل کر ایک سے دوسرے واقعے کے درمیان تعلق پیدا کرتے ہیں۔ واقعات کا آغاز،درمیان اور اختتام سب ایک جمالیاتی توازن کے ساتھ اس طرح جڑے ہوتے ہیں کہ افسانے میں ایک طرح سے مکمل وحدت دکھائی دیتی ہے۔ مختصرافسانے کو نام کی رعایت سے مختصر ہی ہونا چاہیے۔ کیوں کہ ناول کے مقابلے اس کا عملی دائرہ کار ذرا محدود ہوتا ہے۔ ڈاکٹر محمد احسن کے نزدیک:
’’مختصر افسانے کی تعریف یہ ہے کہ وہ چند ایک افراد یا واقعات اور حالات کا بیان ہو۔۔۔ اس کا سیٹ ایک ہی واقعہ یا ایک ہی نقطہ نظر یا کسی ایک ہی نفسیاتی پہلو کا احاطہ کیے ہو۔ افسانے کے لوازم میں ہم کردار نگاری ، منظر نگاری اور مکالمے کے علاوہ اتحاد ومکان اور وحدت تاثر کی شمولیت ضروری سمجھتے ہیں۔‘‘(7)
گویا افسانہ ایک ایسی صنف ہے جس میں کردار ، ماحول ، کسی واقعہ یاجذبے کی کہانی کو خاص فنی تقاضوں کے ساتھ پیش کیا گیاہو۔
اردو افسانے کا ارتقا:
اگرچہ یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ موجودہ مختصر افسانے کا ارتقا شعور کے ایسے بہترین زمانے میں ہواجب ہماری قومی زندگیوں میں ادب ایک طرح سے خاص تعمیری کام سرانجام دے رہا تھا۔اردو افسانے کے ارتقا سے قبل اردو زبان سے متعلق جاننا ضروری ہے۔اردو زبان جس ملک یا قوم میں پیدا ہوئی اس سے پہلے وہاں کئی ارتقا یافتہ زبانیںبھی رواج پا چکی تھیں۔اس لیے جب قصہ گوئی کی طرف توجہ دی جانے لگی تو سب سے پہلے انہی قصوں کو اردو کے قالب میں سمویا گیا جو پہلی زبانوں میں موجود تھے۔اردو کی ابتدا میں سنسکرت، پراکرت اور اپ بھرنش زبانوں کا اہم کردار رہا ہے۔ ویدی ادب بھی قصوں، کہانیوں کے حوالے سے بہت اہم رہا۔ سنسکرت اور دیگر زبانوں کے بعد عربی و فارسی قصص بھی زبان میں شامل ہوتے چلے گے۔ اول تو تراجم کی صورت میں، پھر اس کے بعد منظوم نثری دکنی و شمالی داستانوں سے گزرتے ہوئے یہ سلسلہ فورٹ ولیم کے قصوں کہانیاں تک جا پہنچا۔ اس سب کے بعد تمثیلی قصوں اور ناولوں نے اس تسلسل کو آگے بڑھایا۔ بیسویں صدی میں اخبارات اور رسائل میں قصہ گوئی کا رجحان بڑھا۔ یوں رفتہ رفتہ افسانے کے لیے فضا سازگار ہوئی۔
ٹیکنالوجی کے دور میں وقت اور فرصت کی اہمیت زندگی کے ہر شعبے پر اثرانداز ہوئی ہے۔ اب فن نے اپنے آپ کو ایسے سانچے میں ڈھال دیا ہے جو عین معاشرے کے مزاج کے مطابق ہے۔اس طرح نیا فن پیدا ہوا اور پرانے فن میں تبدیلی آئی۔نئے زمانے کے مزاج کا بہترین فن افسانہ ہے۔ افسانہ کہانی ، قصہ اور داستان کی ارتقائی شکل ہے جو جدید دور کی مصروفیت کے پیش نظر سامنے آئی۔ڈاکٹر پروین اظہر لکھتی ہیں:
’’اردو میں قصے کہانی کی ابتدااٹھارویں صدی سے شروع ہوئی۔ 1857ء کے غدر کے بعد معاشرتی زندگی میں تبدیلی ناول کے آغاز کا سبب بنی تو بیسویں صدی کی ہندوستانی زندگی کے بحران و انتشار نے باقاعدہ مختصر افسانے کی راویت قائم کی۔‘‘(8)
اگرچہ قصے، کہانی سے انسان کا تعلق بہت پرانا ہے۔انسان کی فطرت میں ہی کہانی سے دلچسپی موجود ہے اسی لیے زندگی کی ابتدا سے ہی کہانیوں کا آغاز ہوگیا۔کہانی کا رواج ہر دور میں اور ہر قوم میں رہا تھا۔برصغیر میں بھی کہانی نویسی کی روایت نہایت پرانی ہے جو بعد میں لوک داستان کے فروغ کی وجہ سے اساطیری روپ اختیار کر لیتی ہے۔داستان ایک طویل قصہ یا کہانی کو کہا جاتا ہے جو پہلے زمانے میں انسانی تفریح کے طورپر سنائی جاتی تھی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جوں جوں انسان ترقی کی منازل طے کرتا چلا گیا قصہ و کہانی کا رواج ختم ہو گیا۔ نئے زمانے میں کہانی نے نیا روپ سدھار لیا اور ناول کے روپ میں سامنے آئی اور پھر بیسویں صدی میں افسانے کے روپ میں نظر آئی۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...