Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > اُردو صوت شناسی > لسانیات کا مختصر تعارف

اُردو صوت شناسی |
حسنِ ادب
اُردو صوت شناسی

لسانیات کا مختصر تعارف
ARI Id

1689956854451_56117890

Access

Open/Free Access

Pages

11

 

زبان کیا ہے؟

زبان کیا ہے؟ یہ کب سے ہے؟ انسان نے کب سے بولنا شروع کیا؟ یہ وہ سوال ہیں جو روز ازل سے جنم لے رہے ہیں۔ ہر دور کے ماہرین نے ان سوالوں کے خاطر خواہ جواب ڈھونڈنے اور اس علم میں اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ زبان دراصل اللہ رب العزت کی خاص نعمت ہے۔ جس کی وجہ سے انسان اپنے خیالات، جذبات اور احساسات دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ زبان دراصل آوازوں کے با معنی مجموعے کو کہا جاتا ہے جو انسان اپنے منہ سے نکالتا ہے۔ البتہ یہ سوال آج بھی تحقیق طلب ہے کہ انسان قوتِ گویائی اپنے ساتھ دنیا میں لایا یا دنیا میں آکر یہ سب کچھ سیکھا؟اس سلسلے میں مختلف نظریات سائنسی وادبی سطح پر موجود ہیں۔

زبان سے متعلق غور کرنے کا سلسلہ ابتدائی زمانے ہی سے سنجیدگی سے چلا آرہا ہے۔مذہبی رہنماؤں اور مدبروں  کے شانہ بہ شانہ اہل علم حضرات بھی اس سلسلے میں غور و خوض کرتے چلے آرہے ہیں ۔افلاطون اور ارسطو جیسے فلسفیوں نے بھی زبان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔افلاطون کی مشہورِز مانہ کتاب(Cratylus) علمِ زبان کے متعلق  پہلی کتاب سمجھی  جاتی ہے۔زبان کے قواعد ،تذکیر و تانیث اور اجزائے کلام کی ابتدائی تعریفیں یونانی دانشور ارسطو نے بیان کی  ہیں۔اسی طرح  زبان کے ابجدی تحریر کاآغاز بھی یونان سے ہوا۔اسی وجہ سے یونان کا دعویٰ ہے کہ سب سے پہلے ہم نے روئے زمین پر علم کا آغاز کیا اور ہر قسم کا علم ہم نے ہی ایجاد کیا۔ اس سلسلے میں بہت سی کتب اور بیش قیمت علم آج بھی موجود ہے۔  اس کے بعد قدیم ہندوستانیوں اور عربوں نے بھی زبان کے متعلق  کافی غوروخوض کیا۔اس سلسلے میں زمانہ قدیم کے شاعر،ماہرِ صوتیات پاننی کی اشٹا دھیائی(علمِ صوت کے متعلق کتاب جس میں صوتیات کے بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں) خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔

انیسویں صدی میں اس سلسلے میں ہمیں بہت سے مفکرین ایسے نظر آتے ہیں جنہوں نے زبان کے متعلق باقاعدہ تحقیق شروع کی۔اس سلسلے میں سب سے پہلے  جرمنی میں زبانوں کے مطالعے کے لیے ایک  اہم شعبہ (Comparative Philology) سامنے آیا۔جس کی نگرانی سر ولیم جونز  نے کی۔ سر ولیم جونز سے اشارہ پاکر یہ شعبہ مختلف  زبانوں کے خاندانی رشتوں کے  کھوج میں لگ گیا۔لیکن ان ماہرین لسانیات  کا طریقہ کار صرف  تاریخی اورکلاسیکی زبانوں تک ہی محدود رہا۔اس عہد کی  باقی زندہ زبانیں ان کے مطالعے کی توجہ کا مرکز نہ بن سکیں۔

انیسویں صدی میں تو زبان کا ایک روایتی مطالعہ جاری رہا جس میں نہ تو زبان کے مطالعے کے کوئی  خاص اصول وضع کیے گیے اور نہ کوئی باقاعدہ طریقہ کار متعارف کرایا گیا۔اس کے بعدزبان کا سائنسی بنیادوں پر مطالعہ کا آغاز بیسویں صدی میں اُس وقت شروع ہوا  جب سویئزرلینڈ کے(Feridanand de sasure) کی کتاب منظرِ عام پر آئی۔یہ ساسور ہی تھا جس نے پہلی بار زبان کے تقریری روپ کی جانب اہلِ زبان  کی توجہ مبذول کرائی۔اور دیکھتے ہی دیکھتے ماہرین لسانیات کی ایک زبردست  تحریک نے جنم لیا ۔اس طرح سے جدید لسانیات کے شعبے کا قیام عمل میں آیا۔اس دور میں ہمیں اہلِ زبان کی ایک کثیر تعداد نظر آتی ہے جس نے  زبان کے باقاعدہ سائنسی مطالعہ کے طریقہ کار کو وضع کیا۔ اس کے ساتھ ہی سینکڑوں کتب لکھی گئیں۔ جس سے لسانیات کی راہ متعین ہوئی۔ اور اس میدان میں ایک منظم تحقیقی کام شروع ہوا۔

یہ بات واضع ہے کہ لسانیات اردو میں ابھی کم سن علمی شعبہ ہے لیکن اس کم سن نے  اس مختصر وقت میں اردو زبان  و ادب کے حق میں وہ کر دکھایا جو روایتی علم زبان سالہاسال نہ کرسکا۔لسانیات سے پہلے تک تو صرف لکھا ہی جا رہا تھا مگر زبان کی صحیح تحقیق کو در خورِ اعتنا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس کی بنیاد،اصل جائے وقوع، ہم سایہ زبانوں کے ساتھ رشتہ اور بالخصوص ہندی ،فارسی،عربی اور سنسکرت زبانوں  کے ساتھ اس کا میل جول وغیرہ اور اس کے علاوہ زبان سے جڑی اہم بنیادی باتیں جو ابھی تک دھندلکے میں تھیں وہ سب  روشن ہوگئیں۔اور ماہرینِ لسانیات کی کثیر جماعت نے اس پر کام شروع کیا۔ اگر دیکھا جائے تو اردو کو عالمی زبان کی درجہ دینے میں لسانیات کا کردار بہت اہم ہے۔ اگر اردو میں لسانی کام نہ ہوتا تو شاید یہ زبان بھی باقی کم ترقی یافتہ زبانوں کی طرح کسی دھند لکے میں پڑی ہوتی۔

انسان چوں کہ سماجی حیوان ہے اس لیے اس معاشرے میں زندگی بسر کرنے اور اپنی تمام تر ضروریات پورا کرنے کے لیے دوسروں کا محتاج  ہے۔ اسے روز مرہ کی زندگی گزارنے اور دوسروں سے گفت گو کرنے کے لیے اسے ایک مخصوص زبان کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ۔ زبان دراصل ایک اکتسابی عمل ہے یہ معاشرے میں سیکھی جاتی ہے۔ جس کی ابتدا گھر سے ہوتی ہے۔

لسانیات وہ علم ہے جس میں زبان کی بناوٹ  ‘تشکیل‘تدریجی ارتقا‘ صرف و نحو ،زندگی اور موت کےبارے  جان کاری  ہوتی ہے۔زبان کے متعلق  منظم علم لسانیات کہلاتا  ہے۔یہ ایک ایسی سائنس ہے جس میں  زبان کو داخلی بناوٹ کے لحاظ سے سمجھنےاور پرکھنے  کی کوشش کی جاتی  ہے۔ ان میں آوازوں’’خیالات، جذبات سماجی احوال اورلفظ و  معنی وغیرہ شامل ہیں ۔ لسانیات میں زبان کا استعمال ایک  خاص معنی میں ہوتا ہے۔اشاراتی زبان یاتحریری  زبان کی  لسانیات میں مرکزی حیثیت نہیں ہے ۔ لسانیات میں تقریری زبان  کے مطالعے کو تحریر کے نسبت  زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔اس کی بہت سی  وجوہات ہیں ۔جن میں چند ایک درج ذیل ہیں

۱۔انسانی تہذیبی  تاریخ و ارتقا ء میں انسان نے سب سے پہلے بولنا شروع کیا  اور لکھنے کا فن بہت بعد میں ایجاد ہوا۔

۲۔پیدا ہونے کے بعد ایک بچہ سب سے  پہلے بولنا سیکھتا ہے  اور لکھنا بعد میں ۔

۳۔دنیا کے تمام  انسان بولنا جانتے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں لکھنے والوں کی تعداد کم ہے  ۔

۴۔ہماری روز مرہ کی گفت گو میں بہت سی ایسی باتیں ہوتی ہیں جو لکھنے میں نہیں آتی۔ وہ صرف بولنے کی حد تک ہوتی ہیں

زبان کو عربی  میں" لسان"  کہا جاتا ہے، اورنگریزی میں اس کے لیے Language کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یہ ایک ایسا منظم نظام ہے، جس کے تحت انسان اپنے خیالات کی بہترین ترسیل کرتا ہے۔ زبان کا باقاعدہ مطالعہ علم زبان یا لسانیات کہلاتا ہے۔عام طور پر زبان کا اطلاق دو چیزوں پر ہوتا ہے۔

1۔وہ عضو جو جو فِ دہن میں موجود ہے۔

2۔وہ آوازیں جو جوفِ دہن میں موجود عضو (زبان) سے ادا ہوں۔

زبان کی تعریفیں

بقول خلیل صدیقی:

“زبان چند ایسے مفردات اور مرکبات کا مجموعہ ہے جو مختلف انسانی جماعتوں میں بطور مقررہ اشارات کے کام دیتے ہوں، یا ایسے متلفظ اشارات جو انسان کے منہ اور زبان سے مختلف رنگوں میں خارج ہوتے اور نکلتے ہوں۔ جن میں کچھ نہ کچھ معنی اور تعبیرات ہوں”۔1؎

زبان دراصل اشاروں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ جو انسان اپنے جوفِ دہن سے ادا کرتا ہے۔ یہ مختلف طریقوں سے ادا ہوتی ہے۔ ہر لفظ اپنی ایک مخصوص شکل رکھتا ہے جو سننے والے کے دماغ میں ثبت ہوتی جاتی ہے۔یہ الفاظ کی صورت میں خارج ہوتی ہےاور دماغ اس کی پہچان کرتا ہے۔یہ الفاظ اپنا وجود رکھتے ہیں۔اردو کے معروف ادیب مولانا محمدحسین آزاد زبان کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“اظہار کا وسیلہ کہ متواتر آوازوں کے سلسلے میں ظاہر ہوتا ہے۔ جنہیں تقریر یا سلسلہ الفاظ یا بیان یا عبارت کہتے ہیں اسی مضمون کو ایک شاعرانہ لطیفے میں بیان کرتا ہوں، کہ زبان ہوائی سواریاں ہیں جن میں ہمارے خیالات سوار ہو کر دل سے نکلتے ہیں اور کانوں کے راستے اوروں کے دماغوں میں پہنچتے ہیں۔ اس سے رنگین تر مضمون یہ ہے کہ جس طرح تصویر اور تحریر قلم کی دست کاری ہے جو آنکھوں سے نظر آتی ہے۔ اسی طرح تقریر ہمارے خیالات کی زبانی تصویر ہے۔ جو آواز کے قلم نے ہوا پر کھینچی ہے ۔ وہ صورت، ماجرا، کام، مقام اور ساری حالت کانوں سے دکھاتی ہے”۔2؎

محمد حسین آزاد نے بہت خوب صورت انداز سے زبان کے متعلق گفت گو کی ہے۔ وہ الفاظ کو سواریوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔ تقریری الفاظ کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ آواز کے قلم سے خوب صورت تصویریں خلق کرتے ہیں ۔ لہذا آواز کا یہ اچھوتا انداز اپنے تائیں ایک منفرد اہمیت کا حامل ہے۔جان بیمز کے بقول:

“زبان آوازوں کے ایسے مجموعے کا نام ہے، جسے انسان اپنا خیال دوسروں پر ظاہر کرنے کے لیے ارادتاً نکالتا ہے، اور ان آوازوں کے معنی تعین کر لیے گئے ہیں”۔3؎

درج بالا تعریفوں سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ زبان ایک منظم نظام ہے ۔ جو اظہار خیال کا بہترین اور واحد ذریعہ ہے۔ اللہ رب العزت نے انسانی دماغ میں خیالات ، جذبات، خواہشات و غیرہ ودیعت کیے ہیں۔ جن کی ادائیگی زبان سے ہوتی ہے۔ تاریخی حوالوں سے دیکھا جائے تو شروع شروع میں انسان اشاروں اور کنایوں سے اپنی اظہار خیال کرتا تھا۔ پھر یہ ترقی کرتا ہوا اشاروں سے الفاظ اور پھر تحریر تک پہنچ گیا ۔زبان کے بارے میں ماہرینِ لسانیات  کاخیال  ہے کہ کسی بھی زبان کو سیکھنے کا مرحلہ بچپن ہی سے شروع ہوتا ہے۔ اور اگر کسی وجہ سے یہ بچپن کا مرحلہ گزر جائے تو جائے پھر کسی نئی زبان کو سیکھنا اور اس پر دست رس حاصل کرنابہت مشکل  ہے۔ انسان اور  حیوان  کے درمیان تمیز کرنے والی چیز  ”زبان“ہے۔ جسے بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ویسے تو اظہارِ خیال کےبہت سے  ذرائع ہیں جس طرح ہاتھوں ،آنکھوں یا جسم کے باقی اعضاء سے اشارے کرنا، چہرے کے تاثرات یا اچھل کود وغیرہ شامل ہے۔ لیکن ان تمام ذرائع کے علاوہ  اظہار خیال یا جذبات و تاثرات کا سب سے موثر اور بہتر  ذریعہ فقط  زبان ہے۔ کسی زبان کی ترقی و ترویج  میں  فرد سے معاشرے تک،تمام تہذیب و ثقافت  ، مذہب وشریعت، ادب و غیرِ ادب ، سیاست ، تعلیم، اور سائنسی و سیاحتی  ترقی وغیرہ جیسے عناصر شامل ہیں۔ ماہرینِ زبان نے زبان کی تین صورتیں بیان کی ہیں۔

اشاراتی زبان:

یہ زبان کے ارتقا کا ابتدائی مرحلہ ہے۔ زبان دراصل مخصوص اشاروں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ابتدا میں انسان اشاروں میں ہی ایک دوسرے سے ہم کلام ہوتا اور اس مخصوص انداز سے بات سمجھاتا ۔ اس زبان میں مخصوص امور سر انجام دینے کے لیے مخصوص اشارے استعمال ہوتے۔ یہ تمام تر اشارے آج بھی تقریباً ہماری گفت گو کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ اور انہیں ادا کیا جاتا ہے۔

تکلمی زبان:

یہ زبان کی دوسری اور اہم صورت ہے۔ اس میں انسان منہ سے مخصوص آوازیں نکالتا ہےاور انہی تکلمی آوازوں سے وہ اپنی بات دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ ان آوازوں کے ادا کرنے اور انہیں سمجھنے میں حواس خمسہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہاں یہ نقطہ ضروری ہے کہ تکلمی آوازوں کے لیے دوسرے سامع کی قوتِ سماعت درست ہو۔ ورنہ زبان کی یہ قسم لا یعنی سمجھی جائے گی۔

تحریری زبان:

زبان کے ارتقاء میں تحریری زبان کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ تحریر کو زبان کی بنیادی اکائی سمجھا جاتا ہے۔ تحریر کسی بھی زبان کا حسن ہوتی ہے۔ یہ تحریری زبان سے ہی رسم الخط کی طرح ڈالی گئی۔ اس سے زبان کے حروفِ تہجی و جود میں آئے۔اور آوازوں کو لفظوں کا جامہ پہنایا گیا۔ آوازوں کو تحریری شکل میں آنے سے یہ فائدہ بھی ہوا کہ انسان کو اپنے خیالات و مشاہدات محفوظ کرنے کا موقع ملا۔ اور یہ سرمایہ ادبی شکل میں نسل در نسل منتقل ہونے لگا۔ تحریر کی وجہ سے کتابیں وجود میں آئیں، اور زبان کو وسعت اختیار کرنے کا موقع ملا۔ بلا شبہ تحریری زبان سے ہی زبان کا وجود برقرار رہتا ہے ۔ پھلتی پھولتی اور محفوظ رہتی ہے۔

زبان اور بولی:

زبان ایک ارتقائی عمل ہے۔یہ مختلف بولیوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ اگر اس کا ارتقاء رک  جائے تو وہ زبان مردہ ہو جاتی ہے۔ اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ دنیا کی ہر زبان مخلوط ہے۔ جو مختلف علاقائی اور مقامی بولیوں سے وجود میں آتی ہے۔ زبان کا دائرہ بولی کی نسبت وسیع ہوتا ہے۔ ایک ملک میں  ایک سے زیادہ بولیاں ہو سکتی ہیں۔ لیکن وہاں کی زبان فقط ایک ہو گی۔ جو کہ اس کی پہچان ہو سکتی ہے۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ بولی ایک جز ہوتی ہے ، جب کہ زبان کُل۔بولی علاقائی تغیر اور اثرات سے وجود میں آتی ہے۔ لیکن اس میں تبدیلیاں بتدریج پیدا ہوتی ہیں۔اگر زبان اپنی اہمیت کھو بیٹھے تومحض ایک بولی بن کر رہ جاتی ہے۔اور کوئی دوسری ترقی یافتہ بولی زبان کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔کوئی بھی معیاری زبان کسی بھی زبان کی اہم بولی ہوتی ہے۔ کسی بھی زبان کے پھیلاؤ میں مختلف بولیاں شامل ہو کر اس کی وسعت کا سبب بنتی ہیں۔ بعض بولیاں کسی زبان کی بگڑی ہوئی شکل ہوتی ہیں

لسانیات کیا ہے؟

لسانیات، زبان کا منظم سائنسی مطالعہ ہے۔ تعلیمی نظام میں لسانیات بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس سلسلے میں یہ لسانیات کا کمال ہے کہ اس نے زبان کی ماہیت کے شعور کوعطا  کیاہے یعنی یہ بتایا کہ زبان کیا ہے؟زبان کوروایت  کی دنیا سے نکال کر معروضیت کی روشنی میں پیش کیا اور اس کے پوشیدہ پہلوؤں کو تحقیق کے قابل بنایا۔ لسانیات نے زبان کے مطالعے کے بنیادی طور پر  دو طریقہ کار وضع کیے  ہیں۔

1۔تاریخی لسانیات                   2۔توضیحی لسانیات

 یہ دو اصول ہی شروع میں بنائے گئے اور بھر انہی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے زبان پر مزید تحقیقی کام ہونے لگا۔ اس کے بعد مزید لسانیات کے شعبے سامنے آئے۔

لسانیات عربی زبان کے دو الفاظ ’’لسان‘‘اور ’’یات‘‘کا مرکب ہے جس کا مطلب بالترتیب ’’زبان‘‘اور ’’مطالعہ‘‘ہے۔ اس کا لفظی مطلب ’’زبان کا مطالعہ‘‘ہے، اس مطلب کو اگر سامنے رکھا جائے تو اس کے دو مفہوم واضح ہوتےہیں یعنی زبان کا مطالعہ دو طریقوں سے کیاجا سکتا ہے: 

۱۔ زبان کا تاریخی مطالعہ                       ۲۔ زبان کا موجودہ مطالعہ

اس لحاظ سے زبان کے مطالعے کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اورماہرین لسانیات نے اس سلسلے میں زبان کے دو طرح کے مطالعے کا ذکر کیا ہے،

اس سلسلے میں ڈاکٹر فوزیہ اسلم لکھتی ہیں کہ:

’’زبان کے علوم دو طرح کےہیں: علم اللسان(Philology) اور لسانیات (Linguistics)۔ علم اللسان زبان کا ماضی ہے تو لسانیات زبان کا حال، علم اللسان زبان کے ساتھ ادب کا بھی مطالعہ کرتا ہے اس لیے نسبتاً وسیع تر اصطلاح ہے، جب کہ لسانیات فقط زبان ہی کو اپنا موضوع بناتی ہے۔‘‘۴؎

تاریخی حوالے سے لسانیات کا علم بہت قدیم ہے۔ اگرچہ یہ مختلف ناموں سے پکارا جاتا رہا۔ لیکن یہ بات واضع ہے کہ یہ اصطلاح بالکل نئی ہے۔ لسانیات نہ صرف زبان کی تاریخ بل کہ ادب کا بھی مطالعہ کرتی ہے۔یہ ایک وسیع علم  ہے۔

لسانیات کی تعریفیں

سید محی الدین قادری زور لکھتےہیں:

’’لسانیات اس علم کو کہتے ہیں جس کے ذریعے سے زبان کی ماہیت، تشکیل، ارتقاء، زندگی اور موت سے متعلق آگاہی حاصل ہوتی ہے۔‘‘

 ڈاکٹر محی الدین زور قادری اردو لسانیات کے بانی تصور کیے جاتے ہیں۔ اردو زبان پر لسانیات کی پہلی کتاب ڈاکٹر صاحب موصوف نے لکھی۔ جوکہ لسانیات کی خشتِ اول سمجھی جاتی ہے۔انہوں نے لسانیات کو زبان کی زندگی اور موت کہا ہے۔ ان کے نزدیک لسانیات کسی بھی زبان کی ترقی و ترویج اور اس کے نشر و اشاعت کا سبب ہے۔ڈاکٹرمحمد حسین لکھتےہیں کہ:

’’لسانیات زبان کے سائنسی مطالعے کا نام ہے۔‘‘6؎

لسانیات میں زبان کی ساخت وپرداخت، تشکیل، تدریجی ارتقاء، الفاظ کی بناوٹ، کلام کے اجزاء اور ان کی ابتداء کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر حامد اللہ ندوی لکھتےہیں:

’’زبان کے مختلف پہلوؤں کا فنی مطالعہ لسانیات کہلاتا ہے۔ زبان کا یہ فنی مطالعہ دو زمانی بھی ہو سکتا ہے اور ایک زمانی بھی۔ دو زمانی مطالعے کی حیثیت تاریخی ہوتی ہے، جس میں کسی زبان کی عہد بہ عہد ترقی یا مختلف ادوار میں اس کی نشوونما کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ایک زمانی مطالعے کی حیثیت توضیحی ہوتی ہے۔ جس میں ایک خاص وقت یا خاص جگہ میں ایک زبان جس طرح بولی جاتی ہے اُس کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔‘‘

لسانیات در اصل تاریخی پہلوؤں کی حامل بھی ہے۔ اس کے تاریخی مطالعے کے دو اہم طریقے بیان کیے گئے ہیں۔ جس میں  پہلا یک زمانی اور دوسرا دو زمانی ہے۔کسی زبان کا خاص دور کا مطالعہ اور جملہ تبدیلیاں اور اس کی عہد بہ عہد ترقی  یک زمانی مطالعہ کہلاتا ہے۔اس کا تعلق توضیحی لسانیات سے ہوتا ہے۔لسانیات کے حوالے سے ڈاکٹر گیان چند لکھتےہیں کہ:

’’لسانیات کی ہم یہ تعریف کر سکتے ہیں کہ لسانیات زبان کے سائنسی مطالعے کا نام ہے۔‘‘

لسانیات کے موضوع پر خامہ فرسائی کرنے والے علماء میں سب سے جُدا کام ڈیوڈ کرسٹل نے کیا، ان کی اس موضوع پر مختصر مگر جامع کتاب ’’لسانیات کیاہے‘‘بہت اہمیت کی حامل ہے۔ انہوں نے اس میں تین اہم ترین موضوعات پر لکھا ہے۔ لسانیات کیانہیں ہے؟ لسانیات کیاہے؟ اورلسانیات کے فوائد۔ ان موضوعات کی روشنی میں ڈیوڈ کرسٹل نے دلائل وبراہین سے ثابت کیا ہے کہ کون کون سے موضوعات لسانیات میں شامل ہوتےہیں اور کون سے موضوعات اس سے خارج ہوتےہیں۔ کن چیزون کو ہم لسانیات کے ضمرے میں لا سکتے ہیں اورکن موضوعات کو درخورِ اعتناء نہیں سمجھا جا سکتا۔

ڈیوڈ کرسٹل لسانیات کی تعریف کرتے ہوئے لکھتےہیں کہ:

لسانیات کا علم سائن ٹی فک طریقے سے زبان کا مطالعہ کرتا ہے۔‘‘

لسانیات اگرچہ نئی اصطلاح ہے، لیکن اس کے مبادیات ومباحث نئے نہیں ہیں، بلاشبہ اس علم نے باقاعدہ مضمون کی شکل بہت بعدمیں اختیار کی۔ اس کامطالعہ بھی سائنسی ہوتا ہے۔

ایف۔ سی ۔ باکٹ۔لسانیات کی تعریف کرتے ہوئے لکھتےہیں کہ:

’’زبان کے بارے میں منظم علوم کو لسانیات کہا جاتاہے۔‘‘10؎

بلاشبہ لسانیات زبان کے مختلف پہلوؤں کا مطالعہ کرتی ہے۔ یہ مطالعہ یک زمانی بھی ہو سکتا ہے اور دو زمانی وتاریخی بھی۔ لسانیات زبان کی عہد بہ عہد نشوونما اورنشیب وفراز کو بھی زیر بحث لاتی ہے۔

لسانیات کی مختصر تاریخ

یہ بات تو واضح ہے کہ لسانیات دراصل زبان کا ہی مطالعہ ہے۔ اگرچہ یہ اصطلاح بہت بعد میں رائج ہوئی لیکن زبان کا مطالعہ روزِ اول سے ہی ہو رہا ہے، اس لیے اگر ہمیں زبان کی تاریخ کو دیکھنا ہو گا اس کے بعد یہ جانچنا ہو گا کہ لسانیات کو مختلف ادوار میں کِن کِن ناموں سے تعبیر کیا گیاہے۔

قدیم زمانے میں اس مضمون کو ’’گرامر‘‘ یا ’’علم اللغہ‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اِسے زبان کاباقاعدہ حصہ سمجھا جاتا تھا نہ کہ کوئی علاحدہ مضمون۔اُس وقت یہ مضمون ابتدائی منزلوں میں ہونے کے سبب انتہائی سادہ تھا۔ اس میں بہت زیادہ مسائل تھے۔ قواعد اور لغت کے مسائل  اور دائرہ کار میں حدِّ فاصل قائم کرنا انتہائی مشکل تھا۔ قواعد کے اصول صرف ونحو کی بحثیں، لغت کے اصول ومبادیات یہ سب مبہم حد تک موجود تھے۔

لسانیات کی ابتداء کے حوالے سے ابوالاعجاز حفیظ صدیقی یوں لکھتے ہیں:

’’لسانیات(Linguistics)کااردوترجمہ ہے۔فلالوجی (Philology)   کی اصطلاح بھی لسانیات کے مترادف کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے۔ لیکن فلالوجی نسبتاً ایک وسیع تر اصطلاح ہے جس کے مفہوم میں زبان کے سائنسی مطالعہ کے علاوہ ادبیات کا سائنسی مطالعہ بھی شامل ہے۔‘‘11؎

جیسا کہ  اوپر بیان کیا گیا ہے کہ لسانیات ایک قدیم علم ہے لیکن اس علم کے لیے لسانیات کی اصطلاح بعد میں استعمال ہوئی ہے۔ اگرچہ اب یہ علم بہت ترقی کر چکا ہے۔ اور اس کے لیے زیادہ تر فلالوجی کی اصطلاح ہی استعمال ہوتی رہی ہے۔

یہ بات تو واضح ہے کہ لسانیات کو سب سے پہلے فلالوجی (Philology)

کا نام ہی دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ زبان کا مطالعہ فلالوجی (Philology)کہلاتا

ہے، یہ اصطلاح سب سے پہلے ۱۷۱۶ء میں ڈیویز نے استعمال کی۔12؎

فلالوجی ایک قدیم اصطلاح ہے۔ یہ لفظ زبان کے مطالعے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ لیکن اس کی وسعت اس قدر نہیں تھی لیکن لسانیات کے علم نے بہت حد تک وسعت حاصل کر لی ہے۔

ایک عرصے تک زبان کے مطالعے کے لیے فلالوجی کی اصطلاح استعمال ہوتی رہی، لیکن اس اصطلاح میں وسعت ہونے کے سبب بعد میں زبان کے مطالعے کے لیے فلالوجی کی جگہ ’’علم اللغہ‘‘ اور ’’فقہ اللغہ‘‘ کی اصطلاحیں استعمال کی گئیں۔13؎

لسانیات کی تاریخ کے حوالے سے ڈاکٹر طارق رحمان لکھتے ہیں کہ: 

’’لسانیات کی تاریخ پرمغربی تحریروں کا آغاز افلاطون(بی سی۳۴۷ ۔۴۲۷ ) سے ہوتا ہے۔ جب کہ پاکستان کے ایک قدیم شہر ٹیکسلا میں سنسکرت گرامر دان پانینی پانچویں تا ساتویں صدی قبل مسیح کے دور میں گزرا۔ یعنی اس کا دور افلاطون کے دور سےپہلے کا ہے۔ پانینی سے پہلے بھی شاید دوسرے ماہرین لسانیات گزرے ہوں۔ مگر ہمارے پاس ان کا تحریری ثبوت موجود نہیں ہے۔ پانینی نے اپنے پیچھے سنسکرت پر چار ہزار اشعار چھوڑے ہیں۔ اس کی آٹھ کتابیں سنسکرت گرامر کے بیان پر موجود ہیں۔ اسے صوتیات کا جد امجد کہا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ اس نے آوازوں کی تخلیق کے لیے منہ میں زبان کی حرکت کی وضاحت کی۔‘‘14؎

درج بالا بیان سےہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ لسانیات کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اگرہم یہ دیکھیں کہ لسانیات کس زبان کے توسط سے آگے بڑھی تو وہ سنسکرت ہی ہو سکتی ہے۔

تاریخی اعتبار سے زبان کے مطالعے کا سلسلہ مختلف اصطلاحوں اور ناموں سے عہد بہ عہد جاری رہا۔ اس سلسلے میں اگرلسانیات کا حقیقی پیش رو کسی کو کہا جا سکتا ہے تو جان گو ٹفرائیڈ ہرڈر ہے۔ جس نے زبان کی بنیاد سائنسی بنیادوں پر رکھی۔ اس سلسلے میں اس نے اپنی مشہور تصنیف ‘‘زبان کے ماخذ’’میں تفصیلی گفتگو کی۔ ہرڈر ایک مشہور سائنس دان اور فلاسفر کافٹ کا شاگرد تھا۔ اور عظیم فلاسفر وشاعر گوئٹے کا گہرا دوست تھا۔15؎

لسانیات کا علم زبان کے ساتھ ساتھ سفر کر رہا ہے۔ اسی علم کی منظم بنیاد مشہور ماہرلسانیات جان گو ٹفرائیڈ ہرڈر ہیں۔ یہ بہت بڑے فلسفی اور اپنے عہد کے زبان دان تھے۔انہوں نے زبان کے اصول مرتب کیے اور اس کی ساخت کے حوالے سے خاطر خواہ کام کیا۔

’’ہرڈر نے لسانیات کے متعلق منطقی تحقیقی حقائق جاننے کی بھر پور کوشش کی اور اس بات کو ثابت کرنے میں کامیاب رہا کہ زبان کسی ما فوق الفطرت ذات کا تحفہ یا عطا نہیں بلکہ انسان کی ذاتی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہماری زبان ناقص ونامکمل ہے۔ اسے اللہ جیسی مکمل ذات کی طرف منسوب کرنا مناسب نہیں۔‘‘16؎

زبان کے متعلق سنجیدہ تحقیق روزِ ازل سے ہی شروع ہے۔انسان آج تک اس بات کی تحقیق کرنے میں لگا ہے کہ زبان قدرت کا عطا کردہ تحفہ ہے یا انسان  کی ذاتی کاوشوں کا نتیجہ! ہرڈر نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ  زبان انسان کی ذاتی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے۔لیکن اگر کچھ اسلامی نظریات اور قرآنِ کریم کی آیات سے استنباط کیا جائے تو یہ بات واضع ہوتی ہے کہ زبان اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ تحفہ ہے جس  کا ذکر سورہ رحمان میں ہوا ہے۔کہ "(اللہ تعالیٰ)بیان(بولنا)سکھایا"الغرض انسا ن بولنے کا فن لے کر آتا ہے لیکن اس میں بہ تدریج ترقی بعد میں ہوتی رہتی ہے۔

۱۸۴۱ء میں زبان کے مطالعے کو (Glottology) کے نام سےموسوم کیا گیا، لیکن یہ نام زیادہ دیر رائج نہ ہو سکا اور اس کےبعد انیسویں صدی میں فرانس میں اس کےلیے ایک اورنام (Linguistique) رائج کیا گیا۔ اس کے بعد انیسویں صدی میں اس کے لیے انگریزی زبان میں (Linguistics)کا لفظ استعمال کیا گیا۔جو بہت مقبول ہوا۔ اسی لفظ کو فارسی میں’’زبان شناسی‘‘ کہاجانے لگا اور اُردو میں پہلے ’’علمِ زبان‘‘ اور بعد میں ’’لسانیات‘‘ کے نام سے پکارا گیا۔17؎

بلاشبہ لسانیات ایک نئی اصطلاح ہے، اس لفظ کا اطلاق انیسویں صدی میں نظر آتا ہے لیکن اس علم کے مباحث اتنے ہی قدیم ہیں جتنی زبان۔ دیگر علوم کی طرح لسانیات بھی ایک علم ہے جو مختلف ارتقائی منازل طے کرتا آیا ہے۔ لسانیات کو زبان کی سائنس کہا گیا ہے اگر یہ مان لیا جائے کہ لسانیات زبان کی سائنس ہے تو یہ بعید نہیں کہ لسانیات کسی بھی زبان کا مطالعہ سائنسی اصولوں کے تحت کرتی ہے۔ جس طرح سائنس مختلف مراحل سے گزر کر حتمی نتائج کی حامل ہوتی ہے اسی طرح لسانیات بھی مختلف مراحل سے گزر کر زبان کے اصولوں کو منطقی سطح تک لے جاتی ہے۔جب ہم لسانیات کا بطورِ سائنس مطالعہ کرتے ہیں توپھر یہ علم وسعت اختیارکرتا ہوا دوسرےعلوم تک پھیل جاتا ہے اور ان کی وسعتوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔ اس کا تعلق دوسرے سائنسی مضامین سے جُڑ جاتا ہے۔ اور جس طرح باقی سائنسی مضامین مختلف اصول وقواعد کے تحت چلتے ہیں اس طرح لسانیات بھی متعین اصولوں کی کاربند ہے۔

اس ضمن میں خلیل صدیقی لکھتےہیں کہ: 

’’جب لسانیات کی تعریف کی جاتی ہے کہ وہ زبان کی سائنس ہے تو یہ تعریف دائرہ علوم ووقوف اور دیگر سائنسی مطالعات کی طرح دوسرے علوم سے کچھ مخصوص رابطوں اور موضوع کی شعبہ جاتی تقسیم کو بھی اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔ لسانیات کو طبی، سمعیات، عضویات، نفسیات، بشریات سے بھی رجوع کرناپڑتا ہے۔ لیکن دوسرے علوم کی طرح اس کا ارتقائی سفر بھی جاری ہے۔ اس کے نئے نئے افق اور نظریے ابھرتے رہے۔ مرورِ ایام کے ساتھ ساتھ بُنیادی اہمیت کے بعض نقطہ ہائے نظر تبدیل بھی ہو سکتےہیں یا ان کی ترجیحی حیثیت میں فرق پڑ سکتاہے۔ اس لیے اس علم کا ایسا حتمی جائزہ جو رویے، کیفیت اور جامعیت کے لحاظ سے تمام تر مکاتیب فکر کے لیے ناقابلِ قبول ہو، ممکن نہیں۔‘‘18؎

لسانیات کا انسان، زندگی اور زبان وادب سے چولی دامن کا ساتھ ہے، اگریہ کہا جائے کہ جتناانسان اور زبان وادب قدیم ہے اتنا ہی یہ علم، توبے جا نہ ہو گا۔ انسان ہمیشہ بہتر سے بہتر ین کی تلاش میں رہا۔ جہاں اس نے باقی علوم وفنون میں ترقی کی اسی طرح اس نے زبان اور اس کے علم میں بھی ترقی کی۔ زبان کی تراکیب، بناوٹ اور ساخت کا مطالعہ بہت اہمیت کا حامل ہے اوریہ علم لسانیات ہی ہے جو زبان کے اس شعبے کی تشنگی بجھاتا ہے۔

لسانیات کی اہمیت وافادیت

لسانیات زبان کا سائنسی مطالعہ کرتی ہے۔ باالفاظِ دیگر لسانیات ایک سائنس کا درجہ رکھتی ہے، اس زبان کی ساخت، قواعد اور آوازوں کے علاوہ مختلف پہلوؤں کا مطالعہ ومشاہدہ کیا جاتا ہے۔ لسانیات کے مطالعہ کا مقصد زبان کی صوتیاتی، صرفی، نحوی،معنیاتی سطحوں کے بارے میں اصول وضوابط وضع کرنا ہے۔ لسانیات زبان کی داخلی ساخت کامطالعہ کرتی ہے۔لسانیات کی یہ خاصیت ہے کہ یہ صرف انسانی آوازوں کا مطالعہ کرتی ہے اور وہ انسانی آوازیں جو بامعنی ہوں۔

لسانیات نسبتاً نیامضمون ہونے کے باوجود زبان وادب، نفسیات، عمرانیات،بشریات، فلسفہ اور ریاضی جیسے اہم ترین مضامین کےلیے بھی بہت ضروری اہمیت کا حامل ہے۔ دورِ جدید میں اس کی وسعت میں بڑی سرعت سے اضافہ ہوتا جا رہاہے۔ اس علم کی مدد سے مختلف زبانوں کی عمر اور زبانوں کے باہمی اشتراک کومعلوم کیا جا سکتا ہے۔ اس علم سے نسلوں اور قبیلوں کی تاریخ وارتقاء کا جائزہ ممکن ہوتا جا رہا ہے۔

علم لسانیات کےذریعےیہ معلوم کیا جا سکتا ہےکہ کس زبان یا قوم نے کہاں سے سفر شروع کیا۔ کِن کِن زبانوں کا اثر قبول کیا۔ زبان کے رسم الخط میں کیا تبدیلیاں آئیں؟رسم الخط کی موجودہ شکل کتنے عرصے سےہے؟ مزید اس میں کیا بہتری لائی جا سکتی ہے؟

جن زبانوں کا رسم الخط نہیں ہوتا لسانیات اُن زبانوں کو رسم الخط فراہم کرتی ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ رسم الخط میں موجود خامیوں کی نہ صرف نشان دہی کرتی ہے بل کہ اس میں مزید بہتری کے لیے بھی اصول وقانون متعین کرتی ہے۔ لسانیات کا ادب سے بہت گہرا تعلق ہے۔ اگر یوں کہاجائے کہ لسانیات کو ادب ہی مواد فراہم کرتا ہے تو یہ بے جا نہ ہو گا۔ لسانیات مخطوطات کا زمانی تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس کے صدق یا کذب کا استنباط کرتی ہے۔ اس دورکی اہم غلطیوں کی نشان دہی کرتی ہے۔ اس میں زمانی تبدیلیوں کو واضح کرتی ہے۔ اس طرح یہ کام زبان کے ارتقاء میں اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔ لسانیات ایسے قواعد وضع کرتی ہے جس سے دوسری زبان کو کم وقت اور آسانی سے سیکھا جا سکے۔ لسانیات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ڈاکٹر گیان چند لکھتے ہیں: ’’زبان وادب کا تعلق اتنا عیاں ہے کہ بیان کی ضرورت نہیں۔ زبان کا آغاز اور ارتقاء لسانیات کا موضوع ہے جس پر نظر رکھے بغیر ادب کا مطالعہ مکمل نہیں ہو سکتا۔ محض ادیب اس میدان میں جس سراب میں کھو جاتا  ہے لسانیات اس سے نکال کر صراطِ مستقیم دکھاتی ہے۔‘‘19؎

لسانیات کے خاطر خواہ فوائد کے سبب ترقی یافتہ ممالک میں اس علم کو اور زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے، اس کی وسعتوں میں مزید اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس علم کو ریاضی اورشماریات کے علم کی طرز پر ڈھالا جا رہا ہے اسے فوجی ضرورتوں کی تکمیل اور رہنمائی کےلیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس علم کے ذریعے خفیہ الفاظ بنانے، دوسروں تک منتقل کرنے، انہیں سمجھنے اور ان کےپڑھنے کا اہم عمل کیا جا رہاہے۔ یورپی ممالک میں  اس علم کو کمپیوٹر پروگرام کا حصہ بنانے کا عمل جاری ہے۔ اس علم کی مدد سے ایک ایسی مشین کی تخلیق کا عمل جاری ہے جو ایک زبان کا دوسری زبان میں ترجمہ کر سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا کو گلوبل ویلج بنانے والے علم لسانیات کے ذریعے ایک ہی مشترکہ زبان کی تیاری میں مصروفِ عمل نظر آتےہیں۔

عصرِ حاضر میں لسانیات تاریخی حدوں سے نکل کر سائنس، فلسفہ اور ریاضی کی منزلوں کو چھو رہی ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب لسانیات کے علم کو صِرف زبان کی تاریخ اور قواعد تک محدود رکھا جاتا۔ صنعتی اور سائنسی دنیا میں لسانیات کو بےپناہ پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ جیسے جیسے انسان توہمات کی زندگی سے نکل کر حقیقت درک کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے ویسے ویسے اس علم کی اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لسانیات کے فروغ میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے۔ ابھی بہت سے ایسے میدان اور شعبے پڑےہیں جن میں لسانیات کا عمل دخل ازحد ضروری ہے۔ اس سلسلے میں لسانیاتی عمل خانے (Laboratories) بنائے جائیں۔ جہاں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اس علم پر مزید تحقیق کر کے اسے وسعت بخشی جا سکے۔ لسانیات کی مدد سے پہلے ایک ایسی مشین تیار کی جا چکی ہے جو تکلمی آوازوں کی تصویر تخلیق کر سکتی ہے۔ اس تصویر سے زبان سیکھنے والوں کو صحیح مدد ملتی ہے۔ اس کو Sound Spectragraph کے نام سے موسوم کیاجاتا ہے۔ اس مشین میں مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ اگر اسے اس طرح ترتیب دیا جائے کہ تکلمی آوازوں کے ساتھ بننے والی تصویر اس لفظ کو بھی واضح کرے تو اس سے بہرے افراد بھی استفادہ کر سکتے ہیں اور زبان سیکھنے میں معاونت حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہروں کےلیے اس علم کی مدد سے اگر بصری آلہ تیار کیا جائے تو کافی حد تک اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔بقول گیان چند جین:

’’لسانیات روایتی قواعدکی اصطلاحوں کو نہیں اپناسکتی کیونکہ لسانیات کی اصطلاحیں بالکل وہی مفہوم پیش نہیں کرتیں۔ تکنیکی مطالعے میں اصطلاحیں ناگزیر ہیں۔‘‘20؎

اگر فردیات اور لسانیات کا تعلق دیکھا جائے تو لسانیات اس حوالے سے فرد کے آغاز وارتقاء سے بحث کرتی ہے۔ شیر خوار بچے کے زبانی ارتقاء سے آخر عمر تک کامکمل سفر لسانیات میں زیر بحث آتا ہے۔ اس میں کیا کیا تبدیلیاں آئیں، کِن مراحل سے گزرنا پڑا، یہ سب بحثیں لسانیات کی ہیں۔ جس طرح بچہ چلنا مشکل سے سیکھتا ہے بالکل اسی طرح وہ زبان بھی مشکل سے سیکھتا ہے۔ چار پانچ سال تک زبان سیکھنے کا عمل جاری رہتاہے۔ اس تمام مرحلےکو لسانی فردیات کا نام دیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ لسانیات کا دوسرے عمرانی اور انسانی علوم سے بھی گہرا تعلق ہے۔ جن میں فلسفہ، تاریخ، جغرافیہ،سماجیات، نفسیات، حیاتیات، کمپیوٹر اور دوسری سائنسی مضامین خصوصاً قابل ذکرہیں۔ ان عمرانی علوم میں ایک اہم علم نسلی لسانیات کا ہے جس میں کسی خاص نسل کی زبان اور تہذیب کامطالعہ کیا جاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں رشتوں کی بقاء کے لیے الفاظ استعمال کیے جاتےہیں جب کوئی معاشرہ جدت کی طرف گامزن ہوتا ہے تو اس کی زبان میں بھی وسعت پیدا ہوتی ہے۔ اس زبان کے مختلف الفاظ پر تحقیق کی جاتی ہے کہ کن الفاظ کا وجود اس زبان کی مرہونِ منت ہے اور کون سے الفاظ دوسری زبانوں سے مستعار لیے گئے ہیں۔ پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ زبان تاریخی حوالے سے کیا اہمیت رکھتی ہے۔ زبان کے کس خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ سامی خاندان سے تعلق ہے یا آریائی سے۔ کس زبان سے زیادہ مماثلت رکھتی ہے۔ پھر اس زبان کی صوتی خصوصیات کیا ہیں۔ یہ تمام تر مراحل اور مباحث لسانیات میں زیر بحث آتےہیں۔

لسانیات کسی زبان کے قواعد سے بھی بحث کرتی ہے۔ قواعد کے اصول مرتب کرتی ہے۔ فضول اور بے جا بحثوں کو زبان سے منسوخ کر دیتی ہے۔ کسی بھی زبان کو سیکھنے کے لیے اس کے اصول اور قواعد کی شناسائی از حد ضروری ہے۔ قواعد کسی بھی زبان کے اُن اصولوں کو دریافت کرتے ہیں جن کے ذریعے یہ معلوم کیا جا سکے کہ کون کون سے جملے قواعد کے لحاظ سے قابل قبول ہیں اور کون سےجملے ناقص اور مہمل ہیں۔ قابل عمل جملوں کے اجزاء کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ان جملوں کا آپس میں تعلق واضح کرنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان جملوں کی مکمل درجہ بندی کرنا، اقسام کا تعین کرنا، اس کی نحوی ترکیب کو واضح کرنا یہ لسانیات کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ جملوں کے علاوہ الفاظ کی مکمل بحثیں بھی زیر مطالعہ لائی جاتی ہیں۔ ان الفاظ کی بحثوں میں مصدر، مشتق، نکرہ، معرفہ اور ان کی اقسام کا مثالوں کے ساتھ مکمل جائزہ لینا شامل ہے۔

قواعد کے علاوہ لسانیات کا سب سے اہم اور بنیادی موضوع صوتیات کا ہے۔ جس میں زبان کی مختلف آوازوں کی شناخت، درجہ بندی اور حروف کی پہچان کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ یہ آواز کس طرح  پیداہوتی ہے؟ آواز کی لہریں کیسے سفر کرتی ہیں؟کان میں کس طرح سُنی جاتی ہیں؟ کون سے حروف ہوا کی رگڑ سے پیدا ہوتے ہیں؟ کن حروف کو بغیر رگڑ کے ادا کیاجا سکتا ہے؟ ان تمام تر چیزوں کا تعلق صوتیات سے ہے۔

صوتیات میں اُن تمام انسانی آوازوں کامطالعہ کیا جاتا ہے جو سمجھی جا سکتی ہیں۔ آواز کے نظام کو دو بڑے حصوں اور مختلف ذیلی حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ بڑے حصوں میں مصوتے (Vowels) اور مصمتے (Consonants) شامل ہیں۔ جب آواز نکلتے وقت اعضائے تکلم سے رگڑ کھاکر نکلے تو ان حروف کو مصمتے کہتےہیں اور جب آواز بغیر رگڑ کے ادا ہو تو اسےمصوتے کہتےہیں۔ اسی صوتیات کے ساتھ ایک ملتے جلتے علم کو فونیمیات کہا جاتا ہے۔ صوتیات اور فونیمیات میں معمولی سا فرق ہے مگر یہی معمولی فرق ان دونوں علوم کے درمیان حد فاصل کھینچ دیتا ہے۔ زبان کی آوازوں کا مطالعہ صوت یات کہلاتا ہے لیکن کسی مخصوص زبان کی مخصوص آوازوں کےمطالعے کو فونیمیات کہتےہیں۔ بقول ڈیوڈ کرسٹل:

’’صوتیات اور فونیمیات میں یہ فرق ہے کہ صوتیات میں صرف آوازوں کا عمولی مطالعہ ہوتا ہے جو کسی ایک زبان تک محدود نہیں ہوتا جب کہ فونیمیات میں ایک خاص زبان کو لے کر اس کی مخصوص آوازوں کاہی مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس مطالعے میں آوازوں کے تفاعل کا بیان بھی شامل ہے۔ یہ علم الفاظ اور الفاظ کے مجموعوں کی پہچان بتاتا ہے اور معنی کے اعتبار سے انہیں ایک دوسرے سے الگ کرتا ہے۔‘‘21؎

عصرِ حاضر میں لسانیات کو اگر تحریر وتدریس سے نکال کر مشینی استعمال میں لایا جائے تو بہت سے مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ سائنس کی دنیا میں آج مشینی آدمیوں (Robots) کی ایجاد نے ایک تہلکہ مچا دیا ہے۔ اس سلسلے میں لسانیات سے خدمات حاصل کر کے مزید بہتری لائی جا سکتی ہے۔ گفت گو کے اجزاء کو مرتب کرنا، ان کی تعداد میں بہتری لا کر کمی کرنا اور برموقع بات کا موزوں جواب لسانیات کا ہی مرہون منت ہے۔ہم ابھی تک کمپیوٹر سے یہ توقع نہیں رکھ سکتے یہ ہماری بات کا خود سے جواب دے۔ کمپیوٹر میں تو یہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ خود سےکچھ کہہ سکے۔ یہ اگرممکن ہے تو فقط اور فقط لسانیات کے سبب ہو سکتا ہے۔

لسانیات زبان کے تکلمی بگاڑ کو درستی کی طرف لانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ زبان کی بگڑی ہوئی شکلیں اور ان کی درستی کا تمام تر کام لسانیات سے مربوط ہے۔ زبان کا رسم الخط کون سا ہے؟ اس میں مزید بہتری کیسے ممکن ہے؟ کون سے الفاظ کب اور کن وجوہات کے سبب متروک ہوئے؟ کِن الفاظ کو زبان نے اپنے اندر ڈھالا؟ کن کن زبانوں سے متاثر ہوئی؟ یہ سب لسانیات کی ذیل میں زیر بحث لائے جاتےہیں۔

لسانیات کے شعبہ صوتیات میں عروض کی بحث خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اس فصل میں عروض کی تشکیل اور اصطلاح اہمیت کی حامل ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ابھی تک اردو عروض اُس معیار تک نہیں پہنچ سکا جس معیار پر آج دوسری عالمی زبانیں اور بالخصوص انگریزی ہے۔ اس سلسلے میں محنتِ شاقہ کی ضرورت ہے۔ صوتیات میں عروضی اصطلاحیں قائم کرنا۔ اس کو سائنٹی فک بنانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ صوتیات کے بغیر علمِ عروض بے وقعت وبے معنی ہے۔ اس کی تمام تر تراش خراش علمِ صوتیات کی ہی مرہونِ منت ہے۔

آج کے ترقی یافتہ دور میں کسی ملک کا دفاعی محکمہ مضبوط تر ہونا ملکی سالمیت اور بقاء کے لیے سود مند ہے۔ کسی بھی ملک کی فوج جس قدرمضبوط ومستحکم ہو گی اسی قدر ملک کی سالمیت محفوظ ہو گی۔ فوج کے محکمہ میں آج لسانیات کا عمل دخل بہت اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ اس علم کے ذریعے خفیہ کوڈ دوسرے ملکوں میں  اپنے سفیروں اور فوجیوں کو بطورِ پیغام بھیجے جاتےہیں۔بقول ڈاکٹر گیان چند: 

’’فوج میں شعبہ لسانیات کے قیام کی واحد وجہ جاسوسی کے فن کی تکمیل ہے۔ دنیا کا ہر ملک اپنے سفیروں اور فوجیوں کو پیغام بھیجنے کے لیے ایک کوڈ استعمال کرتا ہے۔ جو تھوڑے تھوڑے عرصے بعد بدلتا رہتا ہے۔ فوج کے شعبہ صوتیات کےدو کام ہیں اول: روزبروز اپنی حکومت کےلیے ایسا کوڈ تیار کرنا جو دوسروں کےلیے لا ینحل ہو۔ دوم: دوسری حکومتوں کے کوڈ فاش کر کے ان کے خفیہ پیغام کو جان لینا۔‘‘22؎

یورپی ممالک میں اب لسانیات کو سائنس، ریاضی اور شماریات کے علم میں ڈھالا جا رہا ہے۔ اب اس علم کو کمپیوٹری لسانیات کے طور پر استعمال کیاجا رہا ہے۔ یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ مختلف زبانوں کے ترجمہ کرنے کی مشین تیار کی جائے۔ اس مشین میں ایک زبان کے الفاظ کو داخل کیا جائے تو وہ فوراً اس کا ترجمہ دوسری مطلوبہ زبان میں کر دے، تا کہ کسی زبان کا دوسری زبان میں ترجمہ کرنے کا مسئلہ مکمل طور پر حل ہوجائے۔ کمپیوٹر میں استعمال ہونے والے مختلف اعداد بھی لسانیات کی ہی مرہون منت ہیں۔

یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ دورِ قریب میں تمام ترمشینی زبانیں لسانیات کے زیر اثر آ جائیں۔ اس کے علاوہ لسانیات کو زندگی کے ہر شعبے میں اہمیت حاصل ہو جائے۔

لسانیات کا تاریخ سے گہرا تعلق ہے۔ تاریخ کے ذریعے مختلف قوموں، قبیلوں اور ملکوں کے عروج وزوال اور ترقی وتنزلی کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ کا تدریجاً ارتقاء لسانیات کا خاص موضوع ہے۔ جس کا اثر بلا واسطہ ہماری معاشرتی اور اجتماعی زندگی پر پڑتا ہے۔ الفاظ کی کمی وزیادتی کیسے ہوئی؟قوموں کا عروج وزوال؟ فاتح اورمفتوح قوموں کے حالات ووجوہات کا جائزہ اور اتحاد وقرابت کے علل واسباب سب اس لسانیات کے زیر بحث لائے جاتےہیں۔ جب ہم کسی قوم یا قبیلے کی تاریخ کا مطالعہ کرتےہیں تو ان کی زبان بھی تاریخ کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہے، مثلاً اگر ہم آریا قوم کی تاریخ کامطالعہ کریں تو یہ بات ثابت ہے کہ ہمیں آریا قوم کی زبان اور اس کے خدوخال کا بھی مطالعہ کرنا پڑے گا۔ اس لیے لسانیات اور تاریخ ہمیشہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔

کسی بھی زبان کا سب سے بڑا مخزن اس زبان کا ادب ہوتا ہے۔ ادب جتنا زیادہ وسعت کا حامل ہو گا وہ زبان اتنی ہی عام فہم اور ترقی یافتہ ہو گی۔ ادب کا بنیادی مقصد خیالات وجذبات کا اظہارہے۔ اور خیالات وجذبات کا اظہار زبان کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ لسانیات اس ادب سے اپنا تمام تر مواد حاصل کرتی ہے۔ ادب کے محاسن ومعائب کو پرکھتی ہے۔ ادبی تاریخ کا غائر مطالعہ کرتی ہے۔ لسانیات کا ادب سے صِرف قواعد یا زبان دانی کی حد تک تعلق نہیں بلکہ یہ زبان کی بناوٹ، ساخت، مختلف لسانی رشتوں اور زبان کی تاریخ وارتقاء کو بھی اپنی وسعت میں سمیٹ لیتی ہے۔ اسی لسانی رشتے سے زبان کے دوسری زبانوں سے اختلاف اور اتحاد کا پتہ چلتا ہے۔ پھر اس مطالعہ  سے زبان کے معدوم الفاظ کاکھوج لگایا جا سکتا ہے اور نئے شامل ہونے والے الفاظ کا بھی تحقیقی جائزہ لیا جاتا ہے۔ اسی طرح زبان سماجی ارتقاء کا سبب بنتی ہے۔ لسانی تغیرات کسی بھی سماج کے تابع ہوتےہیں جیسے جیسے تحقیقی میدان میں وسعت آتی جاتی ہے ویسے ویسے سماج بھی اپنی زندگی کو بدلتا اور ترقی کرتا جاتا ہے۔ اس سماجی زندگی کے بدلنے کا بالواسطہ اثر زبان قبول کرتی جاتی ہے، کیوں کہ زبان انسان کی تخلیق کردہ ہوتی ہے اور وہ ہی اس میں مختلف تبدیلیاں کرتا چلا جاتاہے، لیکن ضروری نہیں کہ یہ لسانی تبدیلیاں شعوری ہوں یاغیر شعوری، زبان کی تبدیلی کے کوئی قطعی اصول نہیں ہیں جن کے تابع رہ کر زبان بدلتی یا دوسری زبان کے الفاظ کو سمیٹتی ہے۔زبانوں کے ارتقائی مطالعہ کے حوالے سے ڈاکٹر محمود الحسن رضوی یوں رقم طرازہیں:

’’زبانوں کے مطالعہ کےکئی طریقے پیش کیے گئےہیں۔ لیکن دو طریقے زیادہ رائج ہیں۔ پہلا تاریخی یا تقابلی اور دوسرا توضیحی یا تجزیاتی کہلاتا ہے۔ اول الذکر کا تعلق زبان میں ہونے والے تغیرات اور عام ارتقاء سےہوتا ہے اور توضیحی مطالعہ کے ذریعے آوازوں کی بناوٹ، ان کے اختلاف، الفاظ کی ساخت، صورتی ہیئتیں اور صوتی تبدیلیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ لسانیات کامکمل مطالعہ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان دونوں طریقوں کو پیش نظر نہ رکھا جائے۔‘‘23؎

لسانیات ہر اُس شعبے میں داخل ہوتی ہے جس سے زبان کا تھوڑا سا بھی تعلق ہو۔ دورِ جدید میں مختلف زبانوں پر دسترس رکھنے والے کےلیے لا تعداد شعبہ ہائے زندگی موجود ہیں جن میں خدمات سر انجام دے سکتا ہے۔ اگر ان شعبوں کو دیکھا جائے تو ان میں سیاحت، صنعتیں، تعلیمی نظم ونسق، بندر گاہوں کے تنظیمی ادارے، تجارت، درآمدات وبرآمدات، بیرونی ممالک کی کمپنیاں، اشتہارات،مسلح افواج،تاروٹیلی فون،صحافت،کاروباری وسفری ایجنسیاں،انجینئرنگ،طب، ترسیلِ عامہ وغیرہ شامل ہیں۔ ان شعبوں میں ماہر لسانیات کا ہونا از حد ضروری ہے۔ اگر یورپی ممالک کا جائزہ لیاجائے تو یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ وہاں  زندگی کے ہر شعبے میں ایک ماہر لسانیات خدمات سر انجام دے رہا ہے اور اس کی خدمات سے وہ ادارہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ لسانیات کی ابجد کا ہی کسی کو علم نہیں تو یہاں اس چیز کا فہم وادراک نہیں ہے۔ اس ضمن میں ڈیوڈ کرسٹل لکھتےہیں کہ:

’’لسانیاتی خود شناسی ایک ایسا نصب العین ہے جس کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘24؎

لسانیات کے بہت سے شعبے ابھی بھی تحقیق طلب ہیں۔جن پر خاص طور پر کام نہیں کیا گیا۔ یہ شعبے لسانیات کا لازمی جُز سمجھے جاتےہیں۔ ماہرین لسانیات نے ہمارےلیے تحقیق کےمیدان چھوڑ دئیے ہیں۔ اب ان کی تہہ تک پہنچنا لسانیات کے طالب علم کےلیے ضروری ہے۔ یہ بات پہلے ہی واضح کی جا چکی ہے کہ لسانیات کا دائرہ کار بہت وسیع ہے اور روز بروز اس میں اضافہ ہوتا جا رہاہے۔ نئی نئی جہتیں سامنے آ رہی ہیں۔ نئی نئی ایجادات کے ساتھ ساتھ لسانیات کی اہمیت وفوائد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے ضمنی موضوعات پر تحقیق کرنا ہماری ترقی کی ضمانت ہے۔ ماہرین لسانیات نے لسانیات کے درج ذیل ضمنی موضوعات کی نشان دہی کی ہے:

۱۔ فلسفیاتی لسانیات            ۲۔ ریاضیاتی لسانیات

۳۔ شماریاتی لسانیات           ۴۔ نفسیاتی لسانیات            ۵۔ عمرانی لسانیات

الغرض لسانیات ایک ایسا مضمون ہے جس کی اہمیت وافادیت سے انکارممکن نہیں۔ یہ زبان ومعاشرے کی ترقی واقبال کا ضامن ہے۔ اس علم سے قومیں عروج کی بلندیوں یا پستی کے گڑھوں تک جا سکتی ہیں۔ لہٰذا ترقی یافتہ قوم کے لیے لسانیات ایسے ہی اہم ہے جیسے دوسرے ترقیاتی شعبے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پر کام کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں اور تحقیقی مواد بھی میسر ہو۔

پاکستان میں لسانیات

        پاکستان میں لسانیات اور اس شعبہ کی تحقیقی کے حوالے سے 1988ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں ڈاکٹر عبدالرحمن لکھتے ہیں:

Pakistan is perhaps the most backward country of south Asia in the field of Linguistics25؎

ترجمہ: لسانیات کے میدان میں شاید پاکستان جنوبی ایشیاء میں سب سے پسماندہ ملک ہے۔

        بلا شبہ  اس پسماندگی کی وجہ پاکستان میں لسانیات کی باقاعدہ تدریس کا کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں ہے۔ اور اس حقیقت سے چشم پوشی خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے بر عکس انگریزی زبان میں لسانیات کے شعبہ جات پاکستان کی اکثر جامعات میں موجود ہیں۔

        پاکستان میں جامعات کے ساتھ ساتھ مختلف ادارے جو فروغِ اردو کے لیے کام کر رہے ہیں، وہاں پر بھی اس موضوع پر کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا۔

اردو لسانیات پر ہونے والا کام نا کافی ہے۔ دوسری زبانوں کے مقابلے میں اردو لسانیات کوتاہ دامنی کا شکار ہے۔ اس مضمون کی جس قدر اہمیت تھی اتنا ہی لاپرواہی کا شکار ہو چکاہے۔

اس سلسلے میں ڈاکٹر گیان چند لکھتےہیں کہ: 

’’اردو میں لسانیات کی قابلِ ذکر کتابیں ہاتھوں کی اُنگلیوں پر گنی جا سکتی ہیں اور اس موضوع پر جس معیار کی ہیں ہندی میں اس موضوع اور اس معیار کی کتابیں اُردو کی کتابوں سے کم از کم تیس سال پہلے وجود میں آ چکی تھیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ ہندی کو تو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔‘‘26؎

ڈاکٹر گیان چند کی اس بات کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری زبان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیاجا رہاہے۔ اگر دوسری ترقی یافتہ زبانوں کی طرح اُردو کو بھی سرکاری سرپرستی حاصل ہو جائے تو بلاشبہ یہ زبان دن دُگنی رات چوگنی ترقی کر سکتی ہے۔ حکومتی سرپرستی تو اپنی جگہ ہم ابھی تک یہ واضح نہیں کر سکے کہ واقعی ہماری قومی زبان اُردو ہے یا انگریزی۔ ہماری عام بول چال اردو میں ہے۔ دفتری زبان انگریزی ہے تویہ ہمارے لیے ایک المیہ ہے کہ ہم ستر سال گزرنے کے بعد بھی انگریزی سے جان نہیں چھڑا سکے۔ حالانکہ ہماری قومی زبان میں اتنی وسعت موجود ہے کہ ہماری دفتری زبان کی حیثیت سے بھی کمی پوری کر سکتی ہے۔

پاکستان میں لسانیات کا کام شاید آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ ہو گا۔ آج بھی ہمیں اردو لسانیات پرتحقیق کرنے اور اس موضوع پر سیر حاصل مواد اکٹھا کرنے کےلیے بھارت کے مختلف زبان کے فروغی اداروں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ہمارےکالجز اور جامعات میں اردو زبان کی کتب سے لائبریریاں بھری پڑی ہیں لیکن ممکن نہیں کہ شاید ایک ہزار کتب کی چھانٹی کرنے کے بعد ایک کتاب لسانیات کے موضوع پر مل جائے۔ اس موضوع کومشکل اور خشک مضمون سمجھ کر چھوڑ دیاجاتا ہے۔

جامعات میں تحقیق کرنے والے طلباء اس مضمون کی طرف رخ کرنا گوارا ہی نہیں کرتے۔ سابقہ چند سالوں میں ایم۔ اے کے نصاب میں چند جامعات نے اس مضمون کو شامل کیا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ اس سطح کے طالب علم کو لسانیات صرف اتنی پڑھائی جاتی ہے کہ وہ بس پاس ہو کر سند حاصل کرنے کے قابل ہوسکے۔ ایم ۔ فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر لسانیات پر ہونے والا تحقیقی کام بالکل ناکافی ہے۔ اس موضوع پر لکھے گئے تحقیقی مقالہ جات کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ اس کی وجوہات یہ ہیں کہ اول تو ہمارے ہاں کوئی ماہرلسانیات ہی نہیں جو باقاعدہ اس مضمون میں تربیت یافتہ ہو اور طلباء میں لسانیات کےمضمون میں دل چسپی پیدا کر سکے۔ دوسرا اس موضوع پرملنے والا تحقیقی مواد بھی  ناکافی ہے۔ اس موضوع پر چھپنے والی کتابوں کی تعداد بھی ناکافی ہے۔ اگرچہ اس موضوع پر زیادہ تر کام بیسویں صدی کے آخر میں ہوا ہے لیکن اس سلسلےمیں پاکستان میں اس موضوع پر چھپنے والی چند ہی کتابیں ہیں۔ لسانیات کے علماء جو بھارت میں موجود ہیں انہوں نے اس سلسلے میں کافی کام کیا ہے لیکن چوں کہ اردو ان کی قومی زبان نہیں ہے اس لیے اس پر ہونے والے کام کو صِرف اتمامِ حجت کےلیے ہی کیا جاتاہے۔

پاکستان میں مختلف جامعات میں شعبہ اردو توموجود ہے لیکن لسانیات کاعلاحدہ شعبہ نہیں بنایا گیا۔ چند جامعات میں لسانیات کے قائم ہونے والے شعبوں کو اس وجہ سے بند کر دیا گیا کہ اس طرف کسی نے توجہ ہی نہیں دی۔ اگر پاکستانی جامعات کی اس سلسلے میں بات کی جائے تو لسانیات کے موضوع کی حالت کچھ یوں ہے:

۱۔ قائد اعظم یونی ورسٹی میں ۲۰۰۹ء میں لسانیات کا شعبہ قائم کیا گیا جو حال ہی میں بند کر دیا گیا ہے۔

۲۔     علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی میں لسانیات کا کوئی علیحدہ شعبہ موجود نہیں، البتہ ایم۔ فل اور پی۔ ایچ۔ ڈی کی سطح پر عمومی لسانیات کے موضوع سے کچھ پڑھایا جاتا ہے۔

۳۔     وفاقی اردو یونی ورسٹی کراچی میں یہ شعبہ بند ہو چکا ہے۔

۴۔     پنجاب یونی ورسٹی اور جی سی یونی ورسٹی میں اس موضوع پر علیحدہ شعبہ تونہیں البتہ ان جامعات میں لسانیات کے موضوع پر تحقیقی کام کروایا جا رہا ہے۔

۵۔    پاکستان کی کسی جامعہ میں اس وقت لسانیات کا شعبہ نہیں ہے۔ جن جامعات میں یہ شعبہ قائم کیا گیا اسے بھی اردو والوں کی بے اعتنائی اور عدم دلچسپی کے سبب بند کر دیا گیا ہے۔

اس تمام ترپسماندگی اور عدم دل چسپی کی وجہ لسانیات کی تدریس کا باقاعدہ اور منظم نظام کا نہ ہونا ہے۔ دوسری سب سے بڑی وجہ اس مضمون سے خطرناک حد تک چشم پوشی ہے۔ اس موضوع پر جو کتابیں  شروع میں لکھی گئیں تو متاخرین نے صِرف اُن کی ہی تقلید کی ہے۔ اس سلسلے میں اسی لکیر کوپیٹا جا رہا ہے۔ نیا تحقیقی کام نہیں کیا گیا۔ وہی اصول وقواعد پہلے کتابوں میں شائع کیے گئے انہی کو توڑ مروڑ کر چھاپ دیا جاتا ہے۔ باقاعدہ لسانیاتی عمل گاہیں اور کتب خانےدست یاب نہیں جہاں سے تشنگان لسانیات اپنی پیاس بجھا سکیں۔ لسانیات کےموضوع پر کیے گئے تحقیقی کام کے حوالے سے اپنے ایک مضمون میں ڈاکٹر شیراز دستی نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق لسانیات پر کیا جانے والا تحقیقی کام کچھ اس طرح ہے: 

میدانِ تحقیق

مقالات کی تعداد

تناسب

سماجی لسانیات

۴۲

۳۳%

تاریخی لسانیات

۴۲

۱۳%

علمِ لغت

۳۰

۱۶%

تقابلی لسانیات

۱۵

۸%

املا

۱۱

۶%

عمومی لسانیات

۱۱

۶%

لسانی تنقید

۱۰

۵%

صوتیات

۹

۵%

قواعد

۸

۴%

اطلاقی لسانیات

۵

۲%

کوریس/ کمپیوٹیشنل/لسانیات

۵

۲%

مارفیمیات، معنیات، نحویات

۱۰

۷%

کل

۱۸۰

27؎

اس تحقیقی رپورٹ کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ لسانیات پرلکھے گئے تحقیقی مقالات کی تعداد کیا ہے؟ ہزاروں طلباءہمارے شعبہ اردومیں ایم۔ فل اور پی ۔ ایچ ۔ ڈی کی سطح پر تحقیقی کام میں مشغول ہیں لیکن لسانیات کا شعبہ آج بھی کسی تحقیقی طالب علم کا منتظر ہے۔ ذیل میں کچھ کتب کی فہرست دی گئی ہےجو کہ اکیسویں صدی میں لسانیات کے موضوع پر لکھی گئیں۔ان کتب کی تعداد اور اس جدید ترقی یافتہ دور سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں آج بھی کس سُست روی سے لسانیات میں تحقیقی کام ہو رہا ہے۔اس سے بڑھ کر افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس علم میں مزید اضافہ نہیں کیا گیااور نہ ہی تحقیقی راہوں کو ہموار کیا گیا بلکہ انھی روایتی باتوں کو گھُما پھیر کر بیان کیا جا رہا ہے۔

۱۔لسانی رشتے                  مغربی پاکستان اکیڈمی، لاہور    ڈاکٹر گیان چند         ۲۰۰۳ء

۲۔جامعۃ القواعدحصہ صرف  اردو سائنس بورڈ، لاہور       ڈاکٹر ابواللیث صدی۲۰۰۴ء

۳۔لسانی جائزے              مغربی پاکستان اکیڈمی، لاہور    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی  ۲۰۰۵ء

۴۔اردو کے لسانی مسائل      عزت اکیڈمی، گجرات         سید روح الامین        ۲۰۰۷ء

۵۔قواعدِ زبان اُردو            لاہور                          خلیل الرحمٰن داؤدی   ۲۰۰۸ء

۶۔لسانیات اور تنقید   پورب اکادمی، اسلام آباد      ڈاکٹر ناصر عباس               ۲۰۰۹ء

۷۔اردو اور فارسی کے روابط   انجمن ترقی اردو پاکستان        ڈاکٹر عطاء اللہ خان     ۲۰۰۹ء

۸۔لسانیات زبان اور رسم الخط مثال پبلشرز، فیصل آباد                ڈاکٹر محمد اشرف کمال  ۲۰۰۹ء

۹۔لسانیات ایک تعارف       ترجمہ: اصغر بشیر                اصغر بشیر              ۲۰۱۰ء

۱۰۔اردو اور لسانی مسائل              شاخ رُخ اسلام آباد    اصغر بشیر              ۲۰۱۲ء

۱۱۔لسانی مطالعے              مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد  پروفیسر غازی علم الدین ۲۰۱۲ء

۱۲۔لغاتِ لسانی       بیکن بُکس،لاہور               خالد محمود خان                 ۲۰۱۵ء

۱۳۔زبان اور لسانیات کے مباحث  سٹی بُک سنٹر، کراچی محمد ابوبکر فاروقی       ۲۰۱۶ء

۱۴۔لسانی اور ادبی تحقیق وتدوین نیشنل بک فاؤنڈیشن،اسلام آبادپروفیسر ڈاکٹر عطش درانی ۲۰۱۶ء                                  

۱۵۔اُردو آموز        نیشنل بک فاؤنڈیشن،اسلام آباد پروفیسر ڈاکٹر فاروق چودھری  ۲۰۱۷ء

۱۶۔اُردو میں لسانی تحقیق       مغربی پاکستان اردو اکیڈمی      ڈاکٹر فائزہ بٹ         ۲۰۱۷ء

۱۷۔قدیم اردو (دکنی) اور                                                 پنجابی کے روابط  اردو اکیڈمی پاکستان ڈاکٹر ریاض قدیر      ۲۰۱۷ء                                     

۱۸۔اردو رسم الخط۔ارتقا اور جائزہ     وقار پبلی کیشنز، لاہور  نذیر احمد ملک          ۲۰۱۸ء

۱۹۔لسانی مطالعے                      فکشن ہاؤس، لاہور     ڈاکٹر گیان چند جین    ۲۰۱۸ء

۲۰۔اُردو املا اور رسم الخط              گنج شکر پریس، لاہور    ڈاکٹر فرمان فتح پوری    ۲۰۱۸ء

۲۱۔زبان اور اُردو زبان کیاہے کراچی کتاب گھر               ڈاکٹر فرمان فتح پوری    ۲۰۱۸ء

۲۲۔زبا ن کیا ہے؟            کراچی کتاب گھر               ڈاکٹر خلیل صدیقی     ۲۰۱۸ء

۲۳۔زبان اور علمِ زبان         انجمن ترقی اُردو، حیدرآباد      عبدالقادر سروری      ۲۰۱۸ء

۲۴۔اُردو کی لسانی ترقی مسائل و امکانات       شاخ  زریں، اسلام آباد عطش دُرانی    ۲۰۱۸ء

۲۵۔اُردو زبان اور لسانیات    سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور     عطش دُرانی            ۲۰۱۸ء

۲۶۔اُردو میں لسانی تحقیق      بُک ٹاک، لاہور               پروفیسر عبدالستار دلوی۲۰۱۸ء

۲۷۔دو زبانیں، دو ادب       بُک ٹاک، لاہور       پروفیسر عبدالستار دلوی ۲۰۱۹ء

۲۸۔نئی اُردو قواعد             بُک کارنر، جہلم        عصمت جاوید          ۲۰۱۹ء

اردو میں لسانیاتی تحقیق کے شعبے میں عدم دل چسپی کی وجوہات

اردو لسانیاتی تحقیق میں عدم دل چسپی کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں اور اس موضوع پر تحقیقی کام کیوں نامکمل ہے اس کو ہم درج ذیل پہلوؤں کے تحت دیکھ سکتےہیں:

۱۔      چوں کہ یہ ایک سائنسی علم ہے اس لیے اس کام کےلیے باقاعدہ عمل گاہوں کی ضرورت ہے جیسا کہ مصر اور یورپی ممالک میں اس موضوع پر تحقیق کےلیے عمل گاہیں بنائی گئی ہیں۔

۲۔    اردو لسانیات میں تربیت یافتہ اساتذہ کافقدان ہے۔ جو دلائل وبراہین اور صحیح رہنمائی سے اس مضمون کو پڑھا سکیں اور طلباء میں دل چسپی پیدا کر سکیں، تا کہ جو خوف وہیجان کی کیفیت طاری ہے وہ دور ہو سکے۔

۳۔    اکثر لوگ اسے خشک اور مشکل مضمون قرار دے کر چھوڑ دیتےہیں جس کے سبب اس میں عدم دل چسپی برقرار رہتی ہے۔

۴۔    پاکستان میں قائم فروغِ زبان کے اداروں میں تربیت یافتہ ماہرین لسانیات کا فقدان ہے جس کی وجہ سے یہ مضمون عدم توجہی کا شکار ہو چکا ہے۔

۵۔     اس موضوع پر لکھی جانے والی کتابیں ناکافی ہیں۔ اس لیے اس مضمون کو بطورِ اختیاری مضمون پڑھنے والے طلباء چھوڑ کر دوسرے مضامین کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔

۶۔    ہماری جامعات میں ایم۔ فل اور پی ۔ ایچ۔ ڈی کی سطح پر تحقیقی کام کرنے والے طلباء کا مقصد صِرف ڈگری حاصل کرتا ہوتاہے۔ جس کے سبب وہ کوئی آسان سے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کرجان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔

۷۔    حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے بھی یہ موضوع تحقیقی میدان میں پیچھے رہ گیا ہے۔

جس وجہ سے لسانیات سے اکثر اردو کے طالب علم نا آشناہیں۔ اس شعبہ کی ترقی و اشاعت کے حوالے سے کچھ سفارشات پیش کی گئی ہیں تا کہ ان پر عمل کر کے اس شعبے کو مزید ترقی دی جا سکے:

1۔چوں کہ لسانیات زبان کا سائنسی مطالعہ ہے اس لیے اس کے پڑھانے والے اساتذہ کے لیے باقاعدہ تربیت کا اہتمام ہونا ضروری ہے۔

2۔شعبہ لسانیات کی تدریس کے لیے اس شعبہ میں دل چسپی لینے والے اساتذہ یا طالب علموں کے لیے ایم اے لسانیات یا کم از کم پوسٹ گریجوایٹ ڈپلومہ (PGD) کروایا جائے۔

3۔ماہرین لسانیات کی مدد سے لسانیات کے مرکزی شعبوں کا نصاب مرتب کروایا جائے۔

4۔پاکستان بھر کی جامعات میں کلیہ زبان و ادب میں لسانیات کے شعبے قائم کروائے جائیں۔ جن سے اس شعبے کے تشنہ لوگوں کے لیے تحقیق کی راہیں ہموار ہو سکیں۔

5۔عصر حاضر میں کمپیوٹر ہر شعبے میں مرکزی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اس جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جامعات کو لسانیات کے ایسے شعبے قائم کرنے چاہیں جس میں زبان اور کمپیوٹر سائنس کا امتزاج ہو۔

6۔لسانیات کے اہم شعبے صوتیات کے دو ذیلی شعبے سمعی صوتیات او رسمعیاتی صوتیات کے لیے رسد گاہوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔ تا کہ اس شعبے کے طلباء مزید بہتر تحقیق کر سکیں۔

7۔اردو لسانیات کا نصاب کم از کم میٹرک سطح سے جاری ہونا چاہیے۔ تا کہ طلباء کو زیادہ سے زیادہ سیکھنے کاموقع ملے۔

8۔اردو کے لسانیاتی مطالعے کو تحریک دینے کی صورت میں درج ذیل لسانیاتی تنظیمیں قائم کی جائیں:

1)    اردو لسانیاتی کلب                      2)    اردو لسانیاتی سرکلز

3)    اردو لسانیاتی فورمز                     4)    اردو لسانیاتی ایسوسی ایشنز

5)    فروغِ لسانیات

ان پہلوؤں کی تصدیق ہم محی الدین زور قادری کے اس بیان سے کر سکتے ہیں:

’’اربابِ اردو کی ایک سخت غلط فہمی نے بھی اس ضروری موضوع کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ وہ یہ سمجھتے رہے اور بعض شاید اب بھی سمجھتے ہوں کہ زبان کے متعلق تحقیقات کرنا اس کے قواعد وضوابط مکمل کرنا اور اس پر غور وخوض کرنا اہلِ زبان کاکام نہیں۔‘‘28؎

الغرض ضرورت اس امر کی ہے کہ لسانیات پر تحقیقی کام میں سرعت لائی جائے۔ اس سلسلے میں عمل گاہوں کا قیام از حد ضروری ہے۔ حکومتی سرپرستی بھی اس کام میں بہتری کا سبب بن سکتی ہے۔ پاکستان بھر کی جامعات میں ماہرین لسانیات اور لسانیات کے علاحدہ شعبہ جات کی اشد ضرورت ہے جو تربیت یافتہ ہوں۔

لسانیات کی شاخیں

آغاز میں لسانیات کی صِرف چند شاخیں ہی تھیں لیکن جوں جوں اس کے دائرہ کار میں اضافہ ہوا اور اس کی وسعتوں میں گیرائی آئی ویسے ویسے اس کی شاخوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ عصر حاضر میں مختلف ماہرین لسانیات نے اس کی جن شاخوں کا تذکرہ کیا ہے وہ درج ذیل ہیں:

۱۔ تاریخی لسانیات:کسی زبان کا عہد بہ عہد ارتقائی مطالعہ تاریخی لسانیات کہلاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہر زبان میں کچھ تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ کچھ الفاظ متروک تو کچھ نئے داخل ہوتے ہیں۔ اس طرح زبان ہر سطح پر بدلتی رہتی ہے۔نہ صرف تلفظ بدلتا ہے بل کہ اس کی معنوی سطحوں میں بھی فرق پیدا ہو جاتا ہے۔بعض اوقات زبانیں متروک بھی ہو جاتی ہیں۔اور ان کا نام تک مٹ جاتا ہے۔ جیسے عبرانی زبان۔ یہ زبان اب صرف کتابوں کی حد تک ہی رہ گئی ہے۔ اس کے بولنے والے نہ ہونے کے برابر ہیں۔

۲۔ تجزیاتی لسانیات:کسی زبان کا تاریخی حوالے سے کسی مخصوص عہد میں مطالعہ، تجزیاتی لسانیات کہلاتاہے۔ یہ شاخ زبان کے ڈھانچے کو منکشف کرتی ہے۔تجزیاتی لسانیات کا دوسرا نام توضیحی لسانیات بھی ہے۔یہ لسانیات میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ اس شاخ کو مزید درج ذیل ذیلی شاخوںمیں بھی تقسیم کیا گیا ہے: 

الف: صوتیات (Phonetics ) اس میں زبان کی مجموعی آوازوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ تمام زبانوں کی آوازیں صوتیات میں زیر بحث لائی جاتی ہیں۔

ب: فونیمیات ( (Phonemicsکسی مخصوص زبان کی آوازوں کا مطالعہ فونیمیات کہلاتا ہے۔

ج: مارفیمیات یا صرفیات(Morphology) اس میں لفظ کی ساخت اور بناوٹ کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ لفظ کی وہ  چھوٹی سے چھوٹی اکائی جو "معنی "سے متعلق ہو’’ مارفیم’‘ کہلاتی ہے۔

زبان کے قواعد کی  سطح پر تجزیئے کی سب سے چھوٹی معنوی اکائی مارفیم ہے ۔ جیسےدرخت اور چٹان، یہ دو مختلف معنوی اکائیاں ہیں۔ جن کے معنیاتی سطح پر واضح اور متعین معانی  ہیں۔ اگر ان مارفیموں کی  جمع بنائیں  تو "درخت سے درختوں "اور "چٹان سے چٹانوں"بن جائیں گی۔درختوں  اور چٹانوں دو الگ الگ الفاظ ہیں اور اپنے اندر ایک سے زیادہ درختوں  اور چٹانوں کا مفہوم رکھتے  ہیں۔ اس طرح صاف ظاہر ہے کہ۔ "و۔ں"۔اور "ا۔ن "۔کے اضافے سےدرخت  اور چٹان کے معنی میں اضافہ ہوگیا ہے۔اور ان کی معنیاتی سطح پر ایک الگ اکائی  بن گئی ہے۔جس کی صرفی و نحوی سطح پر کوئی بھی آزادانہ حیثیت نہیں  لیکن یہ ایک با معنی لسانیاتی اکائی ہے ۔اس بناء پر (درختوں ) اور (چٹانیں) دو الفاظ ہیں جو دو دو مارفیموں پر مشتمل ہیں جن میں ایک آزاد اور دوسرا  پابند مارفیم ہے۔ وہ با معنی لسانی اکائی ہے جو آزادانہ طور پر استعمال ہو، آزاد مارفیم کہلاتی ہے۔

ایک لفظ ایک مارفیم ہو سکتا ہے اور ایک سے زیادہ  مارفیموں پر مشتمل بھی ہو سکتا ہے۔مثلاً اردو میں (درخت ) ایک لفظ ہے اور یہ  صرف ایک مارفیم ہے۔( سرخروئی) بھی ایک لفظ ہے لیکن تین مارفیموں "سرخ۔رو۔ی "پر مشتمل ہیں ( سرخ ) ایک آزاد مارفیم ہے جب کہ (رو) اور(ی) پابند مارفیم ہیں۔اس طرح کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جو آزاد اور پابند مارفیم کو واضع کرتی ہیں۔ د: نحویات (Syntax) اس میں جملے کی بناوٹ اور ساخت کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔یہ لسانیات کی ایک اہم شاخ ہے۔الفاظ کے ملنے سے  ایک جملہ تشکیل پاتا ہے۔نحویات، کسی  بھی زبان میں جملوں  کی مخصوص اور با معنی ترتیب کو کہا جاتا ہے۔ زبان میں جملوں کی بناوٹ، ساخت اور لفظوں کی ترتیب کے قاعدوں کا مطالعہ نحویات کہلاتا ہے۔مثلاً( اکرم نے خط لکھا)۔ یہ اردو نحو کے حوالے سے الفاظ کی درست  ترتیب ہے۔اگر اس کی جگہ  یوں کہا جائے کہ( لکھا خط سبق اکرم نے )تو اس کے معنی کی ترسیل میں  مشکل کا سبب بنے گی۔اس لیے جملے کی صحیح ترتیب بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ بامعنی و بے معنی جملوں کا فرق وغیرہ بھی اس میں شامل ہے۔کسی بھی جملے میں الفاظ کی ایک خاص ترتیب ہوتی ہے۔جو مجوزہ نحوی اصولوں کی پابند ہوتی ہے۔

صرف و نحو کو زبان کی قواعد کہا جاتا ہے۔اور انہی اصولوں پر زبان بنتی اور ترقی کرتی ہے۔

ہ: معنیات (Semantics) اس شاخ میں لفظوں کے معانی ومفہوم سے بحث کی جاتی ہے۔ معنیات کا دوسرا نام لغتیات ہے ۔معنویات کا لفظ معنی سے مشتق ہے۔ جس سے مراد کسی لفظ کا مفہوم جاننا ہے۔ لسانیات کے شعبے میں معنویات کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ لغوی معنی ایک اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔مختلف زبانوں میں الفاظ کا کثرت سےملاپ  یا ان میں مماثلت ومشابہت   ان میں باہمی لسانی رشتوں کو ظاہر کرتا  ہے۔ لیکن الفاظ کا یہی ملاپ کسی دورِ قدیم  میں ان زبانوں کی حامل اقوام کے اسلاف  کے درمیان گہرے ثقافتی  روابط یا وسیع تجارتی تعلقات کا منتج  بھی ہو سکتا ہے،۔ فارسی ،عربی اور اردو  میں برصغیرکی  دوسری زبانوں میں انگریزی عناصر کی موجودگی واضع ہے۔یہی وجہ ہے کہ اردو زبان پر بھی برصغیر کی دوسری زبانوں کا بل واسطہ یا بلا واسطہ اثر ہوا ہے۔معنیات میں نہ صرف الفاظ کے مفہوم کا مطالعہ کیا جاتا ہے بل کہ متروک یا دخیل الفاظ بھی زیرِ بحث لائے جاتے ہیں۔

۳۔ تقابلی لسانیات: لسانیات کی اس شاخ میں ایک ہی خاندان کی دو یا زیادہ زبانوں کے قواعد،  کا تقابلی مطالعہ کیا جاتا ہے۔

۴۔ نوعیات لسانیات:لسانیات کی اس شاخ میں دومختلف خاندانوں کی زبانوں کی ساخت، مماثلات اور تراکیب کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس شعبے میں صرف و نحو کے ساتھ ساتھ اس زبان کی مشترک یا متضاد خصوصیات کوبھی زیرِ مطالعہ لایا جاتا ہے۔دونوں زبانوں کی تاریخ اور اس کے لوازمات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

۵۔ عصری لسانیات: کسی زبان کا کسی مخصوص زمانےمیں مطالعہ کرنا، اس میں موجود صوت و لفظ کی جان کاری اور ہیت کا عمیق جائزہ  عصری لسانیات کہلاتا ہے۔لسانیات کے اس شعبے میں زبان کی عہد بہ عہد تبدیلیوں کا  بھی مطالعہ کیا جاتا ہے۔اسے عصریاتی لسانیات بھی کہا جاتا ہے۔

۶۔ سماجی لسانیات:

لسانیات کی اس شاخ میں زبان اور سماج کے باہمی رشتے کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ لسانیات کے اس شعبہ میں جن  موضوعات کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے وہ یہ ہیں ۔‘‘زبان کی تنوعات، زبان اور جنس، لسانیاتی شائستگی، شناخت ،لسانی منصوبہ بندی’’ ۔

۷۔بشریاتی لسانیات:

زبان کے ذریعے کسی بھی ثقافت کا مطالعہ بشریاتی لسانیات کہلاتا ہے ۔ لسانیات کے اس شعبہ میں زبانوں کے درمیان مشترک اور غیر مشترک خصوصیات کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سماجی عوامل کی لسانیاتی تبدیلیوں کو بھی زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔

۸۔تدریسی لسانیات:

تدریسی لسانیات میں کسی بھی زبان کے تعلیم میں استعمال کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔ یہ بہت وسیع موضوع ہے ۔ کسی بھی زبان کو سیکھنا یا سکھانا ایک پیچیدہ عمل ہے ۔لیکن اس عمل کے تمام تر مراحل لسانیات کے اس شعبہ میں زیرِ بحث لائے جاتے ہیں۔

۹۔اطلاقی لسانیات:اس شاخ کا تعلق عملی لسانیات سے ہے ۔دوسری زبانوں کا سیکھنا ،ترجمے کے لیے مشین بنانا، کسی زبان کا علاقائی و جغرافیائی جائزہ لینا، زبان کے مخصوص کوڈ تیار کرنا، ٹائپ رائٹر میں حروف کو ترتیب دینا وغیرہ کو زیرِ مطالعہ لایا جاتا ہے۔

۱۰۔عام لسانیات:

اس کا تعلق لسانیات کے نظریاتی پہلوؤں سے ہے۔اس میں زبان کے تجزیے ، قواعد کے مروجہ اصول اور زبان کے مختلف شعبوں کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔

۱۱۔نفسیاتی لسانیات:

        لسانیات کی اس شاخ میں زبان کے نفسیاتی پہلوؤں کا مطالعہ کیا جاتا ہےجن کا تعلق زبان سیکھنے اور یاد رکھنے کے حوالے سے ہے۔

۱۲۔اعصابی لسانیات:

        اس شاخ میں دماغ کے ان مراحل کا مطالعہ کیا جاتا ہے کہ جن سے وہ زبان کا حصول، ترسیل اور فہم کا عمل سر انجام دیتا ہے۔

۱۳۔لسانیاتی اسلوبیات:

        لسانیات کی اس شاخ میں کسی ادب کے فن پارے کی زبان کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔

۱۴۔یک زمانی لسانیات:

        لسانیات کی اس شاخ میں کسی مخصوص زبان کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔ اس دور کی زبان کے خدوخال اور زمانی تبدیلیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

۱۵۔جدید تاریخی و تقابلی لسانیات:

لسانیات کی اس شاخ کی بنیاد بیسویں میں سر ولیم جونز نے رکھی۔ اس شاخ میں انہوں نے سنسکرت اور دوسری کلاسیکی زبانوں میں لفظوں کے اشتراک اور مماثلتوں کو تلاش کیا۔ اور ان زبانوں کی گروہ بندی کی۔ اس شاخ میں ایک ہی خاندان کی دو مختلف زبانوں کی مماثلتوں اور لفظی اشتراک کے ساتھ ساتھ ان زبانوں کی ہیت و ساخت کا مطالعہ بھی کیا جاتا ہے۔

۱۶۔لسانی فردیات:

یہ جدید لسانیات کی شاخ ہے۔جسے انگریزی زبان میں آئنٹوجینی کہا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسے اجسامیات بھی  کہا جاتا ہے۔لسانیات کی اس شاخ میں فرد کے جسمانی ارتقاء اور تمام تر لسانی عمل کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ایک بچہ کس طرح شیر خوارگی کی عمر میں زبان کا اکتساب کرتا ہے۔ عمر کے آخری حصے تک  زبان میں جو جو ارتقاء ہوتا ہے اس کا مکمل جائزہ لیا جاتا ہے۔ ایک شیر خوار بچہ اشاراتی زبان سے تکلمی زبان تک کا سفر مختلف مراحل میں طے کرتا ہے۔ اور اس کے بعد اصوات کی ادائیگی پر مہارت حاصل کرتا ہے۔ایک عام  بچہ چار سال سے چھ سال کی عمر تک اپنی مادری زبان پر مہارت حاصل کرلیتا ہے۔اس عمر کے بعد بچے کا ذخیرہ الفاظ بڑھانے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ تقریباً بارہ سے پندرہ سال  کی عمر میں لاتعداد ذخیرہ الفاظ جمع کر لیتا ہے۔ یہ تما م تر مراحل و مسائل لسانی فردیات میں زیرِ بحث لائے جاتے ہیں۔

لسانی عتقیات:

لسانیات کی  اس  شاخ میں قدیم تاریخ کا کھوج لگایا جاتا ہے۔ اس شعبہ کا اصل موضوع تاریخ ہوتا ہے۔ جس میں لسانیات کو بطورِ آلہ استعمال کیا جاتا ہے۔لسانیات کی اس شاخ میں آثارِ قدیمہ ، ارضیات،بشریات،جغرافیہ اور تاریخ جیسے موضوعات زیرِ بحث لائے جاتے ہیں۔لسانیات کی اس شاخ میں قدیم زبانوں کے الفاظ کی  گروہ بندی  کی جاتی ہے۔ جس سے اس دور کی ثقافت ، جغرافیے اور بشریاتی زندگی کا پتہ ملتا ہے۔ اس طرح اس زبان کے اصلی وطن کا تعین ممکن ہو سکتا ہے۔ اس زبان کے سماجی، مذہبی اور عقائد و رسوم کے جملہ الفاظ کی گروہ بندی کی جاتی ہے۔

اعدادی لسانیات:

لسانیات کی اس شاخ میں اعداد و شمار کے طریقوں کا لسانیات میں اطلاق کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس شعبہ میں زبان کے مختلف عناصر کو شمار کیا جاتا ہے۔ جس میں مختلف اصوات، فونیم، مارفیم وغیرہ شامل ہیں۔ اسی لسانیاتی شعبے کے تحت ہی ملک کے دفاعی ادارے خفیہ کوڈز کی تیاری کرتے ہیں۔ کمپوٹر کی زبان بھی عددی ہی ہوتی ہے۔ زبانوں کے تاریخ ارتقاء میں ایک عہد کی زبانوں اور بولیوں کے  الفاظ سے اعداد  نکال کر نتائج نکالے جا سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی زبان میں دوسری زبانوں کے دخیل الفاظ کی اوسط متعین کرنے اور ان کا جائزہ لینے کے لیے بھی اس شعبے کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔

لسانی زمانیات:

لسانیات کی اس شاخ کا دوسرا نام لغاتی اعدادیات ہے۔ اس شاخ میں ان تمام زبانوں اور الفاظ کا مطالعہ کیا جاتا ہے جو امتدادِ زمانہ کے ساتھ متروک ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی زبان کے اُن مارفیم کا مطالعہ کیا جاتا ہے جو معدوم ہو چکے ہوں۔لسانیات کی یہ شاخ بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس کا زبادہ تر تعلق تاریخ سے ہوتا ہے۔

ریاضیاتی لسانیات:لسانیات کی اس شاخ میں کسی زبان میں ریاضیاتی اطلاق اور اس کے قاعدوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ریاضی میں مختلف گروہوں کو سیٹوں کی صورت میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پھر اُن تمام سیٹوں کے لیے قواعدی اصول ترتیب دیئے جاتے ہیں۔ان تمام مراحل کا مطالعہ لسانیات کی اس شاخ میں جاتا ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...