Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > جگر خوں کروں ہوں میں > خون جگر ہونے تک

جگر خوں کروں ہوں میں |
حسنِ ادب
جگر خوں کروں ہوں میں

خون جگر ہونے تک
Authors

ARI Id

1689955000102_56117189

Access

Not Available Free

Pages

۱۹

خون جگر ہونے تک
اپنی کتاب کا دیباچہ لکھنا توحالیؔ جیسے لوگوں کو جچتا ہے جو دیباچہ لکھیں تو تنقید کی پہلی کتاب وجود پا جائے۔میں تو عاجزانہ طور پر چند عروضی نکات پیش کرنا چاہتا ہوں۔میرا یہ دیباچہ سب کے لیے نہیں ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو عروضی بحث اس قدر گنجلک اور پیچیدہ ہوتی ہے کہ ہر کسی کو اس سے شغف نہیں ہوتا اور دوسرا جو لوگ عروض پہ دسترس رکھتے ہیںان کے لیے اس وضاحت کی ضرورت نہیں کیوں کہ وہ عروض پہ اس دیباچے سے بہت بہتر کتابیں پڑھ چکے ہیں۔ یہ دیباچہ فقط ان لوگوں کے لیے ہے جو شعر کہتے ہیں اور عروض میں بھی ٹانگ اڑاتے ہیں اورجب کسی شعر کی بحر سمجھ نہ آئے تو اسے بے وزن کہہ دیتے ہیں۔زیادہ تر ہندی بحر کے سلسلے میںان کا رویہ ایسا ہوتا ہے اوراگر ان کے سامنے کسی بڑے شاعر کا مصرع بہ طور نمونہ رکھ دیا جائے تو وہ اسے بھی بے وزن کہنے سے ذرا نہیں ہچکچاتے۔ فاع فاعلن یا فعَل فعولن ان کی سمجھ سے باہر ہو جاتا ہے۔ دراصل ایسے حضرات ہندی بحر کی چند معروف صورتوں کے سوا باقی صورتوں سے آشنا ہی نہیں۔
میرا یہ شعری مجموعہ ہندی بحر میںہی تخلیق ہوا ہے اور ہندی بحر میں خاصا تنوع پایا جاتا ہے۔ہمارے وہ لوگ جو عروض کو سرسری طور پر جانتے ہیں۔اس بحر کو سمجھنے میں ٹھوکر کھاتے ہیں۔وہ ہندی بحر کی چندمعروف صورتوں سے ہی واقف ہیں۔وہ بس اِسے ہی ہندی بحر سمجھتے ہیں مگر ہندی بحر کی متنوع صورتیں ہیں۔ان حضرات کے سامنے اگر کوئی مختلف صورت آ جائے تو وہ اسے سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کیوں کہ وہ ان صورتوں سے آشنا ہی نہیں اور وہ اسی ناآشنائی میں اس مصرعے کو بے وزن کہہ دیتے ہیں جو اُن کی سمجھ میں نہیں آتا حالاں کہ وہ صورتیں کوئی ایسی غیر معروف بھی نہیں بل کہ مروج ہیں جنھیں حالی، فراق، ناصرکاظمی اور مجید امجد سمیت بہت سے شعرا نے برتا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ ہمارے اِن اصحاب کی نظر سے ان شعرا کا کلام گزرا ہی نہیں یا گزرا ہے تو سرسری گزرا ہے یا انھوں نے عروضی اعتبار سے اس پر توجہ ہی نہیں کی اور جب اُن کی توجہ اس کی طرف کرائی جاتی ہے تو ان سے کوئی جواب بن نہیں پاتااور وہ اُن شعرا کو بھی بے وزن کہہ دیتے ہیں جو ظلم کی انتہا ہے۔اُن کی نظر میں ہندی بحر کی صرف آٹھ صورتیں ہیںجو مندرجہ ذیل ہیں۔ میں نے اِن آٹھ صورتوں پر بھی ناصر کاظمی کے دو دو مصرعے بہ طور مثال دے دیے ہیں تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو۔
فعلن فعلن فعلن فعلن
کچھ یادیں کچھ خوشبو لے کر
میں اُس بستی سے نکلا تھا
فاع فعولن فعلن فعلن

شام کا تارا بھی روتا تھا
دور سے آوازیں دیتا تھا
فعلن فاع فعولن فعلن

تیرے دھیان کی کشتی لے کر
کتنی پیار بھری نرمی سے
فعلن فعلن فاع فعولن

پتھر کا وہ شہر بھی کیا تھا
سورج کب کا ڈوب چکا تھا
فاع فعولن فاع فعولن

پیڑ بھی پتھر پھول بھی پتھر
چاند بھی پتھر جھیل بھی پتھر
فاع فعول فعولن فعلن

تیری ہلال سی انگلی پکڑے
کوئی چراغ لیے پھرتا تھا
فعلن فاع فعول فعولن

اک رخسار پہ چاند کھلا تھا
کتنی تیز اداس ہوا تھی
فاع فعول فعول فعولن

سرخ انار کا پھول کھلا تھا
پھر تری یاد نے گھیر لیا تھا
ان آٹھ صورتوں کے سوا بھی بے شمار صورتیں ہیں جن کو ناصر اور مختلف شعرا نے برتا ہے۔ ان کے رواں ہونے پہ بحث ہو توپھر بھی بات بن سکتی ہے مگر ان صورتوں کا سرے سے انکار علم سے دوری اور شعری روایت کے مطالعہ کی کمی ہے۔ گیان چند جین نے ہندی بحر کی ننانوے صورتیں درج کی ہیں اور یہ بھی لکھا ہے کہ اس کی مزید صورتیں بنانے کی گنجایش بھی ہے مگر وہ شاید زیادہ رواں نہ ہوں۔ ناصر کاظمی نے پہلی بارش میں تئیس سے چوبیس صورتوں کو اختیار کیا ہے۔ حالی، جوش، فراق نے بھی اس بحر کی متنوع صورتوں کو اختیار کیا ہے۔ حالی کی مناجات بیوہ اور فراق کی دھرتی کی کروٹ اس کی اہم مثالیں ہیں۔
ہندی بحر دراصل بحر متقارب(فعولن فعولن فعولن فعولن) کے دو اوزان (فعْلن فعْلن فعْلن فعْلن) اور (فاع فعولن فاع فعولن) اور بحر متدارک (فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن کے دو اوزان (فعْلن فعْلن فعْلن فعْلنـ) اور (فعِلن فعِلن فعِلن فعِلن) پر مبنی ہے ۔بحر متقارب میں فعْلن فعْلن کے ارکان کی جگہ کہیں بھی فاع فعولن لایا جا سکتا ہے جب کہ متدارک میں فعْلن کے کسی بھی رکن کی جگہ فعِلن لایا جا سکتا ہے مگر متقارب اور متدارک کو ملانا مناسب نہیں۔ یعنی متقارب میں فعِلن اور متدارک میں فعولن نہیں لایا جا سکتا۔ البتہ کچھ شعرا نے ایسا کیابھی ہے جس میں جوش کی مثال دی جا سکتی ہے مگر اس چیز کو سیماب وغیرہ نے سخت ناپسند کیا ہے۔
ذیل میں ہم ناصر کاظمی کی پہلی بارش سے ہندی بحر کی دیگر صورتوں کی مثالیں پیش کرتے ہیں جو انھوں نے کثرت سے استعمال کی ہیں۔
فاع فاعلن فاع فعولن

تو نے کیوں مرا ہاتھ نہ پکڑا
ایک پیڑ کے ہاتھ تھے خالی
فاع فعولن فعَل فعولن

تیرا سفر بھی نیا نیا تھا
آنکھ کھلی تو تجھے نہ پا کر
فعَل فعولن فعَل فعولن

گرج گرج کر برس رہا تھا
گرج گرج کر برس رہا تھا
فعلن فعلن فعَل فعولن

موسم کتنا بدل گیا تھا
اک ٹہنی پر دیا جلا تھا
فعَل فعولن فعلن فعلن

گئے دنوں کی خوشبو پا کر
ہرے سمندر میں گرتا تھا
فاع فاعلن فعلن فعلن

ایک بات سے جی ڈرتا تھا
سوتی جاگتی گڑیا بن کر
فعَل فعولن فاع فعولن

نئی انوکھی بات سنا کر
کسی پرانے وہم نے شاید
فعَل فاعلن فاع فعولن

نئے دیس کا رنگ نیا تھا
نئے دیس کا رنگ نیا تھا
فاع فاعلن فعَل فعولن

مچھلی جال میں تڑپ رہی تھی
تیری نیند بھی اڑی اڑی تھی
فعَل فعول فعول فعولن

ہرے گلاس میں چاند کے ٹکڑے
ہرے گلاس میں چاند کے ٹکڑے
فعَل فاعلن فعلن فعلن

مرے سامنے آ بیٹھا تھا
مرے سامنے آ بیٹھا تھا
مندرجہ بالا تمام صورتوں اور مثالوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ فاع کے بعد فاعلن لانا یا فعَل کا استعمال اور فعَل کے بعد فاعلن یا فعولن لانا کوئی نئی انوکھی بات نہیں بل کہ یہ مروج بھی ہے اور ا س سے وزن بھی نہیں گرتا مگر ہمارے اکثر دوستوںکو فاع کے بعد فاعلن سمجھ نہیں آتااور فعَل کے استعمال پر وہ ویسے ہی چکرا جاتے ہیں۔ناصر کاظمی کے بہت سے مصرعے ایسے بھی ہیں جن کے وزن پرہندی بحر ی دو صورتیں بھی لاگو ہو جاتی ہیں۔ ناصر کاظمی اور پہلی بارش کے علاوہ بھی دیگر شعرا کے ہاںاس کی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے:
فعلن فعلن فاع فاعلن
خوش حالی ہے شرطِ زندگی
فراق
فعلن فعلن فعَل فعولن
راجہ کے گھر پلی ہوں بھوکی
حالی
فاع فعولن فاع فاعلن
سیر چراغاں دیکھ دیکھ کے
فراق
فاع فعولن فعَل فعولن
عیش کی گھر گھر پڑی پکاریں
حالی
فاع فاعلن فعلن فعلن
بیج کھاد پانی کا رونا
فراق
فعَل فعولن فاع فعولن
جنم جنم کا پاپ کٹے گا
فراق
فعَل فعولن فعَل فعولن
جنم جنم کو ہوئیں بروگن
حالی
فعَل فعولن فعَل فاعلن
جھلک رہا ہے نگر ماسکو
فراق
فعَل فاعلن فعلن فعلن
بنی لکشمی دکھ کی رانی
فراق
فعَل فاعلن فاع فعولن
زمیں دار دیوان داروغہ
فراق
فعلن فعَل فعولن فعلن
برسیں کھلیں بہت برساتیں
حالی
ان شعرا کے علاوہ بھی بعض شعرا نے ان صورتوں کو اختیار کیا ہے مگر وہ فعلن چار بار کی بجائے پانچ، ساڑھے پانچ ، سات، ساڑھے سات یا آٹھ بار والی صورتیں ہیں۔میرا جی کے یہ مصرعے ملاحظہ کیجیے۔
نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا
فعلن فعلن فعَل فعولن فعلن فعلن فاع فعو
سوجھ بوجھ کی بات نہیںہے من موجی ہے مستانہ
فاع فاعلن فاع فعولن فعلن فعلن فعلن فع
لہر لہر سے جا سر پٹکا ساگر گہرا بھول گیا
فاع فاعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فاع فعو
مجید امجد کے ہاں بھی ہندی بحر کی مختلف صورتیںبے شمار نظموںمیں ملتی ہیں۔جہاں بھی انھوں نے ہندی بحر کو استعمال کیا ہے وہاں انھوں نے اس کی متنوع صورتوں کو ہی برتا ہے نہ کہ فقط آٹھ صورتیں اختیار کی ہیں۔مثال کے لیے صرف چند ایک مصرعے دیے جا رہے ہیں۔
تھوڑی دور تک بھری سڑک پر دو پہیوں کے ساتھ ساتھ وہ پہیے ڈولے تھے
فعلن فاع فاعلن فعل فاعلن فعلن فاع فاعلن فعلن فعلن فعلن
ہم سب بھرے بھرے جزدان سنبھالے
فعلن فعل فعولن فاع فعولن
لوحیں ہاتھوں میں لٹکائے
فعلن فعلن فعلن فعلن
بنا بٹن کے گریبانوں کے پلو ادھڑے کاجوں میں اٹکائے
فعل فعول فعولن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن
مزید مثالوں، حوالوںاور ہندی بحر کے اصولوںکے لیے آپ عروض کی کتب کا مطالعہ کر لیجیے۔ اس مضمون کا بنیادی ماخذگیان چند جین کی کتاب ’’اردو کا اپنا عروض‘‘ ہے اور اکثر حالی اور فراق کے مصروں کی مثالیں بھی وہیں سے لی گئی ہیں مگر ناصر اور دیگر شعرا کے مصرعوں کی مثالیںمیری ذاتی تحقیق اور دل چسپی کا نتیجہ ہے۔
میں نے اپنے اس شعری مجموعے کی تمام نظموں اور غزلیات کے اندر بحر متقارب کے دونوں اوزان کو ہی برتا ہے جب کہ دو نظموں ــ’’کالج کی یادیں‘‘ اور ’’ہوٹل والے کا بچہ‘‘ میں بحر متدارک کے دونوں اوزان کو اختیار کیا ہے۔ اس کے علاوہ میں نے کہیںبھی ان دونوں بحور کو آپس میں نہیں ملایا نہ برتا ہے۔
اس کتاب کے اندر میں نے اپنا صرف وہی کلام شامل کیا ہے جو ایک ہی بحر میں ہے ۔ غزلیات کی بحر کے ساتھ ساتھ زمین بھی ایک ہی ہے اور تمام نظمیں معریٰ نظمیں ہیں۔ان نظموں اور غزلیات کاتخلیقی دورانیہ دس سال پر محیط ہے اور میں نے اسے اسی ترتیب سے رکھا ہے جس ترتیب سے یہ تخلیق ہوئی ہیں سوائے پہلی غزل کے جو حمدیہ ہے۔
دس سال کے اس تخلیقی دورانیے میںزیادہ تر حصہ ساہیوال کے َرت جگوں کا ہے۔ان ساری نظموں کے سوتے اسی شہر کی مٹی سے پھوٹتے ہیں۔
یہ ساری تخلیقی ریاضت استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمٰن قاضی صاحب سے ہونے والی نشستوں کا ثمر ہے جن کی راہ نمائی کی بدولت مَیں اس سفر پر گامزن رہا۔اُن کی معاونت قدم قدم پر میرے ساتھ رہی اور جہاں کہیںبھی عروضی الجھن سے میرے قدم ڈگمگائے ان کی راہ نمائی میسر آئی۔
اس کتاب کی تخلیق میں ساہیوال کے درودیوار، ہوا و فضا اور کچھ پردہ نشینوں کا بھی حصہ ہے۔ کاشف حنیف کی بلا ناغہ نشستیں، چائے کی چسکیاں اور ملک علی احمد سے ملاقاتیں بھی میرے شعری ذوق کو جلا بخشنے کے لیے کافی تھیں۔
پروفیسرڈاکٹر محمد افتخار شفیع صاحب کابے حد شکریہ جن کے طفیل ہمیں شعروادب کا چسکا پڑا اور اب اس مجموعے کی اشاعت میں بھی ان کے بہت سے مفید مشورے میرے کام آئے ہیں۔پروفیسر نوید عاجز اور عباس علی شاہ کا شکریہ جن کی محبت مجھے ہر دم میسر رہی۔ پروفیسر ڈاکٹر ندیم عباس اشرف اور پروفیسر مطلوب حسین صاحب کا شکریہ جن کی حوصلہ افزائی سے تقویت ملتی رہی۔ پروفیسر رفیق ظہیر صاحب کا شکریہ جنھوں نے گاہے بگاہے کمپوزنگ، پرنٹنگ اور پی ڈی ایف فائل بنانے میں مدد کی۔ اس کتاب کے مسودے کی سیٹنگ کے لیے اختر خان صاحب کا شکریہ۔محترم نواز صاحب،آفتاب صاحب، کلیم اشرف صاحب کا شکریہ اور مہر علی کا خصوصی شکریہ جس نے ٹائٹل کے انتخاب اور پروف ریڈنگ میں معاونت کی۔ ڈاکٹر عارف حسین عارفؔ کا ممنون ہوں جنھوں نے بہت محبت فرمائی اور خاص دل چسپی سے اس کتاب کو اشاعت کے قابل بنایا ۔ آخر پہ شعبہ اردوگورنمنٹ کالج ساہیوال کے تمام اساتذہ کا شکریہ جن کی حوصلہ افزائی میرے کام آئی۔
محمد ندیم صادق
شعبہ اردو
گورنمنٹ کالج ساہیوال

راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے بابِ سخن
ولی دکنی

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...