Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وَرَفَعْنَا کی صدا > تعارف و اظہار تشکر

وَرَفَعْنَا کی صدا |
حسنِ ادب
وَرَفَعْنَا کی صدا

تعارف و اظہار تشکر
Authors

ARI Id

1689956879011_56117899

Access

Not Available Free

Pages

27

تعارف واظہارِ تشکر
عرفان علی عرفانؔ
نام محمد عرفان علی اور تخلص عرفان ؔ ہے۔۲۰مئی ۱۹۸۶ ء کو تحصیل جڑانوالہ ضلع فیصل آباد کے گاؤں ۶۷گ ب دھاری وال میں پیدا ہوا۔گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول اواگت سے میٹرک اور ایف۔ایس۔سی(پری میڈیکل) تک تعلیم حاصل کی۔جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے بی۔ایس۔سی اور ایگریکلچریونیورسٹی فیصل آباد سے کیمسٹری میںماسٹر کیا ہے ۔۲۰۰۹ ء سے گورنمنٹ ہائی سکول۱۰۵ گ ب میں سائنس ٹیچر کے فرائض سرانجام دے رہا ہوں ۔روحانی نسبت درگاہِ عالیہ گولڑہ شریف سے ہے ۔حضور قبلۂ عالم پیر سید مہر علی شاہ ؒسے عقیدت اور سیدی و مرشدی حضرت پیر سیدنصیر الدین نصیر گیلانیؒ کا فیضانِ نظر ہی نعت گوئی کے لئے کافی ہے۔نصیر احمد اختر صاحب اکثر کہتے ہیں کہ میرے کلام میں اُن کا فیضِ عقیدت جھلکتاہے۔
والدہ ماجدہ ایک وفاشعار،انتہائی محنتی اور دیانت دارخاتون تھیں۔ اُن کی جہدِ مسلسل اور تربیت نے آج مجھے اس مقام تک پہنچایا ہے کہ اپنا تعارف لکھ رہا ہوں ۔اہلِ بیت ، پنجتن پاکؓ اور آلِ نبیؐ سے بے پناہ عقیدت آپ کی شخصیت کا اہم خاصہ تھا۔۲۸ مارچ ۲۰۱۹ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ اللہ پاک اُنہیں خلدِ بریں میں خاتونِ جنّتؓ کی کنیزوں کے قدموںمیں مسکن عطا فرمائے ۔آمین
وا لدِ محترم کا اسمِ گرامی محمدحسین ہے۔ شعبۂ تدریس سے وابستہ رہے اور انچارج سینیئر ہیڈ ماسٹر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ۔آپ کی طبیعت جلال و جمال کا حسین امتزاج ہے۔ آپ کا شمار انتہائی قابل اور اہلِ علم شخصیات میں ہوتاہے ۔ آپ ایک اچھے نعت خواں ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ شاعرانہ ذوق بھی رکھتے ہیں۔نعتیہ کلام کوقران و حدیث کی کسوٹی پر پرکھنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجودہے۔ لاتعداد محافلِ نعت والد صاحب کی گود میں بیٹھ کر سنیں جودل میں نعت سے محبت کا جذبہ پیدا کرتی رہیں۔بچپن سے ہی گھر میں سیدی و مرشدی حضرت پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانیؒ،جنابِ حفیظ تائبؒ،محترم احمد ندیم قاسمیؒ اور بے شمار شعراء کی نعتیہ کتب پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہی وہ ماحول تھا جس نے مجھے نعت خوانی کی طرف مائل کیا۔زمانۂ طالب علمی میں یہ شوق مزید نکھر کر سامنے آیا ۔ ادبی نوعیت کے مختلف مقابلہ جات بالخصوص نعتیہ مقابلہ جات میںشرکت معمول تھا۔ والدصاحب خود تقاریر لکھ کر دیتے، نعتیہ کلام کے چناؤ اورتیاری میں بھر پور معاونت فرماتے۔ اللہ اُن کی عمردراز کرے۔
انسان اپنی ابتدائی تعلیم و تربیت کے دوران میسر آنے والے ماحول ، اداروں ، اساتذہ کرام اور اُن کے شفقت آمیز احسانات کو زندگی بھر فراموش نہیں کر سکتا۔ والدین ،جملہ اساتذہ کرام اور بڑے بہن بھائیوں کے علاوہ میری ابتدائی تعلیم و تربیت میں انجمنِ رضائے مصطفی کا بہت اہم کردار ہے۔یہ مولانا حنیف قادری ؒکی قیادت میں چند نوجوانوں کی ایک جماعت تھی جنہوں نے غمِ جاناں سے بے نیاز ہو کردینِ اسلام اور عشقِ مصطفی کے فروغ کے لئے اپنی جوانیاں وقف کر رکھی تھیں۔فجر کے بعدقرآن مجید کی ناظرہ تعلیم ، اور مغرب کے بعد کلمۂ طیّب سے لے کر درودِ تاج تک تعلیم دی جاتی تھی۔ان کا ہر عمل اخلاص اور ہر بات عشقِ مصطفی ؐسے لبریز تھی۔ مجھے آج بھی بھائی محمد سلطان ، بھائی محمد منظور ، بھائی رانا محمد سلطان کی عقیدت و محبت سے سرشار گفتگو یاد ہے جو اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی دل میں ایمان کے جذبے کو تقویت دیتی ہے۔اللہ پاک ان سب کو عافیت والی لمبی زندگی عطا فرمائے۔
شاعری کی ابتدا کب ہوئی ،کچھ علم نہیں لیکن میرا وجدان کہتا ہے کہ میں جتنا اس سے خار کھاتا رہا یہ اتنا ہی وادیٔ قلب و جان میں گل فشانی کرتی گئی ۔محبوبِ مجازی کے لب و رخسار اور زلفِ دراز کا بیان کرنا اور پڑھنا اچھا لگتا تھا مگر یہ ادراک بھی غالب تھا کہ اس بے سود کام کا اجر کتابوں اور حلقۂ اربابِ ذوق کی حدوں سے آگے نہیں جاتااور اس دوران تخلیق کار ہمہ وقت جس سوز کو محسوس کرتا ہے وہ بہت اندو ناک اور دل گرفتہ ہے۔ اسی شش و پنج کے دور کی غزلیات پر عہدِ شباب کی ڈائریاں شاہد ہیں۔
شاعری میرے لئے سرا سر ایک غیر ارادی فعل تھا۔جب ارادہ بنی تو نعت بن گئی۔اور اس کا مکمل کریڈٹ انجمنِ فقیرانِ مصطفیؐ کے نعت محل میں ہاتھ پکڑ کرلے جانے والی شخصیت جناب نصیر احمد اختر کو جاتا ہے۔جہاںمحترم اللہ نواز منصور نے گرم جوشی سے استقبال کیا۔میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ اس نعت محل میںآنے جانے کی سعادت ہی شاعر کو نعت گو بنانے کے لئے کافی ہے۔جناب فقیرِ مصطفی امیر نواز ؒکی موجودگی میں بھی ایک مشاعرہ پڑھنے کا اعزاز حاصل ہے۔زندگی کی گو نہ گوں مصروفیات کے باوجودماہانہ نعتیہ مشاعروں میںشرکت کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں۔ انجمن کا ہر فرد میرے لئے استاد کا درجہ رکھتا ہے ۔ اور ان کی رہنمائی میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔یہ وہ خوش قسمت لوگ ہیں جن کا تعلق قبیلۂ حسانؓ سے ہے اور اردو ادب میں نعت کے حوالے سے ان کی خدمات مدتوں یاد رکھی جائیں گی۔
نعت کہنا انتہائی محتاط کام ہے۔جب عقیدت ، احترام اور وارفتگی کی کیفیات بیک وقت غالب آتی ہیں تو بے ساختہ تخیل پرالفاظ کی بارش ہوتی ہے۔جو جل تھل کر دیتی ہے۔ اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ الفاظ بظاہرشریعت کی حدود و قیود سے باہر جھانکتے ہوئے محسوس ہوتے ہیںیا پھر برجستہ گوئی کے باعث وہ شایانِ شان نہیں رہتے۔اس نازک اور کٹھن مقام پر صرف قرآن و سنّت کا علم کام آتا ہے۔ جن کے پاس یہ زادِ راہ موجود ہے وہ اس مقام سے سرخرو ہو کر گزر جاتے ہیں۔سیدی و مرشدی حضرت پیر سیدنصیر الدین نصیر گیلانیؒ کا کلام اس کی واضح مثال ہے۔لہذا نعت کہنے کے لئے شاعرانہ فطرت کے ساتھ ساتھ قرآن و حدیث اور سیرت کا مطالعہ ناگزیر ہے۔
مدحتِ خیر الانامؐ بلاشبہ ایک مسلمان کوعام مسلمانوں سے ممتاز کرتی ہے اور عزت و تکریم سے نوازتی ہے۔ا للہ کے محبوبؐ سے محبت کا تقاضا ہے کہ گفتار اور کردار میں اس کی جھلک نظر آئے۔اہلِ نسبت ومحبت اپنی قابلیت کے مطابق بارگاہِ ممدوحِ کبریاؐ میں اپنی عقیدتوں کا اظہار کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے۔میں نے بھی اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے محبوبِؐ کردگارکے حضور ’’ورفعنا کی صدا‘‘ کی صورت میں ہدیۂ عقیدت پیش کیا ہے۔ قرآن کریم شاہد ہے کہ خدائے لم یزل نے خود ورفعناکی صدا بلند کی ہے۔یہ صدا اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اطاعتِ رسولؐاگر حکم خدا ہے تو رفعتِ ذکرِ رسولؐ منشائے خدا ہے۔ یہ صدا ازل سے لے کر ابد تک محیط ہے۔صدائے کن فیکون کی بنیادیہی صدا ہے ۔ قیامت کے روز بہ بانگِ دہل یہ صدا گونجے گی اور حبیبِ کبریاؐ کی شانِ محبوبی دکھائی جائے گی۔ورفعنا کی صدا کو شورشِ باطل نہ دبا سکا ہے نہ دبا سکے گا۔قرآن اور اہلِ قرآن کا کائنات کی تمام طاغوتی طاقتوں کو واضح پیغام ہے کہ ورفعناکی صدا اپنی جملہ لسانی اور صوتی رعنائیوں کے ساتھ فضائے کون و مکاں میں سدا گونجتی رہے گی۔
نعت کے موضوعات لامتناہی ہیں۔اور ہر موضوع کی وسعت کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔میں نے کوشش کی ہے کہ بارگاہِ رسالت مآبؐ میں نذرانۂ عقیدت پیش کرتے ہوئے الفاظ کو شایانِ شان رکھا جائے۔میری نعت گوئی کا بنیادی موضوع مقامِ کبریائی اور شانِ محبوبِ کبریا کا وہ نقطۂ اتصال ہے جہاں یہ دونوں لازم و ملزوم ہو جاتے ہیں۔عقائد اور تصوّف کی دنیا میں یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے۔
یہی پُر نور منظر مظہرِ حسنِ حقیقت ہے
رُخِ آقاؐ کی رعنائی سے حق کی رونمائی ہو

کمالِ انعطافِ نورِ صبحِ کُن فکاںؐ دیکھو
عیاں دیدۂ دیدہ ور پہ نورِ کبریائی ہو

درِ حبیبؐ کی عرفانؔ! مل گئی چوکھٹ
رسائی ہو سرِ عرشِ عُلی ، ضروری نہیں

ہر صحابیؓ کا یہ مسلک ہے کہ رودادِ الم
جنؐ کی سُنتا ہے خدا اُنؐ کو سُنا لیتے ہیں

چل پڑے حجّاج کیونکر صحنِ کعبہ چھوڑ کر
منزلِ حق مل نہ پائی راہِ طیبہ چھوڑ کر

لازم و ملزوم ہیں عرفانؔ! دونوں مرتبے
جب گدا اُن کا بنا ، عبدِ خدا ہو جائوں گا
میں تہہِ دل سے اُن سب احباب کا شکر گزارہوںجنہوں نے کسی بھی طرح اس ہدیۂ عقیدت کو منظرِ شہود پر لانے میں اپنا تعاون پیش کیا۔علامہ طالب حسین کوثری ،ڈاکٹر عارف حسین عارفؔ،پروفیسر طاہر صدیقی ،سید شاہد حسین شاہد،اورجناب اویس ازہر مدنی کی خدمات ہمیشہ یاد رہیں گی۔دعا ہے کہ اللہ سب کو اُن کی پُر خلوص معاونت پر اجرِ عظیم عطا فرمائے اور اِن کے فروغِ نعت کے جذبے کو مزیدپروان چڑھائے۔جناب نصیر احمد اختر کا میں عمر بھر احسان مند رہوں گا۔ ان سے دوستی کیا ہوئی نعت سے رفاقت ہو گئی۔ جناب بھائی زاہد عزیز،بھائی ماجد امین ، قاری محمد اقبال رضوی ، جناب حفیظ اللہ حفیظ ،بھائی محمد اسلم، محمد احسان علی، محمد عباس، ماجد علی،عابد علی،محمد طاہر جاوید،محمد امین بوٹا، محمدکامران حسین،عمران سرور،عثمان سرور،رضوان سرور،محمدارسلان حسین ، قاری محمد نواز بزمی،اویس گولڑوی،محمد رمضان قادری ، محمد اشرف نقشبندی ،عباس حیدر،عبدالطیف ،آصف جاوید اور محمد شہبازکے ساتھ ساتھ اپنے تمام بہن بھائیوں ،شریکِ حیات اور عزیز رشتہ داروںکی پرخلوص دعاؤںاور نیک تمنّاؤں پرشکریہ ادا کرتا ہوں۔
گذشتہ نسلوں کے نام صرف انتساب ہوسکتاہے۔ آئندہ نسلوں سے امید یںہوتی ہیں کہ وہ اسلاف کے کارناموں کے تسلسل کو جاری رکھیں ۔کیونکہ انہیں دیکھ کر حسرتیں اور ارمان پھر سے خواہشات کا روپ دھار لیتی ہیں۔محمد احمد ، نور فاطمہ ، عدن فاطمہ ،عرفہ نور ، اور زینب بتول کے لئے بالخصوص اور آئندہ نسلوں کے لئے بالعموم دعاہے کہ اللہ کریم اُن کو اپنے حبیبؐ کے صدقے دین و دنیا میں حقیقی کامیابی عطا فرمائے۔
اہلِ ایمان اس لحاظ سے بھی بڑے خوش بخت ہیں کہ اللہ رب العزّت نے درود وسلام کی صورت میںاُن کوورفعناکی صدا کا حصّہ بنایا۔نعت کہنا ، پڑھنا اور سننا توفیقاتِ الٗہیہ میں سے ہیں۔ شاخ قلم پر غنچۂ حرف ِمدحت بھی اُدھر سے عطا ہوتاہے اور قرطاس پرپھیلی گل ہا ئے عقیدت کی خوشبو دادِ تحسین حاصل کرنے اُسی دربارمیں لوٹ جاتی ہے۔دعا ہے کہ یہ گلدستہ مدحت و عقیدت جب سرکارِ دو عالم ؐکی بارگاہ میں پہنچے تو قبولیت کی سند عطا ہو جائے۔اور قارئین کے دل میں بھی نعت سے محبت کا جذبہ پروان جڑھائے۔ اللہ پاک ہم سب کی بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین
٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...