Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > فضا سے کہنا > روشن امکانات کی شاعرہ: فضا موسیٰ

فضا سے کہنا |
حسنِ ادب
فضا سے کہنا

روشن امکانات کی شاعرہ: فضا موسیٰ
Authors

ARI Id

1689954428886_56117019

Access

Not Available Free

Pages

۹

روشن امکانات کی شاعرہ: فضا موسیٰ
ڈاکٹر رحمت علی شادؔ
ہجر اثاثہ رہ جائے گا درد خلاصہ رہ جائے گا
شعر نگر میں نام ہمارا اچھا خاصا رہ جائے گا
شہرِ فرید میں جنم لینے والی ایک نو عمر، دوسروں سے ذرا ہٹ کر سوچنے والی، عام لوگوں سے قدرے مختلف مگر سنجیدہ، ہونہار، باشعور اور روشن امکانات کی ابھرتی ہوئی شاعرہ فضاؔ موسیٰ پاک پتن کی شعری فضا میں ایک خوش گوار اور کیف پرور جھونکے سے کسی طرح کم نہیں ان کا تازہ شعری مجموعہ’’ فضا سے کہنا‘‘ منصہ شہود پر آنے کے لیے بے قرار ہے۔ ان کا کلام پڑھنے کے بعد راقم اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ان کی غزلیات کے کچھ مصرعے اور اشعار اپنے تیکھے پن، ندرتِ خیال، پختگی فکر ، داخلیت اور خارجیت سے بھرپور رومانوی انداز لیے چونکا دینے کے ساتھ ساتھ دعوتِ فکر دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
فضاؔ موسیٰ عہدِ جدید کی ایک منفرد لب و لہجے کی حامل شاعرہ ہیں جنھوں نے بالکل تھوڑے عرصے میں اپنی ذہنی اپج سے پاک پتن کی ادبی فضا میں اپنی نمایاں انفرادیت اور اپنا شعری تشخص قائم کیا ہے۔رومانوی فضائوں میں فضا کی شاعری عشق و محبت کی داستان لیے اپنی تمام تر رعنائیوں اور لوازمات کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ ان کی غزلیات میں محبت کے مختلف رنگ جا بجا بکھرے نظر آتے ہیں، کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے کئی رازوں سے آشنا ہیں اور اس طرح وہ اپنے باطنی احساسات و جذبات کو حقیقت کا روپ دینے پر قادر نظر آتی ہیں۔ عشق و محبت کے کئی کئی رنگ ان کے کلام کا جزو لا ینفک ہیں۔ محبت اور محبت کے رنگوں کے متعلق وہ لکھتی ہیں:
جینے کا سامان محبت گر بخشے مسکان محبت
ساتوں رنگ ہیں اس دنیا کے آٹھواں میری جان محبت
فضاؔ موسیٰ کی شاعری میں موجودہ عہد کا رنگ و آہنگ پایا جاتا ہے۔ اُن کے کلام میں زندگی کی کیفیتیں ،خیال کے زاویے، احساس کی کروٹیںاور رومانویت سے بھرپوراندازِ بیان ملتا ہے۔ عشق و محبت اور رومانویت جیسے روایتی موضوعات بھی ان کی شاعری کا حصہ ہیں۔ عشق و محبت کا ایک اور انداز ملاحظہ کیجیے، جس میں ان کا تصورِ محبوب بھی ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔ مصرع اولیٰ اور مصرع ثانی جیسی تراکیب کو بڑی بے ساختگی کے ساتھ برت کرتضاد کی کیفیت سے مذکورہ اشعار کی معنویت میں مزیدار اضافہ کر دیا ہے:
ایک ہی لفظ میں سمٹے ہیں ازل اور ابد
لفظ وہ پیار ہے اور اس کے معانی تم ہو
میں ادھوری ہوں کسی مصرع اولیٰ کی طرح
میری تکمیل ہو تم مصرع ثانی تم ہو
فضاؔ موسیٰ کی غزل میں موجود تازہ فکری اور موضوعاتی بو قلمونی اس امر کے غماز ہیں کہ وہ روشن امکانات کی جواں فکر شاعرہ ہیں۔ مثلاً ان کا مندرجہ ذیل شعر دیکھیے جس میں فکر بھی ہے اور حیرت بھی، یعنی افکار کی جاگیر اور حیرت کی تصویر جیسے الفاظ سے محاکات نگاری ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔ شعر ملاحظہ ہو:
یہ جو حیرت سے میں تصویر بنی بیٹھی ہوں
تیرے افکار کی جاگیر بنی بیٹھی ہوں
فضاؔ کی غزل میں موجود متعدد رنگوں میں سے ایک بنیادی اور معتبر رنگ رومانویت ہے۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ نے کائنات کی بنیاد ہی محبت پہ رکھ دی ہے جس کی جھلک ہمیں کائنات کے ذرے ذرے میں دکھائی دیتی ہے ، اس حوالے سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ فضا کے کلام میںبھی جذبۂ محبت کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ اس لیے ان کے کلام میں اخلاص اور محبت کی جھلکیاں جا بجا بکھری نظر آتی ہیں۔ ۔ محبت اور پیار کا رنگ لیے ہوئے درج ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیے جن میں منفرد ردیف، کھنکتے قافیے اور رومانویت کا انداز واضح نظر آتا ہے:
پیار کے دیپ جلاتی ہوئی پاگل لڑکی
کوچۂ عشق میں جاتی ہوئی پاگل لڑکی
ہے وہ تتلی سی، گھٹا سی کہ فضاؔ کے جیسے
موسموں کو وہ لبھاتی ہوئی پاگل لڑکی
محبت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے جذبات و احساسات ،کو مل اور لطیف تاثرات کا بنیادی جذبہ انسانی جبلت میں شامل ہے۔ اس محبت اور رومانویت کا سلجھا ہوا اور مہذب اظہار سارے مشرقی ادب کاخاصا ہے اسی لیے غزل کی نمو میں اسی جذبے کا اظہار بنیادی نوعیت کا حامل ہے۔ مذکورہ جذبے کے متنوع زاویے فضاؔ موسیٰ کی غزل میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ رومانویت کا ایک زاویہ اور پہلو محبوب کا وصل اور قرب ہے کہ اگر وہ زندگی کا ہم سفر بن جائے تو سفر کس قدر آسان ہو جائے۔ دو اشعار دیکھیے جن میں رومانویت کے ساتھ ساتھ محبوب کے وصل کی خواہش تلمیحاتی انداز اور سہلِ ممتنع کی جھلکیاں واضح دیکھنے کو ملتی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں:
اگر وہ ہم سفر ٹھہرے سفر آسان ہو جائے
ہوائیں مصر جاتی ہیں جو دل کنعان ہو جائے
فضاؔ کی شاعری میں سادہ اور عام فہم اشعار بکثرت دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی شاعری میں فکری حوالوں کے ساتھ ساتھ فنی حوالے بھی عام نظر آتے ہیں۔ صنائع بدائع کا استعمال ضرب الامثال ، محاورات، تشبیہات، و استعارات، شاعرانہ تعلی، چھوٹی اور بڑی ہر دو طرح کی بحریں اور تلمیحات کے علاوہ دو حرفی اور کہیں کہیں سہ حرفی تراکیب بھی بکھری نظر آتی ہیں۔ صحرائے جنوں، دم بہ دم، صیدِ قفس، خلدِ جناں، شوریدہ سری، چشمِ قاتل، حسن نگر، رقصِ جنوں، دشتِ افسوس، قافلۂ عشق، دستِ حنائی، خوئے دلبراں، بزمِ ہستی، موسمِ گل، ہفت افلاک، سرِ بزمِ ناز، دشتِ افسوس، وفائے دلبراں، بوئے عاشقاں، ادائے دوستاں، عشق زاد، دشتِ تیرگی، اور ہجر زدہ جیسی تراکیب بڑی روانی سے اپنے کلام میں سموتی چلی جاتی ہیں۔ مثلاً ایک شعر دیکھیے جس میں وہ بتاتی ہیں کہ اس دشتِ تیرگی میں وصال کا قحط ہے، اس لیے ہمارے جیسے ہجر زدہ لوگ آس جیسے رشتوں سے بندھے رہیں گے۔مذکورہ شعر ہجر زدہ اور دشتِ تیرگی جیسی تراکیب کا استعمال دیکھیے:
ہے قحط اگر وصل کا اس دشتِ جنوں میں
ہم ہجر زدہ آس کے ناتوں میں رہیں گے
اسی طرح کا ایک اور شعر ملاحظہ ہو جس میں ادائے دوستاں، بوئے عاشقاں اور وفائے دلبراں جیسی تراکیب بڑی فنی چابکدستی سے استعمال ہوئی ہیں، علاوہ ازیں مذکورہ شعر میں بتایا گیا ہے کہ محبوب کے بعد کسی میں نہ تو ہم نے ادائے دوستاں دیکھی، نہ بوئے عاشقاں اور وفائے دلبراں، اس حوالے سے فضا ؔ لکھتی ہیں:
وفائے دلبراں دیکھی نہ بوئے عاشقاں پائی
تمھارے بعد کب ہم نے ادائے دوستاں پائی
فضاؔ موسیٰ کے کلام میں فکرکے ساتھ ساتھ فن کی جھلکیاں واضح دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان کے ہاں ضرب الامثال ، مختلف زبانوں کے الفاظ، محاورات اور تلمیحات کا استعمال بر جستہ اور بر محل نظر آتا ہے۔ یوسف، کنعان، ابنِ مریم، فرہاد، قیس، رانجھا، ہیر اور لیلیٰ جیسی بہت سی تلمیحات ان کی شاعری کا حصہ ہیں،مثال میں ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:
منتظر ہوں میں کسی قیس ، کسی رانجھے کی
میں کہ لیلائے سخن ، ہیر بنی بیٹھی ہوں
بالکل اسی طرح محاورات بھی ان کی غزلیات میں جا بجا بکھرے نظر آتے ہیں۔ سرِ تسلیم خم کرنا، کسی پہ مرنا، ستم ڈھانا اور گل کھلانا جیسے محاورات ان کی شاعری میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ مثلاً ’’گل کھلانا‘‘ کا استعمال دیکھیے
ہوا میں بو باس ہے تمھاری
یہ زلف کیا گل کھلا رہی ہے
فضاؔ موسیٰ کی شاعری میں مختلف زبانوں بالخصوص ہندی الفاظ کا استعمال بھی نظر آتا ہے، مثلاً بنجارہ، گیت، جھرنوں، ڈھب اور دیپ جیسے معروف ہندی الفاظ ان کی غزل میں موجود ہیں۔ ہندی لفظ دیپ کا بر جستہ استعمال ملاحظہ کیجیے:
پیار کے دیپ جلاتی ہوئی پاگل لڑکی
کوچۂ عشق میں جاتی ہوئی پاگل لڑکی
زبان و بیان کے حوالے سے روز مرہ گفتگو کو اپنے خاص اسلوب میں ڈھال کر حسن عطا کرنا کسی معرکے سے کم نہیں ۔ اوائل عمری میں ہی فضا ؔ موسیٰ کے کلام میں بہت حد تک فنی و فکری پختگی ان کے ادبی ذوق اور اعلیٰ تخیلاتی پرواز کی دلالت کرتے ہیں۔ راقم کے خیال میں اُن کے کلام کی اٹھان انھیں روشن مستقبل کی نوید محسوس ہوتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...