Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > دو افسانہ نگار: غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان > غلام فرید کاٹھیا کے افسانے(موضوعاتی مطالعہ)

دو افسانہ نگار: غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان |
حسنِ ادب
دو افسانہ نگار: غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان

غلام فرید کاٹھیا کے افسانے(موضوعاتی مطالعہ)
ARI Id

1689952519654_56116829

Access

Open/Free Access

Pages

۲۷

غلام فرید کاٹھیا کے افسانے
( موضوعاتی مطالعہ)
سرزمین ساہیوال شروع ہی سے علم و ادب کے جگمگاتے ستاروں یعنی شاعروں، نثر نگاروں،سخن وروں، دانشوروں اور ادباء کا مرکز رہی ہے۔اس مٹی سے بہت سی نامور علمی و ادبی شخصیات نے جنم لیا۔ 60 کی دہائی میں ’’کیفے ڈی روز‘‘ دبستان ساہیوال والوں کے لیے ادبی سرگرمیوں کا ایک یادگار، اولین اور مرکزی ٹھکانہ تھا۔ شاعروں،دانشوروں،نثر نگاروں اور ادیبوں کی رات دیر تک کی بیٹھکوں کے سبب کیفے کی شامیں پر رونق رہتیں۔مجید امجد ،مراتب اختر،منیر نیازی ، ظفر اقبال،مصطفی زیدی و دیگر عظیم شاعروں اور دانشوروں کا ایک گروہ اپنے ادبی سفر کے لیے اسی دھرتی سے چلا اور بعد میں اردو ادب کے وقار کا باعث بنا۔ان شعراء و ادباء کے بعد 2000ء کی دہائی سے اب تک اس علمی سفر کو آگے بڑھانے والوں میں جہاں رزاق شاہد ،لقمان شیدائی،ڈاکٹر کاظم بخاری ، علی وارث انصاری ،محمود علی محمود ،سرفراز تبسم ، غضنفر عباس سید ،شہزاد انجم ،مرتضی ساجد ، جہانگیرقمر، اوصاف شیخ ، مشتاق عادل، فاروق اظہر، امین رضا، ناز کفیل گیلانی، قمر شفیق، مطلوب حسین ،عمران اسلم، سید علی ثانی، نعیم نقوی، مظفر حسین وڑائچ ، زاہد حسین رانا، ملک مہر علی، ندیم عباس اشرف، پیراظہر فرید، اسلم سحاب ہاشمی، بابرصغیر، سجاد نعیم، افتخار شفیع، شاہد رضوان، اختر خان، ریاض ہمدانی، علی اظہر خان، راحت جبیں، سعید خان، اورنگزیب ، رانی آکاش، حنا جمشید، بیگم افتخار نذیر، اللہ یار ثاقب، نورین کیانی اور دیگر شعراء و ادباء کے نام قابل ذکر ہیں،وہیں اس صف میں ہمیں ایک جدید اور بہترین اسلوب کے مالک افسانہ نگار ’’مہر غلام فرید کاٹھیا‘‘ بھی نظر آتے ہیں۔غلام فرید کاٹھیا نے اردو ادب میں بڑا نام کمایا، بڑی محنت اور لگن سے ادب کے لیے خدمات سر انجام دیں اور اردو ادب کے قابل قدر اسلوب میں اضافہ کیا۔ ’’ورثہ ساہیوال‘‘کے تحت ماضی میں’’ کیفے ڈی روز‘‘ سے منسلک شعراء اور ادباء کے کارناموں کو سراہنے کی روایت کا آغاز بھی غلام فرید کاٹھیا کے زیر سایہ ہوا۔پورے ملک سے بہترین محققین،معیاری کتب اور اعلی افسانوی ادب کوخاص ایوارڈز اور پوزیشنز نوازے جانے کی روایت کی ابتداہوئی۔شاعروں اور دانشوروں کے کلام ،ان کے مقالہ جات، افسانوں اورمختلف تحریری کاوشوں کو اکٹھا کرکے ہر دو ماہ بعد ایک مجلہ نکالنے کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ اس کے علاوہ مستحق مگر غریب دانشوروں اور شاعروں کی مالی معاونت کا انتظام بھی مہر غلام فرید کاٹھیا کی ادبی خدمات ہی کانتیجہ ہے۔اپنی قومی و صوبائی اسمبلی کی رکنیت اور مملکت برائے تعلیم پاکستان کی وزارت کے دوران مہر غلام فرید کاٹھیا نے علم کی ترویج کے لیے بہت سی خدمات سر انجام دیں۔ ’’مہکاں ادبی مرکز‘‘ اور ساہیوال کا ’’مجید امجد پارک‘‘ آپ کی خدمات ہی کا حصہ ہے۔
غلام فرید کاٹھیا نے اردو ادب کے لئے بہت کام کیا۔ آپ کے تخلیقی سفر میں جو شاہکار ہمارے سامنے آئے وہ قابل قدر ہیں۔ جون 2008 ء میں شائع ہونے والا آپ کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’لمحوں کی قید‘‘ ہے.جو 10 افسانوں اور 136 صفات پر مشتمل ہے۔اس کے بعد آپ کا خوبصورت سفر نامہ ’’سفر درپیش‘‘کے نام سے مئی 2010میں منظرعام پر آیا،جو کہ 20 ابواب اور 164 صفحات پر مشتمل ہے۔
سفر نامے کے بعد آپ کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’سرسوں کے پھول‘‘ 2016 میں شائع ہوا،جو کہ11بہترین افسانوں پر محیط ہے۔جبکہ آپ کا تیسرا افسانوی مجموعہ’’سفید تتلیوں کا ہار‘‘ ہے۔ جس میں کل 12 افسانے ہیں۔ غلام فرید کاٹھیا کے افسانوں میں کسانوں،مزدوروں اور ہاریوں کے مسائل کی عکاسی ملتی ہے۔دوسرے لفظوں میں ترقی پسند سوچ کے حامل اس افسانہ نگار کے افسانوں میں غربت کے مظاہر اجاگر کیے گئے ہیں۔
علم و ادب سے محبت رکھنے والے مہر غلام فرید کاٹھیا کی پیدائش یکم مارچ 1939ء کو ہڑپہ جیسے تاریخی قصبے کے نواحی گاؤں’’مراد کے کاٹھیا‘‘میں ہوئی۔ مہر غلام فرید کی ابتدائی تربیت میں ان کے والد نور محمد کا بڑا کردار ہے۔ جو پیشے کے اعتبار سے کاشتکار تھے۔نور محمد اصولی مگر سخت مزاج بندے تھے،اپنی اولاد کو کامیاب دیکھنے کے لیے وہ ان کو شیر کی آنکھ سے دیکھنے کا فارمولا رکھتے تھے۔یہ ان کے والد کی تربیت اور محنت ہی کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے زندگی کی تمام تر مشکلات کو ہمت و جوانمردی سے برداشت کیا۔ مہر غلام فرید کاٹھیا نے اپنی پرائمری تعلیم 1952ء میں اپنے آبائی گاؤں مراد کے کاٹھیا سے مکمل کی۔ 1955میں کمالیہ سے انہوں نے اپنی مڈل جبکہ 1957ء میں گورنمنٹ ہائی سکول ساہیوال سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔اس کے بعد وہ ساہیوال کے گورنمنٹ کالج چلے گئے جہاں سے انہوں نے ایف اے اور بی اے کی تعلیم 1962تک مکمل کی۔ اس کے بعد لاہور ایف ۔ سی کالج چلے گئے اور 1964 میں ایم اے پولیٹیکل سائنس کی ڈگری حاصل کی۔پھر یہیں ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت شروع کردی۔
مہر غلام فرید کاٹھیا نے اپنے دور طالب علمی میں بہت دشوار وقت دیکھا۔1970ء میں جب غلام فرید کاٹھیا کے والد محترم کا انتقال ہوا،تو ان کے برادران زراعت و دیگر شعبہ جات سے منسلک تھے، جبکہ آپ حصول علم میں مکمل طور پر مشغول رہے اور روشنی کی راہوں کے مسافر بنے رہے۔
مہر غلام فرید کاٹھیا نے اعلی تعلیم حاصل کر کے اپنے خاندان اور برادری میں ایک خاص مقام حاصل کیا ،جو قابل فخر بات تھی۔ اگر مہر غلام فرید کاٹھیا کے دور طالب علمی پر نگاہ ڈالیں تو وہ ایک دشوار اور مشکل وقت تھا۔آپ جب طالب علم تھے تب بھی اور والد محترم کے انتقال کے بعد بھی آپ نے اپنی ملازمت اور تعلیم کو ایک ساتھ جرأت، بہادری، اور عقلمندی سے نبھایا، اور اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود زندگی کی منازل بخوبی طے کیں۔18 فروری 1979ء کو غلام فرید کاٹھیا کا نکاح اپنی برادری کی ایک بہت ہی سلجھی ہوئی خاتون سے طے پایا۔ان کی زوجہ بہت وفادار، باہمت، اور بہادر خاتون تھیں۔ اپنی زندگی کی ساتھی کے حوالے سے آپکا کہنا تھا کہ:
’’میری مرحومہ بیوی نے ہر طرح کے حالات میں میرا ساتھ نبھایا۔ میں جیل میں ہوتا تو میری خبر گیری کرتی، میں سیاسی مصروفیات کے سبب وقت نہ دے پاتا تو وہ بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھر پور توجہ دیتیں۔ انہوں نے پوری طرح کوشش کی کہ میں گھریلو پریشانیوں سے آزاد ہو کر سیاست کروں۔ قیدو بند کی صعوبتوں کے دوران بھی وہ گھبرائی نہیں بلکہ ہمیشہ میرا حوصلہ بڑھایا۔‘‘(1)
مہر غلام فرید کاٹھیا کی اولاد میں دو بیٹے محمد علی فرید،احسن فرید اور ایک بیٹی مدیحہ فرید شامل ہیں۔ آپ کے بڑے صاحبزادے محمد علی پیشے کے اعتبار سے وکالت کے شعبے سے وابستہ اورپاکستان پیپلز پارٹی لائیرزونگ ساہیوال ڈویژن کے صدر بھی ہیں جبکہ آپ کے چھوٹے بیٹے احسن فرید ماسٹرز اور بیٹی مدیحہ فرید اسٹیٹ لائف کارپوریشن آف پاکستان میں آفیسر ہیں۔
غلام فرید کاٹھیا کو سیاست سے بھی کافی دلچسپی ہے۔آپ نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والے بھٹو کی "پاکستان پیپلز پارٹی" کو1972ء میں جوائن کیا۔ آپ نے اپنے علاقے کے غریبوں، مزدوروں، کسانوں،ہاریوں پسے ہوئے لوگوں کے مسائل اور اپنے علاقے کی ترقی کے لیے بہت کام کیا۔ غلام فرید کاٹھیا MNA اور MPA بھی رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کو یوسف رضا گیلانی کے دور میں وزیر مملکت برائے تعلیم کا منصب سنبھالنے کا بھی اعزاز حاصل رہا۔اس دوران آپ نے تعلیم کے فروغ کے لئے بہت کام کیا۔ آپ پارٹی کے وفادار ،کٹھن اور بھلے وقتوں کے ساتھی رہے۔ انہوں نے اپنی جوانی کے 30 سال پاکستان پیپلز پارٹی کی ضلعی صدارت کے نام کیے۔ اب بھی وہ سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے ممبراورڈویڑنل صدر کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے اس تیس سالہ سفر کے دوران بہت سی تکالیف بھی سہیں۔ ضیاء مارشل لاء کے دوران مہر غلام فرید کاٹھیا کو کئی بار قید و بند جیسی اذیتوں سے بھی گزرنا پڑا مگر وہ پھر بھی چٹان کی طرح ثابت قدم رہے۔اس سفر میں درپیش تکلیفوں کے بارے میں غلام فرید کا کہنا ہے :
’’1977ء کے بعد کا دور پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے لیے ایک امتحان تھا۔ہم تین ماہ جیل میں ہوتے تو چار ماہ آزاد اور چار ماہ آزاد ہوتے تو چھ ماہ جیل میں ، یہ سلسلہ 1985ء تک چلتا رہا۔ آمر نے پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کی بہت کوششیں کیں مگر ناکامی اس کا مقدر ہوئی۔ میرے جیل کے متعلق لکھے گئے افسانے اسی دور کی یاد ہیں۔مجھے یاد ہے کہ فروری 1979ء میں میری شادی ہوئی اور اپریل میں میں تین ماہ کے لیے جیل میں بند کر دیا گیا۔‘‘(2)
مہرغلام فرید کاٹھیا کوزمانہ طالب علمی ہی سے ادب سے بہت لگاؤ تھا۔ اپنے تخلیقاتی سفر کاآغازتوآپ 1960-1970 میں ہی کرچکے تھے، تاہم آپ کا کام ادبی سطح پر بہت بعد میںچھپ کر تقریباً 2000ء میں ظاہر ہوا۔ مہر غلام فرید کاٹھیا نے اپنے کیریئر کا آغاز شاعری سے کیا،مگر جلد ہی آپ کو احساس ہوا کہ آپ توافسانہ نگار کے طور پر تخلیق کئے گئے ہیں،یوں آپ نے فکشن میں طبع آزمائی شروع کی اور بہترین افسانہ نگار کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ اپنے ادبی سفر کے حوالے سے وہ کہتے ہیں :
’’مجھے سکول کے زمانے سے ہی لکھنے لکھانے کا شوق تھا۔ میں کبھی نثر میں لکھتا تو کبھی شاعری کی کوشش کرتا۔ 1976ء میں جب میں ممبر پنجاب اسمبلی تھا تو میری ملاقات اقبال صلاح الدین سے ہوئی۔ میں نے انہیں اپنی چند غزلیں اور کچھ نثری کاوشیں دکھائیں۔مسودہ دیکھنے کے بعد علامہ صلاح الدین کہنے لگے کہ قدرت نے آپ کو فکشن نگار بنایا ہے شاعر نہیں۔ وہ دن اور آج کا دن میں نے شاعری ترک کر دی اور تمام تر توجہ فکشن کو دینے لگا۔‘‘(3)
غلام فرید کاٹھیا کے افسانوی موضوعات میں ،غریبوں ،مزدوروں،کسانوں اور ہاریوں کی زندگی کے مسائل اور مشکلات کا ذکر ملتا ہے۔انہوں نے غربت کی چکی میں پسنے والے کمزوروں کی زندگی کے درد و غم، انکے جنسی و ذاتی استحا ل اور یونیورسٹی لائف وغیرہ کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ آپ کی تخلیقات اپنے دور کے لوگوں کی عکاسی کرتی ہیںاور یہی ایک بہترین ادیب کی حاصیت و خوبی ہے۔ مہر غلام فرید کاٹھیا کی تخلیقات میں ’’لمحوں کی قید‘‘ ،’’سرسوں کے پھول‘‘، اور’’سفید تتلیوں کا ہار‘‘ تین افسانوی مجموعے اور’’سفردرپیش ‘‘ نامی ایک سفر نامہ شامل ہے۔
غلام فرید کاٹھیا کا پہلاافسانوی مجموعہ’’لمحوں کی قید‘‘گنجی بار پبلشرز ساہیوال سے 2008ء میں شائع ہوا۔ اس افسانوی مجموعے کے کل 136صفحات ہیں۔ کمزور طبقے کے غریبوں اور بے چاروں کی مشکلات اور جیل کی کہانیوں کو غلام فرید کاٹھیا نے اس مجموعے کا موضوع بنایا۔
’’لمحوں کی قید‘‘کے بعد’’گنجی بار پبلشرز ساہیوال‘‘ سے 2010 میں آپ کا ایک سفر نامہ ’’سفردرپیش‘‘ کے نام سے منظرعام پر آیا۔ 170صفحات پر مشتمل مہر غلام فرید کاٹھیا کا یہ سفر نامہ ان کے سیاسی سفر لندن کی روداد ہے۔ 20 عنوانات پر محیط اس سفر نامے کی زبان سلیس اور اسلوب بڑا دلچسپ ہے۔ پڑھنے والا خود کو لندن کی گلیوں اور اس کی خوبصورتی میں کھویا ہوا پاتا ہے۔ غلام فرید کاٹھیا کا یہ سفر نامہ اردو سفر نامے کی سر زمین میں ایک عمدہ اضافہ اور مصنف کی فنی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔’’سرسوں کے پھول‘‘غلام فرید کاٹھیا کا دوسراافسانوی مجموعہ ہے۔اس میں کل 12 افسانے شامل ہیں۔اس مجموعہ کے افسانے دور جدید کے فرعونیت زدہ رویوں،غریبوں کے استحصال اور ان کی سماجی زندگی کی مشکلات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔’’سفید تتلیوں کا ہار‘‘ غلام فرید کاٹھیا کا تیسراافسانوی مجموعہ ہے۔2021ء میں شائع ہونے والا آپ کا یہ مجموعہ 10 شاندارافسانوی کہانیوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ غلام فرید کاٹھیا نے کمزوروں کے جذبات و احساسات، اور غربت و مہنگائی کے سبب سامراجی قوتوں کے ذریعے ان کے استحصال کو بڑے ہی پردردانداز میں بیان کیا ہے۔مہر غلام فرید کاٹھیا بلاشبہ نچلے طبقے کے ترجمان، بہترین تخلیق کار عمدہ فکشن نگار، اور ایک منجھے ہوئے بہترین سیاست دان ہیں۔
مزدوروں کی ترجمانی
انسان کو دنیا میں خدا کی عبادت کے لیے بھیجا گیا۔رب تعالیٰ نے انسانوں کی بہترین پہچان اور تفریق کے لیے انہیں مختلف گروہوں،قبیلوں اور نسلوں میں بانٹ دیا۔جس طرح مختلف قبیلے،گروہ اور خاندان بنائے گے بالکل اسی طرح دولت کو بھی مختلف درجوں کے حساب سے بانٹا گیا۔ جہاں امیری، غریبی جیسے درجوں میں لوگوں کو تقسیم کیا گیا،وہیں دولت کی منصفانہ تقسیم اور روپے پیسے کی گردش کے لیے صدقہ اور زکوٰۃبھی فرض کیے گئے۔اپنے غریب بہن بھائیوں کے ساتھ ہمدردی،رحم دلی، ایثار کا رویہ اپنانے ، انکی مدد کرنے، انکو ان کا پورا پورا حق دینے اور ان کے ساتھ بہترین سلوک کرنے کا درس دیا گیا۔
تاریخ انسانی شاہد ہے کہ امیر طبقے نے ازل ہی سے غرباء سے ظلم و جبر کا سلوک روا رکھا ہے۔ اپنے ذاتی مفاد کے لیے جائز نا جائز کی پروا کیے بغیرغریبوں سے ان کے حقوق چھینے ہیں۔ کم معاوضے کے عوض دگنی مشقت کروائی گئی، انکی عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ بچوں کو تعلیم سے محروم رکھا۔غرض شاید ہی کوئی ایسا ظلم ہو جو ان غریبوں پر روا نہ رکھا گیا ہو۔ یہ سلسلہ تقریبا ازل سے اب تک جاری ہے۔ غریبوں پر ڈھائے جانے والے ان مظالم کے خلاف کوئی بھی آواز بلند نہیں کرتا۔ حکومتی سطحوں پر ان کمزوروں کی کے لیے بڑے بڑے فنڈز کا اعلان تو کیا جاتا ہے،مگر بیچارے غریب اور مزدور تک کوئی رلیف یا سبسڈی نہیں پہنچ پاتی۔ اس سب پرایک ظلم یہ کہ خود بچارے غریب کو بھی اپنے حق کے لیے آواز بلند ہی نہیں کرنے دی جاتی۔اگر وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف بات بھی کرے تو جبر و تشدد کے ذریعے سے اس کی آوازہی کو دبا کر اسے خاموش کروا دیا دیا جاتا ہے۔یوں غریب برسوں غربت کی چکی میں ہی پستا رہتا ہے۔
اردو ادب میں بہت سے ادباء اور شعراء کرام نے کمزوروں پر ہونے والے مظالم کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا۔کارل مارکس کے نظریہ مارکسزم اور ترقی پسندیت سوچ کے حامل افسانہ نگاروں نے معاشرے کی اصلاح کے لیے آواز بلند کی۔ کارل مارکس کے نظریے کے حامیوں نے مزدوروں پر ہونے والے مظالم، ان کو کم اجرت دئیے جانے اورسرمایہ دارنہ نظام کی حقیقت سے پردہ اٹھایا۔جبکہ ترقی پسند تحریک سے منسلک ادیبوں نے اپنے افسانوں کے ذریعے پسے ہوئے طبقے کی مشکلات کی عکاسی کی۔ ترقی پسند سوچ کے تحت پریم چند،احمد ندیم قاسمی،راجندر سنگھ بیدی،اختر حسین رائے پوری،عصمت چغتائی وغیرہ نے غریبوں کے لئے قلمی جہاد کیا اور آوازحق بلند کی، آج اسی کی ایک کڑی مہر غلام فرید کاٹھیا کی صورت ہمارے سامنے موجود ہے۔غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانوں میں غریبوں، کسانوں ،ہاریوں، اور پسے ہوئے نچلے طبقے کے لوگوں کے مسائل اور مشکلات کی بہترین انداز سے تصویر کشی کی ہے۔ غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانوں میں مزدوروں کے مسائل کو بھی بیان کیا ہے۔ آپ کا افسانہ’’دیوانے لوگ‘‘اس کی بہترین مثال ہے۔افسانے کامرکزی کردار ’’عابو‘‘ ہے، جس سے تھوڑی سی اجرت کے عوض بہت زیادہ مشقت کروائی جاتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں آجکل بہت سارے عابو پائے جاتے ہیں،جن سے سرمایہ دارا ن کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوگنی مشقت کرواتے ہیں۔ سماج کے مزدوروں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ روزگارکے عدم تحفظ کا ہے۔ جس کے باعث بیچارے مزدور اپنے ٹھیکیداروں اور مالکوں کے آگے زبان نہیں کھولتے،مالک تھوڑی بہت جتنی بھی اجرت دے بیچارے مزدور کوچپ چاپ اسے لینا ہی پڑتا ہے ، کیونکہ اسے اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ اگراس نے اپنے حق کے لیے آواز اٹھائی تو اسے کام سے نکال دیا جائے گا،اور دوسری جگہ جلد مزدوری ملنا بہت مشکل ہوگا۔ یوں گھر کی ضرورتوں اور فاقوں کے ڈر سے اسے مجبوراً کم معاوضے پر مزدوری کرنا پڑتی ہے۔ ٹھیکیدار اور مالک مزدوروں کی انہی مجبوریوں سے فائدے اٹھا کر انہیں بلیک میل کرتے ہیں۔ یہ ٹھیکیدار کسی بھی قدرتی آفت،کسی قریبی کی وفات، مجبوری،یا بیماری کی وجہ سے مزدوروں کو چھٹی کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔اگر وہ کام پر دیر سے پہنچیں یا غیر حاضر ہوں تو ان کی تنحواہ سے کٹوتی کی جاتی ہے۔ سب کے سامنے بے عزت کیا جاتا ہے،اور کام سے فارغ کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
آجکل مہنگائی کے اس دور میں بیچارے غریب مزدور کے لیے تو عزت سے دو وقت کی روزی روٹی کمانا مشکل ہوگیا ہے۔گھر کے خرچوں،بجلی کے بلوں، بچوں کے فیسوں اور قرضوں کے بوجھ تلے دبے غریب کے لیے بیماری کی صورت میں علاج معالجہ ایک طرح سے نا ممکن ہو گیا ہے۔ کم تنخواء میں اس کے پاس صرف اتنے ہی پیسے ہوتے ہیں کہ وہ بمشکل گھر کی دال روٹی چلا سکے،برے وقت کے لیے پیسے بچا کر رکھنا اس کے لئے ناممکن سی بات ہیکیوں کہ وہ بیماری کی صورت میں ہسپتالوں کے خرچے، ٹیسٹوں اور ڈاکٹروں کی فیس دینے کی طاقت نہیں رکھتا ،یوں وہ کینسر، ہیپاٹائٹس،ٹی بی ،تپ دق اور دمہ ، جیسی بڑی اور خطرناک بیماریوں کا علاج کروانے سے قاصر ہوتا ہے۔اور اگر ان موذی بیماریوں کا تدارک وقت پر نہ کیا جائے تو یہ اندر ہی اندر ناسور کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور آخر کار انسان بیماری کے سبب موت کو گلے لگا لیتا ہے۔ لیکن بیچارے غریب مزدور کے پاس اس جیسی مہلک بیماریوں کے علاج کے لیے اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ کسی اچھے یا پرائیویٹ ہسپتال سے بیماری کے خاتمے تک علاج کروا سکیں۔ چنانچہ ان کو ان عام دیہاتوں نیم عطائیوں کی دوا پر گزارا کرنا پڑتا ہے،جس سے وقتی طور پر تو راحت ملتی ہے مگر اس بیماری کا جڑ سے خاتمہ نہیں ہوتا اور غریب بالآخر موت کا شکار ہو جاتا ہے۔
غلام فرید کاٹھیا کا افسانہ’’دیوانے لوگ ‘‘بھی ایک ایسی دردناک کہانی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، افسانے کا مرکزی کردار عابو اپنے گھر کا واحد کمانے والا ہے۔ اس کی ایک سالہ معصوم بیٹی کو دینے کے لیے دودھ،اور بیمار بیوی کو بلاناغہ دوا کی اشد ضرورت ہے۔ اگر اس کی بیوی کی ایک بھی دن کی دوا چھوٹ گئی تواس کی طبیعت بگڑر جائے گی۔
عابو کے معاشی حالات بہت خراب ہیں۔ بیمار بیوی،اور ننھی بچی کی دوا اور خوراک کے اخراجات نہ ہونے جیسی تکلیف دہ صورتحال میں اگر اس کی ایک دیہاڑی بھی چھوٹ گئی تو اس کے خاندان پر قیامت ٹوٹ پڑے گی۔اس کی چھوٹی بیٹی بھوک سے بلک بلک کر،جبکہ اس کی بیوی دوائی کے بناسسک سسک اپنی جان کی بازی ہار جائے گی۔عابو بیچارہ انہی خوف و خدشات کے باعث ٹھیکیدار کی جلی کٹی سننے اور تھوری اجرت پر زائد مزدوری کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔وہ اپنے اوپر ہونے والے اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے سے بھی کتراتا ہے کیوں کے ایسے کسی بھی عمل کے بعد اسے اپنے رزق حلال اور اس مزدوری سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔
’’عابو اپنے حساب کے دس روپے لیتے وقت ڈر رہا تھا۔اس کے سامنے اس کی بیمار بیوی اور ایک سالہ معصوم بچی کے چہرے گھوم گئے۔یہ دس روپے کب تک چلیں گے۔بچہ دودھ پیتا ہے ،اس کی ماں بیمار ہے،اس کی دوائی روزانہ آتی ہے۔عابو یہ سوچ کر ہی کانپ گیا کہ اگر اگر کہیں دیہاڑی نہ ملی ،اگر اس کی ایک دیہاڑی بھی چھوٹ گئی تو کیا ہو گا۔اس کی بیوی بیماری سے مر جائے گی اور بچی بھوکی‘‘(4)
مزدور طبقہ معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتا ہے۔یہ طبقہ ملکی وقار میں خوشحالی اورترقی کا سبب ہوتا ہے، مگر حکومتی سطح پر سب سے زیادہ اسی طبقے کو نظر انداز کیا جاتا ہے،ان کے حقوق کا خیال نہیں کیا جاتا۔ انہیں کمزور اور کمتر تصور کیا جاتا ہے۔ سماجی و معاشی لحاظ سے اس طبقے کی زندگی نہایت مشکلات اور مسائل کے بوجھ تلے دب کر رہ چکی ہے۔ سارا سال محنت و مشقت کرنے والا یہ طبقہ معاشی اعتبار سے اس قدر پسماندہ ہوتا ہے کہ فصل کی کٹائی کے موسم میں اپنے کھانے کے لیے آناج،گندم اور چاول تک نہیں خرید پاتا ، اس لیے یہ مزدور طبقہ شدید گرمی اور چلچلاتی دھوپ میں اپنے سال بھر کے اناج کی خاطر بڑے نوابوں،سرداروں اور چوہدریوں کی زمینوں پر فصل کی کٹائی کا کام کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اس سب کے بدلے انھیں فصل کا کچھ حصہ دیا جاتا ہے۔ یوں ان غریبوں کی روٹی مشکل سے پوری ہو پاتی ہے۔
گندم کی بوائی سے کٹائی تک کا عمل جہاں کسانوں کی خوشی کا باعث ہوتا ہے وہیں گاؤں کے دیگر پسماندہ طبقوں مثلالوہاروں، نائیوں،ترکھانوں،موچیوں، چوکیداروں،اور مزدوروں کی مسرت کی وجہ ہوتا ہے کیونکہ اسی مہینے وہ اپنے گھر والوں کے لیے سال بھرکی گندم اکٹھی کرتے ہیں۔کام کے سلسلے میں دوسرے شہروں کا رخ کرنے والے مزدور بھی ان دنوں میں گاؤں لوٹ آتے ہیں،ہر کسی کا چہرہ خوشی کے باعث کھلا ہوتا ہے،فصل کی کٹائی سے قبل جشن کا سماں ہوتا ہے،ہر کوئی پرعزم اور پرجوش ہوتا ہے۔
مزدور طبقے کو ان دنوں کا شدت سے انتظار ہوتا ہے،کیونکہ یہاں نہ اس کی دیہاڑی ضائع جاتی ہے اور نہ ہی کوئی ان کا حق چھینتا ہے۔انہیں اپنی محنت و مشقت کا پورا صلہ ایک ایکڑ کے بدلے3من گندم کی صورت ادا کر دیا جاتا ہے۔مزدور اپنے خاندان بچوں اور خواتین سمیت کھیتوں میں جتنی زیادہ مشقت کرتے ہیں انہیں معاوضہ بھی اتنا ہی زیادہ دیا جاتا ہے۔
’’چالیس من گندم‘‘ افسانے میں غلام فرید کاٹھیا نے بکو کی مشقت،اسکی کام سے وفاداری اور محنت کو سراہا ہے۔ اور بتایا ہے کہ بکو کس طرح اپنے گھرانے کی خوراک کی ضروریات کی تکمیل کے لیے کوشش کرتا ہے۔
’’چلچلاتی دھوپ میں وہ سال بھر کی روٹیاں جمع کرنے میں لگے تھے اور روٹیاں جمع کرنے کا یہی ایک وقت ہوتا ہے۔جتنی گندم کاٹ لو اتنی روٹیاں جمع کر لو۔آگے پیچھے سال بھر گاؤں میں بے کار کسی بڑے ڈیرے پر حقہ دھر کر روٹی کھا لو اور ڈھور ڈنگروں کو چرا پھرا کرپلا نہلا کر تن ڈھانپنے کے لیے چند پھٹے پرانے کپڑے لیے اور بس‘‘(5)
عورت خدا کی خوبصورت مخلوق ہے۔ یہ دکھ سکھ میں مرد کی ساتھی اورزندگی کی غمگسار ہوتی ہے۔ یہ گھر بار کو سنبھالتی اور بچوں کی پرورش کرتی ہے۔جبکہ مرد باہر کے کام کاج اور روزگار کی ذمہ داریوں کو دیکھتا ہے۔یوں عزت و بھرم سے روکھی سوکھی کھا کر یا جیسے بھی زندگی کا پہیہ چلتا رہتا ہے۔مگر ہمارے معاشرے میں ہر جگہ ایسا نہیں ہوتا کہ فقط مرد ہی باہر جاکر کمائے اور عورت گھر کی ذمہ داریاں سنبھالے بلکہ پاکستان کے بہت سے پسماندہ علاقوں میں غریب طبقے کی عورتیں بھی گھریلو حالات سے تنگ، معاشی پریشانیوں کی وجہ سے مرد کے ساتھ باہر نکل کر کام کرنے پر مجبور ہوتی ہیں، کیوں کہ مہنگائی کے اس دور میں صرف ان کے مردوں کی تھوڑی سی تنخواہ سے گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے۔ عورت کی خوشحالی اور بہتر روزگارکے بارے میں بہت سے منصوبے تو بنائے جاتے ہیں تاہم ان پر عمل نہیں کیا جاتا۔ شہر ہو یا دیہات، عورت کی عزت و آبرو کہیں بھی محفوظ نہیں ہے۔ ہمارے ہاں دیہاتوں میںنچلے اور متوسط طبقے کی عورتیںاکثر بہت محنتی اوراپنے مردوں کی وفا شعار ہوتی ہیں۔وہ بڑی ایمانداری سے گھر کے کام کاج بھی سر انجام دیتی ہیں اور معاشی حالات سے تنگ آکر، گھر کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنے خاوند کے ہمراہ باہر کی ذمہ داریوں کا بھی بوجھ اٹھاتی نظر آتی ہیں۔
دیہی علاقوں کی خواتین کو جہاں تعلیم،روزگار،صحت جیسے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں دیہات کی عورتوں کا ایک بہت بڑا مسئلہ جنسی استحصال کا بھی ہے۔ گاؤں کے بااثر چودھریوں،زمیند اروں، وڈیروں، اور ان کے پالتو ملازموں کے ہاتھوں عورتوں کی عصمت دری اب معمولی سی بات بن کر رہ گئی ہے۔ یہ چوہدری اور وڈیرے نچلے طبقے کی خواتین کے تقدس کا خیال نہیں رکھتے۔ان کی نگاہ میں پسے ہوئے طبقے کے مزدوروں کی ماں،بہن، بہو، بیٹی اور عورتوں کی کوئی عزت و آبرو نہیں ہوتی۔ یہ سب عورتیں ان کے لیے فقط جسمانی لذت کا کوئی کھلونا،یا ٹیشو پیپر کی طرح ہوتی ہیں۔ وہ انہیں اپنی ہوس اور درندگی کا شکار بنانے کے بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔
مزدور طبقے کی ستم زدہ عورتیں اس مہنگائی کے دور میں اپنے بال بچوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے اگر باہر کا رخ کرتی ہیں تو ان کے ساتھ بد سلوکی روا رکھی جاتی ہے،مردوں کی ہوس بھری نگاہوں کے نشتر اورچبتے ہوئے تلخ و تیز جملے ان کا استقبال کرتے ہیں۔انہیں گرمی،شدید دھوپ اور دوسری مشکلات کے ساتھ ساتھ اپنی عفت کو بھی داؤ لگانا پڑتا ہے۔
مہر غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانے’’ٹھنڈے ہونٹ‘‘میں صغریٰ کے کردار کے ذریعے غریب مزدور عورتوں، اور بیواؤں کے مسائل کو ابھارا ہے, اور بتایا ہے کہ کس طرح یہ ہوس کے پجاری خواتین کو اپنی ناپاک خواہشات اور درندگی کا نشانہ بناتے ہیں۔
صغریٰ جو اس افسانے کا مرکزی کردار ہے، اک شدید دھوپ بھری دوپہر میں اپنے شوہر’’عنایتے‘‘ کے ہمراہ گندم کے کھیتوں میں چھٹائی کرنے میں مصروف تھی،ہوا گرم اور جسم کو جلسانے والی تھی۔ تھریشنگ سے اڑتا ہوا بھوسہ ماحول کو آلودہ کر رہا تھا۔ ٹی بی ،دمہ اور سانس جیسی بیماریوں کے مریضوں کے لیے سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔ صغریٰ بھی سانس کے عارضے میں مبتلا تھی۔ اس کی سانس چلنا رک گئی۔تمام مزدور فکرمندی کے عالم میں دائرے کی صورت جمع ہو چکے تھے۔ چوہدری نے جب دیکھا کہ کام رک گیا ہے،تو وہ وہ غصے کے عالم میں ان کے پاس آیا تاکہ ڈانٹ ڈپٹ کے ذریعے لوگوں کو منتشر کر کے دوبارہ کام شروع کروا سکے، مگر جب اس کی نظر چارپائی پرلیٹی حسین صغریٰ پر پڑی تو اسکا سب رویہ ہی بدل گیا۔ چوہدری کی خاموشی کے پیچھے چھپی خباثت ملاحظہ ہو :
’’دفع ہو جاؤ یہاں سے اور اپنا کام شروع کر دومگر ان میں سے کوئی بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا۔چوہدری نے چارپائی پر پڑی صغریٰ کو دیکھا تودم بخودہ رہ گیا۔غصہ کہاں اس کے دماغ پر اوس پڑ گئی۔وہ کبھی عنایت کی طرف دیکھتا تو کبھی صغریٰ کی طرف۔صغریٰ کی زبان گنگ تھی اور نظرپریشان حال تھی۔کیا اس نے کوئی گڈری میں ہیرا دیکھ لیا تھا یا جنت سے گری ہوئی کوئی حور جو زمین پر پریشان حال تھی۔ ‘‘(6)
آج ہمارے ملک میں رشوت جیسی لعنت کا کاروبار بہت عام ہو چکا ہے۔ طاقتور آدمی سے لے کر چھوٹے اور معمولی ملازم تک ہر کوئی رشوت کے دھندے میں مصروف نظر آتاہے۔ معاشرے سے عدل و انصاف ناپید ہو چکا ہے،لوگوں سے ان کا جائز حق چھینا جا رہا ہے۔ہر سْو رشوت کا بازار گرم ہے۔رشوت دینا اور لینا بالکل عام سی بات بن کر رہ گئی ہے کیونکہ لوگوں کے خیال میں اس کے ذریعے کام جلد اور آسانی سے ہو جاتا ہے۔
غلام فرید کاٹھیا کا افسانہ’’دیوانے لوگ ‘‘مزدور طبقے کے استحصال اور امراء کے ذریعے غریبوں پر ہونے والے مظالم کی داستان بیان کرتا ہے۔عابو نامی غریب مزدور گاؤں کے چوہدری اور وڈیرے کے جھوٹے مقدمے کا نشانہ بن کر جیل کی سلاخوں کی نظر ہو جاتا ہے۔یہاں جیل کی تنگ سی کوٹھری میں اس کے شب و روز بڑی مصیبت اور تنہائی کے عالم میں گزرتے ہیں،مگر یہاں اچانک عابو کی ملاقات جانو نامی ملزم سے ہوتی ہے،جسے بالکل عابو کی طرح برسوں قبل جھوٹے مقدمے میں پھنسا کر جیل میں پھنکوا دیا گیا تھا۔ایک روز جانو بہت بیمار ہوتا ہے،بخار اور دوا نہ ہونے کے سبب اس کی طبیعت بگڑ جاتی ہے۔ اسے ہسپتال لے جانے کی ضرورت ہوتی ہے مگر جیل وارڈن قطعاً اس کی اجازت نہیں دیتا۔عابو اپنی بات منوانے کی غرض سے ہیڈ وارڈن کو کچھ رشوت کی پیشکش کرتا ہے۔ عابو تو فقط اک مزدور تھا، مگر اس کے پاس رشوت دینے کے لیے اتنی رقم تو نہیں تھی،جو کہ وہ ہیڈ وارڈن کو دے کر مطمئن کر سکتا۔ہاں مگر اس کے پاس پوٹلی میں تھوڑے سے سگریٹ اور ایک دس روپے کا نوٹ تھا۔ وارڈن عابو کو ہسپتال جانے کی اجازت نہیں دیتا، بلکہ اسے سرزنش کے طور پر مزید سزا سنانے کی دھمکی دیتا ہے، جس کے ڈر سے عابو ہیڈ وارڈن سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہے اور اسے بدلے میں کچھ رشوت دینے پر راضی ہو جاتا ہے۔ ہیڈ وارن جو پہلے عابو کو معاف کرنے کو تیار نہیں ہو رہا تھا،پوٹلی کی لالچ میں اطمینان میں آ جاتا ہے۔
غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانے کے ذریعہ سے پولیس کے مقدس پیشے میں خیانت اور اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرنے والوں سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔افسانہ یہ بتاتا ہے کہ کس طرح پولیس کی وردی میں کالی بھیڑیں مظلوم عوام کو لوٹتی ہیں،اور ملزم کو مجرم اور مجرم کو لمحوں میں ملزم بنا دیتی ہیں۔ غریب مزدوروں کی حق حلال کی کمائی کھانے والے ان مگرمچھوں کے خلاف بھی کاروائی ہونی چاہیے تاکہ رشوت جیسی لعنت کا کاروبار بند ہو سکے۔ ہیڈ وارڈن کے لالچ کوافسانہ نگار نے یوں بیان کیا ہے :
’’ہیڈ وارڈن نے ہاتھ بڑھا کر پوٹلی لے لی اور ہاتھ سے دبا کر پوٹلی کے اندر کے مال کا اندازہ کرنیکی کوشش کرنے لگا۔عابو نے کہا’’حضور اس میں دس کا نوٹ اور پانچ سگریٹ ہیں‘‘،’’ہوں‘‘ہیڈ وارڈن جیسے مطمئن سا ہو گیا ہو۔ یہ لو چابیاں کل تمہاری پیشی نہیں کروں گا۔ بڈھے کو کل ہسپتال لے جانا۔‘‘(7)
ہمارے ملک پاکستان میں مہنگائی کے سبب غریبوں اور مزدوروں کی حالت روز بروز ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ دیہاڑی دار بیچارہ اپنے خاندان کی روزی روٹی جیسی ضروریات پوری کرنے کے لیے،مختلف کارخانوں، بھٹوں، فیکٹریوں ، یا پھر ٹھیکیداروں کے ہاں مشقت و مزدوری کرکے اپنے گھرکا نظام چلاتا ہے۔ ان لوگوں کے مالی حالات کچھ خاص اچھے نہیں ہوتے۔کم اجرت میں زائد مزدوری کرنا ان لوگوں کی مجبوری ہوتی ہے کیونکہ ان کے پاس جلد اور کوئی دوسرا، ذریعہ آمدن نہیں ہوتا۔ حکومتی سطح پران غریبوں اور مزدوروں کو مراعات اور سہولیات دینے دعوے تو کیے جاتے ہیں۔ ہر بجٹ میں غریبوں کے لیے رکھی گئی اسکیموں اور پالسیوں کی تشہیر کے لیے اربوں روپے مختلف چینلوں، اخباروں اور اشتہاروں پر تو ضائع کیے جاتے ہیں۔ تاہم غریبوں کے لئے جمع شدہ فنڈز کی رسائی ان تک کبھی بھی ممکن نہیں ہوپاتی،اور یوں غریب بے چارے اپنے جائز حقوق کے لیے بھی ترستے رہتے ہیں۔
مہرغلام فرید کاٹھیا کے افسانے غربت کی چکی میں پسنے والے مزدوروں کی زندگی،ان پر ہونے والے مظالم،بے روزگاری، عورت کی سماجی مشکلات، جنسی درندگی، اور پسماندہ طبقے کے مسائل کی بڑے بہترین انداز سے عکاسی کرتے ہیں۔ غلام فرید کاٹھیا کے افسانوں سے پتہ چلتا ہے کہ دولت مند اور سرمایہ دار کس طرح اپنے مذموم مقاصد کے تحت غریبوں کی مجبوریوں ،اور ان کی معصومیت سے فائدہ اٹھاتے ہیںچند پیسوں کے لالچ میں ان غریبوں کو سنہرے خواب دکھا کربیوقوف بنایا جاتا ہے۔ یہ بیچارے غریب ان شاطراور مکار لوگوں کے عزائم اورحربوں سے واقف نہیں ہوتے۔سادہ لوح لوگوں کی کم فہمی اور جہالت کے بدلے ان سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے ، ان لوگوں سے غیرآئینی کام کاج حٰتی کہ قتل تک کروائے جاتے ہیں۔انہیں تھوڑی سی آسائشیں دے کر مختلف جرائم میں پھنسایا جاتا ہے۔امیر طبقہ ہمیشہ غریبوں کی مجبوریوں اور کمزوریوں سے فائدہ سمیٹتے ہیں۔ اپنے آپ کو پس پردہ رکھ کربیچارے غریب مزدوروں کو لڑائی کے ذریعے ایک دوسرے کا دشمن بنایا جاتا ہے۔ان کی زندگیوں سے بری طرح کھیلا جاتا ہے۔ اگر کوئی ملازم اپنے ہدف کو نہ پا سکے،اور پولیس یا دوسرے ذرائع سے اس کی شناخت یا پکڑے جانے کا خوف ہو،تو یہ مالک حضرات اس ڈر سے کہ کہیں یہ بندہ اپنی زبان ہی نہ کھول بیٹھے اور میرا نام آئے ،اس کا صفایا ہی کر دیتے ہیں۔ آج کل ہمارے معاشرے میں یہ وڈیرے، چودھری،اور امراء ان غریبوں کی مجبوریوں کے بدلے ان کے ضمیروں کا سودا کرتے ہیں۔ غلام فرید کاٹھیا نے غریبوں اور مزدوروں کی مجبوریوں کو خریدے جانے کی ایک ایسی ہی کہانی اپنے افسانے میں بیان کی ہے۔اور بتایا ہے کہ کس طرح خود پس پردہ رہ کر، ٹھیکیدار دو مزدروں کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے۔اسے غریبوں کی جان کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ عابد جب ٹھیکیدار کے حکم پر صاحب ٹائپ آدمی پر وار کرتا ہے اوراس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہو جاتی ہے، یہ منظر دیکھ کر ڈرائیور اور اسکا ساتھی ڈر کر بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈرائیور بھاگ جاتا ہے تاہم اس کا ساتھی گر جاتا ہے۔ واقعہ پر موجود واحد گواہ یعنی چوکیدار اس ساری صورتحال کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنا فرض ادا کرتا اور ان لوگوں کے خلاف مقابلہ کرتا،وہ خوف کے عالم میں کہ کہیں وہ بھی نہ مارا جائے،گھبرا کر زمین پر گر پڑتا ہے۔ وہ صاحب ٹائپ آدمی کی لاش دیکھ کر بہت سہم جاتا اور پھاٹک کے پاس گرا کانپنے لگتا ہے۔عابد اپنے ساتھی کو سہارا دیتے ہوئے جب پھاٹک کے قریب آتا ہے تو گرے ہوئے چوکیدار کو ہاتھ سے پھاٹک کھولنے کا حکم صادر کرتا ہے،جسے وہ چپ چاپ مان لیتا ہے، افسانے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ غریب آدمی کو اپنی جان اپنے فرائض سے زیادہ پیاری ہوتی ہے، وہ خوف کے مارے ظالم کے ظلم سے سہم کر جان کی امان مانگتے ہوئے پھاٹک کا دروازہ کھولنے پر مجبور ہو جاتا ہے :
’’وہ صاحب ٹائپ آدمی کی لاش دیکھ کر بہت زیادہ خوف زدہ ہو چکا تھا وہ پھاٹک کے پاس سے اٹھ کر عابد کے قدموں میں آگرا اور منت سماجت کرنے لگا میں ایک غریب ادمی ہوں میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں مجھے معاف کردو۔بھائی مجھے کچھ نہ کہنا میں بھی تمہاری طرح کا ایک مزدور ہوں مجھے معاف کردو۔‘‘(8)
غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانوں میں دیہات کے پسے ہوئے اور کمزور طبقے کے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ان کے اکثر افسانے گاؤں کے معاشرتی حالات،لوگوں کے رہن سہن،غریبوں کی غربت،وڈیروں،زمنیداروں،نمبرداروں اور چودھریوں کے غریبوں پر مظالم، پولیس کا ظلم و ستم، پنچایتوں کے نظام، زمیندار کے مسائل،دیہاتی لوگوں کی سادگی، اور مجبوروں کی مجبوریوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوتے ہیں۔غلام فرید کے بیشتر افسانے حقیقت نگاری کا عکس دکھائی دیتے ہیں۔
’’سونے کی چوری‘‘ محنت کش لوہار عبدالکریم کی کہانی ہے۔ عبدالکریم اپنے کام کا ماہر ہوتا ہے، اس کے بنائے ہوئے اوزار،زرعی آلات ،کسی،کھرپے ،پھالے،درانتیاں، اور دیگر گھر کے استعمال کی چیزیں دیہات بھر میں مشہور تھی۔ عبدالکریم چاک و چوبند ،اور لمبے،اونچے قد کا توانا وخوبرو نوجوان تھا۔ اس کی ایمانداری اور کام سے لگن دیہات بھر میں مشہور تھی۔سہاوے کے ملک محمد دین کو اپنے گھریلو استعمال کی چیزوں کے علاوہ کھیتوں کے لئے بھی آلات کی ضرورت پڑتی رہتی تھی،جنہیں وہ صرف عبدالکریم ہی سے بنواتا۔
عبدالکریم اس کا کام ہمیشہ بڑی محنت اور لگن سے کرتا۔ یہی وجہ تھی کہ ملک محمد دین نے اس کی ایمانداری سے متاثر ہو کر اسے بیٹوں کی طرح چاہنا شروع کر دیا۔ کبھی کبھارتو ملک محمد دین اسے اپنے گھر بھی بلوا لیٹا اور گھر ہی میں کھیتوں کے لیے زرعی آلات کی تیاری بھی کرواتا۔ ملک محمد دین کی صاحبزادی رحمتے اس چاک و چوبند اور توانا نوجوان عبدالکریم کی محبت میں مبتلا ہو جاتی ہے، مگرعبدالکریم نگاہیں جھکائے، ہمیشہ دل سے اسکااس کی عزت کرتا ہے۔عبدالکریم تھا تو ایک مزدور ہی۔ وہ اپنی حیثیت اور مرتبے سے اچھی طرح واقف تھا، اسی لئے وہ خود کو ان باتوں سے پرے رکھنا چاہتا تھا۔رحمتے کے بڑے بھائی اسماعیل کو جب اپنی بہن رحمتے کی عبدالکریم کے لیے پسندیدگی کا علم ہوتا ہے تو وہ اپنے خانداں کی عزت بچانے کی غرض سے عبدالکریم پر بنا کسی گواہ اور ثبوت کے چوری کا سنگین الزام دھر دیتا ہے۔ پولیس کسی تفشیشی کارروائی کے بغیرہی چودھری سے رشوت کے پیسے وصول کرکے کر عبدالکریم کو ملزم سے مجرم بنا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیتی ہے۔
غلام فرید کاٹھیاکا یہ افسانہ پولیس گردی اور اس کے نتیجے میں وڈیروں، جاگیرداروں، زمینداروں اور سرمایہ داروں کے ذریعے مزدوروں کے استحصال اور ان پر ہونے والے ظلم و جبر کی نشاندہی کرتا ہے۔ افسانہ نگار نے بتایا ہے کہ کس طرح پولیس کی رشوت خوری اورجھوٹ کے ذریعے ملزم کو مجرم اورمجرم کو ملزم کی صورت بدل دینے جیسی کارستانیاں سرانجام دی جاتیں ہیں۔ پولیس نے پیسوں کے بدلے عبدالکریم پر یوں جھوٹا الزام لگایا:
’’عبدالکریم نے سہاوے کے ملک محمد دین کے گھر سے چوری کی ہے۔ ملک محمد دین کے بڑے بیٹے ملک اسماعیل نے تو اسے سامان سمیت موقع پر ہی پکڑ لیا تھا۔طاقتور جو بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔بہت بڑی چوری ہے۔ہزاروں روپے کا سونا ہے۔ایک گٹھڑی میں لے کر بھاگ رہا تھا کہ پکڑا گیا۔ سونے کی گٹھڑی تو ملکوں کے باڑے سے برآمد ہو گئی جہاں عبدالکریم رات کے وقت سوتا تھا۔‘‘(9)
مزدور طبقہ اپنی تھوڑی آمدن،اور معاشی مجبوریوں کے تحت پڑھنے لکھنے سے قاصر ہوتا ہے جس کی وجہ سے انہیں اپنے حقوق اور ان کے دفاع کی صحیح طریقے سے پہچان نہیں ہو پاتی۔ان کے ان پڑھ ہونے کے سبب جاگیردار،چودھری،نمبردار اور دیہاتی وڈیرے ان کے حقوق کا استحصال کرتے ہیں۔ یہ بے چارے غریب مزدور عزت اور جان یہ خوف کے مارے اپنے جائز حقوق کے لئے بھی آواز اٹھانے سے قاصر ہوتے ہیں۔
وہ نسل در نسل ظلم سہہ کر اس سب کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ اپنے بچوں کو بھی علم کی روشنی سے منور کرنے کی بجائے مشقت و مزدوری پر لگا دیتے ہیں۔ غریب کے لیے کم تنخواہ میں دو وقت کی حلال روزی کھانا ہیں بہت مشکل ہوتا ہے۔ فیس جمع کروانا ،کتابیں خریدنا ان کے لیے بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ غریبوں کے معصوم بچوں کی خواہشات ان کے کھیلنے ہی کے دنوں میں ہی میں مٹ جاتی ہیں۔ غریبوں کے بچوں کے ہاتھ کتابیں اور بستہ تھامنے کی عمر میں ہی مشقت و مزدوری کرکے سخت ہو جاتے ہیں۔ پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندان کو کئی دن تک بھوکا بھی رہنا پڑتا ہے۔ زلزلہ،بارشیوں،سیلاب اور ناگہانی آفات سے بچنے کے لیے ان کے پاس رہائش یا راشن وغیرہ کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا۔ اگر انہیں کوئی پریشانی یا آفت آن پڑے تو ان کے لئے جلد سنبھلنا بہت مشکل ہوتا ہے،کیونکہ ان کے پاس اتنا روپیہ پیسہ نہیں ہوتا کہ وہ حالات کا رخ پھر سے نارمل زندگی کی جانب موڑ سکیں۔
بیماریاں اور صحت کے مسائل بھی غریبوں کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ ہیں۔ اگر پسماندہ طبقے کا مزدوریااس کے خاندان کا کوئی فرد بیمار پڑ جائے ان کے پاس علاج معالجے کے لیے رقم نہیں ہوتی، پرائیویٹ ہسپتال تو دور سرکاری ہسپتال کی فییس بھرنااور خطرناک بیماریوں کے خلاف لڑنا ان کی استطاعت سے باہر ہوتا ہے۔ جس کے بدلے میں وہ چھوٹے موٹے معمولی کلینک سے دوا لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جو انہیں وقتی طور پر تو راحت بخشتی ہے لیکن وہ بیماری اندر ہی اندر جڑ پکڑ لیتی ہے اور بالآخر موت یا کسی بہت بڑے مسئلے کی صورت میں سامنے آتی ہے۔
خوراک اور صحت کی سہولیات ہر شہری تک پہنچانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہونی چاہیے لیکن صد افسوس کہ آج ہمارے حکمران خواب خرگوش میں مست،غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔انہیں بے چارے، کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے والے ان مظلوموں کی آہ و پکار اور بے بسی نظر نہیں آتی۔ان کے پاس ملازمتوں کی کمی ہے۔علاج معالجے کی سہولیات کا فقدان ہے۔ ان کی اجرت اور کام کا معاوضہ ان کی محنت کے بدلے آدھے سے بھی کم ملتا ہے۔جاگیردار، ٹھیکیدار اور چوہدری ان پر طرح طرح کے ظلم ڈھاتے ہیں ان کی بے بسی اور مصومیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں کام سے نکالنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ان کے خاندان،اور ان کی ماں،بیٹیوں کی عزتیں اور عصمتیں محفوظ نہیں رہتی۔ کوئی بھی گاؤں کا وڈیرہ روپے پیسے،اور طاقت کے نشے میں مست ان کی بہو، بہنوں کو دن دھاڑے اٹھا کر بلا نکاح اپنی حویلیوں میں رکھ لیتا ہے۔ ان مزدوروں کی عورتیں بچہ جننے کے دنوں کے قریب بھی تیز گرمی میں کھیتوں میں کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ مزدوروں کی غیرت اور ان کی محنت کو ان کا جرم سمجھا جاتا ہے۔ ان کے بولنے سے قبل ہی ان کی زبانوں کو تالے لگانے کا بندوبست کر لیا جاتا ہے۔
کام کے اڈوں پر انہیں بْرے القابات سے پکارا جاتا ہے۔ چھوٹی سی غلطی پر گالیوں اور تلخ باتوں کے نشتروں سے ان کی تواضع کی جاتی ہے۔ان مزدوروں کو چند روپوں کی لالچ دے کر ان کے ضمیروں کا سودا کیا جاتا ہے۔ ان سے ناجائز مقاصد کی تکمیل کروائی جاتی ہے۔دیہاتوں کے بڑی جاگیروںکے چھوٹے دل والے مالکوں سے، ان مزدوروں کی ترقی ہضم نہیں ہوتی۔ یوں وہ ان کی زندگی اجیرن بنا دیتے ہیں۔ ان بیچارے مزدوروں میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے مالکوں کی کسی بات کو رد کر سکیں۔یا ان سے اپنے کسی جائز حق کا مطالبہ کریں۔
یوںدو وقت کی روٹی کے لیے مجبور، یہ غربت کی چکی میں پسنے والا مزدور، نسل در نسل اسی مزدوری اور غلامی والی زندگی کو گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔ سالوں گزرنے کے باوجود ان کے معاشی حالات کبھی بہتر نہیں ہوتے۔
غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانوں میں مزدور طبقے کے تمام مسائل کی بڑے ہی عمدہ انداز سے عکاسی کی ہے۔ آپ کے افسانے پڑھتے ہوئے قاری کو حقیقت کا گماں ہوتا ہے۔افسانوں کی زبان سادہ اور سلیس ہے۔بلاشبہ غلام فرید کاٹھیا مزدور کے بہترین ترجمان ہیں۔
پسماندہ طبقے کی ترجمانی
پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری ہے۔پسے ہوئے طبقے کا اس غربت اور مہنگائی کے دور میں بغیر روپے پیسے، لوگوں اور معاشرتی اقدارکے ساتھ چلنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ حکومتی سطح پر دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ،مہنگائی اور حقداروں کو ان کے حقوق نہ ملنے کے باعث پسماندہ طبقہ کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ بے روزگاری کی وجہ سے غریبوں کو فاقے کرنے پڑتے ہیں۔بے شمار لوگ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ملازمت کے لئے دھکے کھانے پر مجبور ہیں، کیونکہ معمولی سی نوکری کے حصول کے لیے بھی اثرو رسوخ یا پھرکوئی تگڑی سفارش درکار ہوتی ہے۔ اعلی طبقے کے افراد دولت اور سفارشوں کی وجہ سے کم اہلیت کے باوجود بھی بہترین عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں۔ مگر بیچارہ غریب ڈگری اور پڑھے لکھے ہونے کے باوجود بھی بہترملازمت کیلئے دھکے کھاتا رہتا ہے۔ یہ سب رویے سماجی ناانصافیوں اور مایوسی کو پروان چڑھاتے ہیں۔
آج کل سرمایہ داروں ، جاگیرداروں، فیکٹریوں ،کارخانوں کے مالکان ، زمینداروں اور اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والے لوگ غریبوں کا استحصال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ نا صرف امراء بلکہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بڑے دوکاندار،تاجر،مزدور،اور ملازم جو خود تو بہت زیادہ سہولتوں میں زندگی گزار رہے ہوتے ،ہاں البتہ ان کے گھریلو حالات نچلے طبقے کے بے روزگاروں، چپڑاسیوں ، کمہاروں ، مزارعوں،عام دکانداروں اور چھوٹے موٹے معمولی کام جاننے والے مزدوروں ، وغیرہ کی نسبت خاصے بہتر ہوتے ہیں۔ درمیانہ طبقے کے یہ لوگ پسے ہوئے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر ظلم و ستم ڈھاتے ہیں۔ یوںنچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے غریب اور پسماندہ لوگ اپنے سے اعلی لوگوں کے رعب و دبدبے کا شکار ہو جاتے ہیں۔
غریبوں کو ان کا حق دلوانے کے لیے محتلف ادارے اور کچھ فلاحی تنظیمیں بھی کام کر رہی ہیں، لیکن وہ نچلے طبقے کے مسائل کو کم کرنے میں کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہو پاتیں، کیونکہ وہ تمام فنڈز جو کہ ان غریبوں کی امداد کے لیے مختص کیے جاتے ہیں، وہ افسران بالا کی کرپشن اور لالچ کی نظر ہو جاتے ہیں۔ یوں غریبوں تک ان کا حق نہیں پہنچتا۔اس کی وجہ سے مزید غربت جنم لیتی ہے۔
آج کل ہمارے ملک میں فرقہ واریت بہت عروج پر ہے۔معاشرہ شیعہ،دیوبندی سنی ، اہل حدیث اور بریلوی جیسے مسالک میں بٹ چکا ہے۔ذات پات ،مسلک و برادری اور مذہبی شدت پسندی کی آڑ لے کر پسماندہ طبقے کے معصوموں اور غریبوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتے ہیں۔ جبکہ مذہب تو بھائی چارے ، امن و محبت اور اخوت کا درس دیتا ہے،ایک دوسرے کے حقوق ضبط کرنے اور لوگوں کے حصوں پر ڈاکہ ڈالنے سے منع کرتا ہے۔ مگر ہمارے یہ سب بہت عام ہو چکا ہے۔فرقہ پرستی کی وجہ سے اب ملازمت ملنا کافی دشوار بن گیا ہے۔ کوئی بھی بڑے عہدے والا کسی ایسے شخص کو ملازمت پر نہیں رکھتا جو اس کے مسلک یا فرقے سے تعلق نہ رکھتا ہو۔بالکل اسی طرح غیر مذہب، اقلیتوں،خانہ بدوشوں،اور چھوٹی ذات،برادری کے لوگوں سے بھی زندگی کے ہر شعبے میں نامناسب رویہ روا رکھا جاتا ہے۔ غریبوں کو ترقی کرنے اورزندگی میں آگے بڑھنے سے روکا جاتا ہے، یوں غریب نسلوں تک غریب ،اور اپنے آبائی پیشے ہی سے منسلک رہنے پر مجبور ہوتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ پڑھنے لکھنے کے بعد بھی اسے اچھی ملازمت نہیں مل سکے گی۔ اس سب کی وجہ سے مایوسی، چڑچڑا پن،نفرت،حالات سے بغاوتاور طبقاتی کشمکش جیسے عوامل جنم لیتے ہیں۔
آج ہمارے کچھ ادیبوں اور مصنفوں نے اپنی تخلیقات اور افسانوں وغیرہ میں غریبوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم،معاشرتی ناانصافیوں، اور استحصالی قوتوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے، تاکہ اس ظلم کے راج کے خلاف لوگوں میں شعور پیدا ہو سکے۔
غلام فرید کاٹھیا اردو ادب کے ان جدید افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں جن کے افسانے مذہبی شدت پرستی،معاشرتی ظلم، عدم مساوات ،اور پسماندہ طبقے کے مسائل کی عکاسی کرتے ہیں۔غلام فرید کاٹھیا کے افسانے ہمارے معاشرے کیلئے ایک بہترین اثاثہ ہیں۔ پسے ہوئے طبقے کے مسائل کو اجاگر کرتا غلام فرید کاٹھیا کا افسانہ’’ہیلو-ہائی‘‘ یونیورسٹی کے طالب علم عمار کی جذباتی کہانی ہے۔ عمار کا باپ معمولی سی پنشن لینے والا ایک ریٹائرڈ ملازم ہے جو اپنی اور اپنے خاندان کی بہت سی خواہشات کا گلا گھونٹ کر اپنے بیٹے کو انٹرمیڈیٹ تک کی تعلیم دلوانے میں کامیاب ہو پاتا ہے۔ وہ اپنی پنشن کی پائی پائی جوڑ کر بیٹے کا گریجوایشن کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ کرواتا ہیتاکہ اس کا بیٹا تعلیم حاصل کرکے کسی اچھی سرکاری نوکری کا اہل ہو سکے۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا بھی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے لیے اس کی طرح سسک سسک کر زندگی گزارے۔ عمار یونیورسٹیی میں داخلہ تو لے لیتا ہے مگر یہاں اس سے عنبرین نامی ایک لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے، مگر اس کا اظہار اس کے لیے ایک بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔کیونکہ عنبرین ایک اپر کلاس گھرانے، جبکہ عمار پسے ہوئے طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔عمار عنبرین سے اپنے دل کی بات کرنا چاہتا ہے،مگر اس کے سامنے اس کی غربت مجبوری بن کر ناچنے لگ جاتی ہے۔اسکی دل و دماغ میں بوڑھی بیمار ماں کے علاج اور چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم اور مستقبل کے خواب دوڑنے لگتے ہیں۔ وہ اچھے مستقبل کے لیے شارٹ کٹ راستہ ڈھونڈنے کی بجائے اپنی محنت اور قابلیت پر بھروسہ کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔وہ اپنی خواہشات کو پس پشت ڈال کر ماں باپ کے ارمانوں کو فوقیت دیتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے باپ نے اپنی تمام عمر کی جمع پونجی اس کی فیسوں اور تعلیمی اخراجات پر صرف کردی ہے،اور اب اسے ہی پڑھ لکھ کراپنے خاندان کا سہارا بننا ہے،اپنے بہن بھائیوں کی تعلیم اور مستقبل سنوارنا ہے،بوڑھی بیمار ماں کا علاج کروانا ہے۔ اس کا عنبرین سے جذباتی تعلق اظہار کے بغیر ہی ادھورا رہ جاتا ہے۔ وہ ایک نچلے طبقے کا فرد ہے یہ خیال ہی اسے سب کچھ بھولنے پر مجبور کردیتا ہے کیونکہ اس کی فکروں نے اس کے دل و دماغ کو جکڑ رکھا تھا۔کیوں کہ وہ اپنی خاندانی ذمہ داریوں کی انجام دہی ترک نہیں کر سکتا تھا۔ ان سب حالات اور ذمہ داریوں نے اسے اس کی محبت بھلانے پر مجبور کر دیا تھا،جو بعد میں اس کے لئے پچھتاوے کا سبب بن گیا تھا۔ غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانے میں طبقاتی کشمکش کی عمدہ انداز میں تصویر کشی کی ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح ہمارا معاشرہ اپنے سے کمتر طبقے کے افراد کو ذلیل و رسوا کرتا ہے۔کوئی ان سے رشتہ ناتا جوڑنے اور اپنی بیٹی بیاہنے کو تیار نہیں ہوتا۔ اپنی غربت کی وجہ سے وہ اپنی زندگی کا کوئی بھی فیصلہ خود نہیں لے سکتے,کیونکہ حالات اور ذمہ داروں نے ان کے ہاتھ پاؤں پوری طرح سے جکڑے ہوتے ہیں۔ ایسی صورت حال عمار کی بھی تھی :
’’میرا باپ ایک ریٹائرڈ ملازم تھا۔ماں ضعیف اور بہن بھائیوں میں سب سے بڑا،اس لیے گھر کی ذمہ داری بھی مجھ پر تھی۔چھوٹے بہن بھائیوں کو کیسے وقت دیتا گویا کہ میرے پاس ذہنی فرصت کا ایک لمحہ نہ تھا۔‘‘(10)
اس غربت اور بے روزگاری کے دور میں غریبوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا بہت ہی دشوار ہو گیا ہے۔ کم آمدن میں والدین بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے اپنی ساری کمائی ان پر لوٹا دیتے ہیں، تاکہ وہ پڑھ لکھ کر مستقبل میں کسی اچھی جگہ نوکری کر کے خاندان کا سہارا بن سکیں۔ ایسے والدین جو اپنی اولاد کی تعلیم کے حصول کے لئے اپنی خواہشات کی قربانی دیتے ہیں،تاکہ ان کے بچے پڑھ لکھ کرکنبے کا بوجھ اٹھا سکیں۔ انہیں اولاد سے بہت سی توقعات وابستہ ہو جاتی ہیں۔ اکثر اوقات ان غریب اور محنتی ماں باپ کے بچوں کو بھی اس چیز کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے والدین نے انہیں یہاں تک پہنچانے کے لیے کتنی بڑی بڑی مشکلات برداشت کی ہیں، اسی وجہ سے ان کی اولاد بھی خاصی محنتی ہوتی ہے۔ وہ اپنے والدین کی طرح محنت پر یقین رکھتی ہے۔ تاکہ وہ پڑھ لکھ کر اپنے حالات کو بہتر کر سکے۔
محنت کو اپنا وطیرہ بنانے والے ایک ایسے ہی نوجوان سروش کی کہانی افسانہ نگار نے اپنے افسانے ’’ڈائریکٹر جنرل‘‘ میں بیان کی ہے،اور بتایا ہے کہ کس طرح خیالات کی مضبوط گہرائی رکھنے والا ہونہار اورمحنتی طالب علم سروش، اپنی دن رات کی جدوجہد سے اپنے گھریلو حالات بدلنا چاہتا ہے۔ ہمارے ہاں غریبوں کے بچے عموما زیادہ محنت پسندہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے معاشی حالات کو سدھارنا چاہتے ہیں۔ اگر انہیں پڑھنے لکھنے کے مواقع نصیب ہو جائیں تو وہ کبھی بھی انہیں ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ مگر افسوس کہ اتنی بڑی بڑی ڈگریاں اور اتنے شاندارگریڈز ہونے کے باوجودبھی انہیں کہیں بھی اچھی جگہ نوکری نہیں ملتی۔ یوں وہ برسوں پڑھنے، اورپیسوں کی بوریاں لٹانے کے بعد حاصل کی گئی ڈگریاں تھامے فقط در در کی ٹھوکریں ہی کھاتے رہتے ہیں۔ان کے اچھے مستقبل کے سہانے خواب ادھورے ہی رہ جاتے ہیں۔کیوں کہ کرپشن جیسی اس لعنت کے دور میں ہر شعبے میں کالی بھیڑیں مسلط نظر آتی ہیں۔ وہ کسی بھی نوکری کا اشتہار آنے سے قبل ہی اندر کھاتے اپنے عزیز رشتہ داروں، دوستوں یا جانے والوں کورشوت کے بدلے ملازمت پررکھوانے کی بات طے کر لیتے ہیں۔ یوں بیچارے حقداران کو فہرستیوں میں اولین ہونے کے باوجود ذلیل اور رسوا ہونا پڑتا ہے۔
آج کل پڑھنے لکھنے کے باوجود میریٹ پر اچھی ملازمت ملنا ناممکن سا ہو گیا ہے۔کچھ لوگ نوکری کے سلسلے میں درپیش مسائل کو جانتے ہوئے اپنی اولاد کو تعلیم حاصل کرنے سے روک دیتے ہیں اورانہیں مزدوری پر لگا دیتے ہیں۔ باقی تعلیم حاصل کرنے والوں کو یہی فکر کھاتی رہتی ہے کہ کیا انہیں کبھی کسی اچھی جگہ کوئی عہدہ بھی مل پائے گا؟ یا ان کے حالات اس ڈگری کے سبب کبھی سدھر پائیں گے یا نہیں ؟ کیوں کہ آج کل رشوت کا بازار گرم ہے اورعام آدمی اس سب کو ادا کرنے کی استعداد نہیں رکھتا۔ غلام فرید کاٹھیا کا افسانہ’’ڈائریکٹر جنرل‘‘آجکل متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ہر ڈگری ہولڈر کے دلی جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔:
’’کیا میری ڈگری میرے کنبے کی زندگیوں کا بوجھ اٹھا لے گی۔کیا کاغذ کا یہ ٹکڑا میرے لیے باعزت روزگار کا ضامن ہو سکے گا۔بہر حال مری الجھنیں جیسی بھی ہوں امتحانات کو تو ہونا تھا۔طلباء کو گھروں کو بھی جانا تھا۔ پاس بھی ہونا تھا اور کچھ کوفیل بھی ہونا تھا۔روزگار کسی کو ملے نہ ملیاس سے امتحانات کے ہونے کو کوئی سروکار نہ تھا۔‘‘(11)
کرپشن اور رشوت خوری ہمارے ملک میں ناسور کی طرح پھیل چکی ہے۔ چھوٹے سے لے کر بڑے عہدیدار تک ہر کوئی اس کی لپیٹ میں نظر آتا ہے۔متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ کم کمائی ہونے کے باعث رشوت خوروں کی جیبیں بھرنے سے قاصر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں زندگی کے معاملات میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانوں میں غریب طبقے کے مسائل کی بڑے ہی بہترین انداز میں عکاسی کی ہے۔آپ کا افسانہ’’دست شفا‘‘ پس ماندہ طبقے کی مشکلات کی وضاحت کرتا ہے۔عیش افسانے کا مرکزی کردار ہے۔جس کا والد اس کے بچپن ہی میں اللہ کو پیارا ہو گیا تھا۔یتیمی کی زندگی گزارنے والے عیش کی والدہ نے اکیلے عیش اور اس کی بڑی بہن کی پرورش کی۔جس کے دوران اسے بہت سے مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔وہ خود تپدق کی بیماری میں مبتلا تھی۔ وہ اپنی اولاد کے لئے جینا چاہتی تھی ،اسی لئے اس نے اپنی تمام تھوڑی بہت جمع پونجی اپنے علاج پر صرف کر دی،تاکہ وہ زندہ رہ سکے۔ مگر اس کی جان بچ نہ سکی اور وہ اللہ کو پیاری ہو گئی۔ ننھے عیش کی نگاہوں میں علاج کے لیے سسکتی ہوئی ماں کی تصویر ساری عمر کے لئے مقید ہو گئی۔
نو سالہ معصوم عیش پر آفتیں ٹوٹ پڑیں۔اب اس بھری دنیا میں اس کے پاس صرف اپنے سے پانچ سال بڑی فقط ایک بہن روبینہ ہی بچی تھی۔جو کے بچپن ہی سے دبلی پتلی یہ وہ بھی دق سل کی بیماری سے انتقال کرگی۔اب عیش ماں باپ کی محبت اور اپنوں کی شفقت سے مکمل طور پر محروم ہو گیا تھا۔ اس کا اس بھری دنیا میں کوئی نہ رہا تھا۔کچھ عرصہ تک تو گاؤں کے بڑے بزرگ اس سے ملنے اور افسوس کرنے آتے رہے تاہم جلد ہی سب لوگ اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہوتے گئے۔اب عیش کا اس کل کائنات میں کوئی نہ بچا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اب اس کا یہاں کوئی بھی نہیں۔اسے خود ہی اپنے لیے تمام جنگیں لڑنی ہیں۔ آپ اپنا سہارا اور ڈاکٹر بننے کے خواب کی خود ہی تکمیل کرنی ہے۔ ان سب باتوں نے اسے جینے کا حوصلہ دیا۔ وہ زندگی کی بے شمار مشکلات کے باوجود ڈٹا رہا اور محنت و مشقت کو ترک نہ کیا۔ اس نے میٹرک اور ایف ایس سی میں بہت ہی شاندار نمبر حاصل کیے۔ تاہم عیش کا میڈیکل کالج کا داخلہ ٹیسٹ پاس نہ ہوسکا۔ جس پر وہ سخت رنجیدہ تھا۔اس نے بچپن ہی سے ہے ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھا تھا،وہ اکثر سوچتا کے کاش وہ کوئی ڈاکٹر ہوتا اور اپنی ماں اور بہن کوعلاج کے ذریعے مرنے سے بچا لیتا۔ بوڑھا بابا خیر دین جس نے اسے بچپن ہی سے بیٹے کی طرح پالا،اور تعلیم کے حصول میں اس کی ہر طرح سے مدد کی تھی،اس کے میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے بہت پریشان تھا۔ اسے عیش سے بہت سی توقعات وابستہ تھی۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ عیش نے محنت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔تاہم عیش کے ڈاکٹر بننے کے خواب اور مستقبل کا سوچ کر اس کی فکر مندی میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ غلام فرید کاٹھیا نے اپنے اس افسانے میں زندگی کے تلخ حقائق،خواتین کے سماجی مسائل، خاندانی مجبوریوں،غریب بچوں کی زندگی، یتیموں کے جذبات و بے بسی اور زندگی کے لیے جدوجہد پر خوبصورتی سے قلم اٹھایا ہے۔ آپ نے متوسط طبقے کو درپیش مشکلات کی بڑی عمدگی سے عکاسی کی ہے۔افسانہ نگار نے عیش کے دن رات محنت کرنے ،اورداخلہ ٹیسٹ پاس نہ ہونے کے نتیجے میں بابا خیر دین کی پریشانی کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
’’عیش عالم کی مرضی کے مطابق خیر دین نے اسے میڈیکل کالج میں داخل کروانے کی سر توڑ کوشش کی۔عیش کے نمبر بہت اعلیٰ تھے مگر سوئی قسمت کہ عیش داخلہ ٹیسٹ پاس نہ کر سکا۔بابا خیر دین نے ہمت نہ ہاری وہ عیش عالم کو راولپنڈی لے گیا اور اسلام آباد مرکز سے بھی سفارش کروانے کی کوشش کی۔وہ خود تو بہت غریب اور کمزور تھا وہ کس کی سفارش کرواتامگر عیش عالم کے والد کے کچھ سرکردہ لوگ واقف کار تھے مگر جب وہ بھی کام نہ آئے تو بابا خیر دین بہت مایوس ہوا۔‘‘(12)
آج ہمارے ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی غربت میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ غربت کی وجہ سے پسماندہ طبقے کو معاشرے میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔انہیں اپنے بچوں کے لئے تعلیم وتربیت کے مواقع میسر نہیں ہوتے۔بیماری کی صورت میں علاج معالجہ نصیب نہیں ہوتا۔ یوں یہ غریب سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بالا ٓ خر اسی غربت ہی میں اپنی جان کی بازی ہار بیٹھتا ہے۔ غربت انسان کو جلد بوڑھا کر دیتی ہے۔ غریب بندے کی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ پسماندہ طبقے کے افراد کواپنی زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لیے اپنے بہت سیارمانوں کا گلا گھونٹا پڑتا ہے، کیونکہ اس کے گھریلو حالات بہت ابتر ہوتے ہیں۔
غلام فرید کاٹھیا کا افسانہ’’سوچوں کی آگ‘‘اسی تناظر میں لکھی گئی جیل کے ایک وارڈن فضلو کی کہانی ہے۔ جو بیچارا غربت میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ معمولی سی تنحواہ پراس کے گھر کا گزر بسر بہت مشکل سے ہوتا ہے۔ایک شام جب وہ دن بھر کی محنت کے بعد گھر کو لوٹتا ہے،تو اسے اپنی بیٹی کی شدید علالت کی خبر ملتی ہے۔ جسے سن کر وہ بہت بے چین ہو جاتا ہے۔کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے پاس اتنا پیسہ نہیں جس سے وہ ہسپتالوں کے مہنگے علاج اوربھاری برکم فیسوں کے اخراجات برداشت کر سکے۔ آج کل ہمارے ہاںعلاج معالجے کا مسئلہ تقریبا پس ماندہ طبقے کے تمام ہی افراد کا مسئلہ بن چکا ہے۔ اگرغریب طبقے کا کوئی فرد بیمار پڑ جائے تو اسے علاج معالجے میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کیونکہ اس مہنگائی کے دور میں کم تننحواہ میں غریبوں کے تو فقط گھر کا راشن ہی پورا ہوتا ہے۔ بڑی مشکل سے تھوڑے بہت بچے کھچے پیسوں سے بچوں کی فیسیں ادا ہو پاتی ہیں۔ ان معصوموں کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی کہ سرکاری ہسپتال چھوڑ کر پرائیویٹ بینکوں اور ہسپتالوں کے اخراجات برداشت کرسکیں۔ جس کے باعث انہیں مجبورا چھوٹے موٹے مقامی بنکوں ہی سے دوائی لینی پڑتی ہے۔جو تھوڑے وقت کے لیے تو افاقہ دیتی ہیں تاہم بیماری اندر ہی اندر جڑ پکڑتی رہتی ہے اور بالآخر ایک بڑے ناسور کی صورت اختیارکر لیتی ہے۔
سرکاری ہسپتالوں میں اب علاج بہت مہنگا ہو چکا ہے۔غریبوں کویہاں بھی مہنگے مہنگے ٹیسٹوں اور لیبارٹریوں کے اخراجات بھگتنا پڑتے ہیں۔ جو ان بیچاروں کی استعداد سے باہر ہوتے ہیں اس لیے انہیں علاج معالجے کے سلسلے میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانوں میں غریبوں کی صحت اور علاج معالجے کے مسائل کو بہت کھل کر بیان کیا ہے۔آپکا افسانہ ’’سوچوں کی آگ‘‘وارڈن فضلوکی بے بسی کی داستان بیان کرتا ہے۔ تھوڑی سی تنخواہ پر کام کرنے والے بابا فضل نے اپنی عمر کا بیشتروقت معمولی سی ملازمت میں صرف کر دیا۔ اتنے برس کام کرنے کے باوجود بھی چاچا فضلو کے پاس اتنے پیسے جمع نہ ہو سکے کہ وہ مصیبت و پریشانی میں انہیں کسی کام لا سکتا۔ ایک روز فضل چاچا کی بیٹی بہت بیمار ہوتی ہے۔ فضل صبح سے شام تھانے میں کام کے بعد جب گھر لوٹتا ہے تو بیمار بیٹی کو دیکھ کر پریشانی میں خود بھی بیمار ہوجاتا ہے۔اس بیماری اور بے بسی کے باعث وہ اپنی عمر سے زیادہ بڑا دکھائی دینے لگتا ہے۔ جیل کے قیدی بھی اس کی اس حالت سے باخبرہوتے ہیں۔ سلیم جو کہ جیل میں قید ایک امیر آدمی تھا،وہ جب فضل چاچا سے اس کی پریشانی کی وجہ دریافت کرتا ہے تو چاچا فضلو بے بسی و خستہ حالی کی تصویر بنے سلیم کے سامنے بڑے ہی ادب بھرے انداز سے اس اپنی بیمار بیٹی کی داستان کھول کر رکھ دیتا ہے۔ سلیم ، فضلو چاچا کی بے بسی کو اس کی نگاہوں اور اس کے بدن پر موجود لباس سے دیکھ بلکہ محسوس بھی کر رہا تھا۔فضل چاچا بیٹی کی بیماری کے غم میں پریشان، اپنے حلیے سے یوں نظر آ رہا تھا :
’’میلی کچیلی ٹوپی کے کھدے ہوئے کناروں سے باہر جھانکتے ہوئے سفیدی مائل بھورے خشک بال۔ماتھے پر پھیلی ہوئی تفکرات کی لکیریں، عمر خوردہ بھوری بھنوؤں کے نیچے جینے کی ضرورت سے محروم مایوسیوں کی ماری بے نور آنکھیں،زندگی کے تلخ سمندر میں اٹھتی ہوئی تند لہروں کا شکار مرجھایا ہوا چہرا،جیون کے بوجھ سے نڈھال جھکے ہوئے شانے، بدن میں پخرے ہوئے پسینے میں شرابور ملیشیاء کی پھٹی ہوئی خستہ قمیض، بے رنگ سی پیٹی میں کسا ہوا بْھوک کا مارا پلپلاپیٹ، زندگی کی پتھریلی راہوں پر چلتے چلتے خمیدہ ٹانگیں،ان پر پہنی ہوئی ٹخنوں سے اونچی گھٹنوں سے گھس کر ابھری ہوئی خستہ حال پتلون اور پیروں میں پیوند لگے سالوں پرانے جوتے۔‘‘(13)
والدین خدائے پاک کی بہت بڑی نعمت ہیں۔ یہ ماں باپ ہی ہوتے ہیں جو کہ اپنی اولاد کو اچھا برا سکھاتے، تربیت کرتے اور معاشرے کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں ، مصیبتوں اور مصائب سے اپنی اولاد کو بچانے کے لیے ڈھال کا سا کام سرانجام دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اولاد اپنے والدین کے سائے میں پل کر فخر محسوس کرتی ہے۔مگر اس کے بر عکس جو بچے اپنے والدین کے سایہ شفقت سے محروم ہوتے ہیں انہیںزندگی میں بہت ساری مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔
غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانے ’’انو‘‘ کے ذریعے باپ کی شفقت اور ماں کی ممتا سے محروم بچیانو کی دکھ بھری کہانی بیان کی ہے ،اور بتایا ہے کہ بغیر ماں باپ اولاد کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔’’انو‘‘افسانے کا مرکزی کردار ہے۔اس کی ولادت کے بعد، جلد ہی اس کا والد اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے۔ یوں انو یتیمی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔ گھر کی دال روٹی چلانے کے لئے وہ اپنی ماں کے ساتھ مل کر اپنے باپ کی چھوڑی ہوئی معمولی سی منیاری کی دکان پر بیٹھنے لگتا ہے۔ مگر تھوڑے ہی عرصے بعد انو کی والدہ نمونیا کے باعث جان کی بازی ہار جاتی ہے۔ یوں انو کا واحد سہارا بھی اس سے دور ہو جاتا ہے۔ وہ باپ کی شفقت سے تو پہلے ہی محروم تھا ،اب اس کم عمری میں اسے ماں کی ممتا کے لیے بھی ترسنا پڑتا ہے۔ انو تیسری جماعت کا طالب علم تھا جب اس معصوم کے ننھے ہاتھوں نے بستہ اور کتابیں تھامنے کی عمر میں ہی محنت و مشقت کرنا شروع کر دی تھی۔
ادھوری تعلیم اور چھوٹے چھوٹے خوابوں کا بوجھ کندھوں پر اٹھائے بیچارہ انوتن ڈھانپنے اور پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر خود ہی دکانداری کرنے لگا۔ اس کی دکان کیا تھی فقط معمولی سا منیاری کا سامان تھا۔آج ہمارے معاشرے میں ایسے ہی بے شمار بچے ہیں جو معاشرتی مسائل کے ہاتھوں مجبور کم عمری ہی میں گھر کی تمام ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں۔ مشقت و محنت کرتے یہ بچے ہمیں اکثر ورکشاپوں اور مختلف دکانوں پر کام کرتے نظر آتے ہیں۔ بعض بچے ہوٹلوں میں برتن دھونے کچھ پٹرول پمپوں پرگاڑیوں کے شیشے صاف کرنے اور اسی طرح بعض سڑکوں یا چوراہوں پرکھڑے منیاری وغیرہ کا سامان بیچنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ صبح سویرے کام پر جانے والے یہ بچے اپنے گھر ہی سے دوپہر کے کھانے کا تھوڑا بہت سامان ہمراہ لے جاتے ہیں،کیوں کہ ان کے پاس باہر کے چٹ پٹے کھانے کھانے کے لیے پیسے موجود نہیں ہوتے۔ اسی طرح بعض ایسے بچے جن کے گھر کھانا پکانے والا کوئی نہیں ہوتا، وہ معصوم سارا دن ایسے ہی دن کام کاج میں مصروف رہتے ہیں۔
یہ بچے جب اپنی عمر کے بچوں کو ہنستے کھیلتے اور کندھوں پر بستے لٹکائے سکول جاتے دیکھتے ہیں، تو ان کا بھی دل کرتا ہے کہ وہ بھی تعلیم حاصل کریں۔وہ بھی اپنے ہم عمر دوسرے بچوں کی طرح ہنسیں،کھیلیں کودیں، موج مستی کریں، بے فکری کی زندگی گزاریں۔ مگرافسوس کہ انہیں گھریو ذمہ داریوں کا بوجھ یہ سب نہیں کرنے دیتا۔ ان معصوم بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں اور خواب، کم عمری میں ہی ادھورے رہ جاتے ہیں۔ حکومتی سطح پر تو چائلڈ لیبر کی روک تھام کے لیے بہت سی این جی اوز اور کئی قوانین بھی بنائے گئے ہیں۔ تاہم یہ فقط دعووں ہی کی حد تک ہوتے ہیں۔ حقیقت میں ان پر کوئی عمل نہیں کیا جاتا۔
کم عمری ہی میں مختلف جگہوں پر کام کرنے والے بچوں کا کوئی بہتر مستقبل نہیں ہوتا۔ انہیں اپنے ان پڑھ استادوں کی طرف سے مختلف طریقوں سے زد و کوب کیا جاتا ہے،کام سے نکالنے اورتنخواہ کاٹنے جیسی مختلف دھمکیاں دی جاتی ہیں۔چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر بڑی بڑی سزائیں،اور والدین تک کو گالیاں دی جاتی ہیں۔ ان بیچاروں کو ڈرایا، دھمکایا اور ان سے بد تمیزی سے پیش آیا جاتا ہے۔ مگر یہ معصوم معاشی حالات کے باعث ان تمام مظالم کو چپ چاپ صبر سے برداشت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں،کیونکہ وہ اپنے گھریلو حالات سے باخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔
افسانہ نگار نے اپنے افسانے’’انو‘‘ کے ذریعے یتیم بچے انو کو در پیش مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح سے یہ چھوٹے معصوم بچے کی عمر میں ،معاشی مسائل کے تحت گھروں سے نکل کر کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ بیچارہ انو بھی اپنے انہی معاشی حالات کے باعث شدید گرمی میں روزی روٹی کے لیے، منیاری کا کچھ سامان کندھے پر اٹھائے دوسرے گاؤں کا رخ کرنے پر مجبور ہوتا ہے،تاکہ وہاں اس کا زیادہ سے زیادہ سامان بکے اور اسے بھی فائدہ حاصل ہو سکے۔انو کے دوسرے گاؤں میں جانے اور سامان بیچنے کے منظر کو غلام فرید کاٹھیا نے بڑی ہی دردمندی سے اپنے افسانے میں اس طرح بیان کیا ہے :
’’پسینے میں شرابور وہ گاؤں میں واقع چند دکانوں پر مشتمل بازار میں گیا تو اسے دو دکانوں کے درمیان خالی جگہ ملی جو لسوڑے کے سرسبز اور گھنے پتوں والے درخت نے گھیر رکھی تھی۔اس نے لسوڑے کے درخت سے چند شاخیں توڑیں جن سے اس نے جھاڑو کا کام لیتے ہوئے، جگہ صاف کرتے ہوئے اپنی گٹھڑی کھولتے ہوئے چادر بچھائی اور اپنی دکان سجا دی۔۔۔کچھ بچے اس کے گرد جمع ہو گئے اور چادر پر سجی چیزوں کو غور سے دیکھنے لگے۔ لیکن جلد واپس جا کر اپنے کھیل میں مصروف ہو گئے کیونکہ ان کو اپنے مطلب کی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ انو انہیںدیکھتا رہا اس کا بھی ان کے ساتھ کھیلنے کو دل کر رہا تھالیکن وہ نہیں کھیل سکا۔ ‘‘(14)
پسماندہ طبقے کے افراد کو امراء کی طرف سے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دیہات کے وڈیروں، زمینداروں اور چوہدریوں وغیرہ کی طرف سے غریبوں اور پسے ہوئے طبقے کے لوگوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ دوران ملازمت غریب ہاریوں پرجبروستم ڈھایا جاتا ہے ہے۔ معمولی سی غلطی پر بھی انہیں سخت تکلیفیں دی جاتی ہیں۔ بری طرح زد و کوب کیا جاتا ہے۔ان کی عورتوں اور اہل خانہ کو جان سے مارنے جیسی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بچارے غریب غربت کے باعث خاموشی سے یہ سب برداشت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان کی اسی خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرمایہ دار ان سے جائز و ناجائز کام نکلواتے ہیں۔ ان معصوم لوگوں کو کبھی پیسوں کا لالچ دے کر،کبھی قرضے کے نام پر بلیک میل کر کے،کبھی نوکری سے فارغ کرنے کا کہہ کر تو کبھی جان سے مارنے کی دھمکیاں دے کر مسائل میں الجھایا جاتا ہے۔
دیہاتی لوگ کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں، جس کے باعث وہ اپنے حقوق کی فراہمی کے حوالے بے خبر ہوتے ہیں۔غریبوں کی اسی کم علمی کو امیر طبقہ اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتا ہے۔
غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانے ’’لمحوںکی قید‘‘ کے ذریعے پسماندہ طبقے کے ایک غریب دیہاتی شمو کی کہانی کو اجاگر کیا ہے۔افسانے میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح سرمایہ دار غریبوں کی کمزوریوں اور مجبوریوں سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ شمو ایک محنت کش ہاری تھا،جو کہ اپنی محنت کی بدولت اپنے گھر کے حالات بدلنا چاہتا تھا۔ اپنے بوڑھے ماں باپ کو بہتر زندگی دینے اور اپنی بہن رانو کو اچھی جگہ بیاہنے کے خواب دیکھنے والے شمو نے سائیں کے کھیتوں میں دن رات مشقت کی، اور اپنی مزدوری کے بدلے کافی زیادہ گندم جمع کرلی۔ سائیں کو یہ بات برداشت نہ ہوئی کہ شمو کے پاس اتنی زیادہ گندم ہو۔ اس میں شمو کو سبق سکھانے کا منصوبہ بنایا اور شمو کی بہن رانو کو اغوا کروا لیا۔ شمو بیچارہ سیدھا سادہ انسان تھا۔ وہ گاؤں کے سائیں کے ہاں مددکے لیے جاتاہے،اور اس سے فریاد کرتا ہے کہ میری بہن کو ڈھونڈنے میں میری مدد کرو۔ مکار سائیں اسے تسلی دے کرواپس لوٹنے کا کہتا ہے۔ کیوں کہ سائیں کے دماغ میں خود غرضی اور لالچ کا فتور بھرا ہوتا ہے۔ وہ شمو کو اپنی ذاتی دشمنی کیلئے استعمال کرنے کا منصوبہ بناتا ہے،اور شمو کے دماغ میں یہ بات ڈال دیتا ہے کہ چھوٹے ڈیرے کا سائیں رانو کو پسند کرتا ہے،اور اسی نیاسے اغواء کروایا ہے۔ شمو یہ سب سننے کے بعد غصے اور غیرت میں آکرسائیں کو جان سے مارنے کا ارادہ کرتا ہے۔اسی اثنا میں سائیں اپنے ہی کارندوں کے ذریعے چھوٹے سائیں کو قتل کروا دیتا ہے،اور سارا مدعا شمو کے سر ڈال دیتا ہے۔ شمو جو اس سب سے بے خبر تھا۔پولیس اسے گرفتارکرنے اس کے گھر پہنچ جاتی ہے،شمواس ساری صورتحال کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ وہ گہری سوچوں میں گم تھا کہ آخر سائیں کا قتل کس نے کیا،اور اسے کیوں گرفتار کیا گیا ہے۔
غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانے کے ذریعے بڑی دردمندی سے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح امیر لوگ غریبوں کے سامنے جھوٹی شان و شوکت کے لبادے اوڑھے ہوتے ہیں۔وہ غریبوں کے مسئلے مسائل تو سن لیتے ہیں مگر بعد میں انہیں اپنے ہی فائدے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ بیچارہ شمو بھی جب سائیں کے پاس اپنی بہن کے اغواء کی فریاد لے کر آتا ہے تو سائیں خود اپنے دشمنوں کو قتل کروا کر سارا الزام شمو کے سر ڈال دیتا ہے۔یو شمو جیل کی سلاخیں کے پیچھے ہوتا ہے اور رانو سائیں کی بانہوں میں۔ سائیں ساری گندم کا بھی مالک بن جاتا ہے۔ شمو بیچارہ بغیر کسی گناہ کے اپنی جوانی کے خوبصورت دن جیل کی کوٹھری کی نذرکر دیتا ہے۔وہ رہائی کا پروانہ ملنے کی امید کھو دیتا ہے۔کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ وہ تو ایک غریب آدمی ہیں اس کی رہائی بلا کون کروائے گا۔
قتل ہونے والا سائیں تو ایک بڑا آدمی تھا،اس کے وفادار مجھے ساری زندگی جیل سے نہ نکلنے دیں گے، شاید میری ساری ہی زندگی انہی سلاخوں کے پیچھے گزر جائے گی۔ اک روز شمو جیل میں بیٹھا انہی سوچوں میں غرق تھا کہ اسے وارڈن کے ذریعے اپنی رہائی کی اطلاع ملتی ہے۔جسے سن کر وہ حیران ہو جاتا ہے کہ اس کی رہائی کیسے ہوئی؟ اس کو جیل سے نکالنے کے پیچھے کون ہے اور اس کا آخر کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ وہ یہ سب جاننے کے لیے بے قرار ہو رہا تھا، وہ اپنے آپ کو بہت بے بس اور اضطرابی کی کیفیت میں محسوس کر رہا تھا۔ اول تو اسے منشی کے الفاظ پرہی اعتبار نہ آ رہا تھا، مگر جب اس نے منشی سیرہائی کا کاغذ لے کر دیکھا تو اسے یقین آیا۔ مگر پھر بھی وہ اپنے دل کی تسلی کے لئے منشی سے سوالیہ انداز میں پوچھتا ہے کہ اس کی رہائی کیسے ہوئی؟ غلام فرید کاٹھیا نے شمو اور منشی کے مکالمے کی ابتدا اور فکرمندی میں شمو کے منشی سے کیے گے سوالات کویوں پیش کیا ہے:
"یہ کیسے ہوا؟ابھی تو چالان بھی عدالت میں نہ پہنچا ہو گا۔۔۔یہ رہائی کیسے ہوئی۔۔۔کیا۔۔کیا ایسا تو نہیں کہ سردار ڈوڈے خان اور کریم بخش نے تکڑی سفارشوں سے رہائی کروائی ہو۔۔۔تاکہ وہ۔۔۔شما ۔۔۔ان کے دشمنوں کا دلیر قاتل۔۔۔اپنے وڈیروں کے احسانات کے بوجھ تلے اتنا دب جائے کہ عمر بھر ان کی خدمت ہی کرتا رہے۔وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انہی کا ہو کے رہے۔ان کے پالتو کتوں میں شامل ہو جائے۔ ۔ ہمیشہ کے لیے۔۔۔‘‘(15)
ہمارے ملک میں دو تہائی سے زائد افراد غربت و پسماندگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ سرمایہ دارانہ، جاگیردارنہ سسٹم اور اور روز بروز بڑھتی مہنگائی کے سبب غریب بیچارے کوتو دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔
امراء غریبوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ غریبوں کا بری طرح استحصال کیا جاتا ہے،ان کے حقوق پر قبضہ جمایا جاتا ہے۔ خوشحال اپنے سے کمتر لوگوں پر رعب ودبدبہ جماتے ہیں۔ غریبوں پر ہر طرح کے مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ پسماندہ طبقے کے لیے کام کرنے والی مختلف این جی اوزاور فلاحی تنظیمیں بھی غریبوں کو انکے حقوق دلوانے سے قاصر ہیں،کیوں کہ غریبوں پرخرچ ہونے والا سارا پیسہ سرمایہ داروں اور حکمرانوں کی کرپشن کی نظر ہوجاتا ہے۔
غریبوں کو صحت ،تعلیم ،رہائش اور خوراک کی فراہمی نہ ہونے جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانوں میں پسماندہ طبقے کو درپیش مشکلات کا ذکر بڑی عمدگی سے کیا ہے۔آپ نے معاشرے میں عدم مساوات،غریبوں پر ہونے والے مظالم اور طبقاتی کشمکش جیسے مسائل کو اپنے افسانوںکاموضوع خاص بنایا ہے۔آپ نے دیہاتوںکے وڈیروں،جاگیرداروں، نوابوں، چوہدریوں اور استحصالی اذہان کے مالک سرمایہ داروں کے غریبوں سے بدسلوکی کے رویوں کے خلاف اپنے افسانوں میں کھل کر کر کلمہ حق بلند کیا ہے۔
کسانوں کی ترجمانی
پاکستان کے جنوبی پنجاب اورسندھ کے دیہی علاقوںمیںوڈیروں، نوابوں، جاگیرداروں کا راج ہے۔ زمین کے مالک یہ نواب اور سردارہی ہوتے ہیں۔ وہ خودتوبڑے بڑے شہروں میں عالیشان بنگلوںاور کوٹھیوں میںرہتے ہیں جب کہ ان کی زمینوںکا کام ان کے منشی اور خاص ملازم کرتے ہیں ۔ جاگیررداروں کاجب جی چاہے اپنے گاؤں اور زمین پر چلے جاتے ہیں ، وہاںٹھہرتے ہیں، اپنی جاگیراورزمینواںکاجائزہ لیتے ہیں، اپنی فصلوں کی پیداوار اور آمدن اپنے خاص ملازموں اورمنشی کے ذریعے اکٹھی کرتے ہیں ۔ان منشیوںاورملازموںنے تھوڑے تھوڑے اجرت کے ہاریوں اور کسانوں کودے رکھی ہوتی ہے۔جو کہ اپنی بساط کے مطابق ان زمینوں پرمحنت ومشقت کرتے ہیں ۔ فصل کی پیداوار کابڑا حصہ سرداری نواب کے کارندے اکٹھاکرلیتے ہیںاورہاریوں اورکسانوںکے پاس بمشکل ان کے گزربسرکے لیے اناج رہ جاتاہے۔ اگرکبھی فصل اچھی ہوجائے اورکسان اور ہاری کے پاس اس کی ضرورت سے زیادہ اناج آجائے تویہ وڈیرے انہیںمختلف حیلوںاوربہانوںسے پیداوارسے محروم کر دیتے ہیں۔کبھی اناج کی پیداوارکاچواری کاالزام لگاکراورکبھی گائے اوربھینس کی چوری میں انہیں اندر کروا کر انہیںچھڑانے کے عوض ان کافالتواناج بھی ہتھیا لیتے ہیں۔
اگر کسی وڈیرے یاجاگیردار کو کسی کسان اورہاری کی کوئی گائے، بھینس اچھی لگے تووہ اسے کہتے ہیںکہ اسے ہمارے ڈیرے پربھیج دو اور پھرجو جی چاہے سے تھوڑی بہت رقم دے دیتے۔ اسی طرح اگرکسی ہاری یاکسان کے گھروالوںمیں سے کوئی بیمارپڑجائے اوراسکاعلاج شہرمیںکسی ہسپتال میںکرواناپڑجائے توعلاج معالجے پراٹھنے والے اخراجات پروہ چھوٹاکسان کئی سالوںتک قرض میںجکڑارہتاہے اور وڈیرے اورجاگیردارکوچھوڑکرکہیںجاسکتاہے اورنہ ہی ان کے سامنے آنکھ اٹھاکربات کرسکتاہے۔ ان ہاریوںاورکسانوںکی زندگی ان نوابوں، وڈیروں اور جاگیرداروں کے رحم وکرپ پرہوتی ہے۔ بعض کسانوں کے معاملات میںیہ جاگیرداراور وڈیرے اتنااثرورسوخ رکھتے ہیںکہ ان کی بہنوںاوربیٹیوں کے رشتے اپنے ملازموںیا اپنے من پسندافرادسے طے کردیتے ہیںاور وہ چھوٹے کسان اتنے بے بس ہوتے ہیںکہ ان کی عورتیںتودرکناران کے مردبھی اپن رائے کااظہار نہیں کرسکتے اوروڈیر ے کی با ت تک انہیںبلاچون وچرا ماننی پڑتی ہے۔
چھوٹے ملازموںکی بہنوں، بیٹیوں پر اگرکسی وڈیرے، اسکے بیٹے یااسکے رشتے دارکی نظرآجائے تواسے گھرسے اٹھاکرلے جاتے ہیں۔ اگرانہیںحدسے زیادہ پسندہوتواس کے ساتھ نکاح بھی کر لیتے ہیں۔ یوں ان کو مظلوم کسانوں اور ہاریوں کی کہیں بھی سنوائی نہیں ہوتی۔ ان وڈیروں نمبرداروں اور چودھریوں کی جانب سے پولیس بھی کسی کی پروا نہیں کرتے۔انھیں کسی کی بھی ذرا برابر پروا نہیں پوتی اور نہ ہی خوف ہوتا ہے۔یہ اپنے سے کم تر یا چھوٹے ملازموںاور غریب مخالفین سے اپنے کسی پرانے حسد، ذاتی انا کا بدلہ لے لیتے ہیں۔آج کل ہمارے معاشرے میں چھوٹے اور غریب کسانوں کا بہت بری طرح استحصال کیا جا رہا ہے۔ ان کی عزت، جان مال، آبرو سب کچھ برباد کر دیا جاتا ہے۔ایک افسانے میں محنت پسند ’’شمو ‘‘کی کہانی بیان کی گئی ہے جو کہ نسل در نسل چھوٹے کسانوں کے گھرانے سے تعلق رکھنے والوں کی کہانی ہے۔ وہ محنت و مشقت میں رچے بسے گھرانے میں پلی بڑھی ہے۔ اس کے ماں باپ’’ رانو‘‘ کو عزت سے رخصت کرنا چاہتے ہیں اور اسے ایک نئی زندگی دینا چاہتے ہیں۔ مگر اچانک پتا چلتا ہے کہ وہ گھر سے غائب ہو گئی ہے۔
’’سائیں!رانوگھرسے غائب ہے اسے اٹھوا لیا گیا ہے۔،وہ ایوی سی بالکل نہیںہے۔ یہ سردارڈوڈے خان کے بھتیجے رحیم دادکی حرکت ہے اورسائیںاللہ ڈوائے نے دانت پیستے ہوئے کہا: رحیموکے بچے مرتی گوٹھوںمیںیہ جرات!میںان کے سب ہاریوںکی بیٹیاںاٹھوالوںگا۔ میںدیکھتاہوںوہ بازوواپس کیس نہیںکرتے۔"(16)
ظلم وجبرعدل کی ضدہے۔عدل وانصاف ہی کے سبب انسان زندہ جاویدہے۔جس معاشرے میںانصاف نہ ہووہاںظلم راج کرنے لگتاہے۔ درندگی ودہشت پھیل جاتی ہے۔ملزم کو چندمنٹوںمیںمجرم اورسزایافتہ مجرموںکومعززبنادیاجاتاہے۔ قرآن کریم میںہمیںباربارانصاف کاحکم ملتاہے۔ کہاگیاٹھیک ہے’’کسی قوم(یافرد) کی عداوت تمہیںناانصافی پرنہ ابھارے،تم عدل کرتے رہو تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔
افسانہ’’لمحوںکی قید‘‘ ایسی ہی دردبھری کہانی اپنے اندرسموئے ہوئے ہے۔ مصنف غلام فریدکاٹھیانے اپنے افسانے کے ذریعے منافقت کالبادہ اوڑھے،ہوس،حسداوربدلے کی آگ میںجلتے’’وڈیروں،سائیںاللہ ڈوائے ‘‘ اورسردارڈوڈیخان کے ہاتھوںمظلوم شموکااستحصال ہوتے ہوئے دکھایاگیا ہے۔
شمواپنی سوچوںمیںگم تھاکہ وارڈن کوٹھری میںآیااوراسے رہائی کی خبردی جس پروہ حیرت زدہ ہوگیا۔ اس سب افسانے میںغلام فریدکاٹھیانے معاشرے کے دوہرے کرداروںپرروشنی ڈالی ہے اوربتاتاہے کہ کس طرح معصوم شموکوقتل کے الزام میںپھنساکرجیل کی سلاخوںکے پیچھے پھینکا گیا جب کہ اصل ملزم کوئی اورتھے۔اس بات کو غلام فرید کاٹھیا نے اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کیا ہے۔
’’شمس شمس ایک ہیڈوارڈن کی آوازنے شمے کی سوچوں کی زنجیر توڑڈالی،وہ فوراً اپنی جگہ سے اٹھااورہیڈاوارڈن کے پاس چلاگیا۔ ’’قتل کے اصل ملزم گرفتارہوچکے ہیں۔ تم بالکل بے گناہ تھے۔ پولیس نے عدالت سے ڈسچارج کروایاہے۔۔رجسٹرپریہاںدستخط کرو اور رہائی کایہ پرچہ لو"(17)
غلام فرید کاٹھیا نے کسانوں، چھوٹے کاشتکاروںاور مزارعوں پرصدیوں سے ہونے والے مظالم اور ان کے استحصال کے حوالے سے بڑی دردمندی سے کھل کر قلم اٹھایا ہے۔ظلم کا نظام صدیوں پرانا ہے، پاکستان کے کئی علاقوں میں ابھی بھی دیہاتوں کے وڈیرے چھوٹے کسانوں پر ظلم ڈھاتے نظر آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے غریب کسان اپنے فیصلے خود نہیں کر سکتے،سرمایہ دار غریبوں کو نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ابھی معاشرتی ناہمواری اپنے عروج پر ہیں۔وٹہ سٹہ، کاروکاری،ونی کرنا جیسی بے شمار غلط رسوم کی وجہ سے بڑے بڑے مگر مچھ نما سرمایہ دار اپنے حریفوں پر جھوٹے الزامات کے ذریعے انہیں سزائیں دلواتے ہیں۔غریب کسانوں کو اپنی اولاد کی پسند کی شادی یا کسی اونچے خاندان غریب سے تعلق جوڑنے پر جاگیرداروں کی جانب سے ممانعت ہوتی ہے۔
ان مزارعوںاورچھوٹے کسانوں کو اپنے فیصلوں کا حق حاصل نہیں ہوتا ۔ ان کی گھروں کی عورتیںاکثر گاؤں کے وڈیروں اور چودھریوں کی ہوس بھری نگاہوں سے محفوظ نہیں رہ پاتیں۔ ان جاگیرداروں کا جب جی چاہے کسی بھی مزارعے یا چھوٹے کسان کی بہو،بہن یا بیٹی کو اٹھا کر لے جاتا ہے اور جتنا عرصہ مرضی چاہے اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بناتا رہتا ہے۔ اگر جی چاہے تو اسے اپنی منکوحہ بناکر حویلی میں رکھے یا اگر دل کرے تو داشتہ کے روپ میں۔عورتوں پر ہونے والے ان مظالم کے خلاف اگر کوئی بھی مزارع یا کسان آواز اٹھائے تو اسے جاگیردار سے بغاوت تصور کیا جاتا ہے۔جس کی بنا پر ظلم کے خلاف احتجاج کرنے والوں ہی کا قتل کر دیا جاتا ہے۔ اس سارے ستم کی وجہ سے کسی غریب میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ ان فرعون نما وڈیروں کا مقابلہ کر سکے۔
ان ظالموں کے خلاف کوئی ایف۔ آئی۔ آر نہیں کاٹی جاتی۔ پولیس ان کے گھر کی باندی ہوتی ہے۔کوئی انہیں پوچھنے یا سمجھانے والا نہیں ہوتا۔ ان کے معاملے میں کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا۔ظالم کے واسطے الگ ہی انصاف ہوتا ہے۔روپے پیسے اور طاقت کے زور پر یہ جاگیردار ہر کام اپنی مرضی سے کرواتے ہیں۔
وڈیروں،چودھریوں، نوابوں اور جاگیرداروں کے اپنے ہی الگ قوانین ہوتے ہیں۔ اگر ان کی کوئی چیز چوری بھی نہ ہو تو وہ اپنے سے کمترطبقے کے افراد کو پھنسانے کے لیے اسے چوری یا ڈاکے کا نام دے دیتے ہیں۔ جبکہ کسی عام بندے کی گائے، بھینس یا کوئی اور چیز کسی وڈیرے کو پسند آ جائے اور اس کے کارندے اسے اٹھا کر لے جائیں تو اسے ڈاکیے اور چوری کی بجائے اپنا حق سمجھ کر ہڑپ لیا جاتا ہے۔ یہ نا انصافی نہ صرف جانوروں اور چیزوں تک محدود ہے بلکہ ان معصوم لوگوں کی بیٹیوں اور عورتوں کی عزتیں بھی انہی جھوٹی شان و شوکت رکھنے والے وڈیروں اور چوہدری کی مرہون منت ہوتی ہیں۔اگران کی نظرکسی کسان ،ہاری یا چھوٹے مزارعے کی بہو، بیٹی پرجم جائے تو اسے بغیر کسی خوف و ہراس کے اپنی حویلیوں میں لا ڈالتے ہیں۔اگر منشا ہوتو ان سے نکاح کریں اور اگر نہ ہو تو یوں ہی بغیر نکاح زندگی بھر یا جتنا عرصہ چاہیں انہیں ٹیشو پیپر کی طرح استعمال کریں۔اس سب کے دوران انہیں کسی قانون،ادارے حتٰی کہ اپنی معاشرتی ساکھ اور وقارکی بھی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ وہ غریب عورتوں کا جنسی حوالے سے بری طرح استحصال کرتے ہیں۔ جس کے سبب پیدا ہونے والے بچوں کو معاشرہ حقارت اور بری نگاہ سے دیکھتا ہے۔ زندگی پر ایسی اولاد کو معاشرے کی طرف سے بہت سی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کوئی بھی انہیں قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ کیوںکہ ان کا وجود ناجائز ذرائع یا زبردستی کے نکاح کی صورت پروان چڑھا ہوتا ہے۔ ایسے بچوں کی ساری زندگی دوسروں کے طعنے اور باتیں ہی سننے میں گزر جاتی ہے۔ وڈیرے، سائیں اور چوہدری عورتوں پر اس طرح کے بے شمار مظالم ڈھاتے رہتے ہیں۔ جن کے خلاف غریبوں کو آواز تک بلند کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
غلام فرید نے اپنے افسانوں کے ذریعے عورتوں پر ہونے والے ان مظالم کا بار بار ذکر کیا ہے۔ آپ کا افسانہ’’لمحوں کی قید‘‘ اسی ظلم و جبر کے نظام کو بے نقاب کرتا ہے۔ افسانے میں موجود ہوس کا پجاری سائیں اللہ ڈوایا،جھوٹی شان و شوکت، اپنائے غریب عورتوں کا جنسی استحصال کرتا دیکھائی دیتا ہے۔
جیل کی سلاخوں کے پیچھے شمو کو ایک ایسا بوڑھا انسان ملتا ہے،کہ جس کی بیٹی کو کئی سالوں پہلے سائیں اللہ ڈوایا نے زبردستی نکاح کے بندھن میں باندھ کر اپنی حویلی میں رکھا تھا،جب اس لڑکی کے باپ نے سائیں اللہ ڈوایاکے خلاف بغاوت کی،اور اپنی بیٹی کی واپسی کا مطالبہ کیا تو سائیں اللہ ڈوایا نے اسے قتل کے جھوٹے مقدمے پھنسا کر جیل بھجوا دیا تاکہ نا بوڑھا کبھی جیل سے باہر آ سکے اور نہ ہی اپنی بیٹی کی واپسی کے لیے گاؤں والوں کے سامنے کوئی واویلا کرے۔ سائیں اللہ ڈوایا نے جیسے اس بوڑھے آدمی اور اس کی بہن کے ساتھ کیا وہ بالکل اسی طرح شمو اور اس کی بہن رانو کے ساتھ بھی کرنا چاہتا تھا۔ اسی غرض سے اس نے شمو کو جیل بھجوا دیا تھا۔
افسانہ نگارنے اس افسانے میں یہ بتا نے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح سے امرا،سرمایہ دار، وڈیرے اور جاگیردار غریب عورتوں کی عزتوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔انہیں نکاح کے حوالے سے اپنی شرعی رضامندی تک کے حق سے محروم کردیتے ہیں۔ ان ظالموں کا جب دل کرے،جس مرضی کو اٹھا کر اپنی حویلی کی اونچی چار دیواری میں جسمانی تسکین کے لیے قید کر لیتے ہیں۔ جب جس سے جی چاہے ہم بستری کرتے ہیں،اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کو ساری زندگی ذلیل ہونے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔ایسا ہی سب شمو کے ساتھ جیل میں موجود اس بوڑھے اور اس کی بیٹی کے ساتھ بھی ہوا،جب سائیں اللہ ڈوایے نے بوڑھے کی بیٹی کو زبردستی نکاح میں باندھ کر حویلی رکھا تو،اس سے ایک بیٹی پیدا ہوئی۔جسے نمی کا کا نام دیا گیا۔ سائیں نے بوڑھے کی بیٹی کا قتل کروا کے،ننھی نمی کو اپنی پہلی بیوی کو سونپ دیا اور سب کو یہی بتایا کہ نمی میری پہلی بیوی سے ہونے والی اولاد ہے،اور کریم بخش نمی کا سگا بھائی ہے۔جبکہ حقیقت میں نمی شموکے ساتھ جیل میں مقید بوڑھے غریب ہاری کی نواسی تھی۔
اس بات کا علم فقط سائیں کے نوکر حاکو ہی کو معلوم ہوتا ہے۔کیونکہ حاکو نے ہی نمی کی ماں کوسائیں اللہ ڈوایا کے لیے اغوا کیا تھا۔ حاکو سائیں اللہ ڈوایا کی موت کے بعد یہ بات کریم بخش کو سناتا ہے۔ کریم بخش جو اس حقیقت سے بے خبر ہوتا ہے کہ نمی اس کی سگی بہن نہیں بلکہ کسی غریب ہاری کی نواسی ہے،تو وہ طیش میں آ جاتا ہے اورنمی کو اپنی بہن ماننے سے انکار کردیتا ہے۔یوں نمی اتنی بڑی جائیداد کی حق دار ہونے کے باوجود دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوتی ہے۔
غلام فرید کاٹھیا نے اپنے اس افسانے کے ذریعے غریب عورتوں کی عزت اور جھوٹے مرتبے کا لبادہ اوڑھے فرعون نما وڈیرے کی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے۔افسانے میں بتایا گیا ہے کہ اگرکوئی وڈیرا کسی غریب ہاری کی بیٹی سے نکاح کر لے تو پھر انہیں حویلی میں عزت و قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ انہیں بیوی ہونے کے باوجود ہمیشہ کم تر،نیچ اور گھٹیا ہی تصور کیا جاتا ہے۔انہیں حویلی میں وہ عزت نہیں ملتی جو انکا حق ہوتا ہے۔کریم بخش کو حاکو کے ذریعے جب نمی کی ماں کی حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے تو وہ نمی ہی کو اپنی بہن ماننے سے انکار کر دیتا ہے. غصے کے عالم میں کریم بخش حاکو سے کہتا ہے کہ:
’’نمی میری بہن نہیں ہو سکتی۔۔۔ ہو بھی کیسے سکتی ہے؟ میری ماں وڈیرے خاندان کی معزز خاتون۔۔۔اور نمی کی ماں ۔۔۔نیچ ہاری خاندان کی نیچ عورت۔۔۔نمی کو میں بہن کیسے مان لوں‘‘(18)
چاہے کوئی غریب ہو یا امیر، اپنے ذاتی گھر کا خواب ہر کسی ہی کا ہوتا ہے۔ اپنے وطن اور پیاروں سے محبت ہر ایک کے لہو میں شامل ہوتی ہے۔ جہاں انسان کا بچپن اور جوانی گزری ہو اس جگہ سے انسان کی انسیت فطری ہوتی ہے۔ اپنے گاؤں شہر یا علاقے کو چھوڑ کر کسی اور جگہ نقل مکانی کرنا بہت ہی مشکل کام ہے،چاہے پھر کوئی زمین کا مالک ہویا اس پر کام کرنے والا کوئی ہاری۔۔۔۔
غریب ہاریوں کو ان زمین کے ٹکڑوں سے بہت محبت ہوتی ہے،جہاں ان کی تمام جوانی،بچپن یہاں تک کہ بڑھاپا گزرا ہوتا ہے۔زمین کا وہ حصہ چاہے چوہدریوں ہی کی جاگیر کیوں نہ ہو۔ مگران زمینوں پر کی جانے والی مشقت میں ان ہاریوں کا خون پسینہ اور محنت شامل ہوتی ہے۔ جس کی بدولت ان چوہدریوں کی پتھریلی زمینیں ذرخیز ہو کر اناج اگانے کے قابل ہوتی ہیں۔ چوہدریوں کی زمینوں پر کاشتکاری ہاریوں کا جدی پشتی کام ہوتا ہے۔ انہیں اسی زمین سے سال بھر کا اناج حاصل ہوتا ہے۔ مگر گاؤں کے ان چوہدریوں کے نزدیک ان ہاریوں کی محنت،جذبات اور زمین سے وابستگی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ انہیں فقط اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔ اگر وہ پورا پورانہ ہو تو یہ غریبوں کی زندگیاں اجیرن کر دیتے ہیں۔’’اندھیروں کا رقص‘‘ایک محنت کش بابا کرموں کی ایسی ہی کہانی ہے۔ بابا کرموں نے اپنی تمام جوانی چوہدری جمیل کے کھیتوں کی زرخیزی کی نظر کردی ہوتی ہے۔ وہ اپنی دن رات کی مشقت سے اگائی فصلوں سے چوہدری جمیل کے گوداموں کے منہ بھر دیتا ہے۔بابا کرموں سال ہا سال سے مشقت کرتے آخر بڑھاپے کی آخری سیڑھی میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ موت کے قریب ہوتا ہے۔ اسے اپنی جوان بیٹی کی بہت فکر ہوتی ہے کیوں کہ گاؤں کا چودھری جمیل بوڑھے کرموں کی جوان بیٹی پر نظریں جمائے ہوتا ہے۔ وہ اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ یا اپنی بیٹی کو میری حویلی بھیج دو یا اپنا بوریا بستر اٹھاؤ اور ان زمینوں سے نکل جاؤ۔
بوڑھا بابا کرمو اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہا ہوتا ہے،مگر گاؤں کا مکار چودھری جمیل اپنی ہوس میں مست ہو کر بابا کرمو کو اپنی زمین خالی کرنے کا کہتا ہے یا بدلے میں اس سے اس کی اکلوتی بیٹی کا مطالبہ کرتا ہے۔ بوڑھا ایک طرف اپنی آخری آرام گاہ اپنے باپ دادا کے قریب بننے کی فکر میں غرق ہو رہا ہوتا ہے،تو دوسری طرف اسے بیٹی کی محبت تڑپا رہی ہوتی ہے۔ وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا ہوتا۔ بہت سوچ بچار کے بعد آخر مجبورآ وہ اپنی بیٹی سے کہتا ہے کہ بیٹی تو اپنے مالک کی حویلی میں چلی جا۔ وہ جانتا ہے کہ اس کی بیٹی وہاں سکون سے نہیں رہ سکے گی،اس کی وہاں کوئی عزت نہیں ہوگی۔ مگر وہ بے بس اور مجبور ہوتا ہے کیونکہ اس کی آخری خواہش ہوتی ہے کہ وہ انہیں زمینوں میں اپنے باپ دادا اور بیٹوں کے پاس دفن ہو۔ وہ حالت نزع میں اپنے پیاروں سے دور نہیں جانا چاہتا۔ اسے گاؤں سے بہت محبت ہوتی ہے۔اسی خواہش کے زیر نظر بابا کرموں کو اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتا ہے۔ غلام فرید کاٹھیا نے اس افسانے میں مفاد پرست، لالچی اور ہوس کے پجاری وڈیروں کی اصل حقیقت سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔اور بتایا ہے کہ کس طرح یہ شاطر اور چالاک لوگ معصوم لوگوں سے فائدے حاصل کرتے ہیں۔بابا کرمو بے بسی کے عالم میں اپنی جوان بیٹی سے زمین کا قرض چکانے کے لئے کہتا ہے:
"سنو بیٹا!۔۔۔ہاں۔۔۔ہاں بیٹا۔۔۔۔ میں تجھے اجازت دیتا ہوں۔ میری طرف سے تمہیں اجازت ہے۔۔۔ وہ یہی چاہتا ہے ناں۔۔۔کہ تم اس کی حویلی میں بیٹھو۔۔۔جھونپڑی خالی کر دو۔۔۔ ایک نسل کے بعد ہماری دوسری نسل اس مٹی میں مل گئی۔ میں بھی اپنے وجود کی مٹی کو ان کھیتوں میں شامل کرنا چاہتا ہوں۔میں اپنی ہڈیوں کی کھاد کہیں اور دوسرے کھیتوں میں ڈالوں یہ میرے لیے ممکن نہیں۔ہاں بیٹا میں اجازت دیتا ہوں۔۔۔اپنے مالک کی حویلی میں جا کر بیٹھ جاؤ ، ویسے ہی جیسے وہ بٹھانا چاہے۔۔۔ بیوی بنا کر یا۔۔۔’’(19)
آج کل ہمارے معاشرے میں پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے غریبوںہاریوںاور کسانوں کو چودھریوں،زمینداروں،نوابوں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کی طرف سے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ لوگ غریبوں کو کسی جانور سے بھی کمتر سمجھتے ہیں۔ ان کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث غریب بچوں کو تعلیم و صحت کی سہولیات میسر نہیں ہوتیں۔ یہ پسے ہوئے لوگ مجبورا اپنی زندگی ان جاگیرداروں کی غلامی میں گزار دیتے ہیں۔ جو کے ان غریبوں پر مظالم ڈھانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے۔غلام فرید کاٹھیا نے پسے ہوئے طبقے کے دیہاتیوں،ہاریوں، کسانوں اور مزارعوں کے مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔آپ نے اپنے افسانوں میں زندگی کی حقیقتوں کا بہت خوبی سے ادراک کیا ہے۔آپ نے اپنے افسانوں میں جیل کی کوٹھریوں میں مقید لوگوں کی درد بھری داستانوں،اور جھوٹے مقدموں کے ذریعے تمام تر عمر جیل میں گزارنے والے غریبوں کی کہانیاں بیان کی ہیں۔آپ نے جاگیرداروں،سرمایہ داروں،وڈیروں،اور چوہدریوں کے لالچ، ان کے مفاد پرست رویوں اور مکاریوں کا ذکر اپنے افسانوں میں بہت شاندار انداز سے کیا ہے۔
’’چالیس من گندم‘‘ میں بکو کی محنت اور حالات بدلنے کی لگن اس کے لیے وبال جان بن جاتی ہے۔ وہ اپنی محنت سے چالیس من گندم تو جمع کر لیتا ہے تاہم اسے جھوٹے مقدمے میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑتا ہے۔ اسی طرح غلام فرید کاٹھیا کا افسانہ’’لمحوں کی قید‘‘ ہاریوں کی مشکلات کی عکاسی کرتا ہے افسانے کے مرکزی کردار شمو کو سائیں جیل بھجوا دیتا ہے۔ کیوں کہ وہ اپنے حالات بدلنا چاہتا تھا۔ ہمارے معاشرے میں آج کل چوہدریوں،نوابوں، سرمایہ داروں اور وڈیروں کے ہاتھوں غریبوں کا بری طرح استحصال ہوتاہے۔ غریبوں کی عورتوں کی عزتیں محفوظ نہیں،انہیں روزگارکے مواقعے حاصل نہیں، مہنگائی کے سبب ان کے گھروں کا نظام بری طرح متاثر نظر آتا ہے۔ اگر کسی غریب کی بیٹی کی شادی ہو،اس کی برادری میں کوئی وفات پا جائے، اچانک کوئی ہنگامی آفت اس کے خاندان پر ٹوٹ پڑے یا قرضے کا بوجھ اسے جکڑ لے تو بیچارے دیہاڑی دار کے لیے معاشرے میں جینا مشکل ہو جاتا ہے۔
غریب اپنی صحت اور علاج معالجے کے حوالے سے بھی بہت سی مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔ اس کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہوتا کہ وہ پرائیویٹ ہسپتالوں میں بڑی بیماریوں کا علاج کروا سکے، جس کی وجہ سے اسے معمولی کلینکوں سے ادویات خریدنا پڑتی ہیں جو کہ تھوڑے عرصے کے لیے تو افاقہ دیتی ہیں تاہم اندر ہی اندر ناسور کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ اور بلا آخر موت کا سبب بنتی ہیں۔
غریب کے بچے تعلیم سے محروم رہتے ہیں،کیونکہ مشکل سے دو وقت کی روٹی کھانے والے دیہاڑی دار کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی کہ وہ اپنے بچوں کا مہنگے سکولوں میں داخلہ کروا سکے۔ اگر کوئی بچہ مشکلوں سے پڑھ لکھ بھی جائے تو اسے نوکری نہیں ملتی۔ کیونکہ ہمارے ہاں کرپشن کا بازار گرم ہے۔غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانوں میں جاگیرداروں،وڈیروں،چوہدریوں اور نوابوں کے ہاتھوں مزارعوں اور ہاریوں کے مسائل ،کسانوں کے استحصال اور کمزوروں پر ظلم کو موضوع بنایا ہے۔ آپ کے افسانے حقیقت سے قریب اور زندگی کی جیتی جاگتی تصویر معلوم ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

حوالہ جات
1۔مصاحبہ مہر غلام فرید کاٹھیا،4مئی 2022ء بمقام رہائش، مہر غلام فرید کاٹھیا،واقع جامع فریدیہ روڈ ساہیوال
2۔مصاحبہ مہر غلام فرید کاٹھیا،4 مئی 2022ء بمقام رہائش، مہر غلام فرید کاٹھیا،واقع جامع فریدیہ روڈ ساہیوال
3۔مصاحبہ مہر غلام فرید کاٹھیا،4 مئی 2022ء بمقام رہائش، مہر غلام فرید کاٹھیا،واقع جامع فریدیہ روڈ ساہیوال
4۔مہر غلام فرید کاٹھیا ،لمحوں کی قید،گنجی بار پبلشرز،ساہیوال،2008ء ،ص:104
5۔مہر غلام فرید کاٹھیا، لمحوں کی قید،ص:99
6۔مہر غلام فرید کاٹھیا ، سفید تتلیوں کا ہار،بک ہوم، لاہور ،2022 ،ص: 93
7۔مہر غلام فرید کاٹھیا ،لمحوں کی قید ،ص :116
8۔ایضاً ص :110
9۔ایضاً ص:130
10۔مہرغلا م فریدکاٹھیا،لمحوںکیقید،گنجی بارپبلشرز،ساہیوال،2008ئ،ص: 22
11۔مہر غلام فریدکاٹھیا،لمحوںکیقید،ص:27
12۔مہرغلامفریدکاٹھیا،سفیدتتلیوںکاہار،بک ہوم،لاہور،2022ئ،ص:70
13۔مہرغلامفریدکاٹھیا،لمحوںکی قید،ص:118
14۔مہر غلامفریدکاٹھیا،سفیدتتلیوںکاہار،ص:30
15۔غلام فرید کاٹھیا،لمحوں کی قید،ص:76
16۔غلام فرید کاٹھیا، لمحوں کی قید، گنجی بار پبلشرز، ساہیوال، 2008ئ￿ ،ص:53
17۔غلام فرید کاٹھیا، لمحوں کی قید،ص:53
18۔غلام فرید کاٹھیا، سرسوں کے پھول، بک ہوم لاہور،2016ئ￿ ،ص:57
19۔غلام فرید کاٹھیا، لمحوں کی قید، ص:135
٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...