Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > دو افسانہ نگار: غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان > شاہد رضوان کے افسانے (موضوعاتی مطالعہ)

دو افسانہ نگار: غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان |
حسنِ ادب
دو افسانہ نگار: غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان

شاہد رضوان کے افسانے (موضوعاتی مطالعہ)
ARI Id

1689952519654_56116833

Access

Open/Free Access

Pages

۶۵

شاہد رضوان کے افسانے
(موضوعاتی مطالعہ)
شاہد رضوان افسانے کی روایت سے جڑا ایک ایسا افسانہ نگار ہے جس کے ہاں استعاراتی اور نیم علاقائی کیفیات بھی ٹھوس ماحول میں سیال کی صورت بہتی نظر آتی ہیں۔ان کے افسانوی موضوعات ہمارے معاشرے ہی سے جنم لیتے ہیں اور جس تنہائی اور بے کسی کے دور سے ہم گزر رہے ہیں اس کی جھلکیاں ان کی کہانیوں میں جا بجا ملتی ہیں۔ ان کے اسلوب میں روانی اور افسانہ لکھنے کا سلیقہ موجود ہے۔ ان کے افسانوں کے انتساب ہی سے ان کی راہوں کی شد بد ہو جاتی ہے۔
منٹو جیسے عظیم افسانہ نگار کا پیرو افسانے کے اندرونی نظم وضبط سے کیسے بے خبر ہو سکتا ہے؟ شاعر ہونے کے ناطے وہ الفاظ کے استعمال اور ان کی موسیقانہ لہروں سے کیونکر کام نہیں لے سکتا۔ یہ تمام تر خوبیاں ان کے افسانوں میں موجود ہیں۔شاہد رضوان ملک کے ابھرتے ہوئے ان افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں جن کے افسانوں کے موضوعات میں خاصا تنوع ہے۔ان کے افسانوں میںحب الوطنی کے جذبات ،اپنوں کے کھونے کا غم،خوشیوں کا احساس،زندگی کا کرب،عورت کی معاشرتی مجبوریاں، محبت کی پسپائی،ستم ظریفی، جنسی رویہ،تہذیبی رکھ رکھاؤ ،حتیٰ کہ زندگی کا ہر رخ اور ہر پہلو ملتا ہے۔ ان کے افسانوں میں جدید معاشرت بولتی دکھائی دیتی ہے۔
شاہد رضوان کے شعور میں اچھائی اور برائی کے خانے بڑے واضح رنگ میں منقسم دکھائی دیتے ہیں مگر وہ اپنے قارئین کو کسی تلقین کے ذریعے قائل نہیں کرتا بلکہ انہیں باتوں میں لگا لیتا ہے۔ یوں وہ ان کی معصومیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو اپنی مطلوبہ وادیوں میں لے جاتا ہے۔وہ کہانی کا اختتام نہیں کرتا بلکہ اسے قاری ہی پر چھوڑ دیتا ہے کہ وہ خود سوچے اور نتیجہ اخذ کرے۔
شاہد رضوان تفصیلات،محاکمات اور جزئیات نگاری کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔اس کا بیانیہ ابہام و علامت کی پیچیدگیوں سے پاک مگر سادہ اور مؤثر ہے۔شاہد رضوان نے اپنے گردو پیش کو ایک معمر شخص کی نگاہ سے دیکھا ہے۔وہ زندگی کا گہرا مشاہدہ رکھتا ہے۔اور جب وہ اپنے افسانوں کی مجموعی فضا کو ارد گرد کی حقیقی،سماجی،سیاسی اور ثقافتی صورتحال کے گرد تشکیل دیتا ہے تو قاری کے لیے یہ طے کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ کوئی تخلیقی افسانہ پڑھ رہا ہے یا سماج کی بے رحمی کے سچے آئینے اس کے روبرو ہیں۔
شاہد رضوان طبقاتی کشمکش پر بے طرح کڑھتا ہے اور یوں بے اعد الیوں اور نا انصافیوں کی داستانیں اس کی تمام کہانیوں میں جگہ پاتی ہیں۔ان کے افسانوں میں غلام عباس کے افسانوں کا سا پھیلاؤ اور منٹو جیسی جنسی سفاکی کا بھر پور اظہار ملتا ہے۔
شاہد رضوان جدید عہد کا ایک پر اعتماد قلم کار ہے۔وہ حالات حاضرہ اور آج کے انسان کی گنجلک نفسیات کا بخوبی ادراک رکھتا ہے۔اسی باعث ان کی کہانیوں میں دلچسپی کا ایسا عنصر پایا جاتا ہے کہ قاری کہانی شروع کر کے اسے ادھورا نہیں چھوڑ پاتا۔
شاہد رضوان کے افسانوں کے کردار نچلے اور متوسط طبقے کے ہیں۔جو اپنے طبقے اور ماحول کی زبان کی خوب عکاسی کرتے ہیں۔ان کے بعض افسانوں میں نیم علاقائی انداز بھی موجود ہے جو کہانی میں روانی کا تاثر پیدا کرتا ہے۔شاہد رضوان کی اکثر کہانیاں خاص ثقافتی مزاج کی آئینہ دار بھی ہیں۔
شاہد رضوان کے افسانوں کو پڑھ کر اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کسی نظریے سے متاثر نہیں ممکن ہے وہ اپنا کوئی سیاسی یا ادبی نظریہ رکھتا ہو لیکن اپنے افسانوں میں وہ اس کا اظہار نہیں کرتا۔ہاں مگر وہ زندگی کے حقائق کی خوب ترجمانی کرتا ہے اور افسانے کو غیر جانبداری سے زندگی کا ترجمان بنا کر پیش کرتا ہے۔زندگی کی حرارت لیے شاہد رضوان کیافسانوں کے کردار،قاری سے گفت شنید کرتے ،اپنے دکھ سکھ بانٹتے،جیتے جاگتے کردار دکھائی دیتے ہیں۔ایک اچھے افسانے میں جن خوبیوں کا ہونا ضروری ہے ان سب خصائص کا شاہد رضوان کے ہاں پایا جانا ان کی افسانے سے محبت کا ثبوت ہے۔
شاہد رضوان کے اب تک چار افسانوی مجموعے چھپ کر منظر عام پر آ چکے ہیں جو ان کی ثابت قدمی اور فکری و فنی پختگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔چودہ افسانوں پر مشتمل شاہد رضوان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’پتھر کی عورت‘‘ 2010ء میں چھپا۔ چیچہ وطنی سے چھپنے والے اس افسانوی مجموعے میں متوسط طبقے کی عورت کے مختلف روپ بڑی خوبصورتی سے سموئے گئے ہیں۔شاہد رضوان کے دوسرے افسانوی مجموعے میں بھی چودہ افسانے شامل ہیںجو کہ 2013ء میں دانیال پبلشرز چیچہ وطنی سے ’’پہلا آدمی‘‘ کے نام چھپا۔شاہد رضوان نے اپنے اس افسانوی مجموعے کو روحانی مرشداور عظیم افسانہ نگار سعادت حسین منٹو کے نام کیا۔اس افسانے میں شادی شدہ خواتین کی آرزوؤں،مرد کے ہاتھوں بکتی ،لٹتی عورتوں،ناانصافی کا بازار گرم کرنے والے اعلیٰ عہدوں پر قابض مگرمچھوں اور دہشت گردی وغیرہ جیسے موضوعات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔
شاہد رضوان کا تیسرا افسانوی مجموعہ’’آوازیں‘‘ 2015 ء میں سانجھ پبلشرز سے شائع ہوا جو قاری کے لیے اپنے دامن میں کئی رنگ برنگی دلچسپیاں سمیٹے ہوئے ہے۔ اند ر اور باہر کا تضاد کشمکش کی جو صورت پیدا کرتاہے شاہد رضوان نے اسے بڑی خوبصورتی اور فنی مہارت سے بیان کیا ہے۔16 افسانوں پر مشتمل اس مجموعے کا ہر اک افسانہ ایک سے بڑھ کر ایک کہانی رکھتا ہے۔ ’’ادھوری کہانی کی تصویر‘‘ 23 افسانوں پرمشتمل شاہد رضوان کا چوتھا افسانوی مجموعہ ہے جو 2020ء میں قارئین کے ہاتھوں کی زینت بنا۔
عورت خدا کی خوبصورت ترین مخلوق ہے۔’’صنف نازک‘‘پکاری جانے والی یہ عورت صدیوں ہی سے ظلم کی چکی میں پستی چلی آ رہی ہے۔رسول اللہﷺ کی ولادت سے قبل عرب معاشرے میں ننھی بیٹیوں کو زندہ دفن کردیاجاتا تھا۔عورت وراثت سے محروم کر دی جاتی،باپ کی وفات کے بعد،ماں بیٹے کی جاگیر میں دے دی جاتی ،عورتیں بازار میں سر عام کنیزیں اور باندیاں بنا کر بیچی جاتی تھیں۔زنا اور ظلم و زیادتی کا نشانہ بنتی یہ عورتیں پاؤں کے جوتے کے برابر بھی عزت نہ پاتیں۔غرض عورت ہر لحاظ سے تکالیف کا سامنا کرتی۔مگر رسول اللہﷺ کی بعثت کے بعد یہی عورت عزت تکریم کی حق دار قرارپائی۔ دین اسلام نے عورت کو وہ مقدس مقام عطا کیا جو اسے دنیا کے کسی اور مذہب یا مسلک نے نہیں دیا۔
عورت کے ماں ہونے پر جنت کو اس کے قدموں تلے قرار دیا گیا۔اگر یہ بیٹی یا بہن کے روپ میں ہے تو بھائیوں کو اس کا محافظ قراردیا گیا۔بالغ ہونے پر اچھی اور مناسب جگہ رشتہ کرنے،بہتر تعلیم اور دین سکھانے پر رسول اللہﷺ کے پڑوس میں جنت کے گھر کی ضمانت دی گئی۔غرض اسلام نے عورت کو اس کا اصل مقام دلوایا۔مگر جب ہم اپنے دین ،مذہب اسلام ،اپنی روایات او ر انسانیت سے دور ہوئے تو شیطانیت،جہالت ،ہوس اور لالچ نے ہمارے ہاں ڈھیرے جما لیے تو عورت کبھی بازار کی زینت بنی تو کبھی آزادی کے نام پر خود ہی اپنے ہاتھوں سولی پر چڑھی۔کہیں سجنا ،سنورنا ،بچے پیدا کرنا اور گھر کے کام کاج میں مصروف رہنا،زندگی کے سنجیدہ، سماجی، معاشی اور معاشرتی معاملات سے دور رکھنا اس کا مقدر بنا۔کہیں عورت کوسسرالی رشتوں اور بندھنوں کی زنجیروں میں جکڑا گیا تو کہیں بے اولادی کا طعنہ دے کر گھر سے بے دخل کر دیا گیا۔
پاکستان جیسے ملک میں گھریلو حالات،تنگ دستی،غربت،مہنگائی اور محرومیوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر عورت اگر کہیں باہر ملازمت کے لیے نکلتی ہے تو اول تو اسے بد کردار کہا جاتا ہے۔عورت کے لیے آج کل ملازمت حاصل کرنا بہت دشوار ہو گیا ہے کیونکہ ہمارا معاشرہ بدقسمتی سے ’’مردوں کا معاشرہ‘‘ بن کر مرد کی حاکمیت اور جنسی تفریق کا شکار ہو گیا ہے۔
ہندوؤںکے رسوم کی پیروی،کم علمی،دین سے دوری اور جہالت کے باعث آج خودکشیوں، طلاقوں، جنسی واجتمائی ظلم و زیادتیوں اور تشدد وغیرہ جیسے مسائل عورت کے لیے بہت بڑھ گئے ہیں۔کہنے کو تو ہم اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں مگر اکیسویں صدی میں بھی پاکستان میں اب تک کاروکاری،وٹہ سٹہ، اور ونی جیسی جاہلانہ رسوم عروج پر ہیں۔راہ چلتی عورتوں پر آوازیں کسنا، ان کا مذاق اڑانا،تضحیک آمیز گفتگو،برے القابات سے پکارنا،سوشل میڈیا پر ان کی تذلیل،بلیک میلنگ اور غیر مہذب الفاظ کا استعمال روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ مطلب آج بھی اسی دور جہالت کے پیروکار موجود ہیں۔آج کسی بہن کے ساتھ اگر ظلم و جبر یا زیادتی ہو رہی ہو تو بھائی بجائے مجرم کو سزا دینے کے بہن کو غیرت کے نام پرقتل کر دیتا ہے۔نہ صرف یہ بلکہ عورت کا اغوائ،گھر اور گھر کے باہر عدم تحفظ،آزادانہ نقل و حرکت میں رکاوٹ،زنا بالجبر،جبری مشقت،زبردستی قرآن سے نکاح ،وٹہ سٹہ،بڑی عمر کے مرد سے کم عمر ی کی شادی،تعلیم اور علم سے محرومی جیسے مسائل بھی ہمارے معاشرے میں عام ہیں۔ آج عورت خود طلاق نہیں لے سکتی،پسند کی شادی کا مطالبہ اس کی بے باکی اور بغاوت سمجھا جاتا ہے۔عورت پر اگر خاوند ظلم کرتا ہے تو وہ اس کے ظلم کی شکایت نہیں کر سکتی،اگر وہ وراثت میں حصہ مانگے تو بھائی اس سے رشتہ ناطہ توڑ کر اس پر لالچی،بد لحاظ تو کبھی فاکشہ جیسے الزامات لگا دیتے ہیں۔
عورت کا جنسی وذہنی استحصال،بے وفائی کے طعنے،محبت میں ناکامی،مرد کا دوسری شادی یا روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک چلے جانااور مندرجہ بالا تمام مسائل پر آواز بلند کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ظلم و بربریت کا خاتمہ کر کے عورت کو اس کے بنیادی حقوق فراہم کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ یہ تمام وہ مسائل ہیں جوآج ہمارے معاشرے میں بہت عام ہو چکے ہیں۔عورت کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ایسے میں انصاف کے ادارے بھی خاموش ہیں۔اس صورتحال میں عورت کے مسائل چاہے پھروہ جنسی ہوں یامعاشی،معاشرتی ہوں یا سیاسی،عورت امیر گھرانے سے ہو یا متوسط طبقے سے یا پھر دو وقت کی روٹی تک کو ترستی غربت کا شکار،آواز حق بلند کرنا یا خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنا بڑے ہی جی جان اور جگرے کا کام ہے۔
شاہد رضوان ایک ایسا افسانہ نگار ہے کہ جس نے ہمارے معاشرے کے مسائل کو بڑی درد مندی سے اپنی کہانیوں میں جگہ دی ہے۔شاہد رضوان کی اکثر کہانیاں متوسط طبقے کی عورت کے روپ دکھاتی ہیں۔’’پتھرکی عورت‘‘کی رضیہ ہویا چندا کی آنکھوں میں سجے خوشحالی کے سپنے،’’کتیا‘‘افسانے میں شگفتہ ’’آوازیں‘‘میں ’’بانجھ عورت‘‘کی کنول ہو یا مائی مستانی،آخری سیڑھی کی نیلوفر یہ تمام زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاس ہیں۔’’پہلا آدمی‘‘میںجوگی چوک،یا سفید بال،یا پھر’’ادھوری کہانی کی تصویر‘‘میں شاہد رضوان کے افسانے’’غارت گر لمحہ‘‘،’’دجال‘‘،’’ٹھیکے دار‘‘،’’ٹرمینل‘‘اور’’ تارکول کی سڑک ‘‘ایسے افسانے (ایسی شاندار کہانیاں)ہیں جوکہ تانیثی حو الے سے بڑے ہی اعلیٰ پائے کے ہیں۔
غرض شاہد رضوان نے تعلیمی ادارے کی طالبات سے لے کرگھریلو ظلم کا شکار عورتوں، نوبیاہی دلہنوں،باہر محنت مزدوری کرتی خواتین ،کنواری لڑکیوں کو درپیش مسائل اورپدرسری معاشرے کی سماجی گھٹن سے تنگ خواتین ،غرض عورت کسی بھی عمر اور شعبے سے تعلق رکھنے والی ہو ،غلام فرید کاٹھیا نے ہر اک کے مسائل کو بڑی خوبی سے اپنیافسانوں میں بیان کیا ہے۔
کہا یہ جاتا ہے کی مرد اور عورت انسانی زندگی کے دو پہیے ہیں۔ایک کے بغیر دوسرے کا وجود ممکن ہی نہیں۔دونوں میں سے اگر ایک کے ساتھ کوئی مسئلہ ہو تو زندگی اور کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔
اچھی اور خوشگوار زندگی کے لیے جیون ساتھی سے ذہنی ہم آہنگی ہونے کیساتھ ساتھ اسکا ہم عمر ہونا یا دوچار سال بڑا ہوناہمارے معاشرے میں اہم تصور کیا جاتا ہے۔ایسے میں اگر کسی کم عمر لڑکی کی شادی اپنی عمر سے بڑے مرد سے ہو جائے تو لوگوں کی رائے میں اسکانباہ مشکل اور کم عرصے تک چلنے والا قرا دیا جاتا ہے۔نہصرف عورت بلکہ مرد کو بھی اس حوالے سے بہت سے معاشرتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔مرد اگر پہلی بیوی کی وفات ،نباہ نہ ہوسکنے پر طلاق یا دیگر حالات کے باعث کسی جوان لڑکی یا اپنے سے کم عمر عورت سے نکاح کر لیتا ہے تو اسے کم عقل ،ہوس پرست یا عورت کاپجاری جیسے القابات سننا پڑتے ہیں۔ معاشرے میں لوگ انہیں طرح طرح کی باتیں سنا کر انکاسکون سے جینا محال کردیتے ہیں۔
شاہد رضوان نے بڑی عمر کی شادی اور معاشرے میں اس کے حوالے سے پائے جانے والے شکوک وشبہات اور بدگمانیوں پر بڑی خوبی سے قلم اٹھایاہے۔’’پتھر کی عورت‘‘مجموعے میں بڑے میاں(اسلم)اور فائزہ کی ایسی ہی کہانی بیان کی گئی ہے کہ جب فائزہ اپنے باپ کی عمر کے مرد میاں جی اسلم سے شادی کر لیتی ہے تو اس کی اپنی ہی دوست’’الفت‘‘اسے اس حولے سے چھیڑتی ہے۔
’’وہ فائزہ کو بڑے میاں کی دلہن کہہ کر چھیڑ رہی تھی،وہ مجھے بہت چاہتے ہیں،نظر نہ لگا دینا،فائزہ نے بانہوں کے کلاوے سے نکلتے ہوئے کہا۔تم مجھے بہت یاد آتی ہو۔تم کو بھولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔بس وقت ہی نہیں ملتا،وہ دو پل بھی تو مجھے اپنی آنکھوں سے دور نہیں ہونے دیتے۔اس کی انکھوں میں چمک اور لہجے میں شوخی تھی۔پھر تو ضرور تم پر شک کرتے ہوں گے۔‘‘(1)
عورت خداکی خوبصورت ترین مخلوق ہے۔حسن وخوبصورتی کے ساتھ ساتھ اگرحیا اور معصومیت بھی اس میں موجود ہوں تووہ بہت جلد ہر ایک کی آنکھ کا تارہ بن جاتی ہے۔سراہا جانا اور عورت کی تعریف ودلجوئی اسے مزید نکھار دیتی ہے۔عورت کی اسی کمزوری سے مرد ذات ہمیشہ اس کا فائدہ اٹھاتی ہے۔ مرد،عورت کو کبھی پیار،محبت اور کبھی حیلے بہانے سے غلط کام کی طرف اکساتا ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مرد نے عورت کو ہمیشہ ہی سے اپنی ہوس اور جنسی مفاد کے لیے استعمال کیا ہے۔مرد اسے سبز باغ ، اچھی زندگی کا راستہ دکھاتا ہے اور پھر اسے جسمانی طور پر استعمال کرتا ہے اور اگر ایسے میں کسی عورت کا حمل ٹھہر جاتا ہے تو بجائے اس کے کہ مرد اپنی غلطی تسلیم کرے یا اپنے اس جرم کا اقرار کرکے عورت کو معاشرتی عزت ومقام دلوانے کی خاطر اس عورت سے شادی کرے اور اسے اپنا لے لیکن اس وقت مرد ایسا نہیں کرتے بلکہ وہ کہتے ہیں ہمارے تو ماں باپ نہیں مانتے ،لوگ کیا کہیں گے ؟معاشرہ کیا کہے گا؟حالات اجازت نہیں دیتے،میں تو پہلے سے شادی شدہ ہوں،میری تو پہلے سے منگنی ہو چکی ہے۔میں تو اب تم سے نکاح یا شادی نہیں کرسکتا،تم شادی کی بات کرکے غلط کر رہی ہو،اب عزت بچانے،گھر والوں،معاشرے کے ساتھ رہنے کاایک ہی حل ہے۔آپ یہ طریقہ اپناؤ کہ آپ اس حمل کو ضائع کردو۔مگر کیا ایسا کرنے والے کسی مرد نے کبھی یہ سوچا کہ جس حمل کو وہ ضائع کرنے کا مشورہ دے رہا ہے،کیا اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے؟مگر نہیں ،مرد یہ سارے غلط کام اپنے مفاد کے لیے کرتا ہے اور فائدے کے لیے یک دم اپنی سوچ اور زاویہ بدل لیتا ہے۔یعنی جب کہیں عیاشی کا ذکر آتا ہے تو تب مرد سارا کچھ بھول جاتا ہے اور آخرپر قربانی ہمیشہ عورت کو ہی دینا پڑتی ہے۔
اس لیے عورت کو یہ چاہیے کہ وہ مرد کی چالاکیوں میں نہ آئے، اپنی عزت کو عصمت کو بچاکر رکھے، کیونکہ ہمارے ملک پاکستان اور اس مشرقی معاشرے میں اگر کوئی لڑکا زنا کرتا پکڑا جاتا ہے تو اس کو کچھ بھی نہیں کہا جاتااور یہ کہہ کر کہ’’یہ مرد ہے تو چلو چھوڑو‘‘،’’عمر ہی ایسی ہے نادانی میں ہو گیا‘‘ ، سب بھلا دیا جاتا ہے۔جبکہ اس کے برعکس اگر کوئی عورت لڑکی اس قسم کا کوئی جرم کرتی پکڑی جاتی ہے تو ساری عمر اپنے ماں باپ کے در پربیٹھی رہتی ہے اور کوئی اس سے شادی تک کرنے کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔جہاں ہم ایسے دوہرے معیاروں والے معاشرے میں رہتے ہیں ،وہیںافسانہ نگار نے یہ ایک اہم موضوع اٹھایا ہے،سماج کی ہر برائی آشکار کر کے شاہد رضوان نے یہ سبق سکھایاہے کہ عورتوں کو ان سب باتوںکا علم ہونا چاہیے کہ مردوں کی ان چکنی چپڑی اورمیٹھی باتوں میں نہیں آنا چاہیے کیونکہ عورت کا دامن کورے کاغذکی طرح ہوتا ہے جو ایک بار میلا ہو جائے تو پھر دوبارہ ویسا نہیں رہتا۔فائزہ اور عدنان کے مکالمے کے ذریعے معاشرے کی اسی سنگ دلی اور دلخراش حقیقت کو بتایا گیا ہے۔
’’تم مرد بھی بڑے مطلبی ہوتے ہو!اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے کے لیے،ایک عورت کو جہنم کا ایندھن تو بنا سکتے ہو لیکن معاشرے میں ناک کٹنے کے ڈر سے اپنے گناہ کو قبول نہیں کرتے ہو،تم اپنی ناک تو بچا لیتے ہو،مگر عورت۔۔۔جب تم گناہ کرتے ہو۔تو تمہیں ڈر نہیں لگتا۔ ۔ شرم نہیں آتی،سوسائٹی کا خیال نہیں رہتا۔۔۔لیکن جب اس گناہ کا اقرار کرنا پڑجائے تو راستہ بدل لیتے ہو۔تم عورت سے قربانی تو لے سکتے ہو مگر عورت کی خاطر سماج سے لڑ نہیں سکتے ہو۔تمہاری ناک کٹتی ہے۔۔۔جان جاتی ہے۔تم نے کتنی آسانی سے کہہ دیا کہ۔۔۔ گرادو۔ ‘‘ (2)
مرد نے اکثر محبت کے نام پر عورت کا جنسی استحصال کیا ہے۔عورت کی قربت پانے کے لیے مرد حیلوں،بہانوں سے تو کبھی شاندار مستقبل کے خواب دکھا کر عورت کو اپنے جال میں پھنساتا ہے۔عورت کی محبت سے فائدہ اٹھانے کے بعد ،وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیتا ہے اور عورت بیچاری حیرت سے آنسو بہاتی رہتی ہے۔ پہلے پہل تو وہ یقین ہی نہیں کر پاتی مگر بعد میں وہ اپنی اس محبت کی ناکامی کا بدلہ زندگی بھر کے لیے مردوں پر اعتبار نہ کر کے چکاتی ہے۔بعض بے چاری عورتیں ذہنی مریض اور شدید ڈپریشن کی کیفیت میں چلی جاتی ہیں۔مرد چونکہ پہلے ہی سے اپنے تمام حالات سے واقف ہوتا ہے۔وہ شادی شدہ یا اس کی منگنی پہلے سے ہی کہیں طے پا چکی ہوتی ہے،ان سب باتوں اور حالات کی نزاکتوں کو اچھی طرح جاننے کے باوجودوہ عورت کو متواتر بیوقوف بناتا رہتا ہے۔مردوں کو چاہیے کہ وہ باہر منہ نہ ماریں بلکہ دینی اور معاشرتی تقاضوں کے مطابق شرافت سے زندگی گزاریں اور اگرکبھی وہ بھول چوک یا جذبات کی رو میں بہہ کر کسی کے ساتھ زیادتی کر بیٹھتے ہیں یا عورت کو سبز باغ دکھا چکے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ چاہے ماں باپ کو چھوڑدیں مگر اپنی خطا کو مانتے ہوئے اس عورت کو اپنائیں۔بعض اوقات بچپن کی منگنیاں بھی ہمارے ہاں بڑے مسائل پیدا کر تیں ہیں۔ لڑکی لڑکا کسی اور کو پسند کرتے ہیں ،مگران کی بچپن کی منگنی یا ان کے ماں باپ کی خواہش اس سب کے آڑے آ جاتی ہے اور وہ پہلے سے طے کردہ نسبت کی وجہ سے مجبور ہو جاتے ہیں اور پسند کی بجائے انہیں کہیں اور شادی کرناپڑتی ہے جس کانتیجہ یہ ہوتاہے کہ ذہنی ہم آہنگی نہیں بن پاتی بلکہ وہ صرف ایک (Commitment) سمجھوتے کے تحت زندگی گزارتے ہیں اور ساری عمر ان میں میاں بیوی والا مثالی ماحول نہیں بن پاتا۔ یوں طلاق و علیحدگی کی شرح میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔فائزہ اور عدنان کی ایسی ہی گفتگو کو شاہد رضوان نے یوں بیان کیا ہے:
’’اس سے پہلے تو تم نے کبھی اس بات کا ذکر نہیں کیا۔فائزہ نے معصومیت سے ہمدردی جگاتے ہوئے کہا۔کبھی موقع ہی نہیں ملا،مختصر سا جواب دے کر اس نے چپ سادھ لی تھی۔بات سیدھی سی ہے تم مجھ سے نکاح کر لو یا میں کسی اور سے۔۔۔‘‘(3)
نکاح ایک بڑا ہی مقدس رشتہ ہے۔میاں بیوی نکاح کے اقرار کے ساتھ ہی اپنے اپنے دل میں ایک دوسرے کے لیے محبت اور الفت رکھنے لگتے ہیں۔شادی رشتہ ہی ایسا ہے کہ جس کے ذریعے عورت معاشرے میں فخر سے سر اٹھا کر جیتی ہے۔
اس کا مرد اس کے لیے محافظ اور کل کائنات ہوتا ہے۔یہ خوبصورت رشتہ جہاں مضبوط اور اک دوسرے کے دکھ ،سکھ کا ساتھی ہوتا ہے۔وہیں ذرا سا شک،عزت واحترام میں کمی یا چھوٹی سی بات بھی بعض اوقات برسوں کی رفاقت کے درمیان لمحوں میں دراڑیں ڈال دیتی ہیں۔دو پیار کرنے والے اور عمر بھر ساتھ کے وعدے کرنے والے پل بھر میں اجنبی ہو جاتے ہیں۔ جبکہ عورت اگر فرمانبرداری کرے ہر دکھ درد کی ساتھی بن کر خوش اخلاقی اورشکر سے مرد کی اطاعت کرے تو پتھر دل مرد بھی نرم پڑجاتا ہے۔مگر بعض کم عقل اور بددماغ خواتین دوسروں سے حسد اور شک میں پڑ کر اپنے ہی ہنستے بستے گھر کو اجاڑ لیتی ہیں۔ شوہر اگر کسی کام کی غرض سے بھی کسی خاتون سے بات کرے تو وہ بات کا بتنگڑ بنا کر اس محترمہ کو اپنے ہی شوہر کی دوسری بیگم ثابت کرنے پر تل جاتی ہیں۔
شک اور حسد ایک ایسی آگ ہیں جو نہ صرف دوسروں کو بلکہ خود کو بھی اندر تک کھا جاتا ہے۔اس کے پاس یہ ہے تو میرے پاس کیوں نہیں؟ مجھے فلاں جیسا بنناہے یہ دولت ،حسن اس کے پاس ہے میرے پاس کیوں نہیں۔ چھیناجھپٹی اور لالچ رشتوں کی خوبصورتی کو ماند کر دیتا ہے۔بدلے کی آگ ہر ایک کی خوشیوں کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ مرد عورت کا استحصال کرتا ہے یہ بات اپنی جگہ درست مگر آجکل عورت ہی عورت کی سب سے بڑی دشمن ہے۔عورت ہی مرد کی دوسری شادی نہیں ہونے دیتی۔نند اور ساس کے روپ میں عورت ہی جہیز نہ لانے پر عورت کو باتیں سناتی ہے،اولاد نہ ہونے کا طعنہ عورت (ساس)کی طرف سے دیا جاتا ہے۔طلاق دلوانے میں بھی مرد کی ماں یا دوسری عورت ہی کی ہلاشیری اور پریشر شامل ہوتا ہے۔اس سب میں اکثر عورتیں ہی عورتوں کو بد کردار ثابت کرنے پر تلی ہوتی ہیں۔غرض یہ کہ اپنے لالچ،بدلے کی آگ اور حسد دل میں لے کر عورت ہی عورت کو برباد کر تی ہے۔یہ ہمارے معاشرے کا ایک اہم پہلو ہے اور شاہد رضوان نے بڑی خوبصورتی سے اس پر قلم اٹھایا ہے:
"تم میرے شوہر کی رکھیل ہو!۔۔۔علینانے اسے للکارا۔۔۔تم میرے بھائی کی رکھیل۔۔۔مہک نے جوابی حملہ کیا۔۔۔تم بے شرم ہو۔۔۔ میں نہیں تم بے شرم ہو،تم بے حیا ہو۔۔۔میں نہیں تم بے حیا ہو۔۔۔ خوب بازار گرم ہوا،تم نے میرا گھر برباد کیا۔۔۔تم کیسی عورت ہو؟علیناغرائی۔۔۔اگر تم میں ذرا بھی عورت پن ہو ۔۔۔تو تیرا شوہر میرے پاس کیوں آئے۔۔۔؟‘‘(4)
جب اولاد جوان ہو جائے تو والدین کا فرض بنتا ہے کہ وہ جلد سے جلد ان کے جوڑکا رشتہ ڈھونڈ کر ان کا نکاح کر دیں۔کیونکہ یہ ان کی شرعی ذمہ داری ہے۔اولاد کے شادی کی عمر میں پہنچ جانے کے بعد اگر والدین بغیر کسی خاص عذر یا رسم ورواج کی وجہ سے ان کی شادی میں تاخیرکریں اور اس وجہ سے وہ گناہ میں مبتلا ہو جائیں تو والدین پر بھی اس کا وبال آئے گا۔حدیث کے مفہوم کے مطابق’’جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کی ذمہ داری ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے۔اگر شادی نہیں کی اور اگر اولاد نے کوئی گناہ کر لیا تو باپ اس جرم میں شریک ہوگا اور گناہ گار ہو گا۔‘‘ہمارے مشرقی معاشرے میں تو بیٹیوں کی شادی میں اکثر اوقات اس لیے تاخیر کی جاتی ہے کہ بھئی لڑکا ابھی کماتا کچھ نہیں اس لیے اس کی شادی نہیں کرنی مگر اکثر بچارری بیٹیوں کو جہیز نہ ہونے ،لڑکے کا غریب ،کم پڑھے لکھے ہونے،لڑکی کاقد کاٹھ چھوٹا ہے،آپکی بیٹی کچھ سانولی سی ہے جیسی وجوہات کی بنا پر عمر بھر کنوارا ہی رہنا پڑتا ہے۔مناسب وقت رشتہ نہ دیکھنے کے باعث لڑکی کی عمر بڑھ جاتی ہے اور پھر اس سے کوئی شادی کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ان سب میں وہ اپنی ہم عمر دوستوں سے انکی شادی خوشگوار نجی زندگی کے رومانوی قصے ،لوگوں کے طعنے سن کر احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہے۔بعض اوقات ماں کے اس دنیا سے چلے جانے ،بڑی بہنوں کے بیاہے جانے یا گھر میں صرف مردوں ہی کے رہ جانے کے باعث بھی بیٹی کی شادی کی طرف دھیان نہیں جاتا۔اس سب کی وجہ سے اکثر لڑکیاں ڈیپریشن اور بیماریوں وغیرہ کاشکار ہو جاتیں ہیں۔ان سب میں اڑوس پڑوس ،جاننے ملنے والوں کے سوالات اسے بے چین کیے رکھتے ہیں ،جو اندر ہی اندر اسے کھوکھلا کر دیتے ہیں۔
ماں اور بیٹی کا رشتہ اک ایسا انمول بندھن ہے جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔بیٹی کے چہرے سے اسکی اندرونی کیفیت کا ندازہ کر لینا،اسکی ہنسی،اسکی آنکھوں کے پیچھے چھپے درد کو پڑھ لینا،بیٹی کا ہر درد ہر تکلیف اپنے دامن میں سمیٹ لینا،ہر قدم پر اسکے لیے پناہ بن جانا۔بیٹی کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کا اپنی استطاعت سے بڑھ کر خیال رکھنا ماں کے سوا بھلا کون کر سکتا ہے۔ماں ہی ہوتی ہے جو سہیلی بن کر اولاد خصوصاً بیٹی کو اچھے برے کی تمیز سکھاتی ہے۔بیٹی کے جوان ہونے پر ماں کو ہی سب سے زیادہ اسے عزت سے رخصت کرنے کی فکرہوتی ہے۔باپ اور بھائی تو روزگار ومعاش میں مصروف ہو جاتے ہیں مگر ماں ہی ہوتی ہے کہ جیسے بیٹی کا سب سے زیادہ خیال ہوتا ہے۔ممتا کا پیار رکھنے والی ماں اگر اس دنیا سے چلی جائے تو بیٹیاں بہت تنہا رہ جاتیں ہیں ،ا ن کی دلجوئی کرنے ، خیال کرنے والا کوئی نہیں رہتا۔وہ ساری زندگی کنواری پڑی رہتی ہیں۔مناسب عمر پر اچھی جگہ رشتہ آجکل ہمارے مشرقی معاشرے کا ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔شاہد رضوان جیسے افسانہ نگار نے اس موضوع پر بڑی خوبی سے قلم اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ والدین کو چاہیے کہ وہ بالغ ہونے کے بعد جلد ہی مناسب عمر میں اولاد کی شادی کر دیں۔
’’وہ اپنی سہیلی کی نسبت بہت خوبصورت تھی ،لیکن گھر میں کبھی اس کی شادی کا تذکرہ نہ ہوا تھا۔پھر وہ اپنی ماں کی تصویر کو دیکھنے لگی،جو بہت جلد اسے بیاہ دینے کے حق میں تھی،اگر اس کی ماں زندہ ہوتی ،تو کم ازکم اس کی منگنی ضرور ہو گئی ہوتی،وہ اپنی ماں کی تصویر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہہ رہی تھی۔رات گئے تک جاگنا،دوپہر کو اٹھنا،دفتر چلے جانا،بھائی کو اس کی کوئی فکر نہ تھی۔باپ کو چوبیس گھنٹے پیسے کمانے کی فکر ہلکان کیے رکھتی تھی۔باپ سے صرف ناشتے اورڈنرپرملاقات ہوتی، دوپہر کا کھاناوہ باہر،اور وہ گھر میں کھاتی،وہ اتنے بڑے گھر میں خود کو بہت تنہا محسوس کرتی تھی۔‘‘(5)
اولاد ماں باپ کے لیے ایک انمول تحفہ ہے۔جنہیں یہ حاصل ہو جائے ان کے لیے ان کی زندگی ایک نیا رخ اختیار کر لیتی ہے۔خوشیاں ان کے دروازے پر دستک دینے لگتی ہیں۔بچوں کی ننھی شرارتیں،مسکراہٹیں اور چمکتی آنکھیں دیکھ کر اپنے سبھی دکھ درد چند لمحوں میں ہی بھول جاتے ہیں۔اولاد ہمیشہ سے ہی انسان کی کمزوری رہی ہے۔جس کی اولاد نہ ہو اس انسان کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔جن کے ہاں اولاد نہیں ہوتی وہ اپنے آپ کو بڑھاپے میں سہارے کے بغیر اور بد قسمت سمجھتے ہیں۔اولاد کی خواہش اور گھر کے آنگن میں بچوں کی توتلی زبان میں باتیں سننا والدین کی بہت بڑی خوشی ہوتی ہے۔بے اولاد جوڑے اولاد کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ہمارے مشرقی معاشرے میں اولاد کے حوالے سے بڑا طعنہ تو عورت ہی کو سننا پڑتا ہے۔تْو بانجھ ہے،دیکھو تمہاری بیوی تمہیں ایک بچہ تک نہ دے سکی،ساس کی باتیں الگ کہ بہو مجھے بس اب اپنے وارث کا وارث اپنا پوتا چاہیے۔نندوں،معاشرے کی باتوں اور سوالوں سے تنگ عورت ذہنی اذیت کا شکار ہو کر رہ جاتی ہے۔ زمانے بھر کی چبھتی نشتر جیسی تلخ باتیں اور پھر شوہر کا عجیب رویہ عورت کو اندر تک توڑ کر رکھ دیتا ہے۔یہ معاشرہ اسے کسی صورت جینے نہیں دیتا۔اپنے وجود کو ادھورا سمجھ لینے والی عورت ممتا کے ہاتھوں مجبور ہو کربچہ گود لینے کاسوچنے لگتی ہے۔مگر یہاں بھی اسے بہت سے مشکلات کا سامنا ہوتا ہے کہ بچہ کس کا ہے؟یہ کسی کے گناہوں کی سزا تو نہیں؟کل کو بچے کو پتہ چل گیا کہ تم اس کی حقیقی ماں نہیں ہو تو وہ تمہیں چھوڑ کر اپنی حقیقی ماں کو ڈھونڈنے نکل جائے گا،اس طرح کی باتیں سننی پڑتی ہیں۔اک طرف تو بے اولاد جوڑے خصوصاً عورت کے لیے معاشرتی حوالیسے اتنے مسائل اور مشکلات ہیں تو دوسری طرف کچھ ماڈرن خواتین اپنی خوبصورتی اور حسن نہ کھودیں،اس ڈر سے اولاد تک پیدا نہیں کرنا چاہتیں۔ یوں وہ ساری عمر جوان رہنے کے چکروں میں زندگی بھر بے اولادی کے ساتھ گزار دیتی ہیں۔
آج کل کے مہنگائی کے دور میں شادی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ہمارے ہاں شادی دو لوگوں کو ملانے کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کو دکھانے کے لیے کی جاتی ہیں۔شادیوں کے لیے مہمانوں کی تواضع میں مختلف ڈشز اور طرح طرح کے میٹھے پکوان درکار ہوتے ہیں۔بہت سارا پیسہ ہو تو شادی ممکن ہوتی ہے۔بیٹی کے لیے بہت سارا جہیز،ٹرک بھر کر سامان،لڑکے والوں کی طرف سے گاڑی،سونا اور لمبی فرمائشوں کی فہرست لڑکی کے ماں باپ کے لیے بڑا مسئلہ ہوتی ہے۔اسی طرح لڑکے کا اچھا روزگار اور بینک بیلنس دیکھ کر مالی حیثیت کے تعین کے بعد شادی کی جاتی ہے۔
مختصر الفاظ میں آج کل ہم نے شادی بیاہ کو بہت مشکل بنا دیا ہے جس کی بنا پر زنا اوربد کاری بہت آسان اور عام ہو گئی ہے کیونکہ نکاح،بیاہ کے لیے معاشرہ روپیہ ،پیسہ،رنگ نسل،ذات پات۔سٹیٹس او رجگہ مانگتا ہے۔فضول رسوم میں پانی کی طرح پیسہ بہایا جاتا ہے جبکہ غلط کامو ں کے لیے معاشرہ صرف جگہ او ر چند پیسوں کا تقاضہ کرتا ہے۔ہم لوگ بے ضمیر ہو چکے ہیں۔ دین سے دوری نے ہمیں گناہوں کے دلد ل میں پھنسا کررکھ دیا ہے۔جس کی وجہ سے بن بیاہی لڑکیاں ہزاروں ناجائز بچوں کو جنم دے رہی ہیں مرد عورت کا جنسی جسمانی استحصال کرتا ہے۔
چکنی چپڑی اور میٹھی باتوں سے عورت کو مستقبل کے سہانے خواب دکھاتا ہے۔جھوٹی محبت جتا کر عورت کی عزت لوٹ کر اس کے دامن کو داغدار کر دیتا ہے۔عورت بیچاری جب اس چند روزہ محبت کے طلسم سے باہرنکلتی ہے تو سب کچھ بدل چکا ہوتا ہے۔گناہوں کی نشانی کوکھ میں لیے پھر اس کے پاس سوائے پچھتاوے اور حسرت کے اور کچھ نہیں بچتا۔معاشرہ ،گھر بار اسے اس حال میں بغیر بیاہی ماں کے روپ میں قبول نہیں کرے گا۔ کل کو اس بچے کی وجہ سے وہ بدکار واور فحاشہ کہلائے گی۔ اس طرح کے بہت سارے سوالوں کی وجہ سے اکثر عورتیں ابارشن یعنی دنیا میں آنے سے پہلے ہی بچے کے قتل جیسے غیر شرعی و غیر معاشرتی کاموں میں ملوث ہو جاتیں ہیں۔ اگر اس عمل میں تاخیر ہو جائے اور عورت کی جان کو خطرہ لاحق ہو جائے تو ایسی عورتیںبچے کو جنم دینے پر مجبورہوجاتی ہیں۔
بچے کی پیدائش کے بعد اپنی گناہوں پر پردہ ڈالنے،معاشرے کے لوگوں کے سوالوں سے بچنے کی غرض سے ننھی اور معصوم جانوں کو گندے پانی کے نالوں ،گٹروں،کچرا کنڈیوں ،ویرانے اور کوڑے کے ڈھیروں میں آوارہ جانوروں اور کیڑے مکوڑوں اور چیلوں کی خوراک بننے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ وہی عورت جو 9 ماہ تک بچے کو اپنے پیٹ میں رکھتی ،اپنا خون دیتی ہے۔ آخر میں وہی سنگ دل،بے رحم اور سفاک ماں ثابت ہوتی ہے۔آج کل بڑی تعداد میں بچوں کا کوڑے کے ڈھیروں،بندبوریوںاور ندی نالوں میں پایا جانا ہماری اسلام سے دوری اور گری ہوئی انسانیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ہمارے معاشرے میں آج کل اس طرح کے موضوعات کو زیر بحث لانا تو دور کی بات بلکہ کئی اس کے متعلق گفتگو تک نہیں کرتاکیونکہ اگر گناہ کا پول کھلے تو بہت سے نام نہاد شرفاء کو سب کے سامنے ننگاہونا پڑے گا اور بہت سوں کی جھوٹی عزت کی پگڑیاں پاؤں تلے روندی جائیں گی۔ اس لیے ننھی کلیوں کو رات کے گھپ اندھیروں میں جانوروں کی خوراک بننے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔شاہد رضوان ایک ایسا قلم کار ہے جس نے معاشرے میں پائے جانے والے ان ناسوروں پر بڑی ہنر مندی سے قلم اٹھایا ہے۔
’’پرانے چیتھڑوں میں لپٹے نومولود کو دیکھ کر وہ حیرت سے پسینے میں نہا گیا تھا جیسے اسے کسی نے برف کی پہاڑی میں گاڑ دیا ہو۔اس نے نومولود کو اٹھانے سے پہلے(جو ابھی تک بلک رہا تھا) تاریکی میں دور تک نظر دوڑائی تو اسے کوئی بشر تو دکھائی نہ دیا البتہ کچھ فاصلے پر دو تین کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آ رہی تھیں جو ڈھیر پر سونگھ کر کچھ ٹٹول رہے تھے۔ اس نے جھٹ سے چیتھڑوں سمیت نومولود بچے کو دونوں ہاتھوں میں اٹھا لیا۔اگر وہ وقت پر نہ پہنچتا تو کتے اس معصوم کو بھاڑ کھاتے۔وہ یہ سوچ کر کانپ اٹھا تھا کہ وہ کسی کے باپ کی نشانی ہے۔‘‘(6)
ماں وہ واحد ہستی ہے کہ جس کے قدموں تلے جنت اور جس کی آغوش سکون کا واحد ٹھکانہ ہے۔ ایثار و محبت اور صبر ووفا کی بہترین مثال ماں اپنی اولاد کے لیے ہر مشکل سہہ جاتی ہے۔بچوں کو اگر کوئی پریشانی ہو تو اس کا دل تڑپ کر رہ جاتا ہے۔یہی معتبر،شفیق اور بے لوث محبت کرنے والی عظیم ہستی اولاد کو اپنی ممتا کے سائے تلے رکھتی ہے۔یہ ماں ہی ہوتی ہے کہ جو معاشرے کی اصلاح یا بگاڑ کی محرک ہوتی ہے۔ اولاد کی پہلی معلمہ اور بچے کے لیے پہلی درسگاہ ماں کی گود ہی ہوتی ہے۔اگر اپنی ماں اپنی اولاد کی صحیح شرعی اور معاشرتی تقاضو ں کے مطابق پرورش کر ے گی تو اچھی اولاد پروان چڑھے گی۔نپولین کے مطابق اچھی مائیں اچھی قوم کی ضامن ہیں۔اسی طرح علامہ محمد اقبال کے خیال کے مطابق قوموں کی تاریخ اور ان کے ماضی و حال ان کی ماؤں کا فیض ہوتا ہے۔مائیں اگر اپنے حقیقی کردار کو نبھائیں اور اولاد کو صحیح اور غلط کی تمیز سکھائیں،انہیں ان کی حدود کا احساس دلائیں تو دنیا واقعی ایک جنت بن جائے گی لیکن اگر ماں اولاد کی تربیت ٹھیک سے نہ کر پائے تو معاشریمیں بہت سی برائیاں جنم لیتی ہیں۔
بیٹی ماں کا عکس ہوا کرتی ہے۔ماں جو کرے گی بیٹی خودبخود اس کے نقش قدم پر چلے گی۔کسی ماں نے اگر اپنی جوانی میں اپنے ماں باپ کو دکھ دئیے ہوں تو کہا یہ جاتا ہے کہ مکافات عمل ہے۔ ہر اک کا کِیا اسے بھگتنا پڑتا ہے۔اگر اچھی سیرت اور اخلاق حسنہ رکھتی ہے تو وہ اپنی اولاد کے بھی اخلاق سنوار دیتی ہے۔اگر ایسا نہ ہو اور ماں لالچی،حریص،مال و دولت کی پجاری،حلال و حرام کی تمیز نہ کرنے والی،اپنی حدود اور پردے کا احترام نہ کرنیوالی ہو تو یقیناً پھر اس کی بیٹیا ں بھی ہاتھ سے نکل کرشطر بے مہار کی طرح گلی بازاروں میں کھل عام گھومتی رہتی ہیں جس کے باعث گھر سے باہر رہنا یا گھر سے بھاگ جانے والی برائیاں وجود میں آتی ہیں۔
بیٹیاں بہت نازک اور نا سمجھ ہوتی ہیں۔انہیں اگر ماں کی تربیت اور باپ کی شفقت نہ ملے تو وہ بدلے میں باہر کے لوگوں خاص کر مخالف جنس سے دوستی کر کے جھوٹے مکرو فریب اور جھوٹے پیار کے جھانسے میں آ کر اپنی پاک دامنی و عزت سب گنوا بیٹھتی ہیں۔جو مرد ماں باپ،بہن ،بھائی اور معاشرے سے چھپ کر عورت سے تعلق یا رشتہ رکھتا ہے اور عورت کو اس کی عزت کے ساتھ (جس کی وہ حق دار ہے ) سب کے سامنے قبول نہیں کرتا ،عورت کی تذلیل کرتا ہے۔جو لڑکی چھپ کر یا گھر والوں کے منہ پر کالک مل کے گھر سے بھاگ کر شادی کر لیتی ہے پھر وہ ساری زندگی معاشرے کے لوگوں بلکہ خود اپنی ذات سے پچھتاوے کے ساتھ بھاگتی اور پل پل جیتی اور مرتی رہتی ہے۔ماں ، باپ اور بھائیوں کی عزت کا جنازہ نکالنے والیوں کو پھر آنے والی نسلوں تک اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتاہے۔
گھر سے بھاگ کرکی جانے والی شادی ہمارے مشرقی معاشرے میں تیزی سے عام ہورہی ہے جواپنے ساتھ قتل،ناجائز اولاد، ڈپریشن اور شرح طلاق میں اضافے جیسی بہت سی پریشانیوں کے باب کھول رہی ہے۔ ہمارے ہاں ایسی شادیاں ایک بہت بڑا معاشرتی موضوع بن چکی ہیں۔ ان کی روک تھام کے لیے لوگوں میں اس کے نقصانات سے متعلق شعور بیدار کرنا نہایت ضروری ہے۔شاہد رضوان نے لڑکیوں کے گھر سے بھاگ کر شادی کرنے اوربعد میں ان کے والدین پر کیا گزرتی ہے،معاشرے میں وہ کیسے روزجیتے ،روزمرتے ہیں جیسے موضوعات پر بڑی ہنر مندی سے بات کی ہے۔
’’ اسے آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی، چندا کی ماں گڈو کو گود سے دودھ پلاتی سوچ رہی تھی۔ جب اس نے گھر سے بھاگ کر شادی کی تھی اس کے والدین کو کتنا دکھ ہوا ہو گا۔ اس کے بھائی منہ دکھانے کے قابل نہ رہے ہوں گے۔وہ اپنے ماضی کے دریچوں میں پہنچی تو بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔فضل پھر اس کی سہیلی حنا کے گھر پہنچا،انکل میرے پاس تو وہ کئی دنوں سے نہیں آئی۔ آج کل اس کا افئیر ایک لڑکے سے چل رہا ہے، شاید اس کے پاس گئی ہو،پتہ کر لیں۔‘‘ (7)
بچے مستقبل میں قوم کے معما روں کاکردار ادا کرتے ہیں۔اگر انہیں بچپن ہی سے صحیح تربیت دے دی جائے تو اس کا مطلب ہے کہ ایک مضبوط اوراچھے معاشرے کے لیے ایک درست بنیاد ڈال دی گئی ہے۔بچوں کی اچھی اور بہترین تربیت مثالی معاشرے اور شاندار قوم کی ضمانت ہے کیونکہ ایک اچھا پودا ہی مستقبل میں ایک تناور درخت بن سکتا ہے۔بچے صاف تختی کی طرح ہوتے ہیں۔آپ اس میں جو لکھیں گے صرف وہی نظر آئے گا۔بچپن ہی میں اگر بچے کی دینی و اخلاقی قدروں پر مشتمل تربیت و اصلاح ہو تو وہ بالغ ہونے کے بعد بھی اس پرعمل پیرا رہتاہے۔اس کے برعکس اگر صحیح طریقے کے مطابق بچے کی تعلیم و تربیت نہ ہو سکے تو بلوغت کے بعد زمانے کے لیے بچے سے بھلائی کی کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ اگر بچہ بالغ ہونے کے بعد کسی غلط عمل یا برے اخلاق کا ارتکاب کرتا پایا جاتا ہے تو اس کی ذمہ داری صرف اور صرف اس کے والدین پر ہی عائد ہو گی کیونکہ انہوں نے بچپن ہی سے اپنے بچے کی صحیح سے تربیت و رہنمائی نہیں کی۔اولاد کی بہتر اور دینی تربیت والدین کے لیے دنیا کی نیک نامی اور آخرت میں بھی کامرانی کا سبب ہے جبکہ نافرمان اور بدبخت اولاد اپنے والدین کے بے جا لاڈ پیاریا ڈانٹ ڈپٹ کی بدولت دنیا میں بھی وبال جان اور آخرت میں بھی رسوائی کا ذریعہ ہوں گے۔والدین خصوصاً جب کسی ایک فرد یا بچے کی تربیت کرتے ہیں تو وہ ایک خاندان،ایک معاشرے اور ایک سوسائٹی کی بھی تربیت کر رہے ہوتے ہیں۔اچھی تربیت کے باعث ایک پاکیزہ، با اخلاق،عمدہ و باکردار معاشرے کا قیام عمل میں آتا ہے۔
ماں باپ جب بچے کی ظاہری تربیت کے ساتھ باطنی تربیت بھی کرتے ہیں تو بچے کے دوست احباب،مشاغل و تعلقات،اس کے عقائد اخلاق غرض سب کی درستگی و اصلاح رہتی ہے۔ بچے کی ظاہری اور باطنی تربیت والدین کے ہی ذمے ہے۔والدین کے دل میں فطری طور پر بچوں کے لیے نرم گوشہ محبت اور الفت کے جذبات ہوتے ہیں۔ انہی احساسات کے باعث ہی ماں باپ بچے کی دیکھ بھال،پرورش و تربیت اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں۔ والدین کے دل میں اولاد کے لیے یہ جذبات ہونے کے ساتھ اگر انہیں اپنی ذہنی و اخلاقی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہو تو وہ اپنے فرائض کو اچھی تربیت کے پہلوؤں کے احسن طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔
قرآنی آیت کے مفہوم کے مطابق اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو جہنم کی آگ سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔والدین کو چاہیے کہ وہ اولاد کو حلال وحرام کی تمیز سکھائیں اور احکام شریعت سکھائیں کیونکہ والدین کی طرف سے اولاد کے لیے اس سے بہتر کوئی عطیہ نہیں کہ وہ اولاد کو اخلاق حسنہ اوربہترین آداب سکھائیں۔بچوں کی تربیت میں کوتاہی کرنا والدین کو قیامت کے روز باز پرس سے نہیں بچا سکے گی۔
والدین کو بچے سے پیار ومحبت اور ڈانٹ ڈپٹ کے معاملے میں اعتدال و توازن سے کام لینا چاہیے۔اچھائی پر جہاں بچے کی تعریف وشاباش اور تحفے دئیے جاتے ہیں تا کہ اس میں اچھائی کا جذبہ پروان چڑھے، وہیں کسی غلطی پر اچھے انداز سے ٹوکنا اور سمجھانا بھی بہت ضروری ہے تا کہ بچے کو بچپن ہی سے صحیح اور غلط کی تمیز ہو سکے۔اگر بچپن میں غفلت برتی جائے تو بچے کے دل ودماغ میں وہ بات راسخ ہو جاتی ہے۔اس لیے تربیت میں میانہ روی اور اعتدال برتتے ہوئے جہاں نرمی کی ضرورت ہو وہاں نرمی اور جہاں سختی درکار ہو وہاں سختی سے کام لیا جائے۔بچہ اگر کوئی غلط کام کرے،کسی کے باغ سے پھل یا پھول توڑے تو اسے وہیں پیار سے سمجھایا جائے کہ پوچھے بغیر یا بلا اجازت چیز لینا چوری کے زمرے میں آتا ہے بچے کو شروع ہی سے اگر اچھی تربیت ملے ،اچھے برے کی تمیز سکھائی جائے تو نہ صرف معاشرے بلکہ ملک و قوم کے لیے بھی فخر اور راحت کا باعث ہوتا ہے اس کے برعکس اگر والدین بچپن میں اسے اس کی غلطیوں پر ڈانٹنے کی بجائے لاڈ پیار میں اس کی بے جا حمایت کریں،کسی کی گیند اٹھانے،غبارہ پھاڑنے یا کسی کی کھڑکی کا شیشہ توڑنے پر اگر شروع ہی سے بچے کو غلطی کا احساس دلایا جائے ،سختی سے تنبیہ کی جائے تو بچہ بڑا ہو کر چور ڈاکو بننے سے رک جاتا ہے۔
ماں اولادکی تربیت میں سب سے زیادہ کردار ادا کرتی ہے۔ اگر وہی بچے کی برائیوں پر اسے نہ روکے ،اسے موقع دے،اس کے لیے جھوٹ بولے تا کہ بچہ مار سے بچ جائے تو وہ اس کو مستقبل میں معاشرے کے لیے ناسور بننے کے لیے تیار کر رہی ہوتی ہے۔
’’میں معاشرے کے لیے ناسور ہوں۔میں وہ پھوڑا ہوں جس کا زہر معاشرے کی رگوں میں پھیل رہا ہے۔میں نقص امن کی علامت ہوں۔میں خوف و بربریت کا پتلا ہوںس۔میرے سر کی قیمت تیس لاکھ روپے ہے۔ میں جان چھپاتا پھرتا ہوں۔پولیس میرے پیچھے باؤلی ہوئی پھرتی ہے۔آگے سے خاموشی،اس کی آنکھوں نے ایسی برسات لگائی کہ اس کے رخسار بھیگ گئے۔ماں!وہ پل بھر کو سانس لے کر پھر گویا ہوا،ماں میرے ساتھ بیٹھ کر ٹاٹ کے سکول میں پڑھنے والوں میں سے آج کوئی ڈاکٹر ہے تو کوئی انجینئر،کوئی اکاؤنٹنٹ ہے تو کوئی فوجی افسر،جو سب سے گئے گزر ے تھے وہ بھی سکول ٹیچر ہیں۔ماں !وہ مجھ سے زیادہ ذہین نہ تھے۔صرف ان کی ماں نے ان کی تربیت صحیح انداز سے کی۔اچھی چیز دی اور بری سے کوسوں دور رکھا۔خدانخواستہ اگر ان کی والدین بھی آپ کی طرح۔۔۔تو وہ سب بھی میری طرح۔۔۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔‘‘(8)
کسی بھی ملک میں امن و امان کا قیام پولیس کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ انصاف کے ترازو کے دونوں پلڑوں کو برابر رکھتے ہوئے قانون و آئین کے تحت شہریوں کو بنیادی حقوق کی فراہمی پولیس کی ذمہ داری ہے۔اگر پولیس اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام نہیں دیتی تو سمجھ لیجیے کہ وہ پولیس گردی کر رہی ہے۔جس طرح دہشت گردی ایک برا فعل ہے اسی طرح پولیس گردی بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔آج کل عوامی خدمت گاری کے نام پر دہشت گردی اورلوٹ مار عام ہے۔معاشرہ پولیس کا نام سنتے ہی خوف وگھبراہٹ محسوس کرنے لگتا ہے۔وردی میں ملبوس افراد میں آج کل بعض کالی بھیڑیں ایسی بھی ہیں جو کہ سارے ادارے کو بدنام کرنے پر تلی ہیں۔
سیاسی مداخلت کے باعث برسراقتدار جماعت کے کہنے پرغلط کی پرواہ کیے بغیر ظلم کا بازار گرم ہے۔پولیس فورس میں اصلاحات کے نام پر قوانین تو پاس کیے جاتے ہیں لیکن من وعن عمل ابھی تک نہیں ہو سکا۔کسی غریب کے ساتھ ظلم ہو جائے تو طاقت ور کے خلاف ایف آئی آر تک درج نہیں کی جاتی۔یہ مطلق العنان،امراء کے فرمانبردار،ڈاکوؤں کے نگہبان بن کر اغواکاروں اور منشیات فروشوں کے دست راست کا سا کردار ادا کرتے ہیں۔بھتہ خوروں کے ساتھ مل کر کمزوروناتواں اور غرباء کو ڈرا دھمکا کر اپنے حصے کا کمیشن وصول کیا جاتا ہے۔
بیچارے معصوم لوگ جھوٹے مقدموں میں الجھائے جاتے ہیں۔کسی امیر باپ کی اولاد کوئی قتل یا بڑا جرم کر بیٹھے تو اثرو رسوخ استعمال کر کے اسے بچا لیا جاتا ہے طاقت کے نشے میں پولیس اپنے فرائض تک بھول جاتی ہے۔محافظ کے لفظ کو استعمال کر کے عوام کے ساتھ درندوں اور وحشیوں والاسلوک کیا جاتا ہے جس کے باعث محافظ لفظ راہزن کے مترادف بنتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔غریب قتل ہو جائے اور کسی کھاتے پیتے گھرانے کا بیٹا اس کا قاتل ہو تو بجائے اس کے کہ پولیس مجرم کو پکڑے، الٹا مرنے والے غریب کے دوستوں،رشتہ داروں ہی پر اس کا مقدمہ ڈال دیا جاتا ہے۔بنا کسی ثبوت کے ملزم کو مار پیٹ کر،الزامات لگا کر اور غلطی کا اقرار کر لو ورنہ تمہارے خاندان والوں کو بھی اٹھوا لیں گے جیسی دھمکیاں دے کر اچھے بھلے شریف بندے کو ملزم سے مجرم بنا دیا جاتا ہے۔ اس کے بوڑھے ماں باپ،بہن ،بھائی دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں اور بے گناہ اولاد سلاخوں کے پیچھے ہے کا سوچ کر چلتی پھرتی لاشیں بن کر رہ جاتے ہیں۔
پولیس گردی ہمارے معاشرے کا ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔حکمرانوں اور انصاف کے اداروں کو اس پر قابو پانا چاہیے۔غریب کی عزت و آبرو بھی اتنی ہی اہم ہونی چاہیے جتنی کہ امیر آدمی کی۔ قانون کے سامنے چھوٹا ،بڑا، امیر،غریب،حکومتی و سرکاری اہلکار اور عام آدمی سب برابر ہوں تو ملک و قوم اصل میں کامرانی کی راہوں پر چلے گی۔شاہد رضوان ایک ایسا منجھا ہوا افسانہ نگار ہے کہ جس نے دو وقت کی روٹی کمانے اور بچوں پیٹ کی آگ بجھانے والے غریب مزدور کی زندگی کی تلخ حقیقتوں سے پردہ اٹھایا ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح ایک عام آدمی پر الزام و پولیس مقدمہ بننے کے بعد اس کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔
’’یہ سب جھوٹ ہے،یہ من گھڑت کہانی ہے،دلبر اپنے خلاف لگنے والے الزام پر چلایا،تیری ماں۔۔۔تیری بہن۔۔۔ایس ایچ او نے ماں بہن کی گالیاں دیتے ہوئے گھونسوں سے اس کے منہ پر حملہ کر دیا۔ وہ بے چارہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔بیٹے کی یاد میں رو رو کر نوراں کی آنکھوں کا پانی ختم ہو گیا تھا۔کرن کی کچی آنکھیں رو روکر سوجھ گئیں،ان میں سرخی نے ڈیرے ڈال لیے تھے۔ ناصر اور اختر بھائی کی تصویروں سے لپٹ لپٹ کر اپنی اداسیوں میں اضافہ کرتے رہتے تھے۔امام دین تو پتھر کی مورتی کی طرح چاپائی پر پڑا رہتا۔کون آیا؟کیا ہوا؟ اس نے ایسی باتوں سے چھٹکارا پا لیا تھا۔‘‘(9)
اللہ نے سب انسانوں کو پیدا کیا۔دنیا کے کاموں اور معاملات کو بہتر طریقے سے چلانے اور ایک دوسرے کی پہچان کے لیے لوگوں کو مختلف قبیلوں،گروہوں،رنگ اور نسل میں تقسیم کر دیا۔ دنیاوی لحاظ سے کوئی امیر تو کوئی غریب،کوئی آقا تو کوئی غلام،کوئی غنی بنا دیا گیا تو کسی کے حصے میں فقیری آئی۔ کسی کے پاس اتنا ہے کہ سمیٹا نہ جا سکے تو کوئی ایسا جو دو وقت تک کی روٹی کو ترستا رہ جائے۔
مقام و مرتبے کی یہ تمیز حکمت خداوندی کے تحت ہی ہے۔ان درجات کی اونچ نیچ کا مقصد کار جہاں چلانا اور بہتر طریقے سے انسانی ضروریات کی تکمیل کرناہے۔اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ اعلیٰ مرتبت شخصیت،کم حیثیت یا ملازمین کے ساتھ غیر انسانی رویہ روا رکھیں۔ماتحت یا نگران ہونا ایک وقتی تعلق ہے ورنہ بحیثیت انسان سب یکساں ہیں۔وہ لوگ جنہیں زمانے کی گردش ملازمت کرنے پر مجبور کر دیتی ہے،ہمارا پیارا اسلام انہیں بھائی کہہ کر برابری کے حقوق کی تلقین کرتا ہے۔
عرب جیسے معاشرے میں لوگوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک روا رکھا جاتا تھا۔لوگ غلاموں کی طرح بازاروں میں بکتے تھے۔ عورتوں کی کوئی عزت نہ تھی۔مگر جب آپﷺ رحمت اللعالمین بن کر تشریف لائے تو آپﷺنے یہ غلاموں والا تصور ختم کر دیا۔لوگوں نے اللہ کی رضا کے لیے اپنے غلاموں کو راہ خداوندی میں آزاد کر دیا۔خدمت گاروں کے حقوق متعارف کروائے گئے۔جو خود کھاؤ وہی ان کو بھی کھلاؤ،جو خود پہنو ان کو بھی وہی پہناؤ جیسا حکم دیا گیا۔
مگر افسوس صد افسوس آج ہم نے اپنی سب اسلامی روایات بھلا دیں اور غربت کے ہاتھوں مجبور افراد پر جانوروں سے بھی بد تر مظالم ڈھانے لگے۔گھریلو ملازمین کے ساتھ نازیبا،توہین اور حقارت آمیز رویہ،جھڑکنا،برا بھلا کہنا اور سخت لہجے میں گفتگو کے ساتھ تشدد بھی آج کل عام ہے۔
ملازمین کے ساتھ حسن سلوک اورخوش اخلاقی بہت ضروری ہے لیکن امراء کو اس بات کا احساس تک نہیں،وہ ٹھنڈے کمروں میں گرمیوں میں مزے سے آرام کرتے ہیں جبکہ غریب ٹوٹے پھوٹے کواٹروں میں جہاں نہ بجلی نہ پانی کا بندوبست ہے،رہنے پر مجبور ہیں۔
دو وقت کی روٹی تو دور کی بات انہیں ضروریات زندگی تک میسر نہیں،اگر کوئی بیماری آ جائے تو تو دوا کے لیے پیسہ جیب میں نہ ہونے کے باعث بیچارہ مزدور علاج معالجے سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ نومولود بچے کی پیدائش کے بعد بیوی کے لیے خون کی کمی،علاج معالجے تک دستیاب نہیں۔امیروں کے تو کسی جانور تک کو کچھ بیماری آن پڑے تو مالکان کی جان پر بن جاتی ہے۔ پانی کی طرح پیسہ بہایا جاتا ہے۔اگر ملک میں علاج ممکن نہ ہو تو باہر سے ڈاکٹروں کو بلوا لیا جاتا ہے۔امیر پیسے کے نشے میں انسانیت تک سے گر جاتا ہے۔مختصراً امیروں کو چھینک بھی آ جائے توان کا حل کیا جاتا ہے جبکہ غریب کے بچے توبھوکے مر جاتے ہیں۔غریب آدمی کو بات بات پر ذلیل کیا جاتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر وقت سے قبل تنخواہ نہیں دی جاتی ،غرض غریب لوگ غلاموں سے بھی بدتر زندگی جینے پر مجبور ہیں۔شاہد رضوان نے غریبوں اور ملازمین کی ان پریشانیوں کی بڑی خوبی سے تصویر کشی کی ہے۔
’’نومولود بھوک سے بلک بلک کرہلکان ہوئی جاتی تھی۔دو وقت سوکھی روٹی ملتی وہ بھی نہ کھاتی،کبھی دودھ پیا نہ گھی کھایا،پھل اسے کہاں ملتا،بچوں کے لیے شجرِ ممنوع تھا۔دودھ کہا ں سے آتا،بچی کے لیے دودھ خریدنا فلک سے تارے توڑنے کے مترادف تھا۔دودھ پچاس روپے بکتا،کم از کم بچی کے لیے ایک کلو نہ سہی آدھا کلو تو ضروری تھا۔ایک دن کتا بیمار پڑ گیا۔چوہدری نے رات پریشانی سے آنکھوں میں کاٹ دی،تین ڈاکٹر بدل لیے کچھ افاقہ نہ ہوا، کتے کے تیمارداروں کا تانتا بندھ گیا،ہر کسی نے اپنے عقل وفہم کے مطابق دیسی ٹوٹکے تجویز کیے،جب کوئی بھی حربہ کار گر نہ ہواتو چوہدری نے کتے کو گاڑی میں ڈالا اور لاہور لے گیا۔‘‘(10)
شادی وہ خوبصورت رشتہ ہے کہ میاں بیوی میں اگر ذہنی ہم آہنگی نہ ہو تو زندگی عذاب بن کر رہ جاتی ہے۔کامیاب شادی شدہ زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے جیون ساتھی کا انتخاب خود کو سامنے رکھتے ہوئے اس طرح کیجیے کہ آپ کو انتخاب میں اپنا عکس واضح نظر آئے۔
ذہنی ہم آہنگی ،کلاس یا طبقے کا فرق جیسی چیزیں اگر درمیان میں آ جائیں تو رشتوں میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔شادی جیسے اہم بندھن میں بندھنے کے لیے ضروری ہے کہ انتخاب کرتے وقت اپنا ہم خیال تلاش کریں۔ذہنی ہم آہنگی کا ہونا بہت ضروری ہے۔قرآنی حکم کے مطابق جہاں بالغ کا نکاح کے بندھن میں بندھ جانا ضروری ہوتا ہے وہاںجسمانی کے ساتھ ساتھ ذہنی بلوغت بھی بہت ضروری ہے۔
زندگی کے سفر میں ساتھی کے انتخاب کے دوران یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ مرد یا عورت جسے بھی ہم اپنا لائف پارٹنر چننے جا رہے ہیں کل کو وہ میری اولاد کے لیے کیسے ماں باپ کا کردار ادا کرے گا۔ کسی سے یہ توقع رکھنا کہ کل کو میرا مرد میرے لیے اپنے جینے کا انداز ،اوڑھنا پہننا یا عادات تبدیل کر لے گا تو ایسا کم ہی ممکن ہوتا ہے کیونکہ جو عادات ایک بار پختہ ہو جائیں وہ زندگی بھر قائم رہتی ہیں۔یہ سچ ہے کہ حس مرد کی کمزوری ہوتاہے۔اگر کوئی عورت فیشن ایبل ہونے کے ساتھ ساتھ حسین بھی ہو تو مرد کا دل کشش کی وجہ سے بہت جلد اس کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے اور اسی کشش کے باعث مرد اور عورت ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوجاتے ہیں اور سکون پاتے ہیں۔لیکن یہ سکون اس وقت بالکل غارت ہو جاتا ہے جب دونوں کو پتہ چلتا ہے کہ دونوں کی سوچ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔روز کی لڑائیاں جھگڑے او بد گمانیاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیںاور پھر بات اکثر طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔گھر ٹوٹ جاتے ہیں۔سکون غارت اور زندگی تکلیفوں سے بھر جاتی ہے۔
عورت خدا کی خوبصورت ترین مخلوق ہے۔ دین اسلام عورت کو پردے میں اور خود کو ڈھانپ کر رکھنے کا حکم دیتا ہے۔اسلام نے بڑے ہی واضح الفاظ میں محرم اور نا محرم کے رشتے بتا کر مرد ووعورت دونوں کے لیے حدود مقرر کر دی ہیں۔جہاں عورت کو اوڑھنی اوڑھنے ،سر اور سینہ ڈھانپنے اور اپنی زیب و زینت فقط شوہر پر ہی ظاہر کرنیکا حکم ہے وہیں مرد کو بھی راہ چلتے نگاہیں جھکانے اور تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔مگر جب دونوں میں ایک یا صرف عورت ہی حیا اور شرم چھوڑ دے تو نا صرف معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہوتا ہے بلکہ بہت سی برائیاں بھی جنم لیتی ہیں۔بے پردگی اور زیادہ روشن خیالی کے باعث خاندان ٹوٹ جاتے ہیں اور طلاق کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔اس سب کی روک تھام کے لیے مذہب، اخلاق اور اپنی اسلامی روایات پر چلنا بہت ضروری ہے ورنہ اس کے بغیر معاشرہ برائیوں کی آماج گاہ بن کر رہ جاتا ہے۔
’’وہ بیلٹ والی تنگ شلواریں،جو ٹخنوں سے اوپر ہی رہتی ہیں، کھلے گلے والی ہاف سلیوز پہنتی ،جو ناف کے اوپر ہی رہتی،بال کھلے چھوڑتی،دوپٹہ نامی چیز سے اس کی واقفیت نہ تھی۔سیاہ چشمہ لگا کر آزادانہ گھومتی تھی۔وہ روشن خیال مشرقی لڑکی تھی جبکہ وحید پڑھا لکھا،پینڈو یہ سب نہ دیکھ سکتا تو اس کے ا ندر چھپا مولوی باہر آ جاتا۔ وہ اسے تنگ نظر اور بنیاد پرست ہونیکا طعنہ دیتی تھی۔‘‘(11)
شادی ایک بہت ہی خوبصورت رشتہ ہے جو اپنے دامن میں عظیم مقصد،خوشی اور سکون سمیٹے ہوئے ہے۔اسی سکون اور خوشی کے تحت شادی سے قبل ہر لڑکی اپنے مستقبل کے بارے آنے والے کل کا قیمتی سرمایہ چند خواب بن کر رکھتی ہیں کہ میری شادی ہوگی۔۔۔یہاں ماں باپ کے گھر تو مجھے سب پرایا دھن کہتے ہیں۔شادی ہو گی تو میرا اپنا گھر ہو گا۔میرا بھی ایک زندگی کا ساتھی،روٹھنے منانے والا ایک ہم نوا ہو گا۔ہر طرح کا سکھ چین اور عیش و آرام ہو گا۔شوہر کما کر اپنی ماں کی بجائے اپنی کمائی اپنی نئی نویلی دلہن کی ہتھیلی پر دھرے گا۔زندگی محبت و الفت کی آماج گاہ بنی ہو گی۔میں گھر کی اکلوتی مختار کل ہوں گی۔
ہم میاں بیوی میں اعتماد ہو گا،بچے ہوں گے اور پھر ان کی پرورش وتربیت ہو گی۔کسی چھوٹے بڑے کی مخالفت نہ ہو گی جو ایسا کرے گا اس کی بھر پور مخالفت کی جائے گی۔مگر ان سب خواہشوں اور خوابوں پر اس وقت پانی پھر جاتا ہے۔ جب زندگی کا ساتھی ہی پاس نہیں رہتا اور کسی مجبوری یا مصیبت کی وجہ سے اسے بیوی بچوں اور ماں باپ کو چھوڑ کر پردیس کاٹنا پڑتا ہے۔روزگار کی تلاش میں غیر ملکوں کے دروں کی خاک چھانتے،پیٹ کی آگ بجانے کے لیے تنہائی کے ساتھ جانوروں جیسی مزدوری بھی کرنی پڑتی ہے۔پیچھے چھوڑے ماں ،باپ بہن بھائیوں کی خواہشوں کی لمبی فہرستیں،معاشی مجبوریاں اور غربت کے خاتمے کی خاطر اچھی اور خوشحال زندگی کے خواب سجائے مرد پردیس میں کمانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ دیار غیر میں بسنے والے بظاہر تو بڑے خوشحال اور اچھے دکھائی دیتے ہیں مگر وہ اپنے دل اور آنکھوں میں ہزار ناقابل بیاں کرب چھپائے ہوتے ہیں۔کسی بھی فوتگی پر یا اپنوں پیاروں کے حادثوں میں مر جانے پر ہزاروں میل کی دوری کے شب و روزتپتے صحراؤں سرد موسموں میں غریب الوطنی ہی میں گزار دیتے ہیں۔
پردیس میں کئی کئی روز فاقوں مین ،عیدوں ،تہواروں پر اپنوں کی جدائی ساتھ،کتنے ہی بخار اور بیماریاں کسی کی عیادت کے بغیر،اجنبیوں کی بولی سے ناواقف گونگوں بہروںکی سی زندگی گزار دیتے ہیں۔ پردیسی یہاں ملک میں مقیم اپنے پیاروں کی معاشی حالت سنوارنے کی غرض سے گدھوں کی طرح مشین اور روبوٹ بنے لگاتار کام کرتے رہتے ہیں۔چھوٹے بہن بھائیوں کی ضرورتیں،جوان بیٹیوں بہنوں کی شادی کی فکر بوڑھے ماں باپ، کا سہارا بن جانے ی آرزو،کسی کا قرض اتارنے جیسا بوجھ یا کچھ پیسے کما لوں اپنے وطن جا کر اپنا کاروبار کھولوں گاجیسی سوچیں اور معاشی مجبوریاں انہیں اپنے پیارے ملک واپس نہیں لوٹنے دیتی۔
ایسے میں بعض لوگ تو انہیں حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتے ہیں تو بعض تنہائی کاٹنے کے لیے وہاں ہی کسی عورت سے کاغذی بیاہ کر لیتے ہیں اور وہیں گھر بسا کر رہنے لگ جاتے ہیں۔پیچھے گھر والوں ماں باپ یا بن بیاہی بہنوں پر کیا گزر رہی ہے،وہ کس کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔
زوجین کے حقوق میں فقط نان و نقفہ ہی ضرورت نہیں ہوتا بلکہ اس کے علاوہ بھی بہت سی ضرورتیں ہوتی ہیں۔گھر صرف چیزوں یا روپے پیسے سے نہیں چلتا بلکہ اصل میں بیوی کے لیے گھر اس کے شوہر اور رشتوں سے ہوتا ہے۔مگر جب عورت کو تنہائی کا آسیب ڈستا ہو،خاوند کی غیر موجودگی میں اس کے دن رات تکلیف میں گزرتے ہوں، وہ سارا وقت گھر میں اکیلے قیدیوں جیسی زندگی،چند اچھے لمحوں کو سوچتے تکلیف میں گزارتی ہو۔پہاڑ جیسی جوانی،خوبصورتی مگر تنہائی،سسرالی باتیں کہ تمہیں کس چیز کی کمی،دل میں دبی خواہشیں ،مچلتے جذبات کے ساتھ زندگی گزرتی ہو،وقت گزرنے کا نام ہی نہ لے، لمحے دن اور دن مہینوں اور مہینے سالوں جیسے لگتے ہوں۔شوہر نہ واپس آئے اور نہ فون پرکوئی خیر خیریت پوچھے نہ بتائے تو تنہائی کی ماری بعض عورتیں جذبات میں آ کر غلط راہوں اور برے راستوں کی مسافر بن جاتی ہیں وہ انتظار میں گھلنے کی بجائے کوئی نیا مرد تلاش کر کے ناجائز ذرائع سے اپنی جنسی آسودگی حاصل کرتی ہیں۔
رشتے انسانی زندگی کی بقا کے لیے آکسیجن کی طرح ہوتے ہیں۔ پیسوں کی لیے پیاروں کی قربانی عقلمندی نہیں۔نیک بیوی خدا کی رحمت ہوتی ہے۔ شوہر کے گھر اورعزت کی محافظ کہلاتی ہے۔ خاوند کو اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ورنہ مرد کی بے رخی زندگی کے بے ضبط تقاضوں کی ستائی اور اپنی فطری جبلت سے حسب توفیق لڑنے کے بعد اپنے ہونے کا اثبات کروا ہی لیتی ہیں۔پھر کوئی نئی نویلی دلہن جدائی کی سلگتی آگ کو بجھانے کے لیے کسی راج مزدور کی خدمات حاصل کرنے یا گھریلو ملازم کی۔ شاہد رضوان نے بیرون ملک مقیم مرد حضرات کی بیویوں اور شادی شدہ خواتین کی جنسی ضروریات اور مسائل پر بڑی ہنر مندی سے قلم اٹھایا ہے۔ انہوں نے معاشرے کی سچی مگر تلخ حقیقتوں کا پردہ بڑی خوبصورتی سے چاک کیا ہے:
’’ایک ماہ کا سہاگ۔۔۔چہ معنی دارد؟اس سے تو بہتر ہوتا کہ وہ کنواری ہی بیٹھی رہتی۔جب تک اس کی شادی نہ ہوئی تھی۔ہر چند جذبات مچلتے،انگ انگ ٹوٹتا،برسات کا موسم تن بدن میں آگ لگاتا، جنس مخالف کی طلب اسے ستاتی لیکن اس کی خواہش کو شدید ہونے کے باوجود کچلنا آسان ہوتا۔۔۔لیکن اب تو وہ شادی کی بھینٹ چڑھ چکی تھی۔اپنے جذبات پر قابوپانا خود پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔‘‘ (12)
’’ظلم و زیادتی ‘‘عدل کی ضد ہے۔ عدل و انصاف ہی وہ پیمانہ ہے جس کے باعث انسانیت زندہ ہے۔اگر معاشرے میں انصاف نہ رہے تو ایسا معاشرہ صالح معاشرہ نہیں ہو سکتاظلم و جبر اور درندگی و دہشت کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔قرآن بھی ہمیں انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے۔کہا گیا ہے کہ’’کسی قوم (یا فرد)کی عداوت تمہیں بے انصافی پر نہ ابھارے،تم عدل کرتے رہو کیونکہ وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔‘‘ نہ صرف ارشاد باری تعالیٰ سے بلکہ رسول اللہ ﷺ کے فرامین اور حیات طیبہ کے ذریعے بھی ہمیں بار بار انصاف کا حکم ملتا ہے۔اسلام امیر و غریب، شاہ و گدا،آقا و غلام،ادنیٰ و اعلیٰ اور حاکم و محکوم کو برابر قرار دیتا ہے۔غرض انصاف کا جو پیمانہ اسلام نے ہمیں عطا کیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔
انصاف اقوام کی سر بلندی ، وقار اور بقا کی علامت ہے۔ مگر جن معاشروں مین اللہ کے بندوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا وہ قومیں زوال کا شکارہو کر تباہ و برباد ہو جاتی ہیں۔انصاف وسیع معنی رکھتا ہے۔سیاسی،معاشرتی،معاشی، مذہبی،قانونی اور آئینی ہر حوالے سے انصاف کا برقرار رہنا بہت ضروری ہے رسول پاک ﷺ کاخطبہ حج، الوداع ہمیں انصاف کا درس دیتا ہے۔رنگ و نسل،مذہب وقوم اور قبیلے کی بنا پر کوئی بھی فرد کسی دوسرے پر فوقیت نہیں رکھتا بلکہ برتری کا معیار صرف اللہ کا خوف ہے۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جہاں معاشرے کے بنیادی مسائل میں ایک بہت بڑا مسئلہ انصاف کے حصول کا ہے۔مگر صد افسوس کہ یہاں انصاف پانا ایک طبقاتی مسئلہ اختیار کر چکا ہے یعنی طاقت ور قانون کی حکمرانی کو اپنے تابع رکھتا ہے جبکہ کمزور کے لیے انصاف حاصل کرنا کسی دیوانے کے خواب جیسا ہے۔حصول انصاف ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ بے گناہ کے ساتھ ہونے والے ظلم کا ازالہ کرنا انصاف کے اداروں ،پولیس ،عدالتوں اور ہمارے ججوں کا کام ہے۔آج اگر کوئی غریب اپنے حق کے لیے آواز بلند کرے تو اس کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے۔مخالفین اول تو سیاسی اثرو رسوخ استعمال کر کے ایف آئی آر تک نہیں کاٹنے دیتے اور اگر ایف آئی آر کٹ جائے ،معاملہ عدالت تک پہنچ بھی جائے تو ججوں اور وکیلوں کو پیسہ لگا کر خرید لیا جاتا ہے۔
عام عوام کو انصاف کے حصول کے لیے کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ معاشی اور سماجی طور پر کمزور افراد،عورتیں اور خصوصاً کم عمر بچے جو والد یا کسی سرپرست کے قتل کے خلاف انصاف کے ادارے کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں توانہیں سب سے زیادہ استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہاں کی عدالتوں میں انصاف بکتا ہے جہاں فوری اور سستے انصاف کی بالا دستی نہیں ہوتی تو اس معاشرے سے اخلاقیات، امن، قانون اور استحکام کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔مقتولین کے لواحقین فقط انصاف کے متلاشی ہی رہ جاتے ہیں۔ظلم کے ذریعے حق کوکچھ دیر کے لیے دبایا تو جا سکتاہے لیکن رشوت لینے اور دینے والے دنیا اور آخرت دونوں میں کبھی نہ کبھی ضرور ذلیل و رسوا ہو کر رہتے ہیں۔حدیث پاک کے مطابق’’رشوت دینے والااوررشوت لینے والا دونوں جہنمی ہیں‘‘۔بلکہ رشوت لینے اور دینے والے کے درمیان معاملہ کروانیوالے پر لعنت کی گئی ہے۔
آج یہ قبیح فعل بہت عام ہو گیا ہے۔قریباً ہر ادارے میں اس کا بازار گرم ہے۔پھر چاہے کوئی امیر ہو یا غریب،بڑے محکموں کے جج،وکیل ہوں یا چھوٹی پوسٹ کے ملازمین سب جگہ اس سود خوری نے ڈھیرے جما لیے ہیں۔بڑے بڑے جج اور قاضی اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے آسائشیں جمع کرنے ارو گناہ کمانے ہی میں عمر گزار دیتے ہیں۔ اور دنیا و آخرت کی رسوائی کو اپنا مقدر بنا لیتے ہیں۔ایسی کمائی جو حرام کے ذریعے سے کمائی گئی ہو اس سے نسل کی بہترین پرورش کیوں کر ممکن ہے۔اولاد سکھ دینے کی بجائے دکھ دینے والی،غلط کاریوں میں مبتلا،عیاش اور آوارہ نکلتی ہے۔حرام رزق نہ صرف بہت سی جسمانی بلکہ نفسیاتی اور روحانی بیماریوں میں بھی مبتلا کر دیتا ہے۔ایسا رزق برکت سے خالی او ر روح و دل کو غمگین وبے چین کر دینے والا ہوتا ہے۔انصاف کا قتل کرتے وقت رحم سے خالی جج اور وکیل حضرات ریٹائرمنٹ کے بعد عمر کے آخری حصے میں پہنچتے ہیں تو ساری عمر کیے گئے ظلم، نا حق کھائی ہوئی رقم،رشوت اور ذاتی مفاد کے بدلے ہائی خوشیاں پچھتاوے، دکھ، تنہائی،خوف اور وحشت بن کر ان کا پیچھا کرتے ہیں۔آخرت کاعذاب دنیا ہی میں انہیں ڈرانے لگتا ہے۔ کسی بیوہ مظلوم کی دہائیاں،کسی کم سن معصوم بچے کے آنسو،کسی بوڑھے کے لرزتے ہاتھ اور جھکی ہوئی کمر تو کہیں انصاف کے لیے در در پھرتے کسی غریب کی آہ و فریاد دل کا چین اورقرار،رات کی نیند اور خوشی سب چھین لیتا ہے۔عجیب بد حواسی،بے چینی،وحشت کے گہرے سائے،بھیانک موت کی جیتے جی جھلک اور ماضی کے ظلم سب ڈراؤنے خواب بن کر ڈرانے لگتے ہیں۔پھر موت کے علاوہ کوئی چلہ،کوئی دم دارو یادوا ضمیر کی آوازدبانے اوررہائی دلانے ذریعہ نہیں ہوتی۔ایسے میں ظالم روز جیتا اور روز مرتا ہے۔
’’تم کیسے انسان ہو؟چہرہ بندر جیسا ہے۔اب سانپ بن گئے ہو اور اب تم چوہے کی شکل اختیار کر چکے ہو اور اب تم کتا بن گئے ہو۔نورانی بشر نے ایک بار پھر بارعب آواز میں پوچھا:"میں ایک ریٹائرڈ جج ہوں۔‘‘(13)
برصغیر میں اسلام کی اشاعت،بقا اور پھیلاؤ کے حوالے سے دینی درسگاہوں اور اللہ کے نیک بندوں کا کردار بڑا ہی اہم رہا ہے۔ان عظیم ہستیوں نے معاشرے سے بدعات کے خاتمے، دین محمدیﷺکی ترویج اور شرک و گناہ کی روک تھام کے لیے نا قابل فراموش خدمات سر انجام دی ہیں۔ صراط مستقیم سے دور،گناہوں کی دلدل میں پھنسے،بہکے انسانوں کو رب سے جوڑنے میں مدد فراہم کی۔عوام انہیں اپنا روحانی محسن تصور کرتے تھے۔اسی باعث آج صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی لاکھوں پیروکار اور چاہنے والے ان سے محبت و عقیدت رکھتے ہیں۔مگر صد افسوس آج کی اس اکیسویں صدی میں اس پاکیزہ عمل و مقصد اور پیر وبزرگ حضرات کا کردار ایک کاروبار کی صورت اختیار کر چکا ہے۔جعلی بابے،پیر اور نقلی عالم شرع کی حدود سے نکل کر عوام کو فراڈ اور دھوکے دہی سے اپنے فریب میں پھنسا کر لوٹتے نظر آتے ہیں۔
سیدھے سادھے کم تعلیم فافتہ دیہی افراد اور خصوصاًمعصوم عورتیں انہیں ولی اللہ اور نیک بزرگ سمجھ کر ان کی شعبدہ بازی میں آ جاتی ہیں اور نہ صرف گھر کا مال اسباب، زیور،لباس لٹھا بلکہ اپنی عصمت اور عزت و رفعت تک گنوا بیٹھتی ہیں۔شیطانی طاقتوں کے ذریعے لوگوں کو کرشمے دکھا کر بیوقوف بنایا جاتا ہے کم پڑھے لکھے ،ان پڑھ اور توہم پرست افرادکی بہت بڑی تعداد ’’فلاں کو بھی شفا ہوئی۔فلاں کو بھی روٹھی محبت واپس مل گئی‘‘بابا جی کی نظر کرم سے اس کے ہاں جڑوا لڑکے ہوئے۔پیر جی کے چلے سے دولت کی ریل پیل ہو گئی۔’’فلاں کی ٹوٹی ہڈیاں اور بیماریاں ختم ہو گئیں۔‘‘تو بزرگوں کے تعویز سے بیٹی کا رشتہ ہو گیا یا ہمارا گھر چھوڑ کر گیا بیٹا واپس لوٹ آیا جیسی جھوٹی اور من گھڑت کہانیوں پر اعتبار کر کے اپنا سب کچھ گنوا بیٹھتے ہیں۔کمزور اعتقاد والیا فراد ان دو نمبر پیروں کی بچھائے جال میں پھنس کر اکثر غیر اخلاقی اور غیر شرعی رویوں پر راضی ہو جاتے ہیں۔
ان پڑھ جاہل لوگ ان دھوکے بازوں کی باتوں میں آ کر کہیں قبروں کی مٹی لائے،کہیں چڑھاوے چڑھائے،جانوروں کی غیراللہ کے نام پر قربانیاں دیتے،جن نکالنے کی غرض سے ڈنڈوں سے زخمی ،دھونیوں سے بے ہوش ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔بے اولادی دور کرنے کے لیے عورتیں جعلی پیروں کے پیر پکڑے تو کہیں ان کے گلے لگ رہی ہوتی ہیں۔جادو کے توڑ اور شوہر کو قابو کرنے کے بہانے برہنہ کر کے ان سے جنسی خواہشات کی تکمیل یا ان کی وڈیوز کو بیچا جاتا ہے۔ننھے معصوم اور کم عمر لڑکے لڑکیوں سے بد فعلی،کسی قبر سرہانے مرد کی ہڈیوں،الو کے خون،انسانی بالوں اور کالے جادو کے ذریعے بہت سے بنگالی اور جعلی بابے لوگوں کو لوٹتے ہیں۔یہ افراد گروہ کی صورت میں کام کرتے ہیں اور اکثر اوقات توان کی باقاعدہ جماعتیں ہوتی ہیں جن میں بعض اوقات خواتین اور نوجوان خوبصورت لڑکیاں بھی شامل ہوتی ہیں جو سیدھے سادھے مردوں اور لڑکوں کو بیوقف بنا کر لوٹتی ہیں۔
بیچارے عوام اپنی سادگی اور کم خواندگی کے باعث سادہ لوگوں کے تعویز گنڈوں اور جادو کے توڑ جیسی باتوں پر یقین کر بیٹھتے ہیں اور فراڈ کے ذریعے اپنے پیسے اور زیور گنوا بیٹھتے ہیں۔ایسے لوگوں کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا۔یہ خانہ بدوشوں کی طرح ایک علاقے سے دوسرے میں ہجرت کرتے رہتے ہیں۔ جہاں پڑاؤ ڈالتے ہیں وہاں کے لوگوں کے مال و جائیداد کا صفایا کر کے رفو چکر ہو جاتے ہیں۔کسی کو ان کے اصل ٹھکانے ،مقام یا رہائش کی خبر نہیں ہوتی۔ اس لیے لوگ اپنی توہم پرستی،سادگی اور دین سے دوری کے باعث بعد میں ساری عمر سر پکڑ کرپچھتاتے رہتے ہیں۔ذہنی سکون،تناؤ،ڈپریشن کے خاتمے، بیماریوں،معذوروں سے چھٹکارے کی غرض سے آئے حضرات ان سے سوائے رسوائی کے کچھ حاصل نہیں کر پاتے۔
آج کل تو یہ جعلی پیر،نقلی سائیں جی،بنگالی بابے، اور فقیر جی باقاعدہ پلاننگ کے ذریعے سے چند لوگوں کو اپنا خلیفہ یا جانشین بنا کر معاشرے میں متعارف کرواتے ہیں اور اپنی جھوٹی،نام نہاد کرامات، کا ڈھونگ رچاتے دکھائی دیتے ہیں۔بلکہ یہ باقاعدہ شدید زیادتی،بد فعلی،لوٹ مار،چوری چکاری اور اغواء برائے تاوان جیسے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔ ہمارے انصاف کے اداروں،پولیس اور حکومتی عہدے داران کو ایسے شعدہ بازوں جعلی پیروں اور دونمبرے کام کرنے والے بابوں کے خلاف سخت کاروائی کرنی چاہیے تا کہ ان کے ہتھے چڑھ کرروپیہ پیسہ،مال و اسباب،عزت و عصمت اور جان تک کی قربانی دینے والوں کو چھٹکارا مل سکے۔
’’فقی شریف آدمی تھا۔اس کی کسی سے ان بن نہ تھی۔کوئی تنازعہ نہ تھا۔ بیٹیوں کا کیا ہے وہ تو پرایا دھن ہوتی ہیں۔بیٹا تو آخری عمر کا سہارا۔۔۔منیر تھا بھی اکیلا،کوئی دو چار نہ تھے۔روپیہ پیسا تو ہاتھوں کی میل ہے۔آدمی پھر کما لیتا ہے۔فقیر نے اونے پونے داموں ستر ستر ہزار کی دو بھینسیں فروخت کیں۔ایک لاکھ بیس ہزار کا زیور بیچا جو حاجرہ نے بچیوں کے لیے بنوایا تھا۔چالیس ہزار ادھر ادھر سے ادھار پکڑے۔۔۔ اس نے دن بھر تردد کر کے تین لاکھ پیدا کر لیے تھے۔رقم پہنچاتے ہو۔۔۔ یا ہم منیر کی لاش بھیجیں۔‘‘(14)
پاکستان میں اکثر لوگوں کے پاس محدود اقتصادی وسائل ہیں اور معیار زندگی کم ہو کر رہ گیا ہے۔اس کی بنیادی وجہ غربت ہے۔لوگوں کے پاس دو وقت کی روٹی کھانے ،پہننے کو کپڑے اور سر ڈھانپنے کو لباس تک نہیں۔کم آمدنی اور وسائل میں کمی کے باعث کمتری، محرومیاں،ذہنی مسائل اور پریشانیاں جنم لے رہی ہیں۔غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر غریب پیسہ نہ ہونے کے باعث مختلف جرائم کرنے لگتا ہے۔
پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے لوگ گاڑیوں اور مختلف املاک کی چوری کرتے ہیں۔ڈاکو اور لٹیرے بن جاتے ہیں۔تو کبھی کسی امیر آدمی کا بچہ یا جوان لڑکی اغواء کر لی جاتی ہے۔روپے پیسے کے لیے دوسروں کی جانوں اور عزتوں کے ساتھ بری طرح کھیلا جاتاہے۔بعض اوقات غربت و بے روزگاری انسان کوبہت سی غیر اخلاقی سرگرمیوں میں مبتلا کر دیتی ہے۔جو لوگ محنت نہیں کرتے اور غربت کی زندگی گزارتے ہیں۔وہ زیادہ تر منشیات،چرس،ہیروئین،زیادتی،جوا،شراب نوشی،دھوکہ دہی اور ممنوعہ سرگرمیوں میں مبتلا ہو کر مجرمانہ کاروائیاں سر انجام دینے لگ جاتے ہیں۔جہاں مرد حضرات بے روزگاری کے سبب جرائم میں مبتلا ہو کر پیسہ کمانے کے ناجائزطریقے اختیار کرتے ہیں۔وہیں خواتین اور نوجوان لڑکیاں بھی دولت کے حصول اور غریبی کے خاتمے کے لیے جسم فروشی جیسے مکروہ دھندے میں پڑ جاتی ہیں۔
والدین کا قرضہ اتارنے،چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کرنے ، بوڑھے ماں باپ کے علاج تو کبھی جہیز جیسی لعنت کے ہاتھوں مجبور ہر کر لڑکیاں اگر گھر سے باہر روزگار کے سلسلے میں نکلتی ہیں تو انہیں غلیظ نظروں،چبتیج ہوئی باتوں اور عجیب دھمکیوں سے جنسی طور پرہراساں کیا جاتا ہے۔ اول تو انہیں ملازمت دی ہی نہیں جاتی،اگرانہیں ملازت مل جائے تو انہیںانتہائی تنگ دستی کے حالات میں بہت کڑی شرائط کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔پھر نو دس گھنٹے مسلسل کام کرنے کے بعد پیسے ملتے ہیں جس سے آدھے جانے کے کرائے اور چند ضرورت کی اشیاء بڑی مشکل سے پوری ہوتی ہیں۔
منڈی جیسی اس معیشت میں جہاں تمام اخلاقی اقدار بکتی ہوں،انصاف اور منصفوں کے ضمیروں کی بولیاں لگتی ہوں،ہر قانون بکتا ہو، وہاں انسانی گوشت اور لہو سب سے بے مول بکتا ہے۔دوسری تمام اجناس طرح عورت بھی سستی بکنے والے جنس بنائی ہوئی ہے۔
جہاں خورا ک کی کمی ہو ،بھوک کے ڈھیرے ہوں،وہاں عصمت فروشی کے دلدل میں پھنسانے کے لیے باقاعدہ لڑکیا ںٹرینڈ کر کے لائی جاتی ہیں۔مختلف گروہ جن میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں ان کے ذریعے لڑکیوں کی مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے۔ انہیں سستے داموں خرایدا اور فروخت کیا جاتا ہے۔نہ صرف ایک علاقے سے دوسرے علاقے بلکہ دیگرشہروں اور بیرون ممالک بھی’’فریش مال،تازہ سپلائی،نیا پیس اور ان ٹچ‘‘کہہ کر خواتین کی عصمت فروشی کاروبار کیا جاتا ہے۔
چند گھنٹے،رات،ہفتے اور بعض اوقات تو مہینوں کے حساب سے نہ صرف یہ گروہ بلکہ خود نوجوان لڑکیاں بھی جسم کا سودا کرنے آتی ہیں۔کم عمری اور حسن دیکھ کر دام طے کیے جاتے ہیں۔اس سب سے بہت سی جنسی برائیاں،بے راہ روی اور ہزاروں ناجائز بچے روز جنم لیتے ہیں۔ جنہیں کوڑے کے ڈھیروں،یتیم خانوں اور مختلف سینٹروں میں پیدا ہوتے ہی مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے یا پھر دنیا میں آنے سے قبل ہی ان کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے۔اس سب کا محرک غربت ہے۔
یہ آج غربت ہی ہے جس کی وجہ سے جہیز نہ ہونے کے باعث جوان لڑکیاں شادی کی عمر بوڑھے ماں باپ ہی کے گھر بیٹھے گزار دیتی ہیں۔وقت پر ہاتھ پیلے نہ ہونے کی صورت میں ان کے چہروں پر جھریاں اور بالوں میں سفیدی آ جاتی ہے۔وقت کے حکمرانوں کو غربت اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے کوششیں کرنی چاہیے۔دو وقت کی روٹی،جسم ڈھانپنے کے کپڑا اورچھت جیسی بنیادی ضرورتوں کے لیے عوام کو ریلیف اور آسان شرائط پر قرض جیسی سہولیات دینی چاہیے۔
نہ صرف پڑھے لکھے نوجوانوں بلکہ غیر خواندہ افراداور خواتین وغیرہ کے لیے بھی باعزت روزگار اورنوکریوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔تا کہ کوئی کسی بھی ماں باپ کی جوان اولاد اور خصوصاً لڑکیاں اپنی عزتوں کا سودا نہ کریں۔اس کے ساتھ ساتھ والدین کو اولاد کی وقتاً فوقتاً ذہنی و اخلاقی تربیت بھی کرتے رہنا چاہیے۔ صرف بیٹوں کو ہی نہیں بلکہ بیٹیوں کو بھی حلال و حرام سے آگاہ کرنا چاہیے۔ اسلام اور شرع پر سختی سے عمل پیرا ہونا چاہیے تا کہ اولاد اپنی اور والدین دونوں کی دنیا وآخرت برباد کرنے سے بچ سکیں۔
جسم فروشی ایک انتہائی مکروہ دھندہ ہے۔غربت کی وجہ سے،خاندان سے چھپ کر،سر عام اپنی مرضی سے یا کسی مجبوری کے تحت ہو،اس کی روک تھام لازمی ہے تا کہ ہم پاک رہ سکیں اور ہمارا معاشرہ بھی پاک رہ سکے۔شاہد رضوان نے عصمت فروشی جیسے سنگین مگر حساس پہلو کی طرف بڑی خوبصورتی سے توجہ دلائی ہے:
’’وہ کب سے کھیت چرنے کی عادی ہے؟’’پچھلے چھ ماہ سے‘‘یہ تمہاری مجبوری ہے یا شوق۔۔؟مجبوری ہے۔مجھ سے بڑی دو بہنیں شرافت کی چادر اوڑھے چارد یواری کے اندر گھٹ گھٹ کر بیٹھی رہیں ،مگر گھر کے فاقوں نے کسی کو ان کی طرف دیکھنے کی توفیق نہ بخشی۔حالانکہ وہ دونوں چندے ماہتاب تھیں۔ان کے بالوں میں چاندی چمکنے لگی لیکن ان کے ہاتھ پیلے نہ ہو سکے۔’’اس کی آنکھیں چھم چھم برسنے لگیں۔‘‘ (15)
غربت اور بے روزگاری آج وطن عزیز میں ہر ایک کا ہی مسئلہ بن چکا ہے۔ہمارے ہاں آج تین قسم کے طبقے آباد ہیں۔جن میں ’’امیرطبقہ ‘‘،’’درمیانہ طبقہ‘‘اور’’غریب طبقہ‘‘ہیں۔امراء کا طبقہ وہ ہے کہ جن کے پاس تما م آسائش زندگی اور وافر مقدار میں روپیہ پیسہ موجود ہے۔ دوسرا ’’درمیانہ طبقہ‘‘ ہے جو غریب کی لکیر سے تھوڑا اوپر ہے جبکہ تیسرا طبقہ’’غریب طبقہ‘‘ہے۔جو محض دو وقت کی روٹی کھانے سے بھی محروم ہے۔
بے روزگاری آج کل ایک سماجی عیب اور برائی سمجھی جاتی ہے۔ جو بہت عجیب اور خطر ناک حالات پیداکرتی اور موت کے منہ تک لے جاتی ہے۔غربت و بے روزگاری کے باعث اچھا بھلا انسان بھی قانون شکن،لٹیرا،مجرم، اور ڈاکو کا روپ دھار لیتا ہے جس سے بہت ساری برائیاں پھیلتی ہیں اور انسا ن کے کردار کے منفی پلوا نظر آنے لگتے ہیں۔غریب آدمی جو اپنے بچوں اور بیوی کے لیے دو وقت کا کھانا اور بیماری کے وقت دوا تک نہیں لے سکتا اس سے ایمانداری ، شرافت اور بہتری کے کاموں کی امید کس طرح کی جا سکتی ہے۔
آج کل غربت کے ساتھ عزت دارانہ زندگی گزارنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔غربت بے سکونی،اضطراب اوربغاوت کو جنم دیتی ہے۔انسان غربت میں ہو تو وہ کام بھی کرنے لگ جاتا ہے جو اس نے کبھی سوچے بھی نہیں ہوتے۔مہنگائی کے اس دور میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔اگر غریب طبقے کو ہنر سکھا کر چھوٹے پیمانے پر مگر مناسب عزت دار روزگار دے دیا جائے ،ہر کنبے کے افراد کیلئے ایک چھت(گھر) اور تعلیم جیسی مفت سہولیات دے دی جائیں تو معاشرے میں سکون لانے کے ساتھ ساتھ مسائل میں بھی کمی لائی جا سکتی ہے۔اگر گھریلو خواتین کو دستکاری، سلائی کڑھائی یا کوئی اچھے ہنر سکھا دیئے جائیں تووہ بھی اپنے مردوں کے ساتھ مل کر شانہ بشانہ گھر چلانے میں مدد دے سکتی ہیں۔
یہ تو سچ ہے کہ غربت بہت بری بلا ہے لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ انسان بے حیا ہو جائے۔ذلت آمیز پیشہ اختیار کر لے۔محنت مزدوری ایک ایسا زینہ ہے جس پر چڑھ کر انسان تیزی سے روشنی کی طرف جا نکلتا ہے۔ہو سکتا ہے اتنی محنتسے امارت کی تلاش ناممکن ہو لیکن اس میں سکون اور عزت ضرور ہوتی ہے۔ایک دانا کے قول کے مطابق’’اس کائنات میں کوئی انسان اس وقت تک رسوا نہیں ہو سکتا۔جب تک وہ کپڑا صرف بدن ڈھانپنے کے لیے پہنے اور روٹی صرف زندہ رہنے کے لیے کھائے۔‘‘ غریب مسکین برا تو نہیں،البتہ قحط،بھوک اور افلاس جب انسان کامنہ چڑاتے ہیں تو غریب انسان وہ کچھ کر بیٹھتا ہے نارمل حالات میں جس کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔چوری کرتا ہے،چند روپیوں کی خاطربے گناہ انسانوں کو قتل کردیتا ہے جبکہ اغواء برائے تاوان کا مرتکب ہوتا ہے۔یہاں تک کہ یہ غربت ہی ہے جو عورت کو جسم فروشی پر بھی مجبور کر دیتی ہے۔
جانے کیسی کیسی مجبوریوں کے باعث،مہنگائی،بے بس حالات کی ستائی عورتیں کم عمری اور بچپن ہی میں اس ذلالت میں خو کو ڈبو لیتی ہیں اور پھر عمر بھر اسی سے منسلک رہتی ہیں یا پیشہ وارانہ کاروبار تمام زندگی کے لیے کرنے لگ جاتی ہیں۔اس دھندے میں آنے کے بعد جب تک پیشہ وارانہ عورتیں جب تک جسمانی حوالے سے بالکل ناکارہ نہیں ہو جاتیں اپنی قیمت وصول کر کے مشکل سے گزارا کرتی رہتی ہیں۔
آج کل ہمارے معاشرے کے دوہرے معیار ہیں جہاں اخلاقیات اور تربیت کی کمی ہے۔عورت کی کوئی عزت نہیں ہے۔عورت نے جب گھر ،چادر،چاردیواری کو چھوڑا تو وہ صرف انجوائمنٹ کی ہی ایک چیز بن کر رہ گئی۔ پھر مرد نے اس کی بولی یہ دیکھے بنا لگائی کہ وہ میری ماں کی عمر کی خاتون ہے یا پانچ بچوں کی ماں،گوری،کالی یابدصورت ہے؟وہ عادی دھندا کرنے والی ہے یا عام کوئی مجبور عورت؟
نوجوان نسل جو کہ کسی قوم و ملت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند اور قوم کی فلاح و ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔جب بے حیائیوں اور فحاشیوں میں پڑ جائے تو بہت سی ایمان کش اور اخلاق باختہ برائیاں جنم لیتی ہیں۔ عریانیت عام ہو جاتی ہے۔نسل بے راہ روی،بدکاری، اور زنا کاری کی جانب مائل ہونے لگتی ہے۔اس بے حیائی کے وائرس سے بچنے کے لییجہاں ایک وجہ غربت ہے وہیں دین سے دوری بھی اس کی بہت بڑی وجہ ہے۔جب ہم نے اسلام کے ان اصولوں کو کہ"مرد اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور عورتیں اپنی اوڑھنی کو اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں"کو ترک کیا تو رسوائی ہمارا مقدر ٹھہری۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمارے قلوب اور زندگیوں کو پاکیزہ بنائے۔ہمارے وطن عزیز کو غربت،بے روزگاری، جہالت، بے راہ روی، اور جسم فروشی جیسے دلدل سے محفوظ رکھے۔جسم فروشی ایک ایسا حساس معاشرتی موضوع ہے کہ جس پر بہت کم بات کی جاتی ہے۔شرمایا جاتا ہے۔مگر شاہد رضوان ایک ایساافسانہ نگار ہے کہ جس نے بہت ایمانداری سے اس موضوع پر قلم اٹھا کر ہماری عوام کوجھنجھوڑنے اور اخلاقیات پر غور کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔
’’جیسے ہی اس نے فون بند کیا۔’’چلنا ہے۔۔۔؟‘‘ایک نے ذرا قریب ہو کر دعوت دی۔’’چلنا ہے۔۔۔؟‘‘اس کی خاموشی کو اس کی رضا مندی سمجھ کر عورت نے ایک بار پھر اس کے دل ودماغ پر تازیانہ لگایا۔ ’’کہاں۔۔۔؟‘‘ بڑی شدومد کے ساتھ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔’’ہوٹل میں۔۔۔ساتھ ہی تو ہے۔‘‘عورت نے بڑی دیدہ دلیری سے کہا۔وہ شرم سے آب آب ہو گیا۔اسے اپنی حماقت پر بہت غصہ آیا اور وہ دانت پیس کر رہ گیا تھا۔’’آپ میری ماں کی عمر کی ہو،کچھ تو شرم کرو۔۔۔‘‘ڈرومت کچھ نہیں ہوتا کسی کو کیا پتہ۔۔۔؟’’جو دس بیس دو گے لے لوں گی۔‘‘(16)
دہشت گردی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔آج جہاں بہت سے ممالک اس کا شکار ہیں وہاں وطن عزیز پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں ہے۔مفادات اور اقتدار سے منسلک حکمرانوں نے عوام کو خودکش حملوں اور بم دھماکوں کی زد میں آ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔قومی سطح پر تو دور کی بات نجی اور انفرادی سطحوں پر ہمارے اداروں کو بھی اس بات کا خیال نہیں آیا کہ جن خاندانوں کے واحد کفیل اس دہشت گردی کی نظر ہو گئے ان کے بچوں کا اب کون سہارا ہو گا؟اس کے بچے زندگی کیسے جی رہے ہوں گے۔
دہشت گردی میں مرنے والوں میں اصل ہدف اور نشانہ تو کوئی ایک آدھ شخصیت ہوتی ہے تا ہم باقی جان گنوانے والوں میں زیادہ تر غرباء اور معصوم و بے گناہ لوگ ہی شامل ہوتے ہیں۔کوئی ریڑھی لگانے والا دو وقت کی روٹی کمانے کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے تو کوئی محنت ،مزدوری کر کے خاندان کا پیٹ پالنے والا محنت کش ،کوئی کسی بڑے یا چھوٹے کارخانے کا ملازم ہوتا ہے تو کوئی دکھوں کا ستایا دکاندار۔ ۔۔ تو کوئی خوانچہ فروش۔اکثر یہ تمام کسی نہ کسی خاندان کا واحد سہارا یا کفیل ہوتے ہیں۔
دہشت گردی جیسے گناؤنے واقعات بے شمار خاندانوں کے چراغ گل کر دیتے ہیں، سہارے اور آسرے چھین لیتے ہیں۔ماں باپ کو کبھی جوان اولاد سے اور کبھی شیرخوار اور معصوم کلیوںاور پھولوں کو ماؤں کی گودوں سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ نئی نویلی دلہنوں سے ان کے سہاگ چھین لیے جاتے ہیں۔بہنوں کو بھائیوں سے جدا کر دیا جاتا ہے۔ غرض ایسی ایک دلسوز و دلخراش کہانیاں اور خبریں آئے روز سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں کہ سینہ چھلنی ہو جاتا ہے۔
درد کی لہریں جیسے پورے جسم میں سرائیت کرنے لگ جاتی ہیں۔مگر صد افسوس کہ ہم چند لمحوں کے لیے رنجیدہ تو ہوتے ہیں مگر جلد ہی اسے فقط ایک المناک واقعہ قرار دے کر زندگی میں آگے بڑھ جاتے ہیں۔اہل ثروت و حکمران طبقہ تعزیت و مذمت کے دو بول، بول کر سکون سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔مگر اپنی جانوں کا نظرانہ دینے والوں کی بیویاں اور معصوم و مظلوم بچے پتھرائی ہوئی آنکھوں اور درد بھرے چہروں سمیت سراپا سوال دکھائی دیتے ہیں اور اس بے حس سماج سے دریافت کرتے ہیں کہ آخر ہمارا قصور ہی کیا تھا۔ اب ہمارا سہارا کون بنے گا؟
مگر اس بے حس و بے ضمیر سماج کے پاس ان کے کسی سوال کا کوئی تسلی بخش جواب تک نہیں ہوتا۔ اہل اقتدار بے شرمی کی چادر تانے اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ایک کے بعد جب دوسرا واقعہ ہوتا ہے تو لوگ پہلا سانحہ اور مدد کے لیے راہ تکتے لوگوں کو بھول چکے ہوتے ہیں۔اہل اقتدار بجائے ان بے آسرا یتیم بچوںاور بچیوں کی باعزت طریقے سے ضروریات زندگی،تعلیم وغیرہ کا خیال رکھنے،مظلوموں کے آنسو پونچھنے،ہمت،جذبہ اور حوصلہ دینے کے ایسی خبروں کو دباتے اور چھپاتے ہیں کہ ان کے دور حکومت یاخطے میں ایسا ہوااور ان کی جگ ہسائی نہ ہو۔اہل اقتدارطبقے کو بیچارے متاثر خاندانوںکے لیے باقاعدہ فنڈز یا ٹرسٹ کے رقوم کا بندوبست کرنا چاہیے تا کہ مرنے والے کا باقی خاندان بنیادی ضروریات زندگی کے لیے غربت کے باعث سسک سسک کر نہ مرے۔
آج کل ہمارے ہاں متضاد معاشرتی رویے بہت بڑھ گئے ہیں۔ جن کے باعث غر باء کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ مثلاً کسی دہشت گرد حملے میں اگر ایک بڑے سیاسی لیڈر اور عام سیاسی کارکن کی موت ہو جائے تو ہم عام آدمی کو بھول ہی جاتے ہیں۔بڑے لیڈر کے نام پر اس کی برسی منائی جاتی ہے۔ملک کے گلی کوچوں اور شہر شہر میں اہم شاہراہوں پر احتجاج کی کال دی جاتی ہے۔جلسے جلوسوں میں بار بار مرنے والے لیڈر کا ذکر خیر کیا جاتا ہے۔جبکہ اسی حملے میں اس لیڈر کے ساتھ شہید ہونے والے کارکن کو کوئی یاد ہی نہیں کرتا۔قومی و سیاسی لیڈروں کی قبروں پر مزار بنائے جاتے ہیں۔ہر سال اس کی برسی پر منوں کے حساب سے اس کی قبر پر پھول چڑھائے جاتے ہیں۔دیپ جلائے جاتے ہیں جبکہ اسی روز دہشت گرد حملے میں شہید ہونے والے کارکن کی قبر برسی کے روز سنسان پڑی ہوتی ہے۔
افسانہ’’مسلی ہوئی پتیاں‘‘پاکستان کے دو بڑے مسائل یعنی دہشت گردی اور غربت پر محیط افسانہ ہے۔یہ چھوٹا سا افسانہ ایک بڑے موضوع کی کہانی بن جاتا ہے۔ایک مزدور 26 دسمبر کی دہشت گردی میں گندم کے ساتھ گھن کی طرح پس جاتا ہے۔اس کا معصوم بچہ محرم کے دنوں میں دیگر افراد کی دیکھا دیکھی اپنے باپ کی قبر کو پھولوں اور موم بتیوں سے سجاناچاہتا ہے لیکن غربت کی وجہ سے ایسا کرنے سے معذور ہے۔ آخر ایک روز وہ ایک جلوس کے ساتھ لیاقت باغ میں پہنچ جاتا ہے۔ جہاں شہید قومی لیڈر کے مزار پر منوں پھول چڑھائے اور چراغ جلائے جاتے ہیں۔وہ سب کے چلے جانے کا انتظار کرتا رہتا ہے اور بالآخر مسلی ہوئی پتیاںاور جلی ہوئی آدھی موم بتی اپنے باپ کی قبر پر لا کر اسے سجانے کا خواب پورا کرتا ہے۔یہ بہت ہی حساس افسانہ ہے وہ جو کہ دہشت گردی کے نتیجے میں ہلاک اوراپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ان کے بال بچوں پر کیا گزرتی ہے،وہ کیسے گزر بسر کرتے ہیں۔ہم سب یہ بھول جاتے ہیں۔شاہد رضوان نے اس افسانے’’مسلی ہوئی پتیاں‘‘ کے ذریعے ایک بڑے لیڈر کی موت اور عام سیاسی کارکن کی ہلاکت پر نظر آنے والے متضاد معاشرتی رویوں سے بڑی عمدگی سے پردہ اٹھایا ہے۔
’’موم بتیاں جل کر راکھ ہو چکی تھیں۔صرف ایک ادھ جلی موم بتی بچی تھی جو بجھنے کی وجہ سے راکھ نہ ہو سکی۔پھولوں کے ہار مرجھا گئے تھے۔ پتیاں ہجوم کے پاؤں تلے آ کر مسلی جا چکی تھیں۔دو آدمی کچھ ہی فاصلے پر کھڑے آپس میں سیاسی نوعیت کی گفتگو میںمشغول تھے۔جیسے ہی وہ ادھر ادھر ہوئے،کاشف کے ہاتھ موقع لگا۔اس نے جلدی جلدی مسلی ہوئی پتیاں اکٹھی کر کے شاپر بھر لیا اور ادھ جلی موم بتی اٹھا لی۔وہ قبرستان کی طرف خوشی سے اچھلتا ہوا ایسے چل رہا تھا جیسے کائنات سمیٹیہوئے جا رہا ہو۔‘‘(17)
اسلام کے آنے سے عورت ظلم و بربریت، ذلت ورسوائی، غلامی و حق تلفی جیسے بندھنوں سے آزاد ہو گئی۔اسلام نے عورت کو عزت و وقار بخشا اور زمانے کو اس کی تکریم کا حکم دیا۔عورت کو زندہ زمین میں گاڑھے جانے سے خلاصی ملی۔اسلام نے عورت کو تربیت اور نان ونفقہ کا حق ،حق عصمت وعفت ، ملکیت وجائیداد کا حق، حرمت نکاح کا حق اور بہت سے وہ حقوق بھی اسے دیے جو عرب معاشرے میں اسے حاصل نہ تھے۔
عورت اگرماں ہے تو فرمان نبویﷺ کے مطابق وہ حسن سلوک کی سب سے زیادہ مستحق ہے جنت اس کے قدموں تلے اور اس کی خدمت جہاد سے زیادہ افضل قرار پائی۔یہی عورت اگر بیٹی کی حیثیت سے ہے توسماجی و معاشرتی حوالے سے اسلام ہی نے اسے احترام و عزت دی۔دو بچیوں کی اچھی پرورش پر دو انگلیوں کو جوڑ کر جنت میں اپنی قربت اور ہمسائیگی کی بشارت دی۔بطور بہن عورت کو اعلیٰ درجہ دیا گیا۔ بیوی کے حوالے سے پاکیزگی والا رشتہ،لباس اور نعمت کہا گیا۔شادی، مہر، زوجیت ،حسن سلوک اور خلع وغیرہ کے تمام حقوق دے کر عورت کو تکریم بخشی۔
باپ کی وراثت سے بیٹی کو بیٹے کی نسبت آدھا حصہ دینے کا حکم ہے۔ماں باپ اور بھائیوں کا فرض ہے کہ چاہے بیٹی شرعی حق کا مطالبہ کرے یا نہ کرے وہ اسے شریعت کے اصولوں کے تحت اس کا حصہ دیں۔اگر والدین ایسا نہ کریں تو ان کے لیے سخت وعید ہے۔حدیث مبارکہ ہے کہ’’جو شخص (کسی کی ) بالشت برابر بھی زمین بطور ظلم لے گا قیامت کے دن اتنی ہی زمین اس کے گلے میں طوق کے طور پر ڈالی جائے گی۔‘‘جو لوگ غفلت کی چادر اوڑھے لالچ و حرص کو اپنا سب کچھ سمجھ کر بہنوں بیٹیوں کا حق مار لیتے ہیں وہ حرام کا ارتکاب کر کے نہ صرف آخرت بلکہ دنیا میں بھی سزا پاتے ہیں۔
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں پہنچ کر بھی ہماریہاں بہت سے لوگوں کی سوچ آج سے چودہ سو سال قبل والی ہے۔آج بھی بہت سے خاندانوں میں بیٹی کی ولادت پر چہرے لٹک جاتے ہیں۔غم و اندوہ کرتے ہوئے بیٹی کو رحمت کی بجائے زحمت قرار دیا جاتا ہے۔بعض حضرات تو عورت کو بیٹی پیدا ہونے پر طلاق تک کی دھمکی دینے لگ جاتے ہیں اور پھر ایک ظلم یہ کہ بچی اور بچے میں بچپن سے لے کر جوانی تک تفریق کی جاتی ہے۔
بالغ ہونے پر زبردستی بغیر پسند نا پسند جاننے کے شادی کر دی جاتی ہے جہیز جیسی فضول فرمائشیں کر کے بیٹی کے والدین کو ستایا جاتا ہے۔بیٹی کا شرعی حق مہر ادا کرنے میں کوتاہی کی جاتی ہے۔ میراث سے محرومی کے لیے زبردستی حق وراثت معاف کر دو پر زور دیا جاتا ہے۔عورت کو سماجی حوالے سے اتنا ڈرایا دھمکایا جاتا ہے کہ وہ میکہ نہ چھوٹ جائے،بھائی ناراض نہ ہو جائیں،بدنامی ہو گی جیسی باتیں سوچ کر اپنا حق معاف کرنے پر راضی ہو جاتی ہیں۔
مگر جو خواتین شوہر اور اولاد یا غربت کے باعث اپنا حق مانگتی ہیں۔معاشرہ ان کے لیے سکون سے جینا حرام کر دیتا ہے۔اگر میکے والے حصہ نہ دیتے ہوں اور شوہر حصہ نہ لانے پر طلاق کی دھمکیاں دیتا ہو تو اس صورت میں عورت کی زندگی جہنم بن کر رہ جاتی ہے۔
افسانہ’’حج اکبر‘‘پنجاب میں جائیدادوں کے لین دین کے معاملات میں رشتوں کی کشمکش میں پھنسی عورت کو اس کی نفسیاتی کیفیات کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔جہاں ایک طرف میکہ حصہ مانگنے پر اپنی بیٹی سے نالاں اور ادھر شوہر جائیداد میں حصہ نہ لانے پر طلاق کی دھمکیاں دیتا ہے اور مارتا پیٹتا ہے۔ اس دوہرے چنگل میں پھنسی عورت نہیں جانتی کہ وہ آگے بڑھے یا پیچھے لوٹ جائے۔افسانہ نگار شاہد رضوان عورت کی خود کلامی میں پوشیدہ بے بسی کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ عورت تمام عمر مشروط رشتوں ہی کو بکھرنے سے بچانے میں گزار دیتی ہے۔والدین بیٹی کی زندگی کو بیٹے کی محبت میں ہمکنار کرتے ہوئے اپنے تمام جائیداد اپنے بیٹے کے نام کر کے حج پر روانہ ہو جاتے ہیں۔اس افسانے سے واضح ہوتا ہے کہ مرد کے ہاتھوں ہی نہیں بلکہ بیٹی کے حق کا استحصال کرنے میں ماں کا کردار بھی بہت نمایا ں ہے۔
ماں عورت ہو کر بیٹی اور بیٹے میں تفریق کرتی اورپدرسری نظام کی عکاسی کرتی دکھائی دیتی ہے۔بیٹی کا شرعی حق دبا کر تمام جائیداد بیٹے کے نام کر کے والدین کا حج پر چلے جانا بہت غیر اخلاقی اور غیر شرعی فعل ہے۔جس کے باعث اسی مناسبت سے مصنف نے طنزاً اس افسانے کو ’’حج اکبر ‘‘کا نام دیا ہے۔
شکیلہ جب اپنے لالچی خاوند کے کہنے پر اپنے والدین سے وراثت میں حصہ مانگتی ہے تو اس کی ماں اسے جائیداد میں حصے کے مطالبے سے باز رہنے کو کہتی ہے کہ وہی عورت کامیاب ہوتی ہے جس کے پیچھے اس کا میکہ کھڑا ہو۔جس عورت کا میکہ نہ ہو اسے سسرال والے جوتیوں کی نوک پر رکھتے ہیں۔تمہارا بھائی یہ نہ سوچے کہ تم نے اس کے بہنوئی کو اس کا شریک بنا دیا ہے۔باپ یہ نہ کہے کہ میری جائیداد پر پرائے پوت بٹھا دیئے ہیں۔اس طرح کی سوچیں لیے بیچاری بیوی جب شوہر کے گھر پہنچتی ہے تو وہ اسے طلاق کی دھمکیاں دے کر گھر سے باہر نکال دیتا ہے۔یہ ساری کہانی عورت کی بے بسی،مظلومیت اور دنیا میں کوئی اس کا حقیقی گھر نہیں،ظاہر کرتی ہے۔زمین پر وہ حق جو وراثت میں خدا کی طرف سے عورت کو دیا گیا ہے۔آج اسے لینا بہت ہی معیوب تصور کیا جانے لگا ہے۔انسان اپنے لالچی اور حریص ہونے کے سبب خدا اور رسول اللہﷺ کے احکامات فراموش کر بیٹھا ہے۔اسی باعث میراث میں عورت حق سے محروم پائی جاتی ہے۔
اگر کبھی طلاق کے خوف اور بھوک افلاس کی وجہ سے ذہنی اذیت کا شکار ہو کر عورت اپنا حصہ مانگنے کا سوچے بھی تو اسے برا ،بے شرم، اور بد چلن جیسے القابات کا سوچ کر منہ کو سینا پڑتا ہے۔شاہد رضوان نے عورت کے مسائل کو بڑی ہنر مندی سے اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔وراثت جیسے حساس موضوع پر یوں کھل کر لکھنا انہیں افسانوی میدان میں ممتاز کرتا ہے۔دوہرے چنگل میں پھنسی عورت کی رب تعالیٰ سے فریاد اور گفتگو یوں بیان کی گئی ہے:
’’میرے مالک! تیری شان بڑی ہے۔تو نے دیکھا کہ ماں باپ اپنے جگر کا ٹکڑاتوکسی کو دے سکتے ہیں،سر کے بال کسی کے پاؤں کے نیچے دے دیتے ہیں مگر زمین کا ٹکڑا نہیں دے سکتے۔انسان ایسی چیز کی طمع رکھتا ہے جو آج تک کسی کے ساتھ نہ گئی۔۔۔ نواز کی بات سچ نکلی،اگر میں نے بھی اس کی تصدیق کر دی تووہ میرا جینا حرام کر دے گا۔‘‘(18)
عورت خدا کی ایک خوبصورت اور نازک ترین مخلوق ہے۔ جسے قدرت نے بڑی ہی خوبصورتی سے بنایا ہے۔صبر وشکر اور ہمت و حوصلے کی پیکر عورت،شوہر کی رازدار اور بہترین دوست ہوتی ہے۔میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں۔جس طرح لباس کا کام ننگ چھپانا اور زینت وزیبائش ہے بالکل اسی طرح میاں بیوی(مرد و عورت) بھی ایک دوسرے کے عیبوں کو چھپاتے ہیں۔عصمت و عزت کے رکھوالے ہوتے ہیں۔
اچھے میاں بیوی نہ صرف ایک دوسرے کی خامیوں ، کوتاہیوں پر پردہ ڈالتے ہیں بلکہ دین داری، سماج ،خاندان،صحت،تعلیم،معاش غرض ہر شعبہ زندگی میں ایک دوسرے کی ترقی کا باعث بھی ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں شروع عمر ہی سے بیٹیوں کو فرمانبرداری کی تربیت دی جاتی ہے۔ماں باپ کے گھر ہی سے انہیں باپ ،بھائی اور اپنیبڑوں کے آگے اونچی آواز میں بولنے،زیادہ کھلکھلا کر ہنسنے،اکیلے باہر جانے،اگلا فرد غلط ہے یہ جانتے ہوئے بھی مصلحت ہے کہہ کر چپ کروا دیا جاتا ہے۔بات بات پر شادی سے قبل ہی ہونے والے شوہر کی فرمانبرداری کے لیکچر دیئے جاتے ہیں۔
بیٹی کی رخصتی کے وقت ماں باپ اسے یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ بیٹا اب ہماراتمہارا کوئی تعلق نہیں۔تمہیں بیاہ دیا ہے اب تمہارا جینا مرنا اپنے شوہر ہی کے لیے ہونا چاہیے۔اس کی خدمت کرو،وہ جو کہے مانو،اگر میاں کچھ غلط بھی کہہ دے یا غصے میں آ کر چلائے،ہاتھ بھی اٹھا دے تو وہ مرد ذات ہے خدا رسول ﷺنے اسے ایک درجہ ،اولیت دی ہے،تم اسے برداشت کر لینا۔شوہر کا کوئی راز عیب زمانے کو مت بتانا ،ورنہ تمہاری اپنی ہی جگ بسائی ہو گی۔لڑکی کا چال چلن ماں کی تربیت ہوتی ہے۔تم کبھی اپنے شوہر کی نافرمانی نہ کرنا۔سگھڑ مائیں ایسی پندونصیحت کی باتیں بیٹیوں کو اپنے اپنے انداز میں سمجھاتی ہیں تا کہ ان کا گھر بس جائے اور زندگی بھی جنت بن جائے۔کنول جو کہ اس افسانے کی مرکزی کردا ر ہے۔اس کی ماں نے شہر یار سے شادی کے وقت اپنی بیٹی کو سمجھایا تھا کہ شوہر مجازی خدا ہوتا ہے۔اس کی ناراضگی خدا کی ناراضگی کے مترادف ہے۔شوہر کے ماں باپ کا احترام کرنا بھی تمہارا فرض ہے۔ازدواجی زندگی کا سکون شوہر کی فرمانبرداری میں ہی پنہاں ہے۔نہ فرمان عورت نہ گھر کی رہتی ہے نہ گھاٹ کی۔شوہر کی عزت سے ہی بیوی کی عزت وابستہ ہے۔
کنول نے بھی فرمانبردار بیٹی کی طرح ماں کی ہر بات پر عمل کیا اور اپنے شوہر شہریار کی جی حضوری کی،یہاں تک کہ شادی کی پہلی شب ہی اس کا خاوند نیند کی دوا کھا کر اپنی مردانہ کمزوری کے باعث سو گیا اور وہ بیچاری ساری رات اپنی بیبسی کا ماتم کرتے خاموشی سے کروٹیں بدلنے میں گزار دیتی ہے۔عروسی لباس، گلابوں سے سجا کمرہ پھولوں کی مہک،زیورات ہر چیز اسے بھاری گزرتی ہے۔ وہ پیاسی نگاہوں بجھے دل اور مرتے ارمانوں کے ساتھ عروسی جوڑا پہنے بے چینی اور درد کی وادیوں میں اتر جاتی ہے۔صبح اٹھنے پر شہر یار بیوی سے کہتا ہے کہ فٹنس کا کچھ پرابلم ہے میں دوائی کھا رہا ہوں،جلد ٹھیک ہو جاؤں گا۔ڈاکٹرز نے کچھ دنوں کے لیے پرہیز کرنے کاکہا ہے۔میری عزت تمہارے ہاتھ میں ہے۔ بات باہر نکلی تو کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا۔دوست اور رشتہ دار سب میرا مذاق اڑائیں گے۔ ولیمے کا سارا بندوبست چوپٹ اور مزہ کرکرا ہو جائے گا۔کرن شوہر کی بات پر فرمانبردار بیویوں کی طرح خاموشی سے گردن جھکا دیتی ہے۔اہل خانہ اور بہنوں کے پوچھنے پر وہ فقط مسکرا دیتی ہے۔کئی روز اسی طرح بے چینی میں سلگتے گزار دیتی ہے۔وقت یوں ہی گزر جاتا ہے۔کرن بجھتی،روز جیتی مرتی رہتی ہے۔ سماج،اپنوں اور غیروں کی تلخ اور چبھتی ہوئی باتوں کا سامنا کرتی ہے،ساس ہر لمحہ اسے طعنے دیتی رہتی ہے، اس کے ماں باپ اور ہر آنے جانے والے کے سامنے اسے بانجھ زمین قرار دیتی ہے۔
کرن کے جذبات کی مچلتی نرم کلیاں وقت کے ساتھ روز سرد مہری کے آسیب کی نذر ہو جاتیں۔دن تو ادھر ادھر کی باتوں میں گزر جاتا لیکن رات کاٹنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہوتا۔وہ اپنے درد کا اظہار کس سے کرے۔اگر ماں کو بتائے گی تو وہ صبر وشکر کی تلقین کرے گی۔یہ سوچ کر وہ چپ ہی رہتی ہے اور خاوند کی رازدار ہونے کا ثبوت دیتی ہے۔
اس دوران سب لوگوں کی باتیں صبر سے برداشت کرتی رہتی ہے۔ساس زیر ناف تعویز باندھنے،دم کیا پانی پینے کا کہتی اور جب کچھ فرق نہ پڑا تو اسے بے اعتقادی کے طعنے دینے لگی ،پوتے کی خواہش میں بڑھیا جوان لڑکی کا جینا حرام کر دیتی ہے،زبردستی نرس کو دکھانے کی ضد کر تی ہے اور نرس اسے دوائیاں پکڑا کر رخصت کر دیتی ہے۔
کنول چڑچڑاہٹ،تلخی اور غصے کا شکار ہو کر دن بدن سوکھ کر کانٹا بن جاتی ہے۔اس کی خوبصورتی اور حسن تیزی سے ماند پڑنے لگتا ہے۔وہ شوہر کا پردہ رکھتے تھک چکی ہوتی ہے۔بڑھیا سے نرس کہتی ہے کہ تمہاری بہو کا کہنا ہے کہ میرا خاوند شہریار نامرد ہے۔جس پر بڑھیا سیخ پا ہو کر دہ جاتی ہے۔ اسے چڑیل، کمبخت اور بیٹے کی دوسری بیوی لانے کا طعنہ دیتی ہے۔آج کل ہمارے معاشرے میں بھی یہی سب کچھ ہو رہا ہے کہ مرد اولاد پیدا کرنے کی طاقت سے محروم ہوتا ہے،معصوم بیچاری بیوی عزت کا بھرم رکھنے کی خاطر سب کچھ برداشت کرتی رہتی ہے،خود کو خود ہی تکلیف دیتی رہتی ہے۔یہاں تک کہ زمانہ اسے’’بانجھ‘‘ اور’’بد چلن‘‘ جیسے القابات سے نوازتا ہے۔
عورت بیچاری صبر کا پتلا ہے۔سب کچھ سہہ لیتی ہے مگر جب وہ خاوند کی دوسری شادی کا سنتی ہے تو وہ آگ بگولا ہو جاتی ہے،سوتن کا ذکر اسے چٹان کی طرح مضبوط بنا دیتا ہے۔اس کی اپنی زندگی تو برباد ہو جاتی ہے مگر وہ کسی اور کی بیٹی کی زندگی برباد نہیں کرنا چاہتی۔اندر کی طاقت اسے اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے پر مجبور کرتی ہے۔مرد کی طرف سے لگائے الزامات اسے سچ بتانے پر مجبور کرتے ہیں۔’’بانجھ زمین‘‘اک ایسی ہی عورت کی کہانی ہے جو کہ نہ صرف اپنے شوہر کی مردانہ کمزوری کا بھرم رکھتی ہے بلکہ تمام خاندان اور گھر والوں کے ہمراہ اسے اہل محلہ کی باتیں، طعنے، اور بدتمیزی بھی برداشت کرنی پڑتی ہے۔یہ سب ذہنی سکون کو غارت اور روح کو چھلنی کر دینے والا ہوتا ہے۔
چونکہ اس کی تربیت ایک ایسے دینی گھرانے میں ہوئی ہوتی ہے جہاں مجازی خدا کے درجے اور احترام سے متعلق لڑکی کو سکھایا جاتا ہے۔اس لیے وہ سب کچھ چپ چاپ سہ لیتی ہے مگر اس لمحے اس کا نامردمجازی خدا اس کے کردار پر الزام تراشی کرکے اسے گندا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ تڑپ جاتی ہے۔ وہ اپنا قصور جاننے کا حق رکھتی ہے۔ مگر مردانہ رعونت سر چڑھ کر بولتی ہے اور وہ تڑاخ کر سب کے سامنے جواب اس کے منہ پر دے مارتی ہے۔’’تم نامرد ہو‘‘اصل میں نامردی جسمانی طور پر بیمار ہونا نہیںبلکہ اصل تو ذہنی بیماری ہے۔تم نے تو اپنی کمزور اور خباثت پر پردہ ڈالنے کے لیے مجھے بدکردار بنا ڈالا۔یہ کہانی عورت کی اندرونی اور اور بیرونی جنگ اور ستم گر سماج کے اصلی روپ کی بہترین عکاس ہے:
’’تم اتنی گھٹیا بات کر سکتے ہو میں کبھی سوچ بھی نہ سکتی تھی۔تمہاری اصل نا مردی آج سامنے آئی ہے۔ جسمانی طور پر بیمار ہونا کچھ معنی نہیں رکھتا لیکن ذہنی بہت خطرناک اور لاعلاج ہے۔تم جسمانی سطح پر ہی نہیں بلکہ ذہنی طور پر بھی بیمار ہو۔اپنی کمزوری اور خباثت چھپانے کے لیے مجھ پر بد چلنی کا الزام لگا رہے ہو۔میں نے پہاڑ جیسی جوانی کا جبر سہا لیکن تیری عزت پر حرف نہ آنے دیا۔تم نے میرے صبر کا اچھا صلہ دیا ہے۔‘‘(19)
نکاح ایک بہت خوبصورت اور پاکیزہ رشتہ ہے جو جائز طریقے سے جنسی سکون پانے اور نسلِ انسانی کے ارتقاء کا ایک ذریعہ ہے۔نکاح جیسے مقدس رشتے میں بندھ کر میاں بیوی ایک دوسرے کے خیالات سے آگاہی پاتے،ایک دوسرے کو سمجھتے اور ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں۔اگر یہ ہم آہنگی اور پیارومحبت دونوں ساتھیوں میں پیدا ہو جائے تو جیتے جی زندگی جنت بن جاتی ہے۔
شادی ،نکاح یا بیاہ ہر لڑکی کی خواہش ہوتی ہے۔جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی لڑکی کے جذبات مچلنے لگتے ہیں۔کسی پیار کرنے اور خیال رکھنے والے ساتھی کی ضرورت اسے شدت سے محسوس ہونے لگتی ہے۔اس کا بھی اپنا گھر ہو جس کی وہ اکلوتی ملکہ ہو،ننھے منھے شرارتیں کرتے بچے ہوں جن کی وہ پرورش کرے۔مگر ایسا تب ممکن ہے جب ایک جائز اور حلال طریقے سے نکاح کے پاکیزہ فریضے کو انجام دیا جائے۔
جوان بیٹیوں کے والدین کو ان کے ہاتھ پیلے کرنے اور ان کودیس پیا سدھارنے اور بھیجنے کی بڑی جلدی ہوتی ہے۔اولاد کا فرض ادا کرنے کی فکر میں بہت سے ماں باپ کو تو راتوں کو نیند تک نہیں آتی۔پوتوں،پوتیوں کے ساتھ نواسوں،نواسیوں کو بھی گود میں کھلانے کے ارمان ہر ماں باپ ہی کو تقریباً ہوتے ہیں۔
اولاد خصوصاً بیٹی سے بالغ ہونے کے بعد کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو تمام خاندان کی عزت نہ ڈوب جائے،یہ سوچ کر والدین ان کی جلد شادی کے خواہاں ہوتے ہیں۔مگر ہمارے بدقسمت معاشرے میں ہر لڑکی کے نصیب میں دلہن بننا کہاں لکھا ہوتا ہے۔بعض بے رحم خاندانوں میں تو صرف جائیدادوں کے لالچ اور زمین کی بھوک میں بیٹیوں کو ساری ساری عمر درودیوار تکنے ا ور بے بسی کی زندگی گزارنے کے لیے بٹھا دیا جاتا ہے۔بعض کو ونی کر کے خاندان کیمردوں کے جھگڑوں کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔بہت سے علاقے ایسے بھی ہیں کہ جہاں جوان لڑکیوں کو قرآن پاک سے بیاہ دیا جاتا ہے۔یہ سب بہت غلط اور غیر شرعی ہے۔صرف جھوٹے اور نقلی رسوم ورواج کی فطری ضرورتوں کو بری طرح کچلا جاتا ہے۔عورت کے ارمانوں کا قتل ہوتا ہے۔اسے نکاح کی اجازت صرف اسی غرض سے نہیں دی جاتی کہ کہیں یہ یا اس کا خاوند کل کو جائیداد میں حصہ ہی نہ طلب کرنے لگ جائیں۔یوں ہمارے خاندان کی زمینیں باہر والوں کے حصوں میں آ جائیں گی۔یہی سوچ کر بیٹیوں کو گھروں میں قیدیوں کی طرح بٹھا دیا جاتا ہے۔انہیں صرف چوہدریوں کے بیٹیاں ہونے کی کڑی سزا دی جاتی ہے۔کبھی تو خاندان میں ہونے والے بچوں کو بغیر بیاہ کے ان کی گود میں پلنے کے لیے یہ کہہ کر ڈال دیا جاتا ہے کہ کل کو بھی تو بچے ہی پالنے ہیں ناں بیاہ کے بعد۔ ایسے ہی پال لو اور اسی سے ممتا کو تسکین دو۔اول تو کوئی لڑکی اس ظلم کے خلاف بغاوت نہیں کرتی لیکن اگر کوئی کسی دیوانے پر دل ہار بیٹھے یا نکاح کی بات بھی کرے تو خاندان کی بڑی بوڑھی عورتیں ان کا منہ یہ بول کر چپ کروا دیتی ہیں کہ تم سے پہلے بھی بہت سی اسی خاندان کی کنوارے ہی زندگی گزار رہی ہیں تم کون سی انوکھی ہو۔کسی نے آج تک خاندانوں کے رسم ورواجوں سے بغاوت نہیں کی تو تم بھی مت کرنا،ورنہ خاندان کے مرد حضرات تمہیں جان سے مار دیں گے۔ باپ اور بھائیوں کی پورے گاؤں میں بہت عزت ہے ڈگمگا کر کوئی غلط قدم مت اٹھانا ورنہ تمہارے بھائی اور باپ کہیں منہ دکھانے لائق نہیں رہیں گے۔
ان سب باتوں کی وجہ سے لڑکیوں کو اپنا دل پتھر کر کے عمر بھر خود پر جبر کرنا ہوتا ہے۔یہ سب گھٹ گھٹ کر روز مرنے اور پہاڑ سی جوانی کانٹوں پر ننگے پاؤں چلنے جیسا ہے۔اگر کوئی دوشیزہ ان دو بڑی بڑی حویلیوں کی جھوٹی زنجیروں کو توڑنے کی کوشش بھی کرے تو اسے زہر دے کر،نیند کی گولیاں کھلا کر یا بندوق سے بھون کر نیند کی آغوش میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اتاردیا جاتا ہے۔یہ ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہے جو آج بھی پنجاب اور سندھ کے بہت سے علاقوں میں دہرایا جاتا ہے۔بہت سی جوان کلیاں پھول بننے سے قبل ہی فرسودہ روایات کی نظر کر دی جاتی ہیں۔اصل میں ان اونچی حویلیوں میں بسنے والے لوگ بہت ہی چھوٹی ذہنیت والے ہوتے ہیں۔سسکتی بہنون، بیٹیوں کو فقط جائیداد ہتھیانے کے لیے تڑپنے کے لیے قرآن سے بیاہ دیا جاتا ہے۔قرآن ہی کی آیتوں کہ باپ کی وراثت میں بیٹے کے دو اور بیٹی کا ایک حصہ ہے کو جھٹلایا جاتاہے۔عورتوں کی جنسی جبلت اور فطری جذبے کی ناقدری کر کے انہیں ذہنی مریضہ اور پاگل بنا دیا جاتا ہے۔
قرآن سے شادی کا کہہ کر شادی کی غلط طریقے سے تشریح کی جاتی ہے۔نکاح تو مرد و عورت کے رشتہ ازدواج،جنسی تسکین اور تولید انسانی کا جائز ذریعہ سے اظہار ہے۔اگر ایک انسان اور دوسرا اس کے علاوہ کوئی اور ہو تو یہ شادی نہیں بلکہ رہبانیت کی طرز ہے کہ جہاں مرد وعورت کی مذہب کے ساتھ شادی کی جاتی ہے اور عمر بھر اکیلے اور مجروح رہنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔اسلام میں رہبانیت کی کوئی گنجائش نہیں۔نبی کریمﷺ کے اس حوالے سے واضح احکامات موجود ہیں کہ’’اسلام میں کوئی رہبانیت نہیں‘‘ بلکہ آپ ﷺ نے صحابہ کے شادی نہ کرنے،تمام عمر روزے رکھنے اور عبادات میں مشغول ہونے کا سن کا سخت الفاظ میں حوصلہ شکنی فرمائی۔
عزت سے نکاح ہر وعورت کا شرعی اور آئینی حق ہے۔جسے قرآن سے شادی جائز نہیں۔ خاندان میں تمہارے جوڑ کا کوئی نہیں اور ہم تمہیں کسی ایرے غیرے کے حوالے نہیں کریں گے،جیسی بے ہودہ اور منحوس خاندانی سوچ کے باعث بیٹیوں کو عمر بھر قیدیوں کی طرح گھر پر بٹھا کر رکھنا کسی صورت درست نہیں۔
قرآن سے شادی آج کے معاشرے کا ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔جس کے خلاف آواز بلند کرنے اور حکومتی حوالے سے پابندی لگانے کی اشد ضرورت ہے۔لوگوں کو اس حوالے سے آگاہی اور شعور دینا بھی بہت ضروری ہے۔تاکہ ان فرسودہ اور بیکاررسموں کی وجہ سے کسی جوان بیٹی کی جوانی برباد نہ ہو۔ شاہد رضوان ایک ایسا قابل قدر افسانہ نگار ہے کہ جس نے عورت پر ظلم کے خلاف بہت کچھ لکھا اور معاشرے کے بھیانک چہرے سے جھوٹی عزت اور جعلی وقار کا پردہ چاک کیا۔عورت بھی انسان ہے،اس طرف معاشرے کی توجہ دلائی۔افسانہ "اونچی حویلی" بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے:
’’اونچی حویلی والے لڑکیوں کی شادیاں اس ڈر سے نہیں کرتے کہ کہیں باپ دادا کی زمین تقسیم ہو کر کم نہ ہو جائے۔اس خاندان میں لڑکیوں کی شادی نہ کرنا دیرینہ قباحت تھی۔منطق یہی تھی کہ لڑکیاں زمین مانگیں گی۔ اگر کسی طرح لڑکیوں نے زبان بند بھی رکھی توان کے پر پرزے نکل آئیں گے اور چوہدری خاندان کسی طرح اپنی زمینوں میں کسی کو حصہ دار بنانے کو تیارنہیں تھا۔لڑکیوں کا نکاح کلام پاک سے کر دیا جاتا تھا۔کہا یہ جاتا تھا کہ یہ بڑے خاندان کی لڑکیاں ہیں کوئی بَران کے ہم پلہ نہیں ملتا۔‘‘(20)
جسم فروشی دنیا کے دو قدیم ترین پیشوں میں سے ایک ہے۔یہ ایسا پیشہ ہے جو بنت حوا پر جبراً مسلط کیا جاتا ہے۔یہ پیشہ انسانی فطرت اور جنسی تسکین کے ظالمانہ رویوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ یہاں مظلوم ہی گناہ گار اور قابل نفرت قرارپاتی ہے۔وہ مرد حضرات جو گھر کی شریف زادیوں سے اکتا کر رات کی سیاہی میں طوائفوں کے کوٹھوں کا رخ کرتے ہیں،اپنی جانوروں جیسی بے لگام ہوس پوری کرنے کے لیے جیبوں میں نوٹ بھر کر بازار حسن کو نکلتے ہیں۔بجائے اس کے کہ ہم ان سے اس ناجائز خصلت کے باعث نفرت کریں،الٹا ہم اسی عورت کو حرامی قرار دیتے ہیں۔
ہمارا معاشرہ اصلاح کی بجائے ایسی عورتوں کو برے برے القابات سے نوازتا ہے۔کبھی "رنڈی "، چھنال" ،گشتی" ،"حرامزادی"،"دوٹکے کی عورت" ، "گندی نالی کا کیڑا"، "کمرشل سیکس ورکر" تو کبھی "کوٹھے والیاں رذیل"،بد قماش"،حرافہ"،"رذیلہ" "طوائف"،"دلدل کی پوٹلی"دھندا کرنے والیاں "غرض اس طرح کے بے شمار نام دیئے جاتے ہیں۔
دنیا کے ہرکام میں کسی نہ کسی طرح ڈنڈی مار کر بے ایمانی کی جا سکتی ہے۔مگر طوائف کا پیشہ شاید وہ واحد پیشہ ہے کہ جس میں رہتے ہوئے،چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی خوش اسلوبی یا زبردستی اسے اپنا کام مکمل ایماندداری سے برتنا ہوتا ہے مگر اس کے باوجود بھی اس کی کمائی حرام و بدکاری کی کمائی ہے۔ یہاں آنے والے شریف اور اور ادھر کی رہنے والیاں بدکار کہلاتی ہیں۔ہمارے معاشرے میں اگر کسی عورت سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو زمانہ اسے معاف نہیں کرتا۔اس کی ایک نادانی پر کوئی اس کو عزت سے اپنانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔بہت سی لڑکیوں کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔تو کئی جو زبردستی ہراساں،جنسی درندگی کا نشانہ بننے،گھر سے بھاگ کر شادی کے بعد شوہر کے چھوڑ جانے پر مجبوری میں طوائف بن کرپیٹ کی آگ بجھاتی ہے۔مجبوریاں،معاشرتی دھتکار یا جنسی درندگی انہیں یہ سب کرنے پر مجبور کرتی ہے کیونکہ کوئی ماں کا لال یا کسی خاندان والے اسے اپنی بیوی، بہو بنانے کو تیار نہیں ہوتے۔شاید اک کوٹھے والی کو اپنی عزت بنانے پر ان کی اپنی عزت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
اس سب کے برعکس مرد اس گنگا میں ہاتھ دھونے کے باوجود بھی پاکیزہ رہتا ہے۔معاشرہ ان ناپاک حرکتیں کرنے والوں کا گند اپنے وجود میں سمونے والی کو تو گندا کہتا ہی ہے مگر ان نام نہاد مردوں کا کیا جو معاشرے کی آنکھوں میں دھول جھونک کر فرشتے بنے پھرتے ہیں جو تنہائی میں عورت کے تلووں کو چاٹ سکتے ہیں۔اس کا جسم نوچ کر اپنی ہوس کا نشانہ بنا سکتے ہیں مگر اسے سب کے سامنے عزت سے اپنا نہیں سکتے۔اپنا نا تو دور کی بات اس کی ذات کی توہین کی جاتی ہے۔برے ناموں اور جگہ جگہ غلط تذکروں سے نا صرف اس کی بلکہ اس کی اولاد کی بھی بدنامی کی جاتی ہے۔اگر کسی ایسی عورت کی کوئی اولاد ہو تو یہ معاشرہ اسے بھی کسی صورت قبول نہیں کرتا۔’’تم اپنی ماں کے ساتھ فلاں کی شب بازی کا نتیجہ ہو۔‘‘،’’ناجائز اولاد، نالی کا کیڑا‘‘اور دل چیرنے والے جملے کسے جاتے ہیں۔اگر طوائف کی اولاد میں سے کوئی بیٹی ہو تو معاشرہ اس کی بھی معصومیت لوٹ کر اسے بھی طعنے دے دے کر اسی دلدل میں دھکا دے دیتے ہیں۔افسوس کے اپنی مرضی سے طوائف کی بیٹی طوائف کے سوا کوئی پیشہ نہیں چن سکتی۔یہ ظالم سماج اس کے جذبات و احساسات کو کچل کر اس کی ماں کے ماضی کو اس کے سامنے لے آتا ہے۔ اگر وہ کسی سے محبت کر بیٹھے یا عزت سے نکاح کرنا چاہے توزمانہ اپنے نوکیلے اور کٹیلے رویے سے اس کے ان سب خوابوں کو چکنا چور کر دیتا ہے۔لوگ تو اسے انسان ہی نہیں سمجھتے۔
خانم اور اس کی بیٹی کا قصہ بھی اسی تکلیف اور درد سے لبریز ہے جو کہ ایک طوائف اور اس کی جوان اولاد کو معاشرے کی طرف سے سہنا پڑتا ہے۔شاہد رضوان نے اس موضوع پر قلم اٹھا کر بڑی ہی جرات مندی اور معاشرتی فکر و درد مندی کا اظہار کیا ہے۔’’افسانہ آخری سیڑھی‘‘ایک ایسی طوائف کا قصہ ہے جو سماج کے بے رحم رویوں کی ستائی،مجبوری کے تحت یہ دھندا کرتی ہے۔ تاہم وہ درد کی ماری اپنی بیٹی کو اس غلاظت سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔مگر سماج کے بے رحم لٹیرے ایسا نہیں ہونے دیتے اوراس کی بیٹی کو بھی آخر کار اسی دوزخ کا حصہ بننا پڑتا ہے۔آج ہم سب کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر ایک طوائف"طوائف" بننے پر مجبور کیوں ہوتی ہے؟ ایک معاشرہ طوائف کی اولاد سے ہنسی خوشی عزت سے جینے کا حق کیوں چھین لیتا ہے؟کیا طوائف کی بیٹی کی کوئی زندگی نہیں؟کیا ان کے اپنے کوئی جذبات واحساسات نہیں؟ کیا طوائف کو سکون اور عزت سے جینے کا کوئی حق نہیں؟اگر وہ انسان ہے تو ہمیں اسے عزت سے جینے کا حق دینا ہو گا۔اسے اور اس کی اولاد کواس دلدل سے نکال کر گھر کی دہلیز تک لانے میں وہی مرد اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں جو اس کے تقدس، اس کی عفت کی بے حرمتی کرتے ہیں۔
ہمارے سرکاری اداروں کو ایسی برائیوں کی روک تھام، ایسی خواتین کو ہنر مندی کے کام اور دیگر روزگار دینے کے ہمراہ ہمارے نوجوانوں کی اخلاقی و ذہنی تربیت کرنے کی بھی بہت ضرورت ہے۔ ماں باپ کو بھی اولاد کے احترام کے قوانین سکھانے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم سب پاک رہیں گے تو ہمارا معاشرہ بھی پاک رہے گا۔
’’مرد ذات کیا سمجھتا ہے خود کو، سر شام ہی ہماری منڈیوں کے گرد دم ہلانے والا کوٹھے کی سیڑھیاں اترتے ہی اخلاق او رپارسائی کا چوغہ پہن لیتا ہے،جیسے اس سے بڑا کوئی ولی نہ ہو۔ خدا کی شان ہے کہ کوٹھے پر آنے والے معزز کہلائیں اور کوٹھے پر رہنے والیاں رذیل۔ طوائف، حرافہ،رذیلہ، بدقماش، بداطوار، جسم فروش، دھندا کرنے والیاں، غرض اس معاشرے نے ہمیں کتنے نام دیئے ہیں۔ہمارے جسموں کو نوچ نوچ کر کھانے والا فرد گردن اونچی کر کے چلتا ہے اور نیک بھی رہتا ہے۔‘‘ (21)
ملک پاکستان جہاں دیگر بہت سے مسائل سے دوچار ہے وہیں ہر سال ہی تقریباً سیلاب کی تباہ کاریوں سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اس کے باعث زرعی فصلیں جڑوں سے اکھڑ جاتی ہیں ، گھروں کے گھر زمین بوس ہو کرملبے کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔مال ومویشیوں کی ہلاکت ہوتی ہے، بہت سی بیماریاں جنم لیتی ہیں، جان و املاک کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔نا صرف یہ بلکہ ظالم سیلاب سے بہت سی بے گھر ماؤں بہنوں کی عزتیں نیلام تک ہو جاتی ہیں۔افسوس سیلاب آنے سے قبل محکمہ موسمیات اور نیشنل ڈیزاسٹر سیل متاثرہ علاقوں میں وقت سے پہلے ہی آگاہی کی بگل تو بجا دیتے ہیں تا ہم متاثرین کے لیے متبادل گھر یا سیلاب کی روک تھام کے لیے مؤثر حکمت عملی نہیں اپنائی جاتی اور ہر بار بھارتی دشمنی کا کہہ کر اور دریاؤں میں اضافی پانی چھوڑنے سے سطح پانی بڑھنے کی کہانی سنا کر عوام کو چپ کروا دیا جاتا ہے۔یہ سب اپنی جگہ مگر ایک غریب کو ان ڈیموں کے منصوبوں سے کیا حاصل جس کا سب کچھ پانی کی نذر ہو گیا ہو۔مون سون کی بارشیں جہاں من چلوں کے لیے رومانوی اور انجوائمنٹ کا موسم ہوتی ہیں،لوگ دریاؤں،نہروں پر پکنک مناتے ہیں،بارش میں بھیگتے خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔وہیں یہ بارشیں بہت سے شہری اور دیہی علاقوں کے لیے سیلاب کی سی تباہی بھی لاتی ہیں۔ پانی کے اخراج کی خطرناک حد تناسب کو کنٹرول کرنے کے لیے دریاؤں کے بندوں پر شکاف ڈالا جاتا ہے۔ جس کے باعث اخراج شدہ پانی کم آبادی والے ان علاقوںجو دریا کے قرب و جوار میں ہوں،میں داخل ہو جاتا ہے جس کے سبب سڑکوں، پلوں اور املاک کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔
ان بارشوں اور سیلاب سے کئی ہنستے بستے گھر پانی میں بہہ جاتے ہیں، مکانات پر پہاڑی تودے گرجاتے ہیں بلکہ اکثر تو کچے مکانات کے مکینوں پر ہی ان کے مکانوں کی چھتیں گر پڑتی ہیں۔ غریب کی تو زندگی ہی ختم ہو جاتی ہے۔کھانا پینا ،اوڑھنا،پہننا کچھ بھی تو نہیں بچتا۔سیلابی ریلے اپنے ساتھ غریب کا سب کچھ بہا کر لے جاتے ہیں۔
حکومتی سطحوں پر ان قدرتی آفات کے حوالے سے صرف اعلانات ہی کیے جاتے ہیں۔ عوام کو رہنے اور دوبارہ نارمل زندگی گزارنے کے لیے کوئی لائحہ عمل تک اختیار نہیں کیا جاتا۔لہر یا سیلابی صورت حال کے تحت علاقے اور بستیاں خالی کروا لی جاتی ہیں۔ غریب بے آسرا اور بے ٹھکانہ ہو جاتا ہے۔عوام بجائے اپنے ان مجبور غریب بہن بھائیوں کی مدد کرنے کے ،بے حس بنے ان کا مذاق اڑاتے اور تذلیل کرتے ہیں۔آج ہمارے معاشرے مین رشتوں کا تقدس ختم ہو گیا ہے۔
قرآنی حکم کہ’’مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔‘‘کو لوگوں نے بھلا دیا ہے۔اخوت اور بھائی چارے کی جگہ بے حسی نے لے لی ہے۔احساس انسانیت نا پید ہو کر رہ گیا ہے۔ باہمی محبت اور رحم دلی ختم ہو چکی ہے۔رشتوں کی جگہ روپے پیسے نے لے لی ہے۔امیر اور غریب کے سٹیٹس میں اتنا فرق آ گیا ہے کہ امراء ،غرباء کو فالتو دھرتی پر بوجھ سمجھنے لگ گئے ہیں۔اس افرا تفری اور نفسا نفسی کے دور میں اگر کوئی قدرتی آفت آن پڑتی ہے تومحلوں جیسے بنگلوں اور شہروں میں رہنے والوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔دیہاتی اور کچے مکانوں کے مکینوں پرکیا قیامتیں ٹوٹ پڑتی ہیں، وہ اس سب سے بے پرواہ ہنسی خوشی زندگی جیتے ہیں۔ بارشوں سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے من چلے ان موسموں میں دریاؤں، سمندروں اور نہروں کا رخ کرتے ہیں۔ دریاؤں کے قرب وجوار کے علاقوں ، پلوں اور ساحل سمندر پر پکنک پوائنٹ کا ساسماں بندھ جاتا ہے۔طرح طرح کے پکوانوں،سموسوں ،پکوڑوں، شربتوں، نان چنے اور دیگر خوردنوش کی اشیاء کے اشتعال انگیز ٹھیلے سج جاتے ہیں۔دریاؤں کی لہروں میں اتاڑ چڑھاؤ اور ٹھاٹھیں مارتیں موجوں کا سن کر جوق در جوق دیوانوں کا ہجوم امنڈ آتا ہے۔ جہاں نئے نویلے جوڑے،جوان ،بوڑھے، بچے سب خوشی سے نہال یہاں کا رخ کرتے ہیں، وہیں بہت سے آوارہ،اوباش اور لفنگے افراد بھی جیبیں کاٹنے،ساز وسامان لوٹنے،نوجوان لڑکیوں سے چھیڑخانی اور آنکھ مٹکا کرنے ایسی جگہوں پر آ ٹپکتے ہیں۔
جوں ہی لہروں میں طغیانی زور پکڑتی ہے اور بپھری ہوئی موجیں دریاؤں کے سینے چیڑ کر بستوں کا رخ کرتیں ہیں تو کئی لاکھ کیوسک پانی دیہاتوں میں داخل ہوتا ہے۔کچے مکانوں کے مکین جو کل پرسوں تک صبر وشکر کے ساتھ سفید پوشی کی زندگی جی رہے تھے ان پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔سارا سال محنت کر کے لگائی گئی فصلیں جو پک کر کٹنے کے لیے تیار ہوں،تباہ ہو جاتیں ہیں۔گنے کپاس اور دھان کے کھیتوں اور پودوں میں گھرے مکانات زمین بوس ہو جاتے ہیں۔کھانے پینے کا سامان سب بہہ جاتا ہے۔بھینس ،بکریاں،مال مویشی سب پانی میں ڈوب جاتے ہیں۔
’’پکنک پوائنٹ‘‘شاہد رضوان کا ایسا افسانہ ہے جو کہ سیلابی ریلے کی داستان سناتا ہے۔راوی کنارے بسنے والی بستی کی رجو اور اس کا بوڑھا باپ ان طوفانی بارشوں سے دریا میں آنے والی ظالم لہروں اور سیلاب کے سبب جب اپنا سب کچھ لٹا بیٹھتے ہیں اور کھانے پینے کو کچھ نہیں بچتا تو جوان رجو اپنے زمین بوس گھر سے بچے کھچے جانور اور باقی ماندہ سامان لانے کے لیے کمر تک بڑھے ہوئے سیلابی پانی میں اترتی ہے تا کہ وہ اپنی بکریاں ،بھینس، اس کے کٹرو،مرغے اور چوزوں کو بحفاظت راوی پل کی اونچی سڑک پر لا کر سیلابی ریلے سے بچا سکے۔اس کے بوڑھے باپ کو کالا ناگ کاٹ چکا ہے۔بوڑھا راوی سڑک کنارے چارپائی پر لیٹا درد سے نیلا ہو رہا ہے۔ پٹی نہ ہونے کے سبب رجو اپنے دوپٹے کا ایک پلو کاٹ کر اپنے نحیف باپ کے پاؤں پر پیاز باندھ دیتی ہے۔
بار بار گندے پانی میں اترنے کی وجہ سیاس کی ٹانگوں پر پھنسیاں بن چکی ہیں۔اس کے پاؤں پر کیکر کی کئی نوکیلی سولیں چبھ گئیں تھیں مگر وہ مسلسل گھر سے کبھی باپ کے لیے بستر تو کبھی اس کی بھوک مٹانے واسطے روٹی لانے کے لیے پانی میں اترتی رہتی ہے۔کالے سیاہ ناگنوں، کیڑوں، گڈوئیوں اور بچھوؤں سے بھرے پانی میں ڈرتے پھونک پھونک کر قدم رکھتے جب وہ سامان لا چکی تو دیکھتی ہے کہ اس کا بورھا باپ بھوک سے بچوں کی طرح بلک رہا ہے۔اس سے باپ کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی۔پانی سے واپس آنے تک اس کا تن بدن گیلا ہو چکا ہے۔سستی لان کے پرانے کپڑے اس کے جسم سے چپک کر اس کے جسم کے تمام خدوخال بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ اردو گرد لوگ سیلاب سے راوی میں اٹھنیوالی لہروں ، بارش اور ہلکی ہواؤں کا لطف لے رہے تھے۔ بچے،بوڑھے، لڑکیاں، لڑکے سب کے چہرے ہشاش بشاش تھے۔کسی کی آنکھ میں ان معصوموں کے لیے بے گھر ہونے کا کوئی دکھ نہ تھا نہ سوگوار تھے۔عوام مزے لے لے کر سموسے ، پکوڑے، چٹخارے کھا رہے تھے تو کوئی نان چنے اڑا رہا تھا،تو کہیں مشروب پیے جا رہے تھے۔تماشا دیکھنے والوں کا ہجوم لگا تھا۔لوگ ننگے سر بیٹھی زندگیوں کو شہوت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔کسی کو بھی ان بے آسرا لوگوں کی کوئی پرواہ نہ تھی۔برے اوباش لڑکے آوازیں کس رہے تھے۔
رجو بوڑھے باپ کی بھوک مٹانے کے لیے نان والے سے نان دینے کی التجا کرتی ہے تو وہ گھٹیا آدمی رجو کی الہڑ جوانی کا سر تا پاؤں قصاب کی صورت معائنہ کرتا ہے۔"اک رات میرے نام کر دو اور بھلے سارے نان لے جاؤ"کہہ کر اپنی خباثت اور غلیظ سوچ کا اظہار کرتا ہے۔ادھر بوڑھا باپ بھوک سے نڈھال دم توڑ دیتا ہے۔بیچاری رجو باپ کے کفن اور اس کے جسم کو ڈھانپنے کے لیے گھر سے چادریں لانے ایک بار پھر پانی میں اترتی ہے۔دو عیاش لفنگے برابر اس کا پیچھا کرتے ہیں، آتے جاتے آوازیں کستے ہیں۔لوگ پانی میں گری بے بس رجو کی تصویریں بناتے ہیں۔کوئی اس کے نازک بدن سے چھیڑ خانی کرتا ہے تو کسی کے ہاتھ اس کے گریبان میں جاتے ہیں اور دوسری طرف اس کے جانور ،مویشی کوئی چوری کر کے لے جاتا ہے۔برتن رضائیاں سب غائب ہو چکے ہیں۔ہوس پرست نگاہیں رجو کے جسم پر لگی گدھوں کی طرح اسے گھور رہی ہیں۔وہ دل میں ان نظروں کو کوستی اور آدم خور کہتی چلی جاتی ہے۔اتنے میں کسی اوباش نے اس کے کولہے پر چٹکی کاٹ لی، ضبط کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔اس نے سر پر اٹھایا خالی صندوق بیچ سڑک پر پھینک دیا اور وہاں بہت چپ پڑ گئی اوروہ یوں گویا ہوئی کہ،’’تم سب تماشا دیکھنے آئے ہو،سب کو بلاؤ کو ئی رہ نہ جائے۔‘‘
تکالیف ،مصائب اور دردکو سہتی لڑکی نے سماج کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ رسید کیا اور معاشرے کی بے حسی پر بولی کہ تم سب کیسے انسان ہو۔میرا باپ بنا گوروکفن مردہ پڑا ہے،میرے مال مویشی، بکریاں اور بیلوں کی جوڑی بھی کوئی لے گیا ہے اور تمہاری ہوس بھری نگاہیں صبح سے شام تک میرا پیچھا کرتی ہیں تم لوگوں نے کبھی لڑکی نہیں دیکھی؟میرے پاس ایک عزت ہی بچی ہے تم سب وہ بھی لوٹنا چاہتے ہوتو آؤ گدھو،آؤ میرا جسم تار تار کر لو،میرا گوشت ،بوٹی بوٹی نوچ کھاؤ،یہ کہہ کر رجو اپنی قمیض اتار پھینکتی ہے۔
شاہد رضوان کا یہ افسانہ اپنے اندر ایک گہرا کرب سمیٹے ہوئے ہے۔امیری غریبی کا فرق، سیلابی عذاب سہتے انسان اور ان کی مجبوری و بے بسی کا تماشا اڑاتے،کیمرے کی آنکھ میں کیچ کرتے عوام اس افسانے کا خاص موضوع ہیں۔حالات کی تلخیوں اورتماشائیوں کی بے حسی اور لوگوں کے رویوں،انسانوں کی اندرونی غلاظتوں اور ذہنی خباثتوں نے مل کر ایک جوان دوشیزہ کی جوانی لوٹ لی۔
’’بھائیو ہم کیسے بے حس اور ناسمجھ لوگ ہیں۔چاند اور سورج کو گرہن لگتا ہے تو ہم توبہ استغفار نہیں کرتے بلکہ تصویریں بناتے ہیں۔ سیلاب آیا اور تم تصویریں بناتے ہو،تم اس قدر بے رحم ہو،تمہاری خنزیر جیسی آنکھیں میرے جسم پر تیروں کی طرح برس رہی ہیں۔ کوئی مجھ کو نہتی دیکھ کر گریبان میں ہاتھ ڈالتا ہے۔نان والا ایک نان کے بدلے میرے ساتھ رات گزارنا چاہتا ہے۔میرا کچھ نہیں بچا ،میرے آگے پیچھے کوئی نہیں۔ایک عزت ہے وہ تم لوگ لوٹنا چاہتے ہو۔میں تمہاری یہ خواہش ابھی پوری کر دیتی ہوں۔درندو آؤ میرے اوپر جھپٹو، کتو! آؤ میرا جسم تاڑ تاڑ کر لو۔آؤ گدھوں کی طرح میرا ماس بوٹی نوچ کھاؤ۔رجو نے اپنی قمیض اتار کر پھینک دی تھی۔‘‘(22)
اس کائنات میں ضمیر کی آواز سے بڑھ کر کوئی آواز نہیں حضرت آدم ؑ کو جب جنت سے نکل جانے کا حکم ہوا تو یہ ان کے ضمیر کی آواز تھی جس نے ان کو خدائے باری تعالیٰ کی بارگاہ سے معافی طلب کرنے اور اس کی رحمت کا سوال کرنے کی طرف توجہ دلائی۔آپ نے رب تعالیٰ کو سچے دل سے پکارا تو آپ کی توبہ بھی قبول ہو گئی۔یہ ضمیر ہی ہے کہ جس کے ذریعے انسان صحیح اور غلط میں فیصلہ کر پاتا ہے۔صحیح غلط کی یہی تمیز انسان کو گناہوں سے روکتی ہے اور درست سمت کی جانب بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔
اگر ضمیر کا سودا ہو جائے تو وہ ہر برا کام کرنے کو تیار ہو جاتا ہے کیونکہ اسے کسی چیز کی فکر یا آخرت کا خوف نہیں رہتا۔وہ بے دریغ دوسروںکے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے لگ جاتا ہے۔قتل ، چوری،حرام خوری،زنا،شراب اور جھوٹی گواہی جیسی چیزیں اس کے لیے بہت معمولی ہوتی ہیں۔اس کے برعکس اگر انسان کا من صاف،ستھرا،بے داغ اور ضمیر جاگا ہوا ہو تو وہ عدل وانصاف،سچائی، دیانت داری اور حیا جیسی اچھی صفات کو محبوب بددیانتی، کذب، بے حیائی، ظلم وزیادتی جو فطرت صالحہ میں بگاڑ اور معاشرتی تباہی کی وجہ بنتے ہیں ، کو نا پسند کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسانی ضمیر کو"نفس لوامہ" سے تعمیر کیا ہے۔
نیک انسان کا ضمیر"نفس مطمئنہ" جبکہ برے انسان کا ضمیر"نفس امارہ بالسوئ" کہلاتا ہے۔یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے کہ انسان جب کوئی غلط کام کرتا ہے تو جلد یا بدیر اس کا ضمیر اسے ضرور ملامت کرتا ہے۔کبھی کبھی تو یہ جلد جاگ جاتا ہے تو بعض لوگوں کے ہاں یہ کئی کئی سالوں تک سویا رہتا ہے۔مگر جب یہ بیداری کی منازل طے کرتا ہے تو انسان پچھتاوے کا شکار ہو جاتا ہے۔شاہد رضوان کا یہ افسانہ "آوازیں" فضل نامی اک شخص کی کہانی ہے۔ جو چالیس سال پہلے اپنے دوست کو قتل کے مقدمے سے بچانے کے لیے جھوٹی گواہی دیتا ہے۔اس کا دوست اس کی سچی گواہی چھپانے کے نتیجے میں پھانسی سے بچ جاتا ہے۔تا ہم اس کا ضمیر اسے روز مارتا اور زندہ کرتاہے۔ من کی آوزیں ملامت بن کر مسلسل اس کا تعاقب کرتی ہیں "تم جھوٹے ہو"،"تم جھوٹے ہو" کی آوازیں اس کی تنہائیوں میں اسے تنگ کرتی ہیں بلکہ اب تو دن دیہاڑے جاگتے ہوئے یا سب کے بیچ بیٹھے ہوئے یہ سب باتیں آوازوں کی صورت میں اس کی سماعتوں سے ٹکڑاتی ہیں۔یہ سب اس کے لیے سوہانِ روح بن جاتیں ہیں اور وہ تمام عمر مسلسل کرب کے عذاب سے دوچار رہتا ہے۔اس کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ میں آوازوں کے سبب اس کا ضمیر کپکپاتا ہے۔
وہ خود اپنے آپ کو اس ہاتھوں میں رعشہ کی بیماری کا سبب سمجھتا ہے کہ اسے جھوٹ بولنے کی سزا مل رہی ہے۔جب تک اسے ان اندر کی آوازوں کا کھوج نہ ملا تھا وہ پریشان ،بے خوابی کا شکار اور خود کلامی کا مریض بن چکا تھا۔پہلے پہل اسے وہم سمجھنے والے فضل کے دماغ سے جب ضمیر کا بوجھ اترا تو اس کے ہاتھوں نے کپکپانا بھی چھوڑ دیا اور اسے آوازیں آنا بھی بند ہو گئیں۔
شاہد رضوان نے اس افسانے کے ذریعے جانے انجانے میں ظلم کا حصہ بننے والے انسان کی ذہنی حالت کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح ضمیر کی آوازیں عمر بھر انسان کا پیچھا کرتی ہیں اور کس طرح کسی شخص سے کی گئی نا انصافی انسان کے لیے کرب مسلسل کا باعث ہوتی ہے۔آج کل ہمارے معاشرے میں ظلم کا بازار ،حق تلفی اور جھوٹی گواہی عام ہے۔لوگ جھوٹی انا، ذاتی رنجش یا کسی دوستی و رشتہ داری کے تحت اپنے ضمیر کا سودا بڑے آرام سے کر لیتے ہیں اور ظالم جس کو سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے اسے تو بچا لیا جاتا ہے مگر بعد میں پچھتاوے اور اندر کی آوزیں انسان کا مقدر بن جاتی ہیں۔ہمیں اخلاقی و معاشی حوالے سے اپنے رویوں کو غور کرنا چاہیے۔
’’یار پچھلے کئی دنوں سے عجیب آوازیں میرا تعاقب کر رہی تھیں۔"کیسی آوازیں؟۔۔۔"تم جھوٹے ہو،گناہگار ہو، اور تم مرنے کے لیے ایڑیاں رگرتے رہو گے،موت تم کو نہ آئے گی۔۔ایسی آوازیں ہر وقت میرا منہ چڑاتی تھیں۔۔۔یارپتہ ہے میرے ہاتھ کیوں کاپتے ہیں؟" "پتہ نہیں " میں نے خود ساختہ سر ہلا دیا۔"میں نے جھوٹ بولا تھا۔"اس کے ہونٹوں پر معصومیت تھی۔"مطلب؟"میں نے اسے کریدنے کی کوشش کی تا کہ معاملے کی تہہ تک پہنچ سکوں۔’’چالیس سال پہلے کی بات ہے۔ میرے دوست نے نے ایک معمولی جھگڑے کے دوران ایک محنت کش کے بیٹے کو قتل کر دیا تھا۔میں اس واقعے کا چشم دید گواہ تھا۔جب مجھ سے عدالت میں پوچھا گیا تو میں نے اس واقعے سے انکار کر دیا اس طرح میرا دوست پھانسی کے پھندے سے بچ گیا۔" (23)
اسلام امن کا مذہب ہے جس کی سب سے بڑی مثال حضرت محمد ﷺکی حیات طیبہ ہے۔ آپﷺنے اسلام کے پھیلاؤ کے لیے مسلسل تبلیغ کا رستہ اپنایا۔اسی سبب دین اسلام دنیا میں بڑی تیزی سے پھیلا۔ اخوت کا درس دینے والے اس مذہب نیدھوکہ دہی، لڑائی جھگڑے، قتل وغارت، ظلم و ستم اور خون خرابے کی سختی سے مذمت کی ہے۔تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ایک مسلمان کا قتل پوری انسانیت کا قتل کہہ کر دہشت گردی جیسی لعنت کی تردید کی گئی ہے۔
ایسے لوگ جو فتنہ و فسادبرپا کرتے ہیں۔سورہ بقرہ میں ان کے متعلق یوں کہا گیا ہے کہ’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو توکہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔خبردار بے شک وہی لوگ فسادی ہیں۔لیکن شعور نہیں رکھتے ۔‘‘فساد جہاں بھی ہوتا ہے وہاں دہشت گردی بھی جنم لیتی ہے۔دہشت گردی بہت برافعل اور گناہ کبیرہ ہے کیونکہ یہ کام سرانجام دینے والا بہت سی جانوں کے ساتھ کھیل رہا ہوتا ہے۔اللہ کے پیارے نبی ﷺنے خطبہ حجۃالوداع کے موقع پر انسانی مال وجان کے ضیاع اور قتل وغارت گری کی خرابی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ’’بیشک تمہارے خون،تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اس دن کی حرمت تمہارے اس شہر میں مقرر کی گئی ہے۔‘‘
دہشت گردی کا کوئی بھی دین یا کوئی بھی مذہب نہیں ہوتا تاہم لوگوں نے آجکل مذہب کا لبادہ اوڑھ کر ضرور دہشت گردی کرنا شروع کردی ہے۔پوری دنیا میں طاقتور ممالک کمزورممالک میں دہشت گردی کروا رہے ہیں۔مسلمانوں کو بیدردی سے شہید کیا جارہا ہے۔فلسطین کی عورتیں ،ننھے بچے ،بوسنیا کے بے گناہ معصوم مسلمان شہری،عراق کے مسلمان،کشمیری ،مسلم افغانی ہوں یاکہ برما کے افرادہر جگہ مذہب کے نام پر بے گناہ مسلمانوں کو بیدردی سے خون میں نہلایا جارہا ہے۔
افسانہ’’انتظار‘‘میں شاہد رضوان نے دہشت گردی کی ذہنی کشمکش،تناؤ اور اسکی بے چینی کی بہترین اندازسے منظر کشی کی ہے کہ کس طرح وہ ایک ہاتھ میں سگریٹ پکڑے اور روبورٹ کو حرکت دینے اپنی من پسند خبر سننے کیلئے چینل بدل رہاتھا کہ کہیں اسے دہشت گردی کی کاروائی کی بڑی خبر اور منظر کشی کی خبر نظر آئے، اسی بیقراری میں وہ مسلسل سگریٹ پھونک پھونک کر اسکی راکھ ایش ٹرے میں جھاڑ رہا تھا۔وہ ماچس کی کوفت سے بچنے کیلئے نیا سگریٹ سلگا لیتا اس کے چہرے پہ بے چینی عیاں تھی۔اس نے کئی بارچینل بدل دیے لیکناسے مطلوبہ خبر نہ مل سکی۔اس پروہ دل مسوس کر رہ گیا اور امن کی یہ حالت اس کے شر پسند دماغ پر ہتھوڑے برسا رہی تھی۔
باہر گلی میں کلمہ شہادت کی آتی ہوئی آواز اور جنازے کے پیچھے چلتے ہجوم کو دیکھ کر اس نے ایک سرد آہ بھری اور سوچا کہ یہ سنہری موقع ہاتھ سے نکل رہا ہے۔یہاں سو پچاس سے کم سکور نہ ہوتا، حکومتی اداروں کی کاروائی کے خوف سے دہشت گرد انڈر گرونڈ چلے گئے تھے اور قدرے امن کی فضاء برقرار تھی۔ میز پر پڑے موبائل فون کی رنگ ٹون اسے خوف زدہ کردیتی ہے کہ میں نے اسے کہاتھا کہ فون نہ کرنا، اناڑی ہے اگرپکڑاگیا تو اس کی بھی شامت آجائے گی۔اتنے میں فون کی بیل ہوتی ہے کال اٹھانے والا جو کہ کوڈ ورڈ میں بات کر رہا تھا،اسے معلوم ہوتا تھا کہ آج شہر کے مختلف بازاروں میں لڑکے پھیری لگانے پہنچے ہیں لیکن ابھی تک ان سے کسی کی خبر نہیں آئی۔پتا نہیں ان کی سبزی بکی بھی ہے کہ نہیں ،پریشانی بڑھ رہی ہے۔اگر بکی نہ ہوئی تو بچے بھوکے مریں گے۔اتنے میں ٹی وی سکرین اس کی مطلوبہ خبر کے ٹکر سے جگمگا اٹھتا ہے اور اسکی شیطانی مسکراہٹیں اسکے ہونٹوں پر پھیل کر رہ جاتی ہے۔ دو ننھے بچے شہید ہوئے یہ جان کر اسے بڑی تسکین ملتی مگر سکور کم ہے اور پیسہ تھوڑا ہوگا۔کوئی زخمی بھی نہیں یہ سب اسے ملال میں ڈال گیا۔مگر اس کے ساتھ ہی اسے اس بات سے فرحت ملتی ہے کہ شکر ہے امن و امان کی فضا کا جمود ٹوٹا اور اس کا وار کارگر ثابت ہوا۔ مگر اس کے ساتھ ہی اسے یہ خبر کے مرنے والے اس کے اپنے دونوں بچے ہی تھے ،سن کر سکتہ آ جاتا ہے۔
شاہد رضوان نے اس درد بھری کہانی کے ذریعے اپنے قارئین کو ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی گھناؤنی وارداتوں، دہشت گردوں کے مذموم مقاصد، پیسے کے لالچ،ا من دشمنی اور شیطانیت بھری ذہنی کیفیت کی بھر پور اندا ز سے منظر کشی کی ہے۔افسانہ دہشت گردی کے لیے کوشاں سرکردہ کی کیفیت بتا رہا ہے کہ کیسے معصوم افراد قتل کر کے بارود، لہو کی بو، دھوئیں کے بادلوں، چیخ و پکار،مکانوں اور بلڈنگوں کے ٹوٹے شیشوں، فضا میں اڑتے ہوئے انسانی چیتھڑوں، بم پھٹنے سے جسم کو چھلنی کر دینے والی گولیوں، لوہے کے ٹکڑوں اور خون میں لت پت لاشوں کا سن کر کلیجے کو ٹھنڈک پہنچتی ہے۔
یہ سب کچھ بتاتا ہے کہ دہشت گرد انسان نما جانور، بلکہ جانوروں اور درندوں سے بھی برے ہوتے ہیں۔نئی نویلی دلہنوں سے ان کے سہاگ، والدین سے ان کے ننھے منھے معصوم پھول، بچوں سے ان کے پیار کرنے والے ماں باپ، خونی رشتے اور اپنے پیارے سب چھین لیے جاتے ہیں۔ گھر ، فیکٹریاں ، کارخانے حتیٰ کے ہسپتال ، حفاظت کے اداروں بلکہ یہ بدبخت تو نماز کے لیے آئے نمازیوں اور جنازہ گاہوں تک کو نہیں چھوڑتے۔ مذہب کی آڑ میں فرقہ واریت کے تحت معصوم لوگوں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔جس کے پیچھے شیطانی و ابلیسی ذہن رکھنے والی تنظیمیں، امن کے دشمن افراد اور انسانیت کے قاتل چھپے ہوتے ہیں۔
احساس انسانیت سے دور یہ افراد اگرباقی لوگوںکے بچوں کو بھی اپنا ہی بچہ سمجھیں، دوسروں کی ماؤں ، بہنوں، بیٹیوں کو اپنے گھر کی خواتین کی طرح تصور کریں ، نوجوان بوڑھوں کے خون سے اپنے ہاتھوں کو لت پت نہ کریں ، مذہب اور دین اسلام سے قریب ہوں تو معاشرے سے یہ دہشت گردی جیسا فساد ختم ہو سکتا ہے۔مگر یہ گروہ خود کو اپنے کارندوں کو جنت کے خوابوں میں پہنچا کر جہنم واصل کراکر ہی رہتا ہے۔ ان شر پسند عناصر کو پیسوں کا لالچ ہوتا ہے۔ امن کی فضا قائم کر کے انہیں سکون اور قتل انسانیت سے تسکین حاصل ہوتی ہے۔یہ دہشت گرد مذہب کارڈ استعمال کر کے، جہاد اور قتال کا شوق ابھار کر ، خیرو برکت کا لالچ سینوں میں ڈال کر اور تصوراتی جنت کی وادیوں کی سیر کرا کر کم عمر لڑکوں کو اپنے ناپاک مقاصد کو پانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
انسانی جانوں کے ضیاع ، معصوموں کی شہادت اور اس دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ہمارے امن کے ادارے دن رات کوشاں ہیں۔رب تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان شر پسند عناصر جو کہ دہشت گردی کی وارداتوں اور معصوموں کی جان لینے کے لیے خون کے پیاسے بنے انتظار کر رہے ہوتے ہیں، ان کو نیست و نابود کرے اوروطن عزیز کو ہر طرح کی دہشت گردی اور اندرونی و بیرونی فتنہ پروری و سے محفوظ رکھے۔آمین۔شاہد رضوان نے یہ افسانہ کمال درد مندی کے ساتھ رقم کیا ہے۔دہشت گردی کی تخریب کاری کے لیے منصوبہ بندی اور دماغ میں پلتی شیطانیت کو مصنف نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
’’کلمہ شہادت کے نعروں کی گونج میں کندھے بدلتے بغلی گلی سے نکل کر مین سڑک پر آتے ہی جنازے کے پیچھے پیچھے چلتے ہجوم کو دیکھ کر اس نے زبان ہونٹوں پر پھیری اور سرد آہ بھر کر سوچا۔ اسی ہجوم سے تازہ خبرنمودار ہو سکتی تھی اور سکور بھی سو پچاس سے کم نہ ہوتا لیکن افسوس کہ ایک سنہری موقع ہاتھ سے نکل گیا۔اس کا دماغ ہارے ہوئے جواری کی طرح شکست کو جیت میں بدلنے کے لیے تخریب کاری کی سوچوں کے لچھے میں الجھتا ہی چلا گیا۔‘‘(24)
پیری فقیری صدیوں پرانا سلسلہ ہے۔ جس کے ذریعے اللہ کے نیک بندے لوگوں کو دین کی تبلیغ کر کے رب سے جوڑتے ہیں۔ برصغیر میں اشاعت اسلام کے حوالے سے اللہ کے نیک بندوں، عظیم روحانی ہستیوں اور دینی درسگاہوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ان نیک ہستیوں نے دین محمد ﷺ کی ترویج کے لیے، گناہوں کی روک تھام، اور بدعت کے خاتمے کے حوالے سے ناقابل فراموش خدمات سرانجام دیں۔ لوگوں کو صراط مستقیم پر چلایا اور رب کے رستے پر چلنے کی دعوت دی۔ جس کی وجہ سے رب سے دور گناہوں کی دلدل میں پھنسے بہت سے لوگ انہیں اپنا روحانی مرشد اور رہبر ماننے لگے۔ان کی دین سے وابستگی اور لوگوں کی اصلاح ہی کا نتیجہ تھا کہ آج صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی لوگ ان سے محبت و عقیدت رکھتے ہیں۔ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آج ہمارے معاشرے میں کچھ افراد اس پاکیزہ عمل کو اپنے ناجائز مقاصد اور کاروبار بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہوئے جھوٹی خانقاہیں اور جعلی پیروں کا روپ اختیار کر لیتے ہیں۔ فراڈ ،دھوکہ دہی، کے ذریعے خواتین اور کم پڑھے لکھے سیدھے سادے دیہاتی افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو کہ ایسے جعلی پیروں فقیروں اور بابوں کو ولی اللہ اور بزرگ ہستیاں سمجھ کر ان کے جھانسے میں آ کر اپنا مال و دولت اور بعض اوقات تو عزت وعصمت بھی گنوا بیٹھتے ہیں۔پیسہ کمانے کے لیے جھوٹے تعویز گنڈے کرنے والے ان نقلی بابوں کے پاس خود علم نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے مگر چالاکیوں اور مکاریوں میں ان کا کائی ثانی نہیں ہوتا۔سادہ لوگوں کو باقاعدہ منصوبے کے تحت جھوٹی کرامات دکھا کر بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ بلکہ ان نام نہاد پیروں کے مرنیکے بعد ان کے مرید ان کی قبریں بھی کاروباری مقاصد کے تحت درگاہوں اور خانقاہوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔آج کل ہمارے معاشرے میں یہ سب بہت عام ہو چکا ہے۔
شاہد رضوان نے اس موضوع پر بہت خووبصورتی سے قلم اٹھایا ہے۔آپ نے ایسے دو نمبر بابوں اور خانقاہی ماحول کی تصویر کشی کے لیے ’’جنڈی والی سرکار‘‘ کے نام سے بہت ہی شاندار افسانہ لکھا، جو پڑھنے لائق ہے۔
افسانے کی کہانی دو دوستوں’’شاہو‘‘ اور’’دینو‘‘ کے گرد گھومتی ہے جو کہ گاؤں میں آئے پیر جی کی شان و شوکت سے بہت متاثر تھے۔لوگوں کی پیر جی سے عقیدت،مزے مزے کے کھانے اور عیش بھری زندگی دیکھ کر"دین محمد" عرف دینو اپنے لنگوٹیا یار شاہو سے مل کر پیری فقیری اور دم درود کا کاروبار شروع کر لیتا ہے۔راہ چلتے دو عورتوں میں سے ایک عورت اولاد کی چاہ میں دینو کو اپنا ہاتھ دکھاتی ہے۔ دینو کاغذ پر اسے چند ترچھی اور ٹیڑھی میڑھی لکیریں کھینچ کر اسے تعویز کی صورت میں دے دیتا ہے یوں ان کا کاروبار چل پڑتا ہے۔دن دگنی رات چگنی ترقی ، مریدنیوں اور مریدوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ تب ان کے حالات اور پھر جاتے ہیں۔جب شاہو ،دینو کے کہنے پر نوجوانوں کو کرامت دکھانے کے منصوبے کے تحت ٹرین کی زنجیریں کھینچتا ہے اور یوں چلتی ٹرین رک جاتی ہے۔وہاں دینو کے پاس بیٹھا نوجوان اسے پیر جی کی کرامت سمجھ بیٹھتا ہے۔کرامت کے قصے دور دور تک پھیلنے لگتے ہیں اور مرادیں مانگنے والوں کی قطاریں اور لمبی ہو جاتی ہیں۔اس سب عرصے کے دوران وہ چند ہی دنوں میں "جنڈی والی سرکار " کے نام سے مشہور ہو گئے۔شاہو نے مختلف رنگ کے کپڑوں کی ٹاکیاں جنڈ کے چاروں اطراف شاخوں سے لٹکا دیں۔
دونوں خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔پیسے کی فراوانی تھی، لنگر نیاز سب اکٹھے ہوتے تھے۔ دونوں کے دن پھر گئے تھے مگر ایک دن اچانک بابا جی دینو سرکار کو بس کچل دیتی ہے۔بس ڈرائیور’’جنڈی والی سرکار‘‘ کو کچلنے کے الزام سے بری الذمہ ہونے کے لیے ایک کرشماتی بہانہ تراشتا ہے اور پھر اس کے مزار کو کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی خاطر آبادی کے قریب لانے کے لیے جو معجزاتی جواز پیش کرتا ہے وہ بہت ہی دلچسپ ہے۔
’’ اس نے قبر کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں سے پوچھا: کل شام تک تو قبریں دائیں جانب تھی تو آج بائیں جانب کیسے آ گئی؟شاہو نے بڑے تحمل سے کہا :یہ بابا جی کی کرامت ہے۔یہ راز کی باتیں ہم تم کیا جانیں؟‘‘(25)
انسانیت بہت بڑی چیز ہے۔ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ لیکن ہمارے ہاں آج کل انسانیت کا قتل اور انسانوں کا قتل تقریباً ایک ہی جیسا معمول بن گیا ہے۔ ہم دو چار دن میڈیا پر مذمتی خبریں ، تبصرے اور ٹویٹس چلاتے ہیں اور پھر زندگی کی رونقوں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
آج ہمارے بچے کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ نہ ہی گھر میں ، نہ ہی کھیل کے میدان میں جہاں بچوں کو چاک و چوبند اور مضبوط بننے کے لیے بھیجا جاتا ہے، نہ ہی سکول میں جو علم کی روشنی سے ذہنوں کو جِلا بخشتے ہیں،نہ تو مدارس میں جہاں بچوں کو رب تعالیٰ کی پہچان کرانے بھیجا جاتا ہے۔ ہمارے بچے آج کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔کاش کوئی تو جگہ یا ٹھکانہ ہوتا جہاں یہ محفوظ ہوتے ، جہاںکوئی بھی بھیڑیا ان معصوم بچوں کے جسموں کو نہ نوچ سکتا، جہاں بدن کے بھوکے ننھے کلیوں کو نہ مسل سکیں، جہاں ظلم و زیاتی اور بدکاری کا راج نہ ہو۔ مگر افسوس آج کل یہ درندگی اور بے حسی اکثر لوگوں کی شخصیت کا حصہ بن گئی ہے۔ چھوٹی کلیوں کو بسکٹ، ٹافیوں، کھانے پینے یا کھیلنے کی اشیاء کا جھانسہ دے کر گلی محلوں سے اٹھا لیا جاتا ہے۔ پھر ان سے جنسی ہوس پوری کر کے ان کو کسی کوڑے کے ڈھیر، ویرانے یا بوری بند لاش کی صورت میں پھینک دیا جاتا ہے۔ بے چارے بد نصیب اور غریب ماں باپ ان مسخ شدہ لاشوں کو کندھوں پر اٹھائے صرف قبرستان میں ہی اتار دیتے ہیں۔مگر ایسے جنسی درندوں کو پکڑنے میں قانون مشکل ہی سے حرکت میں آتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں زینب جیسی بہت سی چاند کی طرح کی بیٹیاں جن کی عمر 2 سال سے لے کر 10، 12 سال تک تھی ۔جنسی زیادتی کے بعد قتل کر کے پھینکی لاشوں کی صورت میں ملی ہیں۔ننھی معصوم کلیاں جن کے ابھی کھیلنے کے دن ہوتے ہیں، جو ابھی موسموں کی نرمی و سختی جھیلنے کے قابل بھی نہیں ہوتیں، جو ابھی یہ سیکھنے کے عمل میں ہوتی ہیں کہ کون سی نظر کس زاویے سے ان کے بدن کے پار اترے تو ان کو اپنے بچاؤ کے لیے کیا تدابیر کرنی چاہیں اور وہ درندہ صفت شخص کی گدھ جیسی نگاہوںکو دیکھتے ہوئے انہیں فوراً اپنے والدین کو آگاہ کرنا چاہیے۔ مگر افسوس ان معصوموں کی معصومیت کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ اور درندے از خود خوشی سے دندناتے پھرتے ہیں۔
اکثر انصاف کے ادارے ایسے گروہوں اور افراد کر پکڑنے سے قاصر رہتے ہیں کیونکہ ایسے گروہوں کے پیچھے بڑی بڑی شخصیات اور طاقتور لوگوں کے ہاتھ ہوتے ہیں جو معصوم بچوں اوربچیوں سے درندگی کے دوران بنائی گئی ان کی ویڈیو لاکھوں کروڑوں ڈالرز میں بیچتے ہیں۔اب تو ڈارک ویب نامی ویب سائٹ کا دھندا عام ہے۔ وہ نوجوان جن کو والدین کی طرف سے تربیت کی کمی ہو، آوارہ دوستوں کی صحبت حاصل ہو،ماضی کے کسی ڈراؤنے جنسی واقعے نے زخمی کر دیا ہو، محبت کی ناکامی ،تنہائی کا شکار ہوں یا جن کو فضول کی فراغت ہو وہ غلط کاریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
ساری رات انٹرنیٹ پر فحش مواد دیکھ دیکھ کر ان کے احساسات پگھل پگھل کر جذبات کی رو میں بہہ جانے کو ہر لمحہ تیار ہوتے ہیں۔اندر کی بھوک اور بڑھتی ہوئی ہوس نسوانی خطوط کو لباس کے پردے میں سے ہی دیکھ کر بے قابو ہو جاتی ہے۔ایسے میں ہمہ وقت انٹرنیٹ کھولے ان کو عین فطری لباس میں دیکھ کر تو ان کے اندر ایک بھانبھڑ اور آلاؤ مچ جاتا ہے۔ جو کہ باہر نکلنے کا کسی بھی صورت رستہ چاہتا ہے۔پھر وہ رستہ چاہے صحیح یا غلط انہیں کیسے بھی بنانا پڑے وہ بنا کر رہتے ہیں۔چاہے اس کے لیے انہیں ننھی کلی کو ہی مسلنا پڑے۔گھر کے آنگن کی رونق، معصوم چڑیوں جیسی معصوم بچیوں کے ساتھ ریپ اور جنسی زیادتی کے واقعات میں پچھلے کچھ عرصے سے بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف والدین بلکہ بچے بھی سہم کر رہ گئے ہیں۔
ہمارے بر سر اقتدار اداروں کو اس پر فوری طور پرایکشن لینا چاہیے اور ایسے جنسی درندوں کو پھانسی جیسی سزائیں سر عام دینی چاہیے تا کہ لوگ ان سے عبرت پکڑ سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اہل قلم کو بھی ہر سطح اور ہر پلیٹ فارم پر آواز بلند کرنی چاہیے۔ تاکہ سب لوگوں میں اس کی آگاہی پھیلے اور والدین بچیوں اور خاص طور پر چھوٹی بچیوں کو اکیلے گھر سے باہر نہ بھیجیں۔
چھوٹے بچوں سے بد فعلی ایک گھناؤنا جرم ہے جو کہ ہمارے معاشرے میں تیزی سے جڑیں مضبوط کر رہا ہے اور اس سے چھٹکارا بہت ضروری ہے۔شاہد رضوان نے اس موضوع پر بڑی دردمندی سے قلم اٹھایا ہے۔آپ نے اپنے افسانے ’’گل چیں‘‘ میں بچوں سے زیادتی کرنے والوں کو’’پھول توڑنے والے‘‘ جبکہ بچوں کو پھول سے تشبیہ دے کر بتایا ہے کہ جب غنچے(بچے) چٹخ کر پھول بنتے ہیں تو باغبان (والدین)خوش ہوتے ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ہی اس کے ذہن کے کسی گوشے میں ہر لمحہ’’گل چیں‘‘(پھول چننے والے چور/جنسی درندے) کا تصور بھی رہتا ہے جو اسے افسردہ کیے رکھتا ہے۔اسے ہر لمحہ گل چیں کے کھردرے ہاتھ نظر آتے ہیں جو ہر وقت پھول نوچنے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ایک پل کو اگر مالی(والدین ) کی نظر چوک جائے تو گل چیں کی بے رحمی اپنے ہاتھوں کی صفائی دکھا چکتی ہے۔
شاہد رضوان نے بڑی مہارت کے ساتھاس افسانے ’’گل چیں‘‘ میں پھولوں کی بات کر کے جنسی درندگی اور ننھی معصوم بچیوں کے قتل کے موضوع کو سمویا ہے۔یہ افسانہ ایک ایسے شخص کی ذہنی و جسمانی کیفیت کا عکاس ہے جو کہ فراغت کا شکار ہے اور ہمہ وقت انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا پر جنسی اشتہا بڑھانے والے مواد دیکھتا رہتا ہے۔جس سے اس کے اندر کا بھیڑیا جاگ جاتا ہے اور وہ ہر وقت اپنی جسمانی تسکین کے لیے منصوبے سوچتا رہتا ہے۔ وہ اپنے شکار کی تلاش میں سڑک پر گھومتا رہتا ہے۔پہلے پہل تو وہ ایک سانولے رنگ کی عورت جو کہ حلیہ سے ملازمہ لگتی ہے۔اسے ہاتھوں سے عجیب اشاروں سے، بالوں میں انگلیوں سے کنگھی اور سٹی بجا کر اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر وہ اس کی طر ف توجہ نہیں دیتی بلکہ وہ اس کی طرف تیور چڑھا کر دیکھتی ہے اور نیچے سڑک کی جانب منہ کر کے اس پر تھوکتی ہے۔ جس پر وہ غصے سے تلملا اٹھتا ہے اور ہنک کا بدلہ لینے نکل پڑتا ہے۔ وہ پارک میں جا نکلتا ہے اور نسوانی چہروں کو نفسانی بھوک بھری نظروں سے دیر تک تکتا رہتا ہے۔مگر اس کی وہاں بھی دال نہیں گلتی تو گلی میں کھیلتے بچوں کو دیکھ کر منفی خیالات اس کے دماغ میں دوڑنے لگتے ہیں۔وہ ان کے پاس رک کر انہیں ٹافیاں دیتا ہے۔یوں روز بچوں کے پاس آنا، ان سے گپ شپ کرنااور بند مٹھی کھول کر سب کو ایک ایک ٹافی اٹھانے کا اشارہ کرنا کافی دن تک جاری رہا۔ اس سب عرصے میں اس کے اندر کا بھیڑیا بھوک سے بلبلا رہا تھا۔وہ پیٹ سے کھانا کھا کر بھی بھوکاہی رہتا تھا۔اس کے دماغ میں شیطانی خیالات کی عجیب کھچڑی پک رہی تھی۔گلی میں سب بچے جمع تھے۔وہ سب کھیل کود میں مصروف ہر لمحہ ادھم مچا رہے تھے۔مگر ایک سات سالہ بچی انوشہ سب سے جدا بیٹھی منہ پھلائے ہوئی تھی۔نوجوان کے ٹافیاں لاتے ہی سب بچے اس کے ارد گرد جمع ہو جاتے ہیں مگر وہ غربت کی ماری تھی۔
انوشہ اپنی جگہ سے نہیں ہلتی۔وہ بچوں سے اس کے روٹھنے کا سبب دریافت کرتا ہے۔بچے اسے بتاتے ہیں کہ وہ ماں سے چابی والی گڑیا لینے کی ضد کر رہی تھی جس پر ماں نے اسے سمجھایا کہ یہ امیر زادیوں کی سی ضد چھوڑ دے۔ مگر وہ برابر وہی خواہش کرتی رہی جس کے بدلے ماں نے اس اسے ایک چیت لگا دی۔ اسی سبب وہ یوں خاموش بیٹھی ہے۔یہ سب جان کر نوجوان کی آنکھوں میں چمک اْبھر آتی ہے۔وہ بچی کے کان میں کوئی ایسے بات کہتا ہے جسے سن کر اس کے چہرے پر خوشی پھیل جاتی ہے۔
نوجوان سب بچوں کو اس شرط پر دو دو ٹافیاں دے دیتا ہے کہ وہ ٹافی لینے کے بعد فوراًگھر چلے جائیں گے سب بچے باری باری گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اورانوشہ نوجوان کی انگلی پکڑے، چہرے پر خوشی سجائے، آنکھوں میں مسرت سموئے یوں اچھلتی کودتی جا رہی ہے جیسے کسی میلے میں جا رہی ہو۔نوجوان کے چہرے پر خباثت عیاں تھی اور انوشہ آنے والے ڈراونے وقت سے بے خبر۔’’گل چیں ‘‘جنسی درندے کی ہوس اور اندرونی خباثت کا آئینہ دار ہے جو کہ سات سالہ غریب بچی کو کھلونے کا لالچ دے کر اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں بچوں کا ریپ اور جنسی زیادتی وغیرہ سب کچھ بہت عام ہو گیا ہے۔ معصوم بچوں کو کھانے پینے کی چیزوں کا لالچ دے کر یا سکول سے گھر لے جانے کے بہانے گلی محلوں وغیرہ سے اغواء کر لیا جاتا ہے اور پھر مذموم جنسی عزائم کے بعد انہیں بے دردی سے قتل کر کے بوری بند لاشوں کی صورت میں ویرانوں اور کچرے کے ڈھیروں پر پھینک دیا جاتا ہے۔غریب بچیوں کی جان اور عزت محفوظ نہیں ہے۔
ہمارے انصاف کے اداروں کو جنسی بھیڑیوں کے خلاف سختی سے ایکشن لینا چاہیے اور ان کے لیے کڑی سے کڑی سزائیں رکھنی چاہیے تا کہ آئندہ کسی کی بھی یہ سب کرنے کی ہمت نہ ہو۔والدین کو بھی چاہیے کہ وہ بچیوں کو اکیلا گھر سے باہر نہ جانے دیں، ان پر نظر رکھیں۔کون ان سے ملتا ہے؟ کون ان کے آس پاس زیادہ رہتا ہے۔اس سب کے ساتھ ساتھ ماں باپ کو اپنی بچیوں کو سختی سے اس بات سے بھی منع کرنا چاہیے کہ وہ کسی انجان شخص سے کوئی بھی کھانے پینے والی چیز نہ لیں اور نہ ہی اپنے والدین کو بتائے بغیر اکیلے کسی کے ساتھ باہر جائیں کیونکہ یہ سب احتیاطیں انہیں بہت سے مسائل اور طوفانوں سے بچا سکتی ہیں۔افسانہ’’گل چیں‘‘ میں شاہد رضوان نے جنسی بھیریے کی شیطانیت اور پھیلائے جانے والے ایک جال سے متعلق لکھا ہے:
’’گلی میں سب بچے جمع ہو کر ادھم مچا رہے تھے لیکن انوشہ سب سے الگ منہ پھلائے لکڑی کے شہتیر پر بیٹھی تھی۔ اس کے ٹافیاں لے کر آتے ہی سب بچے اس کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ لیکن انوشہ نہ آئی۔اس کے پچکارنے پر بھی نہیں آئی تو اس نے بچوں سے اس کے روٹھنے کا سبب معلوم کیا۔ایک بچے نے بتایا کہ وہ اپنی ماں سے چابی والی گڑیا لینے کی ضد کر رہی تھی۔ ماں نے اسے سمجھایا کہ وہ یہ سوچنا بھی چھوڑ دے کہ وہ امیر زادیوں کی برابری بھی کر سکتی ہے۔اس پر جب اس کی ریں ریں نہ رکی تو اس کی ماں نے اسے ایک چیت لگا دی۔یہ سن کر نوجوان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے بچی سے کوئی ایسی بات کہی کہ جسے سن کر اس کی چہرے پر خوشی کی لہر پھیل گئی۔‘‘(26)
دین اسلام میں چھوٹا ، بڑا، گورا، کالا، غریب ، امیر گویا سب برابر ہیں۔برتری کا معیار صرف اور صرف تقویٰ ہے۔ اسلام نے غلاموں کی نسلی فروخت، غریبوں کے استحصال اور ان کے ساتھ برے سلوک کی شدت سے مذمت کی ہے۔اسلام نے انسانیت کومساوات کی لڑی میں پروئے رہنے کادرس دیا۔مگر افسوس آج ہم ٹکروں اور امیروغریب جیسے طبقوں میں بٹ چکے ہیں۔
معیشت کی اس دوڑ میں آج بچارہ’’غریب‘‘کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی راہ پردیوانہ وار مسلسل چل رہا ہے اور ’’امیر‘‘اسے ہانکتے ہوئے اپنے عیش وعشرت اور پیسے میں مسلسل اضافہ کیے جارہاہے۔
آج ہمارے پاکستان کے کروڑوں غریبوں پر ہزاروں امرا کی حکمرانی ہے۔جوکہ سیاہ وسفید کے مالک بنے غربا کی بنیادی ضروریات ہی سے بے خبر ہیں۔اگردھیان سے دیکھاجائے توآج موچی،مستری،پینٹر،درزی،خاکروب،پنکچروالا،سیلزمین،سیکیورٹی گارڈ، دھوبی،منشی،بیرا، چھابڑی والا، الیکٹریشن ، گوالا، کنڈیکٹر،پلمبر،نانبائی،مکینک،ڈرائیورمزدور اور نہ جانے کتنے ایسے شعبے ہیں کہ جن کا وجود’’غریب ‘‘کی وجہ سے باقی ہے اور انہی کے دم سے ہی تو اس سارے نظام کائنات کا حسن قائم ودائم ہے۔"امیر"اور "غریب"کی تقسیم رب کے ہاتھ میں وہ جس کو چاہے جتنا نوازیاور جسے چاہے اسے محروم رکھے مگر سرمایہ داروں کے رزق میں اللہ نے یقیناًمحتاجوں اور غریبوں کا بھی حصہ اور روزی رکھی ہے جوکہ صدقہ،فطر،اور عشر کی صورت میں ادا کرنا فرض ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ اپنے سے کم تر طبقے کا خیال کرنا بھی ضروری ہے۔لیکن کتنے ہی لوگ جو ان سب فرائض سے سبکدوش ہو ہیرو ہیں۔آج ہمارے معاشرے میں بے شمار ایسے لوگ ہیں جو غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔جن کے پاس کھانے کو دو وقت کی روٹی تک نہیں، پہننے کو کپڑا نہیں، ہوا لینے اور روشنی کو بجلی تک نہیں۔اناج کی کمی ہے۔علاج ، پانی کا شدید مسئلہ ہے۔ غریب کا کوئی پرسان حال نہیں۔ غریب غربت کے مدار میں پس رہا ہے۔روز ایڑیاں رگڑ رہا اور مر رہا ہے۔ مگر اس کی کسی کو پرواہ نہیں۔ غریب کا کوئی پرسان حال نہیں اسے جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں اس پر رہی سہی کسر طاقتور طبقہ ظلم کر کے پوری کر دیتا ہے۔ انہیں مزدوروں کی عزت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی، بات بات پر انہیں ذلیل کیا جاتا ہے۔یہ سلوک نہ صرف مرد مزدوروں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے بلکہ ایسی غریب خواتین جن کے خاوند جلد موت کو گلے لگا لیتے ہیں اور انہیں غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر مرد مزدوروں کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔انہیں بھی ایسے سب حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
’’تار کول کی سڑک‘‘ ایک ایسا افسانہ ہے جو کہ مزدور طبقے سے وابستہ خواتین کی زندگی اور ان کو درپیش مسائل و مشکلات کی عکاسی کرتا ہے۔خالص دیہاتی ماحول سے تعلق رکھنے والی ’’شریفاں‘‘اور کی بیٹی ’’ظہری‘‘دونوں اس افسانے میں مرکزی کردار ہیں۔جو کہ غربت کے ہاتھوں مجبور ، پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کبھی گندم کی کٹائی تو کبھی کپاس کے کھیتوں میں چنائی کرتی نظر آتی۔ دونوں کا کوئی اور سہارا نہ تھا۔فصلوں کے دن گزرے تو وہ دونوں فارغ تھیں۔ جب کچھ عورتوں کو گاؤں میں نئی بننے والی تارکول کی سڑک پر کام کرتے دیکھا تو محنت مزدوری کی عادی شریفاں نے بے کار اور فارغ بیٹھنا مناسب نہ سمجھا۔ جھٹ منشی سے بات کی اور دونوں کام پر جانے لگیں۔ یہاں بہت سی لڑکیاں بجری کے ٹوکرے اٹھانے اور بجری کوٹنے میں مصروف رہتیں۔ گھروں سے پانی کے گھڑے اور روٹیاں باندھ کر لائیں جاتیں اور یہی سب روکھا سوکھا بھوک کے وقت ان کے لیے مرغ مسلم ہوتا تھا۔ جسے کھا کر رب کی بارگاہ میں شکر ادا کیاجاتا۔شریفاں اور اس کی بیٹی ظہری کا عورتوں کا ساتھ کام کرنے کا یہ پہلا تجربہ تھا۔یہاں مزدور مردوں اور عورتوں میں خاصی بے تکلفی تھی۔ جو آپس میں ہنسی مذاق ، مخول اورمنہ بھر بھر کر گالیاں بھی بکتے تھے۔
ٹھیکیدار اور منشی بڑے رنگین مزاج آدمی تھے۔جس مرضی لڑکی سے چاہے وہ کسی کی ماں ، بیٹی ہو گپ شپ شروع کر دیتے،علیک سلیک بڑھاتے اور جب مرضی جھگی میں بلا کر بٹھائے رکھتے۔ کوئی مزدور آگے سے چوں چراں نہ کر سکتا تھا کیونکہ منشی ہر کسی کی اجرت میں سے کچھ نہ کچھ پیسے نیچے دبا کر ضرور رکھتا تھا۔ پیٹ پاپی کی خاطر مرد و خواتین سب اس کی گالیاں بھی کھاتے کہیں منشی کام سے فارغ نہ کر دے اس خوف سے کسی کی اتنی جرات نہ تھی کہ وہ آگے سے اف بھی کرسکے۔
’’شریفاں‘‘ کی بیٹی سانولی سلونی ظہری پر بھر پور جوانی کے دن تھے۔ منشی جو کہ ان ماں بیٹی کے آنے سے قبل "چھنیو" اور "صغریٰ" کے گرد منڈلاتا رہتا تھااب ظہری کی جوانی پر فریفتہ ہونے لگا۔جس سے’’چھینو اور صغریٰ‘‘ دونوں ظہری کی دشمن بن گئیں۔بات بات پر طعنے دیتیں، آتے جاتے جملے کستی، رعب گانٹھتی، بے عزتی کرتیں۔
ایک روز منہ ماری کے دوران صغریٰ نے لوگوں میں ظہری سے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’تم منشی کی رکھیل ہو‘‘ جس پر وہ آگ بگولہ ہو گئی ،دونوں میں خوب لڑائی ہوئی،بات چہرے اور بال نوچنے تک آن پہنچی۔ لوگوں نے بیچ بچاؤ کیا۔ہر کوئی ظہری کو غلط سمجھ کر فتنے کی جڑ قراردے رہا تھا۔ ادھر منشی کی شہوت اور اول فول باتیں روز بروز بڑھتی جاتی ہیں۔اس کی نیت کا فتوراور بدمعاشی ظہری کو بہت بری گزرتی ہے۔جس کا ذکر وہ اپنی ماں سے کرتی ہے۔وہ بجائے ظہری کی بات سننے اور منشی سے پوچھنے کے ظہری کو خاموش رہنے اور پرواہ نہ کرنے کا کہتی ہے۔جس پر ظہری کو بڑی ٹھیس پہنچتی ہے۔
ادھر جب منشی کو اپنی دال گلتی دکھائی نہ دی تو اس نے بات بات پر ظہری کو ڈانٹنا اور بے عزت کرنا شروع کر دیا کہ وہ تھک ہار کر خودہی ہتھیار ڈال دے گی۔مگر ایسا نہ ہوا۔منشی پانی پلانے کے بہانے ظہری کی کلائی تھامنا چاہتا ہے۔جس پر وہ تلملا کر رہ جاتی ہے اور اسے ’’خبیث‘‘ کا لقب دیتی ہے۔وہ بھرے مجمعے میں کہتی ہے کہ’’منشی نے چھینو اور صغریٰ کو سر پر چڑھا رکھا ہے،وہ اس پر صدقے واری جاتی ہیں مگر میں نہیں ہو سکتی۔‘‘منشی نے سب کے سامنے تذلیل ہونے پر خاموشی اختیار کر لی مگر شریفاں نے بیٹی کے منہ پر تھپڑ جھڑ دیا۔
منشی نے دونوں ماں بیٹی کو کام سے فارغ کر دیا۔ادھر تین چھوٹے لڑکوں ،دو بچیوں کی کفالت اور بیمار شوہر کی دوائیوں کی پیسے نہ ہونے پر ماں ظہری کو برا بھلا کہتی اور کوستی ہے۔چھ دن کی مزدوری کے ضیاع اور دال روٹی کی کمی کے باعث گھر فاقوں کی سی نوبت آن پڑتی ہے۔ ظہری اس سب سے با خبر تھی مگر وہ ایسی کمائی نہیں کرنا چاہتی تھی کہ جس کی قیمت اس کی عزت ہو۔ وہ ماں سے کہتی ہے کہ جو منشی چاہتا ہے وہ میں کروں تو چھینو اور صغریٰ تو کیا۔ ان کی مائیں بھی ہمیں کام سے نہیں نکلوا سکتیں۔ لیکن میں نہیں چاہتی۔ا گر مزدوری کے لیے عزت ہی نیلام کرنی ہے تو پھر بجری ڈھونے کی کیا ضرورت ہے۔اس کے بغیر ہی یہ کام کئی گنا زیادہ پیسوں میں ہو سکتا جس پر ماں خاموش ہو کر رہ جاتی ہے۔ دوسری طرف شریفاں باہر بکری کے واسطے گھاس لینے جاتی ہے۔سڑک پر عورتوں کو کام کرتے دیکھ کر شریفاں کا دل مچل اٹھتا ہے۔وہ یہ سوچ کر کہ شوہر کی دوا اور بچوں کے کھانے کے پیسے کہاں سے آئیں گے ، گھر کا راشن اور خرچہ کیسے چلے گا؟ اور اگر منشی نے خود بلاوا نہ بھیجا تو بھوکے مریں گے۔ یہ سب ذہن میں رکھ کر وہ منشی کے پاس جاتی ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی منشی اس کے آنے کے مقصد کو بھانپ لیتا ہے اور کہتا ہے کہ تمہاری لاڈو کے بہت نخرے ہیں۔۔۔ مزدور کو ناز نخرے زیب نہیں دیتے۔ مجھے بھی تو ٹھیکیدار اکثر ڈانٹ ڈپٹ کرتا ہے مگر میں زبان نہیں کھولتا کیونکہ مجھے پتا ہے کہ میں اس کا ملازم ہوں اگر میں جواب دوں گا کوٹھیکیدار تو منشیوں کی کمی نہیں۔
جس پر شریفاں خوشامدانہ انداز میں ظہری کے بچی ہونے کا کہہ کر معافی مانگتی ہے، منت سماجت کرتی ہے اور آئندہ ایسا نہ ہو گا کہہ کر دوبارہ سے کام پر آنے کی درخواست کرتی ہے۔منشی کے دل و نظر میں کمینگی اور کھوٹ تھا۔ اس نے شریفاں کی مجبوری و بے بسی کا نا جائز فائدہ اٹھانے کا سوچ کر ہاں کر دی ادھر ماں اپنی بیٹی کو چپ رہنے، کسی سے نہ الجھنے اور منشی کو ناراض نہ کرنے کا کہہ کر ساتھ لے آئی۔ چھینو اور صغریٰ سے بیٹی کا ہاتھ ملوایا اور منشی سے سلام کیا۔ چھینو اور صغریٰ دونوں ماں اور بیٹی کو دیکھ کر جل کر رہ گئیں۔ جس پر منشی غرور بھری ہنسی ہنستا ہے گویا وہ ان کی بے بسی پر خوش ہو رہا ہو۔دن گزرتے گئے ،ماں کے کہنے پر ظہری کے لہجے میں نرمی آ گئی، منشی کی نگاہیں ہمہ وقت ظہری کا تعاقب کرنے لگیں۔ ایک دو بار منشی نے ظہری سے بد تمیزی و چھیڑ خوانی بھی کی جس پر وہ کڑوا گھونٹ پی گئی۔
ایک روز جب سبھی مرداور عورتیں اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ظہری سرپر ٹوکرا اٹھائے منشی کے ہاں سے گزری تو اس نے بڑے رعب سے جھگی میں آ کر سر دبانے کو کہا اور خود اندر جھگی میں چارپائی پر لیٹا اس کا انتظار کرنے لگا۔
اس نے باہر بھی ایک دو دفعہ جھانک کر دیکھا کہ وہ آ رہی ہے کہ نہیں۔ظہری اس کی بے چینی کو سمجھتی رہی، اس کی سمجھ میں جب کچھ نہ آیا تو ٹوکرا پھینک کر ماں سے گویا ہوئی کہ’’منشی کہتا ہے جھگی میں آ کر میری بات سنو‘‘جس پر شریفاں دوسری جانب منہ کر کے بیٹی سے کہتی ہے کہ چلی جاؤ۔۔
شاہد رضوان کا یہ افسانہ غربت کی چکی میں پستی دو ماں بیٹیوں کی بے بسی اور معاشرتی حیوانیت کو ظاہر کرتا ہے۔ معاشرے میں عورتوں کو مردوں کے برابر کام کرنے اور گھر سے باہر نکل کر کمانے کے لیے کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور چند پیسوں کے لیے اعلیٰ طبقہ انہیں بات بات پر ذلیل کرتا ہے اور بلیک میلنگ کے ذریعے نوکری سے نکال دینے کا کہہ کر بدلے میں عزت کا سودا کرتا ہے۔ یہ افسانہ اس کی گندی سوچ کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ افسانہ دکھوں کی ماری ایک ایسی ماں کی بے بسی بھی عیاں کرتا ہے جو معیشت کی مجبوری کی بنیاد پر بیٹی کو جسم فروشی اور منشی کی حیوانیت اور جنسی خواہش کا احترام کرنے کا کہتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ماں ایک عورت ہو کر اپنی بیٹی کو اس ناجائز اور حرام کام کی اجازت کیوں کر دے رہی؟ آخر وہ کون سی ایسی مجبوریاں ہیں جن کے باعث وہ اس انتہائی برے قدم کی جانب بیٹی کو دھکیل رہی ہے؟ تو بہت ہی افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ غربت ہی ہے جو معیشت کی چکی میں پستی ماں بیٹی کو یہ سب کرنے پر مجبور کرتی ہے۔معاشرتی خباثت اور غربت و بے بسی کی تصویر بنی ماں بیٹی کا مکالمہ ملاحظہ ہو۔۔۔۔:
’’وہ جھگی میں چارپائی پر لیٹ کر اس کا انتظار کر رہا تھا۔ایک دو بار تو اس نے باہر جھانک کر بھی دیکھا کہ وہ آ رہی ہے کہ نہیں۔وہ برابر جھگی کی طرف دیکھتی اور منشی کی بے چینی کو سمجھتی رہی۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا کہ وہ کیا کرے؟وہ پھر ٹوکری پھینک کر اپنی ماں سے بولی: ’’منشی کہتا ہے جھگی میں آ کر میری بات سنو۔" شریفاں دوسری طرف منہ کر کے بولی:"چلی جاؤ‘‘(27)
عورت خدا کی وہ خوبصورت مخلوق ہے۔ جسے مرد کی پسلی سے پیدا کرکے مرد کو اس پر ایک درجہ فوقیت دی گئی۔ عورت کو جہاں چادر اور چاردیواری میں رہنے کا حکم دیا گیا، وہیں مرد کو باہر کے کام کاج کا ذمہ سونپا گیا۔ عورت کو ماں ،بہن ،بیٹی اور بیوی کے روپ عطاء کر کے مرد کو اس کی عزت و عصمت کا محافظ قرار دیا گیا۔ مگر افسوس کہ آج صنف نازک کہلائی جانے والی یہ عورت اسی محافظ مرد کے ہاتھوں ظلم و جبر کا شکار ہو رہی ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں عورت پر ظلم عام ہوگیا ہے۔ کہیں کاروکاری کہیں وٹہ سٹہ تو کسی جگہ غیرت کا نام دے کر تو بعض اوقات جنسی استحصال کے روپ میں عورت کو جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ شاہدرضوان نے بڑی دردمندی سیعورت پر ہونے والے ان مظالم پر قلم اٹھایا ہے۔ آپ غریب اور خصوصا متوسط طبقے کی خواتین کے مختلف روپ ہمارے سامنے لائے۔
’’پتھرکی عورت‘‘کی رضیہ ہو، چنداکی آنکھوںمیںسجے بہترزندگی کے خواب ہوں، ’’آوازیں‘‘ میں بانجھ عورت افسانے کی کنول ہو،آخری سیڑھی کی نیلوفر ہو، مائی مستانی کا کردار ہو یاپھرکتیا افسانے کی شگفتہ ’’ یہ تمام زندگی کے مختلف زاویوں اور مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہیں۔ اسی طرح’’پہلاآدمی‘‘میں ’’جوگی چوک‘‘اور’’ سفیدبال‘‘، مجموعہ ادھوری کہانی کی تصویر’’میں ‘‘تارکول کی سڑک‘‘،’’ٹھیکیدار‘‘، ’’دجال ‘‘،’’غارت گرلمحہ‘‘ اور ’’ٹرمینل‘‘ وغیرہ ایسی ایسی شاندار کہانیاں ہیں جو تانیثی اعتبار سے خاصی اہمیت کی حامل ہیں شاہدرضوان نے اپنے افسانوں میں تعلیمی درسگاہوں کی بچیوں سے لے کرگھر میں ہونے والے جبر کو سہتی خواتین، نئی نویلی دلہنوں،گھر سے نکل کرمحنت ومشقت کرتی عورتوں ،کنواری بچیوں کو پیش آنے والی مشکلات اور مردانہ معاشرے میں معاشرتی مسائل سے تنگ خواتین کے مسائل کوبڑی خوبصورتی سے اپنے افسانوں میں سمویا ہے۔ آج ہمارے وطن کے کروڑوں پسماندہ افراد پرچند ہزار امیروں کی حکومت ہے۔ جو سیاہ وسفید کے ٹھیکیدار بنے غرباء کی بنیادی ضروریات ہی سے بے پرواہ ہیں۔اگرغور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آج ہمارے معاشرے کے خاکروب،موچی،مستری، سیلزمین،درزی، الیکٹریشن، پنکچر والا،ڈرائیور،سکیورٹی گارڈ،کنڈیکٹر،نانبائی،مزدور، دھوبی،منشی،بیرا،چھابڑی والا،گوالا ،پلمبر ،مکینک، اور نہ جانے کتنے ہی ایسے شعبے ہیں کہ جن کا وجود غریبوں کی وجہ سے ہے، اور ان مزدوروں ہی کی بدولت تو ساری دنیا کا نظام قائم ودائم ہے۔ مگر ہمارے حکمرانوں کو غریب عوام کی ذرا بھی پرواہ نہیں۔ انہیں فقط اپنے بینک بیلنس بھرنے اور اپنی جائیدادیں بنانے کی پڑی ہے۔غریب بیچارہ جیے یا مرے، انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شاہد رضوان نے اپنے افسانوں میں غریبوں کے مسائل کی بھرپور عکاسی کی ہے۔
شاہد رضوان کے افسانوں میں دہشت گردی جیسے واقعات کا بھی ذکر ملتا ہے۔جن سے معصوموں کی شہادت کے نتیجے میں اہل خانہ پر گزرنے والے حالات ،انسانی جانوں کے ضیاع، دہشت گردوں کے عزائم سے واقفیت اور دہشت گردی کی روک تھام کیلئے اداروں کی کوششوں کا پتہ چلتا ہے۔
افسانہ نگار نے بڑے ہی جاندار انداز سے اپنے افسانوں میں غریب طبقے کے مسائل کو اجاگر کیا ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح امیر طبقہ غریبوں پر ظلم و ستم کرتا ہے۔ نچلے طبقے کو اگر چھوٹے سے چھوٹا کام بھی کروانا ہو تو انہیں بہت سی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر کسی بات پر کوئی ظلم ہو رہا ہوں تو اسے انصاف کے لئے سالوں عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے پڑتے ہیں،مگر تب بھی انصاف نہیں ملتا۔ آج غریبوں کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔اگر کوئی معمولی حیثیت کا شخص اپنے گھر کے لیے زمین کا کوئی چھوٹا سا ٹکڑا خرید لیتا ہے، تو اسے مصیبت پڑ جاتی ہے۔وہ جائیداد کے کاغذات بنوانے کے لیے ذلیل و خوار ہو جاتا ہے۔ااسی طرح کسی فیصلے کی نقل حاصل کرنا ہو،نوکری کا حصول ہو یا پھر کسی بھی کام کی تکمیل ہو تو وہ بغیر رشوت کے ممکن نہیں ہو پاتی۔
شاہد رضوان نے اپنے افسانوں میں عدل و انصاف کے کمزور نظام ، لوگوں کی مفاد پرستی و خودغرضی ، سادہ لوح دیہاتیوں کے جھوٹے پیروں فقیروں کے ذریعے لٹے جانے کی وجوہات، رشوت خوری،جائیداد کے معاملوں، تلخ انسانی رویوں، زلزلوں ،سیلابوں، قدرتی آفاتوں ،عورتوں کوسماجی حوالے سے درپیش مسائل، زندگی سے خواتین کے سمجھوتوں، مصلحتوں اور مجبوریوں کو بہت ہی موثر اندازسے بیان کیا ہے۔ شاہد رضوان نے معاشرے کے اصل چہرے سے نقاب ہٹانے کی شاندار کوشش کی ہے،اور آپ بہت حد تک اس میں کامیاب بھی رہے ہیں۔ بلاشبہ شاہد رضوان جدید اردو افسانے کے لیے ایک بہترین اضافہ ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭

حوالہ جات
1۔ شاہد رضوان، پتھر کی عورت، دانیال پبلشرز، چیچہ وطنی، 2010ئ￿ ، ص:16
2۔ شاہد رضوان، پتھر کی عورت،ص:18
3۔ ایضاً،ص:19 4۔ ایضاً،ص:40
5۔ ایضاً،ص:85 6۔ ایضاً،ص:94
7۔ ایضاً،ص:107،108 8۔ ایضاً،ص:121
9۔ ایضاً،ص:127،128 10۔ ایضاً،ص:137
11۔ ایضاً،ص:147
12۔ شاہد رضوان، پہلا آدمی، دانیال پبلشرز، چیچہ وطنی، 2013ئ￿ ، ص: 26
13۔ شاہد رضوان، پہلا آدمی، ص:54
14۔ ایضاً،ص:64 15۔ ایضاً،ص:163
16۔ ایضاً،ص:76،77 17۔ ایضاً،ص:95
18۔ ایضاً،ص:131
19۔ شاہد رضوان ، آوازیں، سانجھ پبلشرز لاہور، 2015ئ￿ ،ص:56
20۔ شاہد رضوان، آوازیں،ص:182
21۔ ایضاً،ص:79 22۔ ایضاً،ص:160
23۔ ایضاً،ص:42،43
24۔ شاہد رضوان ، ادھوری کہانی کی تصویر، دانیال پبلشرز،چیچہ وطنی،2020،ص:107
25۔ شاہد رضوان، ادھوری کہانی کی تصویر، ص:105
26َ۔ ایضاً،ص:88 27۔ ایضاً،ص:173
٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...