Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > صبحِ قفس > تائب نظامی کی شعری کائنات

صبحِ قفس |
حسنِ ادب
صبحِ قفس

تائب نظامی کی شعری کائنات
Authors

ARI Id

1689956803051_56117788

Access

Open/Free Access

Pages

14

تائب نظامی کی شعری کائنات

بے سہاروں کا یہاں بوجھ اُٹھانے کے لیے
کوئی تیار نہیں اپنا بنانے کے لیے
پیار ہر ایک سے کرنا ہی مری دعوت ہے
میرا پیغام محبت ہے زمانے کے لیے
شعری مجموعہ’’ صبحِ قفس‘‘ کے خالق غلام علی متخلص بہ تائب نظامی ۴مئی ۱۹۶۸ء کو چک تیمورشاہ تحصیل تاندلیا نوالا میں پیدا ہوئے لیکن پچھلے کئی برسوں سے محلہ عیدگاہ پاک پتن میں مقیم ہیں۔ ان کی پہچان کے متعدد حوالوں میں سے ایک معتبر حوالہ یہ ہے کہ وہ ایک اچھے شاعر ہیں۔ وہ اُردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں طبع آزمائی کرکے ادبی حلقوں میں اپنی الگ اور منفرد پہچان بنانے میں کافی حدتک کامیاب نظر آتے ہیں۔ ان کے نصف درجن کے قریب پنجابی ، اردو شعری مجموعے تکمیلی مراحل میں ہیں جن میں تین اردو شعری مجموعے شامِ قفس، شبِ قفس، کنجِ قفس کے علاوہ ایک نعتیہ مجموعہ ’’مولائے کل‘ ‘ او ر ایک پنجابی شعری مجموعہ’’ ریت دے کوٹھے‘‘قابلِ ذکر ہیں۔ انھو ں نے متعدد اصناف میں طبع آزمائی کرکے اپنی قادرالکلامی کا بین ثبوت پیش کیا ہے جن میں حمد، نعت ، مناقب اور اردو پنجابی غزلیات شامل ہیں۔
چوں کہ شاعر معاشرے کا ایک حساس فرد ہوتا ہے اس لیے اپنے گردو پیش میں رونما ہونے والے واقعات وحادثات کو اور طرح سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے پھر وہی زمانے کی ناہمواریوں کو تخیل کے پر لگا کر موزوں الفاظ میں سماج کے سامنے پیش کر دیتا ہے گویا ایک طرح وہ معاشرے کا ترجمان ہوتا ہے۔ اگر وہ سماج میں افلاس کا غلبہ دیکھتا ہے تو غریبوں کی آواز بن جاتا ہے، اگر حکمرانوں کا ظلم دیکھتا ہے تو صدائے احتجاج بلند کرتا نظر آتا ہے، اگر معاشرے میں اسے ظلم و ستم بڑھتا نظرآتا ہے تو وہ مزاحمتی لب و لہجہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور اگر محبت کا پیغام دینا مقصود ہو تو محبوب کا سراپا اس انداز سے بیان کرتا ہے جس سے حسن اور پیار کے جھرنے پھوٹنے لگتے ہیں اور اس طرح اس کے دل سے نکلنے والی بات کی تاثیر دوچند ہو جاتی ہے بعینہٖ تائب نظامی کا کلام مذکورہ تمام خصائص کا حامل دکھائی دیتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دل کو بغیر لہجے کی تاثیر کے مسخر نہیں کیا جا سکتا ہے بقول شاعر:
جس شخص کے لہجے ہی میں تاثیر نہیں ہے کر سکتا کسی دل کو وہ تسخیر نہیں ہے
حالات کی تنگی ، ظلم و ستم ، بربریت ، دہشت گردی ، افلاس ، جان و مال کی حفاظت اور عزت وناموس کی رکھوالی حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے ۔ حاکمانِ وقت کو متنبہ کرتے ہوئے موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں کہ عوام الناس کی نگہ بانی تم پر لازم ہے اور ان کی خستہ حالتِ زار کے ذمہ دار بھی تم ہی ہو ۔ لکھتے ہیں:
مزاجِ وقت دیکھو ، وقت کی رفتار تو دیکھو لکھا ہے کیا سرِ دیوار، تم دیوار تو دیکھو
اے حاکم تجھ پہ لازم ہے نگہ بانی رعایا کی کہ اس کی مفلسی اور اس کا حالِ زار تو دیکھو
تائب نظامی خود بھی ایک درویش صفت انسان ہیں اسی لیے وہ اپنے جیسوں کو زیادہ عزت دیتے ہیں۔ یہ بات ان کی جبلت میں شامل ہے کہ احترام انسانیت ضروری ہے مگر امیر کبیر، دولت مند وں اور زرداروں سے دور بھاگتے ہیں ۔ لکھتے ہیں:
میں تو بس دور ہی رہتا ہوں ہمیشہ ان سے میری بنتی جو نہیں زر سے نہ زردار کے ساتھ
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
دولت و مال و زر کا کیا کرنا ہم فقیروں نے گھر کا کیا کرنا
تائب نظامی دراصل ان حکمرانوں کے خلاف سینہ سپر رہتے ہیں جو عدل و انصاف سے کام نہیں لیتے، جو نظام میں اصلاح لانے کی بجائے بگاڑ کا سبب بنتے ہیں جنھیں عوام الناس سے کوئی سروکار نہیں بلکہ انھیں اپنے پیٹ سے غرض ہے جو اپنے مفاد کی خاطر لوگوں کی جانوں کی بھی پرواہ نہیں کرتے اور جنھیں خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے، موسموں کی شدت کو برداشت نہ کر سکنے والے اور سخت سردی کی لپیٹ میں آئے ہوئے پابرہنہ اور ٹھٹھرنے والے لوگ نظر ہی نہیں آتے۔ اس حوالے سے تائب نظامی رقم طراز ہیں:
میں پا برہنہ کھڑا ہوں ، ٹھٹھر رہا ہوں میں کہ موسموں کے تغیر سے مر رہا ہوں میں
اتنی غربت اور افلاس کے مارے لوگ جنھیں زندہ رہنے کے لیے دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں، روزی اور روزگار کی بدولت وہ اپنی زندگی سے تنگ ہوں اور طرح طرح کے غموں نے انھیں گھیر رکھا ہو؛ جو ایسے دگرگوں حالات اور غموں سے نبرد آزما ہوں وہ کریں تو کیا کریں؟ بقول شاعر:
جو کام مجھے کرنے ہیں ، کرنے نہیں دیتے حالات مجھے غم سے نکلنے نہیں دیتے
تائب نظامی چوں کہ معاشرے کے ایک حساس فرد ہیں اس لیے انھیں چھوٹی چھوٹی معاشرتی ناہمواریاں بھی مضطرب کردیتی ہیں۔ وہ تو ایک پیار کرنے والے اور محبت کاپرچار کرنے والے شاعر ہیں اسی لیے دکھوں دردوں کے باوجود انھوں نے محبت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور درِ یار پہ دربان بننا پسند کیا ہے اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں:
دکھ درد کے مارے ہوئے انسان کی صورت بیٹھا ہوں درِ یار پہ دربان کی صورت
تائب نظامی چوں کہ معاشرے کے حساس فرد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک محبت کرنے والے انسان بھی ہیں ۔ دکھی انسانیت کی خدمت اور محبت کا پرچار ان کی جبلت میں شامل ہے اسی لیے وہ بے قراروں، غم کے ماروں اور اپنے یاروں سے ہمہ وقت پیار بانٹتے نظر آتے ہیں:
بے قراروں سے پیار کرتا ہوں غم کے ماروں سے پیار کرتا ہوں
بانٹ لیتا ہوں درد یاروں کے اپنے یاروں سے پیار کرتا ہوں
تائب نظامی کی ذات کے فکری حوالوں میں سے ایک معتبر حوالہ چوں کہ محبت ہے اس لیے وہ طاقت سے زیادہ محبت کے قائل نظرآتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اصل طاقت پیار کی ہے۔ محبت اور خلوص سے حاصل کی جانے والی چیز ہی اصلی سرمایہ ہوتی ہے۔ وہ محبت اور الفت کو جرم کی بجائے زندگی کی اصل روح گردانتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
منصفو! میرا جرم الفت ہے جو بھی چاہو مجھے سزا دے دو
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی بنیاد ہی محبت پہ رکھی ہے اور محبت کا یہ جذبہ انسانوں کے علاوہ تمام مخلوقات میں بھی کم یا زیادہ موجود ضرور ہے یہ جذبہ اللہ تعالیٰ نے باالخصوص انسان کی جبلت میں ودیعت کردیا ہے۔ انسان جب بھی کوئی کام پورے خلوص اور محبت سے سرانجام دیتا ہے تو اس کی تاثیر دوچند ہوجاتی ہے اس طرح اس کے فوائد اور ثمرات مثبت اور دور رس ثابت ہوتے ہیں۔ محبت کا یہی مادہ تائب نظامی کی سرشت میں بھی شامل ہے؛ علاوہ ازیں وہ بتاتے ہیں کہ محبوب کی محبت غیر محسوس طریقے سے ان کے دل میں سماچکی ہے بلکہ وہ پوری طرح اپنے پیار کی جوت جگا چکا ہے؛ پیار کی اسی جوت کو جب وہ یاروں میں بیان کرنا شروع کرتے ہیں تو سب سن کر رونے پہ مجبور ہو جاتے ہیں:
اک شخص میرے دل میں سماتا چلا گیا اور پیار کی وہ جوت جگاتا چلا گیا
تائبؔ نے اک روز جو یاروں کے درمیان چھیڑی تھی داستاں تو رُلاتا چلا گیا
جب انھیں محبوب کا وصل نصیب نہیں ہوتا تو بھی وہ مایوس نہیں ہوتے بلکہ تصور میں محبوب کے وصل اور دیدار کے مزے لینے لگتے ہیں اور ہاں بعض اوقات وہ خود ہی محبوب کے ساتھ ملاقات سے گھبراتے ہیں تاکہ زمانے والے محبوب کے خلاف باتیں نہ بنائیں ۔ لکھتے ہیں:
تیرے دیدار کے ہر آن مزے پاتا ہوں دیکھنے تجھ کو تصور میں چلا جاتا ہوں
نہ بنا پائیں فسانے یہ زمانے والے سو ترے ساتھ ملاقات سے گھبراتا ہوں
محبوب کے حسن و جمال اور سراپے کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ترے حسن اور خدو خال کے سامنے یہ تیر وکمان اور تیغ کیا چیز ہیں؟ محبوب کے حسن و جمال پر وہ ایک جان کیا ایسی ہزاروں جانیں قربان کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں:
یہ تیر و تیغ ہیں کیا اور کمان کیا شے ہے تری نظر کے مقابل یہ جان کیا شے ہے
ہزار جان سے تجھ پر نثار میں جاناں تری خوشی ہے تو پھر ایک جان کیا شے ہے
لیکن جب محبوب بے رُخی برتتا ہے تو ان کی حالت غیر ہوجاتی ہے بلکہ ان کے دل میں غموں کے طوفان بپا ہونے لگتے ہیں؛ اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں:
تری بے رُخی سے مرے دل میں ظالم بپا غم کے طوفان ہونے لگے ہیں
وہ محبوب کی بے رُخی کسی صورت برداشت نہیں کر پاتے بل کہ وہ اپنی زندگی کے قرار کے لیے دولتِ دردِ یار کے متمنی نظر آتے ہیں علاوہ ازیں ان کی شدید خواہش رہی ہے کہ وقتِ رخصت محبوب ایک بار مل ہی لے۔ لکھتے ہیں:
دولتِ دردِ یار مل جائے زندگی کو قرار مل جائے
وقتِ رخصت ہے اب خدا کے لیے ہم سے وہ ایک بار مل جائے
تائب نظامی کے کلام میں جہاں فکری تنوع نظر آتا ہے وہاں ان کے ہاں فنی حوالے بھی بکثرت ملتے ہیں ان کی شاعری کھنکتے قافیے، اُچھوتے ردیف ، معروف ضرب الامثال ، محاورات کا برمحل استعمال ، انوکھی تشبیہات واستعارات ، نادر تلمیحات اور منفرد تراکیب دیکھی جا سکتی ہیں ؛چوں کہ تائب نظامی ایک کہنہ مشق شاعر ہیں اس لیے ان کے کلام میں جتنے بھی فنی وفکری حوالے ملتے ہیں ان میں تصنع بالکل نظر نہیں آتا جو ان کی ریاضت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مذکورہ چیزیں حسنِ کلام کا زیور اور شاعری کی جان ہوتی ہیں جن کی بدولت کلام میں نکھار اور پختگی کا عمل نظر آتا ہے۔ فنی حوالے سے انگوٹھی میں نگینہ جڑنے کے مترادف ہوتے ہیں۔ تائب نظامی کے کلام میں سادہ اور عام فہم اشعار شامل ہیں۔ بعض شعرا اپنی علمیت ظاہر کرنے کے لیے شعوری کوشش سے مشکل اور بھاری بھرکم تراکیب استعمال کرتے ہیں لیکن تائب نظامی کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے پیچیدہ تراکیب اور مشکل خیالات کو اتنی عمدگی سے بیان کیا ہے کہ شعری حسن میں کہیں کوئی ابہام اور سقم نظر نہیں آتا ۔ وہ دو لفظی اور کہیں کہیں سہ لفظی تراکیب بڑی چابک دستی سے اپنے کلام میں سموتے چلے جاتے ہیں ۔ ’’صبحِ قفس، پسِ زنداں، تہی دامان، بارگراں، نوکِ سناں، شہر خموشاں ، خارِ مغیلاں، چشم تر، رگِ جاں، رازِ زندگی، محوِ نالہ، فصل بہار، باعثِ امتحاں، قدرِ مشترک، قلبِ ناتواں، غمِ ہجر، بارگاہِ عشق، پیغامِ محبت، عزلت نشیں، میرکارواں، مذہب عشق، خانماں خراب، وقتِ رخصت، سنگ آستاں، حسنِ بیاں، رنگِ سخن اور دردِ نہاں جیسی متعدد تراکیب بڑی روانی کے ساتھ اپنے کلام میں سموتے چلے جاتے ہیں مثلا! ایک جگہ پر وہ اپنے رنگِ سخن کا ذکرتے ہوئے عاجزی کا اظہار کر رہے ہیں اور یہ بھی بتا رہے ہیں کہ چاہے لوگ ستاروں سے آگے پہنچ چکے ہیں لیکن کوئی بھی مرے دردِ نہاں تک نہیں پہنچ سکا۔ لکھتے ہیں:
اندازِ مرا حسنِ بیاں تک نہیں پہنچا جو رنگِ سخن خوب ہو واں تک نہیں پہنچا
تائب نظامی نے اپنے کلام میں بہت سی جگہوں پر سہ لفظی تراکیب بھی برتی ہیں۔ باعثِ تسکینِ دل، صورتِ پرنور، دلِ داغ دار، حسنِ ستم گر، حالِ دلِ زار، کثرتِ مال و زر، دولتِ دردِ یار، پابند رنگ و ذات، دل پُرسکون، تسکینِ جسم و جاں، دستورِ زباں بندی، شوقِ دید حرم اور شوقِ کوئے بتاں جیسی متنوع تراکیب ان کی جودتِ طبع کے ساتھ ان کی قادرالکلامی کا بین ثبوت ہیں۔ لکھتے ہیں:
مجھے شوقِ دیدِ حرم نہیں یہ ستم نہیں مجھے شوقِ کوئے بتاں ہوا، یہ زیاں ہوا
سہ لفظی تراکیب کی ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیں جس میں انھیں دستورِ زباں بندی کی بدولت اپنا شہر ؛ شہرِ خموشاں دکھائی دے رہا ہے۔ لکھتے ہیں:
دستورِ زُباں بندی یہاں جب سے ہے نافذ یہ شہر مرا شہرِ خموشاں کی طرح ہے
تائب نظامی کے کلام میں زورِ بیاں کے ساتھ مٹھاس اور لطفِ بیاں کا حسن بھی نمایاں ہو گیا ہے ان کی شاعری میں محاورے کا استعمال اس فطری پیرائے میں ہوا ہے کہ محاورہ ؛ کلام کا جزولاینفک بن گیا ہے۔ ان کے ہاں فصاحت و بلاغت کی پاسداری ، روزمرہ اور محاورہ کے برمحل استعمال سے زبان و بیان میں چاشنی کا عنصر در آیا ہے۔ ان کے کلام میں بہت سے ایسے اشعار ہیں جو مصرعوں کی روانی ،سادگی و سلاست، زبان کی نفاست اور خیال کی ارفعیت جیسی خصوصیت سے معمور ہیں۔ انھوں نے اپنے کلام میں دامن نچوڑنا، سرجوڑ کہ بیٹھنا، دل توڑنا، سرپھوڑنا، جان سے گزرنا، جان کے دشمن ہونا، جام چھلکنا، دل بھرنا، کم ظرف ہونا، بات بننا، دربدر ہونا، دامن چھڑانا، بدگمان ہونا، گھر جلانا، بجلی گرنا، جان قربان کرنا، جان کا دشمن بننا، وفانبھانا، صدمے اُٹھانا، بوجھ اُٹھانا، جان سے گزرنا، دل میں سمانا، جوت جگانا، آگ لگانا، اپنا بنانا، حقیقت چھپانا، احسان جتانا، بے قرار ہونا، زخم بھرنا، نازاُٹھانا اور خاک اُڑانا جیسے معروف اور متعدد محاورات کا استعمال کیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ پر وہ خاک اُڑانا جیسے محاورے کو استعمال کرتے ہوئے اپنے دل کی کیفیت کویوں بیان کرتے ہیں:
کیاگزرتی ہے دل پہ اے تائبؔ خاک اپنی اُڑا کے دیکھ لیا
ایک اور جگہ پر ناز اُٹھانا جیسے محاورے کا استعمال دیکھیے ۔ لکھتے ہیں:
کیا ہوا تجھ کو ترا یار اگر چھوڑ گیا میں تو حاضر ہوں ترے ناز اُٹھانے کے لیے
تائب نظامی عرصۂ دراز سے سفرِ فکر و سخن میں مستغرق ہیں۔ وہ تاحال جواں جذبوں پر مشتمل غزل کی طلسماتی دنیا میں محوِ پرواز ہیں۔ تغزل کی چاشنی، رمزیت کی خوبی ، فکر کی گہرائی، احساس کی لطافت ، خیال کی عظمت ، جمالیاتی رعنائی، حرف و صورت کی چاشنی، غنائیت کی زمزمہ پردازی اور معنویت کی شگفتگی وتازگی جیسی صفات ان کے اسلوب وآہنگ کی ترجمان ہیں۔ بعض اوقات غزل میں علامتی و استعارتی اور تلمیحاتی نظام ترسیل معنی اور ابلاغ میں مشکل کا باعث بنتا ہے لیکن تائب نظامی کے ہاں تمام علامتیں اور تلمیحات اس انداز سے آئے ہیں کہ ابلاغ کا کوئی مسئلہ باقی نہیں رہا۔ انھوں نے اپنے کلام میں حضرت شبیرؓ ، شامِ غریباں، منصور، لیلیٰ ، فرہاد، زلیخا ، یوسفِ کنعان، مسیحا اور قیس جیسی معروف تلمیحات بڑے برجستہ انداز میں برتی ہیں۔ مثلاً:
اے قیس! ترا چاکِ گریبان جو دیکھا

یہ چاک مرے چاکِ گریباں کی طرح ہے
ایک اور جگہ مسیحا جیسی تلمیح کا استعمال دیکھے جس میں وہ مسیحا کو ڈھونڈ کے لانے کا کہہ رہے ہیں کیوں کہ ان کے بغیر بچنے کا کوئی طریقہ باقی نہیں رہا۔ لکھتے ہیں:
اب جائو مسیحا کو مرے ڈھونڈ کے لائو

کچھ اور مرے بچنے کی تدبیر نہیں ہے
شاعری کے لیے تائب نظامی کی طبع موزوں ہے کیوں کہ جب وہ شعر لکھنے بیٹھتے ہیں تو خیال کی دیوی ان کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے جس سے پھر وہ اپنے تخیلات کو موزوں الفاظ کا پیراہن عطا کر کے شعری قالب میں ڈھالتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے کلام میں فکری تنوع کے ساتھ ساتھ فنی حوالے بھی جابجا دیکھے جا سکتے ہیں انھوں نے اپنے کلام میں متعدد ضرب الامثال بھی برتی ہیں تاکہ اپنے کلام میں خوب صورتی اورنکھار پیدا کیا جاسکے مثلاً:’’جو بوئو گے وہی کاٹو گے‘‘ جیسی ایک ضرب المثل کا برجستہ استعمال بطور نمونہ دیکھیے۔ لکھتے ہیں:
یہ ہم نے غور کرنا ہے ، یہ ہم نے سوچنا بھی ہے
جو ہم نے آج بونا ہے ، اسے کل کاٹنا بھی ہے
تائب نظامی کی شاعری میں زندگی کے تمام رنگ موجود ہیں۔ ان کے کلام میں نہ صرف غمِ جاناں کا ذکر ملتا ہے بل کہ ان کے ہاں موضوعات کا تنوع دیکھا جا سکتا ہے۔ انھوں نے اپنے کلام میں چھوٹی بڑی ہر دو طرح کی بحور استعمال کی ہیں۔ سادگی اور سلاست ان کی شاعری کا بنیادی تشخص ہے۔ وہ پیچیدہ اور گہری باتوں کو بھی رواں اور عام فہم انداز میں اس سلیقے سے بیان کر جاتے ہیں کہ پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے ۔ سہلِ ممتنع میں لکھنا ان کی جبلت میں شامل ہے۔ وہ طویل بحروں میں لکھنے کا فن بھی جانتے ہیں لیکن چھوٹی بحروں میں لکھنا ان کا اختصاص ہے۔ سہلِ ممتنع کی یہ مثال ملاحظہ فرمائیے جس میں وہ یہ بتا رہے ہیں کہ میں اپنے زخم دکھا کر تماشا نہیں لگا سکتا۔ میں خود تو رو سکتا ہوں لیکن کسی کو رُلانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ لکھتے ہیں:
زخم اپنے دکھا نہیں سکتا

یہ تماشا لگا نہیں سکتا
رو تو سکتا ہوں عمر بھر تائبؔ

میں کسی کو رُلا نہیں سکتا
سہلِ ممتنع کی ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیں جس میں وہ محبوب کے بدگمان ہونے اور اپنی کوششوں کے رائیگا ں ہونے پر خائف نظرآتے ہیں؛ علاوہ ازیں وہ اپنے اشکوں کو روکے ہوئے ہیں تاکہ رواں نہ ہو جائیں۔ سہل ممتنع کا انداز ملاحظہ فرمائیں:
ہم سے وہ بدگماں نہ ہو جائیں

کوششیں رائیگاں نہ ہو جائیں
اپنے اشکوں کو کب تلک روکوں

خوف یہ ہے رواں نہ ہو جائیں
شعر میں ایک لفظ دو یا دو سے زیادہ بار آئے تو اسے تکرار کہا جائے گا۔ تکرار کلام میں صوتی آہنگ پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے جس سے غنائیت اورموسیقیت کا عنصر اُبھرتا ہے۔ تائب نظامی نے اپنی شاعری میں تکرارِ لفظی کی متعدد صورتیں برتی ہیں ۔ صنعت تکرار کے استعمال میں انھوں نے جس مہارت اورفنی خوش ذوقی کا مظاہرہ کیا ہے وہ یقینا قابلِ تعریف ہے مثلاً درج ذیل شعر میں لفظ بار کی تکرار دیکھیے:
تری بے رُخی کا جو بار تھا وہ نہ سہہ سکا

یہی بار ، بارِ گراں ہوا، یہ زیاں ہوا
صنعتِ تکرار کی اور دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
درد کو درد نہیں میں نے دوا مان لیا ہے

زہر کو زہر نہیں میں نے شفا مان لیا ہے
وہ کم کم یاد رکھتا ہے زیادہ بھول جاتا ہے

ہمیشہ کرکے وعدہ اپنا وعدہ بھول جاتا ہے
جب کلام میں تکلف اور تصنع نہ ہو اور شعر عام فہم اور سادگی کا عنصر لیے ہوئے ہو تو شعر کی اس خوبی کو بے ساختگی کانام دیا جاتا ہے۔ تائب نظامی نے اپنی شاعری میں کبھی جذبے سے ، کبھی استفہام سے، کبھی تحسین وآفرین سے اور کبھی سوزوگداز سے بے ساختگی کا عنصر کشید کرنے کی عمدہ کاوش کی ہے۔ بے ساختگی اور استفہام پر مبنی اشعار ان کے کلام میں بکثرت دیکھے جا سکتے ہیں۔ چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں:
جس سے تائب نہ فیض حاصل ہو

ایسی چوکھٹ کا ، در کا کیا کرنا؟
بے ساختگی اور استفہام کی ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیں جس میں وارفتگی کی ایک خاص کیفیت کو بیان کیا گیا ہے کہ جانے والے نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ اس کے چلے جانے سے کوئی مربھی سکتا ہے۔ بقول شاعر:
جانے والے نے کیوں نہیں سوچا؟

اس طرح کوئی مر بھی سکتا ہے
مذکورہ بالا کیفیت پر مبنی ایک اور مثال دیکھیے:
جانے کیوں بے وفا وہ یاد آیا

جانے کیوں بے وفا کی یاد آئی؟
تائب نظامی کے کلام میں داخلی اور خارجی کیفیات کے علاوہ تہذیبی وثقافتی پہلو بھی جلوہ گر ہیں ۔ ان کے مطالعے اور گہرے مشاہدے کی بدولت ان کی شاعری میں گہرائی اور گیرائی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔ ان کی شاعری کے موضوعات کا تعلق زیادہ تر معاملہ بندی ، معاشرے میں موجود مختلف طبقات کے مابین تفاوت اور معاشرتی اونچ نیچ ہے۔ انھوں نے معاشی عدم مساوات کے نتیجے میں پید ا ہونے والی غربت اور افلاس کو قریب سے نہ صرف دیکھا بل کہ اپنی جان پر محسوس بھی کیا۔ اسی وجہ سے ان کے کلام میں سوزوگداز کا پہلو بھی نمایاں طور پر موجود ہے۔ انھوں نے متعدد جگہوں پر اپنے کلام میں تضاد کی کیفیات پیدا کرکے نہ صرف اپنے کلام کو خوب صورتی عطا کی بل کہ قاری کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ صنعتِ تضاد کا استعمال ان کے کلام میں حسن پیدا کرنے کا سبب بنا ہے۔ مثلاً ایک جگہ پر اُنھوں نے یار اور دشمن ، پھول اور خار جیسے الفاظ استعما ل کرکے تضاد کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ لکھتے ہیں:
موسم گل ہو خزاں ہو کہ بہاریں تائبؔ

اپنی تو ذات میں ہم پھرتے ہیں زندان لیے
تائب نظامی نے فنی حوالے سے اپنی شاعری میں متعدد اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ انھوں نے غزلیات کے علاوہ حمد، نعت اور مناقب وغیرہ بھی لکھے ہیں؛ جس سے انھوں نے اپنے فن اور امکانات کو واضح کیا ہے۔ ایک جگہ پر وہ اللہ رب العزت کی عظمت اور بزرگی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا نہ کوئی ہم سر ہے اور نہ ہی کوئی ثانی۔ لکھتے ہیں:
عظیم ذات ہے اس کی بزرگ و برتر ہے

نہ کوئی ثانی ہی اس کا نہ کوئی ہم سر ہے
تائب نظامی نے جہاں دیگر متعدد اصناف میں طبع آزمائی کی ہے وہاں انھوں نے خوب صورت نعوت بھی تخلیق کی ہیں۔ نعت چوں کہ نبی کریمؐ سے والہانہ محبت اور عشق کا اظہار ہے اس لیے تائب نظامی نے نعت جیسے بابرکت اور حساس موضوع پر بھی اپنی چاہتوں کے پھول نچھاور کیے ہیں ۔ بظاہر نعت کا موضوع حضور نبی مہرباںؐ کی مدح وستائش کے گرد گھومتا ہے مگر اس کے اندر خلقِ رسول سے اخلاقِ رسولؐ تک موضوعات کا ایک طویل سلسلہ پنہاں ہے۔ آپؐ کی جامع صفات اور حیاتِ مقدسہ کے حوالے سے نعت کا موضوع بے پناہ وسعت کا حامل ہے۔ تائب نظامی کے کلام میں وارفتگی کا عمل نمایاں ہے۔ بے پناہ محبت اور عقیدت سے لبریز نعتیں اپنے اندر بے پناہ اثر آفرینی اور عصری حقائق رکھتی ہیں۔ نبی کریمؐ کے بے مثل ہونے اور ان کے حسن و جمال کے حوالے سے تائب نظامی رقم طراز ہیں:
جمال ان کا جہاں کے جمال سے اعلیٰ

کمال ان کا جہاں کے کمال سے اعلیٰ
مرے حضورؐ کی کوئی مثال کیا دے گا

کہ یہ وہ ذات ہے جو ہے مثال سے اعلیٰ
تکریم انسانیت پر اسلام نے بہت زور دیا ہے۔ تائب نظامی کی شاعری کا بنیادی منطقہ احترام انسانیت ہے۔ انھوں نے حمد اور نعوت کے علاوہ مناقب بھی تخلیق کیے ہیں۔ انھوں نے حضرت علی ، خیرالنساء حضرت فاطمۃ الزھراؓ ، اہلِ بیت اطہار کے حضور ، مخدوم علی ہجویری داتا گنج بخشؒ ، بابا فریدالدین مسعود گنج شکر، خواجہ محمد شریف چشتی اور خواجہ غلام قطب الدین فریدی جیسی معروف شخصیات کے مناقب لکھ کر نہ صرف اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے بل کہ منقبت نگاروں میں بھی اپنا نام شامل کروالیا ہے۔ اہلِ بیت اطہار کے حضور پر لکھی جانے والی منقبت کا صرف ایک شعر ملاحظہ کیجیے:
دیں کو ملی جلا ہے درِ اہلِ بیت سے

زندہ ہوئی وفا ہے درِ اہلِ بیت سے
حضرت بابافریدالدین مسعو د گنج شکرؒ کے حوالے سے لکھی جانے والی منقبت کا بھی ایک شعر ملاحظہ فرمائیے:
محشر کا کوئی خوف نہ دوزخ ہی کا ڈر ہے

جب پیر مرا گنج شکر ، گنج شکر ہے
تائب نظامی کے کلام میں فنی وفکری پختگی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ ایک اچھے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں وہ تمام خصائص موجود ہیں جو انھیں اعتبار بخشنے کے لیے کافی ہیں اسی لیے ان کو روشن امکانات کا شاعر کہا جاسکتا ہے۔ انھوں نے اپنے کلام میں اپنے عصر ی شعری رویوں سے قدرے مختلف اور منفرد لب و لہجہ اختیار کیا ہے۔ ان کے ہاں رومانیت اور معاملہ بندی کے حوالے سے تفکر اور مشاہدات کا منظرنامہ دیکھا جا سکتا ہے جس سے ان کا فکری کینوس وسیع تر ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ ان کا طرزِ احساس اور ان کی لفظیات دیگر شعرا سے قدرے مختلف اور منفرد محسوس ہوتی ہیں۔ ان کے کلام میں فکر و فن کی آمیزش میں بھی ایک قرینہ نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری میں موجود محاسن ادبی حلقوں میں ان کو ایک نمایاں مقام عطا کرنے میں ممدو معاون ثابت ہوں گے۔
میرا تائبؔ مزاج موزوں ہے

میں بڑے شاعروں میں رہتا ہوں
پروفیسر ڈاکٹر رحمت علی شادؔ
پرنسپل!
گورنمنٹ ڈگری کالج( بوائز )،کمیر ٹائون،ساہیوال
٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...