Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وَرَفَعْنَا کی صدا > ورفعنا لک ذکرک

وَرَفَعْنَا کی صدا |
حسنِ ادب
وَرَفَعْنَا کی صدا

ورفعنا لک ذکرک
Authors

ARI Id

1689956879011_56117896

Access

Not Available Free

ورفعنا لک ذکرک
نصیر احمد اخترؔ
نعت وہ لفظ ہے جو اردو ادب میںمحبوبِؐ خدا کی توصیف و ثنا کے لیے مختص ہے۔
نعت کے سلسلے میں پروفیسر ریاض احمد قادر ی کے خوب صورت الفاظ ہیں :
’’نعتِ رسولِؐ مقبول درود شریف کی شعری صورت ہے۔‘‘
نعت کے بارے میں ممتاز حسین کی رائے یوں ہے:
’’ہر وہ شے نعت ہے جس کا تاثر ہمیں حضورِ ؐرحمۃ للعالمیں کی ذات گرامی سے قریب لائے‘‘
’’ورفعناکی صدا ‘‘ میں اس عظیم ہستی کے اوصافِ حمیدہ بیان کیے گئے ہیں جن کی توصیف میںخود ربِ کائنات نے فرمایا’’ورفعنا لک ذکرک‘‘۔محبوبؐ خدا کا ذکر،چاہے درود کی صورت میں ہو یا نعت کی ،دراصل ورفعنالک ذکرک کی تفصیل ہے ۔
نعت کسبی نہیں وہبی ہے۔نعت کا شعر اس وقت ہی زبان کو معطر کرتا ہے جب دل حبِ مصطفیؐ سے لبریز ہو۔محمد عرفان علی خوش نصیب ہیں کہ ان کا نام بھی مقصودِ کائنات کے ثناخواں اور ثنا گو کی فہرست میں شامل ہے۔ خوب صورت شخصیت کے مالک ،عشقِ مصطفیؐ سے مالا مال ہیں۔نعت کی سعادت خدا کی خاص عطا ہے۔ اس لطف و کرم کے بارے میں محترم طالب حسین کوثری نے کہا ہے۔
ہر سخنور کو کہاں ہوتی ہے توفیقِ ثنا
ہاں مگر جس پر خصوصی ہو نِگاہِ مصطفیؐ
نعت کے لوازمات میں سے محبوبِؐ خدا سے والہانہ محبت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔جو شاعر جتنارسول ؐ خدا کی محبت سے سرشار ہو گا۔اس کے کلام میں اتنا ہی سرور و کیف زیادہ ہو گا۔جناب محمدعرفانؔ علی کی نعتوں میں جو کیف و سرور نظر آرہا ہے وہ محبت ِمصطفیؐ کا ہی ثمرہے۔ان کے دل میں آپؐ سے والہانہ محبت کا جذبہ پوری آب و تاب سے کار فرما ہے ۔یہ خاص نعمت ایک تو خدا کی دین ہے دوسرا ان کے والدِ محترم محمد حسین صاحب بھی ثنا گو اور نعت خواں ہیں۔ یہی خدا کی عنایات ہیں جن سے موصوف کا قلم محوِ ثنا ہے۔رسولِؐ خدا سے محبت کی جلوہ گری ان کے کلام میںجا بجا نظر آرہی ہے۔نعت کے سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ نعت کے ادب و احترام کو ملحوظِ خاطررکھا جائے۔ شریعت کی پاس داری کرتے ہوئے آپؐ کی توصیف کے لیے قلم اُٹھایا جائے۔طرزِ اظہار میں شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہ جانے پائے۔ جن موضوعات کو قلم بند کیا جائے ان کے لیے آپؐ کی شان کے شایان الفاظ کا استعمال ہو۔موضو ع کے مطابق الفاظ کا چناؤ کیا جائے۔
ایک ادبی نشست میں صدارتی ایوارڈ یافتہ نعت گو جناب طاہر صدیقی نے ڈاکٹر ریاض مجید کے استفسار پر فرمایا کہ:۔
’’نعت گوئی کے افق پر چمکنے والے نئے شعراء میں محمداویس ازہر ، محمد عرفانؔ علی اورنصیر احمد اخترؔ کا مستقبل تابناک ہے
اس دیوانِ نعت میں شاعر نے زیادہ تر نعتیں غزل کی ہیئت میں لکھی ہیں۔اور کمال کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود نعت کو نعت ہی رہنے دیا ہے۔نعت کا معیار نہیں گرنے دیا ۔موصوف نے الفاظ کے انتخاب میں پاکیزگی کا احساس کارفرما رکھا۔ ایک مشاعرے میں موصوف نے جب یہ نعت پڑھی جس کا مطلع یوں ہے۔
قربان زمانہ ہے تو دارین تصدُّق
اُس رحمتِ کونینؐ پہ کونین تصدُّق
تو پروفیسر ریاض احمد قادری نے جو الفاظ کہے سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں :۔
’’محمد عرفان علی نے جو نعت پڑھی اہل دل کے دل میں اترتی گئی اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نعت میں جو قوافی استعمال ہوئے ہیں سب کے سب نعت کے مخصوص قوافی ہیں۔اسی طرح نعت میں جو تشبیہات و استعارات کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس میں بھی نعت کی جھلک نظر آرہی ہے‘‘
پروفیسر ریاض احمد قاد ری کی بات برحق ہے۔نعت کے باقی قوافی بھی اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں۔الفاظ کا بہترین چناؤ،موضوع کے مطابق الفا ظ کا استعمال عرفان صاحب کاخاصہ ہے۔نعت کے موضوعات کو قلم بند کرنا نہایت نازک کام ہے۔موصوف نے بھی ہر موضوع پر تحقیق کے بعد نعت کے لیے قلم اٹھایا۔نعت کے معیار کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ محض قافیہ بندی سے لوگوں کا قافیہ تنگ نہیں کیا۔قافیوں میں الجھنے کی بجائے کریم آقاؐ کی چشم عنایت کے منتظر رہے۔عطائے خاص کے بعد ہی نعت کو زینتِ قرطاس بنایا۔
’’ورفعناکی صدا ‘‘فکر و فن کے لحاظ سے قابلِ تحسین ہے۔شروع سے آخر تک کہیں کوئی جھول نظر نہیں آرہا۔محمد عرفانؔ علی نے سیدھے سادے الفاظ میں اپنا مدعا اور مقصد بیان کرنے میںقادرالکلامی کا ثبوت پیش کیا ہے ۔بلند خیالی،نکتہ آفرینی ،منظر نگاری کا عکس جا بجا نظر آرہا ہے۔
موصوف کے وسیع المطالعہ نے جو چار چاند لگا ئے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ مختلف ہیئتوں اور صنعتوں کے استعمال سے کلام دو چند ہو گیا ہے۔آرائش سخن میں صنائع کی اہمیت مسلم ہے۔صنائع کے استعمال سے کلام میں معنی خیزی اور لطافت پیدا ہو جاتی ہے۔اس سے شعر و نثر کا حسن دو چند ہو جاتا ہے۔ بلاغت سے کلام میں جو حسن پیدا ہوتا ہے اس سے انکار ممکن نہیں۔خوش گفتاری،شیریں کلامی،خوش بیانی، کلام کا اچھا ہونا ۔پورا ہونا ۔فصیح ہونا بلاغت ہے۔ علم بدیع سے کلام میں خوش گوار تاثر پیدا ہوتا ہے۔ اس سے کلام مزید نکھر کر سامنے آتا ہے۔ صنعت گری کی جو جلوہ گری اس دیوان میں نمایاں ہے اس کا بیان کچھ اس طرح ہے۔
صنعتِ تضاد:
اصطلاح کے مطا بق کلام میںدو ایسے الفاظ استعمال کرنا جو ایک دوسرے کی ضد ہوں ’’صنعتِ تضاد ‘‘کہلاتی ہے۔موصوف نے صنعتِ تضاد میںبہت سے اشعار کَہہ کر اپنے مخفی جوہر ظاہر کیے ہیں اور اپنی خداداد صلاحیتوںکا لوہا منوایا ہے،اس کی مثال ملاحظہ کریں۔
عرش پر بھی بہرِ اُمّت در گزر کی اِلتجا
فرش پر بھی ’’ربِّ ہبلی‘‘ کی دُعائیں ہو گئیں
صنعتِ تجنیس:
علم بدیع کی اصطلاح میں یہ وہ صنعت ہے جو الفاظ کو مختلف پیرائے،محل وقوع اور ترتیب میں استعمال کرے یعنی لفظوں کا بظاہر مشابہ ہونا مگر معنیٰ میں مختلف ہونا۔اگر دو لفظوں میں معنیٰ کے علاوہ یکسانیت پائی جائے اس کو تجنیس تام کہا جائے گا ۔اس کی مثال ملاحظ کریں۔
قُربِ لمسِ نقشِ پا ؛ پا کر بڑھا تیرا وقار
تیری گردِ راہ ‘ ذرّوں ‘ ریگزاروں کو سلام
اس شعر میں ’’پا‘‘ دو مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
تجنیس خطی:
شعر میں دو الفاظ ایسے لانا جو حروف کی ترتیب،اور ماہیت کے حوالے سے ایک سے ہوں مگر نقطوں کے لحاظ سے مختلف ہوں ۔زحمت اور رحمت تجنیس خطی کی مثال کا نمونہ ہے ۔
سیاہ رات کی زحمت تھی چار ُسو چھائی
حضورؐ آئے ؛ ہوئی صبحِ نور کی رحمت
تجنیس محرف:
اگر تجنیس میں متجانس الفاظ حروف کی تعداد ،ترتیب اور شکل کے اعتبار سے یکساں ہوں لیکن اعراب کے حوالے سے مختلف ہوں ۔مثال ملاحظہ کریں۔
اِدھر کر لوں زبانِ اشک سے ، عرضِ تمنا بھی
اُدھر چشمِ تصور میں سنہری جالیاں کر لوں
کہاں دُوسرا سرورِؐ دوسَرَا سا
کہاں دُوسرا کوئی لائے محمدﷺ
صنعت غیر منقوط:
اس صنعت کے مطابق ایسے حروف لائے جائیں جو بغیر نقاط کے ہوں۔ شاعرنے اس صنعت میں خوب طبع آزمائی کی ہے ۔بلکہ ایک پوری نعت اس صنعت میں لکھ کر اپناجوہر دکھایا ہے
سرِ سرحدِ لامکاں کی رسائی
ہوئی کس کو حاصل سوائے محمدﷺ
وہ سدرہ سے آگے کی راہوں کے سائر
کہاں سے کہاں ہو کے آئے محمدﷺ
صنعتِ ترصیع:
اصطلاح میں دوسرے مصرعے میں پہلے مصرے کے الفاظ کے ہم وزن،ہم آہنگ،ہم صوت اور ہم قافیہ الفاظ با لترتیب آئیں تو کلام میں صنعتِ ترصیع کی صورت ہو گی۔
صدائے صمد ہے صدائے محمدﷺ
ادائے احد ہے ادائے محمدﷺ
صنعت تکرار:
تکرار کے لفظی معنی دہرانا یا بار بار کرنا۔درج ذیل اشعارمیںذرے ذرے اور قطرہ قطرہ اور راہ کی تکرار کو نہایت خوبصورتی اور سلیقہ مندی سے استعمال کیا ہے ۔
ذرّے ذرّے میں وہاں طور نظر آتا ہے
قطرہ قطرہ ہے گُہر شہرِ مدینہ کی طرف
راہبر راہ میں رہ جائیں گے ہر راہی کے
راہ جب آپؐ کی راہوں سے جدا ڈھونڈیں گے
صنعتِ ردالعجزعلی الصدر:
شعر کے پہلے مصرع کے شروع (صدر) میںآنے والا لفظ اگر مصرع ثانی کے جزو آخر (عجز) میں آئے تو صنعتِ ردالعجزعلی الصدر ہو گی۔،’’ورفعنا کی صدا‘‘ میں اس صنعت کی چیدہ چیدہ مثالیں نظر آتی ہیں۔ذیل کے اشعار میں لفظ’’رونق‘‘شعر کے صدر اور عجز میں بالترتیب آیا ہے۔
رونقِ چہرئہ امت ہے شفاعت کے سبب
ہے ندامت سے بھری دیدئہ تر کی رونق
صنعتِ تلمیح:
تلمیح عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی اشارہ کرنا ۔اصطلاح میں شاعر کا اپنے کلام میں کسی مشہور واقعے ،روایت ،قصے ،حدیث یا قرآنی آیت کی طرف اشارہ کرنا ’’صنعتِ تلمیح ‘‘کہلاتی ہے۔اس دیوان مین بہت سے اشعار ایسے ہین جن کا مواد براہ راست حدیث شریف اور قرآن پاک سے لیا گیا ہے۔یعنی نعت کے سلسلہ میں قرآن وحدیث سے استفادہ کیا ہے۔تعمیرِ کعبہ کے وقت حجرِ اسود کی تنصیب کے واقعہ کو کس خوب صورتی سے نعت کا حصہ بنایا ہے۔
جب وقتِ سحر صحنِ حرم میں ہوئی آمد
تھے منصفِؐ اسود پہ فریقین تصدّق
صنعتِ تذبیح:
اصطلاح میں کلام میں رنگوں کا ذکر کرنا ’’صنعتِ تذبیح‘‘ کہلاتا ہے۔صنعتِ تذبیح میں موصوف نے جو کمال دکھایا ہے وہ اس نعت میں نظر آرہا ہے جس کی ردیف ’’رنگ‘‘ ہے مختلف رنگوں کو خوب صورتی نعت کا حصہ بنایا ہے۔اس میں ان کا اپنا اندازِ اظہار اور منفرد رنگ نمایاں ہے۔ یہ پوری نعت قوسِ قزاح کے تمام رنگوں سے مزین ہے۔
دیکھو ذرا دھنک کے سبھی رنگ غور سے
کرتے ہیں سبز رنگ کا بھی احترام رنگ
صنعتِ حسنِ تعلیل:
اصطلاح میں کسی بات کا ایسا سبب بیان کرنا ہے جو اس کی اصل وجہ یا سبب تو نہ ہو لیکن اس طرح آئے کہ اس میںشاعرانہ خوبی پیدا ہو جائے موصوف کے ہاں بھی یہ وصف نمایاِںہے۔اس میں شاعر کے تخیل کی رفعت اور خیال کی ندرت بھی جلوہ گر ہے۔
مری راہوں میں قدسی پَر بچھائیں
مری منزل بنے ، مکّہ ، مدینہ
صنعتِ سوال و جواب:
اصطلاح کے مطابق دو اشخاص یا دو چیزوں کی گفتگوسوال و جواب کے انداز میںبیان کرناصنعتِ ’’سوال و جواب‘‘ ہے ۔اس صنعت کی مثال دیکھیے:
پوچھا کہ کس نے رنگِ بہاراں عطا کیا
بولی صبا کہ آپؐ کی زلفِ دوتا سے ہے
کوئی جو پوچھے گا کیا زندگی میں کرتے رہے
کہوں گا نعت کہی ہے یہی کمال کیا
صنعتِ سہل ممتنع:
سہل کے معنی آسان کے ہیں۔ ممتنع کا مطلب مشکل کے ہیں۔اصطلاح میں ایسا شعر جو بظاہر آسان معلوم ہو مگر درحقیقت ایسا کام کرنا دشوار ہو’’صنعتِ سہل ممتنع‘‘ کی مثال ہو گی۔
یہ مرا منہ بہت ہی چھوٹا ہے
ہے بڑی بات ، کیا مری اوقات

صنعت اشتقاق:
کلام میں ایسے الفاظ لانا جن کا تعلق ایک ہی مادہ سے ہو۔
حامدؐ بھی وہ احمدؐ بھی ‘ محمود و محمد ﷺ بھی
’’جو ربِ دو عالم کا محبوب یگانہ ہے‘‘
صنعتِ ذوقافتین:
کلام میں ایک سے زیادہ قافیوں کا لاناصنعتِ ذوقافتین‘‘ ہے۔
نورِ اسلام کی کرنوں کی ضیا پائوں گا
بن کے پروانہ سوئے شمعِ ہدیٰ جائوں گا
صنعت ترجمۃ اللفظ:
اس صنعت میں کلام میں موجود الفاظ کے بعد الفاظ کا ترجمہ بھی موجود ہوتا ہے۔
منشائے خدا روزِ ازل سے یہی ٹھہرا
اللہ کی چاہت ’’وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک‘‘
موصوف نے اساتذ کرام کے کلام کی تضمین کے لیے جو قلم اٹھایا ہے خوب نبھایا ہے۔پیر و مرشد سیدنصیر الدین نصیر اور حفیظ تائب اور نصیر احمد اخترؔکے کلام پر تضمین لکھ کر قادر الکلامی کا ثبوت پیش کیا ہے۔ دعا گو ہوں اللہ تعالیٰ اپنے محبوب حضرت محمد ﷺ کی ثنا گوئی کے صدقے موصوف کو صحت و سلامتی کے ساتھ شاد و آباد رکھے ،آمین۔
٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...