Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > جگر خوں کروں ہوں میں > لوگ ندیم ندیم کہے ہیں

جگر خوں کروں ہوں میں |
حسنِ ادب
جگر خوں کروں ہوں میں

لوگ ندیم ندیم کہے ہیں
Authors

ARI Id

1689955000102_56117187

Access

Not Available Free

Pages

۱۱

لوگ ندیم ندیم کہے ہیں
یہ شاعر اور اس کی شاعری ایک ایسے خوابیدہ شہر میں پَل کر جوان ہوئے ہیں،جس کے باشندے سنہری شباہتوں کے ساتھ ساتھ ایک شان ِ بے نیازی بھی رکھتے ہیں۔اسی ماحول کے ساتھ ساتھ ہمارایہ ندیم پروان چڑھا ہے، ندیم سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی ،معلوم نہیں،البتہ میں اس کے ’’یک بوسہ ودواشک ‘‘کی دل چسپ داستان سے خوب واقف ہوں۔ایسا شاگرد جو آپ کی آنکھوں کے سامنے ترقی کرتے ہوئے آپ کا رفیق ِکار بن جائے،اُس نوجوان دوست کے ساتھ ہونے والی گفتگوئوں میںزندگی کے کون کون سے رطب ویابس زیرِبحث نہیں آئے ہوں گے؟ندیم نے کالج کے زمانے میں شاعری ،افسانہ نگاری اور نقدونظرکی دنیامیں ایک ساتھ قدم رکھا۔یہ شعری مجموعہ اس کے افکار وتفلسف کا پہلاعکس ہے۔ اس کے مشتملات میں موجود غزلوں اور نظموں پر ناصر کاظمی کے گہرے اثرات ہیں ۔محمدندیم صادق نے اس کابرملا اعتراف بھی کیا ہے:
لوگ پوچھتے ہیں کیا غم ہے
رنگ ترا بھی ناصر سا ہے
میر و ناصر میرے مرشد
مجھ پر ان کا رنگ چڑھا ہے
’’تنہائی کا دکھ گہرا تھا‘‘
ناصر یہ بھی تو کہتا ہے
ناصر کی ’’پہلی بارش‘‘ میں
صادق پورا بھیگ چکا ہے
چاندکے ہم راہ پیدل سفرکرنے والا،شیرازی کبوتروں سے کرب وبلا کے واقعات روایت کرنے والا،راج ماتاکے تاج سے موتی چرانے والی چڑیا کی کھوج میں رہنے والا،ناصرکاظمی،ہماری جدید غزل کا ایک اہم سنگ میل ہے،سکول کے دنوں میں علی گڑھ کے فارغ التحصیل ایک مہربان بزرگ نے مجھے ناصر کاظمی کا اولین شعری مجموعہ ’’برگِ نے‘‘ بطور تحفہ عطاکیا۔اس کتاب نے مجھے شعرکی ایک انوکھی طلسم ہوش رباتک رسائی دی۔ اس کے مندرجات نے میرے جیسے مبتدی کے لیے امکانات کا ساتواں درکھول دیا۔آہستہ آہستہ شعروسخن کی نئی نئی وادیوںکی سیر کی، بہت سا وقت گزرگیالیکن ناصرکاظمی کی شاعری آج بھی زندگی کی معدوم ہوتی رونقوں میں ابھرابھرکرصدائیں دیتی ہے۔ خاص طور پر’’پہلی بارش‘‘کی شعری فضامیں موجود پیکرایک عجیب مگرمانوس ماحول میں لے جاتے ہیں۔فی الواقع یہ کتاب ایک انوکھا تجربہ ہے۔ ڈاکٹراسلم انصاری اس اسلوب نگارش کے موجد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ناصر ہوں یااسلم ان کے یہ شعری رنگ مصحفی کی چندغزلوں سے چراغ فکر جلاتے ہیں۔ناصر کاظمی کے بارے میں سجاد باقر رضوی کی بات دل کو لگتی ہے:’’لاہور کے گنبدِ بے در میں جتنی چاہے گرد اڑا لو مگر ناصر کاظمی سے بچ کر رہنا ضروری ہے کہ اس کا ڈسا پانی نہیں مانگتا‘‘۔ندیم صادق کے ہاں دراصل اسی شعری روایت کا ہلکا سا پَرتو ملتاہے جومیر،فانی،فراق اورناصرسے ہوتی ہوئی ہم تک پہنچی ہے۔
ندیم صادق کے ہاں شاعری اور داستان گوئی کا ایک ایسا آمیزہ بن گیاہے جو قاری کوباقاعدہ طورپر محظوظ کرتا ہے۔بعض اوقات وہ باصرہ، لامسہ، شامہ اور سامعہ کے پیکرتشکیل دیتاہے، جیسے رات کے پچھلے پہر کاکوئی مسافرنیم تاریک گلیوں میںسے گزرتاہوا گھرکے آنگن میںپہنچا ہے،لیکن اس کی اجنبیت ابھی تک برقرار ہے،یہ گلیاں کبھی کبھی تو میر کی دلی کی گلیوں سے مشابہ لگتی ہیں۔اس شعری سفر میںندیم صادق کی شاعری ایک غم زدہ کی آوازہے،ایک مدعی کی پکار ہے یہ اوربات کے اس نقوش ابھی کچھ دھندلے ہیں۔آواز اورخاموشی کااتصال ایک عجیب طرح سے اس کے ہاں در آیا ہے۔ اس کے الفاظ؛ آواز،معانی اورخاموشی سے ترتیب پاتے ہیں۔اس کا ذہنی رجحان ماضی کے چقماق پتھر سے اپنی یادوں کے الائو روشن کرت ہے۔ چندشعری مثالیں دیکھیں :
رات گئے تک ان گلیوں میں
کوئی آوارہ پھرتا ہے
ساری گلیاں گھوم چکا ہوں
تیری گلی سے ڈر لگتا ہے
اب ان سڑکوں پر تنہا ہوں
جن پر کبھی تو ساتھ چلا ہے
کوئی جو پوچھے حال مرا تو
کہہ دیتا ہوں سب اچھا ہے
آج کی رات نہ سو پائوں گا
گلی میں تجھ کو دیکھ لیا ہے
ندیم کی شاعری کی پہلی قرأت میں محسوس ہوتاہے کہ اس میں’’ مَن وتُو‘‘ کے علاوہ کوئی تیسرا کردار موجود نہیں،فی الواقع عشق کا جان لیوا تجربہ ماسوائے محبوب گردونواح کی ہرشے کو جلا کرخاکستر کردیتاہے۔میر کے ہاں یہی تجربہ اس طرح وقوع پذیر ہو ا :
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
ہو گئے خاک انتہا یہ ہے
یہ عاشق اورمحبوب کے ہجرووصال کی کہانی توہے ہی ، اس میں موجود علامتوں کا نظام بھی ایک ایسے فردسے متعارف کرواتا ہے جوزندگی کے ہنگاموں میں تنہائی کا شکار ہوکررہ گیاہے۔اس شاعری میں مختلف الفاظ علامتی اندازمیں انسان کی ناآسودگی اور محرومی سے بہ راہ راست مخاطب ہوتے ہوئے بھی خطابیہ اندازنہیں رکھتے۔اس کے بطن میں موجودمحسوسات اداسی، ویرانی، اجنبیت، لاتعلقی،خلوت اوربے گانگی کی تصویریں بنتی ہیں۔شاعرخاموش ہوکربھی گفتگوکرسکتاہے۔شب کی تاریکی میں اس کی باصرہ اورخاموشی میں اس کی سامعہ اور بھی تیزہوجاتی ہے۔اس کی حسیات ایک جہان ِمعنی کوترتیب دینے کی کوشش کرتی ہیں:
کتنے لوگ تھے دل میں صاحب
اب تو دل ویران پڑا ہے
اب میں گھر لے آیا ہوں جو
میر اداسی چھوڑ گیا ہے
مجھ کو اداس جو دیکھا تو کب
جانے والا ٹھہر گیا ہے
رات میں کوئی تو جادو ہے
وہ میرا ہونے لگتا ہے
رات کے تین بجے ہیں اور تم
اب تک جاگ رہے ہو کیا ہے؟
اشکوں کی برسات میں اکثر
دل کا کمرہ گر پڑتا ہے
گزری باتیں گزر چکی ہیں
تُواب کس کو یاد رہا ہے
ندیم کے نزدیک چاندکی علامت سکون،حرارت،آگہی،تخلیق،رفاقت کی ترجمان ہے،یہاں چاندمیں دکھائی دینے والا پری تمثال کا چہرہ بھی محمدتقی میرکے ہاں موجود نفسیاتی معاملے سے مشابہ ہونے کا اشارہ کرتا ہے۔یہ بھی کوئی چاندنی،مہ تاب،گل ِماہ تابی ،قمر یا ماہ کی طرح ہوگا :
چاند کو جب بھی دیکھتا ہوں میں
دھیان میں پھر تو آجاتا ہے
چاند کو دیکھ کے مجھ کو ہمیشہ
یاد ترا چہرہ آتا ہے
چاند بادلوں میں چھپ چھپ کر
مجھ کو تنگ بہت کرتا ہے
سارے تارے دیکھ رہے ہیں
چندا مجھ کو گھور رہا ہے
ندیم کی نظمیں اس کی غزلوں سے موضوع اورہئیت کی ضرورت کے سبب جداہیں۔بہ ظاہردونوں کا ماحول تقریباََ یکساں ہے،ان نظموں کے مناظر ایک ایسی مخصوص فضا کے تابع ہیں جوکسی فن پارے کی محیط کیفیت کی ترجمان ہوتی ہے۔یہ روزمرہ زندگی کی بکھری ہوئی چھوٹی چھوٹی کہانیاں ہیں،ان میں زماں ومکاں کی تجلیات کی تلاش تومشکل ہے لیکن یہ ہمارے احساس کی ترجمانی ضرور کرتی ہیں،ان میںکم سِن عشقیہ جذبات کی موجودگی شاعر کی افتادِطبع کے باعث فطری لگتی ہے،شہروں کے مناظر،خوب صورت دکانیں،سہ منزلہ بل کہ دہ منزلہ عمارتیں،بانکے مکانوں کی قطاریں،گھروں کے صدردروازوں پرآویزاں ناموں ،ڈگریوں اور عہدوں کی تختیاں،شاہ راہوں پر چلتی ہوئی خوب صورت دوشیزائیں،درس گاہوں سے خوب صورت اور اجلی وردیوں میں ملبوس بچے اس کے لیے زیادہ کشش کے حامل نہیں ۔اس ماحول میں بھی وہ اپنے گائوں کے کچے رستوں پرایستادہ شیشم،پیپل،لیموں،کیکر اوربیری کے درختوں پرچہچہاتے پرندوں اور گنگناتی نہروں کی یاد میں آہیں بھرتا دکھائی دیتا ہے۔ایک نظم’’گائوں کا رستہ‘‘ کا منظردیکھیے :
ہجر کے ماروں کی خاطر جب
وصل کے گیت ہوا بُنتی تھی
رنگ بہار کے اس مٹی سے
ہردل کی دھڑکن چُنتی تھی
اک مدت سے اک عرصے سے
چھوٹ گیا وہ رستہ مجھ سے
جو میرے گائوں جاتا تھا
(گائوں کارستہ)
شعری عمل کے دوران میںشاعر کا دماغ متعدد خیالات کوجنم دیتا ہے۔ لاتعداد الفاظ اورمصرعے اسے دعوتِ سخن دیتے ہیں۔یہ موضوعات شعوری اور لاشعوری سطح پر شاعر کی فکر کو اشعار کی صورت میں پیش کردیتے ہیں۔ کسی انسان کا سراپا جب شاعر کے لاشعور کا حصہ بنتا ہے تو اس کی تجسیم ایک نئے پن کے ساتھ حالات و واقعات کی شبیہ سامنے لاتی ہے۔ ایک شاعر کے لیے شاعری کا عمل ایک صوفی کے مراقبے سے مشابہ ہوتا ہے، تخلیقی عمل کے دوران اگر وہ اس تجربے کی ماہیت پر غور کرے تو وہ تخلیقی عمل ختم ہوجاتا ہے، اس لیے اس کی سو فی صد تحقیق ممکن نہیں۔ زندگی کے خارجی مظاہر جب اس کے داخل کے ساتھ ٹکراتے ہیں تو ردعمل کے طورپر وہ صورت حال پیدا ہوتی ہے جسے ’’وجدان‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ شعر سازی کے عمل سے پہلے مختلف شبیہیں شاعر کے دماغ میں مجرد شکل میں پرورش پاتی رہتی ہیں۔شکل و شباہت کے بیان کی عمومی صورتوں سے ہٹ کر یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ جسمانی خدوخال کے ساتھ ساتھ نشست و برخاست، اندازِ گفتگو، چال ڈھال وغیرہ بھی ہر انسان کی انفرادی حیثیت کو واضح کرتے ہیں۔ندیم کی شاعری میں ترتیب پانے والا محبوب کا سراپا ایک خاص قسم کی پاکیزگی لیے ہوئے ہے۔ اس سے ندیم کے ہاں محبت کی مطاہر پہلوئوں کی نشان دہی ہوتی ہے۔ایک نظم میں اس کی مثال دیکھیے:
چاند سا چہرہ ، بال تھے بادل
دانت تھے اس کے موتی جیسے
ناک تھی ستواں ، پیاری آنکھیں
پتلی لمبی روشن انگلی
انگلی میں اک زرد انگوٹھی
ہاتھ تھے اس کے چاندی جیسے
(۔۔۔کا سراپا)
نارسائی کی یہ کیفیت اس نظم میں آگے یوں واضح ہوتی ہے:
آنکھ نہ بھر کر دیکھا ہم نے
میںنے اس کو ، اس نے مجھ کو
رنگ یہ سارے نقش ہیں کیسے
اس کا میرا کیا رشتہ تھا
(۔۔۔کا سراپا)
یہ محض تصور ِ محبوب سے اپنے خیال وافکارکے چراغ روشن کرنے کا عمل ہے۔محمدندیم صادق کا یہ پہلا شعری مجموعہ اس کی مبتدیانہ کاوش ہے۔اس کا خوش دلی کے ساتھ استقبال کرناچاہیے۔شعر کہتے کہتے ہمارا شاعر زر د رُو اور نم دیدہ ہوگیا ہے،ہونٹ خشک ہیں،سو اس کے محبوب شاعر میر ہی کا ایک شعر اس کوسونپتاہوں،اس شعر سے اس کتاب کے قارئین بھی لطف لیں گے:
کس طرح سے مانیے یارو کہ وہ عاشق نہیں
رنگ اڑا جاتا ہے ٹک چہرہ تو دیکھو میر کا
پروفیسر ڈاکٹر محمدافتخارشفیع
صدر شعبہ اردو
گورنمنٹ کالج ساہیوال

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...