Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > دو افسانہ نگار: غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان > غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان کے افسانے

دو افسانہ نگار: غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان |
حسنِ ادب
دو افسانہ نگار: غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان

غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان کے افسانے
ARI Id

1689952519654_56116834

Access

Open/Free Access

Pages

۱۲۹

غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان کے افسانے
( تقابلی جائزہ)
غلام فرید کاٹھیا
مہرغلام فرید کاٹھیا کا شمار دور جدید کے فکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔ آپ اردو ادب کے ان ابھرتے ہوئے افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں کہ جنہوں نے اپنے افسانوں کے ذریعے پسماندہ طبقے کے مسائل کی بھرپورعکاسی کی ہے۔ مہرغلام فرید کاٹھیا کے اب تک " تین"افسانوی مجموعے"لمحوں کی قید"،"سرسوں کا پھول"اور"سفید تتلیوں کا ہار" شائع ہو چکے ہیں۔مہرغلام فرید کاٹھیا نے اپنے ان تینوں افسانوی مجموعوں میں محتاجوں،غریبوں،لاچاروں، اور مظلوم عورتوں پر ہونے والے مظالم پر قلم اٹھایا ہے۔ آپ کے تمام افسانے غریبوں کے استحصال اور وڈیروں کے ہاتھوں پسماندہ طبقے سے کی جانے والی ناانصافیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ازل ہی سے بر سرِ اقتدار طبقے نے اپنے سے کم حیثیت لوگوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے ہیں۔امیروں نے غریبوں کو اپنے مفادات کی غرض سے فقط استعمال ہی کیا ہے۔ لوگوں سے تھوڑی اجرت کے بدلے زیادہ مشقت کروائی جاتی رہی ہے۔ پسماندہ طبقے کی غریبی کو مذاق بنا کرحقداروں سے ان کے جائز حقوق چھینے جاتے رہے ہیں۔کارل مارکس کے نظریہ مارکسزم اور ترقی پسند تحریک سے وابستہ افسانہ نگاروں نے جب غریبوں پر ہونے والے جبر و زیادتی کومحسوس کیا تو ان افسانہ نگاروں نے معاشرے کی اصلاح کے لئے غریبوں کے حق میں آواز بلند کرنا شروع کر دی۔ مزدوروں،کسانوں اور غریبوں کو کم اجرت دینے،غریبوں کے غریب تر اور سرمایہ داروں کے امیر تر بنتے جانے کے خلاف جن مصنفین نے اپنی تحریروں میں پسماندہ طبقے کی مشکلات کے حل کے لیے قلم اٹھایا ان میں پریم چند، سعادت حسن منٹو،احمد ندیم قاسمی،عصمت چغتائی،راجندر سنگھ بیدی،اختر حسین رائے پوری وغیرہ شامل ہیں۔
جس طرح ماضی میں دیگر مصنفین و افسانہ نگاروں نے غریبوں کے حق کے لئے قلمی جہاد کیا بالکل اسی طرح آج بھی ہمارے کئی افسانہ نگار اپنے افسانوں کے ذریعے غریبوں کے مسائل کی عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ غلام فرید کاٹھیا کا شمار بھی ان افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے اپنے افسانوں کا موضوع پسماندہ طبقے کے مسائل کو بنایا۔ غلام فرید کاٹھیانے اپنے افسانوں میں غریب کسانوں ،ہاریوں،مزدوروں اور دیگر پسماندہ طبقات کو درپیش مشکلات کی بہترین انداز سے عکاسی کی ہے۔غلام فرید کاٹھیا کیاکثر افسانوں میں مزدور طبقے کے مسائل کی بہترین انداز سے تصویر کشی ملتی ہے۔ان کا افسانہ "دیوانے لوگ" ایک ایسے غریب مزدور کی کہانی ہے جس سے اس کا ٹھیکیدار کم اجرت کے بدلے زیادہ مشقت کرواتا تھا۔ بیچارے غریب کی بیمار بیوی کو دوائی جبکہ اس کی چند روزہ معصوم بیٹی کو خوراک اور دودھ کی اشد ضرورت تھی۔ غریب مزدور کام سے نکالے جانے اور نئی جگہ فورا کام نہ ملنے کے خوف سے ٹھیکیدار کے طعنے اور ظلم چپ چاپ سہتا رہتا ہے۔آج کل ہمارے غریبوں کو مزدوری کے سلسلے میں ایسے ہی بیشمارمسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب مزدوروں کی ملازمت کا تمام ترانحصار ٹھیکیداروں پر ہوتا ہے۔اگران کا جی چاہے تو کسی کو بھی ملازمت پر رکھیں اور اگر چاہیں تو کام سے نکال دیں۔ تھوڑی سی رقم کے عوض مزدوروں سے بہت زیادہ محنت کروائی جاتی ہے اگر کوئی مزدور اس نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرے تو اسے کام سے نکالنے کے ساتھ ساتھ سخت سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔
مزدور آج ہماری ملکی ترقی میں بڑا اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان غریبوں ہی کی وجہ سے ملک کی معیشت خوشحالی و ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ مگر ان غریبوں کو بہتر زندگی کے لیے آسائشیں تو دور کی بات دو وقت کا کھانا تک نصیب نہیں ہوتا۔ امیر اپنی جیب پیسوں سے بھرتے رہتے ہیں جبکہ غریب لوگوں کوتو علاج معالجے کے حوالے سے بھی بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی غریب مزدور یا اس کے خاندان کا کوئی فرد ہیپاٹائٹس،تپ دق،ٹی بی اور دمے جیسی مہلک بیماری کا شکار ہو جائے تو ان کے پاس مہنگے مہنگے پرائیویٹ ہسپتال تو کجا کسی سرکاری ہسپتال میں بھی علاج کروانے کے لیے رقم موجود نہیں ہوتی۔ مجبورا انہیں قریبی جعلی اور سستے کلینک سے دوائی لینی پڑتی ہے،جوکہ تھوڑے عرصے کے لیے تو افاقہ دیتی ہے تاہم بیماری اندر ہی اندر پلتی رہتی ہے اور بلا آخر ایک ناسور کی شکل اختیار کرکے موت یا کسی بڑے نقصان کا باعث بنتی ہے۔غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانوں میں غریبوں کو طبی حوالے سے در پیش مسائل کی بہترین انداز سے عکاسی کی ہے۔ان کے افسانے غربت کی چکی میں پستے لوگوں کی مشکلات اور معاشرتی حوالے سے عدم مساوات جیسے موضوعات کو بیان کرتے ہیں۔
غلام فرید کاٹھیا کے کئی افسانے وڈیروں، جاگیرداروں اورچوہدیوں کے ہاتھوں دیہاتی عورتوں کے جنسی استحصال پر نوحہ کناں ہیں۔ آپ کے افسانے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دیہات کے بڑے بڑے چوہدری،وڈیرے،سائیں اور نواب عورتوں کے تقدس کے حوالے سے نہایت چھوٹی سوچ کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں کسی بھی کسان،ہاری،مزارعے یا مزدور کی بہن، بہو یا بیٹی کی کوئی عزت و آبرو نہیں ہوتی۔ ان کا جب جی چاہے جس مرضی گھر کی عورت کو اغواہ کر کے قتل کردیں یا جتنے مرضی دن تک اپنی ہوس اور درندگی کا نشانہ بناتے رہیں۔ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا کیونکہ یہ سوال کرنے والے کو یا تو قتل کروا دیتے ہیں، درد ناک سزائیں دیتے ہیں یا پھر ان پر چوری و دیگر جرائم کے جھوٹے پرچے بنوا کر عمر بھر کے لیے انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ ان تمام سزاؤں کی وجہ سے کسی میں بھی اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے حق کے لیے آواز بلند کر سکے۔یہ لوگ مجبور و غریب عورتوں اور ان کے بوڑھے ماں باپ کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اپنی ناپاک و نا جائز ضرورتوں کے لیے استعمال کرکے ان سے جنسی آسودگی حاصل کرتے ہیں۔ آپ کے افسانے "ٹھنڈے ہونٹ"،"اندھیروں کا رقص"اور "لمحوں کی قید" خواتین کے جنسی استحصال کی کہانیاں ہیں۔
نچلا طبقہ جن میں چھوٹے کسان، معمولی دکاندار، ہاری، مزدور،کمہار،مزارعے، تھوڑی تنخواہ والے کلرک اور چپڑاسی اورمعمولی ذاتوں والے لوگ شامل ہیں،ان سب کو نہ صرف سرمایہ داروں، امیروں، جاگیرداروں،دیہاتوں کے وڈیروں کی طرف سے دکھوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ ان سے ایک درجہ اوپر وہ افراد جو طبقہ متوسطے سے تعلق رکھتے ہیں،ان کی طرف سے بھی رعب و دبدبے اور ظلم وستم کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ غلام فرید کاٹھیا نے ان تمام مسائل پر بڑی دردمندی سے اپنے افسانوں کے ذریعے بات کی ہے۔ غلام فرید کاٹھیا کے افسانے معاشرے کے دبے کچلے لوگوں کی تکلیفوں اور مذہب کارڈ استعمال کر کے شرپسندی کرنے والے افراد کی سوچ کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانے "ڈائریکٹر جنرل"،"ہیلو ہائے" اور "انتظار" کے ذریعے معاشرے میں شادی اور نکاح کے حوالے سے درپیش رکاوٹوں مثلا ذات برادری کا فرق،روپے پیسے کی تفریق،اور امیری غریبی جیسے مسائل سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔
غلام فرید کاٹھیا کے افسانوں میں ہمارے معاشرے کے ایک بہت بڑے مسئلے کہ جس کا عورتوں کو اکثر اوقات سامنا کرنا پڑتا ہے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔افسانہ نگار نے یہ بتانے کی کوشش یہ ہے کہ ہمارے ہاں اکثرعورتوں کو اپنی خوشی اور رضامندی سے زندگی گزارنے کا حق نہیں دیا جاتا۔ ماں باپ اپنی مجبوریوں کے واسطے دے کر کبھی انہیں اپنے سے دوگنی عمر کے مرد سے بیاہ دیتے ہیں، تو کبھی انہیں باہر نکل کر پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اسی طرح بعض اوقات والدین بے بسی کے عالم میں اپنی ان بچیوں کے لیے کوئی ایسا فیصلہ کر بیٹھتے ہیں جن میں ان کی مرضی شامل نہیں ہوتی مگر انہیں والدین کی عزت کی خاطر سب کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ غلام فرید کاٹھیا نے "اندھیروں کے رقص"افسانے میں بے بس باپ"بابا کرمو"اور اس کی اکلوتی جوان بیٹی کی کہانی بیان کی ہے۔
بابا کرمو ایک ہاری تھا،جسے اپنے گاؤں اور ان زمینوں، جہاں اس کے باپ دادا نے اپنی تمام عمر محنت مزدوری میں گزار دی تھی، سے بہت محبت تھی۔وہ بیمار اور اپنی عمر کے آخری حصے میں تھا۔ گاؤں کا چوہدری جمیل اس کی جوان بیٹی پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ وہ بابا کرموں کو دھمکی کے انداز میں حکم دیتا ہے کہ تم یا تو اپنی بیٹی کو میری حویلی میں بھیج دو یا پھر چپ چاپ یہ جھونپڑی اور میری زمینیں خالی کر دو۔جس پر بے بس باپ اپنی بیٹی کو اس کی مرضی کے بغیر حویلی بیٹھنے کا کہتا ہے۔ غلام فرید کاٹھیا نے چوہدریوں کی بے حسی، مفاد پرستی، جنسی بے راہ روی اور معاشرے کے بھیانک چہرے سے پردہ اٹھایا ہے۔
ہمارے سماج کا یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ اگرکوئی مجبوریوں کی ماری عورت گھر سے باہر نکل کر اپنے شوہر کے ساتھ محنت مزدوری کرنا چاہتی ہے تو اسے معاشرے کی بہت سی ناگوار اور چبتیا ہوئی باتوں اور طعنوں کو سننا پڑتا ہے۔نہ صرف یہ بلکہ انہیں مردوں کی غلیظ نگاہوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مہر غلام فرید کاٹھیا کا افسانہ ٹھنڈے ہونٹ مزدور پیشہ عورتوں کے انہی مسائل کو بیان کرتا ہے۔
افسانہ نگار نے اپنے افسانوں میں یتیم بچوں کو پیش آنے والی مشکلات کا بھی ذکر کیا ہے۔آپ کا افسانہ "انو" یہ ظاہر کرتا ہے کہ جن بچوں کے والدین ان کے بچپن میں ہی انتقال کر جاتے ہیں،انہیں سماجی حوالے سے بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان سے ان کا بچپن چھن جاتا ہے۔وہ پڑھنے لکھنے، رنگ برنگی کتابوں کو تھامنے،اور کھیلنے کودنے کی عمر سے پہلے ہی جوان ہو جاتے ہیں۔ ذمہ داریوں کا بوجھ ان کی خواہشات کو مار کر انہیں سڑکوں،ورکشاپوں اور مزدوری کے اڈوں پر لے آتا ہے۔ان کا بھی جی کرتا ہے کہ وہ بھی کندھے پر بستہ اٹھائے سکول جا کر تعلیم حاصل کریں،بے فکری سے دوستوں کے ساتھ کھیلیں کودیں مگر ان کے معاشی حالات انہیں اس سب کی ہرگزاجازت نہیں دیتے۔غلام فرید کاٹھیا کے افسانے ہماری زندگی میں ہونے والے روزمرہ واقعات کو تجسس و دلچسپی اور حقیقت کی گہرائیوں کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ آپ کے افسانوی مجموعے "لمحوں کی قید"کے اکثر افسانوں میں مکار وڈیروں کی دوہری شخصیت اور منافقت کا پردہ کھل کر چاک ہوتا ہے۔ اس مجموعے کے اکثر افسانے یہ واضح کرتے ہیں کہ اس طرح یہ نام نہاد عزت کے مالک چوہدری اور وڈیرے اپنے پالتو غنڈوں کے ذریعیاپنے کسی بھی نا پسندیدہ شخص کو قتل کروا کر اس کی موت کا سارا الزام اپنے مخالفین پر تھونپ کر انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھجوا دیتے ہیں۔ غلام فرید کاٹھیا کے افسانوں میں منفی جاگیردارانہ سوچ کا کھلا اظہار دیکھنے کو ملتا ہے۔ غلام فرید نے اپنے افسانوی مجموعے"لمحوں کی قید" میں جیل کے قیدیوں کی زندگی کے لمحات کو بیان کیا ہے۔ان کے یہ افسانے آج کل کے سماج کی ثقافتی،دیہاتی، تہذیبی اور طبقاتی زندگی کی کا عکس دکھائی دیتے ہیں۔
غلام فرید کاٹھیا نے اپنے بعض افسانوں میں متوسط طبقے کو درپیش مشکلات کا بھی ذکر کیا ہے۔مثلا ان کا افسانہ "ڈائریکٹر جنرل " متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک لڑکے سروش کی کہانی ہے۔ سروش جو کہ ایک نہایت لائق،محنتی،اصول پسند، کھڑی طبیعت کا مالک اور خوددار انسان تھا۔ اس کے باپ نے گھریلو اخراجات سے پائی پائی کر کے تھوڑی تھوڑی رقم بچائی اور کمیٹیوں کے ذریعے پیسے جوڑ کراپنے بیٹے کو پڑھایا تاکہ وہ پڑھ لکھ کر کسی اچھی جگہ نوکری کرے،چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم اور والدین کے بڑھاپے میں مدد کرے۔مگر یونیورسٹی سے اچھے نمبروں میں ڈگری حاصل کرنے کے باوجود بھی اسے کسی اچھی جگہ نوکری نہیں ملتی۔ کیونکہ اس کے پاس کوئی سفارش یا رشوت دینے کے لیے بہت زیادہ رقم موجود نہ تھی۔ غلام فرید کاٹھیا کے افسانے ہمارے معاشرے میں روز بروز بڑھتی کرپشن اور اس کے نتیجے میں پیدا شدہ مشکلات و مسائل مثلا چوری چکاری،دھوکہ دہی،بدامنی و فراڈ، خود غرضی کے پیچھے چھپے محرکات کو واضح کرتے ہیں۔
آج غربت ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے اس کی سب سے بنیادی وجہ مہنگائی کا روز بروز بڑھتا طوفان ہے۔ غریبوں کے پاس اپنی ضروریات زندگی کی دستیابی کے لئے رقم موجود نہیں ہوتی۔ تھوڑی تنخواہ اوربہت سارے مسائل ہونے کی وجہ سے غریب بیچارہ غربت کی چکی میں پسنے پر مجبور ہے۔غریبوں کے پاس اچھی خوراک،تعلیم اورصحت جیسی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔اس سب کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں غربت اور ناخواندگی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔والدین اپنے بچوں کو پڑھانے کی بچائے بچپن ہی سے محنت و مزدوری پر لگا دیتے ہیں۔یوں یہ ننھے بچے کتابیں بستہ تھامنے کی عمر میں مختلف دکانوں،ہوٹلوں اور ورکشاپوں پر کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
قدرتی آفات، سیلاب اور زنزلے وغیرہ وہ آزمائشیں ہیں جو امیری غریبی کے فرق کے بغیر کبھی پر بھی کسی بھی لمحے آ سکتے ہیں۔ امیر اور سرمایہ دار لوگ تو اپنے روپے پیسے کی بدولت دوبارہ اپنے مکان تعمیر کر لیتے ہیں،جانی نقصان کے علاوہ ہر شے کا ازالہ کر لیا جاتا ہے۔ تاہم غریب بیچارہ جس نے اپنی عمر بھر کی پائی پائی جوڑ کر اپنا مکان بنایا ہوتا ہے،کسی بھی نقصان کی صورت معاشی و جذباتی حوالے سے ٹوٹ کر رہ جاتا ہے۔
غلام فرید کاٹھیا نے "سرسوں کے پھول"کے تین افسانوں یعنی" پتھر کی گرفت "، "ویرانے کا پھول "اور "میں انجینئر بنوں گا" میں زلزلے کے نتیجے میں غریبوں کی مشکلات کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ قدرتی آفات امیر و غریب ہر ایک کو متاثر کرتی ہیں ،مگر ہاں غریب طبقہ امیروں کی نسبت اس سے زیادہ بری طرح متاثر ہوتا ہے۔غلام فرید کاٹھیا نے غریبوں کی ان درد بھری کہانیوں کے ذریعے سے زلزلے کے نتیجے میں درپیش تکلیفوں کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کس طرح سے جب دیہات میں زلزلہ آتا ہے توغریبوں کے گھر اور بستیاں اس آزمائش کی نذر ہو جاتی ہیں۔ لوگوں کے مکان ملبے تلے دب جاتے ہیں۔ہر طرف زخمیوں کی چیخ وپکار اور آہ و زاری ہوتی ہے تاہم انہیں سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ان بیچاروں کے لیے کوئی سرکاری مشینری نہیں آتی جو انہیں یا ملبے کے نیچے دبے انکے سامان اور پیاروں کو باہر نکالے۔ یہ غریب لوگ اپنی مدد آپ کے تحت تمام مصیبتوں سے خود ہی نہیں نمٹتے ہیں۔ مگر بعض لوگ تو کئی دنوں تک انہی حالات میں پھنسے مدد کی دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ شاید کوئی آ کر معاشی حوالے سے ان کا سہارا بنے مگر ان کی یہ چیخ و پکار سن کر مدد کو آنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ یوں ان کی آوازیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان کے حلق ہی میں پھنس کر رہ جاتی ہیں۔
غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانوں کے ذریعے دیہاتی زندگی کی مشکلات سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔گاؤں اور دیہات وغیرہ میںاکثر اوقات وڈیروں،زمینداروں،نوابوں اور چوہدریوں کا راج ہوتا ہے۔جو کہ غریبوں پر ظلم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ روپے پیسے اور طاقت کے نشے میں ڈوبے جاگیردار اپنی زمینوں کی کھیتی باڑی اور دیکھ بھال کیلئے چھوٹے کسانوں، ہاریوں، مزدوروں اور مزارعوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔وہ ان غریبوں سے محنت و مشقت تو کروا لیتے ہیں تاہم ان کی مشقت کا پورا معاوضہ نہیں دیتے۔ان کے خیال میں ان غریبوں کی اتنی اوقات نہیں ہوتی کہ انہیں بہت زیادہ اجرت و عزت سے نوازا جائے۔ اگر انہیں ان کا پورا حق دے دیا جائے تو ان کی تو عقل ٹھکانے نہ رہے گی۔ اس لیے ان غریبوں کو فقط اتنا اناج دیا جاتا ہے کہ وہ دو وقت روکھی سوکھی کھا لیں۔ یہ جاگیردار غریبوں کو ان کی محنت سے کمائی روزی تک نہیں لینے دیتے،کیونکہ ان کی نگاہ میں یہ لوگ کم ذات اور کم حیثیت ہوتے ہیں اس لیے ان کے نزدیک ان کی کوئی قدر و قیمت بھی نہیں ہوتی۔ غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانوں میں غریب مزدوروں پر ہونے والے مظالم کو بڑی دردمندی سے بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مزدور بچارے محنت مشقت کے باوجود بھی ان جاگیروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔انہیں اپنے لیے انصاف مانگنے،حتیٰ کہ مالک سے کسی شکوے تک کی اجازت نہیں ہوتی۔کیوں کہ انہیں اپنی ملازمت چھن جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔
غلام فرید کاٹھیا کے افسانے عہد حاضر میں غریبوں کو درپیش تکالیف و مشکلات کی عکاسی کرتے ہیں۔غلام فرید کاٹھیانے اپنے افسانوںمیںسرمایہ داروں،نوابوں،وڈیروںاور جاگیرداروں کے دوغلے پن،مکاری و ریاکاری،خود غرضی، فرعونیت، جھوٹی شان و شوکت اور خودی جیسی باتوں کو منظر عام پر لانے کی جی جان سے کوشش کی ہے۔اور وہ بہت حد تک اس میں کامیاب بھی ٹھہرے ہیں۔ آپ کے افسانوںکے موضوعات میں خاصی جدت پائی جاتی ہے۔آپ نے جن افسانوی موضوعات کا انتخاب اپنے افسانوں میں کیا،ان سے قبل ان موضوعات پر بہت تھوڑا لکھا گیا۔ چونکہ پس ماندہ طبقے کی مشکلات کی لسٹ کافی لمبی ہے، افسوس کے ہمارے افسانہ نگاروں نے ان موضوعات پر کبھی کھل کر قلم ہی نہیں اٹھایا۔ بلکہ ہمارے ہاں تو وہی پرانے موضوعات ہی بار بار افسانوں کی زینت بنتے آ رہے ہیں۔ جن میں کسی امیر کبیر باپ کی بگڑی ہوئی اولاد، رئیس کا بزنس مین بیٹا یا کسی سول آفیسرکا بچہ اعلیٰ سرکاری عہدے پرفائزدکھایا جاتا ہے۔وہی پرانے عشق و معشوقی کے قصوں کہانیوں میں لوگوں کو الجھا کر پسماندہ لوگوں کی مشکلات کو پس پشت ڈالا جاتا ہے۔
غلام فرید کاٹھیا کا شماران افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے،جو آج کے دور میں غریبوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں،جو یتیموں،مسکینوں اور بے سہاروں کے دکھوں کو اپنا دکھ اور اپنی تکلیف مانتے ہیں، جن میں درد انسانیت کوٹ کوٹ کر بڑھا ہوتا ہے،جو سچ کا ساتھ دیتے اورحق کی بات پر ڈٹ جاتے ہیں۔ غلام فرید کاٹھیا کے افسانوں میں غریبوں کی زندگی کا کرب واضح جھلکتا ہے پھر چاہے وہ تیزدھوپ میں محنت مزدوری کرتی عورتوں کا جنسی استحصال ہو،جبر کے مختلف رویے سہتے محنت کش ہوں،طاقتور کا ظلم ہو،علاج و صحت کی سہولتیں کا فقدان ہو، کسی مجبوری کے تحت کام سے چھٹی کرنے والے محنت کش کی ملازمت و تنحواہ کا مسئلہ ہو۔ یا کسی محنت کش ہاری پر ہونے والے جبر کی داستان ہو،غلام فرید کاٹھیا نے ان تمام مسائل کو بڑے ہی بہترین انداز سے بیان کیاہے۔ غلام فرید کاٹھیا کے افسانے معاشرے کی زندہ حقیقتیں معلوم ہوتے ہیں۔
غلام فرید کاٹھیا کے افسانوں کے جائزے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آج ہمارے ملک میں تقریباً60 فیصد سے زیادہ لوگ غربت اور پسماندگی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ان کے گھریلو حالات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ سکون سے دو وقت کی روٹی تک نہیں کھا سکتے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب ان کے مسائل حل ہونے کی بجا ئے آئے روز بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ غلام فرید کاٹھیا کے افسانے جیل میں قید بے گناہ لوگوں اوردیہات میں رہنے والے معصوموں پر ہونے والے مظالم کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ بیشک غلام فرید کاٹھیا اردو فکشن کے لیے ایک بہترین اضافہ ہیں۔
شاہد رضوان
شاہد رضوان کا شمار ہمارے جدید دور کے ان ابھرتے ہوئے فکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔ کہ جنہوں نے اپنے افسانوں کے ذریعے سماجی مسائل کی بڑی دردمندی سے تصویر کشی کی ہے۔ شاہد رضوان افسانے کی روایت کے ساتھ مضبوطی سے جڑے وہ افسانہ نگار ہیں جو منٹو کو اپنا روحانی پیر اور پیشوا مانتے ہیں۔شاہد رضوان کے افسانوں کے موضوعات ہمارے اسی سماج سے جنم لیتے ہیں۔جس کرب اور بے بسی کے عالم میں ہم آج مبتلا ہیں اس کی تصویر کشی ان کی کہانیوں میں واضح نظر آتی ہیں۔
شاہد رضوان کے اب تک چارافسانوی مجموعے"پتھرکی عورت"،"پہلا آدمی" ، "آوازیں" اور "ادھوری کہانی کی تصویر" چھپ چکے ہیں۔ شاہد رضوان کے افسانوی مجموعوں میں درمیانے طبقے کی عورتوں کے مختلف روپ، مردانہ ظلم سہتی خواتین،نو بیاہی عورتوں کے ارمانوں،دہشت گردی کا بازار گرم کرنے والے عناصر، معاشرتی منافقت، عوام سے ناجائز پیسہ بٹورنے،کرپشن کرنے والے حضرات، ، اور زندگی کی مختلف کہانیاں بڑی خوبصورتی سے سموئے گئے ہیں۔
شاہد رضوان نے اپنے افسانوں میں نفسانی خواہشوں، تشنہ آرزوؤں، اور جنسی بے راہ روی کے باعث معاشرے میں پروان چڑھتی اخلاقی پستیوں کا بہت کھل کر ذکر کیا ہے۔ شہروں میں بسنے والے لوگوں کی زندگیوں میں سستی،بد نیتی،بددیانتی، رشوت خوری، ضمیر فروشی، بے چینی،بے اعتنائی ،بے پرواہی، بے وفائی اور اعتبار کی کمی نے ڈیرے جما لئے ہیں۔دیہات کی کہانیاں ہوں یا کہ شہرکے لوگوں کے قصے،اب ہر طرف مطلب پرستی کی فضا پھیل چکی ہے۔ شاہد رضوان نے ان تمام حالات کو اپنے افسانوں میں بہت ہنر مندی سے بیان کیا ہے۔
شاہد رضوان کا شماران افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جن کے افسانوی موضوعات میں خاصا تنوع پایا جاتا ہے۔شاہد رضوان کے افسانوں میں"وطن سے محبت کے جذبات ،اپنوں کے چھوٹ جانیکا دکھ، ،زندگی کے غم، خوشیوں کی نوید ،عورت کو سماجی حوالے سے درپیش مسائل،محبت کی بے وفائی ظلم و جبر، جنسی استحصال،ثقافتی روایات، لوگوں کی سادہ لوحی یہاں تک کہ زندگی کا ہر رخ اور ہر پہلو دکھائی دیتا ہے۔ ان کے افسانوں میں جدید معاشرت جھلکتی ہے۔ شاہد رضوان نے تن اور من کے تضاد کے نتیجے میں ضمیر میں پیدا ہونے والی کشمکش کو بڑی فنی مہارت اور نہایت احسن انداز سے قارئین کے سامنے بیان کیا ہے۔
شاہد رضوان سرمایہ داروں،امراء اور برسر اقتدار حضرات کی طرف سے طبقات کے فرق، ظلم اورنا انصافیوں کو بڑے ہی پر درد انداز سے اپنے افسانوں میں جگہ دیتا ہے۔ ان کی تمام کہانیوں میں جگہ جگہ غلام عباس کے افسانوں جیسی وسعت اور منٹو جیسی جنسی سفاکی کا کھل کر اظہار ملتا ہے۔ شاہد رضوان جدید دور کے انسان کی سوچ و عادات اور موجودہ حالات پر گہری نظر رکھتا ہے۔اسی وجہ سے اس کے افسانوں میں دلچسپی و تجسس کا عنصرنمایاں ہے یہی وجہ ہے ان کی کہانی پڑھنے والا کہانی کو درمیان میں ادھورا نہیں چھوڑ پاتا۔ شاہد رضوان کے افسانوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اکثر اوقات کہانی کا اختتام نہیں کرتا بلکہ اسے قارعین ہی پر چھوڑ دیتا ہے تاکہ وہ اپنی سوچ کے ذریعے کوئی حتمی نتیجہ نکالے۔
شاہد رضوان کے افسانوں میں اچھائی اوربرائی کی تفریق بڑے ہی واضح انداز میں نظر آتی ہے۔افسانہ نگار کے افسانوں کو پڑھ کر سماج کی بے رحمی کا پتا چلتا ہے۔شاہد رضوان کے افسانوں کی زبان نہایت سادہ ،موثر اور قارئین کو اپنے سحر میں جکڑنے والی ہے۔ان کے افسانوں میں جزئیات نگاری ،تفصیلات،اور محکمات کا بڑی ہنرمندی سے استعمال کیا گیا ہے۔ شاہد رضوان کے افسانے سماج کی سیاسی،معاشی،معاشرتی اورثقافتی صورتحال کے گرد تشکیل پاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے پڑھ کر حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔
شاہد رضوان کے افسانوں کے کردار نچلے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔جو اپنے ماحول اور طبقے کی زبان کی بہترین انداز سے عکاسی کرتے ہیں شاہد رضوان کی کہانیوں میں معاشرے کی ثقافت جھلکتی ہے اور ان کے افسانے روانی سے بھرپور ہیں۔ وہ اپنے افسانوں میں زندگی کی حقیقتوں کی خوب ترجمانی کرتے اور افسانے کو غیر جانبداری پیش کرتے ہیں۔ شاہد رضوان کے افسانوی کرداراپنے پڑھنے والوں سے گفتگو کرتے،خوشیاں اورغم بانٹتے،زندہ سلامت دکھائی دیتے ہیں۔ ایک بہترین افسانہ جن خصوصیات کا حامل ہوتا ہے ،ان سب خوبیوں کی موجودگی کا شاہد رضوان کے افسانوں میں پایا جانا شاہد کی افسانے سے دلچسپی و گہری وابستگی کا ثبوت ہے۔
دین اسلام نے عورت کو تمام مذاہب سے زیادہ عزت دی۔ اسے ماں ،بہن ،بیوی اور بیٹی کے مقدس رشتوں میں وقار سے جینے کا حق دیا۔ مگر ہمارے ہاں عورت کو اس کے جائز حقوق ہی سے محروم کردیا جاتا ہے۔غربت ، جہالت، ہوس پرستی اور لالچ پر مبنی معاشرے میں آج یہ عورت ہر طرح سے ذلیل و رسوا ہو رہی ہے۔اگر یہ غربت کے مارے مہنگائی سے تنگ آکر گھریلو حالات بدلنے کی خاطر باہر نکل کر ملازمت کرتی ہے تو اسے مردوں کے چبھتے ہوئے طنزیہ جملوں اور ہوس پرست نگاہوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تو کہیں اسے سسرالی رشتوں اور بندھنوں کی زنجیروں میں جکڑ کر قربانی مانگی جاتی ہے۔ تو بعض اوقات اسے بیاولادی کا طعنہ دے کر گھر سے بے دخل کیا جاتا ہے۔ آج کل عورت سے جنسی واجتمائی ظلم و زیادتی اورگھریلو تشدد کے واقعات بہت بڑھ چکے ہیں جس کی وجہ سے طلاق اور خودکشی کی شرح میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
ہمارے معاشرے میں راہ چلتی خواتین پر آوازیں کسنا، انہیں برے برے ناموں سے پکارنا،مختلف طریقوں سے انہیں بلیک میل کرنا عام سی بات بن چکی ہے۔ جوان بہنوں کا خود ساختہ غیرت کے نام پرقتل،طاقتوروں کی طرف سے عورت کا اغوا، کام کرنے کی جگہوں پر عدم تحفظ ،کہیں آنے جانے پر پابندی ،زنا بالجبر،صحت و علاج کی سہولیات کا نہ ملنا، قرآن سے نکاح، کم عمری کی شادی،وٹہ سٹہ،کاروکاری،تعلیم سے محرومی،خود خلع نہ لے سکنے کی اجازت جیسے بے شمار مسائل ایسے ہیں،کہ جن کا شکار ہمارے معاشرے کی عورت ہے۔
عورت اپنی مرضی سے پسند کی شادی نہیں کر سکتی۔اسے اپنے شوہر کے ظلم کی شکایت کرنے کا حق نہیں ہوتا،ختی کہ ظلم یہ ہے کہ باپ کی وراثت میں ملنے والے حصے تک پربھائی قابض ہو جاتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ آج عورت کا جنسی وذہنی استحصال،محبت میں نا مرادی ،مرد کی خفیہ شادیوں، مزدوری کے سلسلے میں برسوں بیرون ملک مقیم رہنا وغیرہ ایسے مسائل ہیں جن کے حل اور خاتمے کی بہت ضرورت ہے تاکہ عورت بھی معاشرے میں عزت کے ساتھ سکھ کا سانس لے سکے۔شاہد رضوان نے اپنے افسانوں میں عورت پر ہونے والے ان تمام مظالم پر بڑی جرات مندی سے کھل کر بات کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاہد رضوان کے بیشتر افسانوں میں ہمیں متوسط طبقے کی عورت کے مختلف کردار نظر آتے ہیں۔’’آوازیں‘‘میں شوہر کی نامردی پر چپ رہ کر بانجھ عورت کا لقب پاتی کنول ہو یا مائی مستانی،’’پتھر کی عورت‘‘کی رضیہ کی کہانی ہو یا کہ چندا کے دل میں پنپتے خوشحالی کے خواب ،’’آخری سیڑھی‘‘کی طوائف نیلوفر ہو یا پھر ’’کتیا ‘‘افسانے میں شگفتہ ، یہ تمام ہی معاشرے کے ظلم سہتی مختلف خواتین کی نمائندگی کرتی ہیں۔ تانیثی حوالے سے شاہد رضوان کے بہترین افسانوں میں ’’جوگی چوک‘‘، ’’ تارکول کی سڑک‘‘ ،’’سفید بال‘‘،’’دجال‘‘، ’’غارت گر لمحہ‘‘،’’ٹرمینل‘‘اور’’ٹھیکے دار‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ غرض شاہد رضوان نے اپنے افسانوں میں مختلف ادارے میں زیر تعلیم بچیوں سے لے کر خاندانی جبرسہتی عورتوں،نئی نویلی دلہنوں،مشقت ومزدوری کے لیے دھکے کھاتی عورتوں اورسماجی ستم سے اکتائی خواتین وغیرہ ہر ایک کے مسائل کو بیان کیا ہے۔ آج ہمارے ملک کے غریبوں کے لئے روزگار کا مسئلہ اک بہت بڑی مشکل بن گیا ہے۔ مہنگائی کے سبب غریبوں کے پاس کھانے کو روٹی نہیں تو کہیں مجبوریوں کیماریلوگ اپنی چھتوں سے محروم ہیں۔پینے کے صاف پانی کی شدید کمی ہے، تعلیم اور صحت کی سہولیات فقط امیروں ہی کے لیے ہیں۔ غریب بیچارے کا کوئی پرسان حال نہیں۔ سرکار کو صرف اپنے خزانے بھرنے کی فکر ہے۔ غریب بیچارہ آئے روز امیروں کے نواب زادوں کی گاڑیوں کی ٹکروں کے نتیجے آ کر حادثوں کا شکار ہو رہا ہے،کسی بھی سیاسی پارٹی کے لیڈر سے دشمنی کے باعث اس کے معمولی کارکن گولیوں کا نشانہ بنا کر بھون دیے جاتے ہیں،لوگوں سے آج آزادی رائے کا اختیار چھین لیا گیا ہے، دہشت گردی کے نتیجے میں معصوم لوگ اپنی جانوں سے جا رہے ہیں۔ یتیموں،بیواؤں،اور بے سہاروں کا کوئی آسرہ نہیں رہا۔ لوگ قدرتی آفات کے سبب سالوں تک نارمل زندگی کی خوشیوں کی طرف نہیں لوٹ پاتے۔ خودکش حملے خاندان بھر کو اجاڑ رہے ہیں،معصوموں کی شہادتوں کے کی وجہ سے کتنے ہی بچے یتیمی کی زندگی کے سبب کم عمری ہی میں کمانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ شاہد رضوان نے ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے ان تمام مسائل اور مشکلات کواپنے افسانوں کے ذریعے اجاگر کیا ہے۔شاہد رضوان کا دل انصاف کے لئے در بدر پھرتے عوام ، ملازمت کیلئے دھکے کھاتے لوگوں،زمینوں کی رجسٹری،اور کئی سالوں سے لٹکے کیسوں کی پیشیوؤں، اوررشوت خوروں کے مکرو فریب کے سبب بہت کڑھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاہد رضوان نے اپنے افسانوں میں انصاف کے کھوکھلے نظام، لوگوں کی خودغرضی و مفادانہ ذہنیت ،تلخ رویوں، سیدھے سادھے دیہاتیوں کے جعلی بابوؤں کے جھانسے میں آنے،عورتوں سے معاشرتی ظلم کو بڑے ہی موثر انداز سے اپنی کہانیوں میں جگہ دی ہے۔ شاہد رضوان نے رشوت خوری،وراثت کے گنجلگ معاملوں، قدرتی آفاتوں،زلزلوں، سیلابوں کے نتیجے میں ہونے والے جانی و مالی نقصان اور سماج کے بھیانک چہروں سے پردے نوچنے کی جرأت مندانہ کوشش کی ہے،اور آپ اس میں بہت حد تک کامیاب بھی ٹھہرے ہیں۔ بلاشبہ شاہد رضوان جدید اردو افسانے کے لیے ایک شاندار اور بہترین اضافہ ہیں۔
غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان کے افسانوں کا تقابل
غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان دونوں دور حاضر کے ذہین اور فاضل فکشن نگار ہیں۔ان دونوں ہی کی افسانہ نگاری کا دائرہ کار خاصا وسیع ہے۔ان کے افسانوں کے متعدد کردار جیتے جاگتے معلوم ہوتے ہیں۔ شاہد رضوان اور غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانوں میں ماضی کی روایت سے انحراف کرتے ہوئے اپنے اپنے شعور کے مطابق سماج کی فضا کی بڑے ہی بھر پور انداز میں تصویر کشی کی ہے۔ان دونوں کے کرداراپنی ذہانت اور زندگی کی شکست و ریخت سے پیدا ہونے والی فضا میں اپنے ذہن اور کردار وعمل کے لحاظ سے اپنے فیصلوں پر چلتے دکھائی دیتے ہیں۔اگر ہم دیکھیں تو ان دونوں کے ہاں پائے جانے والے نسوانی کردار مردوں ہی کی طرح جاندار اور اپنے قول و فعل کے خود ذمہ دار نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی سوچ کے ذریعے اپنی پہچان کرواتے،اور اپنے عہد کے انسان کے دکھ سکھ ،آرزوؤں، تمنّاؤں،محرومیوں اور شادمانیوں کا عکس دکھائی دیتے ہیں۔
غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان دونوں اردو افسانے کی روایت سے جڑے بہترین افسانہ نگار ہیں۔بلاشبہ دونوں کا اسلوب سادہ،دل نشین،اور موثر ہے۔ دونوں افسانہ نگاروں نے اپنے اپنے انداز سے عوامی مسائل کو اپنے افسانوں میں جگہ دی،غربت کی چکی میں پستے لوگوں کی آواز بنے۔ ان کے افسانے صداقت سے معمور،عصری معاشرت اور اس کے مسائل کے آئینہ دار ہیں۔ معاشرتی اور سماجی جبر کے نتیجے میں پیدا ہونے والے المیے دونوں ہی مصنفین کے افسانوں کا موضوع بنتے دکھائی دیتے ہیں۔ غلام فرید کاٹھیااور شاہد رضوان کے افسانوں کے کردار ہمارے اسی معاشرے سے جنم لیتے ہیں،اور جس کرب ، دکھ ،تنہائی اوربے کسی کے عالم سے ہم گزر رہے ہیں اس کی تصویریں ان کے افسانوں میں جابجا ملتی ہے۔
غلام فرید کاٹھیا کے افسانوں کے اکثر موضوعات پسے ہوئے طبقے کے غریب کسانوں، ہاریوں، مزدوروںاور دیگر پسماندہ افراد پرمشتمل ہیں،جبکہ شاہدرضوان کیافسانوی موضوعات متوسط طبقے کے مسائل اور خصوصا عورتوں پر ہونے والے سماجی و جسمانی مظالم پر مبنی ہیں۔ طبقاتی کشمکش پر کڑھتے، ناانصافیوں اور ظلم کی داستانوں کو اپنے افسانوں میں سموتے ان افسانہ نگاروں کے افسانوں میں جہاں کافی تنوع اور وسعت پائی جاتی ہے،وہیں ان کے ہاں کچھ موضوعات ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو دونوں میں مشترک ہیں۔اس لئے ان دونوں افسانہ نگاروں کے فکروفن کا تقابلی مطالعہ کیا جانا از بس ضروری ہو جاتا ہے تاکہ نہ صرف یہ کہ دونوں کی فکری و تکنیکی خصوصیات پر روشنی ڈالی جاسکے بلکہ ان کے فرق و امتیاز اور مماثلتوں اور مخالفتوں کو بھی واضح طور پر سامنے لایا جاسکے ،تاکہ موجودہ صدی کے ادبی ماحول کے تناظر میں ان جدید اورابھرتے ہوئے افسانہ نگاروں کے فکر و فن کے مطالعے سے مستقبل کے معمار کا تعین کیا جاسکے۔
رشوت ہمارے ملک کے تمام ہی اداروں میں زہر کی طرح سرایت کر چکی ہے۔آج ہمارا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جہاں اس کا راج نہ ہو۔ تعلیمی ادارے ہوں،کسی نوکری کا حصول ہو،کوئی عدالتی فیصلہ ہو یا کے وراثت کی رجسٹری وغیرہ کے معاملات،رشوت نے ہر جگہ ڈیرے جما لئے ہیں، ہر طبقہ اس میں ملوث نظر آتا ہے ،چاہے کوئی غریب مزدور کا ہو یا پھر امیر،چھوٹی پوسٹ پر کام کرنے والے کلرکہوں یا بڑے محکموں کے ملازمین،اب ہرکوئی اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ غرض ہمارے ملک میں آج رشوت کا بازار ہر سو گرم ہے۔ شاہد رضوان نے اپنے افسانوں کے ذریعے ملک میں ہونے والی کرپشن،لوٹ مار اور رشوت کے بارے میں بڑے ہی مؤثر انداز سے بتایا ہے۔
ان کا افسانہ ’’بابا جی‘‘ایک بزرگ محمود کی کہانی ہے،جو کے اپنی جوانی میں اپنے گھر کے قریب ایک خالی پلاٹ قیمتًاالاٹ کروانا چاہتے تھے۔ وہ اپنے بڑھاپے تک پہنچ گے مگر ان کا پلاٹ الاٹ نہ ہو سکا۔ محمود نے اپنی ساری جوانی کچہریوں،پٹواریوں اور کلرکوں کے دفتروں کے چکر لگانے میں صرف کر دی۔مگر سرکاری دفتروں میں بیٹھے رشوت خوروں نے تمام تر قانونی کارروائیاں پوری ہونے کے باوجود بھی ان کے نام پلاٹ کا اجراء نہ کیا۔ شاہد رضوان نے اپنے اس افسانے کے ذریعے بتایا ہے کہ کس طرح ایک شخص اپنی جوانی کی تمام تر بہاریں اور زندگی کے خوبصورت ترین ایام زمینی بکھیڑوں میں گزار دیتا ہے۔ سرکاری دفتروں میں بیٹھے پٹواری،کلرک اور آفیسر باربار فائلیں اوپر سے نیچے بدل کر اس سے خرچے پانی کے نام پر پیسے بٹورتے رہتے ہیں۔
افسانے کے مرکزی کردار محمود نے قیام پاکستان سے قبلزمین کا ایک ٹکڑا اپنے نام کروانے کے لیے درخواست دی تھی ، ملک کو بنے ہوئے اتنے سال بیت گے مگر اس کا پلاٹ اس کے نام جاری نہ ہوسکا۔بچارہ محمود کچہریوں،کلرکوں اور آفیسروں کے سامنے پیش ہوتے ہوئے تھک گیا۔ مگر یہ سب لالچی ملی بھگت سے اسے ہر دفعہ کل آنے یا اگلی پیشیوں کا کہہ کر سفید جنڈی دکھاتے رہے۔ کبھی ریڈر کبھی پٹواری،کہیں چپڑاسی کبھی کلرک تو کبھی نائب تحصیل دار دستخط کروانے،ڈائری نمبر دلوانے،پیشی میں اوّل نمبروں پر لانے،بیع نامے پرکبھی دستخطوں کا سنا کر ہر بار میں اس بچارے کو لوٹتے رہے۔ہر نئے آنے والا آفیسر سابقہ افسروں کے کھولے گے کیسوں کو بند کر کے نئے کیس کھول لیتا تھا جس کی وجہ سے محمود کا کیس لٹکتا گیا۔
شاہد رضوان نے اپنے اس افسانے کے ذریعے زمینی معاملوں میں ہونے والی تاخیر کے پیچھے کارفرما تمام عناصر اور کرداروں کے مکروہ چہروں سے نقاب ہٹانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ افسانے کی کہانی بہت جاندار ہے۔ رشوت خوری کو موضوع بنا کر مصنف نے معاشرے کے ان ناسوروں پر کاری ضرب لگائی ہے جو عوام کا پیسہ حرام ذرائع سے کما کر اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں۔شاہد رضوان نے محمود اور کلرک کے درمیان مکالمے اوراس دوران کلرک کے رشوت کے تقاضے کو یوں بیان کیا ہے :
’’وہ سو کا نوٹ دے کر ایک طرف لکڑی کے اسٹول پر بیٹھ گیا۔لڑکا فائل ڈھونڈنے لگا،کچھ ہی دیر بعد فائل مل گئی۔کلرک نے پیشی کی تاریخ ڈال کر اسے رخصت کر دیا تھا۔وہ جب بھی جاتا صاحب چھٹی پر ہوتے، تین مہینے اسی طرح گزر گئے،دو تین بار ایسا ہوا کے صاحب بیٹھتا مگر جب اس کی باری آتی صاحب اٹھ جاتا،کیونکہ اس کا نمبر آخری نمبروں میں ہوتا تھا۔’’آخری نمبر والوں کی پیشی پڑتی ہے، کام نہیں ہوتا،کام کروانے کے لیے پہلے نمبروں میں شامل ہونا بہت ضروری ہے"،اسے سمجھ آگئی تھی۔ آخر تنگ آ کر اس نے کلرک سے ساز باز کی،‘‘پہلے نمبروں میں آنے کے لئے۔۔۔ ایک ہزار کا نوٹ لگے گا"،کلرک نے صاف بتا دیا تھا۔اس نے پانچ سو دیئے اور منت سماجت الگ کی۔کلرک اس نے اس کا نام آئندہ پیشی میں دسویں نمبر پر لکھ دیا تھا۔‘‘(1)
ہمارے معاشرے میں امیر طبقے کی جانب سے ازل ہی سے غریبوں کا استحصال کیا جاتا رہا ہے۔آج بھی ان بیچاروں کے حقوق چھیننے کے ساتھ ساتھ انہیں ہر طرح سے بے عزت کیا جاتا ہے۔ معاشرے کے امیروں کی نگاہ میں ان کی کوئی وقعت نہیں۔ وہ انہیں طرح طرح سے ذلیل کرتے ہیں۔ Iان کے جائز حقوق سے انہیں محروم کرتے ہیں۔محنت مزدوری یعنی کام کاج والی جگہوں پر ان کے حق مارتے ہیں۔ ان بیچارے معصوم لوگوں کو ان کی پوری اجرت نہیں دی جاتی،اپنے مفاد کے لئے ان سے غلط اور ناجائز کام بھی کروائے جاتے ہیں۔اگر کوئی یہ سب کرنے سے انکار کرے تو اسے کام سے نکالنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
ہمارے اکثر دیہاتوں میں وڈیروں، جاگیرداروں،زمینداروں اور نوابوں کا راج ہوتا ہے جو اپنے ہاں زمینوں پر محنت مزدوری اور کام کرنے والوں پر طرح طرح سے ظلم ڈھاتے ہیں۔ ان کو کام کی پوری اجرت نہیں دیتے،بلکہ ان سے زبردستی زیادہ مشقت کروائی جاتی ہے،ان مزدوروں کی عورتوں کی عزتوں کو تارتار کیا جاتا ہے،جب مرضی جس وڈیرے کا جی چاہتا ہے اپنے مخالفین میں سے کسی کو بھی قتل کروا کر جھوٹا الزام اپنے ان ملازمین پرڈال کر انہیں تمام عمر کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے پھینکوا دیتا ہے۔ پولیس ان کے گھر کی باندی ہوتی ہے،جو ان کے روپے پیسے اور اثر و رسوخ کے باعث غریبوں پر بنا کسی ٹھوس ثبوت مقدمے ڈال دیتی ہے۔ غریب بیچارے کے پاس نہ تو اتنا روپیہ پیسہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ضمانت کروا سکے،اور نہ ہی اس قدر طاقت کہ ان فرعون نما لوگوں کے سامنے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کر سکے۔چناچہ وہ تمام عمر جیل ہی میں گزار دیتا ہے،جہاں جیل وارڈن اور عملے کی طرف سے اسے غیر انسانی برتاؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیل کی کوٹھریوں میں مقید قیدیوں کو کھانے پینے کے لیے غیر میعاری کھانا دیا جاتا ہے۔ یہ پولیس والے اچھے بھلے آدمی کو مار مار کر ملزم سے مجرم ثابت کروا دیتے ہیں۔ یہ لوگ اکثرعلاج اور صحت کی سہولیات سے بھی محروم رہتے ہیں۔ ان کے خاندان اوراہل خانہ کو ان سے ملنے نہیں دیا جاتا۔ اگر گھر سے ان کے لیے کوئی چیز لائے تو یہ وردی والے اس پر بھی اپنا حق جما لیتے ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ ان کی لالچ تو یہاں تک ہوتی ہے کہ اگر کسی غریب کے پاس دو چار سگریٹ بھی ہوں تو یہ وہ تک نہیں چھوڑتے۔غرض ان بچارے لوگوں کو اپنا کوئی بھی چھوٹا موٹا کام کروانا ہو تو انہیں مجبورا ًرشوت دینا پڑتی ہے۔
آج ہمارے ملک کے تقریبا تمام ہی اداروں میں رشوت کا بازار گرم ہے،کیونکہ رشوت کے بغیر کسی بھی کام کا تصور نا ممکن ہے۔رشوت خوری ایک عام سی بات بن چکی ہے۔ ہمارے سماج میں اسے بالکل بھی غلط نہیں سمجھا جاتا۔ مگر حکومت اور عوام کو مل کراس کی روک تھام کے لیے کوشش کرنی چاہیے تاکہ ایک پاک صاف اور انصاف پر مبنی معاشرہ وجود میں آ سکے۔
رشوت جیسی لعنت ہمارے معاشرے کے لیے ناسوربن چکی ہے،آج ہرادارہ،ہرمحکمہ،ہر ڈیپارٹمنٹ، ہر ملازم ،ہر ٹھیکیدار، یہاں تک کہ ہر دکاندار کرپشن میں ملوث ہے۔ ہمارے کئی فکشن نگاروں نے اپنے افسانوں میں اس کا ذکر کیا ہے۔ جہاں اس موضوع پر ہمارے فکشن نگار غلام فرید کاٹھیا نے قلم اٹھایا ہے وہیں ان کے ہم عصر افسانہ نگار شاہد رضوان نے بھی اس موضوع کو اپنے انداز سے بیان کیا ہے۔ مگرغلام فرید کاٹھیا نے اس کو اور بھی زیادہ مؤثر اور خوبصورت انداز سے بیان کیا ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ کرپشن کرنے والے کہاں اور کیسے کیسے کرپشن کرتے ہیں۔ اور ان کے ہاتھ کتنے لمبے ہوتے ہیں۔ جو کوئی انکے ٹھگے اور غلط رویے کی نشاندہی کرے تو یہ لوگ پولیس کے ذریعے انہیں عمر بھر کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بجھوا دیتے ہیں۔غلام فرید کاٹھیا ایک ایسے افسانہ نگار ہیں کہ جنہوں نے مزدوروں ،کسانوں، ہاریوں،چھوٹے مزارعوں اور دیگر پس ماندہ طبقات کو درپیش مشکلات کا ذکر اپنے افسانوں میں بڑی ہی دردمندی سے کیا ہے۔ آپ نے غریبوں کے مسائل اوران کی زندگیوں میں پھیلے رشوت و کرپشن کے جال پرسے کھل کر پردہ اٹھایا ہے۔ افسانہ نگار نے اپنے افسانے ’’دیوانے لوگ‘‘ میں پولیس وارڈن کے ایک غریب بندے سے رشوت لینے کے واقعے کو یوں بیان کیا ہے، عابو جو جیل میں موجود ایک قیدی ہے، اس کے جیل کے ساتھی جانو کو بہت شدید بخار ہو جاتا ہے،بوڑھا گھر والوں کی یاد میں پریشان روز بروز کمزور ہوتا جاتا ہے،اسے علاج کی سخت ضرورت ہوتی ہے،مگر جیل ہیڈ وارڈن اسے ہسپتال نہیں جانے دیتا،کیوں کہ اسے رشوت درکار ہوتی ہے۔صحت اور علاج کی سہولیات تو ہر شہری کا بنیادی حق ہے،چاہے وہ آزاد ہو یا جیل میں موجود کوئی قیدی۔ مگر ہمارے ہاں جیلوں میں بھی کرپشن کا سکہ چلتا ہے۔جس کے باعث بغیر رشوت بیماروں کو علاج کی سہولیات بھی دستیاب نہیں۔ رشوت جیسی لعنت آج پورے ملک ہی میں پھیل چکی ہیں،کوئی چھوٹا ہو یا بڑا،عام ملازم ہویا کسی بڑے سرکاری عہدے کا مالک۔ہر کوئی اس کی پکڑ میں نظر آتا ہے۔’’دیوانے لوگ‘‘میں عابو کو بھی جب بیمار جانو کو ہسپتال لے جانے کی اجازت نہیں ملتی تو اسے بے بسی اور فکر مندی کے عالم میں کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا،اور وہ اپنی بات منوانے کے لیے ہیڈ وارڈن کو چند پیسے اور سیگریٹ دینے کی کوشش کرتا ہے۔
’’ہیڈ وارڈن نے ہاتھ بڑھا کر پوٹلی لے لی اور ہاتھ سے دبا کر پوٹلی کے اندر کے مال کا اندازہ کرنے کی کوشش کی۔۔۔ہیڈ وارڈرن جیسے مطمئن ہو گیا۔یہ لو چابیاں ۔۔۔بڈھے کو کل ہسپتال لے جانا‘‘(2)
آج ہمارے معاشرے میں حق تلفی اور رشوت خوری عروج پر ہے۔ غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ان پر ظلم عام ہو چکا ہے۔ بیچارہ عام آدمی انصاف کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔ رشوت لینا اور دینا بہت معمولی سی بات بن گئی ہے۔ حدیث نبوی کے مفہوم کے مطابق ’’رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنم کے نچلے گڑھے میں ہوں گے‘‘۔ مگرعوام اپنی مذہبی روایات سے بے پرواہ زندگی گزار رہے ہیں۔ بلکہ لوگ تواس گناہ کو تحفے کا نام دیتے نظر آتے ہیں۔ آج سرکاری ادارے ہوں یا کہ پرائیوٹ ، ہر طرف ہی کرپشن کا بازار گرم ہے۔کسی سے کوئی کام کروانا ہو تو لوگ خالی منت سماجت سے کام نہیں کرتے بلکہ بھاری رقوم کا مطالبہ کرتے ہیں جو رشوت کے طور پر ادا کرنا پڑتی ہیں۔ یہ کرپشن ہی ہے جس کی وجہ سے ملک بدحالی کے راستوں پر گامزن ہے۔ کرپشن سے آج منافقت، رشوت خوری ، بدعنوانی ،انصاف میں تاخیر،دوسروں کے حقوق کی ڈاکہ زنی اور دیگر لاتعداد برائیاں جنم لے چکی ہیں۔ سماج سے صالح روایات، نیکی،اعلیٰ اخلاقی اقدار،شائستگی اور خوش اخلاقی کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ اس کرپشن کی وجہ سے نہ جانے کتنے ہی لوگوںاور بے شمار گھرانوں اور کی زندگیاں برباد ہو چکی ہیں۔آج کوئی بھی طاقت ور اپنے روپے پیسے کے زور پر کسی کے بھی حق پر آسانی سے ڈاکہ ڈال کر مالی ہیرپھیر،دھوکہ دہی، جھوٹ اور غبن کے ذریعے اپنے بینک بیلنس اور اثاثہ جات کی فہرستیں بڑھا سکتا ہے۔ اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کیوں کہ اوپر سے لے کر نیچے تک ہر ایک شعبہ رشوت کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ چھوٹے چپراسی سے لے کر بڑے سے بڑا جج آج پیسے کی وجہ سے بک رہا ہے۔
آج ہمارے ملک میں کرپشن اور رشوت خوری جہاں زندگی کے تمام ہی شعبوں میں ناسور کی طرح پھیل چکی ہے،وہیں پولیس کا شعبہ بھی اس سے محفوظ نہیں رہا۔ ملک کے محافظ لوگوں کی جانوں کے لٹیرے اور دشمن بنے بیٹھے ہیں۔کالی بھیڑوں کے روپ میں یہ لوگ غریبوں کے خون پسینے اور حق حلال کی کمائی بٹور رہے ہیں۔ امیر، درمیانے اور غریب طبقے کے افراد کے لیے اے ،بی اور سی کلاس جیلوں کے الگ الگ انتظام سے طبقاتی کشمکش کو ہوا مل رہی ہے۔
ہمارا پیارا ملک پاکستان جو اتنی قربانیوں کے نتیجے میں حاصل کیا گیا،جس کے لیے لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دیئے،ماؤں کی گودیں اجڑ گئیں،بیویوں سے ان کے شوہر الگ ہوگئے، نوجوانوں کو قتل کیا گیا ،عورتوں کی عزتیں لٹیں، جس وطن اور آزادی کے لیے ہجرت کے دوران تکلیف اٹھانی پڑیں آج اس وطن میں بظاہر تو ہم آزاد ہیں مگر ذہنی طور پر آج بھی ہم غلام ہیں۔ کیونکہ ہم غلاموں کی طرح رشوت دینے اور لینے پر یقین رکھتے ہیں۔ہمارے پیارے ملک میں سرکاری اہلکاروں کو دونوں ہاتھوں سے رشوت سمیٹنے کی آزادی ہے۔ یہ سرکاری عہدیدار جب اور جس سے چاہیں جتنی مرضی رشوت کا مطالبہ کر لیتے ہیں۔ جو کے غریبوں کو مجبوراً ادا کرنا پڑتی ہے۔اگر کوئی غریب ان کے اس رویے کی شکایت کرے تو اس کی بات سنی نہیں جاتی،بلکہ انصاف دلانے والے خود ایسے لوگوں کے ساتھ مل جاتے ہیں اور لوگوں کا خون چوسنے لگتے ہیں۔ قانون کے رکھوالے جب رشوت لیتے ہوئے یا غلط کاموں میں ملوث پائے جائیں تو وہ سب سے پہلے قانون ہی کو بدل دیتے ہیں، اورانہیں کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوتا۔اگر چھوٹا آدمی چوری یا کوئی جرم نہ بھی کرے تو اسے جھوٹے مقدمے کے نتیجے میں ساری عمر جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنا پڑتی ہے،جبکہ ملکی املاک قومی خزانہ لوٹنے والوں کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ ان کے لیے انصاف کا کوئی ادارہ، کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا کیونکہ وہ روپے پیسے کے زور پر ہر کسی کے ضمیر کو خریدنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ شاہد رضوان نے رشوت خوری اور لوٹ مار کے نتیجے میں ملک کا نقصان کرنے والوں پر طنزیہ انداز سے قلم اٹھایا ہے۔افسانہ نگار نے اپنے افسانے ’’آزادی‘‘ کے ذریعے ملک کو لوٹنے والوں پر کاری ضرب لگائی ہے۔اور بتایا ہے کہ کس طرح یہ ملک اتنی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا ،اور کیسیاس آزاد ملک میں ہر کوئی اپنے آپ کو قانون سے ماورا سمجھ کر آزادی سے رشوت خوری اور لوٹ مار کر رہا ہے،افسانہ نگار شاہد رضوان نے بظاہر پاگل نظر آنے والی نوراں کے کردار کے ذریعے ملک کے بڑے ہی سنگین مسائل سے پردہ اٹھایا ہے اوریہ بتانے کی کوشیش کی ہیکہ کہیں نہ کہیں اس رشوت کی وجہ سے بڑے لٹیرے آزاد گھوم رہے ہیں۔
’’ سرکاری اہلکاروں کو دونوں ہاتھوں سے رشوت لینے کی آزادی۔۔۔ ہاہا۔۔۔ ہاہا۔۔۔قانون بنانے والے جب خود قانون کے شکنجے میں پھنسنے لگیں تو اسے بدلنے یا اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کی آزادی۔ ہاہا۔۔۔ ہاہا۔۔۔ غریب آدمی اگر چھوٹا سا جرم بھی کرے تو اس کی ساری عمر جیل کی کال کوٹھریوں میں گزر جائے۔ جبکہ بڑے بڑے ’’مگرمچھوں‘‘ کا کوئی بال بھی بیکا نہ کر سکے۔"( 3)
رشوت کسی بھی معاشرے میں اس وقت پروان چڑھتی ہے جب وہاں عدل و انصاف کا نظام کمزور ہو جاتا ہے۔ انصاف کے خاتمے سے عوام میں خودغرضی، مفاد پرستی اور لالچ جیسی برائیاں پیدا ہوتی ہیں، لوگ خود ہی دوسروں کے حقوق پر قابض ہونے لگتے ہیں۔ اس سب سے ملک اور خصوصا پس ماندہ طبقے کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔
نچلے طبقے کو اگر چھوٹے سے چھوٹا کام بھی کروانا ہو تو انہیں بہت سی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ بیچارے غریبوں کی بات کو تو نہ ہی کوئی دھیان سے سنتا ہے اور نہ ہی ملازمت وغیرہ کے معاملات میں ان کا ہنر دیکھا جاتا ہے۔ چاہے زندگی کا کوئی بھی شعبہ کیوں نہ ہو،غریب کو ہر جگہ ہی ذلیل و خوار کیا جاتا ہے۔ مثلا اگر کوئی عام آدمی زمین کا کوئی چھوٹاسا ٹکڑا خریدتا ہے تو اسے تو مصیبت پڑ جاتی ہے۔ اسے پٹواریوں،کلرکوں اور تحصیلداروں کے ہاتھوں جائیداد کے کاغذات بنوانے کے لیے اسے بار بار رسوا ہونا پڑتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی کی غریب کو گھر یا کام کی جگہ بجلی و گیس کے بل کی درستگی کروانا ہو،عدالتی فیصلے کی نقل لینی ہو، یا پھر کوئی بھی کام کروانا ہوتو اسے ہر حال میں رشوت ادا کرنا پڑتی ہے۔اس لیے لوگ اپنا کام جلدی کروانے کے لیے رشوت لیتے اور دیتے بھی ہیں۔
رشوت خوری نے ہمارے معاشرے میں بہت سی برائیوں مثلاً بد امنی،بد اعتمادی،سنگ دلی، غنڈہ گردی ، انتشار،خود غرضی، دہشت گردی ، حرص،مفاد پرستی اور طمع ولالچ وغیرہ نے جنم لے لیا ہے۔ رشوت کے نتیجے میں غریب بندے کی زندگی کی مشکلات میں بہت اضافہ ہو گیا۔ آج اگر نچلے یا درمیانے طبقے کا کوئی فرد اپنے معاشی حالات کی تنگی کے باوجود بھی پڑھتا لکھتا اور تعلیم حاصل کرتا ہے، تو اس کے خاندان کی اسے بہت سی امیدیں وابستہ ہو جاتی ہیں، کیوں کہ اس بچی یا بچے کی تعلیم کے لیے بوڑھے ماں باپ نے بہت تنگی والے حالات دیکھے ہوتے ہیں، صرف اس بچے اورخاندان کے اچھے مستقبل کی خاطراسکے باقی تمام بہن بھائیوں کی ضروریات کو پس پشت ڈالا ہوتا ہے،نہ جانے کتنے قرضوں کا بوجھ کندھوں پر ہونے کے باوجود بھی کمیٹیاں ڈال کر اور پیسے جوڑ جوڑ کر اس کی فیسیں ادا کی ہوتی ہیں۔ اکثر سادہ لوح ماں باپ خود تو پڑھے لکھے نہیں ہوتے تاہم ان کی خواہش ہوتی ہے کہ بڑے بچے کو پڑھا لکھا دیں گے تو وہ پڑھ لکھ کر اچھا افسر یا کسی بہترین سرکاری عہدے پر فائز ہو جائے گا،یوں وہ گھر اور باقی بہن بھائیوں کی پڑھائی اور تعلیم کی ذمہ داریاں بھی اپنے کندھوں پر اٹھا لے گا۔
ایسے غریب والدین جو اپنے بچوں پر محنت کرتے ہیں اکثر ان کی اولاد بھی محنتی و ذہین نکلتی ہے، کیونکہ انہیں اپنے والدین کی قربانیوں اور جذبات کا بھرپور احساس ہوتا ہے،وہ اپنے اور اپنے خاندان کے معاشی حالات بدلنے کی خاطردن رات محنت سے پڑھائی کرتے ہیں۔ان میں کچھ کرنے کی لگن اور کچھ بننے کی جستجو ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اکثراپنی جماعت میں بھی لائق طالب علموں کی فہرست میں صفحہ اول پر ہوتے ہیں۔ اور آخر کار اعلی نمبروں سے کامیابی کے ساتھ اپنی ڈگری مکمل کرتے ہیں۔مگر جب قوم کے یہ یہ ہونہار معمار ملازمت کے لیے کسی سرکاری ادارے میں درخواست جمع کرواتے ہیں تو میرٹ میں اول لوگوں کی فہرست میں ہونے کے باوجودانہیں ملازمت نہیں ملتی۔ کیونکہ ملازمت کے حصول کے لیے آجکل بہت ساری رشوت یا کسی بڑے آدمی کی سفارش ہونا بہت ضروری بن گیا ہے۔جو کہ غریبوں کے پاس نہیں ہوتی۔
اسی طرح پرائیوٹ ادارے میں درخواست جمع کرواتے ہیں توان کی درخواستوں پر اول تو غور ہی نہیں کیا جاتا اور انہیں یہ کہہ کر واپس لوٹا دیا جاتا ہے کہ "ابھی ہمیں نئے ملازمین کی ضرورت نہیں،اگر ضرورت ہوگی تو آپ کو کال کر لیں گے"اور وہ کال کبھی بھی نہیں آتی کیونکہ وہ اپنے ہی ادارے کے کسی رشتے دار یا جاننے والے کو ملازمت پر پہلے ہی سے بھرتی کر چکے ہوتے ہیں۔ یوں طالب علم بیچارہ نوکری کے انتظار میں ذلیل و خوار ہوتا رہتا ہے۔
رشوت ایک ایسی لعنت ہے کہ جس کے نتیجے میں بے شمار گھرانوں کی خوشیاں، سکون اور اطمینان چھن جاتے ہیں، لوگوں کے مستقبل داؤ پر لگ جاتے ہیں۔ نفرت،بد امنی،انتشار،حرص و لالچ اور خود اعتمادی میں کمی واقعہ ہوتی ہے۔ رشوت کے باعث غریبوں اور متوسط طبقے کو بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانوں میں رشوت کے بارے میں بہت کھل کر بیان کیا ہے،اور بتایا ہے کہ کس طرح امیر طبقہ غریبوں کا سماجی و معاشی استحصال کرتا ہے۔ افسانہ نگار نے اپنے افسانے میں رشوت خوری اور دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ زنی کی ایک ایسی ہی کہانی بیان کی ہے۔جس میں نچلے طبقے کے ایک ایسے غریب طالب علم کا ذکر کیا گیا ہے جو دن رات محنت کر کے اپنی جماعت میں اول کارکردگی دیکھاتا ہے اور اس اعتماد سے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں درخواستیں دیتا ہے کہ وہ منتخب ہو جائے گا، مگر اسے اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ اس معاشرے میں اچھی نوکری کے ساتھ اچھی سفارش اور بھاری رشوت کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ جیسا کہ افسانہ نگار غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانے میں اس کا اظہار کیا ہے:
’’پھر بھی ماں نے ضد کر کے بھیج ہی دیا۔ اور وہ جگہ میرے بیچ کے ایک ساتھی سے پر کر لی گئی جو پوزیشن کے لحاظ سے مجھ سے کافی فاصلے پر تھا۔پر وہ مجھ سے آگے اس لیے تھا کہ وہ ایک بڑے سرکاری عہدے دار کا بیٹا تھا۔ انتہائی مایوسی کے عالم میں واپس لوٹا تو ماں اور باپ کو بہن اور بھائی کو یہی بتایا کہ ملازمت کی کال آئے گی۔میرے ذہن پر نا انصافی کا بہت بڑا دھچکا تھا۔ میرا تمام اعتماد ختم ہو گیا۔اپنے آپ پر،اپنی محنت وقابلیت پر۔ تمام اعتماد خاک میں مل گیا۔‘‘(4)
غریبوں کا استحصال ہمارے معاشرے میں ہر طرف عام ہو چکا ہے۔ جسے دیکھو حق تلفی، ڈاکہ زنی ،بدعنوانی اور غنڈہ گردی کے ذریعے مظلوموں اور بیچاروں کی آہیں سمیٹ رہا ہے۔ آج ہر سو ظلم کا بازار گرم ہے۔ روپے پیسے والا اپنی دولت کے بل بوتے پر کسی کو بھی کبھی بھی خرید سکتا ہے،ضمیر فروشوں کی منڈی لگی ہوئی ہے۔چالاکی و مکاری اور غبن عروج پر ہے۔امیر طبقہ غریبوں پر سکون سے جینا تنگ کر رہا ہے۔ لوگ پیسوں کے لالچ کی خاطر غیر تو دور کی بات اپنے سگے اور پیارے رشتوں تک کو معاف نہیں کرتے۔ دوسروں کی جائیدادیں ہڑپ کرنے کی خاطر انہیں قتل تک کردیا جاتا ہے۔ اس سب میں طاقتور کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔کسی غریب کی موت پر کوئی فوری عدالتی فیصلہ نہیں سنایا جاتا،بلکہ کسی کے بھی قتل کو طبعی موت کا رنگ دے کر معاملے کو چھپا لیا جاتا ہے۔ دولت مند لوگ عیاشیاں کرتے پھرتے ہیں،ان کے جرم کے خلاف کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا، چھوٹا چور چوری کرے تو اسے فورا پکڑ لیا جاتا ہے جبکہ بڑے ڈاکوں کے خلاف کوئی بھی ایکشن لینے والا نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک میں آج غریب انصاف کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔ جبکہ طاقتور دوسروں کے حقوق پر قبضہ کر کے عیاشی سے زندگی کے مزے لے رہا ہے۔آج شہروں کی طرح دیہاتوں کے رہنے والے بھی اپنے سے اعلی طبقوں کے ظلم و ستم کو سہنے پر مجبور ہیں۔ دیہاتوں کے نمبردار،چوہدری ،نواب اور وڈیرے کمزورں کا استحصال کر رہے ہیں۔ غریب کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔وہ اپنے خلاف ہونے والے ظلم پر فقط دہائیاں ہی دے سکتا ہے ، کیونکہ انصاف دلانے واے منصف خود ظالم بنے بیٹھے ہیں۔
غریبوں کے حقوق اور ظالموں کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے لوگوں کی آج کے سماج کو بہت شدت سے ضرورت ہے۔ اگرچہ درد انسانیت رکھنے والے لوگوں کی تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے تاہم اب بھی بہت سے افراد ایسے موجود ہیں،جو بے لوث اور بغیرکسی غرض کے مجبوروں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔غریبوں کی آواز بننے والے ایسے ہی افسانہ نگاروں میں ایک نام شاہد رضوان کا بھی ہے۔ جنہوں نے اپنے افسانوں کے ذریعے غریبوں پر ہونے والے جنسی و جسمانی بلکہ ذہنی اور روحانی تشدد پر بھی بڑی دردمندی سے قلم اٹھایا ہے۔ شاہد رضوان نے اپنے افسانوں کے ذریعے ظلم کی چکی میں پستے ہوئے عوام کے حقوق کی بات کی ہے۔
غریبوں پر ہونے والے جبر کے بارے میں آپ کے افسانے "آزادی" میں انسان کے اندر کے کرب کو واضح کیا گیا ہے۔اتنی بڑی بڑی قربانیاں دے کر حاصل کیا گیا یہ وطن آج اس حال میں ہے کہ یہاں چور،ڈاکو،کرپشن مافیا،ظالم و جابر اور دوسروں کے حقوق چھیننے والوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔سرکاری اہلکاروں کو ملک اور عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کی آزادی ہے۔ قانون بنانے والے جب خود قانون کے شکنجے میں پھنسنے لگیں تو اسے بدلنے یا اٹھا کرردی کی ٹوکری میں پھینکنے کی آزادی حاصل ہے۔غریب آدمی اگر چھوٹا سا جرم بھی کر لے تو اسے اپنی ساری عمر جیل کی کال کوٹھریوں میں گزارنی پڑتی ہے ،جبکہ بڑے بڑے مگرمچھوں کو ہر غلط کام کی کھلی آزادی ہوتی ہے۔ افسانہ نگار نے اپنے اس افسانے میں علاقے کے چوہدری اور ایک پولیس افسر کے ہاتھوں مظلوم دیہاتی پر جبر کا ذکر کیا ہے۔ گاؤں کا ظالم چوہدری خود اپنے ہی یتیم بھتیجے کو اغواء کروا لیتا ہے، تاکہ اسے مار کر اس کی تمام جائیداد پر قبضہ کر لے۔ اس سارے منصوبے کی تکمیل اور اپنے اوپر لگنے والے کسی بھی الزام سے بچنے کے لئے وہ ایک سازش تیار کرتا ہے اور اغواہ کا تمام الزام ایک غریب دیہاتی پر ڈال دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں پولیس بنا کسی ثبوت کے چند پیسوں کے لالچ میں بچاری غریب دیہاتن کے اکلوتے بیٹے کو اٹھا کر لے جاتی ہے۔اس پر تشدد اور اسے بری طرح زدوکوب کرتی ہے۔اس سب کے سبب بوڑھی ماں اپنے بیٹے کی رہائی کے لئے تفتیش کرنے والے آفیسر کی ماں نوراں کے پاس آتی ہے اور اس سے ہاتھ جوڑ کر منت سماجت کرتی ہے کہ میرا بیٹا بے قصور ہے۔اسے چھوڑ دیا جائے۔ مگر اس بیچاری کو کیا خبر کہ اس ملک میں تمام ڈاکو،ملک کے لٹیرے غریبوں کی جان کے دشمن بنے ان کا استحصال کر رہے ہیں۔ آج امراء ، سرمایہ داروں، چوہدریوں اور وڈیروں کی جانب سے متوسط اور پسماندہ طبقے پر بہت ظلم کیا جا رہا ہے،اگرچہ ہمارے کئی افسانہ نگاروں نے بے بسوں اور مجبوروں پر ہونے والے ان مظالم پر قلم اٹھایا ہے۔تاہم شاہد رضوان ایک ایسا افسانہ نگار ہے کہ جس نے اپنے افسانوں میں ان موضوعات کو بڑی خوبی سے اجاگر کیا ہے۔ نوراں کے پاس غریب عورت کے فریاد لانے کو شاہد رضوان نے یوں بیان کیا ہے:
’’ایک دن ایک غریب عورت نوراں کے پاس فریاد لے کر آئی، اور کہا میرا بیٹا بے قصور ہے۔اس نے کسی کو اغواء نہیں کیا۔اغواء تو "پنڈ" کے چوہدری نے خود اپنے یتیم بھتیجے کو کیا ہے۔تاکہ اس معصوم کو قتل کرکے اس کے حصے کی جائیداد ہڑپ کر سکے۔لیکن میرے بے قصور بچے کو سازش سے پھنسایا گیا۔پولیس نے مار مار کر میرے بیٹے کا حشر نشر کردیا۔تمہارا بیٹا تفتیش کر رہا ہے۔میری مدد کرو!چند روپیوں کی خاطر میرے بے گناہ بیٹے کو پھنسا کر تم لوگوں کو کیا ملے گا۔خدا کے واسطے میری مدد کرو۔بوڑھی عورت نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔" (5)
مزدورطبقہ کسی بھی معاشرے کی معیشت میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے،سماج میں اس کی اہمیت ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہوتی ہے۔مگرافسوس کہ سردی و گرمی میں دن رات فیکٹریوں ،ملوں،کارخانوں اور بھٹوں پر کام کرنے والے اس طبقے کو ہمارے معاشرے میں قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ غربت سے لاچار ان افراد کی زندگی سے ،ان کی خوشییا غمی سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ سرمایہ داران کے ساتھ کھانا پینا، ملنا جلنا تو بہت دور، وہ تو ان سے بات بھی کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
یہ سرمایہ دار،وڈیرے اور جاگیردار غریبوں پر طرح طرح سے ظلم کے پہاڑ توڑتے ہیں۔ بیچارے غریبوں کی محنت و مشقت کے عوض انہیں بہت کم اجرت دی جاتی ہے۔ ان سے کم تنحواہ کے بدلے زیادہ وقت جانوروں کی طرح اضافی کام کروایا جاتا ہے۔اگر یہ تنخواہ بڑھانے کی درخواست کریں تو انہیں کام سے نکال دینے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ان مزدوروں اور ان کے خاندان کے ساتھ غلط رویہ برتا جاتا ہے۔ ان کی عزت و آبرو کے تقدس کو پامال کیا جاتا ہے۔ بات بات پر انہیں سب کے سامنے ذلیل کیا جاتا ہے۔اگر یہ،ان کے خاندان میں سے کوئی بیمار پڑ جائے،یا کسی کی وفات ہو جائے تو انہیں چھٹی کرنے کی اجازت نہیں ہوتی، اگر یہ کسی مجبوری کے تحت چھٹی کربھی لیں تو اول تو انہیں بہت ذلیل کیا جاتا ہے اور پھر اس کے بعد ان کی تنخواہ سے اس ناغے کی رقم بھی کاٹ لی جاتی ہے۔ ہمارے اکثر اوقات دیہاتوں میں وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور نوابوں کا راج ہوتا ہے۔ جو اپنے پاس کام کرنے والے غریب مزدوروں،کسانوں،ہاریوں اور دیگر پسماندہ طبقے کے افراد پر معاشی جبر کرتے ہیں۔ وہ ان سے جبراً محنت و مشقت کرواتے ہیں، انہیں صرف اتنی اجرت دیتے ہیں جس سے وہ مشکل سے فقط دو وقت کی روٹی کھا سکیں۔یوں یہ ظالم لوگ ان کی محنت و حق حلال کی کمائی پر ڈاکہ ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں۔یہ لوگ اپنے ملازمین سے جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں۔ ان پر رعب جماتے ہیں۔ بلکہ اکثر اوقات تو انہیں اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کے ناجائز کام بھی سر انجام دیں۔ یہ ان غریبوں کو کام سے نکالنے کی دھمکیاں،یا تھوڑے بہت پیسوں کا لالچ دے کر ان سے اپنے مخالفین کا قتل کروا کر بعد میں انہیں ہی پھنسا دیتے ہیں۔ بلکہ ان سرمایہ داروں کے غریبوں پر ظلم کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اگر انہوں نے اپنے کسی بھی ناپسندیدہ بندے کو اپنی راہ سے ہٹانا ہو تو یہ اپنی طاقت اور پیسے کے زور پر ان غریبوں پر جھوٹے الزامات لگا کر انہیں جیل بھیجوا دیتے ہیں۔ ان بیچاروں کے حالات اتنے اچھے نہیں ہوتے کہ ان کے اہل خانہ میں سے کوئی ان کی ضمانت کروا سکے،یا جیل میں ان کی خوراک کے لیے گھر سے کچھ پکا کر لا سکیں۔
آج غریبوں پر ہونے والا ظلم بہت عام ہو چکا ہے، افسانہ نگاروں نے غریبوں کے استحصال پر بڑی دردمندی سے قلم اٹھایا ہے ،ان افسانہ نگاروں میں سے ایک بڑا ہی اہم نام غلام فرید کاٹھیا کا بھی ہے۔غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانوںمیں دیہات کے پستے ہوئے اور کمزور طبقے کے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ان کے اکثر افسانے گاؤں کے معاشرتی حالات،لوگوں کے رہن سہن، غریبوں کی غربت، وڈیروں،زمنیداروں،نمبرداروں اور چودھریوں کے غریبوں پر مظالم، پولیس کا ظلم و ستم،پنچایتوں کے نظام، زمینوں کے مسائل،دیہاتی لوگوں کی سادگی، اور مجبوروں کی مجبوریوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوتے ہیں۔غلام فرید کے بیشتر افسانے حقیقت نگاری کا عکس دکھائی دیتے ہیں۔
’’سونے کی چوری‘‘ محنت کش لوہار عبدالکریم کی کہانی ہے۔عبدالکریم اپنے کام کا ماہر ہوتا ہے،اس کے بنائے ہوئے اوزار،زرعی آلات کسی،کھرپے پھالے،درانتیاں، اور دیگر گھر کے استعمال کی چیزیں دیہات بھر میں مشہور تھی۔ عبدالکریم چاک و چوبند ،اور لمبے،اونچے قد کا توانا وخوبرو نوجوان تھا۔ اس کی ایمانداری اور کام سے لگن دیہات بھر میں مشہور تھی۔سہاوے کے ملک محمد دین کو اپنے گھریلو استعمال کی چیزوں کے علاوہ کھیتوں کے لئے بھی آلات کی ضرورت پڑتی رہتی تھی،جنہیں وہ صرف عبدالکریم ہی سے بنواتا۔عبدالکریم اس کا کام ہمیشہ بڑی محنت اور لگن سے کرتا۔ یہی وجہ تھی کہ ملک محمد دین نے اس کی ایمانداری سے متاثر ہو کر اسے بیٹوں کی طرح چاہنا شروع کر دیا۔ کبھی کبھارتو ملک محمد دین اسے اپنے گھر بھی بلوا لیٹا اور گھر ہی میں کھیتوں کے لیے زرعی آلات کی تیاری بھی کرواتا۔ ملک محمد دین کی صاحبزادی رحمتے اس چاک و چوبند اور توانا نوجوان عبدالکریم کی محبت میں مبتلا ہو جاتی ہے، مگرعبدالکریم نگاہیں جھکائے، ہمیشہ دل سے اس کی عزت کرتاہے۔ عبدالکریم تھا تو ایک مزدور ہی۔ وہ اپنی حیثیت اور مرتبے سے اچھی طرح واقف تھا اسی لئے وہ خود کو ان باتوں سے پڑے رکھنا چاہتا تھا۔رحمتے کے بڑے بھائی اسماعیل کو جب اپنی بہن رحمتے کی عبدالکریم کے لیے پسندیدگی کا علم ہوتا ہے تو وہ اپنے خانداں کی عزت بچانے کی غرض سے عبدالکریم پر بغیر کسی گواہ اور ثبوت کے چوری کا سنگین الزام دھر دیتا ہے۔ پولیس کسی تفتیشی کارروائی کے بغیرہی چودھری سے رشوت کے پیسے وصول کرکے کر عبدالکریم کو ملزم سے مجرم بنا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیتی ہے۔ افسانہ نگار نے اپنے افسانے کے ذریعے سرمایہ داروں کی طرف سے غریبوں پر ہونے والے ظلم و جبر کو بیان کیا ہے۔
’’عبدالکریم نے سہاوے کے ملک محمد دین کے گھر سے چوری کی ہے۔ ملک محمد دین کے بڑے بیٹے ملک اسماعیل نے تو اسے سامان سمیت موقع پر ہی پکڑ لیا تھا۔طاقتور جو بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ بہت بڑی چوری ہزاروں روپے کا سونا ایک گٹھڑی میں لے کربھاگ رہا تھا کہ پکڑا گیا۔ سونے کی گٹھڑی تو ملکوں کے باڑے سے برآمد ہو گئی جہاں عبدالکریم رات کے وقت سوتا تھا۔‘‘(6)
زلزلے سے قبل لوگ اپنے اپنے اشغال میں مگن ہوتے ہیں۔ گلیوں بازاروں میں رونقوں کا سا سماں ہوتا ہے،ہسپتالوں ،تھانوں، عدالتوں اور دفتروں میں لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ۔۔۔ بے شمار معصوم علم کی پیاس بجھانے کی خاطر،تعلیمی درسگاہوں کی چھتوں کے نیچے ،آنے والے خوفناک لمحوں سے بے پروا۔۔۔۔ جب کہ دیر سے نیند کی وادیوں میں اترنے والوں کی تو ابھی تک صبح ہی نہیں ہوئی ہوتی۔مگر اچانک ہی زمین میں حرکت سی پیدا ہوتی ہے۔ قیامت خیز جھٹکوں سے ہر شے تہس نہس ہوجاتی ہے۔شہروں کے شہر،اور بستیوں کی بستیاں کھنڈرات اور گورستان کا سا سماں پیش کرنے لگتے ہیں۔ بڑی بڑی فلک بوس عمارتیں ہوں یا کہ خوبصورت ہوٹل زلزلے کی تباہ کاریوں سے ہر ایک شے برابر متاثر ہوتی ہے۔ جب زلزلے جیسی قدرتی آفت آتی ہے تو ہر چیز دھڑم سے ڈھے کر زمین میں دھنس جاتی ہے۔ جہاں چند لمحے قبل خوشیاں ،بہاریں،رونقیں ہوتیں ،زندگیاں ہنستی مسکراتی ، چہروں اور آنکھوں میں چمک ہوتی ہے۔وہاں چند ہی لمحوں میں لاشوں ،تباہی اور پریشانیوں کا ڈیرہ جم جاتا ہے۔فضا میں چیخ و پکار،گاڑیوں اور عمارتوں کے شیشے ٹوٹنے کا شور،ہر شے پر خوف طاری ،ہر آنکھ اشک زدہ اور ہر زبان ماتم کناں دکھائی دیتی ہے۔یہ زلزلے لوگوں کے ہنستے مسکراتے خاندانوں کو اجاڑ دیتے ہیں۔ غریب اور دیہاتی لوگ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس سہولیات کی کمی ہوتی ہے۔زلزلے میں ملبے تلے دبے لوگوں کو باہر نکالنے کے لئے مشینری کی کمی،کفن دفن کا انتظام،اور قبروں کی کھدائی وغیرہ کے سلسلے میں لوگوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ زلزلے چند لمحوں میں لوگوں کی زندگیاں، ان کے پیارے،خوشیاں اور سکون چھین لیتے ہیں۔ یہ زلزلے دنیا میں کبھی بھی کہیں بھی آ سکتے ہیں۔ ان کا کسی خطے، کسی علاقے یا بستی سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ یہ ہر شے کو ملیا میٹ کر دیتے ہیں۔ ہمارے پاکستان میں 2005 میں پاکستانی تاریخ کا بد تریناور دنیا کا چوتھا بڑا زلزلہ آیا۔ جس کے نتیجے میں 75ہزار سے زائد افراد ابدی نیند سو گئے۔ ملک میں سب سے زیادہ زلزلہ صوبہ خیبر پختونخوا اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ریکارڈ کیا گیا جس کی وجہ سے خیبر پختونخوا میں 73 ہزار 338 اور کشمیر میں 1360 اموات ریکارڈ ہوئیں۔ اس زلزے کی وجہ سے مجموعی طور پر 6لاکھ کے قریب مکانات 35 لاکھ آبادی اور 30 ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ متاثر ہوا۔جو کہ بہت بڑا نقصان تھا۔ایک سروے کے مطابق اس زلزلے سے سب سے زیادہ عمارتیں بالاکوٹ اور مظفر آباد میں تباہ ہوئیں۔ اس کے علاوہ ایبٹ آباد، راولاکوٹ ، اسلام آباد، اور ناران کاغان بھی زلزلے کی تباہ کاریوں کی زد میں آئے۔
زلزلے کے نتیجے میں بہت سی تباہ کاریاں جنم لیتی ہیں۔لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں، گھر،عمارتیں، بستیاں اور شہر تہس نہس ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔غرض زلزلے جیسی قدرتی آفت کے نتیجے میں قیامت خیزیوں کے انمٹ نقوش اور غریبوں کے لئے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان میں آنے والے زلزلوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں،اور جسمانی و مالی نقصانات کے حوالے سے جہاں دیگر کئیں افسانہ نگاروں نے قلم اٹھایا ہے،وہیں جدید اردو افسانے میں ابھرتا ایک نام شاہد رضوان کا بھی ہے،جنہوں نے اپنے افسانے "کمبل"کے ذریعے زلزلے کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کو نہایت موثر انداز میں بیان کیا ہے۔ آپ کا یہ افسانہ قدرتی آفت زلزلے کی تباہ کاریوں،لوگوں کی بے بسی اور کرپشن مافیا کیغریبوں کے لئے صدقہ و خیرات کے سامان سے چوری چکاری کی داستانیں بیان کرتا ہے۔ شاہد رضوان نے اس افسانے میں چشم کشا انداز میں زنزلے سے قبل اور زلزلہ آنے کے بعد کے حالات کو بیان کیا ہے۔زلزلے سے پہلے کے حالات بیان کرتے ہوئے شاہد رضوان لکھتے ہیں کہ اس آفت کے آنے سے پہلے زندگی پرسکون تھی،ہر طرف چہل پہل تھی مگر اچانک زمین میں ارتعاش پیدا ہوا۔ اور اس نے زمین کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔سب کچھ تباہ و برباد ہو گیا۔ بستیوں کی بستیاں اجڑ گئیں۔ گھر اور مکان ہر شے تباہ ہوگئی۔ہر سو چیخ و پکار کا عالم دکھائی دینے لگا،لوگوں کو ملبے سے نکالنے کے لیے مشینری نہ ہونے کے برابر تھی۔انسانی لاشیں کئی روز تک ملبے تلے دبی رہنے سے تعفن اور بدبو پیدا کرنے لگی۔ زلزلے کے نتیجے میں زندگیاں اجڑ گئیں۔ لاشوں کو دفنانے کے لیے کفن دفن کا بندوبست نہ ہو سکا،قبروں کی کھدائی کے لیے اوزار نہ تھے۔جانے کتنے ہی دن لاشے بے گورو کفن جانوروں کی خوراک بنتے رہے۔ لوگوں میں بیماری اور معذوری پیدا ہونے لگی۔ سردیوں کے موسم میں خوراک اور ادویات کی شدید قلت سے لوگ مرنے لگے۔ لوگوں کے پاس پہننے کے لئے لباس اور ٹھنڈ سے بچنے کے لیے گرم کپڑوں کی شدید کمی واقع ہو گئی تھی۔
افسانہ نگار کے افسانے سے پتہ چلتا ہے کہ جب بھی زلزلے جیسی قدرتی آفت نازل ہوتی ہے تو غریبوں کی زندگیاں کیسے بے بسی اور بے چارگی کی نذرہو جاتی ہیں۔ دیہاتوں کے متاثرین میں سے بے شمار کی موت تو صرف اس لئے واقع ہوجاتی ہے کیونکہ انہیں فوری طبی امداد وقت پر نہیں پہنچی۔ ان کے لیے اچھی اور معیاری خوراک نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ ان سب حالات کی وجہ سے اموات اور بیماریوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اگرچہ ان قدرتی آفات سے بچنا ممکن نہیں تاہم حکومت اس کی شدت میں کمی لانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر دیہاتوں میں بھی شہروں کی طرح کھانے پینے کا سامان ،اچھی اور معیاری صحت وعلاج کی سہولیات ، لباس اور رہائش کا بر وقت بندوبست ہو سکے تو بہت سی آخری سانسیں لیتے لوگ دوبارہ زندگی کی کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ شاہد رضوان نے اپنے افسانے’’کمبل‘‘میں زلزلے سے متاثر لوگوں کی حالت کو اس طرح بیان کیا ہے :
’’یک بیک زمین میں ارتعاش پیدا سا ہوا۔۔۔۔ وہ قیامت خیز جھٹکے محسوس ہوئے، جن کی شدت ریکٹر سکیل 8.7 ریکارڈ کی گئی۔ یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کی تاریخ کا بدترین زلزلہ تھا۔ایک ایسی آفت جس نے پورے ملک کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ بالخصوص شمالی علاقوں کو۔۔۔۔۔ کوئی شہر یا بستی ایسی نہ تھی جہاں اس نے اپنی قیامت خیزیوں کے انمٹ نقوش نہ چھوڑے ہوں، چیخ و پکار کا عالم۔۔۔ مغموم فضا۔۔۔ہر شے پر ہیبت سی طاری۔۔۔ ہر طرف لاشیں ہی لاشیں۔۔ کھنڈرات ہی کھنڈرات۔۔۔بستیوں کی بستیاں شہروں کے شہر ایک ہی ان میں ملیامیٹ ہو گئے۔۔۔۔جہاں ایک منٹ پہلے رونقیں تھیں، خوشیاں تھیں،زندگیاں مسکراتی اور چہکتی تھیں،وہاں اب انسانی لاشوں۔۔۔اور تباہی کے دل دوز مناظر پر ہر آنکھ اشکبار ہر زبان نوحہ کناں تھی۔لوگ اپنی مدد آپ ملبے کو ہٹا ہٹا کر زندہ انسانوں یا لاشوں کو باہر نکال رہے تھے،لاکھوں انسان لقمہ اجل بنے، کوئی ان کے کفن دفن کا بندوبست نہ ہو سکا،جانور انسانی لاشوں کو کئی دنوں تک نوچتے رہے، ہر طرف تعفن پھیل گیا،جو بچ رہے،ان کے گرد بیماری نے شکنجہ کس لیا، ان کی خوراک۔۔۔ادویات۔۔۔۔ اور گرم کپڑوں کا مسئلہ پیدا ہوا‘‘۔(7)
قدرتی آفات وہ واقعات کہلاتے ہیں جو انسانوںاور زندگیوں پر منفی طور پر اثرا نداز ہوتے ہیں۔یہ قدرت کی جانب سے آنے والی آزمائشیں ہوتی ہیں جو کہ زلزلے ، طوفان ، سیلاب اور آتش فشاں کی صورت آتی ہیں۔ اس سے نہ صرف انسان بلکہ ماحول بھی بہت بری طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ انہی آفات کی وجہ سے جانی و مالی نقصان کا قوی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان سیلابوں ،طوفانوں، اورزلزلوں کے سبب جہاں دیگر بہت سے طبقات اور زندگی متاثر ہوتی ہے وہیں ان کی وجہ سے سب سے زیادہ غریب لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قدرتی آفات کا کبھی بھی کسی کو بھی سامنا کرنا پر سکتا ہے کیونکہ یہ کسی بھی جگہ وقوع پذیر ہو سکتی ہیں۔ قدرتی آفات کا امیروں اور غریبوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا ،کیوں کہ یہ بس قدرت کا فیصلہ ہوتا ہے۔ تاہم اس سے غریبوں کی زندگیاں بہت زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ ان آفات کے سبب جہاں ملکی معیشت کو بہت بڑا دھچکا لگتا ہے،وہیں مالی کے ساتھ بہت سا جانی نقصان بھی ہوتا ہے۔
یہ زلزلے دنیا بھر کے مختلف ممالک کو متاثر کرتے ہیں جہاں دنیا بھر کے دیگر ممالک ان آفات کی زد میں آتے ہیں، وہیں پاکستان کو بھی ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کہ قدرتی آفات کی وجہ سے دنیا بھر میں تیزی سے غربت پروان چڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں آزاد کشمیر و شمالی علاقہ جات سمیت، لاہور، اسلام آباد، اور پشاور وغیرہ میں زیادہ تر لوگ زلزلے جیسی خطر ناک آفات سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔جس سے ہمارے ان علاقوں کے پسے ہوئے افراد غربت کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہاں جب زلزلے اورسیلاب وغیرہ آتے ہیں تو بہت سی پراپرٹیز ملبے تلے دب جاتی ہیں۔جس کی وجہ سے جانی کے ساتھ ساتھ بہت سا معاشی اور مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔اگرچہ ان آفات پر قابو پانا نہایت مشکل ہے لیکن حکومت کو اپنی احتیاطی تدابیر پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔شہروں اور بڑی عمارتوں کو ایسی جگہ آباد کرنا ضروری ہے جہاں نقصان کی کم سے کم توقع ہو۔ کیونکہ ان لوگوں کو جو کہ غریب ہوتے ہیں اور زندگی بھر پیسے جوڑ جوڑ کر اپنا گھر اور تھوڑی بہت جائیداد بناتے ہیں ،انہیں قدرتی آفات کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ زلزلے جہاں انہیں اپنے تعمیر کردہ گھروں سے بے گھرکر دیتے ہیں اوروہیں کچھ افراد تو ملبے تلے دب کر خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں۔اسی طرح بے شمار لوگ معذور ہو جاتے ہیں اور یوں وہ دوبارہ کبھی اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کے قابل نہیں رہتے۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے شہر میرپور اور جہلم میں 24 ستمبر 2019ء کو فقط پچاس سیکنڈ تک ایک زلزلہ آیا جس کی شدت ریکٹر سکیل پر 5.8 ریکارڈ کی گئی تھی،اس سے بہت زیادہ مالی اور جانی نقصان ہوا خصوصاً بہت سارے لوگوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا کیونکہ دیہاتوں میں بڑے ہسپتال تو دور کی بات چھوٹے کلینک بھی مشکل ہی سے نظر آتے ہیں۔کسی بھی حادثاتی صورت میں زخمی مریضوں کو ہسپتال لے جانے تک بہت سے مریض راستے میں ہی اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں جبکہ اگر شہر میں اس طرح کے واقعات ہوں تو مریضوں کے لیے فوری طور پر طبی امداد کی سہولیات موجود ہوتی ہیں۔ جس کے سبب ان کے مالی نقصان کے ساتھ ساتھ جانی نقصان سے بچت ہو جاتی ہے۔
زلزلے کے نتیجے میں ہسپتالوں کی کمی اور علاج کی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے جو نقصان ہوتا ہے ہمارے بہت سے افسانہ نگاروں کے ہاں اس کا ذکرملتا ہے۔اگرچہ غلام فرید کاٹھیا کے ہم عصر شاہد رضوان نے بھی اس موضوع کو اپنے ہاں بڑے ہی بہترین انداز سے جگہ دی ہے تاہم غلام فرید کاٹھیا زلزلے کے نام سے مشہور اس زندگیاں نگل لینے والی آفت کو زیادہ موثر انداز میں ہمارے سامنے لائے۔ غلام فرید کے افسانے"پتھر کی گرفت"،"ویرانے کا پھول" اور میں انجینئربنوں گا"2005ء کے زلزلے کی تباہ کاریوں کا ذکر کرتے ہیں۔8 اکتوبر 2005ء میں آنے والا زلزلہ جہاں بہت سے لوگوں کی ہنستی بستی زندگیوں کو اجاڑ گیا ،وہیں یہ اپنے پیچھے بچ جانے والوں کی کئی ادھوری کہانیاں بھی چھوڑ گیا۔غلام فرید نے ان درد بھری کہانیوں کو اپنے افسانوں کا موضوع بنا کر ان کی مشکلوں اورپریشانیوں سے ہمیں آشنا کروایا۔ آپ کے افسانے بتاتے ہیں کہ دیہات کے پسماندہ طبقے پر جب قدرتی آفات نازل ہوتی ہیں توانہیں کون کون سے مسائل سے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان کا افسانہ "ویرانے کا پھول" دیہاتی لوگوں کے 2005ء کے زلزلے جانی ومالی نقصان کی تصویر پیش کرتا ہے۔اور بتاتا ہے کہ کس طرح لوگوں کے تمام گھر ملبے تلے دب چکے تھے۔کمبو اس افسانے کا مرکزی کردار ہے،جس کے ماں باپ ،بہن بھائی اپنے گھر کے ملبے تلے دب چکے تھے۔ اس کا تمام گاؤں گورستان میں بدل چکا تھا۔ جو کوئی اس ملبے سے بچ نکلا ان کی زبانیں بند اور نظریں پتھرا چکی تھیں۔واحد کمبو تھا جو زندہ اور ٹھیک تھا اس نے زندوں کو جھنجھوڑا،مرنے والوں کے لاشے اٹھائے اور اپنے گھر والوں کو ملبے کے نیچے سے نکالا اور وہ کافی حد تک اس میں کامیاب بھی ہو گیا مگر جب وہ اپنے گھر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ اس کا گھر بھی ملبے کے ڈھیر میں بدل چکا تھا۔ غلام فرید کاٹھیا نے اپنے اس افسانے کے ذریعے قدرتی آفات کا شکار ہونے والوں کی تکلیفوں اور مصیبتوں کی عکاسی کی ہے۔ افسانہ نگار نے دیہاتوں میں علاج معالجے کی کمی،ہسپتالوں کا نہ ہونا اور سہولیات کی کمی جیسے معاملات پر روشنی ڈالی ہے۔ کمبو کی بے بسی کو افسانہ نگار نے یوں بیان کیا ہے:-
’’کمبو بہت سے کراہنے والوں کو ملبے سے نکالنے کے بعد اپنے گھر کے ملبے تک بھی پہنچا لیکن وہاں کوئی کراہنے والا نہیں تھا نہ کراہٹ نہ سرسراہٹ۔ملبہ تھا اور ملبے تلے مکمل خاموشی۔اس نے لکڑی کاٹنے والی کہاہڑی سے ملبہ کاٹ کر راستہ بنانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا۔آخر کار تھک کرپریشان حال ملبے پر بیٹھ گیا۔بچ رہنے والے باقی لوگ بھی ہلکا پھلکا ملبہ ہٹا کر زخمیوں کو نکال لینے کے بعد اب بھاری ملبے کے ہاتھوں مجبور ہو گئے تھے۔زخمیوں کی چیخ و پکار سن رہے تھے مگر کیا کر سکتے تھے۔ نزدیک کہیں ہسپتال بھی تو نہ تھا جہاں انہیں منتقل کیا جاسکتا۔‘‘(8)
والدین کے سائے سے محرو م مزدوربچوںکوزندگی میںبہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن بچوں کے والدین حیات نہیں ہوتے انہیں اپنے لئے اپنی زندگی کی تمام جنگیں خود ہی اکیلے لڑنا پڑتی ہیں۔ غربت میں کوئی دوست، رشتہ دار،کوئی اپنا پیارا کسی کام نہیں آتا۔ جس بچے کے ماں باپ نہ ہوں، سب اسے تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔پھر اسے خود ہی اپنے پیٹ کو بھرنے کے لیے محنت مزدوری کرنا پڑتی ہے۔آج ہمارے معاشرے میں مزدوروں کی کوئی بھی عزت نہیں۔ امیروں،سرمایہ داروں اور با اختیار لوگوں کی طرف سے غریبوں کا بری طرح استحصال کیا جاتا ہے۔ کام کاج کے دوران انہیں سب کے سامنے بے عزت کیا جاتا ہے۔جو بچے کم عمری ہی میں غربت کے ہاتھوں مجبورہو کر گھر کی ذمہ داریاں اپنے کندھوںپراٹھا لیتے ہیں،انہیںبہت سے مسائل کاسامنا کرناپڑتاہے۔آج ہمیں اکثر دکانوں، ورکشاپوں ، ہوٹلوں، پٹرول پمپوں اور سڑکوں وغیرہ پربہت سے معصوم بچے کام کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ ان کے معاشی حالات انہیں یہ سب کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
غربت انسان کو بہت بے بس کر دیتی ہے۔ غریبی کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کو پڑھنے لکھنے نہیں بھیجتے ،کیونکہ اول تو ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ اپنی اولاد کو پڑھا لکھا سکیں۔دوسرا وہ یہ بھی جانتے ہیں پڑھ لکھ کر ان کی اولاد کو کون سی نوکری مل جا ئے گی،کیونکہ ہمارے معاشرے میں رشوت، بدعنوانی ،لالچ اور ہوس کا ہر سْو راج ہے اسی لیے اکثر غریب اور مزدور والدین کے بچے مزدوری ہی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مگر اس کے برعکس جن بچوں کے والدین انہیں کم عمری ہی میں چھوڑ کر اس دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں ،انہیں پھر پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کم عمری ہی میں مختلف جگہوں پر کام کاج کرنا پڑتا ہے۔ ایسے بچوں کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ انہیں کام کی جگہوں پر مختلف طرح سے زد و کوب کیا جاتا ہے، چھوٹی چھوٹی بات پر ان کی سب کے سامنے تذلیل کی جاتی ہے۔ کسی معمولی سی بھی غلطی پر کام سے نکالنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ اگر یہ کسی مجبوری کے تحت چھٹی کر لیں تو ان کی تنخواہ سے رقم کاٹی جاتی ہے۔ مگریہ معصوم گھریلو حالات سے تنگ تمام مظالم چپ چاپ سہنے پر مجبور ہوتے ہیں،کیونکہ وہ اپنی کسمپرسی سے باخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔
ان غریبوں کا بھی دل کرتا ہے کہ وہ بھی پڑھیں لکھیں،اپنی عمر کے بچوں کے ساتھ کھیل کود جیسی سرگرمیوں میں حصہ لیں مگر ان کی معاشی مجبوریاں انہیں یہ سب کرنے سے روکتی ہیں۔ یہ غریب جتنی بھی محنت کر لیں کم اجرت میں ان کا بس دو وقت کا کھانا ہی مشکل سے پورا ہوتا ہے۔ تھوڑی سی رقم بھی بیماری،ضرورت یا کسی قدرتی آفت کے لیے بچا کر رکھنا ان کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھنے والے ان غریب و یتیم بچوں سے ان کی شرارتیں اور ان کا بچپن غربت چھین لیتی ہے۔
مشکلوں اور سخت حال میں زندگی گزارنے والے ان مزدور بچوں کیلئے کبھی بھی جوانی نہیں آتی، وہ بچپن کے بعد سیدھا بڑھاپے کی طرف چھلانگ لگا لیتے ہیں۔غربت و مہنگائی انہیں زندگی کی خوشیوں ہی سے محروم کر دیتی ہے۔ ان کے پاس صحت اور علاج کی سہولیات کا فقدان ہوتا ہے۔ شادی بیاہ،عید،تہوار وغیرہ کے دن سب ان کے لیے عام اور معمولی دنوں جیسے ہوتے ہیں۔ ان بچاروں کی زندگیوں میں بہت سی ادھوری خواہشیں اور ان کی آنکھوں میں بے شمار سلگتے ہوئے سپنے ہوتے ہیں۔معاشی مشکلوںمیںپھنسے ان مزدور بچوںکے لئے زندگی کی بہاریں کبھی نہیں آتیں، کیونکہ ان کے معاشی حالات کبھی بہتر نہیں ہو پاتے۔ شاہد رضوان نے اپنے افسانوں میں غریب مزدوروں کے مسائل پر بڑی ہی دردمندی سے قلم اٹھایا ہے۔آپ کا افسانہ "تارکول کی سڑک" غریب مزدوروں کی بے بسی کو بیان کرتا ہے۔ یتیم و بے بس بچوں سے کس طرح بچپن اور جوانی کی رونقیں چھن جاتیں ہیں۔غربت ان کے ہمرہ سائے کی طرح چپکی رہتی ہے،ان کے معاشی حالات ساری زندگی نہیں بدلتے،شاہد رضوان کا یہ افسانہ غریب مزدور کے مسائل کواجاگر کرتا ہے:
’’غریب مزدور روتا دھوتا پیدا ہوتا ہے اور اسی طرح مر جاتا ہے۔ کیوںکہ پیدا ہوتے ہی اس پر ذمہ داریوں کا بوجھ لد جاتا ہے۔ وہ بچپن کی سیڑھی سے چھلانگ لگا ک بڑھاپے کی چھت پر قدم رکھ لیتا ہے۔ جوانی اس کے لیے آتی ہی نہیں‘‘۔ (9)
والدین خدائے پاک کا بہت بڑا انعام ہوتے ہیں۔ماں باپ اپنی اولادکو صحیح غلط کی تمیز سکھاتے،ان کی تربیت کرتے اور معاشرے کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں ، مصیبتوںاور پریشانیوں سے انہیں بچانے کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ والدین کی بے لوث محبت کے سائے میں پل کر اولاد خوشی اور فخر محسوس کرتی ہے۔ مگر اس کے بر عکس جو بچے اپنے والدین کے سایہ شفقت سے محروم ہو جاتے ہیں زندگی ان سے بڑے کٹھن امتحان لیتی ہے۔ انہیں کم عمری میں ہی گھریلو حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر محنت مزدوری کرنی پڑتی ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں ایسے بے شمار بچے ہیں جو معاشی مسائل کے ہاتھوں مجبور کم عمری ہی میں گھر کی تمام ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر اٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ محنت و مشقت کرتی یہ ننھی جانیں ہمیں اکثر ورکشاپوں اور مختلف دکانوں پر کام کرتی نظر آتی ہیں۔ان میں سے بعض بچے ہوٹلوں میں برتن دھونے کچھ پٹرول پمپوں پرگاڑیوں کے شیشے صاف کرنے اور اسی طرح بعض سڑکوں یا چوراہوں پرکھڑے منیاری وغیرہ کا سامان بیچتے دکھائی دیتے ہیں۔ صبح سویرے کام پر جانے والے یہ بچے اپنے گھر ہی سے دوپہر کے کھانے کا تھوڑا بہت سامان ہمراہ لے جاتے ہیں،کیوں کہ ان کے پاس باہر کے چٹ پٹے کھانے، کھانے کے لیے پیسے نہیں ہوتے۔ اسی طرح بعض ایسے بچے جن کے گھر کھانا پکانے والا کوئی نہیں ہوتا، وہ معصوم دن بھر یوں ہی خالی پیٹ کام کاج میں مصروف رہتے ہیں۔
غربت آج ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔اس غربت کی وجہ سے بہت سارے بچوں سے ان کا بچپن اور خوشیاں چھن جاتی ہیںکیونکہ انہیں اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لئے گھر سے نکل کر محنت مزدوری کرنا پڑتی ہے۔
آج ہمارے بہت سے فکشن نگاروں نے اپنے افسانوں میں غریب مزدوروں کے اُن مسائل کا ذکر کیا ہے، جن سے انہیں اپنی زندگی میں واسطہ پڑتا ہے۔غلام فرید کاٹھیا کے ہم عصر افسانہ نگاروں میں ایک نام شاہد رضوان کا بھی ہے۔اگرچہ شاہد رضوان نے بھی اپنے افسانوں میں مزدوروں کے مسائل کا ذکر کیا ہے،تاہم غلام فرید کاٹھیا نے اس موضوع کو زیادہ بہتر اور خوبصورت انداز سے اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے،اور آپ نے بتایا ہے کہ غریب اور مزدور طبقے کو اپنی زندگی میں کب اور کیسے کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آپ کا افسانہ ’’انو‘‘ ایک یتیم مزدور بچے انو کی کہانی ہے۔ اس کہانی کے ذریعے کم عمری میں کام کرنے والے ننھے مزدور بچے کی مشکلات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانے "انو" کے ذریعے باپ کی شفقت اور ماں کے پیار سے محروم بچیانو کی درد بھری کہانی بیان کی ہے،اور بتایا ہے کہ ماں باپ کے بغیر اولاد کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ’’انو‘‘افسانے کا مرکزی کردار ہے۔اس کی ولادت کے کچھ عرصہ بعد ہی اس کا والد اللہ کو پیارا ہو گیا۔ یوں انو یتیمی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔ گھر کی دال روٹی چلانے کے لئے وہ اپنی ماں کے ساتھ مل کر اپنے باپ کی چھوڑی ہوئی معمولی سی منیاری کی دکان پر بیٹھنے لگتا ہے۔ مگر تھوڑے ہی عرصے بعد انو کی والدہ نمونیا کے باعث جان کی بازی ہار جاتی ہے۔ اس طرح انو کا واحد سہارا بھی اس سے چھن جاتا ہے۔ وہ باپ کی شفقت سے تو پہلے ہی محروم تھا ،اب اس کم عمری میں اسے ماں کی ممتا کے لیے بھی محروم ہونا پڑتا ہے۔انو تیسری جماعت کا طالب علم تھا جب اس معصوم کے ننھے ہاتھوں نے بستہ اور کتابیں تھامنے کی عمر میں ہی مشقت و مزدوری کرنا شروع کر دی تھی۔ ادھوری تعلیم اور چھوٹے چھوٹے خوابوں کا بوجھ کندھوں پر اٹھائے بیچارہ انو تن ڈھانپنے اور پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطردکانداری کرنے لگا۔اس کی دکان کیا تھی فقط معمولی سا منیاری کا سامان تھا۔
غلام فرید کاٹھیا نے اس افسانے کے ذریعے چھوٹی عمر میں محنت مزدوری کرتے بچوں کے با رے میں بتایا ہے کہ ان معصوموں کی بھی بہت سی خواہشیں ،ان کے بھی کچھ جذبات اور ارمان ہوتے ہیں۔ یہ جب اپنی عمر کے بچوں کو ہنستے کھیلتے اور کندھوں پر بستے لٹکائے سکول جاتے دیکھتے ہیں،تو ان کا بھی جی کرتا ہے کہ یہ بھی تعلیم حاصل کریں، اپنے ہم عمر بچوں کی طرح ہنسیں، کھیلیں، کودیں، موج مستی کریں،اور عیش سے بے فکری کی زندگی جیے، مگر بدقسمتی سے گھریود ذمہ داریوں کا بوجھ انہیں یہ سب نہیں کرنے دیتا۔ ان معصوم بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں اور خواب، کم عمری میں ہی ادھوریرہ جاتے ہیں۔ ایسے بچے نہ اپنا بچپن جی پاتے ہیں اور نہ ہی بڑے ہو کر جوانی کی خوشیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کیوں کہ غربت و مہنگائی انہیں یہ سب کرنے سے روکتی ہے۔یوں توآج چائلڈ لیبر کی روک تھام کے لیے بہت سی این جی اوز کام کر رہی ہیں،اس کے ساتھ ہی حکومتی سطح پر بھی کئی قوانین بنائیجاتے ہیں۔تاکہ نے بچوں کو کام کرنے کی بجائے پڑھائی لکھائی کے لیے سکولوں میں بھیجا جا سکے،تاہم ان پر کوئی عمل نہیں کیا جاتا۔
غربت کا مارا غریب زندگی بھر غریب ہی رہ جاتا ہے،اس کے حالات کبھی بھی نہیں بدلتے۔کم عمری ہی میں مختلف جگہوں پر کام کرنے والے بچوں کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ انہیں اپنے ان پڑھ استادوں کی طرف سے مختلف طریقوں سے زد و کوب کیا جاتا ہے،کام سے نکالنے اورتنحواہ کاٹنے جیسی مختلف دھمکیاں دی جاتی ہیں۔چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر بڑی بڑی سزائیں،اور والدین کی گالیاں دی جاتی ہیں۔ ان بیچاروں کو ڈرایا، دھمکایا اور ان سے بد تمیزی سے پیش آیا جاتا ہے۔ مگر یہ معصوم معاشی حالات کے باعث تمام ظلم چپ چاپ برداشت کرلیتے ہیں،کیونکہ وہ اپنے گھریلو حالات سے باخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔
غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانے’’انو‘‘ کے ذریعے یتیم بچے انو کو در پیش مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ غربت کے مارے چھوٹے معصوم بچے کی کھیلنے کودنے کی عمر میں معاشی مسائل کے تحت مزدوری کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ بیچارہ انو بھی غریبی کے باعث شدید گرمی میں روٹی کمانے نکلتا ہے۔ منیاری کا سامان کندھوں پر اٹھائے انو دوسرے گاؤں جاتا ہے، تاکہ وہاں اس کا زیادہ سے زیادہ سامان بکے اور اسیکچھ منافع حاصل ہو سکے۔ننھے مزدور انو کے دوسرے گاؤں جا کر سامان بیچنے کے منظر کو غلام فرید کاٹھیا نے بڑی ہی دردمندی سے اپنے افسانے میں یوں بیان کیا ہے :
’’پسینے میں شرابور وہ گاؤں میں واقع چند دکانوں پر مشتمل بازار میں گیا تو اسے دو دکانوں کے درمیان خالی جگہ ملی جو لسوڑے کے سرسبز اور گھنے پتوں والے درخت نے گھیر رکھی تھی۔۔۔۔اس نے لسوڑے کے درخت سے چند شاخیں توڑیں جن سے اس نے جھاڑو کا کام لیتے ہوئے، جگہ صاف کرتے ہوئے اپنی گٹھڑی کھولتے ہوئے چادر بچھائی اور اپنی دکان سجا دی۔۔۔۔کچھ بچے اس کے گرد جمع ہو گئے اور چادر پر سجی چیزوں کو غور سے دیکھنے لگے۔ لیکن جلد واپس جا کر اپنے کھیل میں مصروف ہو گئے کیونکہ ان کو اپنے مطلب کی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ انو انہیں دیکھتا رہا اس کا بھی ان کے ساتھ کھیلنے کو دل کر رہا تھا لیکن وہ نہیں کھیل سکا۔‘‘(10)
مذہب اسلام ہر بڑے،چھوٹے، گورے، کالے، امیر،غریب کو برابر قرار دیتا ہے۔ برتری کا معیار صرف اور صرف تقویٰ کو کہا گیا۔ اسلام غریبوں کے استحصال، غلاموں کی نسلی فروخت، اور کمزوروں کے ساتھ غلط رویے کی شدت سے مذمت کرتا ہے۔اسلام انسانیت کوبھائی چارے کی لڑی میں پروئے رہنے کادرس دیتا ہے لیکن صد افسوس ہم آج امیروغریب جیسے طبقوں میں بٹ گے ہیں۔روپے پیسے کی اس کشمکش میں آج’’غریب‘‘ بیچارہ کولہو کے بیل کی طرح اک ہی راستے پر بے بسی سے دیوانہ وار لگاتار چلتا جا رہا ہے اور’’امیر‘‘اسے ہانکتے ہوئے اپنی عیش و مستی میں مگن دکھائی دیتا ہے۔
میرے وطن عزیز پاکستان کے کروڑوں غریبوں پرآج فقط چند ہزار امیروں کا تسلط ہے جوکہ صحیح و غلط کے مالک بنے غریبوں کی بنیادی ضروریات ہی سے بے پروا ہیں۔اگردیکھاجائے توآج سیکیورٹی گارڈ،چھابڑی والا، پنکچروالا،،بیرا،سیلزمین، مستری موچی،پینٹر،درزی، خاکروب، دھوبی، منشی، مکینک،الیکٹریشن،گوالا،کنڈیکٹر،پلمبر،نانبائی، ڈرائیور،مزدور اور بے شمار ایسے ہی شعبے ہیں کہ جن کا وجود’’غریب ‘‘کی وجہ سے برقرار ہے اوران سب ہی کے تو دم سے نظام کائنات کا حسن سلامت ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں بیشتر افراد ایسے ہیں جو غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جن کے پاس کھانے کو روٹی، پہننے کو کپڑا اور علاج معالجے کا بندوبست نہیں۔ آج میرے وطن کے غریب اشرافیہ کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں۔ان بچا روں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ آج پسے طبقے کا فرد غربت کے مدار میں گھوم رہا ہے روز ایڑیاں رگڑ رہا اور مر رہا ہے۔ مگرکسی کواس کی پرواہ ہی نہیں۔ مہنگائی وغربت کے سبب غریب کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اس پر رہا سہا ستم سرمایہ دار طبقہ اپنی طاقت کے زور پر پورا کر دیتا ہے۔ امیروں کو مزدوروں کی عزت کا کوئی لحاظ نہیں ہوتا،وہ بات بات پر ان کمزوروں کو ذلیل کرتے ہیں۔یہ سلوک نہ صرف مرد مزدوروں کے ساتھ کیا جاتا ہے بلکہ ایسی غریب عورتیں جو غربت کے باعث گھر سے باہر نکل کر کام کرتی ہیں انہیں بھی اسی طرح کے نازیبا سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہماریاکثردیہاتوں میں وڈیروں،جاگیرداروں، چوہدریوں، زمین داروں اور نوابوں کا راج ہوتا ہے۔ان لوگوں کے اپنے انوکھے ہی قانون، قاعدے ہوتے ہیں۔ پیسے کا نشہ،طاقت کا غرور ،اور نا جائز زمینوں کی ملکیت کے تکبر کی بنا پر یہ لوگ غریبوں کو پاؤں کی جوتی کے برابرسمجھتے ہیں۔ انہیں غریبوں کا حق کھاتے ہوئے ذرا شرم نہیں آتی۔ یہ لوگوں سے کام کاج کروا کر انہیں معمولی سی اجرت دے کر ان پر احسان جتلاتے ہیں۔ان لوگوں کے نزدیک غریبوں کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔انہیں کسی کی بھی بہو، بیوی یا بیٹی کو اپنے پاس قید کرلینے کی پوری آزادی ہوتی ہے۔ وہ غریب مزدوروں کے گھروں کی عورتوں مثلا بیویوں،بیٹیوں سے ہم بستری کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ انہیں اس تمام ظلم کے خلاف کوئی بھی روکنے والا نہیں ہوتا۔ کیوں کہ ان کی اپنے گاؤں میں حکمرانی ہوتی ہے،جہاں آئے روز عصمت دری اور جنسی استحصال کے واقعات رونما ہونا معمولی سی بات ہوتی ہے۔ آج ہمارے سماج میں قتل و غارت گری ، زیادتی اور جنسی تشدد جیسے واقعات میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومتی اداروں کو اس کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کرنے کی شدید ضرورت ہے،تاکہ ہمارا معاشرہ اس طرح کی برائیوں سے پاک ہو سکے۔
آج کل ہمارے معاشرے میں ہوس پرست اور وخشی نما بھیڑے چھوٹی بچیوں سے لے کر بڑی عمر تک کی عورتوں کو اغوا اور جنسی تشدد کے بعدبڑی تعداد میں قتل کر دیتے ہیں۔ سرمایہ داروں کی جانب سے پسماندہ طبقے کے ساتھ اس طرح کا ظلم زیادہ روا رکھا جاتا ہے۔کیونکہ اس طبقے کو معاشرے میں اپنی عزت خراب ہونے کی بڑی پرواہ ہوتی ہے۔ اس لیے یہ لوگ سارے ظلم کو چپ چاپ سنتے ہیں۔ اگر کوئی عورت بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف میڈیا اور سول سوسائٹی سے مدد لے کر کیس رجسٹر کرو ابھی لے تو اس کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ بیچاری وکیل کی فیسیں ادا کرتی رہے۔ جبکہ ظلم کرنے والا ظالم اپنے روپے کی طاقت سے سبھی کچھ خرید لیتا ہے۔ پولیس کے ذریعے سے کیس کمزور کروا کر ضمانت حاصل کرنا ان کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔
دیہاتوں کے چوہدری،وڈیریاور جاگیردار غریب عورتوں کی مجبوریوں سے فائدے اٹھا کر ان کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ غربت کے ہاتھوں تنگ،کام کاج کرنے والی خواتین کو ملازمت سے نکالنے کی دھمکیاں دے کر ان سے غلط اور ناجائز فائدے سمیٹے جاتے ہیں۔ عورتوں کا جنسی استحصال آج بہت عام ہو چکا ہے۔ حکومت کو اس کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے چاہیئں تاکہ اس برائی کو ختم کیا جا سکے۔ جہاں ہماریدیگر بہت سے افسانہ نگاروں نے عورتوں پر ہونے والے مظالم کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے،وہیں شاہد رضوان نے بھی اپنے افسانوں میں عورتوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف قلم اٹھایا ہے۔ ’’تار کول کی سڑک‘‘ آپ کا ایک ایسا افسانہ ہے جو کہ مزدور طبقے سے وابستہ خواتین کی زندگی اور ان کو درپیش مسائل و مشکلات کی بھرپور انداز میں عکاسی کرتا ہے۔خالص دیہاتی ماحول سے تعلق رکھنے والی ’’شریفاں‘‘اور کی بیٹی ’’ظہری‘‘دونوں اس افسانے میں مرکزی کردارہیں۔ جو غربت کے ہاتھوں مجبور ، پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کبھی گندم کی کٹائی،کبھی کپاس کی چنائی تو کبھی مزدور مردوں کے ساتھ تارکول کی سڑک پرپتھر کوٹتی نظر آتی ہیں۔ دونوں ماں بیٹی کا کوئی اور سہارا نہ تھا۔فصلوں کے دن گزرے تو محنت مزدوری کی عادی شریفاں نے بے کار بیٹھنا مناسب نہ سمجھا۔ گاؤں میں تار کول کی تازہ بنتی سڑک پر عورتوں کو کام کرتے دیکھا تو غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ،جھٹ منشی سے بات کی اور دونوں ماں بیٹی کام پر جانے لگیں۔ یہاں بہت سی لڑکیاں بجری کے ٹوکرے اٹھانے اور کوٹنے میں مصروف رہتیں۔ ظہری کو یہ کام پسند نہ تھا مگر وہ معاشی حالات سے تنگ آکر مجبوراً ماں کے ساتھ کام کے لئے جاتی تھی۔ مگر یہاں اسے منشی کی باتوں، تلخ جملوں اور اس کی غلیظ نظروں کا سامنا کرنا پڑتا۔ منشی اسے وقتا فوقتا چھیڑتا بھی اور باتوں ہی باتوں میں اس سے اپنی غلط خواہشات بھی پوری کرنے کا کہتا۔ مگر ظہری اس سب کے لئے نہ مانی، جس پر منشی نے ان مجبور ماں بیٹیوں کو بہانہ بنا کر کام سے نکال دیا۔ شاہد رضوان کا یہ افسانہ غربت کی چکی میں پستی دو ماں بیٹیوں کی بے بسی اور معاشرتی حیوانیت کی کہانی ہے۔ ہمارے معاشرے میں آج عورتوں کو مردوں کے برابر کام کرنے اور گھر سے باہر نکل کر کمانے کے لیے بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سرمایہ دار طبقہ غریب مزدور عورتوں کو بات بات پر ذلیل و رسوا اور بلیک میل کر کے ، نوکری سے نکالنے کی دھمکیاں دیتا ہے۔ کام کاج کے اڈوؤں،اور مزدوری کے ٹھکانوں پران بچاری عورتوں سے چند روپوں کی خاطرجس طرح اپنی عزتوں کا سودا کرنے کا کہا جاتا ہے،شاہد رضوان کا یہ افسانہ اس سب کی بہترین مثال ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ افسانہ دکھوں کی ماری ایک ایسی ماں کی بے بسی بھی عیاں کرتا ہے جو معیشت کی مجبوری کی بنیاد پر بیٹی کو جسم فروشی، منشی کی حیوانیت اور اسکی جنسی خواہشات کا احترام کرنے کا کہتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ماں ایک عورت ہو کر اک عورت یعنی اپنی بیٹی کو ان ناجائز اور حرام کام کی اجازت کیوں کر دے رہی؟ آخر وہ کون سی ایسی مجبوریاں ہیں جن کے باعث وہ اس انتہائی برے قدم کی جانب بیٹی کو دھکیل رہی ہے؟ تو بہت ہی افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ غربت ہی ہے جو معیشت کی چکی میں پستی ماں بیٹی کو یہ سب کرنے پر مجبور کررہی ہے۔
شاہد رضوان کے اس افسانے سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح جنسی درندے گھریلو حالات بدلنے کے لیے محنت مزدوری کرتی خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو اپنے مذموم مقاصد اور جنسی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔افسانہ نگار نے بڑے ہی بہترین انداز سے طاقتوروں کے ہاتھوں مظلوم عورتوں کے استحصال کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے۔ معاشرتی خباثت کی شکار اور غربت و بے بسی کی تصویر بنی ماں بیٹی کے مکالمے کو افسانہ نگارنے یوں بیان کیا ہے:
"وہ جھگی میں چارپائی پر لیٹ کر اس کا انتظار کر رہا تھا۔ایک دو بار تو اس نے باہر جھانک کر بھی دیکھا کہ وہ آ رہی ہے کہ نہیں۔وہ برابرجھگی کی طرف دیکھتی اور منشی کی بے چینی کو سمجھتی رہی۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا کہ وہ کیا کرے؟وہ ٹوکرا پھینک کر اپنی ماں سے بولی: ’’منشی کہتا ہے جھگی میں آ کر میری بات سنو۔‘‘ شریفاں دوسری طرف منہ کر کے بولی:"چلی جاؤ"(11)
عورت خدا کی خوبصورت مخلوق ہے۔جس کا ادب اور احترام ہم سب پر فرض ہے۔ مگر چونکہ ہمارے دیہاتوں میں جاگیرداروں،چوہدریوں،زمینداروں،وڈیروں اور نوابوں کی حکومت ہوتی ہے۔ کسی کی بھی بیٹی، بہو یا بیوی کو اپنے پاس قید کر لینے کی انہیں کھلی آزادی ہوتی ہے۔ جو عورتوں کے تقدس کا ذرا لحاظ نہیں کرتے۔ بلکہ وہ غریبوں ، ہاریوں اور کسانوں کی بہو ،بیٹیوں اور بیویوں پر ہر طرح کا ظلم کرنا اور ہم بستری کرنا اپنا حق سمجھتے ہیںاور انہیں کوئی روکتا بھی نہیں۔ کیونکہ ان کے گاؤں میں اپنے ہی قانون ہوتے ہیںجہاں عزت سستی اور روٹی مہنگی ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں عصمت دری اور جنسی استحصال کے واقعات آئے روز ہوتے دیکھائی دیتے ہیں۔پسماندہ طبقے میں ان کیسز کی شرح میں اضافہ زیادہ تیزی سے ہوتا ہے،کیونکہ اس طبقے کے پاس نہ تو کیس لڑنے کے لیے پیسہ ہوتا ہے اور نا ہی اتنا شعور کہ وہ اپنے خلاف ہونے والے ظلم پر آواز بلند کر سکیں۔ اگراس طبقے کی کسی خاتون کے ساتھ کوئی جنسی زیادتی ہو جائے تو اول تو ان کے بیانیے کی شنوائی ہی نہیں ہوتی، دوسرا اگر میڈیا اور سول سوسائٹی کی وجہ سے ان کا کیس رجسٹرڈ ہوبھی جائے تو ان غریبوں کے پاس کیس کی فییس بھرنے کی سکت ہی نہیں ہوتی ،جس کی وجہ سے ملزمان پیسے کی بنیاد پر پولیس کو ساتھ ملا کر کیس کمزور بنا دیتے ہیںاور بالآخرخود آزاد گوامتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں غریبوں کو کبھی انصاف نہیں ملتا کیونکہ امیر لوگ ان پر اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔قانون اور عدالتوں پر ان کا راج ہوتا ہے۔جس کی وجہ سے فیصلہ انصاف کے بجائے طاقت ور کے حق میں ہوتا ہے۔حکومت کو ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون بنا کر مجرموں کے خلاف سخت ترین سزائیں مقرر کرنی چاہیں۔تاکہ معاشرہ ان سے سبق حاصل کرسکے۔
افسانہ نگار نے سماج کے ان ہوس کاروں پر بھی قلم اٹھایا ہے جو اپنی ناپاک خواہشات کے لیے مجبورغربت کی ماری عورتوں کو شادی شدہ ہونے کے باوجود بھی اپنی ہوس کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آتے۔
غلام فرید نے اپنے افسانے ’’ٹھنڈے ہونٹ‘‘میں صغریٰ کی بے بسی کو بڑے ہی عمدہ انداز سے بیان کیا ہے۔صغری جو سانس کی بیماری کی ایک سال سے مریضہ بن چکی تھی۔اس بیماری کے باوجود وہ محنت و مشقت کر کے اپنے شوہر کے ساتھ سال بھر کیلئے راشن اکٹھا کر رہی تھی۔چوہدری انیس کی نظر صغری پر پڑی تھی جو کسی جنت کی حور سے کم دکھائی نہیں دیتی۔وہ کن اکھیوں سے صغریٰ کو دیکھنے اور تھریشروں کی نگرانی کے صغریٰ کے بہانے ،مشین کے قریب اٹھنے بیٹھنے لگا،کبھی عنایتے تو کبھی صغریٰ سے براہ راست بات چیت کرنے کی مسلسل کوششیں کرتا رہا۔مگرجب وہ صغریٰ کے ساتھ زیادہ گفت و شنید کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا تو اس نے اپنے دوخاص آدمیوں کے ذریعے رات کے پہر صغریٰ کو اٹھا کر لانے کا منصوبہ بنایا۔صغریٰ بیچاری سانس کی بیماری کی وجہ سے لاچار و بے بس، نیم بے ہوشی کے عالم میں سوئی پڑی تھی۔
افسانہ نگار نے خوب حقیقت نگاری سے کام لیتے ہوئے کہانی کے فن کو واقعات میں پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کس طرح چوہدری کے پروپیگنڈے میں اس کے کارندے اس کا ساتھ دیتے ہیں،اور بڑی ہی ہوشیاری اور چابکدستی اپنے گناہ کو چھپا کر کسی کو کانوں کان خبر ہوئے بغیر پارسائی کا لبادہ اوڑھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ان ظالموں کو ذرا احساس نہیں ہوتا کہ سانس کی بیماری میں مبتلا، ایک غریب مزدور عورت وقت پر دوا نہ ملنے کے سبب موت کو گلے لگا لیتی ہے۔اور ان ہوس کے پجاریوں کو کسی قسم کا کوئی پچھتاوا یا دکھ نہیں ہوتا۔
عورتوں پر جنسی تشدد کے حوالے سے ہمارے فکشن نگاروں نے بڑے ہی بہترین اور بلند پایہ افسانے لکھے ہیں۔ اگرچہ غلام فرید کاٹھیا کے ہم عصر افسانہ نگارشاہد رضوان نے بھی عورتوں پر جنسی جبر کے حوالے بہت اچھے انداز سے لکھا ہے،تاہم میری ذاتی رائے کے مطابق غلام فرید کاٹھیا نیاس حساس اور توجہ طلب موضوع کو اپنے افسانوں میں نئے انداز اور زیادہ بہتر زاویے سے بیان کیا ہے۔ اور بلاشبہ آپ اپنے افسانوں کے ذریعے دیہاتی زندگی کے ان مظالم کو اجاگر کرنے میں بہت حد تک کامیاب بھی ٹھرے ہیں۔ آپ کی اکثر کہانیاں عورتوں پر ہونے والے جبری ظلم کوعیاں کرتی ہیں۔ افسانہ’’ٹھنڈے ہونٹ‘‘صغریٰ کی بے بسی ،اورچالاکی و مکاری کا لبادے اوڑھے، ہوس پرست چوہدری انیس کی جھوٹی شان و شوکت کا پول کھولتا ہے۔ افسانے سے اقتباس ملاحظہ ہو :
’’ابھی اذانیں نہیں ہوئی تھی کے دونوں ملازمین اپنے فرض سے فارغ ہو کرواپس ڈیر ے پر پہنچتے ہیں جہاں چوہدری انیس سراسیمگی کے عالم میں ادھر ادھر تیز تیز قدموں سے گھوم رہا تھا۔انہیں دیکھتے ہی بول اٹھا ’’کسی نے دیکھا تو نہیں؟‘‘ اور دونوں نے بتایا’’سب ٹھیک ہے۔‘‘اور بولے۔۔۔ چوہدری انیس نے ڈانٹا اور کہا چپ رہو جب ہمیں کسی نے دیکھا ہی نہیں تو ہمیں کیا معلوم۔ اسی دن سہ پہر کے وقت جب صغری کا جنازہ پڑھایا جا رہا تھا تو چوہدری انیس اور ان کے دونوں ملازم جنازے کی پہلی صف میں امام کے عین پیچھے موجود تھے۔‘‘(12)
مرد کی طرح کسی بھی معاشرے میں عورت کا بھی بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ اگر مرد کا فرض روزی کمانا ہے تو یہ عورت گھر رہ کر بچوں کی پرورشکا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔ عورت کو فطری طور پر مرد کی نسبت ذرا کمزور پیدا کیا گیا ہے۔مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مرد طاقتور ہونے کی بنا پر عورت کا استحصال کرے۔ بلکہ عورتیں پیار،محبت،عزت و احترام کی حقدار ہوتی ہے۔ حضور پاک ﷺ کے خطبہ حجۃ الوداع کے فرمان کے مطابق لوگوں کو عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرنے اور ان کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
عورت کو آدھی دنیا تصور کیا جاتا ہے۔ اس لئے کسی بھی معاشرے میں اس کی اہمیت کونظر انداز کرنا آسان نہیں، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ عورت انسانی زندگی کی گاڑی کا لازمی پہیہ ہے، مگر انسانی تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ آدھی دنیا ہونے کے باوجود عورت کو وہ اہمیت و حیثیت نہیں دی جاتی ، جس کی واقعتاً وہ حقدار ہے، جس طرح اسلام کی آمد سے پہلے عورت کی عزت کو تباہ کیا جاتا ،خواتین کے ساتھ غیر انسانی رویہ روا رکھا جاتا۔ شوہر کے مرنے کے بعد عورت کی زندگی بے کار ہو جاتی۔مرد عورت کا جنسی استحصال کرتا تھا۔ بہن ،بیوی ،بیٹی جیسے پاکیزہ رشتوں کا کوئی احترام نہ تھا۔آج بھی اسی طرح ہماری جدید تہذیب میں عورت کو کوئی عزت نہیں دی جاتی۔بلکہ خواتین کا بہت بری طرح سے جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔آج ہمارے معاشرے میں عورت فقط جسمانی لذت کا ایک کھلونا بن کر رہ گئی ہے۔ چھوٹی بچیوں سے لے کر نوجوان لڑکیوں اور بڑی عمر کی عورتوں تک کی عزتیں محفوظ نہیں۔ ہمارے معاشرے میں جنسی درندے اپنی آنکھوں میں ہوس لیے معصوموں کی عزتیں تار تار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ عورت ہر عمر اور ہر روپ میں درندگی کا نشانہ بن رہی ہے۔ پھر وہ چاہے مِلوں میں کام کرنے والے کسی غریب کی بیٹی ہو،کسی کسان یا ہاری کے گھر کی عزت ہو،غربت کے ہاتھوں گھر سے نکل کر کام کرنے والی کوئی بے بس خاتون ہو یا پھر کسی غریب مزدور کی کم عمر ننھی شہزادی۔ غرض ہمارے معاشرے میں عورت کو ہر طرح سے نوچا جا رہا ہے۔ عورتوں کا جنسی استحصال کرنے والے لوگ اب نہ صرف فرد واحد کی صورت یہ جنسی جبر جیسا کھیل کھیلتے ہیں،بلکہ یہ لوگ منظم گروہوں کی صورت اس کام کو سر انجام دیتے ہیں۔ چھوٹی عمر کی بچیوں سے لے کر نوجوان لڑکیوں تک کومختلف حیلوں اوربہانوں سے بہلا پھسلا کر اغواء کیا جاتا ہے،اور پھر ان سے جنسی تشدد،جبر،اور زیادتی جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ نوجوان لڑکیوں کو اغوا کرنے والے بعض لوگ انہیں مختلف گروہوں اور جنسی کام کے اڈؤں میں بیچ دیتے ہیں،کسی بہت بڑی عمر کے مرد ساتھ زبردستی بیاہ دیتے ہیں یا ان کی گھر واپسی کے بدلے تاوان کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جنگل جیسا قانون ہے۔ ان ظالموں اور درندوں کو پکڑنے والا کوئی نہیں۔ انصاف کے اداروں کو چاہیے کہ وہ ایسے مجرموں کے لیے سخت ترین سزائیں رکھیں، تاکہ کسی معصوم لڑکی کی عزت داغدار نہ ہو۔ خواتین کا اغواء اور جنسی زیادتی جہاں ایک بہت ہی قبیح عمل ہے۔ وہیں چھوٹی بچیوں سے بد فعلی بھی ایک گھناؤنہ جرم ہے۔ ہمارے معاشرے میں آج جنسی زیادتی جیسا نا سور تیزی سے جڑیں مضبوط کر رہا ہے۔ جس سے چھٹکارا پانا بہت ضروری ہے۔شاہد رضوان نے اس موضوع پر بڑی دردمندی سے قلم اٹھایا ہے۔آپ نے اپنے افسانے ’’گل چیں‘‘ میں بچوں سے زیادتی کرنے والوں کو’’پھول توڑنے والے‘‘ جبکہ بچوں کو پھول سے تشبیہ دے کر بتایا ہے کہ جب غنچے(بچے) چٹخ کر پھول بنتے ہیں تو باغبان (والدین ) خوش ہوتے ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ہی اس کے ذہن کے کسی گوشے میں ہر لمحہ ’’گل چیں‘‘(پھول چننے والے چور/جنسی درندے) کا تصور بھی رہتا ہے جو اسے افسردہ کیے رکھتا ہے۔اسے ہر لمحہ گل چیں کے کھردرے ہاتھ نظر آتے ہیں جو ہر وقت پھول نوچنے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ایک پل کو اگر مالی(والدین ) کی نظر چوک جائے تو گل چیں کی بے رحمی اپنے ہاتھوں کی صفائی دکھا چکتی ہے۔
شاہد رضوان نے بڑی مہارت کے ساتھ ’’گل چیں‘‘افسانے میں پھولوں کی بات کر کے ننھی معصوم بچیوں سے جنسی درندگی کے موضوع کو سمویا ہے۔افسانہ نگارنے ایک ایسے شخص کی ذہنی و جسمانی کیفیت کو واضح کیا ، جو کہ فراغت کا شکار ہے اور ہمہ وقت انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا پر جنسی اشتہا بڑھانے والا مواد دیکھتا رہتا ہے۔جس سے اس کے اندر کا بھیڑیا جاگ جاتا ہے اور وہ ہر وقت اپنی جسمانی تسکین کے لیے منصوبے سوچنے میں لگا رہتا ہے۔ وہ اپنے شکار کی تلاش میں سڑک پر گھومتا ہے۔پہلے پہل تو وہ ایک سانولے رنگ کی عورت جو کہ حلیے سے ملازمہ معلوم ہوتی ہے چھٹ پر کپڑے پھیلاتی نظر آتی ہے ،وہ اسے دیکھ کر اپنے ہاتھوں سے عجیب اشارے کرتا ہے ،کبھی اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے بالوں میں کنگھی کرتا تو کبھی سیٹیاں بجا کراسے اپنی جانب مائل کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ مگر وہ اس کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے ، تیوری چڑھا کر غصے سے اسے گھورتی ہے اور نیچے سڑک کی جانب منہ کر کے اس پر تھوک دیتی ہے۔ جس پر وہ غصے سے تلملا اٹھتا ہے اوراپنی اس بے عزتی کا بدلہ لینے نکل پڑتا ہے۔وہ پارک میں جاتا ہے اور نسوانی چہروں کو نفسانی بھوک اور ہوس بھری نظروں سے دیر تک تکتا رہتا ہے۔مگر وہاں بھی اس کی دال نہیں گلتی ، تو وہ وہاں سے واپس لوٹ رہا ہوتا ہے یہ اچانک اس کی نظر گلی میں کھیلتے ننھے بچوں پر پڑتی ہے جنھیںدیکھ کر اس کے دماغ میں منفی خیالات پنپنے لگتے ہیں۔ وہ اپنے ناپاک منصوبے کی تکمیل کے لئے ان بچوں کے پاس رک جاتا ہے اور انہیں ٹافیاں دیتا ہے۔ اسی طرح روز بچوں کے پاس آکر، ان سے گپ شپ کرنے اور بند مٹھی کھول کر سب کو ٹافیاں بانٹنے کا یہ سلسلہ کافی روز تک جاری رہتا ہے۔ اس سب عرصے میں اس کے اندر کا بھیڑیا بھوک سے بلبلا رہا تھا۔وہ پیٹ سے کھانا کھا کر بھی بھوکا ہی رہتا اس کے دماغ میں شیطانی خیالات پلتے اور عجیب کھچڑی پکتی رہی۔ ایک روز وہ جب گلی میں آیا تو گلی میں سب بچے جمع تھے۔ وہ سب کھیل کود میں مصروف ہر لمحہ اودھم مچا رہے تھے۔مگر ایک سات سالہ بچی انوشہ سب سے جدا منہ پھلائے بیٹھی تھی۔نوجوان کے ٹافیاں لاتے ہی سب بچے اس کے ارد گرد جمع ہو گے، مگر انوشہ اپنی جگہ سے نہ ہلی۔ وہ بچوں سے اس کے روٹھنے کا سبب دریافت کرتا ہے۔جس پر بچوں نے اسے بتایا کہ وہ ماں سے چابی والی گڑیا لینے کی ضد کر رہی تھی ،جس پر ماں نے اسے بہت سمجھایا کہ یہ امیر زادیوں کی سی ضد چھوڑ دے،کیوں کہ اس کے پاس پیسے نہیں تھے۔ مگر وہ برابر وہی ضد کرتی رہی جس کی بنا پرماں نے اسے زور سے ایک تھپڑ دے مارا۔اور وہ دیر تک روتی رہی۔ اسی لیے وہ آج یوں چپ چاپ دکھائی دیتی ہے۔ جب نوجوان کو یہ سب پتا چلا تو اس کی آنکھیں شیطانیت سے چمکنے لگیں۔ اس نے بچی کے پاس ہو کر اس کے کان میں کوئی ایسی بات کہی کہ جسے سن کر اس کے روتے چہرے پر رونق آ گئی۔
نوجوان نے اپنے سوچے ہوئے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے تمام بچوں کو اس شرط پر دو دو ٹافیاں دینے کا اعلان کیا کہ وہ ٹافی لینے کے فوراً بعد اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے۔ یوں سب بچے باری باری گھروں کو پلٹ جاتے ہیںاورانوشہ نوجوان کی انگلی پکڑے، چہرے پر خوشی سجائے، آنکھوں میں مسرت سموئے یوں اچھلتی کودتی اس کے ساتھ ایسے چل رہی ہوتی ہے جیسے کسی میلے کے لیے قدم بڑھا رہی ہو۔ جہاں نوجوان کے چہرے پر شیطانیت جھلک کر رہی تھی وہیں انوشہ کے چہرے پر ملنے والے کھلونوں کے لیے خوشی اور طمانیت تھی۔ وہ آنے والے ڈراونے لمحوں سے بالکل بے خبر تھی۔ شاہد رضوان کا افسانہ ’’گل چیں‘‘ایک ایسے جنسی درندے کی ہوس اور اندرونی خباثت کا آئینہ دار ہے جو فقط سات سالہ ننھی غریب بچی کو کھلونوں کا لالچ دے کر اپنی جنسی تسکین کے لیے اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں بچیوں کا ریپ اور ان سے جنسی زیادتی بہت عام ہو گئی ہے۔ ان اغواء کاروں کا طریقہ اغواء کچھ یوں ہوتا ہے کہ یہ ننھی معصوم بچیوں کو کھانے پینے کی چیزوں کا لالچ دے کریا سکولوں سے واپسی پر مختلف خیلوں بہانوں سے اغواء کر لیتے ہیں اور اس طرح پھر مذموم جنسی عزائم کی تکمیل کے بعد انہیں بے دردی سے قتل کر کے بوری بند لاشوں کی صورت ویرانوں اور کچرے کے ڈھیروں میں پھینک دیا جاتا ہے۔غریب بچیوں کی جان اور عزت محفوظ نہیں ہے۔ہمارے انصاف کے اداروں کو جنسی بھیڑیوں کے خلاف سختی سے ایکشن لینا چاہیے اور ان کوکڑی سے کڑی سزائیں دینی چاہیئے تا کہ کسی بھی جنسی درندے کی یہ سب کرنے کی ہمت نہ ہو۔
ماں باپ کو اپنی جوان لڑکیوں کے ساتھ ساتھ،اپنی کم عمر بچیوں کو بھی اکیلے گھر سے باہر نہیں جانے دینا چاہیے، چھوٹی معصوم بچیوں کے والدین کو ان پر نظر رکھنی چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ ان سے کون،کب اور کیوں ملتا ہے؟۔اس سب کے ساتھ ساتھ ماں باپ کو اپنی بچیوں کو سختی سے اس بات سے بھی منع کرنا چاہیے کہ وہ کسی انجان شخص سے کوئی بھی کھانے پینے والی شے لے کر نہ کھائیں، اور نہ ہی والدین کو بتائے بغیر اکیلے کسی کے ساتھ باہر نکلیں،کیونکہ یہ سب احتیاطیں انہیں بہت سے مسائل اور طوفانوں سے بچا سکتی ہیں۔افسانہ’’گل چیں‘‘ میں شاہد رضوان نے جنسی بھیریے کی شیطانیت اور اسکی طرف سے اغواء کے سلسلے میں پھیلائے جانے والے ایک جال کو شاہد رضوان نے اس طرح بیان کیا ہے :
’’گلی میں سب بچے جمع ہو کر ادھم مچا رہے تھے لیکن انوشہ سب سے الگ منہ پھلائے لکڑی کے شہتیر پر بیٹھی تھی۔ اس کیٹافیاں لے کر آتے ہی سب بچے اس کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ لیکن انوشہ نہ آئی۔اس کے پچکارنے پر بھی نہیں آئی تو اس نے بچوں سے اس کے روٹھنے کا سبب معلوم کیا۔ایک بچے نے بتایا کہ وہ اپنی ماں سے چابی والی گڑیا لینے کی ضد کر رہی تھی۔ ماں نے اسے سمجھایا کہ وہ یہ سوچنا بھی چھوڑ دے کہ وہ امیر زادیوں کی برابری بھی کر سکتی ہے۔اس پر جب اس کی ریں ریں نہ رکی تو اس کی ماں نے اسے ایک چیت لگا دی۔یہ سن کر نوجوان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے بچی سے کوئی ایسی بات کہی کہ جسے سن کر اس کی چہرے پر خوشی کی لہر پھیل گئی۔‘‘(13)
آج ہمارے ملک کے کئی علاقوں میں نوابوں ،وڈیروں، چوہدریوں اور جاگیرداروں کا راج ہے۔ جو اپنی زمینوں پر کام کرنے والے ہاریوںاور کسانوں پر بہت ستم ڈھاتے ہیں۔ یہ سرمایہ دار بے چارے غریبوں سے محنت مزدوری کرواتے ہیں اوراس کے بدلے ان کے حصے میں اناج کا کچھ حصہ آتا ہے۔اگر کسی سال فصل بہت اچھی ہو جائے اور کسانوں یا ہاریوں کے پاس ان کی ضرورت سے زائد اناج جمع ہو جائے، تو یہ جھوٹی شرافت کے لبادے اوڑھنے والے وڈیرے مختلف حیلوں، بہانوں سیان غریبوں کو پیداوار کے حق سے محروم کردیتے ہیں۔ وہ ان پر کبھی اناج کی چوری جیسا سنگین الزام لگاتے ہیں تو کبھی کسی گائے ، بھینس کے ڈاکے کے جھوٹے مقدمے کے سلسلے میں انہیں جیل بھجوا کر ان بیچاروں کی رقم اور اناج وغیرہ پر قبضہ جما لیتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں غریبوں کا بہت بری طرح سے استحصال کیا جاتا ہے۔ انہیں اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ کیونکہ جو کوئی ان ظالموں کے سامنے آنکھ اٹھا کر یا اونچی آواز میں بات کرتا ہے تو یہ وڈیرے اسے بڑی ہی سخت قسم کی سزائیں دیتے ہیں۔ان ہاریوں اور کسانوں کی زندگی نوابوں، وڈیروں اور جاگیرداروں کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ بعض کسانوں کے معاملات میں یہ جاگیردار اور وڈیرے اتنا اثرورسوخ رکھتے ہیں کہ وہ ان کی بہنوں اور بیٹیوں کے رشتے اپنے ملازموں یا اپنے من پسند افراد سے طے کر دیتے ہیں اور وہ چھوٹے کسان اتنے بے بس ہوتے ہیں کہ انہیں بغیر چوں چرا کیے ان کی ہر بات ماننی پڑتی ہے۔ اسی طرح چھوٹے ملازموں کی بہنوں، بیٹیوں یا بیویوں پر اگر کسی وڈیرے،اس کے بیٹے کی نظر آ جائے اسے گھر سے اٹھا کر لے جانا ان وڈیروں کے لئے کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ نوجوان لڑکیوں کو اغوا کر کے ان سے ساتھ ظلم و زیادتی کرنے والے ان ظالموں سے سوال کرنے کا حق کسی کو بھی نہیں ہوتا۔۔کیونکہ دیہات اور گاؤں میں ان ظالم وڈیروں کی حکمرانی ہوتی ہے۔ وہ جب جسے مرضی قتل کے الزام میں پھنسا دینے کا ہنر رکھتے ہیں۔
ان مظلوم کسانوں اور ہاریوں کی کبھی بھی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔وڈیروں، نمبرداروں اور چوہدریوں کی جانب سے غریب کسانوں کوہمیشہ ہی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کسی کی بھی جوان حسین بیٹی اٹھوانا ان کے لیے ذرا مشکل نہیں ہوتا پولیس اور قانونی ادارے ان کے زیر سایہ چلتے ہیں۔ انہیں کسی کی بھی ذرا برابر پرواہ ہوتی ہے نہ ہی خوف۔ یہ وڈیرے اپنے سے کمزوریا چھوٹے ملازموں اور غریبوں سے اپنی کسی پرانی دشمنی، حسد یا ذاتی انا کا بدلہ لیتے ہیں۔ غرض وہ ان غریبوں پر ہر طرح کے مظالم کے پہاڑ توڑتے ہیں۔
غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانے’’لمحوں کی قید ‘‘کے ذریعے دیہاتوں کے فرعون نما وڈیروں کی اصلیت اوران کی وجہ سے ظلم کی چکی میں پسنے والی عورتوں کی بے بسی کا تذکرہ کیا ہے۔افسانہ نگار نے افسانے کے مرکزی کردار’’شمو‘‘ کے ذریعے معاشرے میں دوہری شخصیت اور منافقانہ رویوں کے مالک چوہدریوں کے نا پاک اور مذموم مقاصد سے پردہ اٹھا نے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ افسانے میں محنت پسند’’شمو‘‘کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ جو کہ جدی پشتی ہاریوں کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ محنت و مشقت اس کے لہو میں بچپن ہی سے شامل رہی تھی۔ وہ دن رات جانفشانی سے کام کرتا اور وڈیروں کی زمینوں پر کاشتکاری کرتا۔ وہ یہ سب اس لیے کرتا کیوں کہ وہ اپنی اکلوتی بہن’’رانو‘‘کا مستقبل سنوارنا چاہتا تھا۔عزت اور شان سے اسے اگلے گھر رخصت کرنے کی خواہش رکھتا تھا۔ اس کے ساتھ اس کی یہ بھی خواہش تھی کہ وہ اپنے بوڑھے ماں باپ کو بڑھاپے میں خوشحال زندگی کی تمام سہولیات مہیا کر سکے۔ اسی غرض سے وہ گاؤں کے سائیں کی زمینوں پر کاشکاری کا کام انجام دینے لگتا ہے۔وہ جی جان سے مزدوری کرتا ہے۔ فصل کی کاشت بہت اچھی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں شمو کے حصے میں بہت سارا اناج آتا ہے۔ وڈیرے سے یہ سب ہضم نہیں ہوتا کہ شمو اتنے زیادہ آناج کا مالک بن جائے۔ اس لیے وہ اپنی اندرونی خباثت اور ہوس و حرص کے باعث شمو سے اناج ہتھیانے اور اس کی اکلوتی بہن کو حاصل کرنے کے لیے رانو کو اغوا کروا لیتا ہے اور سارا الزام دوسرے وڈیرے پر لگا کر خود بری الذمہ ہو جاتا ہے۔ افسانہ نگار نے اس افسانے میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ گاؤں کے وڈیرے اور چودھری کتنی غلیظ اور گھٹیا فکر کے مالک ہوتے ہیں۔ان کی سوچ اور فکر میں ہوس کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ ان کی نگاہ میں کسی بھی عورت کا کوئی تقدس نہیں ہوتا۔ ان وحشی بھیڑیوں کہ اپنے الگ ہی قانون ہوتے ہیں۔ ان کا جب جی چاہے یہ جس مرضی غریب کی بہن،بیٹی کو طاقت کے زور پر اغواء کر لے جاتے ہیں،اور ان سے جتنا عرصہ ان کا جی چاہے ہم بستری کرتے ہیں۔ ان وڈیروں کے نزدیک غریب کے گھر کی عورت کی اس کوئی عزت نہیں ہوتی۔ اس لیے یہ ان سے ناجائز سلوک روا رکھنا اپنا حق تصور کرتے ہیں۔
آج ہمارے معاشرے میں طاقت کے نشے،خاندانی جھگڑے، کینے، حسد ،پیسے کی لالچ اور جنسی تسکین کے لیے کم عمر بچیوں سے لے کر بزرگ خواتین تک کو زیادتیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہیں مختلف مذموم مقاصد کے تحت اغواء کرکے مختلف گروہوں کے ہاتھوںبیچ دیا جاتا ہے۔ غرض آج ہمارے معاشرے کی عورت بالکل بھی محفوظ نہیں ہیں۔ حکومتی سطح پر اس سب کی روک تھام کے لیے اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ عورت عمر کے کسی بھی حصے میں ان جیسے درندوں کے ہاتھوں داغدار ہونے سے بچ سکے۔
آج جہاں ہمارے کئی دیگر افسانہ نگاروں نے اپنی کہانیوں کے ذریعے ان ٹھگ اورجنسی اغواء کاروں کے خلاف قلمی جہاد کیا ہے،وہیں اس فہرست میں ایک نام غلام فرید کاٹھیا کا بھی ہے۔غلام فرید کاٹھیا نے اپنے بہت سے افسانوں میں عورتوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر کیا ہے۔ آپ کے بیشتر افسانے ہمارے معاشرے کے ان ہوس کاروں کے چہروں پر طمانچہ ہیں ،جو غریب اور بے بس عورتوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے اغوا کرکے ان سے جنسی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ اگرچہ غلام فرید کاٹھیا کے بہت سے ہم عصر افسانہ نگاروں جن میں ایک نام شاہد رضوان کا بھی ہے،ان سب ہی نے عورتوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں، نوجوان لڑکیوں ،اور معصوم بچیوں کے اغوا سے متعلق اپنے اپنے انداز میں قلم اٹھایا ہے۔بلاشبہ ان کے افسانے حقیقتوں کی تصویر دکھائی دیتے ہیں۔
شاہد رضوان نے بھی عورتوں کے جنسی استحصال کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے،اورآپ اس میں بہت حد تک کامیاب بھی ٹھہرے ہیں،تاہم غلام فرید کاٹھیا کے ہاں یہ موضوع وسعت،گہرائی اور زیادہ جاندار انداز سے ملتا ہے۔ بلاشبہ دونوں افسانہ نگاروں نے عورتوں پر ہونے والے مظالم کو اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے تاہم غلام فرید کاٹھیا کے افسانوں میں دیہاتی عورتوں کے استحصال کی کہانیاں زیادہ بہتر انداز میں ملتی ہیں۔ غلام فرید کاٹھیا نے رانو کے اغواء اور وڈیرے کی منافقت کوبڑے ہی دلچسپ انداز سے اپنے افسانے میں اس طرح بیان کیا ہے :
’’سائیں، رانو گھر سے غائب ہے یقیناً اسے اٹھوا لیا گیا ہے،وہ ایسی ویسی بالکل نہیں ہے۔ یہ سردار ڈوڈے خان کے بھتیجے رحیم داد کی حرکت ہے اور سائیں اللہ ڈوائے نے دانت پیستے ہوئے کہا: رحیمو کے بچے کی میری گوٹھوں میں یہ جرات۔ میں ان کے سب ہاریوں کی بیٹیاں اٹھوا لوں گا۔ میں دیکھتا ہوں وہ بازو واپس کیسے نہیں کرتے۔‘‘(14)
’’ظلم ‘‘ عدل کی ضد ہے۔عدل و انصاف ہی کے باعث انسانیت کا وقار قائم و دائم رہتا ہے۔ جو معاشرہ انصاف کو پروان نہ چڑھا سکے وہاں پھر ظلم کا راج اور ظلم کی بات چلتی ہے۔پھر ایسے سماج میں دہشت و درندگی کا بسیرا ہو جاتا ہے۔ لوگ طاقت اور رشوت کے زور پر چند ہی لمحوں میں ملزم کو مجرم اور سزا یافتہ مجرم کو بے گناہ بنا دیتے ہیں۔اور ایسے معاشرے میں انصاف فقط چند پیسوں کی خاطر بکنے لگتا ہے۔ کسی بھی سماج کی خوشحالی،سکون اور بہتری کے لیے وہاں انصاف کا نظام ہونا بہت ضروری ہے۔ انصاف کے بغیر انسانیت کا قتل ہوجاتا ہے اور انسانیت کے ختم ہو جانے کا مطلب ہے جانوروں سے بھی بدترزندگی ہونا ہے۔قرآن کریم میں ہمیں بار بار انصاف کا حکم ملتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ’’کسی قوم(یا فرد) کی عداوت تمہیں نا انصافی پر نہ ابھارے، تم عدل کرتے رہو کیونکہ وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔‘‘ انصاف قوموں کے وقار کی علامت ہے۔ آپ ﷺ کا خطبہ حجۃ الوداع امیر، غریب، گورے ،کالے ہر ایک کو برابر قرار دیتا ہے، برتری کا معیار صرف تقویٰ ہے۔امیر طبقہ ازل ہی سے کمزوروں اور غریبوں کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتا آیا ہے اور آج بھی ہمارے جنوبی پنجاب اور دیہی علاقوں میں ایسے بے شمار جاگیردار، نواب اور وڈیرے نظر آتے ہیں جو غریبوں کا بڑی بے دردی سے استحصال کرتے ہیں۔ یہ چالاک اور مکار لوگ اپنی نسلوں تک پرانی دشمنیوں میں اپنے مخالفین کو مروا کے اس کا سب مدعا بیچارے غریبوں اور کمزوروں کے سر ڈال دیتے ہیں۔ غریب بیچارے کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ ان مقدموں کو لڑنے کے لیے اپنے لئے کوئی اچھا وکیل کر ے یاپھر امیروں کی طرح اپنی ضمانت کروا سکے۔ ہمارے ہاں عدل و انصاف کا پیمانہ بہت کمزور ہے، چھوٹے چور کو پکڑ کر سزا دی جاتی ہے جبکہ بڑا چور چوری کرتا ہے تو اسے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ امیر طبقہ جرم کر کے بھی باعزت و معزز بن جاتا ہے۔ اور اپنے جرموں کو چھپانے کے لیے غریبوں کے سر الزام تھوپ دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ہاں جیلیں صرف غریبوں سے بھری ہیں جبکہ بڑیڈاکو آزادانہ معاشرے میں دندناتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس سب سے معاشرتی بگاڑوانتشار جنم لیتا ہے۔
آج سرمایہ دار، وڈیرے ،چودہدی اور نواب اپنی دولت اور رشوت کے سبب پولیس اور انصاف کے اداروں کو خرید نے میں مشغول ہیں۔یہ غریبوں پر جھوٹے مقدمے بنوا کر انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے تمام عمر سڑنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ وہاں ان پر ظلم کرتے ہیں اور انہیں شدید تشدد کا بھی نشانہ بناتے ہیں۔چھوٹے طبقے سے تعلق رکھنے والے یہ قیدی اکثر اپنے گھر والوں کے اکلوتے کفیل ہوتے ہیں۔ان کی گرفتاری ان کے اہل خانہ کو فاقوں تک لے آتی ہے۔ بوڑھے ماں باپ کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے کوئی تگڑا وکیل کروا کے ان کی ضمانت کروا سکیں۔ پولیس اپنی سنگدلی،پیسوں کے لالچ اور وڈیروں کی وجہ سے بوڑھے والدین کو اولاد سے ملنے تک کی اجازت نہیں دیتی۔ یوں نہ صرف گرفتار ہونے والا جھوٹے مقدمے،پولیس تشدد اور تنہائی کے سبب مرتا ہے ،بلکہ اس کا تمام خاندان بھی فکر میں جیتے جی مر جاتا ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں ظلم بہت بڑھ گیا ہے۔ سرمایہ داروں اور وڈیروں نے غریبوں اور ان کے خاندانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔وہ ان مظلوموں پر ستم کے پہاڑ توڑتے ، ان کے خلاف جھوٹے مقدمے بنواتے، انہیں تشدد اور قتل تک کا نشانہ بنواتے نظر آتے ہیں۔ ان ضمیر کے سوداگروں کے باعث سماج سے بڑی تیزی سے عدل وانصاف کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ آج ظلم کی روک تھام اور غریبوں کے حقوق تحفظ کے لیے وڈیرہ سسٹم اور پولیس گردی کا خاتمہ بہت ضروری ہے،ہر چھوٹا بڑا سکون اور آزادی سے اپنی زندگی جی سکے۔
شاہد رضوان درد انسانیت رکھنے والاایک ایسا فکشن نگار ہے کہ جس نے اپنے افسانوں کے ذریعے غریبوں پر ہونے والے جبر پر بڑی ہنرمندی سے قلم اٹھایا ہے۔ اس کے افسانے معاشرتی رویوں کو بڑی حقیقت نگاری سے واضح کرتے ہیں۔ اس کا یہ افسانہ پولیس گردی اور مظلوموں کی بے بسی کو اجاگر کرتا ہے۔افسانہ نگار نے جیل میں قید دلبر کے کردار کے ذریعے پولیس کے قیدیوں سے بُرے سلوک اور غریبوں کی بے کسی کے منظرکی وضاحت کی ہے۔ بچارہ دلبر اپنے خلاف جھوٹے الزام کی تردید کرنے پر کس طرح پولیس کے تشدد کا شکار ہوتا ہیاور اس کے ماں باپ اورچھوٹے بہن بھائی پر اس کی جدائی کے نتیجے میں کیا بیتی ،اس سب کا اظہار شاہد رضوان کے افسانے میں یوں ملتا ہے:
’’یہ سب جواٹ ہے، من گھڑت کہانی ہے،دلبر اپنے خلاف لگنے والے الزام پر چلایا، تیری ماں۔۔۔۔۔۔ تیری بہن۔۔۔۔۔۔۔۔ایس ایچ او نے ماں بہن کی گالیاں دیتے ہوئے گھونسوں سے اس کے منہ پر حملہ کردیا،وہ بے چارہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔بیٹے کی یاد میں رو رو کر نوراں کی آنکھوں کا پانی ختم ہو گیا تھا، کرن کی کچی آنکھیں رو رو کر سوجھ گئیں، ان میںسرخی نے ڈیرے ڈال لیے تھے۔ ناصراور اختر بھائی کی تصویروں سے لپٹ لپٹ کر اپنی اداسیوں میں اضافہ کرتے رہتے تھے۔ امام دین تو پتھر کی مورتی کی طرح چارپائی پر پڑا رہتا، کون آیا؟کیا ہوا؟ اس نے ایسی باتوں سے چھٹکارا پا لیا تھا‘‘۔(15)
دین اسلام ہمیں عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے۔ زندگی کا کوئی بھی کے میدان ہوعدل کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔کیونکہ اسی کے سبب انسانیت اور رشتوں کا حسن ہے۔ایک اسلامی ریاست میں انصاف کا حصول ہر ایک شہری کا بنیادی حق ہے۔ مگر افسوس آج ہمارے غریبوں کے لیے اس کی رسائی بہت مشکل ہو گئی ہے۔ غریب بے گناہ ہو کر بھی گناہگاروں اور مجرموں کی فہرست میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جبکہ امیر ظالم، جابر اور قاتل ہو کر بھی سر بازارآزادی سے دھندناتا پھرتا ہے۔
آج ہمارے ہاں انصاف فقط امراء ، وڈیروں اور جاگیرداروں تک محدود ہو رہ گیا ہے۔ وہ جب اور جیسے چاہیں قانون کو اپنی مرضی کے مطابق کر لیتے ہیں۔ اس سب کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان غریبوں کا ہوتا ہے۔کیونکہ یہ امراء غریبوں کا بہت بری طرح سے استحصال کرتے ہیں۔یہ اپنے ماتحت کام کرنے والے غریب مزدوروں کو ہر طرح سے ظلم کا نشانہ بناتے ہیں۔ افسانہ نگار غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانے ’’دیوانے لوگ‘‘کے ذریعے ظلم کا نشانہ بننے والے مزدوروں گے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ آپ کا افسانہ "دیوانے لوگ" موضوع کے لحاظ سے ایک منفرد افسانہ ہے۔اس افسانے میں افسانہ نگار نے جیل میں قید بے گناہ مزدوروں کی مشکلات کا تذکرہ بڑی حقیقت نگاری سے کیا ہے۔اس افسانے میں عابو کو مرکزی کردار کے طور پر دکھایا گیا ہے۔عابوکا کردار ایک مثالی مزدور کا ہے۔جس کو ٹھیکیدار اپنے ہاں کام پر رکھ کر اس پر احسان جتاتا ہے۔آج کے دور میں مہنگائی عروج پر ہے۔مزدور طبقہ اپنی دیہاڑی چھوٹ جانے کے ڈر سے کم معاوضے کے عوض کام کرنے پر مجبور ہے۔ بیچارہ غریب مزدور مشکل سے دو وقت کی روٹی کھا پاتا ہے۔ ٹھیکیدار اس کی غریبی اور بے بسی کا ناجائز اٹھا کر اس سے غلط کام بھی کروا لیتے ہیں۔وہ ان پر کام سے نکالنے کا دباؤ ڈال کر انہیں اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ غلام فرید کاٹھیا نے مزدوروں کے استحصال کا ذکر کرتے ہوئے ٹھیکیدار کی ذہنیت سے پردہ اٹھایا ہے اور بتایا ہے کہ یہ ٹھیکیداران غریبوں کو اپنے مطلب کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ مگر جب یہی مزدور ان سے اپنی اجرت بڑھانے کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ انہیں کام سے نکالنے جیسی دھمکیاں دیتے ہیں، مگر اس کے ساتھ ہی ان منافقانہ رویوں کے مالک ٹھیکیداروں کو جب کسی ناجائز کام میں مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو بڑے ہی پیار سے ان مزدوروں سے گفتگو کرتے ہیں،انہیں چائے پانی کی دعوت دیتے ہیں اور بعض اوقات تو ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی کھا لیتے ہیں۔اپنے مطلب کے تحت یہ انہیں مختلف طرح کا لالچ دے کر ورغلانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔غرض یہ ٹھیکیدارانہیں مختلف طریقوں سے بلیک میل کرتے رہتے ہیں۔کچھ ایسا ہی حال اس افسانے میں عابو کا بھی ہے جو بہت غریب لیکن محنت کش اور ایماندار شخص ہے۔جس پر ٹھیکیدار تھوڑی سی نوازش کرتا ہے اور اسے بدلے میں رات کے وقت کچھ مزدوروں کے ساتھ مل کر بجری اور سریے کی ٹرالی بھرنے کا حکم دیتا ہے۔ مگر جب عابوکو ٹھیکیدار کی بے ایمانی اور چوری کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے باقی ساتھیوں سمیت وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے مگر اسے کامیابی نہیں مل پاتی۔ یہ مالک کو ہماری شکایت نہ لگا دیں،اور معاشرے میں ہماری عزت نہ خراب ہو جائے ، ٹھیکیدار اس خوف سے عابو اور اس کے مزدور ساتھیوں پر چوری اور قتل جیسے سنگین الزامات لگا کرانہیں جیل میں پھنکوا دیتا ہے۔ افسانہ نگار نیافسانے میں اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ کس طرح اوورسئیر ٹھیکیدار اورجیل وارڈن وغیرہ سب رشوت خور،کمیشن خور اور منفی سوچ کی حامل قوتیں ہیں۔وہ بے چارے لاچار اور غریبی کے شکار محنت کش مزدوروں پر ظلم کرتے رہتے ہیں۔ یہ بے ضمیر ملی بھگت سے ملک کی املاک اور قوم کا خزانہ چراتے رہتے ہیں۔ان ظالموں کو فقط لالچ،خود غرضی اور منافع کمانے کی پڑی ہوتی ہے۔انہیں بیچارے غریب مزدوروں کی جان ،مال یا عزت کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ انہیں بس اپنی جھوٹی اور نام نہاد عزت بچانے سے سروکار ہوتا ہے جس کے لیے یہ لالچی اور رشوت خورپولیس پر نوٹوں کی بارش کرتے ہیں ،اور ان معصوم و بے گناہ مزدوروں کو ڈکیتی اور قتل اور کے الزامات میں پھنسا کر سخت سزائیں دلواتے ہیں۔
آج ہمارے معاشرے میں سرمایہ داروں اور وڈیروں کے ہاتھوں غریبوں کا بہت بری طرح استحصال ہو رہا ہے۔جس کی روک تھام بہت ضروری ہے۔ ہمارے کئی افسانہ نگاروں نے مزدوروں کے مسائل اور پولیس گردی پر قلم اٹھایا ہے اور وہ غریبوں کے حق کے لیے آواز بھی بلند کر رہے ہیں۔ایسے ہی افسانہ نگاروں میں ایک نام غلام فرید کاٹھیا کا بھی ہے جنہوں نے اپنے افسانوں میں پسماندہ طبقے کو موضوع بنا کر امیر ٹھیکیداروں اور ان کے کارندوں کے ہاتھوں مزدوروں کے استحصال کوبیان کیا ہے۔ اگرچہ یہ موضوع غلام فرید کاٹھیا کے ہم عصرافسانہ نگار شاہد رضوان کے ہاں بھی’’تارکول کی سڑک‘‘ میں ملتا ہے تاہم غلام فرید کاٹھیا نے اس موضوع کو وسعت و گہرائی کے ساتھ زیادہ موثر انداز میں بیان کیا ہے۔شاہد رضوان نے اس موضوع کو متوسط جبکہ غلام فرید کاٹھیا نے پسماندہ طبقے کے تناظر میں دیکھا ہے۔
غلام فرید کاٹھیا پسماندہ طبقے کے مزدوروں کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ امیر لوگ غریب عوام کو اپنے ناجائز کاموں میں استعمال کر کے بعد میں انہیں جیل بھجوا دیتے ہیں۔ جہاں ان ملزمان کو سب سے نچلے درجے کی جیل میں رکھا جاتا ہے۔ وہاں ان سے ظالموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ چونکہ ان غریبوں کے گھریلو حالات اتنے اچھے نہیں ہوتے اور ان کے گھر والوں کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ وہ اپنے پیاروں کی ضمانت کروا کر انہیں جیل سے نکلوا سکیں۔اس لئے ان بیچاروں کو برسوں اور بعض اوقات تو عمربھر بھی جیل ہی میں رہنا پڑتاہے۔غلام فرید کاٹھیا کا افسانہ’’دیوانے لوگ‘‘ ایک غریب مگر ایماندار اور محنت کش مزدورعابو کی کہانی ہے۔ ٹھیکیدار عابد اور اس کے ساتھیوں سے غیر قانونی کام کروا تا ہے اور پکڑے جانے پر الٹا ان بیچاروں پر ہی ڈکیٹی اور قتل کا جھوٹا الزام لگا کرانہیں جیل میں ڈلوا دیتا ہے۔عابو کے اہل خانہ کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ اس کی رہائی کے واسطے کوئی پیشہ ورانہ وکیل کروا کر اس کی معصومیت و بے گناہی کو ثابت کروا سکیں۔ ٹھیکیدار نے عابد کے خلاف جھوٹے گواہ پیش کر کے عابد کو تمام عمر کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھجوا دیا۔ غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانے کے ذریعے مزدوروں پر ہونے والے ظلم اور پولیس کے منفی کردار پر روشنی ڈالی ہے:
’’پھر وہ دن بھی عابد کو کل کا دن نظر آنے لگا جب اسے اور اس کے زخمی ساتھی کو عدالت نے اوورسئیرکے قتل کے الزام میں عمر قید کی سزادی تھی۔ان کا تیسرا ساتھی ان کے جرم کی اعانت کے پانچ سال سزا بھگت کر جا چکا تھا۔ان تینوںکے خلاف اوورسئیر سے ساٹھ ہزارچھیننے کے لیے قتل کا الزام لگا۔مدعی وہی پھاٹک والا چوکیدار بنا۔ٹھیکیدار اور ٹریکٹر ڈرئیور ان کے خلاف چشم دید گواہ تھے۔جنہوںنے ملزموں کو شناخت پریڈ میں کمال مہارت سے شناخت کر لیاتھا۔‘‘(16)
غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان نے اپنے افسانوں کے ذریعے اردو افسانے کے دامن کو وسعت دی ہے۔دونوں کے افسانے حقیقت سے قریب اور معاشرتی رویوں کے عکاس ہیں۔اگرچہ دونوں افسانہ نگاروں کی فکر و فن،سیاسی ،تہذیبی ،ثقافتی تصورات اور پیشکش و اسلوب کے سلسلے میں کافی مماثلتیں اور اختلافات موجود ہیں،مگر اس تحریر اور تقابلی موازنے کے نتیجے میں کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا مقصود نہیں بلکہ دونوں افسانہ نگاروں کی ادبی اہمیت اور حقیقی مقام و مرتبہ کا تعین مقصود تھا۔ دونوں افسانہ نگاروں کے افسانوں کا جائزہ لینے ،غوروفکر اور تلاش و جستجو کے بعد جو اہم نکات سامنے آئے ہیں اور جن کی تفصیل مختلف ابواب میں مع حوالہ جات دی جا چکی ہے ان کو بطور اجمال چند نکات کی شکل میں یوں پیش کیا جاسکتا ہے۔
٭ شاہد رضوان کا سرمایہ ادب غلام فرید کاٹھیا کی بہ نسبت زیادہ ہے۔
٭ اگرچہ غلام فرید کاٹھیانے سفرنامہ جبکہ شاہد رضوان نے ناول اور شاعری کی، تاہم دونوں کے فن کا عروج افسانے میں نظر آتا ہے۔
٭ غلام فرید کاٹھیا نے عموما پسماندہ طبقے کو اپنے افسانوں میں منعکس کیا ہے جبکہ شاہد رضوان کے ہاں سبھی طبقات کی نمائندگی ملتی ہے۔
٭ غلام فرید کاٹھیا کے ہاں واضح اور صاف پلاٹ ہمیشہ موجود رہتا ہے جبکہ شاہد رضوان کے ہاں کبھی کبھار پلاٹ خاصا پیچیدہ نظر آتا ہے۔
٭ غلام فرید کاٹھیا کی کہانیوں میں علامت و اشاریت نہیں ہوتی جبکہ شاہد رضوان کے ہاں بعض افسانوں میں علامت و اشاریت واضح طور پر موجود ہیں۔
٭ غلام فرید کاٹھیا نے افسانوی فن اور تکنیک میں کوئی اجتہاد نہیں کیا تاہم ان کا اسلوب تحریر سادہ اور جاندار ہے،جبکہ شاہد رضوان اپنے فن اور تکنیک کے بعض جدید رویوں کو شعوری طور پر استعمال کیا ہے۔مثلا شو ر کی رواور فلیش بیک خیالات کا استعمال ملتا ہے۔
٭ شاہد رضوان نے نسوانی کردار زیادہ تعداد میں پیش کیے ہیں جبکہ غلام فرید کاٹھیا کی تخلیقات میں نسوانی کردار نسبتاًکم ہیں۔
٭ شاہد رضوان کے یہاں بے باکی اور کسی قدر جنسیت پیدا ہو جاتی ہے جبکہ غلام فرید کاٹھیا پر ایسے موقعوں پر بے باکی کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔
٭ شاہد رضوان اور غلام فرید کاٹھیا دونوں کے یہاں داخلی ماحول کا اثر نظر آتا ہے۔ اور ان کے کرداروں کی جذباتی کیفیات بڑے بہترین انداز سے بیان کی گئی ہے۔
٭ شاہد رضوان کے ہاں افسانوں میں تو اتنی طوالت نہیں البتہ غلام فرید کاٹھیا کا ایک افسانہ ’’لمحوں کی قید‘‘ کچھ طویل ہے۔
٭ شاہد رضوان اور غلام فرید کاٹھیا کے افسانوں کے کردار زندگی کی حرارت سے بھرپوروہ جیتی جاگتی تصویریں معلوم ہوتے ہیں۔
امید ہے کہ مندرجہ بالا نکات مقالے کے نفس مطلب کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہونگے اور اس مقالے کے مطالعہ سے اہل نظر دونوں فکشن نگاروں کے بارے میں منصفانہ اور غیرجانبدارانہ رویہ اپنائیں گے نیز دونوں فکشن نگاروں کی جہات پر مزید غور و فکر کے راستے نکلیں گے اور ان کے فکر و فن سے آئندہ زیادہ بہترین طریقے سے استفادہ کیا جاسکے گا۔
غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان دونوں کی کہانیوں میں دور حاضر کے مسائل اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ نمایاں نظر آتے ہیں۔ دونوں افسانہ نگاروں نے بڑے ہی بہترین انداز سے زندگی کو ہر رْخ سے اْلٹ پلٹ کر دیکھنے کی کوشش کی ہے مگر ہر رخ میں انہیں شاید ایک ہی پہلو سب سے زیادہ نمایاں نظر آیا۔وہ پہلو ’’بھوک‘‘ ہے ،جو کسی جگہ جسمانی بھوک کہیں حرص و ہوس کی بھوک تو کسی جگہ پیٹ کی بھوک کی صورت میں ان کی کہانیوں کا موضوع بنتی دکھائی دیتی ہے۔ جس طرح غلام فرید کاٹھیا کے اکثر افسانوں میں متضاد معاشرتی رویوں مثلا وڈیروں ،جاگیرداروں اور چوہدریوں کی منافقانہ شخصیت کا ذکر ملتا ہے۔بالکل اسی طرح شاہد رضوان بھی اپنے افسانوں میں موجود کرداروں کی زندگی میں خواص و عام کی تخصیص کرتا ہے۔ مثلاآپکے افسانے ’’بچھو‘‘ اور’’مسلی ہوئی پتیاں‘‘ معاشرتی تفریق کو بڑی خوبصورتی سے بیان کرتا ہے۔ شاہد رضوان اور غلام فرید کاٹھیا کے ہاں یوں تو وہ خاصے متنوع موضوعات نظر آتے ہیں تاہم کچھ ایسے موضوعات بھی ہیں جو دونوں میں مماثل ہیں مثلا ’’رشوت خوری‘‘،’’غریب مزدوروں کا استحصال‘‘ ،’’عورتوں سے جنسی جبر‘‘،’’پولیس گردی و کمزور نظامِ انصاف‘‘ اور’’قدرتی آفات‘‘وغیرہ وہ موضوعات ہیں جو دونوں کے ہاں پائے جاتے ہیں۔ دونوں افسانہ نگاروں کے افسانوں کی ایک خاص بات ان کے نسوانی کردار ہیں۔جو عورت کی نفسیات و کیفیات اور مرد کے ہاتھوں اس کے استحصا ل کی داستان سنتے ہیں۔ شاہد رضوان اور غلام فرید کاٹھیا کی کہانیاں دھرتی کے بطن سے پیدا ہوتی ہیں۔ان میں اسی لئے مٹی کی بو اورخالص پن موجود ہے۔ ان کے تمام کردار اپنے اپنے طبقے کے ماحول،اسکی زبان اور معاشرتی رویوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں کے کردار صداقت سے معمور لمحوں کی تلاش میں ان کے ساتھ چلتے نظر آتے ہیں دونوں افسانہ نگاروں نے مسجع و مقفع الفاظ کی بجائے سادہ اور دیہات کی عوامی زبان کو اپنے افسانوں میں استعمال کیا ہے۔ بلاشبہ دونوں افسانہ نگاروں نے منفرد موضوعات پر افسانے تحریر کیے ہیں۔ دونوں نے اپنے افسانوں میں اپنا زندہ معاشرہ محفوظ کر دیا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭

حوالہ جات
1۔ شاہد رضوان، پتھر کی عورت،دانیال پبلشرز، چیچہ وطنی،2010ء ،ص:164-165
2۔ مہر غلام فرید کاٹھیا، لمحوں کی قید،گنجی بار پبلشرز،ساہیوال، 2008ء ،ص :116
3۔ شاہد رضوان، پہلا آدمی، دانیال پبلشرز، چیچہ وطنی، 2013ء ، ص:155
4۔ مہر غلام فرید کاٹھیا، لمحوں کی قید، ص:34
5۔ شاہد رضوان ، پہلا آدمی، ص:152
6۔ مہر غلام فرید کاٹھیا، لمحوں کی قید، ص:130
7۔ شاہد رضوان، پتھر کی عورت، ص:41
8۔ مہر غلام فرید کاٹھیا، لمحوں کی قید، ص:17
9۔ شاہد رضوان، ادھوری کہانی، کی تصویر، دانیال شاہد، چیچہ وطنی، 2020ء ، ص:167
10۔ مہر غلام فرید کاٹھیا، سفید تتلیوں کا ہار، بک ہوم لاہور، 2022ء ، ص:30
11۔ شاہد رضوان، ادھوری کہانی کی تصویر، ص:173
12۔ مہر غلام فرید کاٹھیا، سفید تتلیوں کا ہار، ص:97
13۔ شاہد رضوان، ادھوری کہانی کی تصویر، ص:88
14۔ مہر غلام فرید کاٹھیا، لمحوں کی قید، ص:53
15۔ شاہد رضوان، پتھر کی عورت، ص:127-128
16۔ مہر غلام فرید کاٹھیا، لمحوں کی قید، ص:11
٭٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...