Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > صبحِ قفس > بیاضِ دل سے

صبحِ قفس |
حسنِ ادب
صبحِ قفس

بیاضِ دل سے
Authors

ARI Id

1689956803051_56117792

Access

Open/Free Access

Pages

28

بیاضِ دل سے
بلاشبہ شاعری مجھے وراثت میں ملی ہے ۔ میرے والد مرحوم مغفو ر (عمر بخش) نوحہ اور مرثیہ کے شاعر تھے۔ گویا میں نے شعر اور شاعری کی آغوش میں آنکھ کھولی۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا میرا ذوق و شوق پختہ ہوتا چلا گیا۔ میں نے آٹھویں جماعت میں ۱۹۸۲ء میں فاضلکا اسلامیہ ہائی سکول پاک پتن میں داخلہ لیا تو ہمارے اس سکول میں ادبی سرگرمیاں اس دور میں عروج پر تھیں۔ ہمارے اُردو کے اُستاد جناب شریف ساجد صاحب تھے ۔ آپ صر ف اُستاد ہی نہیں تھے بل کہ اُردو شاعری کا ایک حوالہ تھے۔ ان کا اندازِ تعلیم تعلم انتہائی شاعرانہ تھا جس سے میرے ادبی ذوق کو بے پناہ جلا ملی۔
جب میں میٹرک تک پہنچا تو اُس وقت تک میں تھوڑے بہت قافیے ملانے لگ گیا تھا۔ ان دنوں حضور بابافریدالدین مسعود گنج شکرؒ کا عرس تھا تو کسی حوالہ سے حضرت پرنم الٰہ آبادی ہمارے ہاں ٹھہرے۔ ان دنوں آپ کی لکھی گئی قوالی ’’بھردو جھولی میری یا محمدؐ ‘‘ کا ملک کے طول و ارض میں بہت شہرہ تھا۔ بنا بریں مجھے اُن کی خدمت کا شرف حاصل ہوا اور تقریباً ہفتہ دس دن اُن کی قربت نصیب رہی۔ لہٰذا میں نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اُن کو اپنے ٹوٹے پھوٹے اشعار دکھائے اور اُن سے ابتدائی اصلاح لی۔
۱۹۹۱ء میں حلقہ اربابِ فرید پاک پتن ادبی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی جس کے پہلے صدر قادر الکلام شاعر جناب منیب برہانی تھے اور پہلے جنرل سیکرٹری تنویر عباس نقوی تھے۔ مجھے اس تنظیم کا پہلا فنانس سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ کتاب ہذا میں اس دور سے اب تک کا کلام شامل ہے۔
لہٰذا مجھے اس پلیٹ فارم پر قطب الدین چشتی ، طالب شاکر، حاجی شفیق خاکی، محترمہ یاسمین برکت، رانا اورنگ عالم گیر ، راناریاض احمد گوہر اویسی،ڈاکٹر اظہر کمال، ایوب اختر اور ظفر رشید یاسر کے ساتھ پڑھنے کا موقع ملا۔
رانا ریاض احمد گوہر اویسی ایک عہد ساز شخصیت تھے۔ اُن کی ادبی تنظیم افکار ِ نو میں مجھے رانا اورنگ زیب عالم گیر لے کر گئے تھے جہاں ظہور حسین ظہور ، خادم چشتی ، رانا طاہر رئوف آسی، وزیر علی عاجزاور رفیق ہمایوں جیسے احباب سے ملنے کا موقع ملا۔
۱۹۹۲ء میں ، میں نے انعم ٹیکسٹائل لاہور میں پرائیویٹ ملازم اختیار کر لی۔ یہاں پر میرے رفیق کار جناب سیف اللہ زاہدتھے جو کہ خود بھی شاعر ہیں اور آپ حضرت اسیر عابد(مرحوم گوجرانوالہ) کے بھتیجے ہیں۔ اس طرح مجھے حضرت اسیر عابد کی شفقت بھی حاصل ہو گئی۔ میں سیف اللہ زاہد کے ہاتھوں اپنا کلام حضرت اسیر عابد کو بھیجتا اور بعد اصلاح وہ کلام میرے پاس واپس آجاتا۔
ایک موقع پر حضرت اسیر عابد نے سیف اللہ زاہد کے ذریعے مجھے پیغام بھجوایا کہ تائب سے کہنا کہ شاعری نہ چھوڑے ، کسی نہ کسی دن شاعر بن جائے گا۔ اس مردِ درویش کی اس بات نے مجھے بے انتہاحوصلہ بخشا اور میں نے شعرو سخن کے سفر کو جاری و ساری رکھا۔
اُنھی دنوں مرحوم تنویر عباس نقوی جو حلقہ اربابِ فرید کے پہلے جنرل سیکرٹری تھے لاہور شفٹ ہو گئے۔وہ بطور صحافی روزنامہ خبریں سے منسلک تھے چونکہ ہم دونوں لاہور میں تھے تو میں نے تنویرعباس نقوی کے ساتھ پاک ٹی ہائوس جانا شروع کردیا۔ یہاں پر حلقہ اربابِ ذوق کے اجلاسوں میں شرکت کا موقع میسر آیا اور اس طرح ان اجلاسوں میں ڈاکٹر اختر شمار ، پروفیسر ڈاکٹر تیمور حسن تیمور ، نثار اکبر آبادی، فرحت عباس شاہ جیسی یگانہ روزگار شخصیات کی شاعری سننے کا موقع ملا اور انھی دنوں تنویر عباس نقوی روزنامہ خبریں کے زیر اہتمام شام کا ایک پرچہ’’ سرِ شام‘‘ نکالتے تھے لہٰذا انھوں نے اُس میں روزانہ میرا قطعہ شایع کرنا شروع کردیا۔ اس طرح انھوں نے میری ادبی حوصلہ افزائی کاسلسلہ استوار کردیا۔
دسمبر ۲۰۱۲ء میں پاک پتن میں نئی ادبی تنظیم ’’ادب قبیلہ‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ تنظیم تشنگانِ شعرو سخن کے لیے ایک بہترین پلیٹ فارم ثابت ہوئی کیوں کہ اس تنظیم کو پروفیسر نوید عاجز جیسے نکتہ داں ، پی۔ ایچ ۔ڈی ڈاکٹر پروفیسر رحمت علی شاد جیسے نقاد اورکہنہ مشق اُستاد اور شاعر جناب شریف ساجد کی سرپرستی حاصل تھی ۔ اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے اور پروفیسر نویدعاجز کی کوششوں سے متعدد شعرا کی کتابیں منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئیں اور بلاشبہ میری کتاب ’’صبحِ قفس‘‘ بھی ’’ادب قبیلہ‘‘ اور پروفیسر نویدعاجز کی ہی رہین منت ہے۔
۱۹۸۳ء سے لے کر ۲۰۲۰ء تک جن محسنین سے میں نے اصلاح لی اُن کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی۔استاد محترم جناب خواجہ غلام قطب الدین فریدی کا شکر گزار ہوں ۔ اُن کے علاوہ جناب شریف ساجد، حضرت پرنم الٰہ آبادی (مرحوم)اور حضرت اسیر عابد (مرحوم) سے مجھے فیض پہنچاجس کے لیے میں جملہ احباب کے لیے تاحیات دعا گو رہوں گا۔
اپنے ذوقِ شاعری کے پیش نظر میروغالب کے بعد مجھے بہادرشاہ ظفر ، جگر مرادآبادی، ساغر صدیقی، احمد فراز ، پرنم الٰہ آبادی، خواجہ غلام قطب الدین فریدی، محمود غزنی، پروفیسر تیمور حسن تیمور، فرتاش سید،رانا سعیددوشی، اکر م ناصر، شریف ساجداور یونس فریدی کی شاعری اور اندازِ سخن بہت پسند ہے۔
میرے شعری سفر میں ادب قبیلہ کے جملہ احباب حوصلہ افزائی کا باعث بنے، ان سب کا شکرگزار ہوں، خاص طور پر موج دین فریدی ، سید امبر بخاری، پروفیسر نوید عاجز،جمشیدکمبوہ،اظہر کمال، مسعودمیاں اور علی بخاری مرحوم(جو ۱۵دسمبر۲۰۲۰کو داغِ مفارقت دے گئے) کے نام نمایاں ہیں۔ پروفیسر زاہد شہزاداورمیری پیاری بہن صبانازبھی شکریے کے مستحق ہیں ۔کتاب کی طباعت اور مسودے کی پروف خوانی تک کے جملہ مراحل میں پروفیسر نوید عاجز کی تحریک، حوصلہ افزائی اور علمی معاونت قدم قدم پر میرے شاملِ حال رہی۔اُن کی یہ معاونت لائق تحسین ہے۔ ہر چند میں نے اپنے ظاہری اور باطنی احوال بیان کردیے ہیں لیکن پھر بھی مجھے یہ احساس ہے کہ

اجمال سے اشکوں نے بیاں کر تو دیا پر
کامل یہ مرے حال کی تصویر نہیں ہے
نیاز مند
تائب نظامی
پاک پتن شریف

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...