Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

دو افسانہ نگار: غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان |
حسنِ ادب
دو افسانہ نگار: غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان

اردو افسانہ(قیام پاکستان کے بعد)
ARI Id

1689952519654_56116826

Access

Open/Free Access

Pages

۱۳

اردو افسانہ(قیام پاکستان کے بعد)
قیامِ پاکستان نے اردو ادب کے ادیبوں کے اذہان اور فکر پر کئی طرح کے اثرات مرتب کئے ہیں۔برصغیر میں جہاں معاشرتی ، معاشی اور سیاسی طور پر انقلاب آیا، وہیں ادب پر بھی اس کے گہرے نقوش مرتب ہوئے۔ یوں دیگر اصناف کی طرح اردو افسانہ پر بھی اس کا اثر دیکھا جا سکتا ہے۔ افسانے میں نئے رجحانات اور نئے موضوعات شامل ہو گئے، اس طرح افسانہ ایک نئے روپ میں سامنے آیا۔قیامِ پاکستان کے بعد اردو افسانے کے موضوعات ہجرت اور فسادات پر مبنی رہے۔ہندوستان کی تقسیم نے ہر طرف انسانی استحصال ،عِصمت دری، لوٹ مار اورقتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ایک طویل عرصے تک لوگوں پر اضطرابی کیفیت طاری رہی اور برصغیر کی عوام ایک ناقابلِ بیان بحران اور کرب کی کیفیت میں مبتلا رہی۔آزادی کے بعد اردو افسانہ جن حالات سے دوچار ہوا ان میں، فسادات ہجرت، مہاجرین کی آباد کاری اور جمہوری نظام کا قیام وغیرہ شامل ہے۔ قیام پاکستان کے بعد کے افسانوں میں آزادی کے نتیجے میں ہونے والی قربانیوں،ہجرت کے واقعات ،شہادتوں،جانی و مالی نقصان وغیرہ کا ذکر ملتا ہے۔ عائشہ سلطانہ لکھتی ہیں:
’’آزادی سے قبل اردو افسانوں کا موضوع اگرچہ وسیع تھالیکن آزادی کے بعدافسانہ نگاروں نے نئے موضوعات کو اپنے افسانوں میں جگہ دی جن میں ہجرت، فسادات و مسائل، مہاجرین کی پناہ گیری وآباد کاری کا انتظام اور ان کی دردناک زندگی کی تصویر کشی وغیرہ اہم ہیں۔‘‘ (12)
ہجرت و فسادات کے موضوع پر لکھنے والے افسانہ نگاروں میں زیادہ تر وہ مصنفین شامل ہیں جو ترقی پسند تحریک سے متاثر یا ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔قیامِ پاکستان کے بعد نئی نسل کے افسانہ نگاروں نے بھی اس موضوع پر قلم اٹھایا۔ ڈاکٹر ظفر سعید کے مطابق فسادات پر لکھے گئے افسانوں میں نئی اور پرانی نسل کے افسانہ نگاروں کی فنی مہارت کا فرق بالکل واضح ہے۔ مگر نقطہ نظر میں سب کے یہاں یکسانیت ہے۔ان لوگوں نے فسادات کے موضوع کو پیش کر تے وقت ترقی پسند نظریے کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔
فسادات کے موضوع پر سب سے پہلے کرشن چندر کا افسانوی مجموعہ ’’ہم وحشی ہیں‘‘ منظرِ عام پر آیا۔اس مجموعے کے دو افسانوں ’’ لال باغ‘‘اور ’’ جیکسن‘‘میں رجعت پسند اور سازشی طاقتوں کے بارے میں بیان کیا گیا جو فسادات کے ذمہ دار تھے۔ افسانہ’’پشاور ایکسپریس ‘‘ اور’’اندھے‘‘میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان ہونے والے حیوانیت سوز واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔
افسانہ ’’ طوائف‘‘میں دو کم سن بچیوں کے لٹنے اور تباہ ہونے کی داستان کو بیان کیا گیا ہے۔ افسانہ’’امرتسر‘‘ میں آزادی سے پہلے اور بعد میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے ماحول کا ذکر ملتا ہے۔منٹونے افسانے تحریر کیے اور انسان کا وحشی روپ دکھایا۔ان کے فسادات کے موضوع پر لکھے گئے بہترین افسانوںمیں’’کھول دو‘‘،’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘،’’ٹھنڈا گوشت‘‘اور’’موذیل‘‘وغیرہ شامل ہیں۔ افسانہ ’’موذیل‘‘ میں ان فرقہ وارانہ فسادات کا ذکرہے جو بمبئی میں برپا ہوئے۔ڈاکٹر فوزیہ اسلم کے مطابق:
’’فسادات کے زمانے میں دو افسانہ نگاروں نے سب سے زیادہ لکھا۔ ان میں ایک کرشن چندر اور دوسرے سعادت حسن منٹو، لیکن جو مرتبہ اور شہرت منٹو کو حاصل ہوئی وہ کرشن چندر کے حصے میں نہیں آئی‘‘۔(13)
عصمت چغتائی کا افسانہ ’’ جڑیں ‘‘ آزادی سے پہلے اور بعد کا منظر نامہ ہے۔حیات اللہ انصاری کے افسانے ’’شکر گزار آنکھیں ‘‘اور’’ماں بیٹا‘‘ میں تقسیم کے وقت ہونے والے خونی فسادات کا ذکر ہے۔اس سلسلے میں بلونت سنگھ کے افسانے ’’نیلا پتھر‘‘ااور’’لمحے ‘‘بہترین افسانے ہیں۔ہندو مسلم فسادات کے زمرے میں لکھے جانے والے علی عباس حسینی کے افسانے ’’ایک ماں کے دو بچے‘‘،’’بوڑھا اور ماں‘‘،’’دیش و دھرم‘‘اہم ہیں۔ ان کے افسانوں میں جہاں ظلم و زیادتی اور انسانی بربریت کا ذکر ملتا ہے وہیں انسان دوستی کے نادرنمونے بھی دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔
خواجہ احمد عباس کے افسانے’’سردار جی‘‘ ،’’میں کون ہوں‘‘ ، سہیل عظیم آبادی کا ’’ اندھیرے میں ایک کرن‘‘، مہندر ناتھ کا ’’پاکستان سے ہندوستان تک ‘‘ ،’’ گالی ‘‘ ،’’چاندی کے تارے‘‘بیدی کا ’’لاجونتی ‘‘محمد احسن کا ’’ او جانے والے‘‘ اوراوپندر ناتھ اشک کا ’’ ٹیبل لیمپ ‘‘ وغیرہ اہم ہیں۔عائشہ سلطانہ لکھتی ہیں:
’’ ترقی پسند تحریک کے بعد افسانہ نگاروں نے تقسیم ہند کے موضوع پر نہ صرف دل کھول کر لکھا بلکہ اس موضوع کو تاریخ کا ایک حصہ بنادیا۔یہی وہ مسائل ہیں جنہیں اردو افسانوں کا موضوع بنایا گیا‘‘(14)
پچاس کی دہائی کے بعد جو افسانہ نگار منظرِ عام پر آئے وہ رومانویت کی طرف مائل ہوئے۔ انہوں نے تلخ سماجی حقیقتوں کو رومانویت میں پیش کرنا شروع کیا۔اس رومانویت کے دور کو’’نو رومانویت ‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔ نو رومانویت کے اہم افسانہ نگاروں میں ایک نام ’’انتطار حسین ‘‘کا ہے۔ ان کے لکھے ہوئے افسانے نو رومانویت کی بہترین مثال کہے جا سکتے ہیں۔ انتظار حسین نے فرد کے عروج و زوال اور ماضی میں کھو جانے والے افراد کی تلاش کو اپنے افسانوں کا موضوع بنا یا ہے۔ان کی رومانویت ناسٹلجیا (ماضی پرستی ) کی کتھامعلوم ہو تی ہے۔اے حمید کی کہانیوں میں محبت کی معصومیت اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔ ان کے افسانے رومانوی فضا بندی اور ماحول سازی کا بہترین مرقع کہے جاسکتے ہیں۔
ممتاز مفتی ، ممتاز شیریں، اشفاق احمد ، جمیلہ ہاشمی اور اے حمید کی کہانیوں میں رومان کے ساتھ نفسیاتی اور جنسی فضا بھی نظر آتی ہے۔اس کے علاوہ اس عہد میں لکھنے والے نو رومانوی افسانہ نگاروں میں رحمان مذنب ، شفیق الرحمن اور آغا بابر شامل ہیں۔ان افسانہ نگاروں نے اس دور میں بے یقینی اور مایوسی کی فضا میں رومان اور مثالیت پسندی کے رویے کے ذریعے سچ ، امید اور محبت کے دیے جلائے۔محمد عالم خان رقمطراز ہیں۔
’’اردو افسانے میں رومانوی رجحان پہلے بھی تھا۔۔۔لیکن تقسیم کے بعدجدائی کا تجربہ ایک اجتماعی آشوب میں تبدیل ہو گیا اور رومانوی طرز احساس اجتماعی کرب کی سرحدیں پار کر کے اجتماعی تجربے میں ڈھل گیا۔‘‘(15)
اسی دور میں اسلامی ادب اورپاکستانی ادب کا آغاز ہوا۔ یہ دونوں الگ الگ تحریکیں ہیں۔ لیکن ان کے نظریاتی اور فکری رویوں میں مطابقت کی وجہ سے ان کا ذکر ساتھ ساتھ کیا جاتا ہے۔ پاکستانی ادب کی تحریک سے وابستہ افسانہ نگاروں نے اپنی کہانیوں میں ثقافتی، تہذیبی اور مذہبی علائم وتلمیحات اور استعاروں کا استعمال کیا جس سے اسلامی فضا اور پاکستانی مزاج افسانہ میں فروغ پانے لگا۔یہ تحریکیں وقتی طور پر اردو افسانے پر اثر انداز ہوئیں مگر بعد کے افسانہ نگاروں نے اس کا اثر قبول نہیں کیا۔
ان تحریکوں کے بعد جدیدیت کا آغاز ہوا۔یوں کبھی جدت اور انفرادیت اور کبھی روایت کو جدیدیت کا نام دیا گیا ہے۔ جدیدیت کے رجحان کے تحت اردو افسانے میں اسلوبیاتی اورفنی سطح پر کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔اس تحریک کے زیر اثرعلامتی اور استعاراتی اسالیب افسانے میں استعمال ہونے لگے۔ گویا علامتوں کا ایک سیلاب امڈ آیا۔ ڈاکٹر عارف ثاقب لکھتے ہیں:
’’روایت کے مروجہ پہلو میں اپنے عہد کی تخلیقی قوتوں کو نمو یاب کرنے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی تو اسی کے بطن سے ایک نئے وجود کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں جو رفتہ رفتہ اپنا مرکز تلاش کر کے جدیدیت بن جاتے ہیں۔‘‘(16)
اردو ادب میں علامت نگاری نے بھی فروغ پایا۔ علامت نگاری ایک کثیر الجہت جدید اصطلاح ہے۔ ادب میں علامت سے مراد ایک ایسی پیشکش ہے جو ذہن کو کسی خیال یا چیز کی جانب راغب کرے اور معنویت کی ایک ایسی سطح سامنے لاتی ہو جس کو عام الفاظ میں ہم اپنی گرفت میں نہ لے سکتے ہوں۔ جدید افسانے سے قبل بھی علامتی اسلوب کا سلسلہ نظر آتا ہے۔ جدیدت کے بعد علامتی اسلوب کا رجحان غالب ہوا۔نئے نئے استعارے،علامتیں ، تمثیل ، شعری زبان، علامتی کردار ، پیچیدہ و غیر مرکب پلاٹ اور کلیدی جملوں کی تکرار نمایاں نظر آتی ہے۔جدید افسانہ نگار وں میں جوگندر پال ، انتظار حسین ، مسعود اشعر ، انور سجاد ، خالدہ حسین اور رشید امجدقابل ذکر ہیں۔جنہوں نے علامتی اور تجریدی افسانے تحریر کیے۔
انتظار حسین نے اپنے افسانوں میں علامتی وتمثیلی پیرائے، شعور کی رو اور آزاد تلازمہ جیسی تکنیکوں کا استعمال کیا ہے۔انہوںنے ہجرت ، فسادات ، اور ماضی کی بازیافت اور مسلمانوں کے باطنی زوال کو علامتی پیرائے میں بیان کیا۔انتظار حسین کا افسانوی مجموعہ’’آخری آدمی‘‘علامتی افسانے کی بہترین مثال ہے۔ اس مجموعہ کے افسانوں کے کرداروں کی تشکیل حکایتوں، علامتوں اور اساطیری حوالوں سے کی گئی ہے۔تمثیلی انداز میں اخلاقی اقدار کی شکست و ریخت ، ذہنی انتشار اور روحانی زوال کو پیش کیا گیا ہے۔
انور سجادنے علامتی وتجریدی افسانے کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ان کے افسانوی مجموعے’’استعارے‘‘اور’’ چوراہا‘‘ میں ا ستعاراتی تجریدی عنصر پایا جا تا ہے۔ انہوں نے ذات کی گھٹن اور داخلی تنہائی کو اپنے افسانوں میں بیان کیا ہے۔ان کے افسانوں میں زیادہ تر دیو مالائی اور اساطیر علامتوں کا استعمال نظر آتا ہے۔
رشید امجد بھی علامتی اور تجریدی افسانہ تخلیق کرنے والوں میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے اردو افسانے میں موضوعاتی ، تکنیکی اور لسانی سطح پر نت نئے تجربات کیے ان کے افسانوں میں شعری اسلوب کا استعمال بھی نظر آتاہے۔افسانہ’’ پت جھڑ میں خود کلامی‘‘،’’سہ پہر کی خزاں‘‘ اور’’ ریت پر گرفت‘‘میں انہوں نے نئی علامتوں کا استعمال کیا ہے۔
خواتین افسانہ نگاروں میں سیدہ حنا پروین ،شکیلہ رفیق ، خالدہ حسین ، شہناز رفیق ، زاہدہ حنا کے نام شامل ہیں۔ان خواتین افسانہ نگاروں نے ہیت ، تکنیک اور موضوع کے اعتبار سے افسانوں میں کئی تجربات کیے اور اپنی الگ پہچان بنائی۔ شہزاد منظر لکھتے ہیں:
’’جدید افسانہ نگاروں کا زندگی اور اس کے مسائل کے سمجھنے اور اسے پرکھنے کا اندازفطری تھا۔اس لیے انہوں نے صنعتی دور کے انسان کی معاشی بدحالی اور سماجی پس ماندگی کے مقابلہ میں اس کی فکری اورجذباتی ناآسودگی ، انسان کی داخلی شخصیت کے بکھراؤ ، اقدار کی شکست و ریخت جیسے موضوعات کو اہمیت دی۔۔۔۔ اس کے اظہار کیلیے انہوں نے بیانیہ اسلوب کی بجائے علامتی طرز کو اپنایا۔‘‘(17)
1965ء کی جنگ نے بھی اردو ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔اس دور میں لکھے جانے والے افسانوں میں محبت اور خود شناسی جیسے موضوعات ملتے ہیں۔70 ء کی دہائی میں علامتی اور تجریدی افسانے لکھے جانے لگے۔اس دور میں افسانہ نگاروں نے گزشتہ سات دہائیوں کے تجربات سے استفادہ کرکے افسانے کو ایک نیا موڑ دیا۔ ڈاکٹر اسلم جمشید پوری کے مطابق:
’’جدیدیت نے جس علامت نگاری کو بڑھاوا دیاتھا وہ جب شدت اختیار کر گئی تو مبہم علامتیں اور گنجلک نثر کا زور بڑھتا گیا۔تمثیلی اور تجریدی کہانیوں کے نام پر جو عجیب و غریب نثر لکھی گئی اور اسے افسانہ تسلیم کرنے پر زور دیا گیا۔انشائیوںپرافسانے کو چسپاںکر دیا گیا۔‘‘ (18)
سقوطِ ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ جس کے نتیجے میں ملک دو حصوں میں بٹ گیا۔اس سانحے کا اثر اردو افسانے پر بھی ہوا۔ اس دور کے بیشتر افسانہ نگاروں کے ہاں اجتماعی کرب کی کیفیت نظر آتی ہے۔ آغا سہیل ، مسعود اشعر ،غلام محمد اور زین الدین نے اپنے افسانوں میں بنگال کے زوال پذیر معاشرے کا ذکرخوبصورتی سے کیا۔ ڈاکٹر انوار احمد کے مطابق شہزاد نے جرات کے ساتھ اپنے ہی ہم نسلوں کے بارے میں جو کچھ لکھا وہ اس سر زمین کے بارے میں سچ کے دوسرے رخ کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔اسّی کی دہائی میں جدید افسانے نے مابعد جدیدیت کی طرف سفر کیا اور مابعد جدید افسانے کا آغاز ہوا۔ مابعد جدید افسانہ نگاروں کاایک اہم کارنامہ یہ کہ انہوں نے افسانے کو ذات کے حصار سے نکال کر اس کا رشتہ سیاسی،سماجی اور معاشی مسائل وحقائق سے وابستہ کیا۔اس دور میں افسانے کے اجزائے ترکیبی اور فنی لوازمات پر نئے طریقے سے غور کیا گیا۔80 کی دہائی میں مارشل لاء کے حوالے سے اردو افسانے کو ایک نیا مزاحمتی رنگ دیا۔ جس کے تحت اردو افسانے میں نئی نئی علامتیں استعمال ہونے لگیں۔اس دور کو علامتی افسانے کا ایک نیا دور بھی کہا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر طاہر طیب کے مطابق:
’’ اس دور میں اظہارکی پابندی نے معاشرے میں نفسیاتی سطح پر ایسی صورتحال پیدا کی جس سے گھٹن زدہ ماحول، بیزاری اورجھنجھلاہٹ کا احساس ہوتاہے۔ افسانہ نگاروںنے علامتوںاوراستعاروںکے ذریعے اس سیاسی جبر کو افسانے میں سمونے کی کوشش کی اور بد ترین اور خوف و استحصال کے ماحول کو بیان کیا۔‘‘(19)
اس دور میں کئی افسانے تخلیق ہوئے جن میں معاشرتی مسائل ،آزادی اورمارشل لا ء کے وقت کے جبرواستبداد کا اظہار ملتا ہے۔اس حوالے سے منشاد یاد کا’’رکی ہوئی آوازیں‘‘اور’’ ہو کا‘‘ مرزا حامد بیگ کا ’’مشکی گھوڑوں والی بگھی کا پھیرا ‘‘، رشید ا مجد کے’’سہ پہر کی خزاں ‘‘، ’’ دھندلکے‘‘ ، ’’ریزہ ریزہ شہادت‘‘ احمد داؤد کے’’وہسکی‘‘،’’ پرندے کا گوشت‘‘، فرید حفیظ کا’’ رب نہ کرے ‘‘ اور اکرام اللہ کا ’’ سیاہ آسمان‘‘ خاص اہمیت کے حامل ہیں۔90 ء کی دہائی میں اردو افسانے میں حقیقت نگاری کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ اس دور میں افسانے میں ابلاغ و ترسیل کے مسائل کا خاتمہ ہوا۔ اس دور کے افسانہ نگاروںنے تمام معاشرتی، سماجی اور سیاسی مسائل پر گہری نظر رکھی اور متنوع موضوعات کو اپنے افسانوں میں پیش کیا۔اس دو ر میں افسانے میں کہانی کا ایک نیا انداز نکھر کر سامنے آتا ہے اور اردو افسانے کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی ڈاکٹر رشید امجد لکھتے ہیں:
’’اسی اور نوے کی دہائی میں نئے افسانے نے اپنی پہچان بنالی تھی۔ اس لیے اس کی تفہیم میں کوئی رکاوٹ نہ رہی جسے کہانی کی واپسی سے تعبیر کیا گیا۔۔۔ہوا صرف یہکہ نئی کہانی کافن نکھر گیا اور قاری اس سے مانوس ہو گیا‘‘(20)
اکیسویں صدی میں نت نئے موضوعات پر افسانے تحریر ہوئے جس میں معاشرتی ، معاشی اور سیاسی موضوعات کے علاوہ جدید ٹیکنالوجی سے پیدا شدہ مسائل زلزلے، ایٹمی دھماکے اور سیلاب سے پیدا شدہ مسائل ، دہشت گردی خود کش بم دھماکہ اور نائن الیون جیسے موضوعات کو افسانوں میں جگہ دی۔ اس دور کا افسانہ بین الاقوامی صورتحال کا ایک بہت خوبصورت نمونہ پیش کر تا ہے۔
جدید دور میں اردو افسانے نے بہت ترقی کی۔ دورِ جدید کا افسانہ نگار ایک وسیع ذہنی افق رکھتا ہے۔ اس نے فرد کی نجی مجبوریوںاور ذاتی سوچ کو اس طرح افسانے میں پیش کیا کہ ہمارا پورا سماجی اور سیاسی نظام افسانے کی گرفت میں نظر آتا ہے۔ جدید دور کے افسانے کی بنیاد محض مشاہدے پر نہیں بلکہ تجربات پر استوار ہے۔دورِ جدید کے افسانہ نگاروں کے سامنے ماضی کے نمونے موجود تھے لہٰذا انہوں نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افسانے میں فکری ، فنی اور اسلوبیاتی لحاظ سے کامیاب تجربات کیے ہیں۔ آج کے افسانوں میں معاشرتی زندگی، سیاسی حالات، بین الاقوامی تناؤ، انسانی افکارو اقدار اور نظریات کی واضح تصویر کشی نظر آتی ہے۔
جدید دور کے افسانہ نگاروں میں ناصر عباس نیر اہمیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں نو آبادیاتی صورتحال میں جکڑے ہوئے معاشرے کی روح کے کرب کو بیا ن کیا ہے۔ ان کے افسانوں میں مذہبی انتہا پسندی ، ان پڑھ لوگ ، ریاستی مجبوری ، مولوی کی اجاہ داری اور فرقہ واریت کو موضوع بنایا۔ سلمیٰ اعوان کے افسانوی مجموعے ’’ بیچ بچولن‘‘،’’کہانیاں اپنی اپنی ’’اور‘‘ کہانیاں دنیا کی‘‘ خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ان کے افسانوں میں معاشرتی اور سماجی مسائل کا ذکر ملتا ہے۔ انہوںنے افسانوں میں کرداروں اور جزئیات نگاری کی طرف خاص توجہ دی ہے۔حمیرا اشفاق کے افسانوں میں ’’گھگو گھوڑے ‘‘ ،’’مسٹر چرچل ‘‘ اور’’تھوک ‘‘ قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کے مسائل وڈیرے اور جاگیردار طبقے ، عورتوں کی تعلیم ، اور عورتوں کے حقوق کی پامالی کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔مستنصر حسین تارڑ کا افسانوی مجموعہ ’’ سیاہ آنکھ میں تصویر ‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں سماجی جبر ، آمریت، مغربی تہذیب، توہمات پرستی ، دور جدید کی بڑھتی ہوئی مصروفیات ، اور تیسری دنیا کے مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ ان کے افسانوں میں عصری تاریخ کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔ ان کے افسانوں میں علامت،اساطیر اور وجودی حوالے کہانیوں میں دلچسپی پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
شہناز نقوی نے زندگی کی تلخیوں کو بڑی خوبصورتی سے اپنے افسانوں میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے نفسیاتی الجھنوں کے ساتھ ساتھ معاشی ناہمواریوں اور سماجی رویوں کو بھی موضوع بنایا ہے۔اس کے علاوہ عورت کے دکھ ، کرب اور اس کے مسائل کو اپنے افسانوں میں پیش کیا۔ شہناز نقوی کی کہانیوں میں ایک ربط اور تسلسل پایا جا تا ہے۔
علی اکبر ناطق کے افسانوں کا بنیادی موضوع پنجاب کی دیہی ثقافت ہے۔انہوں نے دیہی زندگی کے مناظر کی تصویر کشی بڑی خوبصورتی سے کی ہے۔ ناطق کے افسانے ادب کے قاری کی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں۔
اکیسویں صدی کے اہم افسانہ نگار نجم الدین احمد ہیں۔ان کے دو افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ان میں پہلا ’’آؤ بھائی کھیلیں ‘‘ کے نام سے۲۰۱۳ء میں شائع ہوا۔ جس میں کل تیرہ افسانے شامل ہیں۔اس افسانوی مجموعے کو خاصی مقبولیت حاصل ہو ئی اور انہیں پاکستان رائٹرز گلڈ ایواڈ سے نوازا گیا۔جبکہ دوسرا افسانوی مجموعہ’’ فرار اور دوسرے افسانے‘‘ کے نام سے۲۰۱۷ء میں شائع ہوا۔ نجم الدین احمد کے افسانوں میں’’آؤبھائی کھیلیں ‘‘،’’بقدر جثہ ‘‘،’’تیسری شادی ‘‘،’’داشتہ ‘‘،’’ کتے کی موت ‘‘ اور’’ زلزلہ ‘‘ قابل ذکر ہیں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...