Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

دو افسانہ نگار: غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان |
حسنِ ادب
دو افسانہ نگار: غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان

تانیثیت،جنسیت،حقیقت نگاری
ARI Id

1689952519654_56116828

Access

Open/Free Access

Pages

۲۲،۲۳

تانیثیت
تانیثیت کا تعلق براہِ راست عورت اور اس کے حقوق سے ہے۔تانیثی تحریک کا بنیادی مقصد عورتوں کو مردوں کے برابرسیاسی ، سماجی ، معاشرتی، معاشی اور قانونی برابری دینا۔ تانیثی تحریک عورتوں کے لیے انصاف کی طالب ہے ، معاشرے میں رائج مختلف امتیازات کے خاتمے کا اعلان کرتی ہے۔اردو افسانے میں نمائندہ خواتین افسانہ نگاروں کے ہاں تانیثی ر جحان دیکھنے کو ملتا ہے۔ جہاں عورتیں سماجی، معاشی ، سیاسی، معاشرتی اور علاقائی مسائل پر قلم اٹھا رہی ہیں اس کے ساتھ ساتھ عورتوں کے ساتھ پیش آنے والے مسائل کو بھی قلم بند کر رہی ہیں۔اس ضمن میں غور کریں تو ذکیہ مشہدی ایک معتبر نام ہے۔ انہوں نے عورتوں کی زندگی کو بڑی فنکاری سے پیش کیا۔ان کو افسانہ’’تھکے پاؤں‘‘اور’’حصار‘‘تانیثی پہلو سے ان کے بہترین افسانے ہیں۔نسائی زندگی کو بیان کرنے والی ایک اور اہم افسانہ نگار ترنم ریاض بھی ہیں۔ترنم ریاض کی عورت مشرقی تہذیب کی نمائندگی بھی کرتی ہے اور بغاوت کا جذبہ بھی رکھتی ہے۔ ان کا افسانہ’’ ہم تو ڈوبے صنم‘‘ اسی قسم کا افسانہ ہے۔ ا س کے علاوہ نگار عظیم،شائستہ فخری،غزالہ ضیغم اور دیگر افسانہ نگاروں نے عورتوں کے حوالے سے اپنے خیال کو جس طرح تخلیق کی شکل میں ابھارا ہے اس میں ہندوستانی عورت کے تمام حالات اجاگر ہوتے ہیں۔
جنسیت
انگارے کے مصنفین نے پہلی بار سماجی مسائل کو مغربی زاویۂ نگاہ سے دیکھا۔انہوں نے ادب اور سماج کے بندھے ٹکے اصول واقدار سے انحراف کرتے ہوئے جنسی بھوک،ذہنی پریشانیوں نفسیاتی الجھنوں کو شعورکے پردے میں اجاگر کیا۔انہوں نے سماجی لبادہ اوڑھے چہروں کو بے نقاب کیا اور ان کی گھناؤنی ذہنیت کو اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔اس سلسلے میں سجاد ظہیر کا افسانہ ’’دالری‘‘ اور احمد علی کا افسانہ’’بادل نہیں آتے‘‘ پیش کیے جا سکتے ہیں۔ رشید جہاں اردو کی حقیقت پسند اور انقاوبی افسانہ نگار ہیں اور انہوں نے اپنے افسانوں میں عورتوں کے جنسی مسائل کو بہت ہی تلخ اور طنزیہ لہجے میں بیان کیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا افسانہ ’’سودا‘‘قابل ذکر ہے جس میں ایک عورت سے تین تین مرد ایک ساتھ جنسی تلذذ حاصل کرتے ہیں،جن کی نظر میں عورت کی حیثیت صرف جنسی تسکین کا ذریعہ ہے۔ اردو میں جنسی مسائل پر لکھنے والوں میں سب سے اہم نام سعادت حسن منٹو کا ہے منٹو نے اپنے افسانوں میں جنسیات کے متعلق لکھا ہے اور بہت عمدہ لکھا ہے۔انہوں نے لکھا ہے کہ انسان کتنا خود غرض اوروحشی ہوتا ہے کہ اپنی جنسی ہوسناکی کے لئے دنیا کی ہر شے بھول جاتا ہے، اسے سماج کا کوئی ڈر اور خوف نہیں ہوتا ہے۔
حقیقت نگاری
ادب میں اشیاء ، اشخاص اور واقعات کو کسی قسم کے تعصب، حیثیت، موضوعیت اور رومانیت سے آلودہ کیے بغیر دیانت و صداقت کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش حقیقیت پسندی یا حقیقت نگاری کہلاتی ہے۔بطور حقیقت نگار پریم چند کی انفرادیت یہ کہ انہوں نے بجائے کسی ایک قوم، ذات، فرقہ، دھرم اور مذہب کے تمام انسانوں اور معاشرے سے جڑے ہر فرد اور تمام انسانوں کو درپیش مسائل اور سماجی برائیوں کی نشاندہی کی۔اردو ادب میں پریم چند کے علاوہ اور بھی کئی نام قابل ذکر ہیں جن کا حقیقت نگاری کے حوالے سے کردار اہمیت کا حامل ہے۔ ان میں منٹو اور دیگر بھی کئی نام ہیں مگر منٹو کا نام حقیقت نگاری کے حوالے سے پریم چند کے بعد لیا جاسکتا ہے۔ منٹو کے افسانوں میں بھی بہت سے ایسے کردار ملتے ہیں جو سماجی اور معاشی ناہمواریوں کی تصویر کشی کرتے ہیں۔
اردو افسانے کے موضوعات میں خاصی وسعت ہے۔ آج ہمارے افسانہ نگاروں کی کہانیاں تقریباً زندگی کے تمام ہی پہلوؤں کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔پھر وہ چاہے انسانی حیات کی حقیقتیں ہوں، ہماری ثقافت و اقدار کا زوال ہو، معاشی نا انصافیاں ہوں،روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی ہو،خوف و دہشت گردی کے ماحول کی تصویر کشی ہو، معاشرتی بے حسی ہو یا کہ انسانی سیاسی و سماجی زندگی کے تضادات ہوں۔ہمارے افسانہ نگاروں کے افسانوں میں ان سب موضوعات کی بھرپورعکاسی ملتی ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو افسانہ ابتدا سے اب تک اپنے فن ، تکنیک ، ہیئت ، زبان کی سطح اور اسلوب کی بنیاد پربہت سے تجربات سے گزر کر اپنے دامن میں خاصی وْسعت ، گہری تہہ داری،تنوع، فکر کی گہرائی ، نفسیاتی اور فلسفیانہ جہات پیدا کر چکا ہے۔اب اردو افسانے میں موضوع ، پلاٹ اور کرداروں کے ساتھ ساتھ تخیل و احساس کو بھی بھرپور جگہ مل چکی ہے۔ یہ اردو افسانہ ہی ہے کہ جس نے افسانوی ادب کو فنی وجمالیاتی اقدار سے روشناس کروا کر اسے تحقیقی سطح تک پہنچایا۔افسانے کی ابتداء سے اب تک کے منظر نامے پر اگر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دورافسانے کا تجرباتی دور ہے۔ یہ دور کہانیوں کے حوالے سے گزشتہ ادوار کی نسبت کہیں زیادہ زرخیز ہے اورہمارے اْردو افسانے میں یہ دورہمیشہ تابناک و درخشاں رہے گا۔ اردو افسانہ اپنے آغاز وارتقا سیلے کر اب تک مسلسل ترقی کی منازل طے کررہا ہے افسانہ نگاروں نے اسلوبیاتی ،ہئیتی اور تکنیکی اعتبار سے اردو افسانے میں کامیاب تجربات کیے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ایک معیاری افسانے کے لیے بنیادی اور لازمی عناصر میں سب سے اہم اس کا موضوع ہے، جس کی بنا پر افسانہ، افسانہ کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ ہمارے اردگرد بہت سے واقعات موجود ہیں جنہیں افسانے کا موضوع بنایا جا سکتا ہے۔ موضوع کے لحاظ سے افسانے کی کئی اقسام ہیں۔ نفسیاتی، معاشی، معاشرتی، سیاسی، جنسی،مزاحمتی وغیرہ ۔انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ اپنے ساتھ پیش آنے والے اقعات دوسروں کو بتانے کی کوشش کرتا ہے۔ بتانے، کہنے اور سننے کے عمل نے بالآخر کہانی کا روپ اختیار کر لیا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ ایک ترقی یافتہ کہانی وجود میں آگئی زمانے کے ساتھ ساتھ موضوعات میں تنوع پیدا ہوتا گیا۔ اصلاحی، معاشی، معاشرتی، عشق و محبت اور زندگی سے جڑے ہوئے دوسرے موضوعات کہانیوں میں پیش کیے جانے لگے، جنہیں لوگ اب تک دلچسپی سے پڑھ رہے ہیں۔
زمانہ قدیم سے لیے جبکہ افسانہ جدید دور کی تخلیق اور تحقیق ہے۔اس طرح کہانی جاگیردارانہ اور افسانہ صنعتی دور کا عکاس ہے۔ افسانہ میں عموماً مکالمے، ڈرامے اور ناول کے برعکس ضرورت کے وقت استعمال کیے جاتے ہیں۔ دوسری سب سے اہم بات یہ کہ ہر وہ موضوع جو زندگی سے قریب تر ہو، افسانے کا موضوع ہو سکتا ہے۔ کہانی افسانے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور جب کہانی کو فنی خوبیوں کا جامہ پہنا دیا جائے، تو یہ پلاٹ کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ کہانی کا دورانیہ جتنا بھی ہو اْسے افسانے کا نام دیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے افسانے کی فنی خوبیوں اور لوازمات پر پورا اترنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر کوئی کہانی ان لوازمات اور فنی خوبیوں پر پوری اترے، تو اسے اس وقت افسانہ کا نام دیا جاتا ہے لیکن اگر کوئی کہانی ایک خاص ترتیب میں نہ ہو، پلاٹ اس میں نہ ہو، واقعات ایک دوسرے سے پیوست نہ ہوں، تو یہ افسانویت کے دائرے میں شمار نہیں ہوگی۔ کہانی افسانہ کے لیے ایک لازمی اور ضروری جز ہے۔ کہانی کے بغیر افسانے کا وجود ہی نہیں ہے۔ کہانی میں فکری عنصر پیدا کرنے کے لیے سب سے ضروری چیز موضوع ہے اور کہانی کے فن میں اتنی وسعت موجود ہے کہ تھوڑی سی محنت سے ایک واقعہ یا کردار افسانے کا موضوع بن سکتا ہے اور افسانہ نگار اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کی بدولت اسے ایک اچھے افسانے کی شکل میں منتقل کر سکتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ افسانے کے لیے ایک ایسا موضوع درکار ہوتا ہے، جو زندگی کی حقیقتوں سے ہم آہنگ ہو۔ افسانے کا موضوع زندگی کے چھوٹے بڑے واقعے پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ واقعہ سچائی پر مبنی ہو یا خیالی واقعہ ہو، لیکن اسے پیش کرنے کا طریقہ ایسا ہونا چاہیے کہ سچائی اور حقیقت سے قریب تر ہو۔ کیوں کہ بعض اوقات افسانہ نگار کو اچانک ہی کوئی خیال کسی واقعہ کا کردار نظروں کے سامنے آجاتا ہے اور وہ اس پر قلم اٹھا لیتا ہے لیکن اس کے لیے اسے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانا پڑتا ہے اور اسے اپنے خیالات کو ایسے فنکارانہ طریقے پر پیش کرنا ہوتا ہے کہ اس سے ایک دل لبھانے والی کہانی بن جائے اور پڑھنے والے کو متاثر کیے بغیر نہ چھوڑے۔اگر کوئی کہانی پڑھنے والے کے جذباتی اور ذہنی سرمایہ سے ہم آہنگی نہ رکھتی ہو، تو اسے افسانے کا مقام دینا سراسر ناانصافی ہے۔ افسانے کے لیے کہانی، موضوع کا انتخاب تب ہی ممکن ہے اور وہی افسانہ نگار اس معیار پر پورا اتر سکتے ہیں جن کا مشاہدہ وسیع ہو، وہ اپنے میدانِ علم کا بہتر شہسوار ہو اور جسے اپنے موضوع پر مکمل عبور حاصل ہو۔
٭٭٭٭٭٭٭
حوالہ جات
1۔ابو الخیر کشفی، سید ،ادب اور قومی شعور، مشمولہ ، پاکستانی ادب ، جلد اول ، مرتبین ، رشید امجد ، فاروق علی، ایف جی سر سید کا لج، روالپنڈی، مئی 1981ئ، ص :493
2۔قمر رئیس ، ڈاکٹر، مضامین پریم چند (مرتبہ)، دہلی: علی پرنٹنگ پریس، 1960،ص:176
3۔مولوی نیر الحسن نیر، نور الغات (جلد دوم ) لاہور ، سنگ میل پبلشرز ، 1959ئ، ص :325
4۔Robison Quinn Afred a knops, New York, Third Edition, 1958, p.958.
5۔Steinberg S.H, (Ed) Encyclopedia of Literature, vol1,1953, p.504.
6۔وقار عظیم ،افسانہ نگاری ،آلٰہ آباد: سرسوتی پبلشنگ ہاؤس 1930، ص :3
7۔محمد احسن ڈاکٹر، کرشن چندر اور مختصر افسانہ نگاری ، نئی دہلی، موڈرن پبلشرز ہاؤس ، 1989ئ، ص :3
8۔پروین اظہر، ڈاکٹر، اردو میں مختصر افسانہ نگاری کی تنقید، علی گڑھ ، ایجوکیشنل بک ہا ؤس، ص :12
9۔صغیرا افراہیم ، پروفیسر، اردو افسانہ ترقی پسند تحریک سے قبل ،علی گڑھ ، ایجو کیشنل بک ہا ؤس ،طبع دوم ، 2009ئ، ص :11
10۔طاہر طیب ، ڈاکٹر ، لاہور میں اردو افسانے کی روایت، فیصل آباد ، مثال پبلشرز، 2015ئ،ص :104
11۔سبینہ اویس ، ڈاکٹر ، افسانہ شناسی ، فیصل آباد ، مثال پبلشرز ، 2015ئ، ص:40
12۔عائشہ سلطانہ ، ڈاکٹر، مختصر اردو افسانے کا سماجیاتی مطالعہ (1947ء سے تا حال ) ، دہلی ، ایجوکیشنل پبلشرز ہاؤس ، ص :74
13۔فوزیہ اسلم ، ڈاکٹر، اردو افسانے میں اسلوب اور تکنیک کے تجربات، اسلام آباد، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز، 2005ئ، ص :365
14۔عائشہ سلطانہ، ڈاکٹر، مختصر اردو افسانے کا سماجیاتی مطالعہ ،ص :69
15۔محمد عالم خاں،ڈاکٹر، اردو افسانے میں رومانوی رجحانات، لاہور، علم و عرفان پبلشرز، 1958ئ، ص:88
16۔عارف ثاقب ، ڈاکٹر ، بیسویں صدی کا ادبی طرز احساس ، لاہور ، کتاب نما ، 1999ئ، ص:65
17۔شہزاد منظر ، جدید اردو افسان (تنقید ) ، کراچی ، منظر پبلشرز ، 1982ئ، ص:48، 49
18۔اسلم جمشید پوری ، ڈاکٹر،اردو افسانہ تعبیر و تنقید ، نئی دہلی ، ماڈرن پبلشرز ہاؤس ، 2006ئ، ص :59
19۔طاہر طیب ، ڈاکٹر، لاہور میں اردو افسانے کی روایت، ص:360
20۔رشید امجد ، ڈاکٹر ، پاکستانی ادب (مرتبہ ) ، اسلام آباد ، اکادمی ادبیات پاکستان ، 2009 ئ، ص:17
٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...