Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > اُردو صوت شناسی > اردو مصمتوں کا تعارف

اُردو صوت شناسی |
حسنِ ادب
اُردو صوت شناسی

اردو مصمتوں کا تعارف
ARI Id

1689956854451_56117893

Access

Open/Free Access

Pages

113

حاصل تحقیق

زبان اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سب سے بڑی اور عظیم نعمت ہے۔ اس پر سنجیدگی سے غورکرنے کا سلسلہ روزِ اول سے ہی جاری ہے۔ قبل مسیح کےمفکروں اور دانش وروں نے بھی اس پر بہت غور وخوض کیا اور اس کے متعلق مختلف نظریات قائم کیے، اس سلسلے میں مختلف کتب موجود ہیں جو زبان کے متعلق قبل مسیح کے نظریات سے بھری پڑی ہیں۔

اس کے بعد آنے والے مختلف مفکرین نے اس پر تحقیقی کام جاری رکھا۔ اور زبان کے متعلق اپنے نظریات پیش کرتے رہے۔ ان نظریات سے مختلف ماہرین لسانیات نے لسانیات کےمختلف شعبے تخلیق کیے اور ہر شعبے میں خاطر خواہ کام کیا۔

انیسویں صدی میں لسانیات پر باقاعدہ تحقیقی ادارے بننے شروع ہوئے،مغرب نے اس سلسلے میں بہت کام کیا، لیکن یہ بات عیاں ہے کہ بیسویں صدی میں ادب پر جتنا کام ہوا وہ گزشتہ ایک صدی تک نہ ہو سکا، بلاشبہ اس صدی کو ادب کی صدی کہا جاتا ہے اس میں باقی شعبوں کے ساتھ ساتھ لسانیات جیسے اہم مضمون پر بھی بہت زیادہ خامہ فرسائی کی گئی۔

زبان میں لسانیات کے موضوع کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو یہ مختلف عناوین اور اس کےمسائل ومباحث کو سمیٹے ہوئےہے۔ جہاں اس کا تعلق نطق انسانی سے ہے وہاں زبان کے قواعد اور لغتیات پر بھی بحث کرتی ہے۔ اگر لسانیات کی صرف نطق انسانی کے حوالے سے بات کی جائے تو یہ بات عیاں ہے کہ لسانیات کا کسی مخصوص گروہِ انسانی سے تعلق نہیں بلکہ یہ دنیا کی تمام زبانوں کے مسائل کو زیر بحث لاتی ہے۔ مختلف ماہرین لسانیات نے اس کی تعریف مختلف حوالوں سے کی ہے۔ ان میں چند ایک درج ذیل ہیں: 

’’زبان کا سائنسی مطالعہ لسانیات کہلاتا ہے۔‘‘72؎

ایف سی پاکٹ نے لسانیات کی تعریف یوں کی ہے:

’’زبان کے بارے میں منظم علوم کو لسانیات کہا جاتا ہے۔‘‘73؎

پروفیسر صفدر علی کے بقول:

’’لسانیات سے مراد زبان کے بعض مخصوص امور کا سائنسی مطالعہ ہے۔‘‘74؎

ان تعریفوں کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتےہیں کہ لسانیات زبان کے سائنسی وساختی مطالعے کا نام ہے۔ لسانیات زبان کی بناوٹ اور خدوخال کے ساتھ ساتھ اس کے مخصوص عہد کا بھی مطالعہ کرتی ہے۔ لسانیات میں تحریری کے ساتھ ساتھ تقریری زبان پر بھی بحث کی جاتی ہے۔ دنیا کاکوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جس میں بل واسطہ یا بلا واسطہ لسانیات کا عمل دخل نہ ہو۔ کوئی ایسا علم یا علمی شعبہ نہیں جو لسانیات سے فیض یاب نہ ہوتا ہو۔ بشریات سے لے کر عمرانیات اور تاریخ سے فلسفے تک ہرموضوع لسانیات کا ہی مرہون منت ہے۔ اگر لسانیات کی شاخوں کے حوالے سے بات کی جائے تو بلاشبہ عصر حاضر میں لسانیات ایک وسیع شعبۂ علم کی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔

لسانیات میں ریاضیات کا شعبہ بھی قائم ہو چکا ہے۔ جو کہ ریاضیاتی لسانیات کہلاتا ہے۔ اس شعبے میں علم الاعداد کے حوالے سے لسانیات سے بہت مدد لی گئی ہے۔ تاریخی حوالے اور آثارِ قدیم کے حوالے سے بھی لسانیات سے کافی حد تک استفادہ کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے عتقیاتی لسانیات کی ایک شاخ معرضِ وجودمیں آ چکی ہے جو آثارِ قدیم اور لسانی مسائل کے حوالے سے تحقیقی راہیں ہموار کر سکتی ہے۔

باقی تمام لسانی شعبہ ہائے علوم کے ساتھ ساتھ عام لسانیات بھی ایک اہم شعبۂ علم ہے۔ جس میں زبان کے بنیادی نظریے، ساخت وپرداخت اصول وقواعد اور لسانی اختلافات کا بغور جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس لسانی شعبےمیں عالمی لسانی مسائل کو بھی زیر غور لایا جاتا ہے۔

تاریخی لسانیات کا شعبہ بھی اپنی جگہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اگرچہ لسانیات کسی زبان کی مکمل تاریخ تو زیر بحث نہیں لاتی، البتہ زبان کےمخصوص عہد کا مطالعہ، محاسن ومعائب اور اہم تاریخی وارتقائی تبدیلیوں  کو زیر مطالعہ لاتی ہے۔

لسانیات کے وسیع شعبہ میں اطلاقی لسانیات بھی کافی اہمیت کی حامل ہے۔ اس شاخ میں دوسری زبانوں کی جان کاری، ترجمے کے اصول وضوابط، خفیہ کوڈز کی تیاری، رسم الخط کی اصلاح جیسے امور زیر بحث لائے جاتے ہیں۔ یہ شعبہ لسانیات میں روز بروز ترقی کی منازل طے کرتےہوئے لسانیاتی اہمیت کو اجاگر کر رہاہے۔

لسانیات کی باقی شاخوں کے ساتھ ساتھ تقابلی اور نوعیاتی لسانیات کے شعبے بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ تقابلی لسانیات میں ایک خاندان کی مشترک زبانوں کا جب کہ نوعیاتی شعبے میں دو خاندانوں کی مختلف زبانوں کا تقابلی جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس تقابل کو تحقیقی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ جس سے زبان کے ارتقاء کے دور رس نتائج نکلتے ہیں۔

لسانیات کے تمام تر شعبے اپنی جگہ پر اہمیت کے حامل ہیں۔ہر شعبۂ علم ایک موضوع اور مضمون کی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ بلاشبہ مستقبل قریب میں لسانیات کی ہر شاخ ایک علیحدہ شعبہ کے طور پر پڑھائی جائے گی اور ان تمام شعبوں میں لسانیات کو ’’ماں‘‘ کی سی حیثیت ہو گی۔ ان تمام شعبہ جات میں تجزیاتی یا توضیحی لسانیات کا شعبہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ لسانیات کے تمام تر شعبوں میں اگر کسی موضوع پر صحیح کام ہوا ہے تو وہ یہ شعبہ ہے۔ اس موضوع پر بہت سے تحقیقی مقالے اور کتب شائع ہو چکی ہیں۔ لسانیات کے اس شعبے میں صوتیات، فونیمیات، مارفیمیات اور معنیات جیسے اہم موضوعات کو تحقیقی اصول کے تحت پرکھا جاتا ہے۔ توضیحی لسانیات کا ہر ذیلی شعبہ ایک مضمون کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔

الغرض لسانیات کی اہمیت کو مدِّنظر رکھتے ہوئےیہ کہا جا سکتا ہے کہ زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جو لسانیات کے بغیر مکمل ہو سکے، کیوں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ لسانیات اپنا سکہ منواتی جا رہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو سیاحت کا شعبہ ہو یا قومیاتی صنعتیں، تعلیمی ادارے ہوں یابندرگاہوں کے ذیلی ادارے، تجارت ہو یا بنک کاری نظام، درآمدی وبرآمدی صنعتوں کا شعبہ ہو یا بیمہ کمپنیاں، اخباری اشتہارات ہوں یا ذرائع مواصلات کا شعبہ ہو۔ مسلح افواج کا نظام ہو یا سائنسی شعبے، سفری ایجنسیاں ہوں یا ڈیپارٹمنٹل سٹور، زندگی کے ہر اس شعبے، جس کا کچھ نہ کچھ تعلق زبان سے ہو وہ لسانیات کامحتاج ہے۔ دورِ جدید میں زبان کی اہمیت ہر ایک پرعیاں ہے۔ جب مکمل ٹیکنالوجی زبان سےمتصل ہے۔ ہر شعبہ کمپیوٹر کے تحت کام کرنے اور اپنی ٹیکنالوجی کوکمپیوٹری لسانیات کے تحت ڈھالنے میں مصروف عمل ہے۔ دنیا جو آج گلوبل ویلج کی حیثیت اختیار کر چکی ہے اس کےلیے ایک زبان کا ہونا اور اسی زبان میں گفت گو از حد ضروری ہے اور یہ سب کچھ لسانیات سے ہی ممکن ہے۔

لسانیات کے باقی تمام ذیلی شعبوں میں صوتیات کا اپنا ایک مقام ہے۔ صوتیات زبان کی آوازوں  کے حوالے سے عمیق مطالعہ کرتی ہے۔ صوتیات کا دائرہ کار تکلمی آوازوں سے ہے۔ صوتیات آواز کے تمام تر اجزاء وعوامل سے بحث کرتی ہے۔ اُن تمام مراحل کا بغور جائزہ لیتی ہے جو زبان کی آوازوں سے جُڑے ہوتےہیں۔ صوتیات تحریر کو اظہار عطا کرتی ہے۔ اُس کےمناسب تلفظ اور ادائیگی کے مناسب اصول متعین کرتی ہے۔ ماہرینِ صوتیات نے لسانی ترسیل کے تین حصے بیان کیے ہیں:

۱۔ تلفظی صوتیات             ۲۔ سمعیاتی صوتیات            ۳۔ سمعی صوتیات

صوتیات کے ان حصوں میں بالترتیب آوازوں کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ تلفظی صوتیات میں آواز کی تخلیق اور بیان کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ عام طور پر صوتیات کہہ کر تلفظی صوتیات ہی مرادلی جاتی ہے۔ کیوں کہ باقی دو شعبے ابھی تک تحقیقی میدان سے خالی ہیں۔ سب سے زیادہ کام تلفظی صوتیات میں کیا گیا ہے۔ سمعیاتی صوتیات میں آوازوں کا طبعی مطالعہ کیاجاتا ہے۔ آواز کیسے نکلتی ہے۔ سفر کس طرح کرتی ہے اس کا تعدد (Frequency) معلوم کیا جاتا ہے۔ جب کہ سمعی صوتیات میں آوازوں کے حصوں، ذہنی پراسس کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔

الغرض اگر صوتیات کو ان تین شعبوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ لسانیات آواز کی تخلیق سے لے کر ذہنی پراسس تک کے مکمل مرحلے کو احاطۂ علم میں لاتی ہے۔

مختلف ماہرین صوتیات نے اس کی تعریف اپنے اپنے انداز میں کی ہے، جن میں چند ایک درج ذیل ہیں:

’’تمام انسانی آوازوں کی خصوصیات کا مطالعہ، صوتیات کہلاتی ہے۔‘‘75؎بقول ڈیوڈ کرسٹل:

’’صوتیات لسانیات کی وہ شاخ ہے جس میں الفاظ کی بنیادی متکلم آوازوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔‘‘76؎

سانیات کے شعبہ میں صوتیات کا موضوع ایک اہم ترین مقام کا حامل ہے۔ صوتیات کسی بھی زبان کی ادائیگی اور اس کے حُسن تلفظ سے وابستہ ہے۔ اس کے علاوہ اس میں آواز کی لہروں کا تمام تر مطالعہ اورکان کی ساخت کا موضوع بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے اس موضوع کی اہمیت اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔ تلفظی صوتیات میں سب سے پہلے اعضائے صوت کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ یعنی وہ تمام اعضائے دہن جو کسی بھی آواز کےپیدا کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ماہرین صوتیات نے ان کو مختلف انداز سے پیش کیا ہے۔ عام طورپر آواز پیدا کرنے والے اعضاء درج ذیل ہیں:

۱۔ ہونٹ (لب)               ۲۔ کوّا (لہات)                ۳۔ دانت

۴۔ حلق                       ۵۔ زبان                      ۶۔ صوتی تار

۷۔ اوپری مسوڑہ              ۸۔ حنجرہ                     ۹۔ سانس کی نالی              

۱۰۔ نرم تالو                   ۱۱۔ خلائے دہن               ۱۲۔ نوکِ زبان

۱۳۔ سخت تالو                 ۱۴۔ کنٹھ کا ڈھکنا

ڈاکٹر گیان چند نے ان تمام اعضاء کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے: 

’’۱۔ خلائے دہن       ۲۔ خلائے بینی         ۳۔ خلائے حلق        ۴۔ خلائے حنجرہ‘‘76؎

اگر آواز کے پیدا ہونے پرتدبّر کیا جائے تو بلا شبہ یہ ایک معجزاتی عمل ہے۔ اللہ نے کس طرح انسان کو کمال نطق عطا فرمایا ہے اسی لیے انسان کو حیوان ناطق کہا جاتا ہے۔ مطلب انسان کمالِ نطق کی وجہ سے بھی افضل قرار پایا ہے۔ ان اعضائے صوت سے پیدا ہونے والی آوازوں کو ماہرین صوتیات نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے:

۱۔ مصوتے  (Vowels)              ۲۔ مصمتے (Consonants)

جب آواز حلق سے بغیر کسی رکاوٹ کے باہر نکلے تو اسے مصوتے اور جب رگڑ کھا کےنکلے تو اسے مصمتے کہا جاتا ہے۔ اس کو مزید ذیلی اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ مصوتوں کی درج ذیل اقسام ہیں: 

۱۔ اردو کا پہلا مصوتہ [i]                                ۲۔  اردو کا دوسرا مصوتہ [l]

۳۔  اردو کا تیسرا مصوتہ [e]                             ۴۔  اردو کا چوتھا مصوتہ [E]

5۔ اردو کا پانچواں مصوتہ[Unsupported image type.]                          6۔اردو کا چھٹا مصوتہ [a]

7۔ اردو کا ساتواں مصوتہ [u]                           8۔ ارد و کا آٹھواں مصوتہ [U]

9۔اردو کا نواں مصوتہ [o]                             10۔ اردو کا دسواں مصوتہ[Unsupported image type.]

ان مصوتوں کے علاوہ اردو کے کچھ انفی مصوتے ہوتے ہیں جن کو ادا کرتے وقت ہوا کا ناک کے ذریعے اخراج ہوتا ہے۔ ماہرین صوتیات نے ان کی تعداد دس بیان کی ہے۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

i۔ طویل انفی مصوتے                                 ii۔ مختصر انفی مصوتے

i۔ طویل انفی مصوتے درج ذیل ہیں:

طویل انفی مصوتے

طویل انفی مصوتے            علامت                مثالیں

۱۔الف مد مغنونہ                      ٓa:           جاں۔ آں

۲۔ یائے لین مغنونہ           ٓae:                 ہیں

۳۔ یائےمعروف مغنونہ               آ             آئیں

۴۔ یائے مجہول مغنونہ         e:                     آئیں

۵۔ واؤ لین مغنونہ           c:                     لونڈی

۶۔ واؤ معروف مغنونہ              u:                     یوں

۷۔ واؤ مجہول مغنونہ         o:                     انسانوں

مختصر انفی مصوتے

۱۔ کسرہ مغنونہ                 اَ                       انچا

۲۔ فتحہ مغنونہ                  ہَ                       بھنور

۳۔ ضمہ مغنونہ                u                      کنوارا

جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ اعضائے صوت سے نکلنے والی تمام تر آوازوں کو دو بنیادی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جن میں ایک مصوتےہیں جن کا تذکرہ درج بالا کیا جا چکا ہے۔ دوسرے حصے کا نام مصمتے ہے۔ جب آواز حلق میں کسی بھی عضو سے رگڑ کھا کر نکلے تو اسے صوتیات کی زبان میں مصمتے کہا جاتا ہے۔

بنیادی طور پر مصمتوں کی پانچ اقسام ہیں:

۱۔ بندشی مصمتے                 ۲۔ تکریری مصمتے

۳۔ انفی مصمتے                  ۴۔ پہلوی مصمتے

۵۔ صفیری مصمتے

ان چار بنیادی مصمتوں کو مزید مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جن کی مختصر تفصیل ذیل ہے:

i۔ بندشی مصمتے:

ڈاکٹر محبوب عالم خان نے بندشی مصمتوں کی اکیس(۸) اقسام بتائی ہیں۔

بندشی مصمتوں کو درج ذیل حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ان حصوں کے نام درج ذیل ہیں:

۱۔ غیر مسموع دولبی بندشیہ (پ)                      ۲۔ مسموع دو لبی بندشیہ (ب)

۳۔ غیر مسموع دنتی بندشیہ (ت)                      ۴۔ مسموع دنتی بندشیہ (د)

۵۔ غیر مسموع معکوسی بندشیہ (ٹ)                   ۶۔ مسموع معکوسی بندشیہ (ڈ)

۷۔ غیر مسموع تالوی بندشیہ (چ)                     ۸۔ مسموع تالوی بندشیہ (ج)

۹۔ غیر مسموع غشائی بندشیہ (ک)                     ۱۰۔ مسموع غشائی بندشیہ (گ)

۱۱۔ غیر مسموع لہاتی بندشیہ (ق)                       ۱۲۔ غیر مسموع ہکائی دو لبی بندشیہ (پھ)

۱۳۔ مسموع ہکاری دو لبی بندشیہ (بھ)                  ۱۴۔ غیر مسموع ہکاری دنتی بندشیہ (تھ)

۱۵۔ مسموع ہکاری دنتی بندشیہ (د ھ)                  ۱۶۔ غیر مسموع ہکاری معکوسی بندشیہ (ٹھ)

۱۷۔ مسموع ہکاری معکوسی بندشیہ (ڈھ)                       ۱۸۔ غیرمسموع ہکاری تالوی بندشیہ (چھ)

۱۹۔ مسموع ہکاری تالوی بندشیہ (جھ)                  ۲۰۔ غیرمسموع ہکاری غشائی بندشیہ (کھ)

۲۱۔ مسموع ہکاری غشائی بندشیہ (گھ)

بندشی مصمتوں کے بعد صفیری بندشے ہیں۔ جن کی درج ذیل اقسام ہیں: 

۱۔ غیر مسموع لب دنتی صفیری (ف)                  ۲۔ غیر مسموع لثوی صفیری (س)

۳۔ مسموع لثوی صفیری (ز)                           ۴۔ غیر مسموع تالویٔ صفیری (ش)

۵۔ مسموع تالویٔ صفیری (ژ)                          ۶۔ غیر مسموع غشائی صفیری (خ)

۷۔ مسموع غشائی صفیری (غ)                         ۸۔ غیر مسموع حلقی صفیری (ہ)

اس کے بعد انفی مصمتوں کا ذکر آتا ہے۔ وہ مصمتے جو ناک کے راستے سے خارج ہوتےہیں جن کی درج ذیل اقسام ہیں:

۱۔ مسموع دو لبی انفی (م)                              ۲۔ مسموع لثوی انفی (ن)

اس کے علاوہ پہلوی مصمتے ہیں جو زبان کی نوک اور اوپر مسوڑھوں کی مدد سے ادا ہوتے ہیں۔ اردو میں صرف ایک ہی پہلوی مصمتہ ہے: 

مسموع لثوی پہلویٔ (ل)

اردو میں کچھ ارتعاشی مصمتے بھی استعمال ہوتےہیں، یہ صر ف ایک مصمتہ ہے۔

مسموع لثوی ارتعاشی (ر)

اس کے علاوہ دو تھپک دار مصمتے استعمال ہوتےہیں جن کے نام درج ذیل ہیں:

۱۔ مسموع معکوسی تھپک دار (ڑ)

۲۔ مسموع ہکاری معکوشی تھپک دار (ڑھ)

ان مصمتوں کے علاوہ اردو زبان میں دو نیم مصمتے بھی ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے: 

۱۔ مسموع لب دنتی نیم مصمتہ (و)

۲۔ مسموع تالویٔ نیم مصمتہ (ی)

الغرض یہ مصوتے اور مصمتے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ آوازوں کی تمام تر شناخت انہی سے ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...