Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > اُردو صوت شناسی > صوتیات کا اجمالی جائزہ

اُردو صوت شناسی |
حسنِ ادب
اُردو صوت شناسی

صوتیات کا اجمالی جائزہ
ARI Id

1689956854451_56117891

Access

Open/Free Access

Pages

49

صوتیات کا اجمالی جائزہ
زبان اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ یہ اظہار کا ذریعہ ہے۔ صوتیات وہ علم ہے جو ہمیں زبان کی آوازوں اور ان کی جان کاری میں نہ صرف مدد فراہم کرتا ہے، بل کہ اس کے لیے اصول بھی مرتب کرتا ہے۔ صوتیات میں زبان کی آوازوں کےپیداہونے کے طریقے اور ان کی صحیح درجہ بندی کا مطالعہ کیاجاتا ہے۔ صوتیات لسانیات کی اہم شاخ ہے۔ بعض علمائے لسانیات کے بقول صوتیات کے بغیر لسانیات نا کافی ہے۔ صوتیات کا کام زبان کی آوازوں کو دریافت کرنا، اس کو صحیح رسم الخط فراہم کرنا، جن زبانوں کے پاس رسم الخط نہیں ہے انہیں رسم الخط فراہم کرنا اور الفاظ کی درست ادائیگی میں معاونت ہے۔ ہر زبان میں عہد کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں رونماہوتی رہتی ہیں۔کچھ الفاظ متروک ہوتےہیں، کچھ کا املا بدل جاتا ہے اور کچھ قواعد واصول بھی بدلتے رہتےہیں۔ صوتیات کسی بھی زبان کا منظم علامتی اور تصوراتی نظام ہوتا ہے۔ انسانی ذہن بے شمار آوازیں پیدا کرنے کی خُداداد صلاحیت رکھتا ہے۔ انسانی منہ سے اَن گنت آوازیں نکلتی ہیں لیکن صوتیات میں صرف بامعنی آوازوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ زمان ومکان کے حالات کے مطابق زبان میں پایا جانے والا تغیر وتبدل اس کی صوتی ہیئت میں بھی تبدیلیاں لاتا ہے۔
صوتیات کی تعریف
بقول پروفیسر اقتدار حسین:
’’زبان کی آوازوں کے سائینٹی فک یامنظم طور سے مطالعے کو صوتیات کہتے ہیں۔‘‘۲۹؎
جیسا کہ لسانیات کے باب میں بتایا گیا ہے کہ یہ ایک سائنس ہے، اسی طرح صوتیات بھی ایک سائنس ہے۔ ڈاکٹر اقتدار حسین نے اسے زبان کے سائنیٹی فک مطالعے سے تعبیر کیا ہے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ماہر صوتیات ایسا سائنس دان ہوتا ہے جو زبان کی تمام آوازوں کو سمجھنے، ان میں فرق کرنے اور ان کا تجربہ کرنے کی باقاعدہ تربیت حاصل کر چکا ہوتا ہے۔ڈاکٹر اقتدار حسین صوتیات کے متعلق ایک اور جگہ رقمطراز ہیں:
’’صوتیات، زبان کی آوازوں اور ان کے مخارج کا مطالعہ کرتی ہے۔ ان میں اعضائے تکلم اور ان کا مطالعہ شامل ہے۔ لسانیات کے مطالعے میں صوتیات کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ صوتیات کی مدد سےہی ممکن ہے کہ ہم کسی زبان کے الفاظ کے تلفظ کو صحیح طرح سمجھ سکیں۔ لسانیات کی مختلف سطحیں مثلاً فونیمیات، صرف ونحو کے مطالعہ کےلیے بھی صوتیات بہت اہم ہے۔ بات چیت کے دوران الفاظ کی صوتی شکل میں تبدیلی عام ہے۔ جس کامطالعہ ہم مارفونیمیات میں کرتےہیں۔ اس مطالعے میں بھی صوتیات کا مطالعہ ناگزیر ہے۔‘‘۳۰؎
درج بالا گفتگو سے ہم صوتیات کی زبان کے مختلف شعبوں میں اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ صوتیات کسی زبان کی ترقی اور بڑھوتری میں کتنی اہمیت کی حامل ہو سکتی ہے۔
ڈیوڈ کرسٹل اپنی تصنیف ’’لسانیات کیا ہے‘‘ میں صوتیات کی یوں تعریف بیان کرتےہیں:
’’صوتیات، لسانیات کی وہ شاخ ہے جس میں الفاظ کی بنیادی متکلم آوازوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔‘‘۳۱؎
بولتے وقت انسان اپنے منہ سے بے شمار آوازیں نکالتا ہے۔ جن کو شما ر کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن ان تمام آوازوں کا صوتیات میں مطالعہ نہیں کیا جاتا بل کہ صرف وہ آوازیں جو کلام کے قابل یا بولی جا سکتی ہیں۔کیوں کہ یہ بات تو طے ہے کہ صوتیات کا تعلق محض تکلمی آوازوں سے ہے نا کہ تحریری۔خلیل صدیقی کے بقول:
’’صوتیات، تکلمی آوازوں یا اصوات کے سائنسی مطالعے کا نام ہے۔ اس کے مستنبط اور منضبط اصولوں کا اطلاق تمام زبانوں پر کیا جاتا ہے۔‘‘۳۲؎
منہ سے ادا ہونے والی تمام آوازیں ایک منظم نظام کے تحت خارج ہوتی ہیں۔ یہ آوازیں علمِ صوت کے ذریعے پہچانی اور پرکھی جاتی ہیں۔ اور صوتیات ایک ایسا علم ہے جو تمام تکلمی زبانوں کو احاطہ علم میں لاتا ہے۔ڈاکٹر محبوب عالم کے بقول:
’’علم لسانیات میں صرف آوازوں پرمبنی اظہارِ خیال یعنی لسانی علامتوں یا بولی ہی کوموضوع بنایا جاتا ہے۔ جس کے لیے ہم مجازِ مرسل کے طور پر زبان کا لفظ استعمال کرتےہیں۔‘‘۳۳؎
درج بالا صوتیات کی تعریفوں سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتےہیں کہ کسی بھی زبان کو سمجھنے اور اس کی آوازوں کو جاننے اور بولنے کے لیے صوتیات بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔
صوتیات کی اہمیت وافادیت
یہ ایک وسیع موضوع ہے۔ کسی بھی نئی زبان کو سیکھنے سے قبل آوازوں کےمسئلے سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ کسی بھی زبان کو الفاظ کا تحصیل سمجھنا بے وقوفی ہے۔ کسی زبان کو جاننے کےلیے اس زبان کا فقط الفاظ سیکھ لینا کافی نہیں ہے۔
لغت تو الفاظ کا ایک قیدخانہ ہے۔ لہٰذاکسی زبان کو سیکھنےکےلیےضروری ہےکہ اس کےمکمل لسانی ڈھانچے کو سمجھا جائے۔ اس سلسلے میں صوتیات کا سہارا لینا ضروری ہوتا ہے۔نئی زبان کی آوازوں کے مخارج، اصول اور ادائیگی ایک تربیت یافتہ ماہر صوتیات ہی رہنمائی فراہم کر سکتا ہے۔
جوفِ دہن سےپیدا ہونے والی آوازکی درجہ بندی درج ذیل عنوانات کے تحت کی جا سکتی ہے۔
۱۔بندشی:ہوا کے راستے کو مکمل بند کر کے اس کے دباؤ کو منہ میں کسی بھی مقام پر روک کر جو آوازیں پیدا ہوتی ہیں انھیں بندشی کہا جاتا ہے۔ بندشی آوازیں درج ذیل ہیں:
ب، پ ، ت ، ث،ڈ ، ک ، گ
مثالیں:ہل، بل، تل، دل ، گال، ڈال وغیرہ
۲۔صفیری:ہوا کے راستے میں کسی بھی مقام پر منہ میں رکاوٹ پیدا کر کے پتلے شگاف کا چھوٹا سا راستہ باقی رہنے دیا جاتا ہےتا کہ اس شگاف سے ہوا کے نکلنے میں نسبتاًزور لگانا پڑے۔ ان آوازوں کو صفیری کہا جاتا ہے جو کہ درج ذیل ہیں:
ش، ژ، خ، غ
مثالیں:فہم، وہم، خول، غول
۳۔پہلوی:جوفِ دہن میں ہوا کے گزرنے کے درمیانی راستے میں اٹکاؤ پیدا کر دیا جائے لیکن زبان کے دونوں طرف راستہ کھلا رہے۔ اس طرح پیدا ہونے والی آوازوں کو پہلوی کہا جاتا ہے جو کہ درج ذیل ہیں:
ل
مثالیں:کال، گال وغیرہ
۴۔تھپک دار:ہوا کے گزرنے سے منہ کا اندرونی لچک دار حصہ اگر مرتعش ہو اُٹھے تو وہ ارتعاشی آواز پیدا ہوتی ہے۔ یہ ارتعاش اگر مختصر اور ہوا کے گزرنے سے صرف ایک بار ہو تو آوازیں تھپک دار کہلاتی ہیں۔یہ آوازیں درج ذیل ہیں:
ر، ڑ
مثالیں:آر، آڑ، یار، تاڑ وغیرہ
۵۔مصوتے:آخری قسم کی آوزیں ہیں ۔ ان کی ادائیگی کے وقت منہ کا راستہ نسبتاً کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے لیکن جوفِ دہن میں اعضائے تکلم کو حرکت دے کر یہ آوازیں پیدا کی جاتی ہیں۔ یہ آوازیں درج ذیل ہیں:
اَ، آ، ای ، اے، او
مثالیں:آیا، آؤ وغیرہ
صوتیات کے علم کی جان کاری نہ صرف ایک بہترین فنکار پیدا کر سکتی ہے بلکہ اردو زبان کے اساتذہ کے لیے بھی بہترین معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ غیر ملکی افراد جو زبان سیکھنے کے خواہاں ہیں ان کے لیے صوتیات بہترین راہ نما کا کام سر انجام دے سکتی ہے۔ اسی سے غیر ملکیوں میں زبان سیکھنے کی دلچسپی پیدا ہو گی۔ زبان صرف آوازوں کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ منظم آوازوں کا بہترین صوتی نظام ہے۔
اردو زبان کی بنیادی آوازوں کے حوالے سے ڈاکٹر سہیل بخاری لکھتےہیں کہ:
’’اردو زبان میں دو قسم کی آوازیں ہیں۔ سُر، اسُر۔ سُر کو انگریزی میں Vowel کہتے ہیں۔ سنسکرت میں سُور، عربی میں حروفِ علت، جب کہ اسُر جسے انگریزی میں Consonant ، سنسکرت میں وینجن، عربی میں حروفِ صحیح کہتے ہیں۔ زبان میں اَسُرکو وہی اہمیت حاصل ہے جو جسم میں ہڈی کو۔ زبان کے اسر اس وقت تک ساکن رہتےہیں جب تک انہیں متحرک نہیں کیا جاتا۔ زبان کے اسروں کو سُر اچھی طرح حرکت دیتے ہیں اور باہم جوڑتےہیں جس طرح جسم کی ہڈیوں کو ٹونچڑے باہم ملاتے اور ہلاتےہیں۔‘‘۳۴؎
اکثر لوگ صوتیات سے اجنبی نظر آتے ہیں لیکن اگر وہ اس کی اہمیت کو عمیق نگاہ سے دیکھیں تو بلاشبہ یہ زبان میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سے زبان کی پہچان ہوتی ہے۔ زبان کے وجود کو تقویت ملتی ہے۔ زبان مزید پھلتی پھولتی ہے۔ لہٰذا صوتیات ہی وہ بنیادی عنصر ہے جو زبان کو صحیح انداز میں متعارف کراتا ہے۔ کسی بھی زبان کا حُسن اس کے بہترین اندازِ بیان میں ہوتا ہے۔ صوت جتنا منظم ہو گا زبان اتنی ترقی یافتہ شکل اختیار کرتی جائے گی۔ دوسری زبانوں کے بہ نسبت اگر اردو زبان کی بات کی جائے تو یہ قابلِ افسوس ہے کہ اس کے صوت کی طرف بالکل دھیان نہیں دیا جاتا اور اچھے خاصے پڑھے لکھے اور مدرس قسم کے لوگ اس کے تلفظ اور الفاظ کی ادائیگی کی طرف مطلق دھیان نہیں دیتے یا شاید اس کو ضروری نہیں سمجھتے۔ ان کے خیال میں اردو زبان کا مقصد صرف اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانا ہی مقصد ہے۔ لہٰذا یہ بات واضح کرنا از حد ضروری ہے کہ زبان کا حسن اس کے الفاظ کی صحیح ادائیگی، ساخت اور اتار چڑھاؤ کے ساتھ متصل ہے۔
آج ہمارے وہ نوجوان جو یورپ میں کام کے سلسلے میں جاتےہیں وہ لوگ جہاں انگریزی زبان سیکھتےہیں وہاں اس لب ولہجے میں بات کرنے کی بھی صحیح تربیت حاصل کرتےہیں، کس لفظ کو کس طرح ادا کرنا ہے، کس کی ادائیگی کے وقت زبان کا اتار چڑھاؤ کیا ہونا ہے۔ الغرض اگر ایک دوسرے ملک کی زبان کو سیکھنے کےلیے اتنی تگ ودو ضروری ہے تو اپنی زبان کے لیے کیوں نہیں؟ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اردو صوت شناسی کی طرف دھیان دیا جائے اور اس کے مستند اصول کم از کم سکول لیول کے طالب علم کی جان کاری کے لیے ہونے چاہئیں، تا کہ وہ ابتدائی عمر میں ہی ان اصولوں کو سیکھ کر اردو صحیح طرز سے بول سکے اور آگے بھی تعلیم دے سکے۔
آج تک ہمارے ملک میں مادری اور ثانوی یا ملکی زبان کی بحث منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکی۔ آج بھی ہمارا اردو زبان کا طالب علم یہ واضح نہیں کر سکا کہ ہماری مادری زبان کون سی ہے؟ ماں بولی یا مادرِ وطن کی زبان؟
جب ہم اس بحث سے نکل کر یہ جان لیتےہیں کہ مادری زبان سے مراد مادرِ وطن کی زبان ہے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہماری مادری زبان اردو ہے۔ اب مادری زبان کے ساتھ سوتیلی زبان جیسا سلوک کرنا شاید وفاداری نہیں ہو سکتا، لہٰذا اردو کو صرف سمجھ کر بول لینا کافی نہیں ہوتا، بلکہ اس کے تلفظ کی صحیح ادائیگی اور اس کی مکمل صوت شناسی بہت ضروری ہے۔
زبان کو الفاظ کا کھیل سمجھنا بھی عقل مندی نہیں یا یہ سمجھنا کہ کسی زبان کو سیکھنے کے لیے اس کے ذخیرۂ الفاظ کو یاد کر لیا جائے اور سمجھا جائے اب اس زبان پر عبور حاصل ہو گیا تو یہ خام خیالی ہے۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو پھر ہر شخص دوسری زبان کی لغات سے الفاظ یاد کر کے اُس زبان میں دسترس حاصل کر لیتا۔ میرے خیال میں تو لغت الفاظ کا قید خانہ ہے۔ خود کو اُس تک محدود کر لینا بھی راہِ راست نہیں، کیوں کہ ضروری نہیں کہ ایک لفظ ہر موقع پر ایک ہی معانی ومطالب کے لیے استعمال ہو، پھر وقت کے ساتھ ساتھ الفاظ متروک بھی ہوتے ہیں۔ نئے وجود بھی آتے ہیں۔دوسری زبانوں سے بھی حاصل ہوتےہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ رقم طراز ہیں کہ:
’’ہر زندہ زبان کے دس فی صدی الفاظ متروک ہو جاتے ہیں اور نئے اس میں شامل ہو جاتےہیں اور نئے اس میں شامل ہو جاتےہیں۔ اس کے برعکس زبان کا صوتی ونحوی ڈھانچہ صدیاں گزرنے کے باوجود جوں کا توں رہتا ہے۔ اس میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہوتی، چنانچہ اصل چیز زبان کا صوتی نظام اور اس کا صرفی ونحوی ڈھانچہ ہے۔‘‘۳۵؎
ڈاکٹر گوپی چند کے درج بالا بیان پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی زبان میں صوتیات کی اہمیت کتنی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول زبان کی صوت صدیاں گزرنے کے باوجود بھی نہیں بدلتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ زبان کے نحوی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ صوتی نظام بھی جڑ کی حیثیت رکھتا ہے، یعنی اگر یہ کہا جائے کہ صوت شناسی کسی بھی زبان کے معیار اور پہچان کو متعارف کراتی ہے تو یہ بےجا نہ ہو گا۔
صوتیات ہی وہ علم ہے جس کے ذریعے نئی زبان سیکھنے والا طالب علم زیادہ مشکل کا سامنا کرتا ہے۔ اس کے لیے مشکل مرحلہ زبان شناسی نہیں بلکہ صوت شناسی ہے۔ جو کہ زبان کا حقیقی حسن ہے۔ وہ طالب علم جو اپنی مادری زبان میں تو صوتی مہارت رکھتا ہے لیکن جب اس کا سابقہ ایک نئی زبان سے پڑتا ہے تو وہ اس کی آوازوں کی ادائیگی میں دقتوں اور پیچیدگیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے، کیوں کہ نئی صوتی عادتیں ڈالنا بہت مشکل امر ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے زبان کی صوتیات کے آسان اصول وضع کرنا اور انہیں ایک عام قاری تک پہنچانا ایک مشکل مرحلہ ضرور ہے مگر ناگزیر بھی ہے۔
صوتیات میں صِرف ان انسانی آوازوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے جو اعضائے تکلم کے ذریعے ادا کی جاتی ہیں اور ان سے اپنا مدعا بیان کیا جاتا ہے۔ اعضائے تکلم کو اعضائے صوت بھی کہا جاتا ہے اور ان سے مراد وہ اعضاء ہیں جو آواز کی ادائیگی میں ممکنہ حد تک استعمال ہوتےہیں۔ جن کا تفصیلی ذکر آگے آئے گا۔ کون سی آواز کیسے نکالنی ہے۔ زبان کہاں رگڑ کھائے گی؟ کہاں ہوا کے اخراج سے لفظ خارج ہو گا اور کہاں لفظ ناک کے راستے سے ادا ہو گا۔ یہ سب درجہ بندی صوتیات کے علم سے ممکن ہے۔
اردو کے صوتی نظام میں لاتعداد آوازیں ہیں ان میں کچھ ہیں جن کا ترجمہ آسانی سے کیا جا سکتا ہے، مطلب ان آوازوں کےلیے کچھ علامتیں وضع کی جا سکتی ہیں اور علمائے صوتیات نے بہت سی علامتیں وضع کی بھی ہیں۔ اس سلسلے میں خلیل صدیقی لکھتےہیں:
’’اردو کے صوتی نظام میں اَن گنت آوازیں شامل ہیں۔ لیکن جن آوازوں کا باآسانی ترجمہ ممکن ہے ان کی تعداد چھیاسٹھ (۶۶) ہے اس تعداد میں وہ آوازیں بھی شامل ہیں جو لسانی ماحول سے متاثر ہو کر اپنے میں لائی ہوئی اہم تبدیلیوں کی بناء پر پہنچائی گئی ہیں۔‘‘۳۶؎
صوتیات میں بولی جانے والی آوازوں کو مزید مختلف حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے لیکن اہم دو حصے مصوتے اور مصمتے کہلاتے ہیں۔ ان مصوتوں اور مصمتوں کو مختلف ماہرین صوتیات نے مختلف ناموں سے تعبیر کیا ہے۔اس ضمن میں ڈاکٹر سہیل بخاری یوں رقم طراز ہیں:
’’اردو میں دو قسم کی آوازیں ہیں: (۱) سُر (۲) آسُر، سُر کو انگریزی میں Vowel ، سنسکرت میں سُور، عربی میں حروفِ علت کہتےہیں اور آسر کو Consonant، انگریزی ، سنسکرت میں ویجن، عربی میں حروفِ صحیح کہا جاتا ہے۔‘‘۳۷؎
بعض اوقات آوازیں زمان ومکان کے مطابق بھی بدلتی ہیں اور یہ تبدیلی کسی قانون یا قاعدے کے مطابق نہیں ہوتی، بلکہ خود بخود بدلتی رہتی ہیں۔ ان آوازوں کا بدلنا ماہرینِ لسانیات کے نزدیک فطری ارتقاء کی وجہ سے ہے۔ اس زمان ومکان کے ساتھ آوازوں کا بدلنا صوتی تشکیل اور تغیر وتبدل ہو سکتاہے۔ اردو صوتیات کی اساسی تقسیم کے حوالے سے بہت سے نظریات موجود ہیں۔ آوازوں کی درجہ بندی زبان میں استعمال ہونے والی مختلف آوازوں کے اُتار چڑھاؤ سے واقع ہونے والی صوتیاتی تبدیلیوں سے ہوتی ہے۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے اُردو صوتیات کو مصوّتی، مصمتی ، نیم مصوّتی اور نیم مصمتی وغیرہ درجہ بندیوں میں فرق کرتے ہوئے ۴۱ فونیمزکی فہرست تشکیل دی ہے، جس میں اردو حروف " و، ن، ہ، ی، ے"کو مزید ذیلی اصوات میں تقسیم کیاہے۔ڈاکٹر گوپی چند کے بعد علمائے صوتیات کی ایک کثیر تعداد نے صوتیات کی تقسیم کے حوالے سے مختلف فونیمز کی فہرستیں بنائی ہیں۔ ہر ایک نے اپنے انداز سے یہ ترتیب پیش کی ہے۔جن میں ڈاکٹر اقتدار حسین خان،ڈاکٹر گیان چند ،خلیل صدیقی اور شمشاد زیدی شامل ہیں۔اسی طرح لہجوں کے امتیاز سے فونیمز میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ جو کہ معنی خیز ہوتی ہیں۔یہ تبدیلیاں نہ صرف لہجے بدلتی ہیں بل کہ ان سے معنیاتی تبدیلیاں بھی واقع ہوتی ہیں۔ زیر، زبر اور پیش سے ہونے والی صوتی تبدیلی سے معنیاتی کیفیات پر پڑنے والے اثرات بھی درحقیقت فونیمز کےاساسی امتیازی عناصر میں شامل ہیں۔یہاں یہ بات واضع رہے کہ کسی بھی زبان کے حروفِ تہجی ہی اُس میں مصوتی، مصمتی اور نیم مصوّتی فونیمز کی نمائندگی کر تے ہیں، جس طرح انگریزی میں A, B, C, اور اُردو میں ا، ب، پ ،وغیرہ ہیں یہ حروفِ تہجی ہی کسی زبان کی بنیاد ہوتے ہیں ان پر ہی زبان تشکیل پاتی ہے۔ یہ کسی زبان کےلیے ویسی اہمیت رکھتے ہیں جیسی کسی عمارت کے لیے اینٹیں۔ انہی حروفِ تہجی کو بنیادی آوازیں (Segmental Phonemes) کہا جاتا ہے ۔لیکن جب مختلف فونیمز مل کر کسی بھی زبان کے لسانی تصورات یا صوتیاتی اصوات کی تشکیل کرنے لگتے ہیں تو اُن میں کچھ آوازیں ایسی بھی بنتی ہوتی ہیں جو بنیادی آوازوں Segmentalفونیمز کےذیل میں نہیں آتیں۔
عموماً یہ عمل ہر زبان کی عملی سطح پہ محسوس کیا جا تا ہے۔ اُردو چوں کہ ایک مخلوط زبان ہے۔ اس میں مختلف زبانوں کے الفاظ شامل ہیں۔ لیکن فارسی اور عربی کے اثرات بہت زیادہ ہیں۔اس لیے اس کے بنیادی فونیمز کی تقسیم اور قواعدی درجہ بندی عربی اور فارسی کے صوتی نظام سے لی گئی ہے،
یہی وجہ ہے کہ گرافک سطح پر موجود فونیمز سےصوتیات کے اکثر طالب علم اوقات دھوکہ کھا جاتے ہیں۔مثلاً :۰س، ص، ث ۰ز، ذ، ض، ظ، ژ۰ت، ط۰ح، ہ وغیرہ
در اصل یہ حروف کی گروہی درجہ بندی ہے۔ جس کی تفصیل اس مقالے میں شامل کی گئی۔
صوتیات اور فونیمیات کا بنیادی فرق
عام طور پر صوتیات اور فونیمیات کو ایک ہی علم تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن اس میں ایک معمولی سا فرق ہے اور وہ معمولی فرق دونوں کے درمیان حدِ فاصل قائم کر دیتا ہے۔
صوتیات کو انگریزی زبان میں (Phonetics) جب کہ فونیم کو (Phonemics)ہی کہا جاتاہے۔ صوتیات میں صرف آوازوں کا ہی مطالعہ کیا جاتا ہے جو کہ کسی ایک زبان تک محدود نہیں وہ کسی بھی زبان کے مجوزہ اصولوں کا مطالعہ ہو سکتا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس جب ہم کسی مخصوص زبان کی آوازوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ فونیم کہلاتا ہے۔ جس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ جب ہم اردو زبان کے مصوتی نظام یا جرمن زبان کے مصمتی نظام کی بات کریں گے تو گویا ہم فونیمیاتی اقوال کی بات کر رہے ہیں اور اگر ہم عمومی طور پر بات کریں کہ مصمتہ کیا ہوتا ہے، مصمتہ کسے کہتےہیں تو گویا ہم صوتیات کے حوالے سے بات کر رہےہیں لیکن اگر کسی زبان کامکمل تجزیہ کرنا مقصود ہو تو ہم ان دونوں یعنی صوتیات اور فونیمیات کو عمل میں لاتےہیں۔ دونوں لازم وملزوم بن جاتےہیں، زبان ان دونوں کے اصولوں سےہی اپنا صوتی نظام مکمل کر پاتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک بات بہت اہم ہے کہ فونیمیاتی اجزاء کو دو ترچھی لکیروں (//) سے ظاہر کیا جاتا ہے مثلاً /e/ اس کا تفصیلی جائزہ فصل سوم اور چہارم میں لیا جائے گا۔ صوتیات اور فونیمیات کے فرق کو ہم مزید درج ذیل پہلوؤں کے تحت دیکھ سکتے ہیں:
صوتیات فونیمیات
1۔صوتیات میں کسی زبان میں پیدا ہونے والی آوازوں کے تلفظی طریقہ کار اور ان کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ فونیمیات میں کسی بھی زبان کی اہم آوازوں کو معلوم کرنے کے مجوزہ اصولوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔
2۔صوتیات میں جن آوازوں کے تلفظی طریقہ کار اور ان کی درجہ بندی کا مطالعہ کیا جاتا ہے وہ کسی بھی زبان سے ہو سکتے ہیں۔ اس کے بر عکس فونیمیات کسی خاص زبان کی آوازوں یا فونیم معلوم کرنے کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
3۔صوتیات جن آوازوں کا مطالعہ کرتی ہے، وہ لا محدود ہوتی ہیں۔ فونیمیات میں مطالعہ کی گئی آوازوں کا دائرہ کا ر محدود ہوتا ہے۔ جو عام طور پر 10 سے 60 تک ہو سکتی ہیں۔
4۔صوتیات میں ادا ہونے والی آوازوں کو تحریری میں ظاہر کرنے کے لیے مربع قوسین [ ] کا استعمال کیا جاتا ہے۔ فونیمیات میں ان آوازوں کو تحریر میں لکھنے کے لیے قوسین/ / استعمال ہوتی ہیں۔
صوتیات کی شاخیں
صوتیات کی مختلف تحقیقی وتنقیدی کتب کاجائزہ لیاجائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس علم کی شاخوں کے حوالے سے کوئی خاص کام نہیں کیا گیا۔ اکثر ماہرین صوتیات جن میں ڈاکٹر طارق رحمان، ڈاکٹر گیان چند، ڈاکٹر گوپی چند، شوکت سبزواری وغیرہ نے صوتیات کی تین شاخیں بتائیں ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
۱۔تلفظی صوتیات (Articulatory Phonetics)
۲۔ سمعیاتی صوتیات (Acoustic Phonetics)
۳۔ سمعی صوتیات (Auditory Phonetics)
تلفظی صوتیات: (Articulatory Phonetics)
یہ صوتیات کی قدیم شاخ ہے۔ عام طور پر صوت یات کہہ کر تلفظی صوتیات ہی مراد لیا جاتا ہے۔ تلفظ سے مراد کسی بھی لفظ کے مخصوص آواز کی تخلیق ہے۔ صوتیات کی اس شاخ میں آوازوں کی تخلیق، تلفظی صوتیات ، آواز اور اس کے مخارج کا مطالعہ کرتی ہیے۔ اس کے علاوہ ان اعضاء کا بھی تفصیلی مطالعہ کرتی ہے جو آواز پید اکرنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ زیرِ نظر مقالے میں تلفظی صوتیات پر مکمل گفت گو کی گئی ہے۔
سمعیاتی صوتیات: (Acoustic Phonetics)
اسے سمعی صوتیات بھی کہا جاتا ہے۔منہ سے نکلنے والی آواز ہوا میں کس طرح سفر کرتی ہے؟ ہو ا میں اس کا رنگ و روپ کیا ہو تا ہے۔ا س سلسلے سب سے پہلے تحقیق کرنے والے ماہرِ لسانیات ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ہیں۔ جنہوں نے سب سے پہلے امریکہ میں اس پر تحقیقی کام کیا۔آواز لہروں کی شکل میں سفر کرتی ہے۔یہ لہریں گیارہ سے بارہ سو فٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہیں۔ہوا آوازوں کے پیدا کرنے یا اس کو آگے بڑھانے میں بنیادی عنصر ہے۔اس کے بغیر یہ سب ناممکن ہے۔ جب ہم بولتے ہیں تو ارتعاش پیدا ہوتی ہے۔ پھر اس آواز سے لہریں پیدا ہوتی ہیں ان کو ماپنے کے لیے مختلف آلات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سادہ ترین آواز وہ ہے جو دو شاخہ (Tuning Fork) کو چلا کر پیدا کی جاتی ہے۔ صحیح طور پر بنے ہوئے دو شاخہ میں مقررہ وقفہ سے ارتعاش پیدا ہو گا۔ اس ارتعاشی وقفہ کو دور فی سیکنڈ کیا جاتا ہے۔ جب کہ انگریزی زبان میں (Cycles per Second) کہتے ہیں۔ جسے مختصراً CPS کہا
جاتا ہے۔ آواز کی لہر ایک نقطے سے شروع ہوتی ہے ۔ یہ نقطہ منہ کے قریب ہو گا۔ اس کو ہم ایک مثال سے واضح کرتے ہیں

اس تصویر میں a سے d تک ایک چکر (Cycle) مکمل ہو جاتا ہے۔ یہ چکر جتنے وقت میں مکمل ہو گا اسے وقفہ Period کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک سیکنڈ میں جتنے چکر بنتے ہیں انہیں دور فی سیکنڈ یا چکر فی سیکنڈ کہا جائے گا۔ وہ آوازیں جن کا وقفہ یا دور ہر بار ایک ہی رہے وہ وقفہ دار آوازیں کہلاتی ہیں۔ لیکن اگر ہر بار وقفہ ایک جیسا نہ رہے تو وہ غیر وقفہ دار آوازیں کہلاتی ہیں۔ یہ وقفے دار آوازیں سر بناتی ہیں۔ اس آواز کو ماپنے کا آلہ نقش لیف Spectrogram کہلاتا ہے۔ ان آوازوں کے نقش اس برقی آلے کے ذریعے ماپا جاتا ہے۔بقول اقتدار حسین خان:
”اس طرح کا خاکہ جو ہم کسی آواز کے لیے ریکارڈ کرتے ہیں، اس آواز کا سپکٹرم کہلاتا ہے۔ اس سپکٹرم سے یہ ظاہر ہے کہ آواز کی لہر میں طاقت ہر جگہ نہیں ہوتی۔ صرف خاص تواتر (Frequency) کےمقام پر موجود ہوتی ہے۔ یہ خاصیت صرف وقفہ لہریں ہوتی ہیں۔ جو کہ تکراری ہوتی ہیں۔‘‘۳۸؎
یہ بات عیاں ہے کہ جس کو آواز کی لہر کہتے ہیں، وہ ہوا کے اوپر نیچے ہونے سے بنتی ہے۔ ہوا کے اوپر نیچے ہونے کا مقصد ہوا کا کم یا زیادہ دباؤ ہے۔ اور یہ دباؤ ہمارے بولنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہمارے بولنے سے ہوا میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔ ہم جتنی طاقت لگا کر بولیں گے ہوا میں اتنا ارتعاش زیادہ پیدا ہو گا اور اتنی زیادہ لہر یں پیدا ہوں گی۔ اور اگر آہستہ بولیں گے تو ہوا میں ارتعاش کم پیدا ہو گا۔ یہ لہریں کم بنیں گی یعنی ان کے تواتر (Frequency) میں فرق آئے گا۔
آواز کی وہ شدت جو ایک آدمی محسوس کرتا ہے، اسے آواز کی بلندی کہا جاتا ہے ۔ جس کو آواز کی ایک اکائی سے ناپا جاتا ہے ۔ آواز کی اس اکائی کو ڈیسیبل (Decibles) کہا جاتا ہے۔ عموماً سنی جانے والی آواز کو ڈیسیبل کہا جاتا ہے۔صوتیات کے اس شعبے میں اردو مصوتوں اور مصمتوں کی رفتار اور ان کی ماہیت کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔اونچے مصوتے کس رفتار سے آگے بڑھتے ہیں۔ ان رفتار فی سیکنڈ کے حساب سے کتنی ہے۔ اور پچھلے مصوتوں کی رفتار فی سیکنڈ کیا ہے۔یہ سب کچھ سپیکٹروگرام کے ذریعے ہی ماپا جاتا ہے۔ ایک کسی مصوتے یا مصمتے کو شدت سے بولا جائے تو وہاں آواز کی لہریں زیادہ اور قریب قریب بنتی ہیں۔ اور اگر اس کی شدت میں کمی ہو تو وہاں لہروں میں فاصلہ ہوتا ہے۔ اس کا تجریہ موبائل یا کسی وائس رکارڈر آلہ سے کیا جا سکتا ہے۔
سمعیاتی صوت یات پر آج تک کوئی کتاب نہیں لکھی گئی اور نہ ہی اس پر کوئی تحقیقی کام کیا گیا ۔ اس مقالے میں اس کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس شعبے کو مزید تحقیق کی راہوں میں پرکھا جائے۔ اور آنے والے تحقیق کاروں کے لیے راہیں ہموار کی جائیں۔
صوتیاتی آلات:
بلاشبہ صوتیات ایک ایسا علم ہے جو ایک عمل گاہ میں پڑھایا جانا چاہیے۔ اسے بہت سے آلات کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔ اس عمل میں کچھ ضروری آلات کا استعمال ہوتا ہے جن میں چند کے نام اور ان کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے۔
1)سپکٹروگرام:
یہ ایک ایسا آلہ ہے جو آواز کو مانپنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔یہ آلہ اکثر ڈاکٹروں کے پاس موجود ہوتا ہے۔ اس آلے کے ذریعے مسموع اور غیر مسموع آوازوں کا بآسانی پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہکاری اور تھپک دار آوازیں پہچاننا بھی آسان ہوتا ہے۔ اس کی بہت سی اقسام ہیں لیکن سب سے بہترین قسم سونا گراف ہے۔ جس سے نہ صرف آوازوں کی شناخت کی جاتی ہے بل کہ ان آوازوں کے وقت کا تعین بھی کیا جا سکتا ہے۔
2)کائموگراف:
شروع میں یہ آلہ صرف ڈاکٹر ہی استعمال کرتے تھے۔ لیکن بعد میں اسے آوازوں کے مطالعے میں استعمال کیا جانے لگا۔ اس کا طریقہ کار بہت آسان اور عام فہم ہے۔ اس آلے کے ذریعے بھی تمام آوازوں میں فرق قائم کرنا نہایت آسان ہے۔یہ ایک ڈھول نما صندوق ہوتا ہے۔ جس کے اوپر ایک سیاہ چکنا کاغذ نصب کیا جاتا ہے۔ اس کے ایک سِرے پر ربڑ کی ایک نلکی لگی ہوتی ہے جس کے ساتھ ایک سوئی کو جوڑا جاتا ہے۔اس ڈھول کے ساتھ ایک برقی مشین لگائی جاتی ہے۔ جو اسے حرکت دینے میں مدد دیتی ہے۔نلکی کے دوسرے سرے پر ایک لکڑی نصب کر دی جاتی ہے۔ جو کہ منہ میں لگ جاتی ہے۔ بجلی سے برقی مشین کو چلا کر جب انسان بولتا ہے تو سوئی کے ذریعے اس کاغذ پر نشان ثبت ہوتے جاتے ہیں۔ ان نشانات کے سبب تمام تر آوازوں کی پہچان کرنا نہایت آسان ہوتا ہے۔ یہ ایک نہایت سادہ طریقہ ہے۔ اس کے تمام مصوتوں اور مصمتوں کی پہچان کی جاتی ہے۔ترقی یافتہ ممالک نے اس آلے کے مختلف نمونے بنائے ہیں جن کو درج ذیل ناموں سے پکارا جاتا ہے۔
الف: الیکٹروکائموگراف۔ ب: اِنک رائٹر
ج: کروموگراف د: منگو گراف
ہ:آسلو گراف
3)مصنوعی تالو:
اس کی شکل انسانی تالو جیسی ہوتی ہے۔ اسے بھی آواز کے مانپنے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ شروع میں یہ مٹی کے ایک سادہ لیپ کے ذریعے بنایا جاتا تھا۔ جس کے ساتھ ایک برقی مشین لگا کر آوازوں کا تعین کیا جاتا تھا۔ لیکن اب اسے باقاعدہ ایک جدید مشینی شکل دے دی گئی ہے۔اس آلے کے ذریعے بننے والے صوتی نقشوں کو پیلیٹوگرام کہا جاتا ہے۔
4)ایکس رے:
یہ بھی آوازوں کو مانپنے کا ایک جدید آلہ ہے۔ یہ زبان کی پتلی کڑیوں کی بنی ایک دھات ہوتی ہے۔اس سے آوازوں کے تمام تر نقوش کا عکس لیا جاتا ہے۔
ان آلات کے علاوہ بہت سے ایسے آلات ہیں جو آواز کو مانپنے ،اِس کی رفتار جاننے اور ان میں فرق کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔جن میں چند آلات کے نام درج ذیل ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان پر مکمل کام کیا جانا چاہیے تا کہ صوتیات کے اس شعبہ علم میں مزید وسعت آسکے۔
٭پیمانہ دہن(moth measurer)
٭لیرنکس کوپ ٭اینڈ سکوپ
٭پیٹرن پلے بیک ٭پیچ میٹل ٭سپیچ سٹریچ
سمعی صوتیات: (Auditory Phonetics)
صوتیات کا یہ تیسرا اور اہم شعبہ ہے۔ اس شعبے میں کان کے ذریعے آواز کے حصول اور دماغ میں اس کی پروسیسنگ کا مکمل مطالعہ کیا جاتا ہے۔ بلا شبہ اس شعبہ میں صوتیات کو تجربہ گاہ کی اشد ضرورت ہے۔اس شعبے کے حوالے سے ڈاکٹر طارق رحمن لکھتے ہیں:
”سمعی صوتیات کان کے ذریعے آواز کے حصول اور دماغ میں اس کی پروسیسنگ کا نام ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم مطالعہ کرتے ہیں کہ:
1۔آواز کیسے پیدا ہوتی ہے۔
2۔یہ منہ سے کان تک کا سفر کیسے کرتی ہے؟
3۔کان اور دماغ کس طرح اس کا ادراک حاصل کرتے ہیں؟۔“۳۹؎
سمعی صوتیات میں کان کے مکمل کام کرنے اور پھر دماغ میں آوازوں کے امتیاز مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس حوالے سے کچھ نہ کچھ بیان کیا جائے۔ بنیادی طور پر کان کے تین حصے ہوتے ہیں:
1۔بیرونی کان: The outer ear or Pinna
2۔وسطی کان: The Middle Ear
3۔اندرونی کان: The Inner Ear
بیرونی کان
کان کا یہ حصہ سر کے دونوں جانب نمایاں ہوتا ہے۔ جس کا ہدف فضاء میں موجود آوازوں کو پکڑنا ہے جو کہ لہروں کی صورت میں موجود ہوتی ہیں۔ اس بیرونی حصے کے ساتھ ایک نالی جڑی ہوتی ہے جو آواز کی لہروں کو اندر لے جاتی ہے۔ اس نالی کے آخر پر ایک بہت نازک اور باریک پردہ وہتا ہے۔ جسے ایئر ڈرم Ear drum کہا جاتا ہے۔ آواز کی لہریں جب اس سے ٹکراتی ہیں تو اس میں ارتعاش پیدا ہوتی ہے۔یہ ارتعاش آواز کی لہروں کو کان کے درمیانی حصے میں منتقل کرتی ہے۔
درمیانی کان
کان کا درمیانی حصہ آواز کی لہروں کو بیرونی حصے سے ایئر ڈرم Ear drum کے ذریعے وصول کرتا ہے۔ کان کے اس درمیانی حصے میں تین نرم و نازک چھوٹی چھوٹی ہڈیاں ہوتی ہیں۔ جن کے نام یہ ہیں:
١۔ہیمر Hammer ۲۔این وِل Anvil ۳۔اسٹراپ Stirrup
یہ تینوں ہڈیاں ایک دوسرے سے بالترتیب جڑی ہوتی ہیں۔ کان کا پردہ ہیمر Hammer ہڈی سے جڑا ہوتا ہے۔ آواز کی لہریں اس ہیمر ہڈی کے ذریعے دوسری اور پھر تیسری ہڈی میں منتقل ہوتی ہیں۔ ان تینوں ہڈیوں کا کام کان کے پردے پر ہونے والی ارتعاش کو اندرونی کان تک پہنچانا ہے۔ آخری ہڈی اسٹراپ آواز کی توانائی کو مکینیکل توانائی میں بدل دیتی ہے۔ جو کان کے اندرونی حصے میں منتقل ہوتی ہے۔

اندرونی کان
وسطی کان کی تیسری ہڈی کے فوراً بعد کان کا اندرونی حصہ شروع ہو جاتا ہے۔ اسٹراپ ہڈی کے بعد ایک چھوٹی سی خالی جگہ ہوتی ہے۔ اسے اوول ونڈو Oval Window کہا جاتا ہے۔ یہ وسطی اور اندرونی کان کو آپس میں جوڑتی ہے۔ کان کا وسطی حصہ آواز کی لہروں کی شدت میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کے بعد اوول ونڈو میں منتقل کر دیتا ہے۔ آواز کی لہروں میں یہ اضافہ تقریباً بیس گنا بڑھ جاتا ہے۔ اندرونی کان میں ایک پیچ دار حصہ ہوتا ہے جسے کوکلیا (Cochlea) کہا جاتا ہے ۔ جس کے اندر مائع بھری ہوتی ہے۔جو گول اور خمیدہ نالیوں میں موجود ہوتی ہے۔ ان نالیوں میں موجود مائع آواز کی مرتعش لہروں کی شدت کے سبب حرکت کرنے لگتا ہے۔
ان نالیوں میں ہزاروں کی تعداد میں باریک ریشے ہوتے ہیں، جو مکینیکل سگنلز کو الیکٹریکل سگنلز میں تبدیل کرتے ہیں۔ کوکلیا Cochlea سے جڑے آواز کے الیکٹریکل سگنلز کو دماغ تک لے جانے والے عصاب ہوتے ہیں۔ جو سگنلز دماغ تک پہنچاتے ہیں۔ اس طر ح دماغ ان آوازوں میں فرق واضح کرتا ہے۔

صوتیات کی ان شاخوں کے علاوہ خلیل صدیقی نے اپنی کتاب ’’آواز شناسی‘‘ میں مختلف شاخوں کا ذکر کیا ہے جن کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے:
۱۔توضیحی صوتیات:
الفاظ کے مخارج کی ادائیگی اور اس کے طریقہ کار کو توضیحی صوتیات کہا جاتا ہے۔
۲۔طبیعاتی صوتیات:
گفت گو سے پیدا ہونے والی لہروں ، ان کی رفتار، پیمائش اور نوعیت کا مطالعہ طبیعاتی صوتیات کہلاتا ہے۔
۳۔عضویاتی صوتیات:
آوازوں کی ادائیگی کے وقت اعضائے صوت کی نقل و حرکت کے مطالعے کو عضویاتی صوتیات کہا جاتا ہے۔
۴۔تجرباتی صوتیات:
آواز کی رفتار، سُر اور ارتعاش کا مطالعہ تجرباتی صوتیات کہلاتا ہے۔
۵۔آلاتی صوتیات:
وہ تمام آلات جو آواز کو ماپنے ، جائزہ لینے اور اس کی لہروں کی جان کاری کے لیے استعمال ہوتے ہیں ان کا مطالعہ آلاتی صوتیات کہلاتا ہے۔
۶۔تاریخی صوتیات:
مرورِ ایام کے ساتھ ساتھ اصوات میں پیدا ہونے والے تغیرات کا مطالعہ تاریخی صوتیات کہلاتا ہے۔اسے حرکی یا اشتقاقی صوتیات بھی کہا جاتا ہے۔
۷۔سکونی صوتیات:
ایک یا زیادہ زبانوں کا کسی خاص دور کا مطالعہ سکونی صوتیات کہلاتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ خلیل صدیقی صاحب نے باقی ماہرینِ صوتیات کی طرح صوتیات کی تین بنیادی شاخوں کو بھی تسلیم کیا ہے اور ان کا ذکر اپنی اس کتاب میں تفصیلاً کیا ہے، لیکن ان کی مزید تحقیق کے بعد صوتیات کی باقی شاخوں کو متعارف کروانا ایک اہم تحقیقی قدم ہے۔ اگر صوتیات کے سکول میں تحقیق کرنے والے طلباء کوشش کریں تو صوتیات کی ان تمام شاخوں پر بہت سی ضخیم کتب لکھ کر اس علم کو مزید وسعت بخشی جا سکتی ہے۔
چند اہم صوتی اصطلاحات
اس سے قبل کہ صوتی اصطلاحات کو بیان کیا جائے۔ یہ جان لینا ضروری ہے کہ اصطلاح کسے کہتے ہیں۔ اس کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔
مختلف لغات کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتےہیں کہ لفظ ’’اصطلاح‘‘کا مادہ (Root Word) ’’ص ل ح‘‘ہے۔ اس کے لغوی معنی باہم صلاح کرنا، کسی گروہ کا کسی امر پر متفق ہونا وغیرہ ہیں۔
اس لفظ کے اصطلاحی مفہوم یا اس کی تعریف میں مختلف ماہرین نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
بقول ڈاکٹر تنویر حسین:
’’اصطلاح ایسے لفظ کو کہتےہیں جو اپنے حقیقی معنوں کی بجائے کسی علم وفن کے خاص مفہوم کو واضح کرے، اس علم وفن سے وابستہ لوگ ان اصطلاحات کو بخوبی سمجھتےہیں۔‘‘۴۰؎
اصطلاح در اصل ایک مختصر مگر جامع لفظ کو کہا جاتا ہے۔ جس اپنے اندر ایک وسیع اشارہ سمیٹے ہوتا ہے۔جو لوگ علم و فن سے متصل ہوتے ہیں وہ سے بخوبی آشنا ہوتے ہیں۔پروفیسر وحید الدین سلیم اس بارے میں لکھتےہیں کہ:
’’اصطلاحیں دراصل اشارے ہیں جو خیالات کےمجموعوں کی طرف ذہن کو منتقل کر دیتی ہیں۔‘‘۴۱؎
اصطلاح کےلیے انگریزی زبان میں ’’Term‘‘کا لفظ استعمال ہوتاہے جو کہ نہ صرف انگریزی ادب بلکہ سائنسی دنیا میں بھی کافی اہمیت کا حامل ہے۔ اصطلاح درا صل کسی اشارے کانام ہے۔ جوخیالات کےمجموعے کی طرف ذہن کو منتقل کرتا ہے۔ اصطلاح کی تعریف کرتے ہوئے محمد ابوبکر فاروقی لکھتےہیں:
’’اصطلاح سے مراد کسی گروہ کامتفق ہو کر باہمی صلاح مشورے کے بعد کسی لفظ کےمفہوم کی طوالت سے بچتے ہوئے کسی ایک لفظ پر مصلحت اختیار کرتے ہوئے متفق ہونا، اصطلاح سازی کہلاتا ہے۔‘۴۲؎
اصطلاح در اصل جامع ترین الفاظ کامختصر ترین نام ہے۔یہی مصلحت ہی وہ اصطلاح ہے جو طوالت سے بچنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔یہ ایک ارتقائی عمل ہوتا ہے۔اس لیے یہ بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ڈاکٹر انور سدید لکھتےہیں کہ:
’’اصطلاح کامآخذ لفظ ’’الصلح‘‘ہے۔ انگریزی زبان میں اس کا متبادل لفظ Trem (ٹرم) ہے۔ جو لاطینی لفظ Termienum اور یونانی لفظ Termon سے ماخوذ ہے اس سے جرمنی لفظ Terma وضع کیا گیا۔‘‘۴۳؎
اب اگر صوتیات کے حوالے سے اصطلاحات کا ذکر کیا جائے تو بات واضح ہے کہ اردو صوتیات میں اصطلاحات پر بالکل کام نہیں کیا گیا۔ نہ ہی اس سلسلے میں کوئی تحقیقی مقالہ سامنے آیا ہے۔ اردو میں لسانیات یا صوتیات کے موضوع پرلکھی جانے والی کتب میں کہیں کہیں چند ایک اصطلاحات بیان کی گئی ہیں۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اردو کی مختلف صوتی اصطلاحات پرکام کیاجائے تا کہ صوتیات کے طالب علم کےلیے نئی تحقیقی راہیں کھلیں۔
۱۔ سُر:
آواز کی ادائیگی سے جب لفظی معنوں میں تبدیلی کی جائے تو اسے سُر کہا جاتا ہے۔
۲۔ بل:
آواز نکالتے وقت جب کسی ایک صوت رُکن کو دوسرے صوت رکن سے زیادہ نمایاں کر کے بولا جاتا ہے اسے بل کہتے ہیں۔
۳۔ اتصال:
اتصال کا لفظی مطلب ہے ’’باہم ملانا‘‘ اردو میں ایسے الفاظ ملتےہیں کہ ان میں کچھ وقفہ دیا جائے تو معنی ایک بنتے ہیں اور نہ دیا جائے تو دوسرےمعنی نکلتےہیں،مثلاً پی لی ایک معنی۔ پیلی دوسرا معنی۔
۴۔ اقلی جوڑا:
ایسے دو الفاظ جن کی آوازوں میں صرف ایک آواز کو چھوڑ کر باقی سب آوازیں یکساں ہوں تو وہ دونوں الفاظ اقلی جوڑا کہلاتےہیں، مثلاً پُل۔ پَل۔ گلُ۔ گل وغیرہ۔
۵۔ انفیائی:
وہ آوازیں جو ناک سے ادا کی جاتی ہیں۔
۶۔ اعراب:
حرکات (زبر، زیر، پیش وغیرہ) لگا کر لفظ کا صحیح تلفظ واضح کرنا اعراب کہلاتا ہے۔ دراصل یہی حرکات ہی اعراب کہلاتی ہیں۔
۷۔بندشہ:
وہ آوازیں جن کو ادا کرتے وقت ہوا کو روک کر ادا کیاجاتا ہے اس آواز کو بندشہ کہتےہیں۔
۸۔ پہلوئی:
زبان کو جب تالو سے اس طرح لگایا جائے کہ وہاں سے ہوا کا راستہ بند ہوجائے لیکن زبان کے دونوں پہلوؤں سے ہوا نکل سکے، وہ آوازیں پہلوی کہلاتی ہیں مثلا ’’ل‘‘۔
۹۔ تالوی:
وہ آوازیں جو زبان کے سخت تالو سے لگنے کے دوران ادا کی جاتی ہیں۔
۱۰۔ تقطیع:
تقطیع کے لغوی معنی قطع کرنے کے ہیں۔ا صطلاح میں مصرعے کے الفاظ کوقطع کر کے وزن کے ارکان کے برابر لانے کو تقطیع کہا جاتا ہے۔
۱۱۔ تکلم:
یہ اصطلاح کلام سے ماخوذ ہے۔کسی بھی لفظ کی ادائیگی تکلم کہلاتی ہے۔
۱۲۔ تائے تانیث:
یہ عربی زبان سے اردو میں آیا ہے جو صرف ’’ت‘‘ کی آواز دیتا ہے۔ لیکن اس کو لکھنے میں ’’ہ‘‘ پر دو نقطے لگائے جاتے ہیں۔ مثلاً’’ۃ‘‘
۱۳۔ تنوین:
اُردو زبان کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کے ہر لفظ کا آخری حرف ساکن ہوتا ہے جن چند الفاظ کے آخری ’’الف‘‘ پر دو زبر، دو زیر یا دو پیش لگاتے ہیں اور اس سے ’’ن‘‘ کی آواز ادا ہوتی ہے اسے تنوین کہتےہیں۔
۱۴۔ تھپک دار:
جب زبان سے کسی لفظ کی ادائیگی کے وقت کسی آواز کو تھپک دے تو وہ تھپک دار آواز کہلاتی ہے۔
۱۵۔جلوی آوازیں:
زبان کے اگلے حصے سے نکلنے والی آوازیں جلوی آوازیں کہلاتی ہیں۔
۱۶۔ جوفِ دہن:
منہ کا خلا جو حلق سےلبوں تک ہے جومختلف آوازوں کے پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے جوفِ دہن کہلاتا ہے۔

۱۷۔ دندانی/ دنتی/ اسنائی:
وہ آواز جو نچلے ہونٹوں اور اوپری دانتوں کی مدد سے نکالی جاتی ہے۔
۱۸۔ دولبی:
وہ آواز یں جو دو ہونٹوں کی مدد سے نکالی جاتی ہیں۔
۱۹۔دوہرا مصوتہ:
اسے انگریزی میں (Diphthong) کہتے ہیں۔ ایسی آواز جو دومصوتوں کے ملاپ سے اس طرح ادا ہو کہ ایک رکن سمجھی جائیں۔اگر مصوتی خوشے کا تلفظ اس طرح ہو کہ دو آوازیں ایک ساتھ مصوتی شکل میں ادا ہوں تو وہ دوہرا مصوتہ کہلائے گا۔ مثلاً اُو۔ اَو وغیرہ
۲۰۔ رکن:
ہر لفظ کی ادائیگی میں کچھ آوازیں دیگر آوازوں سے زیادہ ممتاز ہوتی ہیں۔ یہ نمایاں آواز رکن کہلاتی ہے مثلاً ’’تِل‘‘ اس میں / ت/ ایک رکن ہے۔
۲۱۔ رگڑی:
ایسی آوازیں جو ہوا کے اعضائے تکلم سے رگڑ کے بعد نکلتی ہیں۔
۲۲۔سلیبل (رکن) Syllable:
آوازوں کا تجزیہ کرنے میں رُکن کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔جب آواز پھیپھڑوں سے نکلتی ہے تو وہ ہوا کے دباؤ سے چند سیکنڈ کے وقفوں میں خارج ہوتی ہے۔ایک مصمتے اور دوسرے مصمتے کے درمیان ہونے والا وقفہ رکن کہلاتا ہے جسے انگریزی میں Syllableکہا جاتا ہے۔
۲۳۔ساق:
لفظ کا وہ حصہ جس میں تعریفی مارفیم جوڑے جا سکیں۔
۲۴۔ صفیری:
ایسی آواز جو منہ کے تنگ راستے سے ایک معمولی سی رگڑ کے ساتھ پیدا ہو صفیری کہلاتی ہے۔
۲۵۔صوتیہ:
کسی بھی آواز کی چھوٹی سے چھوٹی اکائی صوتیہ کہلاتی ہے۔
۲۶۔ صوتی رسم الخط: (International Phonetic Alphabet)
اسے بین الاقوامی صوتیاتی رسم الخط کہا جاتا ہے۔ تحریر کے طریقہ یا زبان کے تقریری تلفظ کو مؤثر بنانےکے لیے یورپی ماہرین لسانیات نے ایک بین الاقوامی صوتیاتی رسم الخط تیار کیا ہے۔
۲۷۔ صوت تانت (Vocal Cards):
انھیں صوتی تار بھی کہا جاتا ہے ۔یہ آواز کے پیدا کرنے میں بنیادی اکائی کے حامل ہوتے ہیں۔جب آواز پیدا ہوتی ہے تو ان میں ارتعاش پیدا ہوتی ہے۔
۲۸۔غیر مسموع:
ایسی آواز جس کے ادا کرنے میں صوت تانت میں ارتعاش پیدا نہ ہو۔
۲۹۔ فونیم:
ایسی آواز جس کومزید تقسیم نہ کیا جا سکے فونیم کہلاتی ہے۔
۳۰۔فوق قطعی فونیم:
کسی بھی زبان میں سُر، لہر اور اتصال ایسی چیزیں ہیں جن کے معنی بدلتے رہتےہیں۔ ان کو فوق قطعی فونیم کہتے ہیں۔
۳۱۔قطعی فونیم:
مصوتے، مصمتے اورنیم مصوتے قطعی فونیم کہلاتے ہیں۔
۳۲۔ فونیمیات:
اسے فونو لوجی بھی کہا جاتا ہے ۔کسی مخصوص زبان کی صوتیات کا تعین فونیمیات کہلاتا ہے۔
۳۳۔فونیات:
یہ آوازوں کا سائنٹیفک مطالعہ ہے اس میں الفاظ کے تلفظ سے بحث کی جاتی ہے۔
۳۴۔ لثوی:
زبان کی نوک اور اوپری دندان کےمسوڑھوں سے نکلنے والی آواز لثوی کہلاتی ہے مثلاً ن۔
۳۵۔ مصمتہ:
وہ آواز جو ہوا کی نالی میں رگڑ یا ہوا کی رکاوٹ سے پیداہوتی ہے مثلاً بِل۔ چَل وغیرہ۔
۳۶۔ مصوتہ:
وہ آواز جو سانس کی نالی میں بغیر کسی رگڑ کےپیدا ہو مثلاً آ۔ آؤ وغیرہ۔
۳۷۔ مدوّر:
وہ آوازیں جو ہونٹوں کو گول کر کے ادا کی جاتی ہیں۔مثلاً وہ ، تو وغیرہ۔
۳۸۔غیر مدوّر:
وہ آوازیں جن کو ادا کرتے وقت ہونٹ پھیلے ہوئے ہوں، وہ غیر مدوّر آوازیں کہلاتی ہیں۔مثلاً ’’اے‘‘، ’’آ‘‘وغیرہ۔
۳۹۔ مسموع:
ایسی آواز جس کے ادا کرنے میں صوت تانت میں ارتعائیں پیدا ہو مسموع آوازیں کہلاتی ہیں اردو زبان کے تمام مصمتےمسموع ہیں۔
۴۰۔ معکوسی:
ایسی آوازیں جو زبان کی نوک سے اس طرح ادا ہوتی ہیں کہ زبان کو ارتعاش سی پیدا ہوتی ہے مثلاً ٹ۔ ڈ۔ ڑ وغیرہ پیچھے دھکیلتے ہوئے۔
۴۱۔ مماثل جوڑا:
دو ایسے ہم آواز الفاظ جن کے املا میں صرف اور صرف ایک حرف کا فرق ہو مگر آواز ایک جیسی ہو، مماثل جوڑا کہلاتے ہیں۔ مثلاً چال، ڈھال وغیرہ۔
۴۲۔ مصوتی تسلسل:
الفاظ کے شروع، درمیان یاآخر میں ایک زیادہ مصوتے ایک ساتھ آئیں تو یہ مصوتی تسلسل کہلاتے ہیں، مثلاً آئین۔ سوئی۔ آؤ ۔وغیرہ
۴۳۔ مصمتی خوشے:
جب الفاظ کے شروع میں یاان کے آخرمیں دو یازیادہ مصمتے ایک ساتھ اس طرح تلفظ ہوں کہ ان کے درمیان کوئی مصوتہ نہ ہو تو ایسے مصمتے مصمتی خوشے کہلاتے ہیں، مثلاً ٹرک۔ قدر وغیرہ۔
۴۴۔ مسدودہ:
ایسی آوازیں جنھیں ادا کرتے وقت جوفِ دہن میں کہیں رکاوٹ پیدا ہو، وہ مسدود آوازیں کہلاتی ہیں۔ مثلاً پھل وغیرہ۔
۴۵۔غیر مسدود:
ایسی آوازیں جنھیں ادا کرتے وقت جوفِ دہن میں کہیں رکاوٹ پیدا نہ ہو ، غیر مسدود آوازیں کہلاتی ہیں۔مثلاً آؤ، آئے وغیرہ۔

۴۶۔ علامت:
صوتی آوازوں کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہونے والے نشانات کو علامت کہا جاتا ہے۔
۴۷۔ نیم مصوتہ:
جب آواز نہ تو مصمتے کی طرح رگڑ کھا کر نکلتی ہے اورنہ ہی مصوتے کی طرح بغیر رگڑ کے،اس آواز کو نیم مصوتہ کہتےہیں۔ اردو میں صِرف دو نیم مصوتےہیں و، ی۔
۴۸۔ نون غنہ (ن):
یہ انفی مصوتہ ہے جو کہ بغیر نقطے کے استعمال ہوتا ہے ’’ں‘‘۔
۴۹۔ ہکاری:
کسی آواز کی ادائیگی کے وقت منہ سے آنے والی ہوا کے جھونکے سے باہر نکلنے والی آواز ہکاری کہلاتی ہے مثلاً بھ۔ تھ۔ کھ وغیرہ۔
۵۰۔ ہمزہ:
ہمزہ دراصل عربی زبان کا مصوتہ ہے۔ جب دو مصوتے ’’و‘‘ اور ’’ی‘‘ ایک ساتھ آ جائیں تو ان پر ہمزہ لگایا جاتاہے۔
۵۱۔ہم صوت حروف:
ایسے حروف جن کی آواز تو ایک جیسی ہوتی ہے مگر ان کا املا ایک جیسا نہیں ہوتا، مثلاً ت۔ ط۔ س۔ ث۔ ص وغیرہ۔
اُردو صوت پر دوسری زبانوں کے اثرات اور اردوکا صوتی طریقۂ تدریس
قطع نظر اس کے کہ اردو زبان کی ابتداء کہاں سے ہوئی، اردو لفظ کس سے نکلا۔ کن کن ناموں سے پکارا گیا وغیرہ وغیرہ اردو صوت پر مختلف زبانوں نے اپنے اثرات مرتب کیے۔ اگر تحقیقی جائزہ لیا جائے تو اردو کا نظامِ صوت بین الاقوامی اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں بہت سی دوسری زبانوں کے الفاظ شامل ہیں جن میں عربی، انگریزی، ترکی، فارسی کے علاوہ مقامی بولیوں کے الفاظ بھی شامل ہیں۔ ہندوستان میں ایک عرصے تک فارسی زبان کا رعب ودبدبہ رہا۔ اس زبان کو سیکھنے والوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ آج جہاں اردو میں فارسی زبان کے الفاظ کی ایک کثیر تعداد موجود ہے وہاں اردو زبان فارسی کے صوتی نظام اور صرف ونحو سے بھی متاثر نظر آتی ہے۔
اس بات میں قطعی شک نہیں کہ اردو زبان اپنا انفرادی صوتی نظام رکھتی ہے۔ یہ زبان بین الاقوامی مزاج کی حامل ہے۔ جہاں تک اردو پر دوسری زبانوں کے صوت کا تعلق ہے تو الفاظ کے ارتباط اور اختلاف کا یہ ہر گز معانی نہیں کہ یہ اپنے صوتی نظام کے سلسلے میں دوسری زبانوں سے مرعوب ہے۔ الفاظ کی بناوٹ، ساخت اور ادائیگی میں اپنا انفرادی مقام رکھنے والی اردو زبان بین الاقوامی سطح کے صوتی اصولوں کی حامل ہو چکی ہے۔
اردو اصوات پر عربی ،فارسی کے اثرات
بلا شبہ اردو ہند آریائی زبان ہے۔ اس نے باقی زبانوں ترکی، انگریزی، ہندی اور سنسکرت کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی زبان کے اثرات بھی قبول کیے ہیں۔ انہی اثرات کی وجہ سے مخلوط زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ چوں کہ اس زبان پر مختلف زبانوں کے اثرات ہیں، اس وجہ سے یہ مختلف قوموں کی مشترکہ تہذیب کی علامت ہے۔
اگر تاریخی حوالوں سے دیکھا جائے تو اردو سنسکرت کی ترقی یافتہ شکل اپ بھرنش پر پڑنے والے اثرات کے نتیجہ میں وجود میں آئی۔ یہ اثرات عرب، فارس اور ترک وغیرہ کے باہمی میل جول سے مرتب ہوئی۔ اس طرح اردو نے عربی اور فارسی زبان کے نہ صرف صوتی بلکہ صرفی و نحوی اثرات کو بھی وسیع پیمانے پر قبول کیا۔ ہمار اہدف ان زبانوں کے صوتی اثرات کا جائزہ لینا ہے۔
اردو حروف تہجی میں کافی حرف خالص عربی اور فارسی ہیں جن میں خ۔ز۔ف۔ق۔غ۔ ان کے علاوہ ”ژ“خالص فارسی زبان سے ماخو ذہے۔ اور یہ اردو زبان کا مستقل حصہ بن چکی ہے۔ اردو صوت یات میں استعمال ہونے والی معکوسی آوازیں ٹ،ڈ،ڑ خالص دراوڑی ہیں۔ اردو رسم الخط بھی عربی و فارسی سے مستعار لیا گیا ہے۔ اردو کے صوتی نظام کو فارسی اور عربی کے صوتی نظام کے تحت ڈھالا گیا ہے۔ اردو صوتی نظام پر عربی فارسی کے اثرات کو درج ذیل پہلوؤں کے تحت دیکھا جا سکتا ہے:
1۔ عربی اور فارسی کے ذریعے کچھ خالص آوازیں جو خاص ان دو زبانوں سے مستعار لی گئیں، ان میں (خ۔ز۔ف۔ق اور غ) ہیں۔ یہ آوازیں انہی دو زبانوں سے براہِ راست لی گئی ہیں۔
2۔ ”ژ“ خالص فارسی آواز ہے ۔جو اردو کے صوتی نظام کا حصہ بنی۔
3۔ معکوسی آوازیں (ٹ۔ڈ۔اور ڑ) وغیرہ خالص دراوڑی ہیں۔ جو اردو میں مستعمل ہوئیں۔
4۔ ہاکاری آوازیں خالص دیسی آوازیں ہیں جو اردو زبان میں مستعمل ہیں۔
صوتی طریقۂ تدریس
آج اگر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی زبانوں کے نصاب اور قومی زبان کے طریقۂ تدریس پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان سب کا ابتدائی مرحلہ زبان سکھانے کا یہ ہے کہ وہاں بچے کو سب سے پہلے مختلف طریقوں سے حروف کی شناخت کرائی جاتی ہے۔ پھر ان کے بولنے میں مختلف اصول سکھائے جاتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ویڈیو کی شکل میں ادائیگی کا انداز سکھایا جاتا ہے کہ کس حرف کو کس طرح ادا کرنا ہے۔ پھر ہر حرف کی علیحدہ شناخت کرائی جاتی ہے۔ حروف کی گروپ بندی کی جاتی ہے۔ حروف صحیح اور حروفِ علت کی جان کاری سکھائی جاتی ہے۔ اس کے بعد جڑواں حروف اور ان کی ادائیگی کا مرحلہ آتا ہے۔ اس طرح ابتداء ہی سے بچے کو نہ صرف حرف ولفظ سے آشنائی ہوتی ہے بل کہ صوت شناسی کا بھی مرحلہ اس کے ساتھ ہی مکمل کرلیا جاتا ہے۔
اس طرح مختلف آواز کے الفاظ کی گروہ بندی کی جاتی ہے۔ ان الفاظ میں پھر حروفِ صحیح اور حروفِ علت یعنی مصوتے اور مصمتے کی نشان دہی کر کے بچوں سے مختلف سوالات پوچھے جاتے ہیں۔اس طرح مختلف مصوتوں سے بننے والے الفاظ کو علیحدہ اور مصموتوں سے بننے والے حرف کی علیحدہ درجہ بندی کی جاتی ہے۔ تا کہ بچے اس سطح پر ہی مکمل عبور حاصل کر سکیں۔
اس مرحلے کے بعد گروہی شکل میں بچوں کو ان کی سطح کا تحقیقی کام سونپا جاتا ہے۔ سب سے پہلے ان کو مختلف الفاظ ایک پرچے پر لکھ کر دیے جاتے ہیں اور وہ گروہ کی شکل میں مشاورت کے بعد ان کی نشان دہی کرتےہیں۔ اس کے بعد نشان زدہ الفاظ کی وہ گروہی شکل میں فرداً فرداً توضیح پیش کرتےہیں۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں تو یہ کام بہت آسان ہو چکا ہے۔ مختلف زبانوں کے صوتی نظام کی ویڈیوز بنا کر زبان شناسی کے ابتدائی طالب علم کو دکھائی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رہنمائی کے لیے ماہر صوت شناسی اور ایک قاعدہ دیا جاتا ہے۔ جس سے وہ مزید رہنمائی حاصل کر کے اس ابتدائی سطح پر ہی صوتی نظام سے آگہی حاصل کر لیتا ہے۔ اور اس طرح اسے زبان کے صوت پر ابتداء ہی سے مکمل عبور حاصل ہو جاتا ہے۔
انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ سب کچھ ہماری قومی زبان کےلیے نہیں کیا جا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اس چھوٹے سے ملک میں اردو زبان ہر علاقے میں اپنا خاص لہجہ رکھتی ہے۔ ہر صوبے میں اردو بولنے والوں کا اپنا ایک مخصوص لہجہ ہے۔ الفاظ کی ادائیگی اور اس کے صوتی نظام کا قطعی خیال نہیں رکھا جاتا۔ ہمارے ہاں شاید اردو کا مقصد صرف اپنے خیالات دوسرے تک منتقل کرنا ہے۔ لیکن اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ اردو ہماری قومی ومادری زبان ہے اس کا اسی طرح خیال رکھنا ضروری ہے جس طرح ہم اپنے جسم اور تہذیب کا خیال رکھتے ہیں۔
ایک اور مسئلہ جو شدید حد تک خطرناک ثابت ہو رہا ہے وہ ہمارے مختلف اداروں کی بھر مار ہے۔ جس کا جو جی چاہے کرتا پھرے۔ سکول کھول کر اپنے من کا نصاب متعارف کروانا ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔ سرکاری سطح پر کسی قسم کی پوچھ گچھ نہیں ہے۔ نہ ہی کوئی مناسب نظام متعارف کرایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہماری زبان ذاتی طور پر بہت سےخوب صورت الفاظ کو کھو چکی ہے۔ اور اس میں مختلف زبانوں اور بالخصوص انگریزی الفاظ کی بھرمار ہے۔ شایدہی پاکستان میں اردو بولنے والا ایسا ہو جو انگریزی الفاظ کا کم ترین استعمال کرے۔ ورنہ ہماری زبان میں انگریزی کے الفاظ مسلسل جگہ لیتے جا رہےہیں اور اگر یہی حالت رہی اور اس کا مناسب سدِّباب نہ کیا گیا تو ہماری اس قومی زبان کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لہٰذا اس سلسلے میں حکومتی سطح پر منصوبہ بندی کرنا از حد ضروری ہے۔
باقی جہاں تک اردو کے صوتی نظام کا تعلق ہے تو اگر اس سلسلے میں بھی علمائے سخن محنت وکوشش کریں تو یہ بہتر ہو سکتا ہے۔ اردو ہماری قومی زبان ہے لیکن اس کی صوتیات پر پاکستان میں کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ اردو کے طریقۂ تدریس پر مختلف علمائے اردو نے کتب لکھ ڈالیں لیکن اس کے صوتی طریقۂ تدریس پر آج تک کسی نے خامہ فرسائی کرنے کی تکلیف ہی نہیں کی اور نہ ہی اس کے اصول مرتب کیے گئے۔ میری دانست کے مطابق کسی یونی ورسٹی میں آج تک کوئی ایسا تحقیقی کام کیا ہی نہیں گیا۔ نہ ہی اہل زبان نے شاید آج تک اس طرف کسی کی توجہ مبزول کرائی ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اردو کے صوتی نظام یا صوت شناسی پر مختلف ناموں سے مختلف کتب شائع ہو چکی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر ان تمام کتب کا مطالعہ کر لیں بس ایک ہی لکیر کو پیٹا جا رہا ہے ہم آج تک مصوتوں اور مصموتوں کی بحث سے باہر ہی نہیں نکل پائے۔ جو کتاب صوت شناسی سے متصل موضوع پر اُٹھا کر دیکھی، لیکن ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں اس سلسلے میں بہت کچھ کام ہو چکاہے۔ اس سلسلے میں وہاں نہ صرف ہندی بلکہ اردو کے صوتی نظام پر بہت سی کتب لکھی جا چکی ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر گیان چند، ڈاکٹرگوپی چند اور ان جیسے اردو دانوں نے بہت کام کیا ہے۔
اعضائے تکلم
اعضائے تکلم وہ تمام اعضاء ہیں جن سے جو آواز کے پیدا کرنے میں ممد و معاون ہوتے ہیں۔ اعضائے تکلم کو عضویاتِ صوت یا اعضائے نطق بھی کہا جاتا ہے۔ پھیپھڑوں سے لے کر ہونٹوں تک انسانی جسم کےمختلف اعضاء ہیں جو ہوا کی رکاوٹ یا رگڑ کے ذریعے آواز پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، ان اعضاء کے بغیر آواز پیدا کرنا ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان اعضاء کو غیر معمولی صلاحیت عطا فرمائی ہے۔

علمائے صوتیات نے ان اعضاء کے بارے میں مختلف انداز سےا پنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
ڈاکٹر اقتدار حسین نے ان کی تعداد پندرہ بتائی ہے جو کہ درج ذیل ہیں:
۱۔ہونٹ ۲۔ مسوڑھے ۳۔ بانسہ ۴۔ انفی جوف ۵۔ سخت تالو
۶۔ نرم تالو ۷۔ لہات (کوا) ۸۔ حلقوم ۹۔ زبان ۱۰۔ دانت
۱۱۔ حلق پوش ۱۲۔ غذا کی نالی ۱۳۔ حنجرہ ۱۴۔ صوت تانت۱۵۔ سانس کی نالی۔۴۴؎

ڈاکٹر اقتدار حسین صاحب نے اعضائے تکلم کی تعداد پندرہ بتائی ہے۔انہوں نے باقی ماہرینِ صوتیات کی بہ نسبت کچھ اعضاء کو ان اعضاء میں شامل کیا ہے۔ جن میں نرم لہات،غذا کی نالی وغیرہ شامل ہیں۔
جب کہ اس کے برعکس ’شمشاد زیدی‘‘ نے اعضائے صوت کی تعداد نو بتائی ہے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
’’۱۔ بالائی لب ۲۔ نچلا لب ۳۔ بالائی دندان
۴۔ نچلے دندان ۵۔ زبان ۶۔ تالو
۷۔ لہات ۹۔ حلقوم۔ ‘‘۴۵؎
شمشاد زیدی اردو صوتیات کا ایک معتبر نام ہے۔ انہوں نے اعضائےتکلم کی تعداد سب سے کم بتائی ہے۔ انہوں نے جو اعضاء بتائے ہیں باقی ماہرین نے ان کی تصدیق کرتے ہونے انہیں تسلیم کیا ہے۔
خلیل صدیقی نے ان اعضاء کی تعداد تیرہ لکھی ہے:
’’۱۔ ہونٹ ۲۔ دانت ۳۔ اوپری مسوڑے
۴۔ سخت تالو ۵۔ نرم تالو ۶۔ لہات
۷۔ لسانی پھل (بلیڈ) ۸۔ زبان کا اگلا حصہ ۹۔ زبان کی جڑ
۱۰۔ حلقوم ۱۱۔ لسانی المزمار ۱۲۔ صوتی لب
۱۳۔ نوکِ زبان۔‘‘۴۶؎
خلیل صدیقی نے لسانی المزمار اور نوکِ زبان کو اعضائے صوت کا حصہ مانا ہے۔ انہوں نے ان اعضاء کی تعداد تیرہ بتائی ہے۔ماہرلسانیات وصوتیات ڈاکٹر گیان چند نے ان تمام اعضاء کو تفصیلاً بیان کیا ہے، انہوں نے ان اعضاء کی تعداد بائیس لکھی ہے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
’’۱۔ نچلاہونٹ ۲۔ اوپری ہونٹ ۳۔ نچلے دانت
۴۔ اوپری دانت ۵۔ نوک زبان ۶۔ زبان کا پھل
۷۔ وسط زبان ۸۔ زبان کا پچھلا حصہ ۹۔ بیخ زبان
۱۰۔ اوپری مسوڑہ ۱۱۔ سخت تالو ۱۲۔ نرم تالو
۱۳۔ کوا یا لہات ۱۴۔ خلائے بینی ۱۵۔ حلق
۱۶۔ کنٹھ کا ڈھکنا ۱۷۔ صوتی تار ۱۸۔ صوتی تاروں کا دہانہ
۱۹۔ حنجرہ ۲۰۔ سانس کی نالی ۲۱۔ کھانے کی نالی
۲۲۔ ٹیٹوا۔‘‘۴۷؎

ڈاکٹر گیان چند نے اعضائے صوت کو تفصیلی بیان کیا ہے۔ انہوں نے بہت سے ایسے اعضاء جو باقی ماہرینِ لسانیات کے نزدیک اہمیت نہیں رکھتے انہیں بھی اس میں شامل کیا ہے۔
اس بابت ڈاکٹر محبوب عالم نے لکھا ہے کہ اعضائے نطق کی کل تعداد بیس ہے۔ انہوں نے خوب صورت تصاویر کے ساتھ ہر عضو کی تفصیل بھی بیان کہ ہے، اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
’’۱۔ انفی کوزہ ۲۔ حنکی محراب ۳۔ غشائی محراب
۴۔ نتھنا ۵۔ دندان (بالائی) ۶۔ لب (بالائی)
۷۔ انفی جوف ۸۔ نوکِ زبان ۹۔ لب (زیریں)
۱۰۔ دندان (زیریں) ۱۱۔ وسطِ زبان ۱۲۔ لثہ
۱۳۔ پشت زبان ۱۴۔ لہات ۱۵۔ حلقوم
۱۶۔ حلق پوش ۱۷۔ حنجرہ ۱۸۔ نرخرہ
۱۹۔ صوتی پردے۔‘‘۴۸؎
درج بالابحث یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ صوتیات میں اعضائے تکلم کو اساسی حیثیت حاصل ہے۔ہر ایک نے اپنے انداز اور تحقیق کی بدولت ان کی تفصیل بیان کی ہے۔
آواز کیسے نکلتی ہے؟
ہوا جب پھیپھڑوں سے نکلتی ہے تومنہ تک مختلف اعضاء سے رگڑ کھاتی ہوئی آواز پیدا کرتی ہے۔ بلاشبہ پھیپھڑوں سے ہونٹوں تک تمام اعضاء بالواسطہ یا بلا واسطہ آواز کے پیدا کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ گفتگو کرنے سے قبل دماغ کسی خیال کو جنم دیتاہے۔ پھر وہی خیال الفاظ کے پیکر میں ڈھل کر اعضائے تکلم تک منتقل ہوتا ہے۔ اس طرح اعضائے تکلم میں ارتعاش پیدا ہوتی ہے۔ آواز کی ادائیگی کے لیے ہوا کی ضرورت ہوتی ہے جو پھیپھڑوں سے حلق اور پھر حلق سے منہ یا ناک کے راستے سے باہر نکل جاتی ہے۔ اس دوران اگر ہوا کو روکا جائے یا ہوا رگڑ کھائے یا ہوا کے راستوں کو گھٹایا یا بڑھایا جائے تو اس عمل سے مختلف قسم کی آوازیں پیدا ہوتی ہیں، یہ آوازیں ایک خاص نظام کے تحت پیدا ہوتی اور کام کرتی ہیں۔
ہوا جب پھیپھڑوں سے نکلتی ہے تو یہ ہوا کی نالی میں داخل ہوتی ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ آواز اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہوا پھیپھڑوں سے باہر نکلتی ہے۔ نہ کہ پھیپھڑوں میں داخل ہوتے وقت۔ سانس کی نالی کے آخر پر ایک بکس نما عضو ہوتا ہے جسے حنجرہ کہتے ہیں۔ جو ہوا پھیپھڑوں میں آتی ہے یا یہاں سے باہر جاتی ہے وہ حنجرہ سے گزر کر باہر جاتی ہے۔ حنجرہ میں دو تانت ہوتےہیں جنہیں صوت تانت کہا جاتا ہے۔ صوت تانت دراصل دو پردے ہیں جن کی مدد سے ہوا کو باہر نکالنے یا داخل کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔ جو آوازیں حنجرہ سے نکلتی ہیں ان تمام آوازوں کو حنجری آوازیں کہا جاتا ہے۔ جب صوت تانت بند ہو جاتے ہیں تو یہاں آواز پیدا ہوتی ہے۔ صوت تانت کو صوت لب بھی کہہ سکتےہیں۔ صوت تانت آواز کو پیدا کرنےمیں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تمام مسموع اور غیر مسموع آوازیں صوت تانت کی مدد سےپیدا ہوتی ہیں۔ جب حلق کھلتاہے تو صوتی تانت علاحدہ علاحدہ رہتے ہیں۔اصل صوت تانت کے ساتھ دو مصنوعی صوت تانت بھی ہوتےہیں آواز نکلتے وقت اگر صوت تانت کپکپائیں تو مسموع آواز نکلتی ہے۔ جب کہ صوت تانت بغیر کپکپائے کوئی آواز نکالیں تو ان آوازوں کو غیر مسموع کہا جاتا ہے۔
فوق حلقی اعضائے صوت
حلق سے اوپر کے تمام اعضائے صوت کو فوق حلقی اعضائے صوت کہا جاتاہے۔ یہاں سے ہوا کے خارج ہونے کے لیے دو راستےہوتےہیں اور ان دونوں راستوں کے موجود اعضاء آواز کے پیدا کرنے میں اہم ترین کردار ادا کرتےہیں۔ حلق سے اوپر سب سے پہلے حلقوم آتا ہے۔ جو کہ ایک جوف ہے۔حلقوم وہ حصہ ہے جو حنجرہ کے اوپرہے اور یہ انفی جوف سے متصل ہے۔ اس کا کام ہوا میں ارتعاش پیدا کرنا ہے۔ حلقوم کی مدد سے حلق سے آنے والی ہوا میں ارتعاش پیدا ہوتی ہے۔ حلقوم سے دو راستے جُڑے ہوتےہیں جو راستہ منہ کی طرف کھلتا ہے اسے دہنی جوف اور جو راستہ ناک کی طرف کھلتا ہے اسے انفی جوف کہا جاتا ہے۔ ان دونوں کے اعضاء کے نام درج ذیل ہیں:
۱۔ انفی جوف:
جو ہوا ناک کے راستے سے گزرتی ہے تو وہاں پر موجود اعضاء مختلف طریقوں سے آواز پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرتےہیں وہ اعضاء یہ ہیں:
۱۔ انفی جوف ۲۔ انفی حلقوم ۳۔ نرم تالو (اوپری)
۴۔ نرم تالو (نچلا) ۵۔ دہنی حلقوم
۲۔ دہنی جوف:
دہنی جوف وہ حصہ ہے جو حلقوم سے ہوا کو منہ کے راستے سے نکلنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ یہاں پر موجود تمام تر اعضاء آواز پیدا کرنے میں مدد فراہم کرتےہیں۔ ان اعضاء کی فہرست درج ذیل ہے:
۱۔ لثوی قوس ۲۔ لہات کوا ۳۔ عقب زبان
۴۔ زبان کی جڑ ۵۔ حلقومی جوف ۶۔ تیغا زبان
۷۔ نوکِ زبان ۸۔ لبی جوف ۹۔ ہونٹ
۱۰۔ دانت
الغرض اعضائے صوت مختلف انداز سے آواز کےپیدا کرنے میں معجزاتی صلاحیت کےمالک ہیں۔ اللہ رب العزت نے ان اعضاء کو کمال نظم عطا فرمایا ہے۔ صوتیات میں صرف وہ انسانی آوازیں شامل کی جاتی ہیں جو اعضائے صوت کے ذریعے اپنا مدعا بیان کرنے میں اہمیت کی حامل ہوں۔
بلاشبہ انسان کے منہ سے ممکنہ تمام موٹی آوازیں دنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ’’س‘‘ یہ آواز دنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں شامل ہے۔ لیکن کچھ آوازیں ایسی ہیں جو دنیا کے کسی خطے میں بولی جاتی ہیں جن میں ت، پ، ر، ح اور خ کی آوازیں شامل ہیں لیکن اس سلسلے میں زبانوں کے خاندانوں کا مطالعہ ضروری ہے۔ پھر ایک خاندان کی زبانوں میں مشترک حروف اور آوازوں کا مطالعہ یا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ آواز کی ادائیگی کے سلسلے میں پروفیسر سید محمد سلیم یوں لکھتے ہیں:
’’ہر حرف کسی نہ کسی آواز کی نمائندگی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تحریر کی ابتداء بتدریج ہوئی۔ پہلے انسان نے تفریح کے طور پر تصویریں بنانا شروع کی اور اس کے ذریعہ مفہوم ادا کرنے کی کوشش کی۔ خاکہ نگاری سے بات نقوش تک جا پہنچی۔ اس سے مزید ترقی کرکے انسان کے حلق سے نکلنے والی آوازوں کے لیے نقوش مقررکرلیے۔‘‘۴۹؎
ان اعضائے تکلم سے لا تعداد آوازیں نکل سکتی ہیں۔ یہ خدائے بزرگ وبرتر کی عطا کردہ ایک بے مثال صلاحیت ہے کہ انسان ان اعضاء سے بے شمار آوازیں نکالنے کی مہارت رکھتا ہے لیکن اردو میں جن آواز کو زیر مطالعہ لایا جاتا ہے ان کی تعداد تقریباً چھیاسٹھ ہے۔ اس ضمن میں خلیل صدیقی لکھتےہیں کہ:
’’اردو کے صوتی نظام میں ان گنت آوازیں ہیں لیکن جن آوازوں کا باآسانی ترجمہ ممکن ہے ان کی تعداد چھیاسٹھ (۶۶) ہے۔ اس تعداد میں وہ آوازیں بھی شامل ہیں جو لسانی ماحول سے متاثر ہو کر اپنے میں لائی ہوئی اہم تبدیلیوں کی بناء پر پہچانی گئی ہیں۔‘‘۵۰؎
اب ہم اعضائے صوت کا الگ الگ جائزہ لیتےہیں اور ان کی کارکردگی پر نظر ڈالتے ہیں۔
حروف وکلمات کی ادائیگی انسان کے اعضائے تکلم سے تعلق رکھتی ہے۔
یہ اعضاء درج ذیل ہیں
۱۔ پھیپھڑے:
یہ دراصل دو حصوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان کی شکل لوبیا کی طرح ہوتی ہے۔ یہ سینے کے اندر موجود ہوتےہیں۔ دراصل یہ سانس لینے کا عمل سر انجام دیتےہیں۔ یہ ہوا کا ذخیرہ ہوتےہیں۔
سانس لینے کے عمل کے دوران ہوا پھیپھڑوں کے اندر جاتی ہے اور سانس خارج ہوتےہوئے یہ ہوا باہر نکل جاتی ہے۔ اس عمل کو تنفس کہا جاتاہے۔ہوا کے خارج ہوتے وقت الفاظ کی ادائیگی عمل میں آتی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بجا ہو گا کہ آواز کے پیدا ہونے کا اصل ترین عنصر ہوا ہےجو اعضائے تکلم سے گزرتے وقت آواز کی لہروں کو ایجاد کرتا ہے۔
حلقوم یا نرخرہ:
حلقوم یا نرخرہ آواز کے پیدا کرنے میں پیچیدہ ترین عضو ہے۔ نرخرے کےاندر آواز کے تار موجود ہوتےہیں جب ہوا یہاں سے گزرتی ہے تو تاروں میں ارتعاش پیدا ہوتی ہے۔ آواز کے یہ تار دراصل دو عضلاتی پردےہیں۔ یہ بہت نازک اور باریک مگر کشادہ اور افقی صورت میں نرخرے کے اندرموجود ہوتے ہیں۔ اس تصویر میں موجود آواز کے تاروں کا اچھی طرح مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ آواز کے تار کاکام یہ ہے کہ یہ الفاظ کی ادائیگی کے وقت مسلسل کھلتے اور بند ہوتےہیں یا دوسری صورت میں جب ہواپھیپھڑوں سے خارج ہوتی ہے تو نرخرے سے گزرتے وقت ان تاروں کو ارتعاش میں لاتی ہے۔ جس کی وجہ سے آواز پیدا ہوتی ہے۔
حلق:یہ وہ خالی فضاء ہے جس کا نچلا حصہ نرخرے سے شروع ہوتا ہے اور اوپری حصہ حلق کے کوے تک چلا جاتا ہے۔ حلق بہت سی آوازوں کے پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
حلق پوش:یہ زبان کی شکل کا ایک چھوٹا سا والو (Valve) ہے جو حنجرے کے اوپر واقع ہوتا ہے۔ یہ چیزوں کو نکلنے سے روکتا ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ حلق پوش کسی تکلمی آواز کو ادا کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا۔
زبان:
یہ گوشت کا ایک نرم عضو ہے جس میں حرکت اور ارتعاش کی معجزانہ صلاحیت موجودہے۔ الفاظ کی ادائیگی، اتار چڑھاؤ اور تلفظ میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔
زبان کے مختلف حصے

زبان کاکونہ:
اسے عربی میں" طرف اللسان "کہتےہیں۔زبان کا یہ حصہ مختلف قسم کی حرکتوں کے ذریعے الفاظ کی ادائیگی کا سبب بنتا ہے۔
زبان کا درمیانی حصہ:
اسے عربی میں "وسط اللسان "کہتےہیں۔ یہ حلق میں سخت تالو کو چھوتا ہے۔
زبان کا پچھلا حصہ:
یہ زبان کا سب سے پچھلا حصہ ہے۔ یہ حصہ نرم تالو کو چھوتا ہے۔ اس حصے کا آواز نکالنے میں اہم کردار ہے۔ یہ حصہ ہوا کو روکنے اور راستہ دینے میں بھی اہم کردار ادا کرتاہے۔

لب:
ہونٹ الفاظ کی ادائیگی میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہونٹوں کی مختلف حرکات کے ذریعے بعض الفاظ ادا ہوتےہیں۔ اور اس کے علاوہ الفاظ کو منظم اور لطیف کرنےمیں بھی ہونٹوں کا اہم کردار ہے۔ ہونٹ ایک دوسرے سے چپک کر ہوا کو روکنے میں مدد فراہم کرتےہیں اس کے علاوہ یہ ہوا کو رگڑ کے باہر نکالنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے سے مل کر گول ہو سکتےہیں اور پھیل بھی جاتےہیں۔

خیشوم:
ناک کے اوپر سانس کی نالی کو خیشوم کہتےہیں۔ خیشوم کا ایک حصہ ناک کے سوراخ سے شروع ہوتا ہے اس کا دوسرا حصہ حلق سےملتا ہے۔ ہوا خیشوم سے گزرتی ہے۔ یہاں سے ہوا کا گزرنا آواز کے پیدا ہونے کا سبب بنتا ہے۔
دانت:
کچھ آوازیں ایسی ہیں جن کی ادائیگی دانتوں کی مدد سے ممکن ہے۔ دانتوں کی حرکت سے آواز میں رکاوٹ وغیرہ پیدا ہوتی ہے۔ جس سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ا کثر آوازیں جو دانتوں سے متصل ہیں وہ نچلے ہونٹ اوراوپری دانتوں کی مدد سے نکالی جاتی ہیں۔
درج بالا اعضائے صوت کے علاوہ بہت سے اعضا ایسے ہیں جو آواز کے نکلنے میں مدد دیتے ہیں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...