Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > فضا سے کہنا > فضا سے کہ دو

فضا سے کہنا |
حسنِ ادب
فضا سے کہنا

فضا سے کہ دو
Authors

ARI Id

1689954428886_56117021

Access

Not Available Free

Pages

۱۵

فضا سے کہ دو!
ڈاکٹر نوید عاجزؔ
ڈاکٹر ریاض ہمدانی کی زیرِ نگرانی پنجاب ٹیلنٹ ہنٹ 2021ء کے ادبی اور ثقافتی مقابلہ جات کا دوسرا دن تھا ۔ افسانے کا مقابلہ تھا اور میں بطور جج اپنے فرائض انجام دے رہا تھا۔ بلدیہ کے بڑے ہال میں موسیقی کا مقابلہ انعقاد پذیر تھا جب کہ میٹنگ روم میں نئے بھرتی ہونے والے پٹواری ٹریننگ لینے میں مصروف تھے۔ میں نے چا ر و ناچار باہر ہی کرسیاں لگوانی شروع کردیں۔ اسی دوران ایک طالبہ مجھے کام کرتا دیکھ کر آئی اور پوچھا کہ غزل کا مقابلہ کہاں ہو گا؟ میں نے جواب دیا اس مرتبہ شاعری کا ایونٹ شامل نہیں۔ یہ غزل فاطمہ تھی ،جس کی ڈائری میں چند غزلیں اس کی شاعرہ ہونے کی دلیل تھیں۔ میں نے اسے فریدیہ کالج میں بی ۔ ایس کی طالبات کے سامنے اپنا کلام پیش کرنے کی دعوت دی۔ پھر ایک دن موصوفہ کے اعزاز میں ایک شعری نشست منعقد ہوئی۔ اگلے دن اس نو آموز شاعرہ غزل فاطمہ کے کلام پر بی۔ایس باٹنی کی ایک طالبہ کا زبانی تبصرہ پروفیسر محمد عمران (کلاس ٹیچر) کی وساطت سے موصول ہوا کہ: ’’اس سے بہتر کلام تو میں لکھ سکتی ہوں‘‘۔ پھر اس نے اگلے روز ایک غزل موزوں کر کے تصحیح و تبصرے کے لیے بھجوائی جس کا مطلع درج ذیل ہے:
آس کے جگنوئوں سی سندر ہے
زندگی روشنی کا منظر ہے
پھر اگلے دن دوسری اور اس سے اگلے دن تیسری غزل موصول ہوئی۔ یوں دو اڑھائی ماہ میں ایک پورا مجموعہ تیار ہو گیا۔ بی ۔ایس باٹنی کی وہ طالبہ اس مجموعے کی خالق فضا موسیٰ ہیں۔ انھوں نے یہ مجموعہ بہت سہولت سے بہت کم وقت میں تشکیل دیا ہے۔ تخلیقِ شعر کے مدارج کی دقت انھوںنے کس درجہ جھیلی ہے اس کا درست جواب وہی دے سکتی ہیں، البتہ شعر کے وزن، تلفظ کی اہمیت، تلازمات کی موزونیت اور عروض کی بنیادی باتوں سے روشناس کرانا میری ذمہ داری تھی،جسے حتی المقدور نبھایا گیا۔ فضا ؔ نے عروض کو کبھی قابلِ اعتنا نہیں سمجھا ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کا شعری آہنگ اس قدر پختگی کا حامل ہے کہ خیال عروض کی میزان پر پورا اترتا ہے۔ بہت کم مقامات پر مصرعوں کی کاٹ چھانٹ کی نوبت آتی ہے۔ ان کے شعروں کی کاٹ دیکھ کر ہمارے اکثر احباب ورطہ ٔ حیرت میں گم ہیں۔ چند ایک کی رائے ہے کہ فضاؔ کے ہاتھ کسی کلاسیکی شاعر کا دیوان لگ گیا ہے اور ایک نئے تخلیق کار کے لیے یہ الفاظ کسی داد سے کم نہیں۔
فضاؔ کے اس شعری مجموعے میں شامل غزلیات کی ترتیب لمحہ تخلیق کے مطابق ہے۔ اس سے ان کے فکری و فنی ارتقا کا جائزہ لینا آسان ہو گا۔ اُن کی غزلیات کی خوب صورت زمینیں ان کے ذوقِ جمالیات کی غماز ہیں لیکن چند غزلیات انھوں نے مصرع ہائے طرح پر کہی ہیں اور نعتیہ کلام انھوں نے ادبی تنظیم ’’اظہارِ نو‘‘ پاک پتن کے نعتیہ طرحی مصرعوں پر لکھا ہے۔ وہ نعت میں جذبہ فدائیت سے سرشار تو ہیں ہی لیکن غزل کی طرز کی تراکیب استعمال کر کے انھوں نے اپنے شعری اسلوب کوجس طرح برقرار رکھا ہے اور اپنے اوپر لگنے والے سب الزامات کو یقینا دھو ڈالا ہے۔ ایک نعتیہ مطلع ملاحظہ ہو:
گل کہوں، چاند کہوں، یا رخِ زیبا لکھوں
تجھ کو میں صؔ، کہ یسینؔ کہوں، کیا لکھوں
اُن کی نعت میں جاں سپاری کا جذبہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ ادب و احترام کا مثالی نقشہ ملتا ہے۔ ممنونیت اور احسان مندی کی فضا بھی دیدنی ہے۔ اس حوالے سے دو شعر ملاحظہ فرمائیں:
کہنا کہ تیرے نام سے پائی ہیں رفعتیں
’’اے کوچۂ رسولؐ کی پیغام بر ہوا‘‘
میں نے کہا محب ہوں آلؑ رسولؐ کی
تب سے بہشت کی ہے مری چارہ گر ہوا
فضاؔ کی شعری فضا کلاسیکی رچائو سے بھرپور ہے۔ خیال جذبے کی شدت، الفاظ کا چنائو اور طرزِ تراکیب سب کے سب کلاسیکی مزاج سے ہم آمیز نظر آتے ہیں۔ مثال میں یہ اشعار دیکھیے:
دیکھ انگشتِ حنائی تری، سر وارتے ہیں
تیرے عشاق ہیں جو ہوش و نظر وارتے ہیں
تشنہ آزار دل ہوا ہے یہ
تیرے غمزہ پہ بار آیا ہے
بے ساختگی و برجستگی کی خوبی فضاؔ کے کلام کو دلآویزی عطا کرتی ہے۔ انھوں نے نسائی جذبوں کا مردانہ وار اظہار کر کے اپنی ذات کے عزم و یقین کا برملا اعلان کیا ہے۔ وہ رسم و رواج کی دیوار کو مسمار کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ انھیں یہ حوصلہ اپنے جذبوں کی صداقت سے ملتا ہے۔ وہ لکھتی ہیں:
تو اگر مانگے ترے کاسے میں رکھ دوں خود کو
میں ترے خواب کی تعبیر بنی بیٹھی ہوں

آنکھوں سے تم پکارو، ادھر وقت سے بھی تیز
میں دوڑتی نہ آئوں مری کیا مجال ہے
فضاؔ کی غزل میں تلمیح ،تجنیس اور تضاد کی بھی عمدہ مثالیں ملتی ہیں لیکن صنعتِ جمع کا نکھرا ہوا شعور فطری طور پر انھیں ودیعت ہوا ہے۔ قریب قریب ہر غزل میں ایک شعر جمع کا دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثالیں دیکھیے:
گل ہو ، گہر ہو، لعل ہو کہ پورا چاند ہو
یہ سب تمھارے حسن کے آگے حقیر ہیں

رنگ، تتلی، کلی، صبا، شبنم
یہ فضاؔ کے ہیں خدوخال ہوئے

میں بنوں یا تم بنو یا غیر ہو
شہر کو تو بس تماشا چاہیے
تلمیح کا عمدہ استعمال تخلیق کار کی فنی پختگی اور صاحبِ مطالعہ ہونے کا عکاس ہوا کرتا ہے۔ فضاؔ کے ہاں کنعان کی تلمیح محبت کے متنوع رنگوں کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہے۔ایک شعر دیکھیے:
ہوائیں مصر جاتی ہیں
جو دل کنعان ہو جائے
میں حسن زادہ ہوں کنعاں وطن سے آیا ہوں
کہ مجھ پہ تہمتیں دھرنا تمھیں مبارک ہو
کلاسیکی مزاج کی حامل اس شاعرہ کے ہاں جدید طرزِ احساس کی بھی جھلک دکھائی دیتی ہے جو مستقبل میں ان کے لیے نئے موسموں کی نوید ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آئندہ وہ ایک نئے لہجے، نئے مضامین اور نئے اسلوب سے سامنے آئیں۔ اس صبحِ نو کا پتا دینے والے درج ذیل اشعار دیکھیے:
میں کہ اک عکس ہوں گمنام سا، پس منظر ہوں
کب، کہاں، کیسے، کسی طور، کہیں، رہنے دے

تم کہو اور میں ویسی ہو جائوں
ہو گا اک دن یہ معجزہ ہو گا
امید ہے فضاؔ کا یہ پہلا شعری مجموعہ جذبہ محبت کی شدت ،اظہار کی بے ساختگی ،اسلوبِ بیان کی تازگی اور تشبیہ و استعارہ کی کلاسیکی طرز کے باعث اہلِ ذوق سے بھرپور دادو تحسین سے نوازا جائے گا۔ جذبوں کی شیرینی و خلوص کے حامل چند اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کر کے اجازت چاہوں گا:
کاش اک بار غزل سننے کو آئے وہ فضاؔ
اور میں کہہ دوں سبھی شعر تمھارے ہوئے ہیں

ساتھ چلنے کا ہنر دے کے بچھڑنے والے
چال میں کیسے وہ پہلی سی روانی آئے

حیرتیں ان کے سامنے گم ہیں
کیا صباحت ہے، کیا جوانی ہے

ہمارے حصے میں آئے جفا کے سب موسم
وفا کریں گے جو کہتے تھے، سارے چھوٹ گئے

تیرگی بخت کی یک لخت کہاں بدلے گی
پھول جب تک نہ ترے لفظ و بیاں سے آئیں

خوشبو، بارش، چاند، فضاؔ
آئو کوئی تقصیر کریں

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...