Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

دو افسانہ نگار: غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان |
حسنِ ادب
دو افسانہ نگار: غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان

حاصل تحقیق
ARI Id

1689952519654_56116835

Access

Open/Free Access

Pages

۱۸۳

حاصلِ تحقیق
افسانے کا شمار اردو کی مقبول ترین اصناف میں ہوتا ہے۔ اس کی روایت اگرچہ مغرب سے ہمارے ہاں آئی مگر قصوں، حکایتوں اور داستانوں کی صورت میں کہانی کی ایک مضبوط روایت ہماری تہذیب اور ادب میں پہلے سے تھی۔ جدید ادب کی اس صنف میں افسانوی انداز میں حقیقی واقعات کو اجاگر کیا جاتا ہے۔افسانہ ناول کی نسبت کافی چھوٹا ہوتا ہے۔ دراصل افسانہ وہ صنف ہے جو ایک ہی نشست میں پڑھا جا سکے۔ انگریزی میں افسانے کے لیےShort Storyکی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اردو افسانے کا آغاز بیسویں صدی میں ہوا۔ افسانے سے قبل لوگ لمبی لمبی داستانوں اور ناولوں کو پڑھنے اور سننے کے شوقین تھے۔ ان کے پاس وافر وقت موجود تھا۔ جھوٹی من گھڑت پریوں ،جنوںاورمافوق الفطرت عناصر سے بھرپور کہانیاں کئی کئی دنوں اور بعض اوقات تو مہینوں چلتی رہتی ہیں۔مگر ایجادات اور ترقی کے سفر کے ساتھ ہی لوگوں کی مصروفیات میں اضافہ ہونے لگا۔وقت کی قلت ہونے لگی تو لوگوں نے لمبی داستانیں سننا اور پڑھنا ترک کردیں۔ افسانے کی ایجاد کے پیچھے انسان کی بڑھتی ہوئی مصروفیات بھی کار فرما ہیں۔ ایک ایسا انسان جس کے پاس وقت کی کمی ہو اس کے لیے افسانہ ہی اس کے ذوق کی تسکین ہے۔
افسانے کا ہمارے ادب سے بڑا گہرا تعلق ہے،کیونکہ ادب زندگی کا عکاس ہے۔ اس کے ذریعے معاشرتی تعمیر و ترقی پروان چڑھتی ہے۔ ادب تہذیبی، سماجی اور فکری رجحانات و میلانات کو اپنے دامن میں سموئے ہوتا ہے۔کیونکہ ادب زندگی سے جنم لیتا ہے اور ادب اور زندگی ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ چونکہ افسانے میں زندگی اور اس کی حقیقتوں سے متعلق بات کی جاتی ہے اس لیے ادب اور زندگی دونوں سے افسانے کا بہت گہرا تعلق ہے۔ افسانے میں افسانہ نگار ماحول، واقعے، کردار یا جذبے کے اظہار کو فنی تقاضوں کے ذریعے بیان کرتا ہے۔ افسانے میں اشاریت، اختصار،وحدت تاثر اور ایمائیت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ پلاٹ، کردار، ماحول اور فضا کے ساتھ ساتھ افسانے میں حقیقت نگاری اور کرداروں کا جاندار ہونا بھی بہت ضروری ہے۔
افسانہ معاشرے کے مجموعی رویوں کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ افسانے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ تاریخ کو اپنے اندر سمونے کا ہنر رکھتا ہے۔اردو افسانے کا دامن بہت وسیع ہے۔اس میں قیام پاکستان کے دلخراش واقعات،ہجرت و شہادت کے مناظر،قدرتی آفات،دہشت گردی، غربت کی چکی میں پستے عوام ، کرپشن خوری، ڈکٹیٹر شپ و مارشل لائ، سیاسی حالات،بدعنوانی،عورتوں سے ظلم غرض معاشرے کا ہر موضوع اور ہر مسئلہ شامل ہے۔ افسانے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ معاشرتی بے حسی و بے رحمی جیسے رویوں کو اپنے دامن میں سمو لینے کا ہنر رکھتا ہے۔
اردو افسانے کی خوش بختی ہے کہ اسے آغاز ہی سے تین اہم رویے نصیب ہوئے۔ سجاد حیدر یلدرم نے جہاں اسے اپنے رومانی رجحانات بخشے،وہیں پریم چند نے حقیقت نگاری کی بنیاد پر اردو افسانے کی عمارت استوار کرنے میں مدد دی،اسی طرح راشد الخیری نے اپنی کہانیوں کے سبب روحانی اور اسلامی طرز کا اخلاق عام کرنے کی کوشش کی۔ مگر اردو افسانے کی پہلی جست "انگارے " کی اشاعت کو تصور کیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہی ترقی پسند تحریک کا نقطہ آغاز تھا۔ اس تحریک نے معاشرتی حقیقت نگاری اوراپنے انقلابی شعور کے نتیجے میں اردو افسانے کو نئے مضامین سے روشناس کروایا۔اسی عہد میں اردو افسانے کے وہ بہترین افسانہ نگارپیدا ہوئے جن کی بدولت اس عہد کو اردو افسانے کا’’عہد زریں‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ عصمت چغتائی ،سعادت حسن منٹو،راجندر سنگھ بیدی،غلام عباس اور کرشن چندر نے اردو افسانے کی عظمت و رفعت میں اضافہ کیا۔ قیام پاکستان کے دوران تقسیم، ہجرت اور فسادات نے اردو افسانے کو نئے موضوع عطا کیے۔
اسی طرح ترقی پسند تحریک کے بعد حلقہ ارباب ذوق عمل میں آیا۔ جس کے تحت لکھنے والوں میں انتظار حسین، ممتاز مفتی ،حسن عسکری،الطاف فاطمہ ،رشید اور آغا بابر شامل ہیں۔ اس حلقے نے علامت نگاری کو فروغ دیا۔ اس دور میں افسانہ نگاروں کی ایک ذہین نسل ابھر کر سامنے آئی۔ جس نے افسانے کے دامن کو وسعت دی۔ جیلانی بانو، انتظار حسین ،رام لعل،بانو قدسیہ،واجدہ تبسم ،جمیلہ ہاشمی اور غلام ثقلین نقوی وغیرہ کی بدولت اردو افسانے کے کینوس کو وسعت ملی۔ انتظار حسین نے افسانے کو علامتی و اساطیری جبکہ انور سجاد نے تجدیدی اور استعاراتی انداز عطا کیا۔ آمریت،جبر اور اظہار رائے پر پابندیوں کے نتیجے میں پاکستانی افسانے میں علامت نگاری نے جگہ پائی۔ امجد، مظہرالاسلام، جوگندر پال،قرۃالعین حیدراورمنشا یاد وغیرہ نے علامتی طرز کے اظہار کے لیے اردو افسانے کو شعور و آگہی بخشی۔ اس دور میں جدید عہد کے انسان کی ہوس پرستی ،حرص و طمع واخلاقی بحران ، جبر،خوف و تنہائی اور بے یقینی افسانوں میں کھل کر سامنے آئی۔ 65 کی جنگ نے اردو ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس دور کے انسانوں میں محبت و خود شناسی جیسے موضوعات ابھر کر آئے۔اسی طرح جہاں ستر کی دہائی میں علامتی افسانے لکھے گئے تو سقوط ڈھاکہ جیسے سا نحے کے نتیجے میں افسانے میں اجتماعی دکھ اور کرب ابھر آیا۔ اسی کی دہائی میں جدید افسانے میں مابعد جدید افسانوں کی ابتدا ہوئی اور افسانے نے ذات کے دائروں سے باہر نکل کر اپنا رشتہ سیاسی، معاشی،اور سماجی مسائل و حقائق سے وابستہ کیا۔ اس دور میں افسانے کے اجزائے ترکیبی اور فنی لوازمات پر ازسرِ نو غور کیا گیا۔اس دور میں مارشل لاء کے نتیجے میں مزاحمتی ادب وجود میں آیا۔ نوے کی دہائی میں اردو افسانے میں حقیقت نگاری اور ابلاغ و ترسیل نے جگہ پائی۔اس دور میں افسانے نے متنوع موضوعات اپنائے۔ اکیسویں صدی میں سیاسی ،معاشی اور معاشرتی موضوعات کے علاوہ ٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والے مسائل ، ایٹمی دھماکے،سیلابی نقصانات ،دہشت گردی ،نائن الیون اور خودکش حملوں جیسے موضوعات نے افسانے میں جگہ پائی۔اس دور کا افسانہ بین الاقوامی صورت حال کا ایک حسین نمونہ پیش کرتا ہے۔ ہمارے دورے جدید کا افسانہ آج ترقی کی منازل بڑی تیزی سے طے کر رہا ہے۔آج کے افسانہ نگاروں نے اپنے افسانوں کو ایک نیا رنگ اور نئی جہت دی ہے،معاشرے کے افراد کی نجی مجبوریوں اور ذاتی افکار کو افسانے میں اس طرح اجاگر کیا گیا ہے کہ پورا سماجی اور سیاسی نظام افسانے کے دامن میں سمٹ آیا ہے۔ آج کے افسانوں میں معاشرتی زندگی ، سیاسی حالات،انسانی افکار،بین الاقوامی تناؤ ، اقتدار اور نظریات کی بہترین انداز سے ترجمانی ملتی ہے۔ جدید دور کے افسانہ نگاروں میں ناصر عباس نیر ، سلمی اعوان ،حمیرا اشفاق ،مستنصر حسین تاڑر ،شہناز نقوی ،اکبر علی ناتق اور نجم الدین احمد وغیرہ کے نام شامل ہیں۔یہ افسانہ نگار اپنے بہترین ترین افسانوی ادب کے باعث اردو افسانے میں گرانقدر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اردو افسانے نے اپنے ارتقاء سے اب تک مسلسل ترقی کی منازل طے کی ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے،بلاشبہ ہمارے افسانہ نگاروںنے تکنیکی ،ہیتی اور اسلوبیاتی حوالے سے اردو افسانے میں کامیاب تجربات کیے۔
موضوعات کے حوالے اردو افسانے کا دامن کافی وسیع ہے۔ معاشرتی مسائل ہوں، نفسیاتی پریشانوں کا ذکر ہو،معاشی حالات ہوں ،سیاسی صورت حال ہو یا جنسی و مزاحمتی مسائل ،اردو افسانے میں ہر ایک کا ذکر بہترین انداز سے ملتا ہے۔ اردو افسانہ اپنے آغاز سے لے کر اب تک اپنے فن ،ہیئت ، تکنیک زبان اور اسلوب کی سطح پر بہت سارے تجربات سے ہوتے ہوئے اپنے دامن میں خاصی وسعت، گہرائی اور تنوع پیدا کر چکا ہے۔اردو افسانے کے منظر نا مے پر نگاہ ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دور افسانے کا تجرباتی دور ہے۔یہ دور کہانیوں کے اعتبار سے سابقہ ادوار کی نسبت زیادہ زرخیز ہے اور ان شا ء اللہ یہ دور اردو افسانے میں ہمیشہ زندہ وجاوید رہے گا۔ ہمارا اردو افسانہ آج جس مقام پر ہے وہ ہمارے افسانہ نگاروں ہی کی بدولت ہے،کہ جنہوں نے اپنی محنت اور کوشش سے افسانے کو دیگر اصناف میں اس قدر ممتاز مقام دلوایا۔ پریم چند اور دیگر افسانہ نگاروں نے جہاںافسانے کی پرورش اور نوک و پلک سنوارنے میں اہم کردار ادا کیا ،وہیں مختلف ادوار میں مختلف تحریکوں اور فکشن نگاروں نے اس کی عزت اور وقار کو بلند کیا، آج اکیسویں صدی میں اردو افسانہ جن افسانہ نگاروں کی بدولت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ موجود ہے۔ انہی کی صف میں کھڑے ہمیں دو جدید اور بہترین اسلوب کے مالک افسانہ نگارمہر غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان بھی نظر آتے ہیں۔ جو اپنی محنت اور لگن سے ادب کے لیے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ان دونوں افسانہ نگاروں کے افسانوں کے موضوعات اسی معاشرے سے جنم لیتے ہیں،اور جس بے بسی اور لاچارگی کے دور سے ہم گزر رہے ہیں اس کی جھلکیاں ان کی تحریروں میں جابجا ملتی ہیں۔
مہرغلام فرید کاٹھیا جدید اردو افسانے میں ایک ابھرتا ہوا نام ہیں۔ جنہوں نے افسانہ نگاری کے علاوہ سیاست کے میدان میں بھی گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ آپ ’’روٹی ،کپڑا اور مکان‘‘ کا نعرہ لگانے والی پیپلز پارٹی کے MNAاور MPA ہونے کے ساتھ ساتھ سید یوسف رضا گیلانی کی کابینہ کے وزیر مملکت برائے تعلیم بھی رہ چکے ہیں۔ آپ اکیسویں صدی کے جدید افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ان کے افسانوں کی خاص بات ان کا اختصار اور زبان کی سادگی ہے جو انہیں اپنے ہم عصر ادیبوں سے منفرد و ممتاز کرتی ہے۔ مہرغلام فرید کاٹھیا کے اب تک 3 افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ جو کہ بالترتیب ’’لمحوں کی قید‘‘ ،’’سرسوں کا پھول‘‘ اور’’سفید تتلیوں کا ہار‘‘ کے نام سے قارئین آپ کے ذوق کی تسکین کا باعث بن رہے ہیں۔ مہرغلام فرید کاٹھیا اپنے افسانوں کے ذریعے غربت کی چکی میں پسنے والے غریبوں ، محتاجوں اور لاچاروں پر جاگیرداروں اور وڈیروں کی جانب سے ہونے والے ظلم کو بیان کیا گیا ہے۔ آپ کے افسانے غریبوں کے استحصال اور ان سے کی جانے والی ناانصافیوں کی کہانیاں سناتے ہیں۔کارل مارکس اور ترقی پسند تحریک کے تحت جس طرح ہمارے افسانہ نگاروں نے پسماندہ طبقہ کے مزدوروں، کسانوں اور غریبوں کے مسائل کو جس عمدگی سے اپنے افسانوں میں بیان کیا اسی کی ایک کڑی غلام فرید کاٹھیا بھی ہیں،جن کے افسانوں کا موضوع پسماندہ طبقے کے مسائل ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں غریب ہاریوں، کسانوں، اور دیگر طبقوں کو درپیش مشکلات کی عمدہ عکاسی کی ہے۔
غلام فرید کاٹھیا کے اکثر افسانوں میں غریب مزدوروں کو درپیش مسائل کا ذکر ملتا ہے۔ آپ کے افسانے بتاتے ہیں کہ ایک غریب مزدور کو دوران ملازمت ٹھیکیداروں اور اپنے سے اعلیٰ طبقے کی طرف سے استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ٹھیکیدار انہیں چھوٹی سی غلطی پر کام سے نکال دیتے ہیں،اور دوسری جگہ مزدوری نہ ملنے کے باعث انہیں بہت سے مسائل سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔یہ ٹھیکیدار مزدوروں سے ناجائز اور غلط کام کرواتے ہیں اور بدلے میں انہیں کام سے نکالنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔وہ انہیں زیادہ مشقت کے بدلے کم اجرت دیتے ہیں۔ان پر طرح طرح سے ظلم کے پہاڑ توڑتے ہیں۔ ان بیچارے غریبوں کو صحت کی سہولیات بھی میسر نہیں ہوتیں،مہنگائی کے سبب ان کے گھریلو حالات بہت تنگ ہوتے ہیں۔ان کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی بہت بڑی بیماری کا علاج کروانے کے لیے پرائیویٹ یا سرکاری ہسپتالوں کے خرچے اٹھاتے پھریں۔ اس لئے ان غریبوں کو اپنے قریبی کلینکوں سے ہی دوائی لینا پڑتی ہے ،جو انہیں تھوڑے وقت کے لیے تو افاقہ دیتی ہے تاہم یہ اندر ہی اندر ناسور کی شکل اختیار کر کے بعد میں کسی بہت بڑے حادثے یا بیماری کا نتیجہ بنتی ہے۔حکومت کی جانب سے ان غریبوں کو ریلیف اور سبسڈی دینے کا تو اعلان کیا جاتا ہے تاہم یہ حقیقت سے پرے فقط دعوے ہی ہوتے ہیں۔حکمرانوں کی جانب سے آج مزدوروں کے روزگار کے عدم تحفظ کے لیے قدم اٹھانا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ یہ مزدور ہی ملکی معیشت کا سب سے بڑا سرمایہ ہیں۔یہ دن رات اپنی محنت کی وجہ سے ان امیروں اور کے خزانوں کا منہ بھرتے رہتے ہیں تاہم انہیں ان کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔غلام فرید کاٹھیا اپنے افسانوں میں غربت میں پسے ہوئے طبقے کے مسائل اور سماجی عدم مساوات جیسے موضوعات کو معاصر زندگی کے تناظر میں اجاگر کرتے ہیں۔ان کے افسانوں میں عام آدمی کے دکھ اور مشکلات کے علاوہ جاگیردانہ اور سرمایہ دارانہ افراد کی طرف سے جنسی درندگی کا نشانہ بنتی مظلوم خواتین کا بھی ذکر ملتا ہے۔آپ کے افسانوں’’ ٹھنڈے ہونٹ‘‘ ، ’’اندھیروں کا رقص‘‘اور ’’لمحوں کی قید‘‘میںمزدوروں، ہاریوں اور غریب کسانوں کے خاندان کی عورتوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان گاؤں کے وڈیروں اور چوہدریوں کی نگاہ میں ان غریبوں کی بیٹیوں اور خواتین کی کوئی عزت نہیں ہوتی،ان کا جب جی چاہے یہ جس مرضی غریب کے گھر کی عورت کو اغوا کرکے لے جاتے ہیں اور اپنی جنسی درندگی و ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔آپ کا افسانہ ’’ٹھنڈے ہونٹ ‘‘ معاشی مجبوریوں کے باعث گھر سے باہر نکل کر محنت مزدوری کرنے والی عورتوں جبکہ ’’اندھیروں کے رقص‘‘ عورت کی پسند نا پسند کی نفی اور معاشی مجبوریوں کی عکاسی کرتا ہے۔عورتوں سے متعلق آپ کے یہ تمام افسانے پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے کی عورت آج کس طرح بے دردی سے جنسی ہوس کا نشانہ بن رہی ہے۔ یہ غریب مزدور، ہاری اور کسان ان جاگیرداروں کی زمینوں پر محنت و مشقت کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں یہ چوہدری اور وڈیرے عیاشی سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ اور بدلے میں انہی کی بیٹیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانوں میں ہمارے معاشرے کے ایک بنیادی مسئلے یعنی مذہبی قدامت پسندانہ رویوں اور اس کے نتیجے میں غریبوں پر کیے جانے والے جبر کو پیش کیا ہے۔
غلام فرید کے کئی افسانے امیری غریبی، ذات پات کی اونچ نیچ اور حسب و نسب کے باعث نکاح جیسے مقدس رشتے میں پیدا ہونے والی رکاوٹوں اور مسائل کو اجاگر کرتے ہیں۔ان کے افسانے’’ڈائریکٹر جنرل‘‘،’’ہیلو ہائے‘‘اور ’’انتظار‘‘ امعاشرے میں غریبوں کو بے وقعت سمجھنے والوں کی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ’’لمحوں کی قید ‘‘ افسانہ وڈیروں کی زیادتیوں،غریبوں کی بیٹیوں کے اغوا اور اْن سے جنسی زیادتیوں کو اجاگر کرنے کے ساتھ یہ واضح کرتا ہے کہ یہ وڈیرے اپنی ہوس اور لالچ کی وجہ سے کبھی بھی کسی کو بھی پولیس کے ذریعے قتل یا چوری کے جھوٹے مقدمات میں پھنسا کرجیل بھجوا دیتے ہیں۔ غلام فرید کاٹھیا کے افسانے اپنے اندر تجسس،روز مرہ زندگی کے واقعات اوربھرپور دلچسپی کے عناصر سموئے ہوئے ہیں۔ ان کے افسانوں میں منفی جاگیردارانہ سوچ کا اظہار کھل کر دیکھنے کو ملتا ہے۔ غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانوں میں پاکستان کے ایک بہت بڑے مسئلے یعنی غربت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ غربت کی وجہ سے غریبوں کی زندگی بہت دشوار ہو گئی ہے۔غربت کی وجہ سے جہالت اور ناخواندگی وجود میں آ رہی ہے اور اس کے سبب غریبوں کو کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی تک میسر نہیں۔
غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانے "انّو " میں غربت کی وجہ سے محنت مزدوری کرنے پر مجبور بچے انو کی داستان بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح چھوٹے بچوں کو معاشی مجبوریوں کی وجہ سے کھیلنے کودنے کی عمرمیں ہی کام کاج پر جانا پڑتا ہے۔ افسانہ نگار نے متوسط طبقے کے مسائل کو بھی اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے۔آپ کا افسانہ’’ڈائریکٹر جنرل‘‘ درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک لڑکے سروش کو حصول ملازمت کے لیے درپیش مشکلات کو اجاگر کرتا ہے،افسانہ نگار نے اس کہانی کے ذریعے معاشرے میں پھیلے ہوئے رشوت اور بدعنوانی کے جال سے پردہ اٹھایا ہے۔
غلام فرید کاٹھیا نے ناگہانی آفات خصوصا زلزلوں کے نتیجے میں غریبوں کو پیش آنے مسائل کا بھی اپنے افسانوں میں تذکرہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس مشکل کی گھڑی میں ان لوگوں کی مدد کے لیے کوئی نہیں آتا۔ غلام فرید کاٹھیا کا افسانہ ’’اندھیروں کا رقص‘‘ پسے طبقے کے دکھوں کا احاطہ کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ ان غریبوں کے دکھ ان کے مرنے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتے،ان کے خاندان میں اگر کسی کی فوتگی ہوجائے تو اس کے لئے کفن دفن کا انتظام کرنا ان مجبوروں کے لیے بہت بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانوں میں پسماندہ طبقے کو پیش آنے والی مشکلات کا ذکر بڑی ہی درد مندی سے کیا ہے۔ ان کے افسانے سرمایہ داروں،چوہدریوں،وڈیروں اور جاگیرداروں کے ظلم و ستم ،جھوٹی شان و شوکت،اور خود غرضی اور منافقت کو اجاگر کرتے ہیں۔
غلام فرید کاٹھیا کی خاص بات یہ ہے کہ آپ نے اپنے افسانوں میں پسماندہ طبقے کے ان مسائل کو اجاگر کیا ہے جن پر آپ سے قبل بہت کم لکھا گیا۔ یوں تو پسماندہ طبقہ کے مسائل کی فہرست کافی طویل ہے،مگر افسوس کہ آپ نے جن موضوعات پر لکھا آپ سے قبل ان پر زیادہ کھل کر بات نہیں کی گئی، کیونکہ ہمارے اکثر افسانہ نگاروں کے افسانے ہمیں دولت مند طبقے ہی کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں،جن میں افسانے کا مرکزی کردار کسی امیر کبیر باپ کی بگڑی ہوئی اولاد یا کسی سرکاری عہدے پر فائز کوئی فرد ہوتا ہے۔اس وجہ سے غریبوں کے حوالے سے لکھنے والوں کی بہت کمی ہے۔ کیونکہ اعلیٰ طبقے کا اپنے حصار سے باہر نکل کر لکھنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ اس لئے جن فکشن نگاروں نے پسے ہوئے طبقے کی تکلیف کو اپنے افسانوں کا موضوع خاص بنایا وہ قابل تحسین ہیں۔ کیونکہ انھوں نے سچائی کے ساتھ غریبوں کی تکلیفوں کومحسوس کرکے اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ غلام فرید کاٹھیا ایک ایسے فنکشن نگار ہیں کہ جن کے افسانے دیہاتی زندگی کی مشکلات،تعلیم کی کمی،عورتوں کے جنسی استحصال،مزدوروں سے جبرکے واقعات ،ذات پات کی تفریق،طاقتور کی بد معاشیوں، علاج معالجے کے مسائل اور غریب محنت کشوں پر ظلم کی داستانوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ان کے افسانے پڑھنے سے ہمیں حقیقت کا گماں ہوتا ہے۔غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانوں میں مصنوعی زندگی ، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے دوغلے چہروں ، ان کی خود پسندی و خود غرضی،انا، لالچ وطمع اور اندرونی غلاظت کا عمدگی سے اظہار کیا ہے۔غلام فرید کاٹھیا کے افسانے مہنگائی کے شکار غریبوں کی پریشانیوں، وڈیروں اور جاگیرداروں کے مظالم اور جیل کے قیدیوں کی تکلیفوں کی عمدہ عکاسی کرتے ہیں۔ غرض منفرد اسلوب کے مالک اس فکشن نگار نے غریبوں کی زندگی کے تمام ہی موضوعات کو اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے۔بلاشبہ آپ جدید اردو فکشن نگاروں کے ساتھ مل کر اردو ادب کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
شاہد رضوان اردو افسانے کی روایت سے جڑا وہ بہترین افسانہ نگار ہے جس نے اپنے افسانوں کے ذریعے معاشرے کی حقیقتوں سے پردہ اٹھایا ہے۔آج ہم جس بے بسی اور تنہائی کا شکار ہیں اس کی جھلکیاں ان کے افسانوں میں جا بجا ملتی ہیں۔ شاہد رضوان ملک کے ابھرتے ہوئے ان افسانہ نگاروں میں شامل ہیں جن کے افسانوں کے موضوعات میں خاصا تنوع ہے۔ان کے افسانوں میں زندگی کے تمام پہلوؤں کی عکاسی ملتی ہے چاہے وہ وطن سے محبت کے جذبات ہوں،پیاروں کے بچھڑنے کا دکھ ہو،زندگی کا کرب ہو،عورت کو درپیش معاشرتی مجبوریاں ہوں،بے وفائی ہو، ظلم کا راج ہو ، جنسی رویے ہوں یا کہ غربت کی کہانیاں ہوں،حتیٰ کہ زندگی کا کوئی بھی پہلو ہو،شاہد رضوان کے ہاں ہر ایک کا اظہار ملتا ہے۔ شاہد رضوان کے افسانوں میں موجودہ دور کے معاشرے کا عکس جھلکتا ہے۔
شاہد رضوان کے افسانوں میں ہمیں محاکمہ نگاری،تفصیل نگاری، اورجزیات نگاری بڑے شاندار انداز میں نظر آتی ہے۔ شاہد رضوان کا بیانیہ سادہ، مؤثر اور ابہام سے پاک ہے۔شاہد رضوان کے افسانے اپنے دامن میں حقیقت نگاری کے واضح نمونے سموئے ہوئے ہیں جنہیں پڑھ کر قاری کو حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔ آپ نے معاشرے کی بے رحمی،سیاسی ثقافتی اور سماجی فضا کی اپنے افسانوں میں بھرپور انداز سے عکاسی کی ہے۔شاہد رضوان کے افسانے طبقات کی اونچ نیچ،حسب نسب،معاشرتی نا انصافیوں اور ظلم کی داستانوں پر محیط ہیں۔ان کے ہاں غلام عباس جیسا پھیلاؤ اور منٹو جیسی جنسی سفاکی کا بھرپور اظہار ملتا ہے۔ شاہد رضوان موجودہ دور کے انسان کی نفسیات کو بڑی خوبی سے اپنے افسانوں میں جگہ دیتا ہے۔شاہد رضوان کے ہاں دلچسپی کا ایسا عنصر پایا جاتا ہے کہ قاری کہانی شروع کر کے اسے ادھورا نہیں چھوڑ سکتا۔
شاہد رضوان کے افسانوں کے کردار نچلے اور متوسط طبقے کے ہیں، جو اپنے طبقے اور ماحول کی زبان کی خوب عکاسی کرتے ہیں۔ شاہد رضوان کی کچھ کہانیاں اپنی ثقافت کی آئینہ دار بھی ہیں۔ شاہد رضوان کے افسانے زندگی کی حقیقتوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں کے کرداراپنے قارئین سے بات چیت کرتے ،اپنے دکھ سکھ بانٹتے،اور زندگی کی حرارت سے بھرپورجیتے جاگتے کردارمعلوم ہوتے ہیں۔ شاہد رضوان کے افسانوں میں اچھائی اور برائی کے کردار بڑے واضح انداز میں نظر ہیں۔ شاہد رضوان کے اکثر افسانوں میں کہانی کا اختتام نہیں ملتا بلکہ وہ اسے قاری ہی پر چھوڑ دیتا ہے کہ وہ خود سوچے اور نتیجہ اخذ کرے۔ ایک بہترین افسانے میں جن تمام خصائص کا پایا جانا ضروری ہے ان سب خوبیوں کا شاہد رضوان کے ہاں پایا جانا ان کی افسانے سے گہری وابستگی کا ثبوت ہے۔ اب تک شاہد رضوان کے چار افسانوی مجموعے چھپ چکے ہیں جو ان کی فکری و فنی پختگی اور ثابت قدمی کا منہ بولتا اظہار ہیں۔
شاہد رضوان کے اب تک چار افسانوی مجموعے جو بالترتیب ’’پتھر کی عورت‘‘،’’پہلا آدمی‘‘،’’آوازیں‘‘اور ’’ادھوری کہانی کی تصویر‘‘ کے نام سے چھپ کر منظر عام پر آ چکے ہیں۔ شاہد رضوان کے افسانوں میں متوسط طبقے کی عورت کے مختلف روپ بڑی خوبصورتی سے دکھائے گئے ہیں۔ آپ نے اپنے افسانوں میں شادی شدہ خواتین کی آرزوؤں،مرد کے ہاتھوں عورت کے استحصال، قدرتی آفات،دہشت گردی،جبری شادی،وراثت کے معاملوں،کرپشن،خواتین کی معاشرتی مجبوریوں، جھوٹے پیروں فقیروں غرض زندگی کا ہر پہلو اور ہر رنگ جھلکتا ہے۔ شاہد رضوان کے افسانوں کے دامن میں کئی رنگ برنگی دلچسپیاں نظر آتی ہیں جو انسان کے اند ر اور باہر کے تضاد کی کشمکش اور ضمیر کی جنگ کو اجاگر کرتی ہیں۔
آج ہمارے معاشرے میں عورت پربہت ظلم ہو رہا ہے۔ وٹہ سٹہ ،قرآن سے نکاح ، کاروکاری، غیرت کے نام پر تو کہیں جنسی استحصال کے روپ میں عورت کو ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شاہد رضوان نے اپنے افسانوں کے ذریعے عورت پر ہونے والے مظالم پر قلم اٹھایا ہے۔ آپ کے افسانوں میں غریب اورمتوسط طبقے کی عورت کے مختلف روپ دکھائی دیتے ہیں۔پھر چاہے وہ ’’پتھر کی عورت‘‘کی رضیہ ہو، چندا کی آنکھوں میں سجے خوشحالی کے خواب ہوں،’’آوازیں‘‘ مجموعے میں ’’ بانجھ عورت‘‘ کی کنول ہو، آخری سیڑھی کی نیلوفر ہو، مائی مستانی کا کردار ہو یا پھر ’’کتیا‘‘ افسانے کی شگفتہ کی کہانی ہو یہ سب عورت کی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور زاویوں کو واضح کرتی ہیں۔اسی طرح ’’پہلا آدمی‘‘میں’’جوگی چوک‘‘اور ’’سفید بال‘‘، مجموعہ ’’ادھوری کہانی کی تصویر‘‘میں ’’تارکول کی سڑک‘‘،’’ٹھیکے دار‘‘،’’دجال‘‘ ،’’غارت گر لمحہ‘‘اور ’’ٹرمینل‘‘وغیرہ ایسے ایسی شاندار کہانیاں ہیں جو تانیثی اعتبار سے خاص اہمیت رکھتی ہیں۔شاہد رضوان کے افسانوں میں تعلیمی اداروں کی بچیوں سے لے کرگھریلو ظلم سہتی خواتین تک کی پریشانیوں اور مسائل کا ذکر ملتا ہے۔ شاہد رضوان نے اپنے افسانوں میں نئی نویلی دلہنوں،معاشی مجبوریوں سے تنگ اور محنت و مزدوری کرتی عورتوں، نوجوان لڑکیوں اور مردانہ ظلم کا شکارخواتین کی مشکلات کو بڑی دردمندی سے بیان کیا ہے۔آپ کا افسانہ’’مزدور‘‘ایک ایسی عورت کی کہانی ہے زندگی کے بے عزت تقاضوں کے ساتھ لڑنے کے بعد اپنے ہونے کا اظہار کرتی ہے۔ یہ کہانی عورت کے وجود کا اظہار بن کر سامنے آتی ہے۔آپ نے طوائفوں اور پیشہ کرنے والی خواتین کی مجبوریوں اور مشکلات کو بھی اپنے افسانوں میں جگہ دی۔مثلا آپ کا افسانہ ’’جوگی چوک‘‘ اور’’مآل کار‘‘اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ شاہد رضوان کا افسانہ ’’حج اکبر‘‘جائیداد کے لین دین اور رشتوں کی کشمکش میں پھنسی ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جس کا شوہر جائیداد نہ لانے پر اسے طلاق کی دھمکیاں دیتا اور مارتا پیٹتا ہے جبکہ اس کے والدین زمینی لالچ کی وجہ سے اسے زمین کا ٹکڑا دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔یوں دوہڑے چنگل میں پھنسی عورت نہیں جانتی کہ وہ آگے جائے یا پیچھے کو لوٹے۔
شاہد رضوان کا یہ افسانہ مختلف رشتوں کو سنبھالتی ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جس کے ماں باپ اسے اس کا زمینی حق دینے کی بجائے حج پر چلے جاتے ہیں،مصنف نے اس افسانے کو طنزیہ طور پر ’’حج اکبر‘‘کا نام دیا۔غلام فرید کاٹھیا کا یہ افسانہ معاشرتی حرص و لالچ کو ظاہر کرتا ہے۔اسی طرح آپ کا افسانہ ’’تارکول کی سڑک‘‘ایک مزدور ماں کی معاشی مجبوریوں کو اجاگر کرتا ہے جو اپنی بیٹی کو غربت کے سبب جسم فروشی کی اجازت دیتی ہے۔ہمارے معاشرے میں عورت کو اولاد نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی باتوں اور طعنوں کا سامنا کرنے کے علاوہ بانجھ ہونے جیسے القابات سننے پڑتے ہیں۔جنہیں عورت اکثر چپ چاپ سہہ لیتی ہے۔ ’’بانجھ عورت‘‘ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو اپنے خاوند کی کمزوری کا راز رکھ کے اپنے خاندان اور محلے والوں کی باتیں سنتی ہے۔ یہ سب اس کی روح کو چھلنی کر دینے والا ہوتا ہے مگر وہ سب برداشت کرتی ہے لیکن جب اس کا اپنا مجازی خدا اس کی کردار پر الزام تراشی کرتا ہے تو وہ تڑپ جاتی اور حقیقت کو عیاں کرتی ہے شاہد رضوان کا یہ افسانہ عورت کی باطنی کیمسٹر ی کا بہترین اظہار ہے۔افسانہ نگار نے بڑی حویلوں کی بلند دیواروں کے پیچھے سسکتی ایسی عورتوں کی بھی کہانیاں بیان کی ہیں جو جنہیں قرآن کے ساتھ بیاہ دیا جاتا ہے۔’’اونچی حویلی‘‘ افسانہ اس ظلم کو بیان کرتا ہے۔ ’’پکنک پوائنٹ‘‘سلاب کی تباہ کاریوں کو کیمرے کے لینز میں محفوظ کرنے والوں اور ایک ایسی ستم زدہ لڑکی کی کہانی ہے جو معاشرے کے چہرے پر زور دار طمانچہ رسید کرتی ہے۔ اسی طرح ’’آخری سیڑھی‘‘معاشرے کے کرداروں کی باطنی خباثتوں اور خوبیوں کو اجاگر کرتا ہے۔
شاہد رضوان کے افسانوں میں رشوت خوری کرنے والوں کا ذکر بھی ملتا ہے جو لوگوں کا خون چوس چوس کر اپنے بینک بیلنس میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔ ’’بابا جی‘‘اس موضوع پر لکھا گیا ایک بہترین افسانہ ہے جس میں افسانہ نگار نے محمود نامی ایک ایسے شخص کی کہانی بیان کی ہے جسکی ساری زندگی زمین کا ایک پلاٹ الاٹ کروانے میں گزر گئی۔ پٹواری ،منشی،کلرک،چوکیداراور آفیسر ہر کسی نے اسے فائلوں کے چکروں میںپھنسا کر اپنے اپنے طور پر لْوٹا۔ شاہد رضوان نے اپنے افسانوں میں ہمارے معاشرے کے ان سادہ لوح دیہاتیوں کا بھی ذکر کیا ہے۔جنہیں چالا ک لوگ ان کی معصومیت کی وجہ سے لوٹ لیتے ہیں۔آپ کا افسانہ ’’سائیں جی‘‘جھوٹے پیروں فقیروں کی حقیقت کو عیاں کرتا ہے۔ ہمارے وطن کے کروڑوں غریبوں پرچند ہزار امیروں کی حکومت ہے۔ جو سیاہ وسفید کے مالک بنے غریبوں کو لوٹ رہے ہیں شاہد رضوان نے اپنے افسانوں میں ایسے افراد کا بھی ذکر کیا ہے۔آپ نے غریبوں کے مسائل کی بہترین انداز سے عکاسی کی ہے۔ شاہد رضوان کے بعض افسانے دہشت گردی کے نتیجے میں معصوم لوگوں کی شہادت ،انسانی جانوں کے ضیاع اور دہشت گردوں کی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔مثلا آپ کا افسانہ ’’انتظار‘‘ایک جنونی دہشت گرد کے مذموم مقاصد کو عیاں کرتا ہے۔ اسی طرح آپ کا افسانہ ’’مسلی ہوئی پتیاں‘‘ دہشت گردی کے نتیجے میں شہید ہونے والے غریبوں کے خاندانوں کی معاشی بے بسی ، ایک عام آدمی اور ایک لیڈر کی موت پر نظر آنے والے متضاد معاشرتی رویوں اور معاشرے میں پائی جانے والی اونچ نیچ کو بیان کرتا ہے۔شاہد رضوان کے افسانوں کے موضوعات خاصے وسیع ہیں۔ آپ نے معاشرے میں پائے جانیوالے منفی رویوں کو بڑی دردمندی سے اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے۔ آپ کا افسانہ ’’بچھو‘‘ انسانی فطرت کی شرانگیزیوں پر گہرا طنز ہے،افسانے کی کہانی مذہبی انتہا پسندی کو اجاگر کرتی ہے۔ شاہد رضوان اور غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانوں میں غریب طبقے کو درپیش مشکلات کا ذکر کیا ہیاور بتایا ہے کہ امیر طبقہ غریبوں کو ہر لمحہ ظلم و ستم کا نشانہ بناتا ہے۔امیر اپنی مفاد پرستی،لالچ اور دولت کی وجہ سے غریبوں کی تذلیل کرتے ہیں۔ غریبوں کو کوئی بھی کام کروانا ہو تو انہیں ان امیروں کی جیبیں بھرنے کے لیے رشوت ادا کرنا پڑتی ہے۔
شاہد رضوان نے اپنے افسانوں میں عدل کے کمزور نظام ، امیروں کی مفاد پرستی و خود غرضی، معصوم دیہاتیوں کیجعلی اور نوسربار فقیروں کے ذریعے لٹے جانے، رشوت خوری،وراثتی لالچ، زہر آلود انسانی رویوں، قدرتی آفتوں، زلزلوںاور سیلاب کی تباہ کاریوں،عورتوں پر معاشرتی ظلم، زندگی سے خواتین کے سمجھوتوں، مصلحتوں اور مجبوریوں کو بڑے ہی بہترین انداز سے بیان کیا ہے۔ دراصل افسانہ نگار نے معاشرے کے جھوٹے اور منافقانہ چہرے سے نقاب ہٹانے کی بہترین کاوش کی ہے،اوروہ بہت حد تک اس میں کامیاب بھی رہے ہیں۔ بلاشبہ شاہد رضوان جدید اردو افسانے میں بہترین اضافہ ہیں۔
غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان عہد حاضر کے دوایسے بہترین اورفاضل افسانہ نگارہیں جن کے افسانوں کا دائرہ کار خاصا وسیع اورجن کے افسانوں کے کردار معاشرے کی جیتی جاگتی تصویریں معلوم ہوتے ہیں۔ان کے افسانوی کردار زندگی کی شکست و ریخت سے پیدا ہونے والی فضا میں اپنے فیصلوں پر چلتے نظرآتے ہیں۔ دونوں کے نسوانی کردار بڑے ہی جاندار، قول و عمل کے خود ذمہ دار،آپ اپنی پہچان کرواتے اور اپنے دور کے انسان کی خوشیوں اور غموں، شادمانیوں اور محرومیوں، تمنّاؤں اور آرزوؤں کا واضح اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بلاشبہ دونوں افسانہ انگاروںکا اسلوب سادہ،دل نشین،اور موثرہے۔ دونوں افسانہ نگاروں نے اپنے اپنے انداز سے لوگوں کے درپیش مسائل کواپنے ہاں جگہ دی۔ معاشرے کی حقیقتوںاور لوگوںکے منفی رویوں کو قارئین کے سامنے لائے۔دونوں افسانہ نگاروں کے افسانے سچائیوں پر مبنی اورمعاشرے کے مسائل کے آئینہ دار ہیں ۔ سماجی ظلم کے باعث جنم لینے والے المیے ان کے افسانوں میں خاص طور پر جگہ پاتے ہیں۔غلام فرید کاٹھیااور شاہد رضوان کے افسانوں کے کردار اسی سماج کی دین ہیں اور جس بے بسی ، دکھ اور تنہائی کا آج ہم شکار ہیں اسے عیاں کرتے ہیں غلام فرید کاٹھیا نے اپنے افسانوں میں زیادہ تر پسماندہ طبقے کے غریبوں، مزدوروں ،کسانوں اور ہاریوں پر سرمایہ داروںاور وڈیروں کی طرف سے کیے جانے والے ظلم کا ذکر کیا ہے۔جبکہ شاہد رضوان کے اکثر افسانوی موضوعات درمیانے طبقے کی پریشانیوں،عورتوں کی معاشرتی مجبوریوں، طبقاتی کشمکش ،سماجی ناانصافیوںاور ظلم کی داستانوں پر مشتمل ہیں۔ہمارے ان دونوں افسانہ نگاروں نے بڑے ہی بہترین انداز سے انسانی زندگی کو درپیش مشکلات کا اظہار کیا ہے۔اگر چہ دونوں کے اکثر موضوعات کافی متنوع ہیں تاہم مزدوروں کا استحصال،خواتین سے جنسی ذیادتیاں، رشوت ، پولیس گردی ،قدرتی آفات،نا انصافی اور غربت وغیرہ ایسے موضوعات ہیں جو دونوں کے ہاں مماثل ہیں۔دونوں فکشن نگاروں کے افسانوی کردار عورت کے احساسات،اسکی نفسیات اور مرد کے ذریعے اس کے استحصال کو بیان کرتے ہیں۔شاہد رضوان اور غلام فرید کاٹھیا دونوں ہی کے افسانوں کی زبان سادہ ،سلیس اور عوامی ہے۔ دونوں افسانہ نگاروں کے افسانوی موضوعات خاصے منفرد اور توجہ طلب ہیں۔ چونکہ شاہد رضوان اور غلام فرید کاٹھیا دونوں کے افسانے اسی سرزمین کی پیدا ہوئے اسی لئے ان میں اس معاشرے کا سچا عکس اورخالص پن نظر آتا ہے۔ غلام فرید کاٹھیا اور شاہد رضوان کے افسانوں کے تمام کردار اپنے اپنے طبقے کی فضا،اپنے علاقے کی زبان اورسماجی رویوں کی بڑے ہی جاندار و موثر اندازسے عکاسی کرتے ہیں۔ بلاشبہ دونوں افسانہ نگاروں نے اپنے اپنے انداز میں معاشرے کے مسائل کی بہترین انداز میں تصویر کشی کی ہے،دونوں کے افسانے معاشرتی سچائیوں کے آئینہ دار ہیں اس بنا پر کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت دینا اور تقابل کرنا خاصا دشوار ہے تاہم دونوں افسانہ نگاروں کے خصوصیات کا جائزہ لینے کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ غلام فرید کاٹھیا کے افسانہ اظہار کی زیادہ بہتر اور موثر سطح پر نظر آتا ہے۔بلاشبہ دونوں افسانہ نگاروں نے اپنے افسانوں میں اپنا زندہ معاشرہ محفوظ کر دیا ہے۔جس کی بنا پر تاریخ انہیں یاد رکھے گی۔
٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...