Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > صبحِ قفس > صبح قفس کا جمالیاتی پہلو

صبحِ قفس |
حسنِ ادب
صبحِ قفس

صبح قفس کا جمالیاتی پہلو
Authors

ARI Id

1689956803051_56117787

Access

Open/Free Access

Pages

11

صبحِ قفس کا جمالیاتی پہلو
سر زمین پاک پتن کی عظمت ورفعت کے سے کیسے انکار ہو سکتا ہے۔ یہی وہ مخزن ومعدن تصوف ہے جس میں پائے جانے والے لعل وگہر کسی کو مفلوک الحال یا تشنہ لب نہیں رہنے دیتے۔ فیوض وبرکات سے مالامال اس خطہ تحریم سے محبت کرنے والا کبھی کسی احساس محرومی کاشکار نہیں رہ سکتا۔ خواہ وہ اس سے ہزاروں میل دور ہی کیوں نہ ہو مگر جو سعادت منداپنے صبح و مسا دامن حضرت گنج شکرؒ کے ساتھ وابستگی میں گزاررہا ہو یقینا اس کا طائر تخیل اوج سماء کی جانب ہر وقت محو پرواز رہتا ہے۔ تائب نظامی انھی خوش مقدر لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جو ہر لمحہ مزار گنج شکرؒ کی تابش سے اپنے دل ونگاہ کو منور کیے ہوئے ہیں اور پھر خوش قسمتی سے اگر انسان شاعر اور ادیب بھی ہو تو یہاں قیام کا لطف دوآتشہ بلکہ سہ آتشہ ہو جاتا ہے۔ میں دل کی گہرائیوں سے یہ محسوس کرتا ہوں کہ صاحب مزارؒ کے تلطف اور نوازش سے تائب نظامی کے شعری وادبی حوصلوں کو نیاولولہ اور عزائم کو تخلیق کے نئے اُفق عطا ہوتے ہیں۔ صبحِ قفس’’عروض‘‘ کی ایک ایسی دلآویز ہے جو ’’گلہائے رنگارنگ سے ہے زینت چمن‘‘ کا دل پذیر منظر پیش کر رہی ہے۔ میں اس حقیقت کا اظہار کسی تصنع یاریا کے بغیر کر رہا ہوں کہ قدرتِ کاملہ نے اس ’’تلمیذخاص‘‘ کو ردیف قافیہ ، اوزان و بحور اور بندش الفاظ پر جو دسترس عطا کر رکھی ہے اس کی داد میرے امکان میں نہیں۔
غزلیات پر مشتمل صبح قفس کا آغاز حسب روایت حمدو نعت سے ہوتا ہے۔ شاعر ان اصناف کی نزاکتوں سے کماحقہ آگاہ ہیں۔ وہ حمد و نعت کی گہرائی وگیرائی سے اچھی طرح شناسا ہیں۔ حمد کا ایک شعر الوہیت رب کا کائنات کا کس قدر آئینہ دار ہے:
وہی تو ہے جو ہے ذات و صفات میں یکتا
ہر ایک رنگ میں بے مثل وہ سراسر ہے
اس باب میں دو آرا ہو ہی نہیں سکتیں کہ اللہ رب العزت کی حمد و ثناء کے بعد سب سے ارفع و اعلیٰ کام مدح ممدوح صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم رب العالمین ہے۔ چنانچہ تائب نظامی نعت کو توشۂ آخرت سمجھتے ہوئے اس سراپا یمین وسعادت روایت سے فیض یاب ہوتے ہیں۔
خدائے ارض و سما جس پہ خود درود پڑھے
تو کون ہو گا پھر اس خوش خصال سے اعلیٰ
اور پھر اس شعر میں جو لطافت پائی جاتی ہے وہ عشاق کو چشم تصور میں سرزمین بطحا میں لیے پھرتی ہے:
وہ ایک لمحہ جو گزرا کبھی مدینے میں
وہ ہے بہشت کے ہر ماہ و سال سے اعلیٰ
قارئین کرام! تھوڑا ساجائزہ تائب نظامی کی غزل کا لیتے ہیں جو حقیقت میں اس کتاب کی مرکزی صنف ہے۔ جیسا کہ آپ کو علم ہے جناب تائب کا مسلک صوفیا کے مسلک سے گہری مماثلت رکھتا ہے اور یہ رنگ ، رنگ تغزل میں بھی نمایاں ہے۔ ان کے نزدیک محبت امن کی بنیاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی شاعری میں محبت ، حسن اور خیر کے ساتھ ساتھ پاکیزگی اور روحانی ترفع کا احساس بھی نمایاں ہے۔ تائب کی غزل پڑھتے ہوئے ایک روحانی سرخوشی اور سرور کا احساس ہوتا ہے۔ ایک ایسی کیفیت جس سے گوشہ ہائے جان و دل میں چاندنی سی بکھر جاتی ہے۔ دوسرے یہ کہ ان کی غزل کا ایک اہم عنصر غنائیت ہے مگر آپ کے ہاں غنائیت عارضی اور وقتی نہیں جو عام طور پر شعرا اپنے عنفو انِ شباب میں دوچار تجرباتی غزلوں سے اپنے فن کو قوت و شوکت دینے کے لیے کہتے ہیں ۔ غزلیات تائب کا اگر گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو یہ ادراک واضح ہو تا چلا جاتا ہے کہ تائب کے ہاں استغنا زیادہ گہرا وسیع اور مستقل رنگ لیے ہوئے ہے۔ میں نے صبح قفس کے مسودے کا باتفصیل مطالعہ کیا ہے میں اگر اس کتاب کو خواب میں دیکھوں تو وہ گلاب ، طیور، آئینوں ، جام وسبو، کہکشائوں، آبجوؤں ، نشیب وفراز سے مزین گزر گاہوں اور خوشبوئوں سے مہکتے جذبوں سے ہی مرتب ہو گا۔ صبح قفس ایک آب جو کی مانند ہے جو مدھم رفتار سے بہتے ہوئے کناروں پراٹکھیلیاں کرتے پھولوں سے سرگوشیاں کرتے ہوئے ، سنگریزوں کو ہموار کرتے اورکوہ پاروں سے کترا کر نکلتے ہوئے ایسی خاموشی سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے کہ اس کی بات کو سننے کے لیے ملکوتی سکوت اور سمجھنے کے لیے گداز قلب کی ضرورت ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہو:
کہاں گئی ہے وہ رُت تیری دید کی جاناں
جو دے گئی ہے مجھے انتظار کا موسم
عہد رفتہ کے خوب صورت اوقات میں پائی جانے والی یاس انگیز حسرت جذبات میں کیا تلاطم بپا کر رہی ہے۔
عجیب بات ہے یارو کہ اس بڑھاپے میں
ہے یاد آنے لگا کوئے یار کا موسم
میرے نزدیک صبح قفس کی اگر تلخیص کی جائے تو اس کا اظہار یوں کیا جا سکتا ہے۔ شاعری روح کا نغمہ ہے، شاعری جذبوں کی مصوری ہے، شاعری محسوسات و تجربات کا اظہار ہے۔ شاعری تخیل کی جو لانیوں کا آئینہ ہے۔ شاعری ان تمام صفات کی جامع ہے جو صبح قفس کے نغمے میں پائی جاتی ہے۔ ایک ایسا نغمہ جو روح کی گہرائیوں میں زیر لب گنگناہٹ کی صورت دھیمے دھیمے سروں ہلکورے لینے لگتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ تخیل کی آمیزش سے الفاظ کے روپ میں اپناوجودخارج میں دے لیتا ہے اور یہ ترتیب کچھ اتنی دل آویز اور دل نشیں ہے کہ پڑھنے والے کی روح میں بھی ایک نغمگی سی چھڑ جاتی ہے۔ میری دعاہے کہ اللہ تعالیٰ تائب نظامی کے قلم کی توانائی کو ایسا ارتقا بخشے کہ وہ ارتفاع میں بدل جائے۔
دعاگو
خواجہ غلام قطب الدین فریدی

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...